کیٹیگری: مضامین

اللہ کی قہاری مخلوق کی زد میں لوگوں کی پہچان اور اِس کی جوہات:

ساری ذہنی بیماریاں جو ایک تصوّر پاگل پن کا ہے اُس جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ ہم نے جن کو پاگل کہا ہے دیکھا ہے وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ اُن کا جو ذہنی توازن ختم ہوجاتا ہے۔ اُنہیں نہ کپڑے پہننے کا ادراک ہوتا ہے، نہ بڑے چھوٹے کا، ننگے گھوم رہے ہیں تو ننگے گھوم رہے ہیں تو ہم ایسے ہی لوگوں کو پاگل سمجھتے تھے۔ ذہنی کیفیت کو بس ہم نے پاگل پن سمجھا لیکن رویوں کے پاگل ہم نے کبھی دیکھے نہیں تھے یا ہمیں اگر کوئی ملا بھی تو ہم نے اُس کو پاگل نہیں کہا، بدتمیز کہا گھمنڈی کہا شیطان کہا۔ کچھ لوگوں میں بدتمیز ہونے کا یہ رُجحان ہوتا ہے اور انتہائی نامعقول رویہ اُن کا ہوتا ہے۔ اُن کے اندر مُروؐت، شرم و حیا، ایکدوسرے کیلئے حِلم نہیں ہوتا ہے یعنی انتہائی واحیات حد تک یہ لوگ خود غرض بھی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارا یہاں ایک دوست بنا ظفرحسین تو پیشے سے وہ وکیل تھا۔ اُس نے law پڑھا، یہاں تک کے وہ barak law کرنے بھی لِنکنز (برطانیہ) گیا۔ یہاں barak law کرنے کیلئے جو تعلیمی ادارہ لِنکنز ہے وہ یُوں سمجھ لیں کہ وکیلوں کا کعبہ ہے۔ امریکہ سے بھی لوگ پڑھنے کیلئے اُس میں آتے ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے سفر کیا، ہم یہاں سے گیارویں شریف کیلئے پاکستان گئے تو رومانین ائیرلائن سے ہم گئے کیونکہ سستی ائیرلائن تھی۔ پہلے سے اُنہوں نے بتادیا تھا کہ اِس پر کوئی کھانہ وانہ نہیں ہوگا یا ہوگا تو ایسے ہی فضول سا ہوگا۔ ہمیں پہلے ہی ٹریول ایجنٹ نے بتادیا تھا تو ہم نے بھی گھر سے ٹِفن بنالیا اور اُس نے بھی گھر سے ٹِفن بنالیا تو اب چلے گئے۔ ائیرپورٹ پر بیٹھے تو ہمیں آسرا تھا کہ ٹِفن میں کھانا ہے، کھالیں گے بعد میں جب بھوک لگے گی۔ جہاز میں ساتھ بیٹھے تو اُس نے بتایا کہ تم کیا لیکر آئے ہو تو ہم نے کھول کر رکھ دیا تو کھانا کھایا اُس نے بھی کھایا اور ہم نے بھی کھایا۔ اب وہاں رومانیہ میں جب جہاز اُترا تو وہاں چار پانچ گھنٹے کا stay تھا۔ اب وہاں بھوک لگی تو اُس نے اپنا ٹِفن کھول کر کھانا شروع کردیا اور ہمیں اُس نے کہا کہ اپنا کھانا خود لایا کرو۔ ہم نے کہا کہ ہم تو لائے تھے، وہ تم نے ختم کردیا۔ کہتا یار تم کو شرم نہیں آتی میرا نام لے رہے ہو، تم نے خود کھایا ہے کہہ رہے ہو میں نے ختم کیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑا یعنی جھٹکا لگا کہ ایک آدمی آنکھوں میں دُھول جھونک رہا ہے۔ تو وہ ہمارے لئے یعنی ایسا تھا کہ شاید ہم اُس کے رویے کو سمجھ نہیں پایا لیکن اب مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہی علامات تھیں ایک narcissist کی ایک psychopath کی۔ وہ لوگوں سے اپنے کام نکلوانا جانتا تھا۔ جب اُس کو لوگوں سے کوئی کام پڑتا تھا وہ اتنا میٹھا بن جاتا یاری دوستی کرلیتا اور اگر کوئی آپ کو کام پڑگیا ہے تو وہ اتنا بیدیدہ تھا بدتمیز تھا بالکل سفّاک لہجے میں بول دیتا کہ میں نے تمہارا ٹھیکا لیا ہوا ہے جاوٴ اِدھر سے۔ ہم پریشان تھے کہ یہ کسِ قسم کا رویہ ہے!
اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ تمام چیزیں عام ہوگئی ہیں۔ پہلے تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا ہم یہی کہتے تھے کہ یہ بہت غصے والا آدمی ہے یہ بڑا بدتمیز ہے اور اِس کے علاوہ کچھ نہیں ہمیں معلوم تھا۔ لیکن اب جو ہے وہ پتہ چلتا ہے کہ لوگ narcissist بھی ہوتے ہیں۔ ہمیں تو ابھی حال ہی میں چند سالوں پہلے پتہ چلا ہے کہ یہ narcissist کیا ہوتا ہے! وہ اِس لئے ہمیں پتہ چل گیا کہ ہم لوگوں کے رویوں کا ترجمہ کرنا چاہتے تھے، سمجھنا چاہتے تھے کہ کچھ لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ اِتنا جارہانہ کیوں ہے! کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی ہم نے ہر بات پوری کی، جن کی گالیاں بھی کھائیں، اپنا وقت بھی دیا، پیسہ بھی دیا، پیار بھی دیا، سب کچھ دیا لیکن اُن کی زبان سے سوائے شکووں اور شکایتوں کے کچھ اور نکلتا ہی نہیں ہے۔ اور ایک ایسا رویہ جس کو ہمارے لئے سمجھنا جو تھا وہ ناممکن سا بن گیا۔ تو پھر ہم نے تحقیق شروع کی کہ ایسا رویہ انسانوں میں کیوں ہوتا ہے؟
پھر ہمیں معلوم پڑا کہ اِس طرح کے لوگ ہوتے ہیں تو اُن کو ذہنی امراض ہوتے ہیں، یا تو وہ narcissist ہوتے ہیں یا sociopath ہوتے ہیں یا psychopath ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو schizophrenia ہوتا ہے۔ schizophrenia کو باقاعدہ میڈیکل سائنس نے ایک illness declare کیا ہے۔ لیکن یہ جو باقی sociopath psychopath اور narcissist ہیں اِن چیزوں کو اِنہوں نے illness تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ رویہ ہے۔ اب تحقیق کرتے گئے اور تحقیق کرکے پتہ چلا کہ ایسے لوگ ہوتے ہیں۔ جن میں یہ علامات ہوں وہ sociopath ہونگے psychopath ہونگے narcissist ہونگے۔ اب اُن سے برتاوٴ کیسے کریں تو ہر ایک نے یہ ہی لکھا ہوا ہے برتاوٴ وغیرہ نہیں کرسکتے ایسے لوگوں سے جان چُھڑائیں۔ رشتہ ختم کریں اپنی زندگی کو بچائیں ورنہ آپ کو پاگل بنادیں گے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ایک عذاب ہے اور ایک یعنی آبیل مجھے مار والی جو ہے بات ہے۔ کسی ایسے انسان کے ساتھ اگر آپ زندگی گزاریں جو آپ کی ہر اچھائی کو استعمال کرلے، آپ کی رحم دلی کا ناجائز فائدہ اُٹھائے، آپ کے پیسوں کا ناجائز فائدہ اُٹھائے، آپ کی شرافت کا بھی ناجائز فائدہ اُٹھائے لیکن اُس کے جواب میں آپ کی کسی اچھائی کا ذکر نہ کرے، صرف آپ کے خلاف بکواس کرتا رہے۔ ہمیں اب کم و بیش بیس بائیس سال تنِ تنہا اِس مشن کو آگے لیکر چلتے ہوئے ہوگئے ہیں لیکن ہم نے اُن لوگوں کا رویہ یہ دیکھا کہ اب جو بھی بندہ ہم سے متاثر ہوکے آئے کہ یار یہ تو سرکار گوھر شاہی کا بڑا چاہنے والا ہے اِس کی گفتگو سنو، اِس کی بات سنو یہ باتیں بھی بڑی اچھی کرتا ہے، سرکار کی محبت کی بات کرتا ہے، علوم بھی بیان کرتا ہے، لوگ متاثر ہوکے آتے۔ لیکن جب اُن لوگوں سے ملتے تو وہ دو منٹ میں اُن کا ایمان تباہ کردیتے۔ وہ کہتے کہ تم اِن کا ہاتھ کیوں چُوم رہے ہو، تم اِن کے پاوٴں کیوں چُوم رہے ہو، تم کو پتہ ہے اِس نے تو ہماری زندگی تباہ کردی ہے، یہ تو اِتنا برا آدمی ہے، یہ تو ایسا ہے یہ تو ویسا ہے۔ یہ جو مشن کے دشمن ہیں یہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو سرکار کے عاشق کے لبادے میں ہونگے اور اِن کو یہ ایک چھوٹی سی چیز سمجھ میں نہیں آتی کہ سرکار گوھر شاہی کا فرمان ہے کہ

اگر آپ کسی کی پیٹھ پیچھے بُرائی کررہے ہیں غیبت کررہے ہیں بہتان لگارہے ہیں تو آپ کا تعلق نفسِ امارہ سے ہے۔

سرکار گوھر شاہی کی تعلیم اِن کو سمجھ میں نہیں آتی۔ جب سرکار کے قصے سنائیں گے تو وہ قصے سنائیں گے جن میں اِن کی بڑھائی کا پہلو ہو کہ جی سرکار نے میرے لئے یہ فرمایا، سرکار کے ساتھ تو میرا یہ قرب تھا، سرکار نے تو مجھے اِتنا پیار دیا، مجھے یہ کیا مجھے وہ کیا۔ لیکن تم کیا کررہے ہو؟ پھر جو ہے اِن کو ایسا حسد ہوتا ہے۔ اِن کو ایک ایسا حسد ہوتا ہے کہ جس حسد کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اور اِن کا کفر یہ ہوتا ہے کہ جس بندے سے حسد ہے اُس بندے کو جو مقام ملا ہے اور جس مقام کی وجہ سے تمہیں حسد ہے وہ مقام اُس نے خود حاصل نہیں کیا سرکار نے دیا ہے۔ تو ایسے آدمی سے مخالفت کرنا اُس سے حسد کرنا اُس کی برائی کرنا مشن کی برائی ہے۔ اور ایسے بندے کی مخالفت کرنا ایسے بندے کے بارے میں لوگوں کو بدگمان کرنا تو وہ کیا ہے! آپ تو سرکار گوھر شاہی کی اُس بات کو ہی نہیں مان رہے کہ سرکار نے اپنی مرضی سے کسی کو بٹھایا ہے۔ لیکن اُن کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ اِس بندے نے میرا مقام چھین لیا۔ یہ سارے کو عزتیں، یہ ساری محبتیں جو یہ اکیلا اکیلا سمیٹ رہا ہے یہ میرے لئے تھیں ورنہ اِس کی اوقات کیا تھی۔ یہ حسد ایک ایسی بیماری اُن میں پیدا ہوجاتی ہے کہ اُس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ہم نے تو بہت تحقیق کے بعد جو ہے یہ پتہ چلایا کہ اِس طرح کے جو کیسس ہوتے ہیں جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی narcissist ہے کوئی psychopath ہے۔
ہم نے جو اپنی تحقیق کی ہے تو اُس تحقیق کی روشنی میں ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ یہ نارمل لوگ نہیں ہوتے۔ اب نارمل نہیں ہوتے تو کیا ابنارمل ہوتے ہیں! نہیں، ابنارمل بھی نہیں ہوتے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ اِن کو اللہ تعالیٰ جو ہے ڈیوٹی والے کی مخالفت کرنے کے زمن میں اللہ تعالیٰ جو ہے اِن سے ناراض ہوجاتا ہے اور اِن کے اوپر قہاری مخلوق مسلط کردیتا ہے۔ اور وہ قہاری مخلوق یہ کرتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ مرکے اِس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ جن لوگوں کا نفس پاک ہوجاتا ہے تو وہ تو قبروں میں نماز پڑھتے ہیں، قبروں میں ذکرفکر کرتے ہیں، قبر میں بیٹھ کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کا نفس پاک نہیں ہوتا تو اُن کا جو نفس ہے وہ جو قبر میں رہتا ہے تو ناپاک نفس والوں کے اوپر کوئی نگرانی تو ہوتی نہیں ہے۔ اب وہ اپنے survival کیلئے شیطان کو جو ٹولہ ہے اُس کو نفوس join کرلیتے ہیں۔ شیطان یعنی ابلیس جو ہے اگر اُن کو قبول کرلے تو پھر ابلیس اُن نفوس کو اپنے ساتھ مقامِ اسفل لے جاتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کے اندر شہوت کی بیماری تھی، کسی میں تکبر کی بیماری تھی، کسی میں شدید حسد کی بیماری تھی، ایسے نفوس تھے۔ پھر ابلیس مقامِ اسفل میں جاکر اِن کی تربیت کرتا ہے اور اِن کو بڑا طاقتور بناکرکے رکھتا ہے کیونکہ

اگر اللہ تعالیٰ کسی سے ناراض ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ ابلیس کو حکم دیتا ہے کہ جو تم نے مقامِ اسفل میں تربیت کرکے نفوس تیار کئے ہیں، سزا کے طور پر ایک نکال کے اِس بندے کے اندر ڈال دو۔

کوئی شہوت زدہ نفس ہوتا ہے، کسی کو تکبر کی بیماری ہوتی ہے۔ ایک تو نفس آپ کا اپنا ہے۔ یہ کوئی مردہ انسان کا نفس ہے جس کو شیطان نے تربیت کیا ہے۔ سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ وہ اُس بندے کے اندر داخل کردیتا ہے۔ پھر جب وہ نفس آجاتا ہے تو پھر انسانیت انسان میں سے ختم ہوجاتی ہے۔ اُس کا complete inhumane رویہ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے وہ دوست ظفرحسین کا ذکر کیا نا اُس کے ساتھ یہی ماجرہ ہوا۔ پھر سرکار گوھر شاہی نے اپنے قلم سے لکھا ہمارے پاس وہ لکھائی موجود ہے جس میں سرکار نے فرمایا کہ جو سرکار کا فرزند بابر ہے یہ جب سزا میں گیا تو اللہ تعالیٰ نے اِس کے اندر ایک مُردار شہوت زدہ نفس اِس کے اوپر سزا کے طور پر ڈال دیا۔ تو ایسے جو ہے لوگ ہوتے ہیں جسطرح قرآنِ مجید میں لکھا ہے کہ

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ
سورة الزخرف آیت نمبر 36
ترجمہ: جب کوئی اللہ تعالیٰ کی یاد سے اعراض و کنارہ کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے اوپر شیطان مسلط کردیتا ہے۔

وہ یہ ہی چیز ہے۔ اب وہ جب شیطان مسلط ہوجاتا ہے۔ اب دیکھو ہم فنا فی الشیخ ہیں ہم ڈیوٹی پر بیٹھے ہیں ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارے سامنے کوئی ایسا بندہ آجائے کہ جو سزا میں ہو اور ایک extraordinary اُس کے اندر نفس سزا کے طور پر اللہ نے ڈالا ہوا ہو تو ہم اُس کیلئے بھی دعا کرتے ہیں۔ لیکن جب جب ہم نے اُن کی اُس مخلوق کو نکال کے بھیجنے کی کوشش کی ہے، کم سے کم تیرہ چودہ دفعہ ہم نے اپنے اردگرد کے لوگوں میں سے اُس مخلوق کو نکال کے روانہ کیا ہے کبھی قید کیا۔ لیکن اِن کا باطن اِن کا اندر روتا ہے کہ واپس بھیجو واپس بھیجو۔ وہ مخلوق پھر اِن کے اندر آجاتی ہے۔ کئی دفعہ اِس کے اثرات ہمارے اوپر بھی ہوئے، شیطان کے وار بھی سہنے پڑے۔ ایک دفعہ اللہ کی طرف سے warning آگئی کہ تم جو ہے اللہ کے فیصلوں میں مداخلت کررہے ہو۔ لیکن وہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرکار کو پراٹھے بنا بنا کے کھلائے ہیں۔ ہم (یونس الگوھر) نے اپنی جان تک خطرے میں ڈال کے اُن لوگوں کو بچانے کی کوشش کی لیکن اُن کے شکوے آج تک بھی ختم نہیں ہوئے۔ اور اُن کو یہ بات معلوم ہے کہ میں کون ہوں، اِس لئے کہ سرکار نے اپنے سامنے بٹھا کے اُن کو سمجھایا کہ دیکھو اِس کو تنگ نہ کرنا اِس کے سینے میں ہماری کئی مخلوقیں ہیں۔ کئی دفعہ سرکار نے سمجھایا کہ ہم یوں ہی سمجھ لو کہ اگر یہ بیٹھا ہے تو ہم ہی تمہارے سامنے بیٹھے ہیں۔ اُس کے باوجود اُنہوں نے یہ کوشش کی کہ جتنا بدنام کرو اِس کو اُتنا کم ہے جتنا تکلیف پہنچاوٴ اُتنا کم ہے۔ ہم اِن رویوں کو سمجھنا چاہتے تھے کہ اِس کی وجوہات کیا ہیں! اِن کتابوں میں یہ تو لکھا ہے کہ اُن میں یہ ہوتا ہے وہ ہوتا ہے لیکن جو evil brewing اُن کے اندر ہوتی ہے یہ اُس کا ذکر نہیں کرتے کہ اِتنے evil یہ ہوئے کیسے، اتنے بڑے شیطان یہ بنے کیسے؟
ہم روزانہ کی بنیاد پر کوشش کرتے ہیں کہ سمجھاوٴں کہ چھوڑو یہ باتیں مت کیا کرو، رہنے دو، مت کیا کرو یہ باتیں، ایسا نہ کرو، ویسا نہ کرو کہ اِن کا بھلا ہوجائے لیکن جب بھی سمجھاوٴں تو اُن لوگوں کا پھر رویہ یہ ہی ہے کہ اندر ہی اندر مزید گالی گلوچ، مزید جو ہے ہمیں رُسوا کرنے کی، بدنام کرنے کی ہمیں تکلیف پہنچانے کی planning۔ ہم اوپر پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے تو اوپر والے کہتے ہیں کہ کائنات میں سب سے ذیادہ نبیوں کو تنگ کیا گیا۔ پھر اُن لوگوں کو جو نبیوں کے قریب تھے۔ پھر اُس کے بعد ولیوں کو تنگ کیا گیا۔ پھر اُن کو جو اُن ولیوں کے قریب تھے۔ پھر کہا گیا کہ کائنات میں اِن سارے نبیوں سے ذیادہ محمد الرسول اللہؐ کو تنگ کیا گیا اور اُس کے بعد مولی علی کو تنگ کیا گیا۔ اور پھر ہم نے سرکار کی زبان سے سُنا کہ ہم کو محمد الرسول اللہ سے بھی ذیادہ تنگ کیا گیا ہے۔ اور پھر ایک دن سرکار نے ہمیں یہ کہا کہ ہم تم سے محبت کرتے ہیں نا اور تم ہمارے قریب ہو تو ہماری اِس محبت میں ہمارا درد بھی تمہیں ملا ہے، الزام بھی تمہیں ملے ہیں لہٰذا تنگ کیا جارہا ہے۔ اپنے بھی اور پرائے بھی، لیکن ہم آپ کو یقین دلائیں کہ یہ کرم سرکار گوھر شاہی کا ہم روز اپنے اندر دیکھتے ہیں کہ کسی نے کتنا ہی تنگ کیا ہو ہمارا دل روزانہ صاف ہوجاتا ہے۔ اگر وہ آج توبہ تائب ہوجائیں تو سب کچھ ویسے ہی بالکل صحیح ہوجائے گا، ہمیں ماضی یاد ہی نہیں آئے گا۔ لیکن ایسا ہونہیں سکتا۔
ایک اللہ کی قہاری مخلوق ہے، اگر وہ مخلوق اللہ کے حکم سے نیچے آجائے تو پھر وہ آپ کی بات نہیں سُنتی۔ آپ اگر کہہ دیں نا کہ جاوٴ تم تو وہ نہیں جاتی۔ اُس مخلوق کو direct اللہ کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ بیچارے اِس طرح کے لوگ ایک اپنے اوپر سزا طاری کرکے رکھے ہوئے ہیں، نہ خوش رہ سکتے ہیں، نہ اِن کا کوئی یار ہے، نہ کوئی اِن کا دوست ہے۔ کہنے کو کوئی psychopath ٹرمز ہیں narcissist، sociopath، bipolar disorder، یہ اور وہ لیکن اصل جو چیز ہے وہ اُن کے اندر evil brewing ہے جو اندر ہی اندر شیطان پکتا رہتا ہے۔ اور وہ شیطان پک اِس لئے رہا ہے کہ تم نے کسی ڈیوٹی والے کا دل دُکھایا، اُس کی کردارکُشی کی، جو حقیقت نہیں تھی وہ بات تم نے دنیا میں پھیلائی اور لوگوں کے ایمانوں کو تم نے لُوٹا۔ آپ یقین کیجیئے کہ 2004 یا 2005 میں ایک خاتون ہیوسٹن ٹیکساس (امریکہ) میں رہتی تھی تو اُس وقت وہاں پر سمندری طوفان آیا تو محفل کے دوران جو ہے ہم نے یُوں ہاتھ کرکے کہا کہ ٹھہر جا گوھر کے حکم سے، ٹھہر جا گوھر کے حکم سے اور وہ طوفان رُک گیا۔ جب اُس عورت نے سُنا کہ ہیوسٹن میں سمندری طوفان آنے والا ہے اور حکومت نے اعلان کردیا ہے کہ یہاں سے چھوڑ چھاڑ کے نکل جاوٴ تو اُس عورت نے کہا نہیں، سیدی نے کہا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا ہم گوھر شاہی کے ماننے والے ہیں۔ پورا شہر خالی ہوگیا، وہ اپنے گھر سے نہیں گئی کہ گوھر شاہی ہمارے ساتھ ہیں۔ اور پھر وہ جو طوفان آیا تو محفل کے دوران ہی ہم نے کہا رُک جا گوھر کے حکم سے، رُک جا گوھر کے حکم سے، رُک جا گوھر کے حکم سے۔ اُس نے دیکھا، پھر سرکار اُس کے خواب میں آئے اور سرکار نے فرمایا کہ ہم نے کی نا تمہاری حفاظت۔ پھر وہ بہت متاثر ہوئی اور پھر وہ ہم سے ملنے کیلئے انگلینڈ آئی۔ یہاں جب آئی تو لوگوں نے وہی رونا اُس کے ساتھ رویا کہ یہ تو صحیح بندہ نہیں ہے تم کہاں آکر پھنس گئی ہو، یہ تم کہاں آگئی میں تم کو بتاتا ہوں روحانیت کیا ہوتی ہے، اِنہوں نے میرے ساتھ یہ کیا، اِنہوں نے میرے ساتھ یہ کیا، اِنہوں نے ایسا کیا اِنہوں نے ویسا کیا۔ چار پانچ دن اِن کی روزانہ ٹِیوننگ کی۔ پہلے دن ٹیوننگ اُن کی کی تو اُنہوں نے مجھے آکے کہا کہ کچھ لوگ ایسی ایسی باتیں مجھ سے کررہے ہیں کہ میں تصور نہیں کرسکتی تو آپ میرے اوپر نظر کریں کہ میرا دل بدگمان نہ ہوجائے۔ ہم نے اُن کو یہ کہا کہ کوئی کیسی بھی باتیں کرے تم اُن باتوں کو دیکھوں نا کہ ہمارے اندر ہیں یا نہیں ہیں۔ وسوسوں کا کیا ہے، تم دیکھوں نا وہ ہیں یا نہیں ہیں! پھر clear ہوجائے گا۔ پھر دو تین دن بعد اُنہوں نے مجھ سے بات چیت کرنا چھوڑدی، محفل میں آنا چھوڑدیا اور وہ convince ہوگئیں کہ یہ بندہ تو بہت بڑا ظالم انسان ہے کہ یہ تو مکار ہے جھوٹا ہے۔ اب جو ایسے ایسے لوگ جن کو بچانے کیلئے طوفانوں کو بھی روکا۔ کیوں روکا! اِس لئے کہ اِس کا سرکار کی ذات پر ایمان ہے، اگر اِس کو نقصان پہنچ گیا تو وہ ایمان چلا جائے گا۔ اُس کی خاطر یہ بھی کرنا پڑا۔ جس کی خاطر ایسی چیز کرنی پڑی، آپ ہمیں بتائیں اُس دن کے بعد آج تک ایسی کوئی چیز یہاں سے ہوتی ہوئی دیکھی ہے! کتنی پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں کہا ہے کہ کبھی کہ گوھر کے حکم سے یہ ہوجا، گوھر کے حکم سے ایسا ہو، گوھر کے حکم سے یہ ہو، کیا نہیں ہوسکتا۔ لیکن نہیں کِیا۔ اُس کے ایمان کو برقرار رکھنے کیلئے اُس نے جو تکّیا کر رکھا تھا، اِس کا بھروسہ نہ ٹوٹ جائے یہ قدم اُٹھانا پڑا۔ حالانکہ اُس طوفان کے ذریعے کئی ہزار آدمیوں کو مرنا تھا۔ جب طوفان رُک گیا تو اللہ کیطرف سے بڑی سخت وارننگ آئی کہ یہ کیا ہے! سرکار کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ سرکار کا بندہ اللہ کے کاموں میں مداخلت کرے کیونکہ سرکار نے کبھی مداخلت نہیں کی جو ہورہا ہے وہ ہورہا ہے۔ ایسے ایسے لوگ آئے، کتنا اُن کا ایمان لیکن اِن لوگوں نے پٹیاں پڑھا پڑھا کر، اِن کا یہ ہی رونا ہے کہ جی میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ جو بھی مشن میں لگے آکے، کوئی اِدھر آکے بیٹھا اِس نے ایمان خراب کیا، کوئی اُس کے پاس جاکے بیٹھا اُس نے ایمان خراب کیا۔ کِس سے دشمنی ہے! مجھ سے تھوڑی ہے یہ تو سرکار گوھر شاہی سے دشمنی کررکھی ہے۔ تو یہ تمام جو چیزیں ہیں نا یہ psychopath اور یہ اور وہ، یہ سب جو ہیں نا یہ ولیوں کی بد دُعائیں ہیں اور انسانوں پر لعنتیں ہیں جس کے نتیجے میں اِنسان اپنی ذہنی صلاحیت کھودیتا ہے۔ پھر یہاں سے کئی لوگ بڑے بڑے بہتان لگاکے بھاگ گئے۔ ہمیں تباہ اور برباد کرنے میں کیا کچھ نہیں کِیا کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور ہم اپنے آپ سے یہ ہی پوچھتے رہتے ہیں ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے، کسی کو تکلیف نہیں دی، کسی کے خلاف کچھ نہیں کیا لیکن جب اُن کا رویہ دیکھتا ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا لوگوں کے دلوں میں اِتنی نفرت ہمارے لئے کیوں ہے؟ اور وہ لوگ ہیں جو سرکار کا نام لیتے ہیں، پراٹھے بنابنا کے کھلائے ہیں۔ ذہن کہاں گیا، ذہن کام کیوں نہیں کرتا! اِس لئے کام نہیں کرتا کہ یہ لوگ اُس قہاری مخلوق کی گرفت میں ہیں۔ یہ ساری باتیں سُن کر انسان عام آدمی ڈرجاتا ہے۔ اُن کو ڈر نہیں لگتا، وہ کہتے ہیں کہ دیکھو میری بُرائی ہورہی ہے۔ اِس لئے ڈر نہیں لگتا کیونکہ اندر کوئی اور بیٹھا ہوا ہے ورنہ انسان اگرصرف اِس کو یہ سوچے کہ ہم رُخِ آئینہ کی کیفیت میں بیٹھے ہیں، سرکار کی آواز ہمارے حلق سے آرہی ہے اور ایک بندہ آکے ہمیں یہ کہتا ہے کہ اِس وقت تمہارے اندر شیطان بول رہا ہے اور سرکار تو میرے اندر ہیں۔ یعنی جس بندے کی سرکار نے تصدیق کی ہے، جو آواز سرکار کی اُس کے حلق سے آرہی ہے اُس کو سننے کے بعد تم کہہ رہے ہو کہ اِس میں شیطان بول رہا ہے۔ تم کیسے معافیاں مانگو گے! لیکن اِن کو کوئی سمجھا نہیں سکتا۔ یہ ہی narcissist ہیں۔ اِن کے اندر جو بدلے کی آگ ہے اُس آگ کو کوئی نہیں بُجھا سکتا، نہ اللہ بُجھا سکتا نہ اللہ کا رسول بُجھا سکتا۔ اِن کی آگ کو مزید آگ جہنم ہی دے سکتی ہے۔ اِن کو کوئی نہیں بچاسکتا۔

فقیر کی ایک پیار بھری نظر کے انسان پر اثرات:

ایک دفعہ سرکار گوھر شاہی نے فقیر کی نظر کے بارے میں فرمایا۔ اچھا اب قبر میں جانے تک یہ بات تم نے یاد رکھنی ہے یہ بات بھولنی نہیں ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ

فقیر کی جو نظر ہے اُس کا اثر چالیس سال تک رہتا ہے۔ اگر وہ کسی پر پیار کی نظر ڈال دے تو چالیس سال تک وہ پیار کی نظر اُس پر پڑی رہتی ہے۔ اِن چالیس سالوں میں اُس سے جو گناہ بھی ہوتے رہے وہ بھی اُس کے زیرِاثر آکر دُھلتے رہتے ہیں۔

چالیس سال تک اگر ایک دفعہ فقیر کسی کو پیار سے دیکھ لے اور پیار سے دیکھنا کیا ہوتا ہے؟ پیار سے دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ جیسے یہ لڑکا متیش ہے پڑھا لکھا ہے، سِول انجینئر، کھاتے پیتے گھرانے سے، ہمارے لئے یہاں آیا، ہم سے پیار کرتا ہے۔ ہم نے ایک جگہ اِس کو کہہ دیا کہ بیٹھ جاوٴ صبح شام وہاں بیٹھا رہتا ہے، نہ کوئی پیسہ نہ کوئی تنخواہ کچھ بھی نہیں۔ ہماری وجہ سے گالیاں بھی سنتا رہتا تھا، ہماری وجہ سے سارا دن لگا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیٹھ کے یہ خیال آتا ہے کہ یہ یہاں سے وہاں آگے پیچھے اِدھر اُدھر گلاس اُٹھائے جُوسز کے جارہا ہے تو اُس وقت جب یہ خیال آتا ہے یار یہ کیوں کررہا ہے، یہ تو سِول انجینئر ہے پڑھا لکھا آدمی ہے کوئی نوکری کرے تو لاکھوں پاوٴنڈ کمائے، یہ ہماری خاطر بیٹھا ہوا ہے۔ ہماری خاطر اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ رہا ہے، یہ سوچ کر پھر اچانک پیار کی نظر پڑتی ہے۔ ابھی ذکرگکر کو چھوڑ دو، تم کو پتہ نہیں ہے کہ یہ ایک پیار کی نظر کیا ہوتی ہے! ابھی چھوڑدو کہ ذکر چلتا ہے یا نہیں، تم کو اِس نظر کا پتہ ہے کہ یہ کیا ہے! ایک دفعہ پیار سے دیکھ لیا یہ تصور خیال آیا کہ یار یہ میری خاطر کیسے بھاگ دوڑ کررہا ہے کبھی اِدھر کبھی اُدھر میرے لئے کررہا ہے میرے لئے آیا ہے تو بڑے پیار سے اُس کو دیکھا۔ وہ ایک نظر اگر پڑگئی نا وہ زندگی بھرکیلئے کافی ہے۔ وہ ایک دفعہ نظر پڑگئی چالیس کیلئے تو اُن چالیس سالوں میں کوئی آفت اگر اُس کے اوپر آئے گی تو نظر اُس کو جلادے گی۔ کوئی مصیبت اُس کے اوپر آئے گی نظر اُس کو جلادے گی۔ کوئی گناہ بھی اُس سے ہوتا رہا تو وہ نظر اُس کو جلاتی رہے گی نا۔ اور اگر یہ چالیس سال سے پہلے پہلے مرگیا وہ پیار کی نظر اِس کی قبر کے اوپر پڑنا شروع ہوجائے گی، اِس کی قبر زندہ ہوجائے گی۔ فقیر کی نظر ہے۔ یہ پیار کی نظر ہے۔

فقیر کے غصے کی نظر کے انسان پر اثرات کیا ہوتے ہیں؟

جو اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اور اللہ تعالیٰ کا جو غضب بھی اِس دنیا میں گھومتا پِھرتا ہے لیکن اگر تم کسی فقیر کی نظروں میں آگئے ہو تو اللہ کی رحمت تو تیرے پاس آئے گی اُس کا غضب تیری طرف رُخ نہیں کرے گا۔ اور اگر وہ ایک نظر ناپسندیدہ غصے سے اُٹھ گئی تو چالیس سال تک اُس نظر کا اُس غصے کا اثر رہے گا۔ اُن چالیس سالوں میں کوئی رحمت نہیں آسکتی، کوئی نبی کوئی ولی کوئی مرشد تیری اللہ سے سفارش نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اہلِ نظر کو وہ فقیرکی وہ ناراضگی کی نظر، نظر آتی ہے۔ اُس کی کوئی شفاعت نہیں کرسکتا۔ جب وہ غصے کی نظر فقیر کی اُس پر پڑجاتی ہے تو اب اللہ پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس پر لعنت برسانا شروع کرے۔ پڑھو قرآن کہتا ہے کہ

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
سورة الاٴحزاب آیت نمبر 57
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اذیت دیتے ہیں، اُن کے اوپر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اِس دنیا میں بھی پڑتی رہے گی اور آخرت میں بھی وہ لعنت کی زد میں ہونگے۔

اُس کا بدلہ یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ وہ تمہیں چُٹیا پکڑکے مارے گا وہ تو بس دیکھ ہی لے اور دیکھے بھی نہ اُس کے دل میں خیال آجائے کہ اِس نے میرا مان نہیں رکھا، اِس نے نسبتِ گوھر شاہی کا پاس نہیں رکھا، اِس نے مجھے اور میرے مرشد کو رُسوا کیا ہے، بڑا دل دکھا اِس بات سے، یہ سوچ ہی آگئی تو تباہی اور بربادی کیلئے کافی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی فقیر کی بددُعا لے لیتے ہیں وہ بددُعا یہی نظر ہوتی ہے۔ یہ نظر اگر کسی پر پیار کی پڑجائے تو اُس کی زندگی سنوار دیتی ہے اور اگر یہ نظر غضب کی پڑجائے تو تباہ کردیتی ہے۔ آپ یقین کریں ہم آپ کو سچ بتارہے ہیں اگر فقیر اپنے غصے کی نظر زمین پر کردے نا تو چالیس سال تک وہاں پر کوئی فصل نہیں اُگ سکتی، زمین بنجر ہوجاتی ہے۔ وہی نظر کسی عورت پر کردے تو چالیس سال تک وہ بانج ہوجائے گی اولاد نہیں ہوسکتی کیونکہ اُسی نظر سے بے اولادوں کو اولاد بھی تو ملتی ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو کہیں سمجھ جائیں، سرکار کی بارگاہ میں توبہ تائب ہوجائیں۔ لیکن ہمارے چاہنے سے کچھ ہوتا نہیں ہے۔ جو لعنت کی زد میں ہوں اُن کو یہ بات سمجھ میں آتی نہیں ہے کہ ہم توبہ تائب ہوجائیں وہ کہتے ہیں ہم حق پر ہیں۔ ہم ساتھ ساتھ روحانی بھی بات آپ کو بتاتے چلیں گے جیسے ہم نے وہم کے بارے میں بتایا۔ وہم کا مطلب اگر آپ dictionary میں دیکھیں تو وہم کا مطلب ہے دھوکہ فریب۔ بہت سے لوگ وہم کی بیماری میں ہوتے ہیں وہم ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ وہم mental بیماری نہیں ہے، یہ فرشتے آکر اِس طرح کے باطنی کیڑے چھوڑتے ہیں۔ نفرت کے باطنی کیڑے چھوڑتے ہیں، شہوت کے باطنی کیڑے چھوڑتے ہیں۔ وہ کیڑے آکے اندر گُھس گئے، آدمی کو بلاوجہ کی شہوت ہوگئی۔ وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیا ہوگیا ہے یہ تو کتے کی طرح زبان نکال کر ہر وقت گھومتا رہتا ہے لیکن وہ شہوت کے جو کیڑے ہیں۔ یہ باطن میں کام روزانہ ہوتے رہتے ہیں، روزانہ اوپر سے کیڑے پھینکے جاتے ہیں، یہ کوئی جانتا ہی نہیں ہے۔ اِن کی protection صرف اُنہی کے پاس ہے یا تو جو ذاکرِقلبی ہیں یا کسی کے سائے میں ہیں کسی کی نظر میں ہیں۔ اگر تم ذاکرِقلبی ہو یا کسی کی نظر میں ہو تو پھر تم محفوظ ہو۔ اور اگر نہیں ہے تو وہ بس تمہارے اندر کیڑے گِرتے رہیں گے۔ اور یہ ہی وجہ ہے لوگوں کو دیکھو بلاوجہ وہم کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور شہوت کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کتنے لوگ ہیں کہ اب یہ جو nude ڈانسر ہوتے ہیں جہاں پر عورتیں پُول ڈانس کرتی ہیں nude ڈانس کرتی ہیں انڈیا میں امریکہ میں بہت ہیں۔ اور لوگ اُن کے قریب ہوکرکے جسم کے شرم گاہ کو دیکھتے ہیں۔ یہ انسانیت کی توہین نہیں ہے! یہ انسانیت کی توہین ہے۔ لوگ اتنے بے غیرت کیسے ہوگئے؟ وہی شہوت کے کیڑے ہیں جنہوں نے آدمیت کا فرق اُن سے نکال دیا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 جولائی 2022 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس