- 761وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
(یو ٹیوب کے لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ)
سوال: سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کی ذات والا کو کس نے دنیا میں بحثیت ِامام مہدی بھیجا ہے ؟
امام مہدی کی آمد کے ساتھ انسانی عقل کو بھی وسعت عطا ہو رہی ہے :
اس قسم کے جو چند سوال آئے ہیں اُس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگوں کی عقل اِس جگہ جامد ہو گئی ہےکہ اگر اللہ خالق نہیں ہے تو پھرآپ یہ کیوں کہتے ہو کہ امام مہدی کو اللہ نے بھیجا ہے۔اس طرح کے سوال اس لئے ہو رہے ہیں کیونکہ اِس سے پہلے کبھی ایسی باتیں لوگوں نے سُنی نہیں تو عقل ہاتھ باندھ کے کھڑی ہو جاتی ہے کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی تو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔اب ہم اِس کے اوپر گفتگو کریں گے دو چار دفعہ لوگ یہ باتیں سُنیں گے، ہمارے جوابات سُنیں گےپھر عقل آہستہ آہستہ ان باتوں کو تسلیم کرنے لگے گی۔لیکن میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب سرکار گوہر شاہی زمین پر آ گئے ہیں اور اِس حیثیت میں جلوء گر ہوں گے کہ دنیا آپکے اصلی مقام کو جان لے، تو پھر عقل کو بھی حکم ہو گیا ہو گا کہ وہ اِن حقائق کو پہچان لے ۔اب تو وقت آگیا ہے کہ عقل بھی سر نگوں ہو جائے گی اور عقل ان باتوں کو سمجھنے لگے گی۔یہاں ایک لفظ کی آپ کو تصحیح کرنی ہو گی۔بہت سارے ا لفاظ ایسے ہوتے ہیں،جو بولے جاتے ہیں اور ان کا مطلب عمومی طور پر جو سمجھا جاتا ہے وہ لے لیا جاتا ہے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ”سرکار گوہر شاہی منجانب اللہ امام مہدی ہیں“اور پھر یہ کہیں کہ ”اللہ نے اُن کو بھیجا ہے۔“دونوں جملے ایک ہی معنوں میں سمجھے جا سکتے ہیں۔لیکن اگر آپ اس کو تکنیکی حساب سے دیکھیں تو بڑا فرق ہو جائے گا۔منجانب اللہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ کی طرف سے آئے ہیں۔منجانب اللہ سے مراد یہ ہے کہ امام مہدی کا جو مرتبہ ہے و ہ اللہ نے دیا ہےمگراللہ کی طرف سے آئے نہیں ہیں۔
مثال:
کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جیسے سام سنگ ہے غیر ملکی کمپنی ہے لیکن اگر آپ سام سنگ کی ویب سائٹ کھولیں تو وہاں پرکوئین کی ایک برٹش مہر ہو گی اُس کے اوپر لکھا ہو گا (By the appointment of the Queen Elizabeth) تو یہ وہ بزنسز پر ہوتی ہے جو یہاں پر حکومت کی ایک فرم ہے اس سے منظور شدہ ہوتے ہیں ۔اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتاکہ دنیا میں اتنی ساری صنعتی تنظیمات ہیں سونی بھی ہے،ایل جی بھی ہے ،سام سنگ بھی ہے لیکن کوئین نے ذاتی طور پر سام سنگ کو مقرر کیا ہے کہ وہ یہاں پر بزنس کرے اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے۔
امام مہدی کی شخصیت سے اللہ بھی نا آشنا تھا :
منجانب اللہ امام مہدی ہیں سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام مہدی کا منصب دورِ آخر میں کُل انسانیت کی بھلائی کے لئے، باطنی فلاح کے لئے، باطنی صحت کے لئے مشتہر کر رکھا تھا تو و ہ جو ایک عہدہ ہے دینا میں آنے کے لئے ، وہ عہدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا گوہر شاہی کو دیا ہے۔ منجانب اللہ امام مہدی ہونے میں یہ شامل نہیں ہےکہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور کس نے بھیجا ہے؟سیدنا گوہر شاہی منجانب اللہ اما م مہدی ہیں،لیکن سیدنا گوہر شاہی کو اللہ نے نہیں بھیجا۔قرآن شریف میں متعدد مواقعوں پر یہ بات آئی ہے کہ جب صاحبہ اکرام نے حضورﷺ سے دورِ آخر میں آنے والی ہستی کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ انکے حوالے سے کوئی نشانی بھیج دیں۔ یہ ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی بات ہو رہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جواب دیا کہ
فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِين
سورۃ یونس آیت نمبر 20
ترجمہ: تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔
اب جس کا انتظار اللہ تعالیٰ خود کر رہا ہے اُس کو وہ کیسے بھیجے گا ؟ سیدنا گوہر شاہی کا اس دینا میں آناایک ذاتی فعل ہے اور پھر سیدنا گوھر گوہر شاہی کا اللہ کی طرف سے جو عہدہ ہے مرتبہ مہدی کا ،مسائح کا،کالکی اوتار کا اِس کو قبول کرنا بھی آپ کا ذاتی فیصلہ ہے۔سیدنا گوھر شاہی کے اپنے معتقدین میں سے کسی سے آپ نے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کو امام مہدی کے بارے میں پتا تھا کہ وہ کہاں ہیں؟یاامام مہدی کون ہیں ؟ سیدنا گوھر شاہی نے اپنے مخصوص انداز میں تبسم فرماتے ہوئے ارشاد کیا کہ اللہ نے تو ایک مرتبہ رکھا ہے،ایک لقب ہے امام مہدی کا،اللہ کو بھی نہیں پتا تھا کہ امام مہدی کون ہیں۔سیدنا گوھر شاہی نے ا پنی زبانِ مبارک سے فرمایا۔
جیسے جب آدمی کوئی چیز بنواتا ہے تو آڈر دیتا ہے۔تو وہ صرف ایک آئیڈیا دیتا ہے۔ کراچی میں بیس پچیس سال پہلے ریڈی میٹ سوٹ کا رواج نہیں تھا۔عید ،بقرعید پر ہم درزی کے پاس جاتے تھےاور ناپ دیتے تھے۔ ہم اُس کو تصور دیتے تھے اور وہ بنا کر دیتا تھا۔کپڑا ، مٹیریل اور مہارت بھی اس کی تھی ہمارا صرف تصور تھا۔اِسی طرح یہ ضرورت بھی اللہ کی ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہو۔ اب چونکہ سارے نبی واپس چلے گئے ہیں،ولیوں میں بھی کوئی بچا نہیں۔اب اللہ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ یہ جو اتنی خلقت پھیلی ہوئی ہے اس میں اتنے ازلی مومنین روحوں کو بھی آنا ہے،اُن سب کو مجتمع کرنے کے لئے ،ایک مقام پہ لانے کے لئے،سب کو روشن ،منور کرنے کے لئے،عشقِ الہیٰ سیکھانے کے لئے کوئی ایسی پاور فُل ہستی ہو جو یہ چیز اختیار کر لے۔اللہ تعالیٰ نے شروع سے ہی یہ حساب کتاب لگا کر رکھا ہوا تھا۔یعنی جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو بھیجا تھا اُس وقت بھی اس کو پتا تھا، یہ اللہ کے ذہن میں تھا کہ اتنی روحیں دے دیں میں نے آدم صفی اللہ کو، اتنی روحیں دے دیں موسی کو،اتنی دے دیں عیسیٰ کو،اتنی روحیں دے دیں حضور پاک کو،اب جو باقی رہ گئی ہیں ان کا ہم کیا کریں گے۔ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ دس دس ،بیس بیس ، روحیں اُن نبیوں کو دے دیتا یہ بھی ہو سکتا تھا لیکن اُن کے پاس اتنی باطنی استطاعت نہیں تھی۔روحوں کا ایک جم ِ غفیر لگ گیا پہلے یہ سارے نبی وغیرہ سب حساب کتاب لگا لیا کہ اِس نبی کو اتنی روحیں دے دیں ،اُس کو اتنی دے دیں اب اِن کا کیا بنے گا۔وہاں سے اللہ تعالی نے پھر یہ تصور نکالاکہ ایک ایسی پاور فُل ہستی ہو جس کے پاس یہ سب اختیار ہو اور پھر اپنی اس گاڑی کو دھکا لگانے کے لئے اُنہوں نے متعدد مواقعوں پر عالم ِ غیب سے مدد بھی لی ہے، اللہ برادری سے بھی لوگ مدد کرنےاِس عالم میں آئے۔
عالم غیب سے اللہ برادری کے افراد کی اللہ کو مدد:
ادریس ؑ کا دور :
ادریس ؑ اللہ برادری کے فرد ہیں ، ادریس کا مطلب ہے ”پڑھانے والا استاد“جس طرح یہ کاغذ اور قلم ہے،درس وتدریس ہے یہ ادریس ؑ نے آکر دنیا کو سیکھا ئی۔ انہوں نے آکر قلم اور لکھنے کا تصور دیالیکن ادریسؑ تھوڑے بے صبرے تھے اس لئے واپس چلے گئے۔
داؤد کا دور:
داؤ د ؑ نے آکر سُر سکھائے۔لہنِ داؤدی پوری دینا میں مشہور ہے۔جب آپ اللہ تعالیٰ کی شان میں لہک لہک کر حمد وثنا ءبیان کرتے تھے تو چرند وپرند بھی جھومتے تھے ایسا زبردست سُراُن کی آواز میں تھا ۔مسلمان کہتے ہیں موسیقی حرام ہے ۔تم جو قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہو یہ بھی تو موسیقی ہے۔
الیاسؑ کا دور:
الیاسؑ نے کہا کہ میں آتو گیا ہوں پر میں اِدھر اُدھر ہی رہوں گا لوگوں میں نہیں بیٹھوں گا ،الیاسؑ ابھی تک یہاں اِس دنیا میں گھوم رہے ہیں لیکن انسانوں سے وہ بھی دور بھاگ کر سمندر کے کنارے سیاٹل میں پڑے ہوئے ہیں۔
عیسیٰ کا دور :
الیاس کے بعد عیسیٰ ؑ آگئے۔عیسیٰ ؑ بھی تنگ آ گئے اُنہوں نے دو چار بڑی بڑی باتیں کیں اور سولی پر چڑھ گئے۔ اُنہوں نے جوش وجذبات میں پتا نہیں کیا کیا کہہ دیا۔آج عیسائی جو کچھ بھی کہیں ،عیسیٰ ؑ نے جو باتیں بھی کہیں اُس وقت بڑے دھڑلے سے کہیں۔ لوگوں کو جا کر کہہ رہے ہیں کہ ابراہیم اور موسیٰ،آدم صفی اللہ اس قابل نہیں تھے کہ تمہیں کچھ سیکھاتے۔جس طرح لوگ ہم پر فتوے لگاتے ہیں کہ غیر شرعی بات کر رہے ہیں اسی طرح عیسیٰ کی بھی مخالفت ہوئی۔جب لوگ زانی عورت پر پتھراؤ کرنے لگے تو اِنہوں نے منع کر دیا کہ یہ کیا کر رہے ہو،کیا تم سب پاک ہو،کیا تم سب گناہگار نہیں ہو ،تم میں کوئی ایسا ہے جس نے زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو،اُنہوں کہا کہ ہم سب گناہگار ہیں۔تو پھر تم دوسرے گناہگار کو کیوں مار رہے ہو۔لوگوں نے کہا ہم تو موسی کی شریعت پوری کر رہے ہیں۔اُنہوں نے کہا چھوڑو کیسی شریعت،کوئی ا س عورت کو نہیں مارے گا ۔ عیسیٰ ؑنے موسوی شریعت کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا۔ابراہیم ؑ کے بارے میں کہا اُن کے پاس کیا تھا وہ تو قابل ہی نہیں تھے۔ عیسیٰ ؑ کو دنیا کا تجربہ نہیں تھا ۔عالمِ غیب سے ایسے ہی اُٹھ کے آگئے تھے۔اُن کو تجربہ ہی نہیں تھا کہ انسانوں میں بات کیسے کرتے ہیں۔کیوں کہ وہاں عالم غیب میں جھوٹ نہیں بولتے وہاں تو سچ بولتے ہیں ،سچ ہی سچ ہے۔وہاں حکمت نہیں ہے ۔حکمت کا نظام تو اللہ میاں نے متعارف کروایا ہے کہ غلط کو غلط نہ کہو حکمت سے کام لو۔اللہ میاں اس کو حکمت فرماتے ہیں اور آج کی دنیا میں اس کو ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔عیسیٰ ؑکو ڈپلومیسی نہیں آتی تھی۔اُنہوں نے جو بھی کہا ا پنے دشمن بنالئے اگر اللہ میاں ان کو نہ اُٹھاتے تو بڑی پٹائی لگتی۔ اللہ میاں بھی تپ گئے ہوں گے کہ یہ کیا ہے،ادریس ؑ بھی واپس چلے گئے۔الیاس ؑ نے کہا میں ریگستان اور جنگلوں میں رہوں گا۔ان کو بلایا تو اِنہوں نے اتنے اچھے اچھے نبیوں کا بھانڈا پھوڑ دیاتو اُن کو بھی اُٹھا لیا۔
پھر عالم غیب سے وعدہ ہو گیا کہ ٹھیک ہے کہ دورِ آخر میں مسائحی کا یہ جو تصور بنایا ہے یہ پورا ہو گا۔عالم ِ غیب سے وعدہ ہواہے کس نے کیا ہے یہ نہیں پتا۔تو اللہ تعالیٰ کو یہ کیسے پتا ہو گاکہ امام مہدی کون ہیں اُنہوں نے تو پیچھے عالم غیب سے مدد لی ہے۔
” امام مہدی کا تصور اللہ کا صرف تصور ہے۔تصورِ مسائح،تصورِ کالکی اوتار اور تصورِ مہدی اللہ کی طرف سے صرف تصّور ہی تصّور ہے ۔باقی اس میں علم اور طاقت سب گوہر شاہی کا ہے۔اللہ میاں کی طرف سے صرف تصور آیا ہے طاقت نہیں۔امام مہدی کون ہیں اللہ کوبھی نہیں پتاتھا “
اسی لئے کہافَانتَظِرُواتوپھر انتظار کرنا،میں بھی تمہارے ساتھ ہوں جو انتظار کرنے وا لے ہیں ان ہی میں مجھے ڈھونڈ لیناجو اس ذات کے انتظار میں لائن لگا کر کھڑ ے ہیں۔اگر اب ہم یہ کہہ دیں کہ منجا نب ا للہ امام مہدی تو اُس کا پتا یہ چلتا ہے کہ یہ جو تصور ہے مہدی کا دورِ آخر کے مسائح کا،یہ تصور اللہ کی ضرورت کے پیشِ نظر ہوا ہے کہ اب جو اتنی ساری ازلی روحیں باقی بچیں گی۔سارے نبی تو واپس چلے گئےہیں اب تو کوئی بھی موجود نہیں ہے تصور مہدی تو اللہ کی ضرورت ہے کہ ایسا مجھے چاہئے۔یہ تصور مہدی اللہ کا تصور ہے کہ ایسی کوئی ذات آئے۔اب اللہ تعالیٰ کے ماتھے پہ شکن آجائے گی کہ اپنی برادری سے تین افراد آگئے ہیں،اُنہوں نے کیا کر لیا۔ایک اور اگر اللہ برادری کافرد آ بھی جاتا تو بھی اللہ کا مقصد پورا نہیں ہوتااس لئے رب الارباب کو آنا پڑا ۔
اللہ کی مخلوق کی فطرت ہے کہ اللہ بھی زمین پر آ جائے تو تسلیم نہیں کرتی :
تین جو اللہ برادری سے آئے اُن میں سے کوئی بھی مدد نہیں کر پائے کیونکہ وہ گھبرا گئے کہ اللہ نے کیسی مخلوق بنائی ہےلہذا وہ چلے گئے۔اللہ نے واقعی بڑی بھونڈی مخلوق بنائی ہے۔اب اس مخلوق کے بارے میں سرکار گوہر شاہی کے تاثرات سنیں۔8نومبر 1999 کو اللہ تعالیٰ سے پینتیس منٹ تک میری جو گفتگو ہوئی اور جب میں نے فون پر سیدنا گوھر شاہی کو وہ گفتگو بتانی چاہی،توآپ نے فرمایا فون پر نہیں تم امریکہ آجاؤپھر وہاں بیٹھ کر بات کریں گےلہذا میں امریکہ چلا گیا سرکار کی بارگاہ میں عرض کیا تو جب اللہ کے یہ جملے میں نے سرکار کی بارگاہ میں عرض کئےکہ اُس نے یہ کہا ہے کہ ’’ تمہارا جو مرشد ہے وہ میرا بھی ربّ ہے ‘‘ سیدنا گوھر شاہی بڑے مزے سے لیٹ کر سن رہے تھے یہ جملہ سُن کر چھلانگ مار کے بیڈ پر بیٹھ گئے۔اور فرمایا ’’اچھا یہ کہہ دیا اُس نے‘‘یقین کریں ،سرکار گواہ ہیں میں اس بات پر حیرت زدہ تھا کہ سرکار کو حیرت ہو رہی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حیرت کا اظہار کر کے سرکار نے مجھے یقینی موت سے بچایا ۔اگر اس بات پہ حیرت نہ فرماتے، تو میں یہ سمجھ بیٹھتا کہ یہ ملی بھگت ہے کہ حیرت کا اظہار ہی نہیں کیا،لیکن جس حیرت کا اظہار فرمایا اُس پر مجھے ایک حوصلہ ملاکہ یہ تو بڑی زبردست بات ہو گئی اب تو یہ کریں گے ،وہ کریں گے۔اِس حیرت سے میں یہ پیغام لیا کہ شاید سرکار کو اس بات کا انتظار تھاکہ اللہ کی طرف سے یہ معاملہ شروع ہو جائے اور پھر یہ لگ جائے۔ہمیں اس کو کہنا بھی نہ پڑے۔دو جملے میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔
1۔سیدنا گوھر شاہی نے اس بات کی تصدیق فرمادی،فرمایا مجھے حیرت ہے اس بات پہ کہ یہ بات اُس نے تم سے کہہ دی۔پھر فرمایا اب تم یہ بات اگر ذاکرین کو بتاؤ گے عام آدمی کی بات نہیں کی،تو وہ تمہیں سنگسار کر دیں گے۔سرکار نے فرمایا کہ ہمارے جو ذاکرین ہیں جو ہم سے محبت کا دعوی کرتے ہیں،جو ”یا گوہر “کے نعرے لگاتے ہیں ”تیرا شاہی میرا شاہی،گوھر شاہی “وہ سنگسار کر دیں گے اگر تو نے اُنہیں یہ کہہ دیا۔کیونکہ یہ نعرے اُس وقت تک لگا رہے ہیں جب تک ہم اِن کو یہ کہتے ہیں حضور پاک نے یہ فرمایا ہے ، حضور پاک ایسے ہیں ،تم کوحضور تک پہنچا دیں گے،تم کو عرشِ الہیٰ تک پہنچا دیں گے،تم کو بیت ا لمعمور تک لے جائیں گے۔یہ باتیں سُن سُن کر ”یا گوہر“ کے نعرے لگاتے ہیں۔اگر یہ ساری بات ہٹا دو اور سامنے صرف گوہر شاہی کو رکھ دو کہ صرف یہ ہی حق ہے پھر یا گوہر نہیں کہیں گے پتھر ماریں گے تجھے۔ایک تو یہ فرما دیا۔
2۔دوسرا یہ فرمایا کہ یہ جو مخلوق ہے۔اس کی فطرت ایسی ہے کہ اگر اللہ خود زمین پر آجائے تو اُس سے کہیں گے بتا تیرے پاس کیا ثبوت ہے کہ تو اللہ ہے۔سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا اُس کا گریبان پکڑ کے کہیں گے بتا تیرے پاس کیا ثبوت ہے کہ تو اللہ ہے۔پھر فرمایا اُس کے گلے میں پٹہ ڈالیں گے اور کتُے کی طرح زمین پر گھسیٹیں گے اور ہنس ہنس کے کہیں گے کہ دیکھو جی یہ خود کو اللہ کہتا ہے۔
اس مخلوق سے کیا بھلائی کی امید ہو گی۔اللہ میاں عقلمندی سے کام لے رہے ہیں جو بہت دور بیٹھے ہوئے ہیں۔کیونکہ یہ مخلوق ایسی ہے کہ جو نظر نہیں آرہا صرف اُسی کو مانتے ہیں ۔ جوہمارے بڑے بڑے اداکار ہیں ان کی فلموں میں کارکردگی دیکھ کر آپ ان کے پرستار بن جاتے ہیں لیکن اگر حقیقی زندگی میں آپ کی اِن سے ملاقات ہو اور دیکھیں کہ یہ کتنے بد کردار ہیں تو آپ کا شیشہ عقل ٹوٹ جائے۔ان کو اتنی شرم وحیا نہیں ہےکہ جن کی وجہ سے تمہاری زندگی میں اتنا گلیمر آیا ہے اگر کوئی دیکھنے والا نہ ہو،تعریف کرنے والا نہ ہو تو تمہاری کیا فین شپ ہو گی تمھارا کیا فین کلب ہو گا ۔یہ گلیمر تمہاری زندگی میں دیکھنے والوں کی وجہ سے آیا ہے۔لیکن یہ سارے ہیں ہی مردود۔اِسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کی دینا میں ایک فین شپ قائم ہے، اللہ کرنے والا ہے۔ہر دوسراشخص جب دیکھتے ہیں کوئی کام نہیں ہو رہا تو کہتے ہیں اللہ خیر کرے گا۔لوگ اپنی طرف سے لگاتے رہتے ہیں کہ اللہ کر دے گاآپکو ضرورت نہیں ہے،ہے انانیت،میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا،میں کیسی کے آگے بھیک نہیں مانگوں گا جو مدد ہوتی ہے اُس کو اپنی انانیت میں بھیک کا نام دے دیتے ہیں،اللہ میرے لئے کافی ہے اور ایسے لوگ بھوکے مر جاتے ہیں۔اللہ کے جو پرستار ہیں وہ وہی ہیں جو اُس کو جانتے نہیں ہیں۔اور جس نے بھی اللہ کو جان لیا بعد میں بڑا پچھتایا کہ میں کہاں آ گیا۔مولا علی سے پوچھا آپ نے اللہ کو کیسے پہچانا۔اُنہوں نے فرمایا ’’میں نے اپنے ٹوٹتے ہوئے ارادوں کو دیکھ کے پہچانا کہ کوئی ہے اللہ۔جو میں ارادہ کرتا ہوں توڑ دیتا ہے اپنی چلاتا ہے ‘‘ ۔
کسی علاقے میں قحط پڑ گیااورلوگ بھوک سے مرنے لگے اُس علاقے میں ایک بزرگ تھا لوگ اس کے پاس چلے گئے کہنے لگے آپ دُعا کریں کہ بارش ہو جائے اُس نے کہا میر ا اور اللہ کا معاملہ عجیب وغریب ہے میں جو کچھ بھی کہتا ہوں وہ اُس کے برعکس کرتا ہے۔میں دُعا نہیں کروں گا پھر اُنہوں کیا کیا کہ اپنی دھوتی گیلی کی اور باہر لٹکا د ی اور کہا دیکھو اب یہ اس کو سوکھنے نہیں دے گا،بارش ہو گئی ،کہنے لگے دیکھا جو بھی میں کام کرتا ہوں یہ اُس کے اُلٹ کرے گا اور وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ جو بھی کرتے ہیں اللہ اُس کے برعکس کرتا ہے۔شمس تبریز نے اپنی کھال اُتار دی۔دنیا میں جنہوں نے اللہ کو جان لیا پھر وہ بچارے بڑے پریشان ہو گئے۔جب تک کوئی اللہ تعالیٰ کو جانتا نہیں ہے تو یہ ہوتا ہے کہ میں ولی بن جاؤں ،کوئی مقام ومرتبہ مل جائے ایسا فقیر بن جاؤں،یوں کہوں تو بارش ہو جائے،یوں کہوں تو یہ ہو جائے ،یوں کہوں تو وہ ہو جائے جب سب کچھ ہوجاتا ہے تو وہ سر پکڑ کے بیٹھ جاتا ہےکہ کہاں پھنس گیا ۔یہ پھنسنے والی بات ہی تو ہے کہ آپ کے ایک اشارے سے دنیا کے کام ہو جائیں،لوگوں کے من کی مراد پوری ہو جائے،لیکن آپ اپنے لئے کچھ نہیں کر سکتے اور لوگ کہیں گے اتنا بڑا ولی ہے تو اپنے لئے کچھ کیوں نہیں کرتا۔فقیری میں یہ ہی ہوتا ہےلوگ کہتے ہیں ان کابرا حال ہے یہ مجھے کیا دیں گے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ فقیر وعدوں میں بندھا ہوا ہے اور اپنی ذات کوخیر باد کہہ چکا ہے۔یہ تو لوگوں کے مسائل حل کر رہا ہے۔یہ طاقت وہ اپنے اوپر استعمال کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب طاقت دیتا ہے تو کہتا ہے یہ میری مخلوق کے لئے ہے ذرا خیال رکھنا۔بندہ جب اپنے نفس کو پاک صاف کر کے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ بڑا سنجیدہ اور حساس ہو جاتا ہے پھر وہ مرنے کو آئے تو مر جائے،لیکن اس طاقت کو اپنے لئے استعمال نہیں کرتا کہ اللہ طعنہ دے دے گا۔
سیدنا گوھر شاہی اپنی شان سے دوبارہ تشریف لائیں گے:
پہلی بات تو یہ ہوئی انبیاء اکرام سے جو کام لیا وہ ہو گیا،بات پوری نہیں ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اللہ برادری کے لوگوں کو آزمایا۔تین افراد(ادریس، الیاس ، عیسیٰ) آگئے وہ سب بھاگ گئے کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ۔کیا اللہ اب چوتھی مرتبہ پھر غلطی کرے گا کہ اللہ کی برادری سے ہی کسی کو آنا پڑے ۔وہاں سے وعدہ ہوا ہے کہ آئیں گے اور تمہارا کام ہو جائے گا۔ وہاں سے رب الاربا ب آگئے ہیں۔ آج نہیں تو کل یقین آجائے گا کہ گوہر شاہی کون ہیں۔کیونکہ سیدنا گوہر شاہی نے یہ ٹھان لی ہے کہ وہ اپنی شان دیکھا کر چھوڑیں گے۔فرمادیا ہے کہ اب دوبارہ جو آئیں گے تو اپنی شان و شوکت سے آئیں گے۔اب لینڈکروزر میں نہیں آئیں گےاب تو معاملہ ہی کچھ اور ہو گا۔پھر معلوم نہیں کہ
”سیدنا گوھر شاہی کی شان کا معیار کیا ہے۔اُن کی شان کیا ہو گی ہم کو تو اُس معیار کا پتا بھی نہیں ہے۔ہماری اپنی شان ارتقاء کے منازل سے گزرتی رہتی ہے لیکن سیدنا گوہر شاہی ریاض الجنہ سے تشریف لائے ہیں۔یہاں آنے سے پہلے بھی ریاض الجنہ میں ہیں اور جب یہاں سے جائیں گے تو بھی ریاض الجنہّ میں ہوں گے۔ تو اُن کی شان تو ارتقاء پذیر نہیں ہے “
ہمارا ذہن یہ کہہ رہا ہے کہ سیدنا گوھر شاہی نے یہاں کا جو دورہ کیا ہے اوریہاں کی مخلوق ، آب و ہوا اور یہاں آپ کو جو جسم دیا گیا ہے وہ دیکھا،اُس کو دیکھ کر تنگ آ گئے ہوں گے کہ یہ کیا ہے اب ہم اپنے کپڑے پہن کر اپنی شان سے تشریف لائیں گے۔آپ کا اپنا پروٹوکول جس میں آپ کا دل لگتا ہے۔اب جو سیدنا گوھر شاہی تشریف لا رہے ہیں وہ رب الارباب کی شان سے آئیں گے جو اُن کی شان ہے،وقت بتا دے گا۔رب الا رباب کا باب کھل گیا ہے۔ اب دنیا میں عشق متعارف کروایا جارہا ہے ۔ اب اس عشق کو عام کرنا ہے۔ ابھی سیدنا گوھر شاہی کے محاسن بیان ہو رہے ہیں جس سے آپ کے اندر جستجو بیدار ہو جائے گی ۔اب جذبات کروٹ لے رہے ہیں اور یہ جذبات جب کروٹ لے لیں گے اُن کا رخ اسی ذات کی طرف ہو گا ۔ سیدنا گوھر شاہی فضول کاموں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔یہ نماز روزہ تو چست رہنے کے لئے ہے اب ان نمازوں میں کچھ باقی نہیں رہا ، صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے نمازیں اور روزے رکھ رہے ہیں ۔ اب ان چیزوں کا وقت نہیں ہے ۔ اب اللہ جلدی میں ہے اور جس مقصد کے لئے دنیا بنائی تھی کہ میں پہچانا جاؤں وہ کام جلدی سے ہو جائے ۔