کیٹیگری: مضامین

مرشدِ کامل کی اقسام:

مرشدِ کامل کئی طرح کے ہوتے تھے۔ ایک مرشد وہ ہوتا تھا جس کا تعلق طریقت سے ہے جو کامل طریقت ہوتا تھا۔ وہ لوگوں کو ذکرفِکر کے ذریعے، لطیفوں کو روشن اور منور کرکے پھر راستے میں چلاتا تھا۔ ایک مرشد کامل حقیقت ہوتا تھا اُس کی تعلیم یہ تھی کہ وہ نظروں سے آگے پہنچاتا تھا، سارے مناظر نظروں سے طے کرادیتا تھا، نظروں سے ہی سینہ منور کردیتا تھا، نظروں سے ہی روشن ضمیری عطا ہوجاتی تھی۔
اسیں مرشد پھڑیا کامل باہو، آپے ہی لاسیں سارا ہو
یہ اُس مرشد کیلئے ہے کہ جو کامل حقیقت ہو۔ جس میں آپ نے کچھ نہیں کرنا، اُس نے نظروں سے ہی پہنچانا ہے۔ جب نظروں سے آگے جانا ہے تو آپ کو محنت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر کسی کا مرشد کامل حقیقت نہیں ہے کامل طریقت ہے اور سارے مریدوں کو اُس نے محنت میں لگایا ہوا ہےتو پھر آپ خود سمجھ جائیں کہ وہ مرشد کس درجے کا ہے۔ مرشد مرشد کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی آپ کو ذکروفکر، نمازوں میں لگائے گا اُس کا طریقہ یہ ہے۔ کوئی کامل حقیقت ہوگا جو نظروں سے ہی آگے پہنچائے گا۔ لیکن مصیبت کیا ہے کہ عام آدمی کو کامل حقیقت ملتا نہیں ہے۔ طریقت کی تعلیم پوری ہونے کے بعد پھر ملتا ہے۔ لیکن سرکار گوھر شاہی تو ایسی ہستی ہیں، سرکار گوھر شاہی تو ایسی ذات ہیں کہ اتنا بڑا سخی کوئی کائنات میں آیا نہیں۔ ہم نے بغور سرکار گوھر شاہی کی ہر ادا کو دیکھا ہے۔ سخاوت کے جو معنیٰ ہیں وہ سرکار گوھر شاہی کی سخاوت کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ بڑی سے بڑی چیز کو بڑے آرام سے کہہ دیں چلو ٹھیک ہے ہوجائے گا۔ اِس انداز سے کہتے ہیں کہ سامنے والے کو یہ لگے کہ یہ بہت چھوٹا سا کام تھا۔ یہ بڑی عجیب و غریب ادا ہے۔ اِتنے آرام سے فرمادیتے ہیں کہ سامنے والا کہتا ہے کہ اچھا یہ بس ایسے ہی ہوگا۔
اب آپ اپنے مرشدوں کو تنگ کرنا چھوڑدیں۔ سرکار گوھر شاہی کسی کے مرشد نہیں ہیں تو یہ نہ سمجھیں کہ میں اپنے مرشد کو چھوڑ کر سرکار گوھر شاہی کو مرشد کیوں بناوٴں؟ یہ نہیں سوچنا ہے کیونکہ سرکار مرشد تھوڑی ہیں جو تم اپنے مرشد کو چھوڑ کر سرکار کو مرشد بناوٴ گے۔ سرکار مرشد نہیں ہیں، سرکار گوھر شاہی امام مہدیؑ ہیں۔ کائنات کا کوئی بھی فقیر، کوئی بھی سلطان، کوئی بھی عاشق ہوتا، اگر مہدیؑ کے دور میں ہوتا تو اُس کیلئے سب سے بڑا اعجاز یہ ہوتا کہ وہ سرکار گوھر شاہی کے در کا کتا بن جائے۔

اللہ کو جاننا اور اللہ کا مزاج:

پھر معارفت کا علم، وہ تو لوگوں کو دیدار کے بعد بھی نہیں ملتا۔ معارفت کا علم اللہ کو جاننا ہے۔ دیدار میں کہاں! وہ تو صرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا پتہ اللہ کی عادات و اطوار اُس کے مزاج کا دیدار والوں کو کیا پتہ؟ یہ جو ولائت اور دوستی ہے یہ نام کی دوستی ہے۔ اُس کی آواز سُن لیتے ہیں، اُس کو دیکھ لیتے ہیں، دیدار ہوجاتا ہے، ہمکلام ہوجاتے ہیں تو دوست کہلاتے ہیں۔ دوستی تو ہے یہ کہ دوست ہے تو بات چیت کی ہوئی ہو، دیدار کیا ہو، ملاقات کی ہوئی ہو۔ یہ دوستی تو ہے لیکن ہم دوستی کو اُس کے full bloom میں بیان کررہا ہوں۔ ایسی دوستی جیسے لنگوٹیا یار ہوتا ہے، نہ میری کوئی چیز اُس سے چُھپی نہ اُس کی کوئی چیز مجھ سے چُھپی۔ اللہ کا مزاج، اللہ کی فطرت، اُس کا temparament، اللہ کا بھی تو divine temparament ہے نا۔ جب اللہ تعالیٰ کے tantrums ہیں تو temparament بھی ہوگا۔ صحیح طور آپ کسی کو اُسی وقت پہچانتے ہیں جب آپ کو اُس کی شخصیت، مزاج، خصلتیں، چال چلن سمجھ میں آجائے۔ دُور دُور سے کیا سمجھ میں آتا ہے!

یہ خاص چیز ہے جو سرکار امام مہدی گوھر شاہی لوگوں کو سکھا رہے ہیں، اللہ کا مزاج۔ اب یہ مزاج کی بات ہے کسی اور نے نہیں بتائی کہ اللہ تعالیٰ کو ساری عبادتوں میں سب سے زیادہ ذکراللہ پسند ہے۔

سب نے یہی کہا کہ ذکر افضل ہے۔ کسی نے نہیں بتایا کہ کیوں ہے! سرکار گوھر شاہی نے یہ بات بتائی کہ جب کوئی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اُس سے اللہ کے اوپر نشہ سا طاری ہوجاتا ہے اور اتنا کیف، مستی اور سرور۔ ہم تو اِس چکر میں رہتے ہیں کہ ذکر کرنے سے ہمیں کیف آئے اور ہم بڑے پھولے نہیں سماتے کہ ہمیں اتنا کیف اور سرور آیا۔ یہ تو دیکھ کہ تیرے اِس ذکر کرنے سے اُس کو کتنا کیف آرہا ہے۔ تبھی تو وہ کہتا ہے کہ جاوٴ اُس کو بھی بخش دیا، فرشتوں کی پوری بات سُنتا ہی نہیں ہے کہ ذکر کیلئے ایک آدمی اور آیا تھا تو ہاں بس ٹھیک ہے گواہ رہو ہم نے اُس کو بھی بخش دیا۔ یہ مزاج، سرکار گوھر شاہی راز کھول رہے ہیں۔ اب یہ اُس کی شخصیت کے راز ہیں جیسے سرکار نے فرمایا کہ اگر اللہ کسی کو ڈیوٹی پر بٹھا دے اور کوئی بندہ جو ہے کہے کہ نہیں میں تو اللہ سے براہِ راست مانگوں گا یا کسی اور سے جاکر لوں گا یا کسی اور ولی کے پاس جاوٴں گا، کسی اور مرشد کے پاس جاوٴں گا تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ میں نے اِس کو ڈیوٹی پر بٹھایا ہے میرے بٹھانے کے بعد یہ اِس کو نہیں مان رہا ہے۔ پھر وہ فرماتا ہے کہ اب تجھے میں اِسی کے ذریعے دوں گا بھلے تم میرے سامنے پہنچ کر کھڑا ہوکر مانگ، پھر بھی نہیں دوں گا۔ یہ اللہ پھر اُس کو اپنی ضد بنالیتا ہے۔ یہ مزاج کی بات ہے۔ پھر لاکھوں لوگ اللہ سے واصل ہوں آپ اُن کے در پر چلے جائیں لیکن وہ سب معذرت کرلیں گے۔ اللہ فرمائے گا کہ بیٹھ جاوٴ میں نے بندہ بٹھایا ہے تم retire ہوگئے ہو بیٹھ جاوٴ، جس کو میں نے بٹھایا ہے اِس کو اُس سے کیا پریشانی ہے، نہیں دوں گا بیٹھ جاوٴ۔ پھر اُس نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے فلاں کو ڈیوٹی پر بٹھایا ہے۔ اب اُس کو ماننا جو ہے وہ اُس کی عزت کا مسئلہ ہے کہ میں نے اُس کو بٹھایا اور یہ اِس کو اُس سے چِڑ ہے اور اب یہ کسی اور واسطے سے آرہا ہے تو اِس کے اندر تو میری کچی ہورہی ہے، میں اِس کو کچھ کیوں دوں گا اُدھر ہی جاوٴ۔ جیسا کہ موسٰیؑ ایک دفعہ ہمکلام ہوئے تو اللہ سے کہا کہ اے اللہ میرے پیٹ میں درد ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سونف کو اُبال کر اُس کا پانی پی لو۔ موسٰیؑ نے پی لیا صحیح ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر اُن کو یہ شکایت ہوئی پھر اُنہوں نے یہ پوچھا کہ اے اللہ پیٹ میں بڑا درد ہے تو اللہ نے فرمایا کہ حکیم لقمان کے پاس چلے جاوٴ۔ اِنہوں نے کہا کہ پچھلی دفعہ تو آپ نے خود ہی بتادیا تھا تو کہا کہ اُس وقت تک ہم نے کسی کی ڈیوٹی نہیں لگائی تھی اِسی لئے ہم نے بتادیا تھا۔ اب ہم نے ڈیوٹی لگادی ہے تو نہیں بتایا کہ حکیم لقمان کے پاس جاوٴ اور وہ گئے۔
جب اللہ تعالیٰ کسی کی ڈیوٹی لگادیتا ہے تو اُس کے بعد کسی اور سے کچھ نہیں ہوتا۔ اِس سے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی ڈیوٹی لگائی کہ جن کو میں نے ہدایت دینی ہوگی وہ تمہارے ذریعے دوں گا اور سب گئے۔ جن کو ہدایت دینی تھی وہ دی۔ پھر ولیوں کی ڈیوٹی لگائی لاکھوں ولی بھی آئے۔ جن کو ہدایت دینی تھی اُن کے ذریعے دی۔ اب دور حاضر میں ڈیوٹی پر امام مہدیؑ ہیں۔ اب آپ امام مہدی گوھر شاہی کو فراموش کردیں اور آپ اپنی نمازوں اور دُرودوں میں لگے رہیں اور اپنے آپ کو سمجھیں کہ امام مہدی کو ماننا ضروری تھوڑی ہے، پہنچ جائیں گے۔ آپ سمجھ لیجئیے کہ یہ سب شیطان کا کام ہے۔ امام مہدی کے بغیر آپ کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی کہیں بھی نہیں ہوگی۔ پھر اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جو امام مہدیؑ سے فیض یافتہ ہیں پھر بھی مہدی ماننے کو تیار نہیں۔ ہمیں مرشد کے بارے میں ذیادہ پتہ ہی نہیں چلا کہ مرشد کیا ہوتا ہے کیسا ہوتا ہے کیونکہ ہم نے تو سرکار کو پایا اور سرکار نے کبھی مرشد کی طرح معاملہ نہیں کیا۔ سرکار نے ماں کی طرح معاملہ کیا۔ بچہ چوری کرکے آیا ہے تو ڈانٹا نہیں ہے چُپ ہوجا بچہ آئندہ نہیں کرنا۔ جیسے ماں کی محبت اندھی ہوتی ہے اُس کو بچے کے عیب نظر ہی نہیں آتے۔ اِسی طرح سرکار کا بھی اِسی طرح کا مزاج ہے کہ سرکار ہمارے عیوب پر شاہد ہونے کے باوجود کبھی ہماری سرزنش نہیں فرماتے، ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے، چھوڑتے نہیں ہیں، نبھارہے ہیں۔ لیکن اب تو وقت آگیا ہے کہ ہم اِس بات کا احساس کرلیں کہ سرکار نے بہت نبھالیا، اب ہم بھی سرکار کے قلب کو کچھ سکون اور آرام پہنچائیں۔ کم سے کم اتنا ہی کرلیں کہ جو گوھر کا نہیں وہ ہمارا نہیں۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 11 ستمبر 2021 بزمِ مرشد کے موقع پر یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس