کیٹیگری: مضامین

نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس مسلمانوں میں متنازعہ :

یہ ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے جس میں محمدؐ اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔ محمدؐ کی سوانح حیات پر ہزاروں کتابیں موجود ہیں لیکن کسی کتاب میں بھی حضورؐ کی باطنی شخصیت کا باطنی تعارف نہیں ملتا ہے۔ جو لوگوں کو حضورؐ کے بارے میں بتایا گیا ہے وہ مکمل تعارف نہیں ہے۔ حضورؐ کا باطنی تعارف عوام الناس کو پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے لوگ روحانیت سے آشنا ہی نہیں ہیں اور نہ ہی نبی کریمؐ کی باطنی طاقت و فراصت سے آشنا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا مسلمان نبی کریمؐ کی ذات کے معاملے میں ایک دوسرے سے بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ آج دینِ اسلام میں کئی فرقے موجود ہیں اُن میں سے کچھ ایسے ہیں جو محمد الرسول اللہ کی بہت عزت و تکریم کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی موجود ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور نبی کریمؐ کی شان گھٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ حضورؐ کی شخصیت کا باطنی تعارف پیش کریں اورہمیں یقین ہے کہ جب لوگوں کو حضورؐ کی شخصیت کا باطنی رخ پتہ چلے گا تو اُن کا قلب اطمینان سے بھر جائے گا اور وہ اس تعلیم کو روحانیت سے منسوب کر سکتے ہیں۔ اب جو نوجوان طبقه اکیسویں صدی میں ہے وہ بالکل روحانیت سے نابلد ہے۔ ان نوجوانوں نے وہ کتابیں پڑھی ہیں جو اُن لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جن کو روحانیت کا پتہ ہی نہیں ہے۔ یہاں لفظ (Education) کی تشریح کرنا بہت ضروری ہے، اصل تعلیم کی تعریف یہ ہے کہ آپ کو معلومات فراہم کی جائے اور پھر اس کی ٹرینگ دی جائے پھر یہ مکمل تعلیم کہلائے گی۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ مذہب کے بارے میں صرف جاننا چاہتے ہیں اور کوئی ٹریننگ اس میں شامل نہیں ہے۔ جہاں دین کی تعلیم کی بات آتی ہے تو لوگوں کو صرف تعلیم دی جاتی اسکی ٹریننگ نہیں دی جاتی کیونکہ کوئی دوسرا ٹریننگ دینے والا اِس دور میں موجود ہی نہیں ہے۔ روحانیت میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ نبی کریمؐ بہت سخت اور بھرپور ٹریننگ سے گزرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن کو محمد الرسول اللہ سے تربیت ملی وہ عظیم لوگ ہیں۔ جن کو عیسٰیؑ سے تعلیم و تربیت ملی وہ عظیم لوگ ہیں۔ اگر آج کوئی مذہب اسلام، عیسائیت کے بارے میں قرآن اور بائبل کی مدد سے جاننا چاہتا ہے تو انہیں صرف تعلیم میسر آتی ہے، تربیت کا کوئی عنصر اس میں شامل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن روحانیت میں صرف تعلیم کا ہونا کافی نہیں ہے، روحانیت میں زیادہ اہمیت تربیت پر دی جاتی ہے۔ مجھے اس بات کی حیرانی ہوتی ہے لوگ مذہب پر عمل پیرا ہونے سے پہلے خود کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیوں نہیں کرتے ہیں جبکہ زندگی کے ہر شعبے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اسکی تربیت بھی لینی پڑتی ہے۔ ہم لوگوں کی تعلیم و تربیت نبی کریمؐ کے بارے میں کرنا چاہتے ہیں جیسے ہم نے عیسیٰ کی باطنی شخصیت پر گفتگو کی، بالکل اسی طرح آپکو اس بات کی ضرورت ہے کہ آپکے نبی کون ہیں؟ اُنکا روحانی تصرف کیا ہے؟ وہ کیا کر سکتےہیں اور کیا نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو پتہ ہوگا کہ آپ اپنے نبی سے کیا لے سکتے ہیں تو یقینا ان کو مدد کیلئے پکاریں گے۔ لیکن اُمتِ مسلمہ کوحضورؐ کی شخصیت و مرتبے کے بارے میں ہمیشہ اُلجھایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ محمدؐ ان کیلئے کیا کرسکتے ہیں اور ہمارے دینی اسکالرز کا یہ حال ہے کہ انہوں نے حضورؐ کے بارے میں اچھا گمان لوگوں کو نہیں دیا ہے۔ اگر کسی مسلمان سے آج یہ پوچھا جائے کہ محمد الرسول اللہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے ہیں تو انکے پاس اسکا جواب نہیں ہے۔ اور وہ کام جس میں آپ سمجھتے ہیں کہ محمد الرسول اللہ آپ کی مدد نہیں کر سکتے وہاں بھی وہ آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے وہ مدد نہیں کر سکتے لیکن عملی طور پر وہ مدد کر سکتے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر اللہ ہدایت دیتا ہے لیکن صرف محمد الرسول اللہ کے زریعے دیتا ہے۔ اللہ سے آپکو ہدایت میسر ہوسکتی ہے لیکن یقیناً وہ ہدایت براہِ راست نہیں ہے کیونکہ اللہ سے آپ کا براہِ راست رابطہ نہیں ہے۔ اس کیلئے محمدؐ کا وسیلہ درکار ہے۔ بائبل میں بھی لکھا ہے کہ (You can only come to the father through me)۔ بائبل کے مطابق بھی اللہ کے وصال تک پہنچنے کا راستہ صرف عیسیٰ کے زریعے ہی جاتا ہے۔ یہ سازش رہی ہے کہ خبیث ملاؤں نے نبی کریمؐ کی ذاتِ اقدس کو مسلمانوں میں مسلمانوں کے ذریعے متنازعہ بنا دیا ہے۔ کبھی حضورؐ کی فطرت، کبھی طاقت و قوت پر تبصرہ تو کبھی صلاحیتوں پر شکوک و شبہات کا اظہار۔ جو اللہ نے محمد الرسول اللہ کو محبت دی کبھی اُس پر شکوک و شبہات کا اظہار۔ مسلمانوں نے محمد الرسول اللہ کا ایک متنازعہ کردار بنا کر پیش کیا ہے۔ عام آدمی سے بغض و عناد اور حسد کرنا اچھی بات نہیں ہے لیکن وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے محمد الرسول سے حسد کیا اور کرتے ہیں! ایسے لوگ آج بھی زندہ ہیں اور مختلف نسلوں میں چلے آ رہے ہیں اور جان بوجھ کر آج تک امیر معاویہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ یزید کے چہیتے بنے ہوئے ہیں اور امیر معاویہ کے نعرے لگاتے ہیں اور خود کو سنتوں کا پرچار کرنے والے کہلاواتے ہیں، غلامانِ مصطفیٰ، عشقانِ مصطفیٰ کہلاتے ہیں، جن کی ہر بات میں مدینہ مدینہ ہوتا ہے اور مدینے والے کا کلیجہ چبانے والے کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ اس کو علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری میں بیان کیا تھا کہ
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا۔۔۔۔رُوحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات ۔۔۔۔۔اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو

اور یہ ہوا آج وہاں محمد الرسول اللہ کا کوئی نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر فرقے کا نبی کریمؐ کی ذات کے بارے میں مختلف عقیدہ ہے۔ آج کا مسلمان فرقہ واریت کا شکا ر ہے۔ کوئی توحید کی آڑ میں محمدؐ کو فراموش کر تا ہے، کوئی امیر معاویہ کا نعرہ لگاتا ہے اور کوئی صحابہ کا علم اُٹھا کر نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کرتا ہے، کوئی مولیٰ علی کا نعرہ لگا کر محمدؐ کی ذات کو نظر اندازکرتا ہے لیکن جس کی نظروں نے علی کو بنایا تھا اس کو بھول جاؤ۔ امام بارگاہوں میں بیٹھ کر درود اس لئے پڑھتے ہوکہ آل پر پڑھا جارہا ہے، محمدؐ پر درود کیوں نہیں پڑھا جا رہا ہے؟ پہلے ذات محمدؐ پھر بعد میں آل۔ اگر علی ، فاطمہ ، حسن و حسین پہلے کھڑے ہیں اور محمدؐ پیچھے کھڑے ہیں تو پھر یہ گمراہی ہے، محبت نہیں ہے۔ کوئی حضورؐ کی عزت کرے تو کہتے ہیں شرک ہے اور کوئی درود و سلام پڑھے تو کہتے ہیں بدعت ہے۔ کوئی حضورؐ سے مانگے تو کہتے ہیں شرک ہے جبکہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ

اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي
صحیح البخاری 7312 جلد 9 حدیث 415
ترجمہ: میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔

نبی کریمؐ تو قاسم ہیں اور بانٹنے والے ہیں۔ اب وہ تقسیم براہِ راست آپ کو تو نہیں ہوگی کیونکہ اللہ محمد الرسول اللہ کو عطا کرے گا اور محمد الرسول اللہ بانٹیں گے۔ لہذا بانٹنے والے سے مانگنا پڑے گا۔ اصل مشرک تو وہ ہیں جو ایسا پروپیگنڈا پھیلاتے ہیں کہ محمدؐ سے مانگنا بھی شرک ہے۔ درحقیقت یہ مردود لوگ ہیں اور لوگوں نے انہیں اسکالرز کا خطاب دے رکھا ہے۔ ہمیں یہ تہیہ کرنا ہوگا کہ حضورؐ کی عظمت اور ناموس کو دنیا پر واضح کرکے چھوڑیں گے۔ حضورؐ کا وہ چھپا ہوا حُسن جس پر اللہ فریفتہ ہوا ہے وہ حسن دنیا کو دکھانا ہے۔ وہ محبت جو اللہ کے دل میں اپنے محبوب کیلئے ہے، کیا ایسی محبت حضورؐ سے کرنا سنت الہی نہیں ہے! محمدؐ سے ایسا عشق کرو جیسے اللہ نے کیا، محمدؐ کی وہ عزت کرو جو عزت اللہ نے دی۔ اپنے عقیدوں میں محمد الرسول اللہ کو نہ تولو، للہیت کے ترازو میں حسنِ مصطفی کو رکھو۔ اللہ کی نظر سے محمدؐ کو دیکھو۔
اس وقت مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ وہ لوگوں کو ذہنی، دینی، حبی اور جذباتی طور پر مسلمان، مسلمانوں کو محمد الرسول اللہ سے دور کر رہا ہے اور آپ ایک کونے میں بیٹھ کر بارہ ربیع الاول منا رہے ہیں، یہ آپ کا عشقِ مصطفیٰ ہے۔ اگر تمھارے دل میں ذرا سی بھی غیرت ایمانی اور محبت رسول ہے تو کھڑے ہو جائیں اور مسلمانوں کے دلوں میں دوبارہ عظمتِ مصطفیٰ کو بیدار کرنے کا بیڑا اُٹھا لو۔ دلوں میں دوبارہ عظمت و ادب مصطفیٰ کی شمع روشن کرو۔ یہ کوشش کہ مسلمانوں کے دلوں میں دوبارہ قندیل مصطفیٰ روشن ہو جائے اس سے بڑھ کر کوئی ربیع الاول کی خوشی نہیں ہے۔ اس عقیدے کو دنیا پر روشن کرو اور عظمتِ مصطفیٰ اور محبتِ مصطفیٰ کی بات کرو کیونکہ محمدؐ کی عظمت سے امام مہدی کی عظمت جڑی ہے۔ جو حضورؐ کو نہیں مانتا وہ مہدی کو نہیں مانے گا۔ جو محمد الرسول اللہ کا ادب نہیں کرے گا وہ امام مہدیؑ کا ادب نہیں کرے گا۔ جو محمد الرسول اللہ کا گستاخ ہوگا وہ امام مہدیؑ کا گستاخ ہوگا۔ لہٰذا لوگوں کا عقیدہ اور قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين
صحیح بخاری
ترجمہ: تم میں سے ایک شخص بھی موٴمن نہیں بن سکتا جب تک میں اُسے ماں، باپ اور پوری انسانیت سے ذیادہ محبوب ترین نہ ہو جاؤں ۔

حضورؐ کی محبت ہی اصل ایمان ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مدینے میں کیا ہے ایسے لوگوں کا کیا ایمان ہوگا! اگر کوئی روضہ رسول کو پیٹ نہ کرنے کی غرض سے اُلٹے قدم واپس آ رہا ہے تو وہاں کے متوے اُسے روک کر کہتے ہیں کہ ایسا کرنا شرک ہے، یہ تو سراسر محمد الرسول اللہ سے دشمنی ہے۔ جن قوموں کو اللہ نے تباہ کیا اُن میں سے ایک بھی گستاخِ مصطفی نہیں تھا۔ محمد الرسول اللہ کے چچا امیر حمزہ کا کلیجہ چبانے والی قوم اسلام کی حاکم بن گئی۔ وہ عورت ہندہ تھی جو امیر معاویہ کی ماں تھی اور آج لوگ امیر معاویہ کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ دشمنِ مصطفیٰ سے یاری اور عشقِ مصطفیٰ کا دعویٰ۔

امام مہدیؑ کے جسمِ اطہر میں محمد الرسول اللہ کی ارضی ارواح موجود ہیں جس جس کو حضورسے دشمنی ہے خود بخود ارضی ارواح کی موجودگی کی وجہ سے وہ امام مہدی کا دشمن اور گستاخ ہو جائے گا۔

یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی حضورؐ کا ادب کرتا ہو اور امام مہدی گوھر شاہی کا ادب نہ کرے اور جو حضورؐ کا ادب کرتا ہے ممکن نہیں ہے کہ وہ امام مہدی کی بارگاہ میں موٴدب نہ رہے۔ یہ دشمنی ساڑھے چودہ سو سال سے چلی آرہی ہے۔ وہ روحیں جو دشمنِ مصطفیٰ بن کر آئیں تھیں آج وہی ارضی ارواح کفار و منافقوں کی دوبارہ اس دنیا میں موجود ہیں اور حضورؐ کی ارضی ارواح امام مہدی گوھر شاہی کے جسمِ مبارک میں موجود ہیں۔ وہی کاروبارِ دشمنی دوبارہ ہو رہا ہے۔ وہی کلیجہ چبانے والے اسی دور میں بھی موجود ہیں۔

سیدنا گوھر شاہی کی نظر میں تعارفِ مصطفیٰ:

سرکار سیدنا امام مہدی گوھر شاہی علیہ الصلوة والسلام حضورؐ کی ذات کے حوالے سے کیا فرما رہے ہیں

حضورنبی پاکؐ کی روحِ مبارک سے سات ہزار سال پہلے اللہ نے آپ کے لطیفہ قلب کو بنایا اور مقامِ محبت میں رکھا۔ پھر لطیفہ انا کو روح سے ایک ہزار سال پہلے بنایا اور اسے مقامِ وصل میں رکھا۔ اور پھر آدم علیہ السلام کو بنانے سے ستر ہزار سال قبل حضورپاکؐ کی روحِ انور کو بنایا اور اپنے روبرو رکھا۔ آدم علیہ السلام کے 5879 ہزار سال بعد نبی پاکؐ کے جسم کی تخلیق ہوئی اور پھر لطیفہ انا کو روح میں، روح کو دل میں اور دل کو جسم میں قید کر دیا۔ قلب پر 360 مرتبہ تجلی پڑتی ہے۔ لطیفہ انا پر 500 مرتبہ روزانہ نظریں ڈالی جاتی اور پھر روحِ مبارک کی تخلیق کے بعد عاشق معشوق کی طرح آمنے سامنے رہنے لگ گئیں اور جب یہ لطیفے جسم میں قید ہوگئے تو اس جسم پر ہر وقت اللہ کی نظر رحمت پڑنا شروع ہوگئی۔ ایک نظرِ رحمت سات کبیرہ گناہوں کو جلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی صحبت میں بیٹھنے والوں کے گناہ جلنا شروع ہوگئے اور وہ بغیر وظیفوں اور چلوں کے ولائت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے۔

یعنی لطیفہ قلب آپؐ کی روح سے سات ہزار سال پہلے بن چکا تھا۔ یہ جو عظمت سرکار گوھر شاہی نے ہمیں محمد الرسول اللہ کے بارے میں دی ہے وہ آپ ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں رکھیں تاکہ جب آپ قرآن پڑھیں تو آپکو پتہ ہوکہ حضورؐ کی روحِ مبارک سے سات ہزار سال پہلے اللہ تعالی نے آپ کے قلب کو بنا کر مقام محبت میں رکھا تھا۔ پھر لطیفہ انا کو بنا کر مقام وصل میں رکھا۔ جب یہ ذہن میں ہوگا اور پھر قرآن پڑھیں گے ۔

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ
سورة الضحی آیت نمبر 7
ترجمہ: جب ہم نے آپ کو گمراہ پایا تو ہدایت دی ۔

یہ ترجمہ مولویوں کا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج کے اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے معراج پر اللہ کو نہیں دیکھا بلکہ جبرائیل کو دیکھ کر آ گئے۔ سیدنا گوھر شاہی جو عظمتِ مصطفیٰ بتا رہے ہیں کہ آدم علیہ السلام کو بنانے سے ستر ہزار سال پہلے بنایا اور اسکو اپنے روبرو رکھا۔ آدم علیہ السلام کے 5879 ہزار سال بعد نبی پاکؐ کے جسم کی تخلیق ہوئی اور پھر لطیفہ انا کو روح میں، روح کو دل میں اور دل کو جسم میں قید کر دیا۔ جب آپ پیدا ہوئے ہیں تو اس میں دل وہ ہے جو ہزاروں سال مقامِ محبت میں رہ کر آیا ہے، روح وہ ہے جس کو تخلیق کرکے اپنے روبرو رکھا ہے، جو لطیفہ انا ہے وہ پیدا ہونے سے پہلے مقامِ وصل میں ہے اور جب ان سب کو جسمِ اطہر میں یکجا کیا ہے تو وہ جسم سراپا نور اور مرکز تجلیات بن گیا۔ ولیوں کے اوپر 360 تجلی پڑتی ہے لیکن حضورؐ کے قلب پر روزانہ 360 تجلیاں پڑتی ہیں، لطیفہ قلب پر روزآنہ 500 تجلیاں پڑتی ہیں۔
حضورؐ کی پیدائش سے پہلے قلب کو مقامِ محبت میں رکھا اور اُس مقام پر 360 تجلیاں پڑ رہی ہیں ، لطیفہ انا کو مقام وصل میں رکھا ہوا ہے اور 500 تجلیاں روزانہ پڑ رہی ہیں اور جب یہ ساری چیزیں جسم میں یکجا کی گئیں اور آپ اس دنیا میں تشریف لے آئے تو پھر اب پورے وجود پر اللہ کی تجلی پڑنا شروع ہوگئی۔ یہ تعارف جو محمد الرسول اللہ کی ذاتِ والا کے بارے میں سرکار سیدنا گوھر شاہی نے پیش کیا ہے۔ اگر یہ تعارف معلوم ہوگا اور پھر وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ جیسی آیتیں پڑھو گے تو پھر کہو گے یہ کیسی بات کہہ دی اور اگر یہ آیت اس تعارف کے بغیر پڑھو گے تو کہو گے کہ اُنکو ہدایت ہی نہیں تھی وہ تو گمراہ تھے۔ آپ کا جسم سراپا نور اور تجلیات کا مرکز اور ہر وقت اللہ کی نظرِرحمت پڑتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ آپؐ کی صحبت میں بیٹھے وہ بھی نظرِ رحمت میں آگئے اور اُنکے گناہ بغیر چِلّوں اور ریاضتوں کے جلنا شروع ہو گئے۔ یہ صحبتِ رسول کا ثمر ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 10 اکتوبر 2021 کو ربیع الاول کی خصوصی محفل سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس