- 847وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
کِردار میں تبدیلی کِس علم سے آتی ہے؟
دو طرح کا علم ہے۔ ایک علم تو ظاہری ہوگیا جیسے قرآن، بائبل، تورات، زبور یا ہمارے ہندووٴں کی وید یا پھر گوروگرنتھ صاحب۔ آپ نے گوروگرنتھ صاحب، قرآن، بائبل، وید اور بھگوت گیتا پڑھی تو آپ کو پتہ چلا یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے۔ اب آپ نے کیا کرنا ہے کہ صحیح کرنا ہے غلط نہیں کرنا تو بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صحیح کرتے ہیں لیکن غلط کرنے کی خواہش پھر بھی دل میں رہتی ہے۔ کام تو صحیح کررہے ہیں لیکن اِسی طرح کے لوگ ہیں کہ جنہوں نے cheat day بنایا ہے کہ بھئی ہم dieting کررہے ہیں، ہم ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں کہ یہ نہیں کھانا یہ نہیں کھانا۔ پھر اُس کے بعد اُنہوں نے یہ کیا کہ اتوار کو cheat day ہے آج سب کھائیں گے، نہاری بھی کھائیں گے، تِل والے نان بھی کھائیں گے، اُس پر تیل اور گھی بھی لگوائیں گے، حلوہ بھی کھائیں گے، وہ cheat day ہوگیا۔ اب وہ cheat day جو ہوگیا تو اِس کا مطلب کیا تھا کہ پرہیز تو کررہے تھے لیکن دل میں خواہش تھی کہ یہ کھائیں اور وہ خواہش نہیں گئی۔ عمل کہاں سے آئے، کردار میں تبدیلی کیسے ہو؟ علم با عمل، یہ الگ چیز ہے اِس کا تعلق ظاہری علم سے ہے۔ اور جو کردار کی تبدیلی ہے اُس کا تعلق باطن سے ہے۔
دیدارِالہٰی سے بھی بڑی سنت کیا ہے؟
اب ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ یہ بہتّرتہتّر فرقے والے داڑھیاں بھی رکھ رہے ہیں، نمازیں بھی پڑھ رہے ہیں، عُمرے کو بھی جارہے ہیں، یہ سارے اچھے کام کررہے ہیں تو پھر یہ فرقوں میں منقسم کیوں ہیں ایک دوسرے کا گلا کیوں کاٹ رہے ہیں؟ ہم لوگوں کو مثال دیتے تھے کہ پاکستان میں جو چور اُچکا ہو اُسے حاجی بولتے ہیں۔ اب ہمارا سوال یہ ہے مولویوں کی باتوں میں تو بڑی آسانی سے لوگ آجاتے ہیں لیکن ہم لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اُن سے بھی کہہ رہے ہیں اور مولویوں سے بھی کہہ رہے ہیں کہ تم یہ بتادو کہ نماز، تلاوتِ قرآن، روزے اور حج کے بعد، ساری سُنتیں تم نے اپنالیں، تمہارا کردار کیوں نہیں ٹھیک ہوا؟ چلو ذیادہ بات نہیں کرتے ہم صرف ایک چھوٹی سی بات کرتے ہیں کہ اگرکوئی اِس دور میں کوئی ولی اللہ ہے، کوئی شیخ الاسلام ہے، کوئی فلاں مولانا ہے یہ مولانا ہے، سب کیلئے یہ چیلنج ہے کہ محمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا تم ذکر کرتے ہو سب سے بڑی سُنت کیا ہے دیدارِالہٰی سے بھی بڑی سنت کیا ہے؟ آپ کو پتہ ہی نہیں ہے۔
اللہ نے فرمایا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
سورة القلم آیت نمبر 4
محمد الرسول اللہ کا مصطفٰیؐ کا خلق اپنا کر دکھاوٴ! خلق کو اُردو میں کہتے ہیں “کردار” اور عربی زبان میں کہتے ہیں “خُلق” اور انگریزیں میں کہتے ہیں character یعنی إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ کا مطلب یہ ہوا کہ Oh my beloved! You have the sublime character. کیا خُلق کو اپنایا جاسکتا ہے؟ اتباع بھی چھوڑ دو اتباع بھی اِس کے آگے چھوٹی سی چیز ہے۔ اتباع تو یہی ہے کہ جو آپ کریں وہ میں کروں۔ مزہ تو یہ ہے کہ آپ نہ کریں پھر بھی میں وہی کروں جو آپ کرتے ہیں۔ اتباع بھی چھوٹی چیز ہوگئی نا۔ اتباع کیا ہے کہ جو آپ کریں میں وہ کروں یعنی آپ کو میں follow کررہا ہوں لیکن خُلق یہ ہے کہ میں وہ کروں جو آپ نے کیا نہیں، جو آپ کرنا چاہتے ہیں میں وہ کرلوں۔ یہ کِردار ہے۔ یہ سب کیلئے چیلنج ہے جتنے بھی اہلِ شریعت،اہلِ طریقت ہیں یہ ایک چھوٹی سی سُنت ہے اِس پر عمل کرکے دکھائیں! مُصطفٰیؐ نے کیا کِیا حدیثوں میں لکھا ہے لیکن مصطفٰیؐ کیا کرنا چاہتے ہیں یہ بتاوٴ! اُن کا مزاج کیا ہے؟ اگر آج وہ اِس زمانے میں ہوتے تو کیا کرتے؟ یہ اتباع سے نہیں خُلق سے آئے گا۔ اتباع کیلئے تو ضروری ہے کہ آپ کرو پھر میں بھی کروں گا۔ اِس دور میں تو حضورپاکؐ کچھ کرہی نہیں رہے، اگر ہوتے تو کیا کررتے؟ یہ اتباع والے کو کہاں پتہ! یہ تو اُس کو پتہ ہے جس کا خُلق محمدؐ کے خُلق پر ہے، یعنی کردارِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
خُلق کہاں سے ملتا ہے؟
اگر ابھی ہم تم کو یہ کہیں کہ کیا ہمارا خُلق سرکار گوھر شاہی کے خُلق پر ہے؟ اپنے اندر جھانکیں کہ کیا ہمارے اندر خلقِ گوھر شاہی ہے؟ اُس کے بعد جتنے بھی مسلمان اِس دنیا میں ہیں اُن سے پوچھیں ہاں جی خُلقِ مصطفیٰؐ تمہارے اندر ہے؟ یہ جتنے بھی مولوی ہیں جتنے بھی بڑے بڑے دعویدار ہیں یہ داڑھی رکھنا تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے، شیو مت کرو داڑھی خود بخود آگئی یہ تو کوئی کمال نہیں ہے، پگڑی باندھنا بھی کوئی کمال نہیں ہے، مسجد میں جاکے آپ نے نماز کی ادائیگی کرلی وہ بھی کوئی کمال نہیں ہے، پندرہ گھنٹے کا روزہ رکھ لیا وہ کیا کمال ہے! اب سائنس نے یہاں کے لوگوں کو بتایا ہے کہ اگر آپ نے پتلا ہونا ہے فٹ ہونا ہے تو intermittent fasting کرنی ہے۔ لوگ صرف اپنے آپ کو شیپ میں لانے کیلئے سولہ سولہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کا روزہ رکھ رہے ہیں۔ یہ شیپ میں لانے کیلئے کررہے ہیں، تم نفس پاک کرنے کیلئے کررہے ہو۔ اگر یہ اٹھارہ گھنٹے کے روزے رکھتے رہیں اور پھر بھی شیپ میں کوئی فرق نہ پڑے تو پریشان ہونگے کہیں گے کہ یہ کیا ہورہا ہے! اور تم سولہ گھنٹے کا روزہ رکھنے کے بعد بھی نفس میں کوئی فرق نہیں پڑرہا، تم کو خیال نہیں آتا ہے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ intermittent fasting جو ہے وہ یہ ہے کہ بارہ سولہ گھنٹے کھایا، چلوبارہ گھنٹے لگالو کہ بارہ گھنٹے کھایا اور بارہ گھنٹے بھوکے۔ پھر وہ انسان کے اندر جو سسٹم ہوتا ہے بارہ گھنٹے کی بھوک کے بعد وہ پاکستانی ہوجاتا ہے جیسے پاکستان میں شادی میں جیسے ہی کھانا کُھلتا ہے۔ intermittent fasting میں ہمارا سسٹم پاکستانی ہوجاتا ہے۔ فوراً جو ہے نا ہضم کرکراکے اِدھر سے اُدھر مارتا ہے۔ نبی پاکؐ کا خُلق جو ہے وہ خُلق روحانیت، تصوف میں ایک مقام آتا ہے اُس مقام سے خلق حاصل ہوتا ہے۔
خُلقِ مصطفٰیؐ کیسے حاصل ہوگا؟ سب سے پہلے تو یہ جان لیں یہ لکھ لیں یہ اِتنی بڑی بات ہے کہ اگر آپ کی یہ بات سمجھ میں آگئی نا خدا کی قسم سارے ہی دلدر دُور ہوجائیں سارے مسائل ہی حل ہوجائیں۔ اور یہ بات سمجھ میں آنی چاہیئے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو آپ یقین کریں کہ آپ دوسرے انسان بن جائیں گے، آپ کا ایمان اِتنا مضبوط آپ کا قبلہ اِتنا درست کہ ایک قدم غلط نہیں اُٹھ پائے گا۔ اور یہ تعلیم ہمارے پاس ہے۔ کیا ہے یہ تعلیم!
“یہ خُلق نکلا ہے “مشرب” سے۔ ویسے تو مشرب عربی زبان کا لفظ ہے تو شرب کا مطلب ہوتا ہے پیو۔ اُسی سے نکلا ہے تِشرب، اُسی سے نکلا ہے مشروب، اُسی سے نکلا ہے مشرب تو مشرب کا مطلب ہوتا ہے پِلایا جانا۔ کیا پلایا جانا، روحانی شرابِ عشق نگاہوں سے پلائی جائے۔ تو مشربِ محمدی کیا ہوا کہ جس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظروں سے اپنا سینہ تمہارے سینے میں اُنڈیل دیں۔ جیسےدو پیالے ہیں تو فرض کیا کہ یہ خالی پیالہ آپ ہیں اور یہ پیالہ جو ہیں محمدالرسول اللہ ہیں تو وہ یہ اُنڈیل دیں گے۔ جو اِس سینے میں تھا وہ اِس سینے میں آجائے گا۔ جو اِس سینے میں تھا جب وہ اِس سینے میں آجائے گا تو اِس کی وجہ سے جو یہ جسم کررہا تھا، اب اِس کی وجہ سے اب یہ جسم کرے گا۔ یہ خُلق ہوگیا۔ یہ iPhone ہے تو اگر ہم اپنے icloud کی ID دوسرے iPhone میں لگادیں تو جو کچھ اِس میں ہے وہ کچھ اُس میں چلا جائے گا۔ اب ہمارے فوٹوایلبم میں یہ والی فوٹو ہے تو اگر تم واقعی ہی یونس کے مشرب پر ہو اُس کے فون میں یہ فوٹو ہے تمہارے فون میں بھی ہونی چاہیئے۔فون میں کال ہسٹری ہوتی ہے۔ اگر تم ہمارے مشرب پر ہو تو تم اپنا فون کھولو، ہم نے کِس کِس کو کال کی ہے تمہیں بھی پتہ ہونا چاہئیے۔ تم کھولو گے اُس میں بھی وہی کال ہسٹری آجائے گی۔ یہ مشرب ہے اور مشرب کے زریعے ہی خُلق منتقل ہوتا ہے۔
آج کے دور میں خُلقِ مصطفٰیؐ کہاں سے ملے گا؟
یاد کیجئے امام جعفرِصادقؓ نے یہ کہا تھا کہ امام مہدی علیہ الصلوة والسلام جب تشریف لائیں گے
وقال علیہ السلام: اِذَا خَرجَ باٴمرً جَدید، وَکِتاب جَدیّد، وَسُنةً جَدیّدة
کتاب الغیبة ص 351
سُنتِ جدید کیسے ہوئی؟ خُلقِ مصطفٰیؐ امام مہدیؑ میں ہوگا۔ جب خُلقِ مصطفٰیؐ امام مہدیؑ کے کِردار میں ہوگا تو امام مہدیؑ وہی کام کریں گے جو حضورؐ ہوتے تو کرتے۔ خُلقِ مصطفٰیؐ داڑھی رکھنے کا نام نہیں ہے، پگڑ باندھنے کا نام نہیں ہے، یہ باطن کی کہانی ہے۔ جو سینہٴِ مصطفٰیؐ میں ہے وہ سینہٴِ مہدی میں چلاگیا۔ اب جیسا محمد الرسول اللہ کرتے وہی امام مہدی کررہے ہیں۔ تو خُلق کی وجہ سے اِس دور میں امام مہدی علیہ الصلوة والسلام کے جو اعمال ہونگے، جو افکار ہونگے، وہ سُنتِ رسول کہلائے۔ مثلاً اب امام مہدیؑ میں خُلقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اب امام مہدیؑ نے اِس دنیا میں سواری کرنی ہے آپ لینڈ کرُوزر پسند فرماتے ہیں مرسڈیز نہیں لیتے تو یہ کیا ہے کہ اگر حضورؐ اِس زمانے میں ہوتے تو وہ مرسڈیز نہیں لیتے لینڈ کرُوزر چلاتے۔ یہ بات تو ہماری سمجھ میں پچیس سال پہلے آگئی تھی۔ جب ہماری سمجھ میں یہ بات آگئی تھی جب ہم نے وہ جملہ کہا تھا کہ ایسی خوشبو سے کیا فیض ہوگا جس میں مہکے نہ خوشبوٴِ گوھر، وہ یہ ہی مطلب تھا کہ ساڑھے چودہ سوسال پہلے جو باتیں کہی تھیں پتہ نہیں کیا کہی تھیں کِتنی ملاوٹ ہوگی۔
کردارِمصطفٰیؐ عملِ مصطفٰیؐ دیکھنا ہے تو امام مہدیؑ کے کردار کو آج دیکھو، محمد الرسول اللہ وہی کرتے جو گوھرشاہی کررہے ہیں کیونکہ یہ خُلقِ مُصطفٰیؐ ہے۔
خُلقِ مصطفٰیؐ میں اتباع نہیں ہوتی۔ جو وہ کریں گے وہ یہ کریں گے۔ کِتنا آسان ہوگیا کہ اگر حضورؐ اِس دور میں ہوتے تو کیا کرتے! پتہ نہیں کیا کرتے لیکن خُلقِ مصطفٰیؐ سے مسئلہ حل ہوا کہ جس کے وجود میں خُلقِ مصطفٰیؐ سینے میں سما گیا وہ وہی کردار ہے جو ساڑے چودہ سو سال پہلے آیا تھا۔ جب وہ کِردار امام مہدیؑ کے وجود میں آگیا تو وہ وہی کرے گا جو حضورؐ ہوتے تو کرتے۔ یہ حدیثوں میں بھی آیا کہ امام مہدی علیہ الصلوة والسلام جو ہیں وہ دین کو دوبارہ سے اِسطرح زندہ کریں گے جسطرح حضورؐ نے کیا تھا الا منہاجُ المُصطفٰی۔ نبی پاکؐ کے طریقہٴِ خاص پر جیسا اُنہوں نے کیا ویسا مہدیؑ کریں گے۔
مشرب میں کیا ہوتا ہے؟ مشرب میں سینے کا فیض منتقل کیا جاتا ہے۔ جس طریقے سے حضرت عیسٰیؑ کا مشرب لال شہباز قلندرؓ کو ملا تو اُن کا مشرب عیسوی ہوگیا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے۔ یہ تھوڑی سی طریقت سے آگے کی باتیں ہیں، ہوسکتا ہے آپ لوگوں کو بھی سمجھ میں نہ آئیں۔ ایک مشرب فیض کا ہوتا ہے اور ایک مشرب شخصیت کا ہوتا ہے۔ تو عیسٰیؑ کی طرح اُن کی حالاتِ زندگی ہوجائیں گی۔ اگر کسی کا مشرب مُوسوی ہوگا تو اُس کے حالاتِ زندگی، اُس کا کردار، اُس کا اُٹھنا بیٹھنا، اُس کی پسند اور ناپسند، جتنی شادیاں موسیٰ نے کی ہونگی مُوسوی مشرب والا بھی اُتنی ہی کرے گا۔ یہ نہیں کہے گا اچھا اُنہوں نے چلو ایک اور میں کرلوں ایک کم رہ گئی ہے۔ نہیں ایسے نہیں، وہ اندر سے چاہت ویسی ہوگی جیسے اُن کی تھی۔ ہمارا مشرب ہے گوھری۔ اِن مولویوں نے تو اجتہاد نکالا اور ہمارے صوفیوں کے ہاں کیا ہے کہ جو خُلق والا مشرب والا بندہ ہوتا ہے جیسے اگر کوئی سرکار گوھر شاہی کے مشرب میں ہے اور سرکار اب یہاں پر غیبت میں چلے گئے ہیں یہاں پر ہیں نہیں تو اُس بندے سے رابطہ کرو کہ یار سرکار سے تو رابطہ ہمارا ہے نہیں، اب ہم نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا کریں. تو تم بتاوٴ تمہاری خواہش کیا ہے تم کیا کرو گے؟ کیونکہ ہمیں معلوم ہے تم وہی کرو گے جو سرکار یہاں ہوتے تو کرتے۔ وہ تو اجتہاد ہے وہ غلط ہے لیکن یہ صحیح طریقہ ہے۔ اب کیا ہوا کہ خُلقِ مصطفٰیؐ عطا ہوتا گیا۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلے جو حضورؐ نے کیا، اب چار سو سال گزرگئے زمانہ بدل گیا، اب حضورؐ کے گزرنے کے چارسو سال بعد اب کیا کریں! بہت ساری نئی چیزیں آگئیں اب کسکو follow کریں؟ حضورؐ کے اعمال میں یہ باتیں نہیں ہیں جو آج چارسوسال بعد ہورہی ہیں تو اب اُس کو دیکھنا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے جو خُلقِ مصطفٰیؐ والا ہے۔ جو مشربِ محمدیؐ والا ہے اُس کو دیکھنا ہے۔ اب وہ چارسوسال کے بعد مزید چار سو سال گزرگئے آٹھ سو سال کا عرصہ گزرگیا اب کیا کریں؟ اب سیدنا غوثِ اعظمؓ آگئے، اب مصطفٰیؐ کیا کرتے آٹھ سو سال کے بعد تو غوثِ اعظمؓ کو دیکھ لو جو وہ کررہے ہیں مصطفٰیؐ وہی کرتے۔ کیونکہ غوثِ اعظمؓ وہی کررہے ہیں جو مصطفٰیؐ کرتے۔ تم کو کیسے پتہ وہی کررہے ہیں؟ کیونکہ وہی کردار تو اِن کے سینے میں مصطفٰیؐ نے ڈالا ہے۔ یہ ہی تو علم بقا کا ہے۔ بقا کا علم صرف بقاباللہ نہیں ہوتا ہے، بقابالمحمد بھی ہے بقابالگوھر بھی ہے۔
اللہ کے خلق میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں؟
کِردار قلب اور نفس کے پاک صاف ہونے کے بعد بدلے گا۔ جب مرشد تیرے اندر آکر بیٹھ جائے گا تو پھر کِردار تیرا آہستہ آہستہ مرشد جیسا ہوجائے گا۔ پھر مرشد تُجھے آگے دربارِرسالت تک پہنچا دے گا اور جب تُو فنا فی الرسول بن جائے گا پھر تیرا کِردار مُصطفٰیؐ کے کِردار میں ڈھل جائے گا۔ اور اُس کے بعد مُصطفٰیؐ تجھے پکڑ کے جب اللہ کے حوالے کردیں گے تو پھر اللہ کا حکم دکھائیں گے کہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ کے اخلاق میں ڈھل جاوٴ۔ تُخلِقُوا بِاِٴخلَاق اللہ پھر تم اللہ کے خُلق میں داخل ہوجاوٴ گے۔ اور جب تم اللہ کے خُلق میں داخل ہوگئے تو پھر تُو من موجی ہوگیا کبھی کوئی آیا تو عطا کردیا مُوڈ نہیں ہے تو مریدوں کو بھگا دیا۔ اللہ کا خُلق ہے، وہ تو لاپرواہ ہے نا وہ تو کسی کا محتاج نہیں ہے، اُس کے مُوڈ کے اوپر ہے شہنشاہ ہے وہ۔ تو جب کوئی بندہ اللہ کے اخلاق اپنا لیتا ہے تو اُس کا اُٹھنا بیٹھنا بولنا چالنا سب کچھ اللہ جیسا ہوجاتا ہے۔ تبھی تو اُس نے کہا نا کہ میرا بندہ جب قریب آجاتا ہے تو میں اُس کو قتل کردیتا ہوں۔ پھر جب قتل کردیتا ہوں تو کیا ہوتا ہے اُس کا خون بہا مجھ پر لازم ہوجاتا ہے۔ پھر اُس کا خون بہا میں کیا دیتا ہوں کہ میں اُسی کا ہوجاتا ہوں۔ پھر جب میں کسی کا ہوجاوٴں تو پھر میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اُس کی ٹانگیں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ یہ اصل مطلب ہے کہ اللہ کے خُلق میں داخل ہوجاوٴ۔ دینِ اللہ میں داخل ہونا اور ہے اور خُلق میں داخل ہونا اور ہے۔ یہ جو علم امام مہدی گوھر شاہی نے ہم کو دیا ہے یہ خُلق کا علم ہے۔ یہ ہزاروں لاکھوں انسان ہیں اِن سب کے اندر اللہ کا خُلق داخل کردو تاکہ یہ سب اللہ کی طرح چلیں اللہ کی طرح بولیں اللہ کی طرح رہیں۔ پھر وہ ایک کمیونٹی بن جائے گی اُس کو کہیں گے یہ دینِ الہٰی کے ماننے والے ہیں۔ سب اللہ کی طرح بولتے ہیں سب اللہ کی طرح محبت کرتے ہیں سب اللہ کی طرح شان والے ہیں کیونکہ اُن کے اندر خُلق اللہ کا آگیا۔ یہ عشقِ اللہ دینِ اللہ ہے۔
حدیثوں میں ہے کہ امام مہدیؑ ہُوبہو ہمشکلِ مصطفٰیؐ ہونگے۔ لوگ صرف نام ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ محمدالرسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ اُن کا نام محمد ہوگا اُنہوں نے فرمایا ہے کہ اُن کے اندر محمد ہوگا۔ بتائیے اب نام ہونا محمد اور محمد کا اندر ہونا، کِتنا بڑا فرق ہے۔ یہ جاہل مولوی کہہ رہے ہیں کہ اُن کا نام محمد ہوگا۔ نام محمد تو بہت سوں کا ہے۔ محمد نام ہونے سے کیا ہوتا ہےْ اصل چیز یہ ہے امام مہدیؑ کے اندر محمدؐ کا کردار ہوگا۔
وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ
سورة الضحی آیت نمبر 4
ترجمہ: اور آپکا دوسرا دور پہلے دور سے افضل ہوگا۔
جب امام مہدی کے وجود میں دوبارہ خُلق تیرا داخل کیا جائے گا تو وجود امام مہدی کا ہوگا کِردار مُصطفٰی کا ہوگا۔ امام مہدی وہ کریں گے جو حضورؐ آج جہاں بیٹھ کرکرتے۔ معلوم یہ ہوا کہ ہر عمل امام مہدی گوھر شاہی کا سُنتِ مصطفٰی ہے۔ جو مُصطفٰی کرتے وہی امام مہدی کررہے ہیں۔ تو یہ سُنت سُنَّةٌ جَدِید ہے جس کا امام جعفرِصادقؓ نے ذکر کیا ہے۔ اب حضورؐ نے کیسی زندگی گزاری، حضورؐ کا اُٹھنا بیٹھنا کیا تھا ہمیں کتابیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ہم سرکار کو دیکھ لیتے ہیں۔ جو سرکار کررہے ہیں وہ سُنت ہے، جو نہیں کررہے وہ نہیں ہے بھلے اُس سے کتابیں بھری ہوں۔ سُنت کیا ہے جو سرکار گوھر شاہی کررہے ہیں کیونکہ اِن میں خُلقِ مصطفٰیؐ ہے کیونکہ اِن کے اندر وجودِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کیا سُنت ہے کیا سُنت نہیں ہے کتاب پڑھنے کی ضرورت ہے؟ پھر کیا کریں کہ سرکار کو دیکھ لیں۔ اگر سرکار نے وہ کام کیا ہے تو سُنت ہے۔ کیوں سُنت ہے؟ کیونکہ وہ خُلق امام مہدی کے اندر ہے جو محمدالرسول اللہؐ کے اندر تھا تو اُس خُلق نے اُس دور میں جو کچھ کیا وہ سُنتِ مصطفٰیؐ ہوا۔ وہی خُلق اب امام مہدیؑ کے وجود میں ہے۔ جو اب اُس خُلق کا اِس دور میں جی چاہے گا وہ بھی تو سُنتِ مصطفٰیؐ ہوگی ۔ بس یہ نُکتہ بہت اہم ہے۔ اتباعِ رسول آسان ہوگئی۔ کیسے آسان ہوگئی کہ جو سرکار کررہے ہیں تم بھی وہ کرو۔ جو سرکار کہہ رہے ہیں تم بھی وہ کرو اتباعِ رسول ہوگی۔ سرکار کا فرمان ہے کہ سلطان باہو فرماتے ہیں کہ میں کسی مدرسے میں نہیں گیا میں نے قرآنِ مجید کا ایک لفظ “الف” لے لیا، الف سے اللہ اللہ کرتا رہا، جب سینہ میرا منور ہوگیا تو حضورپاکؐ نے سینے سے سینہ لگایا اور سارا قرآن اِدھر آگیا تو یہی تو اُنڈیلنا ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہی جو ہم نے پہلے دی تھی کہ جو مواد میرے فون میں ہے اگر میری ID تمھارے فون پر لگی ہے تو وہ سارا مواد ہُوبہُو وہاں بھی ہونا چاہئیے۔ اگر نہیں ہے تو پھر تُو جھوٹ بول رہا ہے میری ID اُدھر لگی ہی نہیں ہے۔ اگر میں خُلقِ گوھر پر ہوں تو جو خُلق سرکار کی ذات میں ہے وہ اِدھر نہیں ہے تو میں منافق ہوں نا پھر جھوٹا ہوگیا نا۔ جو اُدھر ہے وہ اِدھر ہوگا تو پھر وہی ہوگا جو اُدھر ہے اور جو اِدھر ہے وہ اُدھر ہے۔
ایک دفعہ سرکار گوھر شاہی امریکہ سے جب یہاں لندن تشریف لائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارے گھر میں جو ہے نیچے دو کمرے تھے۔ ایک جو ہے وہ sitting room تھا جہاں لال رنگ کے صوفے لگے ہوئے تھے اور اُس کے پیچھے میرا کمرہ تھا جہاں میں نے کمپیوٹر وغیرہ رکھا ہوا تھا اور میں وہاں اپنا کمپیوٹر کا کام وغیرہ کرتا تھا۔ سرکار جو لکھواتے goharshahi.com پر لگاتا تھا۔ تو سرکار وہاں front room میں تشریف فرما ہیں اور ہم اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اور ہمارے ساتھ مرتضیٰ، فیصل اور اعظم ہے یہ ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے رُخِ آئینہ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ اب اِن مُرتضیٰ، فیصل اور اعظم نے رُخِ آئینہ کی کیفیت اُس وقت دیکھی تھی جب سرکار انگلینڈ میں نہیں ہوتے تھے تب دیکھی تھی۔ اب یہ موقع ایسا تھا کہ سرکار برابر کے کمرے میں بیٹھے ہیں اور یہاں ہم بیٹھے ہیں اور گفتگو کررہے ہیں اور ہماری گفتگو سے سرکار کی آواز آرہی ہے۔ تو پہلے اِن کا جو گمان تھا وہ یہ تھا کہ سرکار کی آمد ہوئی ہے اِس لئے سرکار کی آواز آرہی ہے لیکن پھر جب اِنہوں نے دیکھا کہ سرکار تو اِدھر بیٹھے ہیں اِدھر کِدھر سے آمد ہوگئی۔ یہ کیسے آمد ہوئی ہے؟ تو پرہشان ہوئے۔ سرکار نے ہمیں رُخِ آئینہ کی کیفیت میں آواز دی یونس! پانی لیکرآوٴ۔ ہم اُٹھے اور پانی لیکر گئے اور سرکار کو پیش کیا۔ اب یقین جانیں سرکار کی ذات گواہ ہے اب سرکار صوفے پر بیٹھے ہیں اور ہم یُوں سرکار کو پانی دے رہے ہیں۔ سرکار نے بھی گلاس اوپر سے پکڑلیا۔ ہم نے نیچے سے پکڑا ہوا ہے اور سرکار نے اوپر سے پکڑا ہوا ہے اور مسکرائے۔ اِتنا مسکرائے کہ آپ کے جو سفید موتیوں جیسے دندانِ مبارک ہیں وہ سارے کے سارے چمکتے ہوئے نظر آنے لگے۔ اور مجھے کہنے لگے یعنی بڑی محبت اور بڑی والہانہ اِک نظر کے ساتھ کہنے لگے کہ اِس وقت جو ہے جو یہاں ہے وہ وہاں ہے۔ مجھے کہا کہ نہیں سمجھے! ہم نے گردن ہلائی جی۔ فرمایا دیکھو پانی دینے والا بھی وہ، پانی لینے والا بھی وہ۔ پانی دینے والا بھی خود اور پانی لینے والا بھی خود۔ جی سرکار، پانی پیا اور پھر تھوڑا پانی جو بچا، فرمایا کہ تم بھی پی لو۔ پھر فرمایا کہ جاوٴ گفتگو جاری رکھو۔ یہ اُس وقت مجھے سمجھ میں آیا کہ خُلق کیا ہے۔ خُلق کیا ہےاُس کو بتانا نہیں پڑتا۔ آپ چلتے جارہے ہیں سرکار سے رابطہ نہیں ہے، سرکار ہوتے تو کیا فیصلہ کرتے؟ اُس کو بلاوٴ نا جس کے اندر خُلق ہے۔ جو اُس کا جی چاہ رہا ہے وہ اِس لئے جی چاہ رہا ہے کہ سرکار کا جی چاہ رہا ہے۔ وہ اُس کی خواہش وہی ہوگی جو سرکار کی خواہش ہوتی۔ اُس کا عمل وہی ہے جو اُن کا عمل ہے۔ اِس کو کہتے ہیں خُلق۔ اور قرآنِ مجید نے کہا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
سورة القلم آیت نمبر 4
اللہ تعالٰی جس کے کردار کی تعریف اور توصیف کررہا ہے۔ اللہ کرتا ہے کسی کی تعریف؟ سب کو فرماتا ہے کہ میری تعریف کرو! تو وہ فرما رہا ہے کہ إِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ، یہ جو بات ہے یہ بات بتاتی ہے کہ اِتنا بڑا جس کا کردار ہے تو لوگوں کو اپنانے میں بھی بہت بڑا ظرف لگے گا۔ لوگوں کو اپنانے میں بھی بہت مجاہدہ کرنا پڑے گا کیونکہ اللہ نے مصطفٰیؐ کے کردار کا معیار بہت بلند رکھ دیا۔ اندر کی صفائی بہت کرنی پڑے گی۔ پہلے نفس کی صفائی کرنی پڑے گی، پھر قلب کی صفائی کرنی پڑے گی، پھر جب یہ دونوں منور ہوجائیں گے تو پھر دل کے اندر سے ملکوت جانے کی خواہش ختم کرنی پڑے گی، روح کے اندر سے جبروت جانے کی خواہش ختم کرنی پڑے گی، یہ تمام لطائف سے وہ خواہشیں ختم کردی جائیں گی۔ جیسے قلب کا جی چاہتا ہے کہ ملکوت جائے، روح کا جی چاہتا ہے کہ جبروت جائے، لیکن جب خُلق آئے گا تو یہ سب صاف ہوگا۔ اور ہر قلب و قالب میں جو خُلق مصطفٰیؐ کا ہے اُس کا رنگ چڑھ جائے گا۔ پھر جو مصطفٰیؐ چاہتے تھے اب تُو بھی وہ ہی چاہنے لگے گا۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نا آکھو کوئی
اِس میں یہ ہوتا ہے۔ بُلھے شاہ نے کہا کہ
بلھا شوہ اساں تھیں وکھ نہیں
پر ویکھن والی اکھ نہیں
بُلھے شاہ نے کہا اے بُلھے شاہ “شوہ”، مُرشد کو کہتے ہیں یعنی بادشاہ۔ “شوہ اساں تھیں وکھ نہیں” کہ ہمارا جو مرشد ہے ہم سے جُدا نہیں ہے۔ “پر ویکھن والی اکھ نہیں” لیکن دیکھنے والی آنکھ نہیں ہے۔ ایک اور بات اِسی طرح کی کہی کہ
جس دے نال میں نیوں لگایا
اودے ورگی ہوئی
اگر تُو اُس جیسی نہیں ہوئی تو پھر تیری کوئی نسبت نہیں جُڑی، تُو جھوٹا ہے۔ اگر تیری چاہت گوھر کی چاہت نہیں ہے تو تیرا گوھر سے تعلق ہی نہیں ہے۔ خُلقِ مصطفٰیؐ والا مل جائے تو شریعت تو اپنے گھر کی ہوگئی، سُنت تو اپنے گھر کی ہو گئی تازہ ترین، ملاوٹ سے پاک، ہو بہو ہم وہ دیکھ رہے ہیں جو حضورؐ کرتے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 3 جنوری 2023 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔