کیٹیگری: مضامین

لطیفہ نفس کی حقیقت:

حقیقت اور بنائی ہوئی باتوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان اپنی طرف سے کچھ باتیں گڑھ لیتا ہے اور اُنکو مصدقہ سمجھتا ہے ۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ سرکار گوھر شاہی امام مہدی ہیں اور اُنکا نفس ہی نہیں ہے تو یہ بات تعلیماتِ گوھر شاہی کے خلاف ہے۔ جو لوگ اسطرح کی باتیں کرتے ہیں نہ اُنھیں روحانیت کا کچھ پتہ ہے، نہ دین کے بارے میں کچھ پتہ ہے اور نہ ہی قرآن کے بارے میں کچھ پتہ ہے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ

عن ابی مسعودؓ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ما منکم من احدالا وقد و کل بہ قرینہ من الجن ، و قرینہ من الملائکتہ : قالو و ایاکہ یا رسول اللہ ؟ قال: وایای ، الا ان اللہ اعاننی علیہ ، فاسلم فلا یا مرنی الا بخیر
رواہ مسلم ، خازن 181/3
ترجمہ: جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اسکے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیدا ہوتا ہے، تو صحابہ کرام نے فوراً پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا آپکے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا؟ تو آپؐ نے فرمایا! ہاں، وہ میرے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا لیکن وہ میری صحبت کی وجہ سے پاک ہوگیا ۔

اس حدیث مبارکہ میں روشنی میں سمجھ میں آتا ہے کہ نبی کریمؐ کی ذاتِ والا میں بھی نفس تھا جوکہ امام الانبیاء ہیں اور وجہہ تخلیق کائنات ہیں ۔ جب آپ میں بھی نفس تھا تو پھر ہم کیسے مانیں کہ امام مہدی کے جسم اطہر میں نفس نہیں ہے۔ کوئی کائنات میں ایسا نبی، ولی، مرسل نہیں آیا کہ جس کے ساتھ لطیفہ نفس نہ پیدا ہوا ہو۔ سرکار گوھر شاہی کی منظوم کتاب “تریاق قلب” میں بھی لطیفہ نفس کا ذکر موجود ہے۔ نجی گفتگو میں بھی سرکار گوھر شاہی نے فرمایا ہے کہ اللہ کے مختلف جلوؤں کا جسم میں آنا جانا ہوتا ہے ۔ کبھی سرکار سیدنا گوھر شاہی کی صورتِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کی جلوہ نمائی ہے اور کبھی نبی کریمؐ کی روحانی جلوہ نمائی ہے۔ تو ایک دن ارشاد فرمایا کہ اگر تم یہ جاننا چاہو کہ میری صورت میں میں ہی سامنے بیٹھا ہوں تو پھر یہ بات نوٹ کرنا کہ اللہ تعالی نے ہمیں خوش باش لطیفہ نفس دیا ہے ، اسکی وجہ سے ہمارے بہت سے کام آسان ہو گئے۔ جب ہم خود ہوں گے تو ہمارا نفس نفیس خوش باش ہے لہذا ہم ہنسیں گے اور مذاق بھی کریں گے۔ اور جب ہم بہت ہی سنجیدہ بیٹھے ہوئے ہیں اتنے سنجیدہ کہ کسی کی سانس لینے کی جرات نہیں ہے تو پھر سمجھ جانا کہ سامنے اللہ تعالیٰ کا کوئی جلوہ ہے۔ لہذا اگر کوئی سرکار کا ماننے والا سرکار گوھر شاہی کی باتوں کو ہی جھٹلا دے تو اُس سے بڑا مردود کون ہوگا۔
کتاب مقدس دین الہی میں سرکار گوھر شاہی نے حضرت عیسیؐ کی قبر انور کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے کہ “کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ کا مزار کشمیر میں ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ افغانستان میں ہے۔ قبر کے حوالے سے جو مزار اور قبر کا پراپگینڈا کیا جاتا ہے وہ سارا غلط ہے اور جھوٹ کا پلندا ہے ۔اور جس کا مزار ہے وہ کسی عیسیٰ نامی بزرگ کا ہے ۔عیسیٰ کہاں ہیں ؟ تو سرکار گوھر شاہی نے اپنی کتاب میں فرمایا اور وہ قرآن سے بھی ثابت ہے کہ عیسیٰ کو اللہ نے جسم سمیت آسمان پر اُٹھا لیا۔اکثر مسلمانوں کا یہ مسئلہ ہے کہ جو کچھ ماضی میں ہو گیا اور قرآن و حدیث میں آگیا تو کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو اسکو بڑی آسانی سے مان لیں گے لیکن اگر اُنکے دور میں ہی ایسی کوئی انہونی بات ہوتی ہے تو اسکو ماننا انکے لئے ممکن نہیں ہے۔ جیسے نبی کریمؐ کا معراج پر جانا۔ آج کا مولوی یہ کہتا ہے کہ وہ معراج شریف جسمانی نہیں بلکہ روحانی تھی۔ اور جو ماضی کے علماء گزرے ہیں انہوں نے آسانی سے مان لیا۔ نبی کریمؐ کے حوالے سے ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آپ نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے اور یہ ماضی میں ہوا ہے تو اُسکو مانتے ہیں ۔ لیکن حال میں ہی جب چاند پر سرکار گوھر شاہی کی تصویر مبارک آئی ہے تو کہتے ہیں کہ چاند پر تصویر کیسے آئی ہے۔ اور جب وہ تصویر واضح نظر آجاتی ہے اور حق ثابت ہوجاتا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ چاند کوئی حق کی دلیل تھوڑی ہے ۔حضورؐ نے جب چاند کے دو ٹکڑے کئے تو کفار نے کہا کہ یہ تو جادو ہے ۔اُس وقت حضورؐ نے فرمایا کہ چاند پر جادو نہیں ہو سکتا۔ لو آپ اپنے دام میں سیاد آ گیا۔ شق القمر کے واقعے کو ہر مسلمان دل سے مانتا ہے اور اُسی قرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
سورة فصلت آیت نمبر 53
ترجمہ: مستقبل میں ہم اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں اور تمھاری جانوں میں، جبتک اُن پر واضح نہ ہو جائے کہ وہ حق ہے ۔ تمھارے رب نے کہہ دیا ہے یہ کافی ہے اور وہ ہر چیز پر حاضر ہے ۔

اب یہ جن نشانیوں کا اللہ نے فرمایا ہے کہ افق پر نشانی ہے اس میں چاند پر سرکار گوھر شاہی کی تصویر مبارک ہے اور اسکے ساتھ نام اور مہدی بھی لکھا ہوا ہے ۔اسکے علاوہ سورج میں بھی تصویر مبارک ہے اور الرٰ بھی وہیں لکھا ہوا ہے ۔اور جانوں میں نشانی دھڑکتے ہوئے دلوں میں رب کا نام ہے۔اس دور میں دل کا اللہ اللہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔اس سے جڑا ایک واقعہ بھی ہے کہ ہم (یونس الگوھر) 1994 میں فرانس کے ایک شہر پیرس میں سرکار گوھر شاہی کے ساتھ تھے اور بیسویں منزل پر ایک اپارٹمنٹ میں سرکار کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب لفٹ سے نیچے گئے ہیں تو دو تین منزل کے بعد ہی لفٹ بند ہو گئی اور وہاں چار پانچ گھنٹے بند رہے۔ جب نکلے تو واپس اپارٹمنٹ میں گئے اور باہر سٹینگ میں ہی کھڑے ہو گئے اور ایسا محسوس ہوا کہ پوری بلڈنگ ہل رہی ہے اور خطرناک چکر آ رہے ہیں ۔اور اسوقت خیال یہ آیا کہ میں سرکار کے پاس دم کرانے کیلئے جاتا ہوں اور قدم وہاں بڑھا دئیے تو فوراً سرکار کی آواز آئی کہ یونس کمرے کے اندر آ جاؤ۔ میں جلدی سے اندرگیا تو سرکار نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور دم کیااور پھر فرمایا کہ ابلیس نے حملہ کیا ہے ۔ پھر سرکار نے اس واقعے کی تشریح بھی فرمائی اور فرمایا کہ ” پیرس دنیا میں شیطان کا سب سے بڑا اڈا ہے اُس نے آج وار کیا ہے اور ہمارا بیس سال پختہ ذکر ایک لمحے کیلئے بند ہو گیا ، پھر فرمایا کہ اب زرا غور کرو کہ ہمارا بیس سالا پرانا ذکر اس حملے کی وجہ سے بند ہو گیا تو کسی عام انسان کا ذکر قلب کیسے جاری ہو سکتا ہے اورپھر بھی کسی کا ذکر قلب جاری ہو گیا تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اللہ رسول نہیں بلکہ کسی بہت بڑی ہستی کا کرم ہو گیا ہے “۔جس ہستی کے تصرف کا عالم یہ ہے کہ خود وہ حملہ ہوتا ہے اوروہ ذکر قلب بند ہو جاتا ہے اور خود کوئی حفاظتی انتظام نہیں کیاہے تو پھر وہ بیس سالا پرانا ذکر بند ہوا ہے ۔ یہاں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر اس دور میں آج سے ستائیس سال پہلے داتا اور خواجہ پیرس میں ہوتے تو اُنکا ذکر بند ہو جاتا۔ جب بیس سالا پرانا ذکر بند ہو گیا تو پھر نئے سرے سے کسی کا قلب اسم ذات سے زندہ کیسے ہو گا۔لہذا اس دور میں جہاں سلطانوں، فقیروں اور ولیوں کا ذکر قلب ابلیس کے جال میں زیر عتاب آسکتا ہے تو اس دور میں کسی کاذکر قلب جاری ہونا اللہ کی نشانی ہے کہ یہ میری طاقت ہے۔ جانوں میں نشانی کا ظہور یہی ہے۔ یہ سرکار گوھر شاہی نے تجربہ کیا تھا کہ جب شیطان کا حملہ ہوتا ہے تو کیا ہوتاہے اسی لئے کوئی حفاظتی انتظام نہیں فرمایا تھا۔ لیکن آپ اندازہ لگائیں کہ اُس ذاتِ والا کی طاقت کیسی ہو گی جو ایک لاکھ اسی ہزار جالے والے قلب کو بھی ایسے ملک اور شہر میں زندہ کر دے، جس قلب میں شیطان بیٹھا ہوا ہے، اُس بندے کے ہر وجود میں لقمہ حرام کا ہے اور پھر ہم جیسے لوگوں کا ایک نظر میں سرکار گوھر شاہی قلب زندہ کرتے ہیں اور ذکر اللہ بسا دیتے ہیں تو کیسا تصرف ہو گا، اتنا تصرف ہو گا کہ اس تصرف کو اللہ نے اپنی نشانی قرار دے دیا ہے۔ ادائے گوھر شاہی کو اللہ نے اپنی نشانی قرار دے دیا ، کہ اسم ذات اللہ سے لوگوں کے قلوب کو زندہ کریں کیونکہ اس دور میں کوئی یہ کام کرنے والا نہیں ہے اس لئے اللہ کی نشانی قرار پائی۔جیسے جیسے شیطانیت میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ویسے سرکار گوھر شاہی کی جودوسخا بھی بڑھ رہی ہے ۔ لوگ ویڈیو دیکھتے ہیں اور تمنا بیدار ہوتی ہے کہ کاش ہماری سرکار گوھر شاہی سے ملاقات ہو گئی ہوتی اور پھر سرکار گوھر شاہی اُس کے خواب میں آ کر نواز دیتے ہیں ۔یہ کرم ہے سرکار گوھر شاہی کہ اُنکی ایک ادا کو اللہ اپنی نشانی قرار دے رہا ہے ۔
مانچسٹر کے دورے کے دوران ایک عراقی سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں آیا وہ خود کو امام مہدی سمجھتا تھا تو سرکار سے اُس نے سوال کیا کہ کیا آپ ایک نظر میں میرے سارے لطیفے بیدار کر سکتے ہیں ؟ سرکار نے فرمایا کہ سات لطیفے کیا ہم تو ایک نظر میں تمھیں اللہ تک پہنچا سکتے ہیں لیکن تجھ میں تاب ہے یا نہیں ! اس بات سے آپ اندازہ لگائیں کہ سرکار گوھر شاہی کا تصرف کیا ہو گا ۔ اس لئے عظمتِ گوھر شاہی کا پرچار بہت ضروری ہے اور غیبت کے اس دورانیے میں ہم عظمت گوھر شاہی لوگوں پر آشکارہ کر رہے ہیں ۔عیسیٰ امام مہدی کے مریدوں میں ہوں گے اور اُنکی عظمت کے قصے قرآن میں درج ہیں تو اُن کے مرشد کی عظمت کو کیوں نہ بتایا جائے۔ سرکار گوھر شاہی کی ذات لافانی ہے اور کسی مصلحت کی وجہ سے غائب ہوئے ہیں غیر حاضر نہیں ہیں ۔ غائب کا مطلب ہے کہ موجود ہیں لیکن نظروں سے اوجھل ہیں ، جب سرکار گوھر شاہی کی مرضی ہو گی تو وہ نظر آنا بھی شروع ہو جائیں گے۔

نبیوں اور ولیوں میں لطیفہ نفس کا ہونا کیوں ضروری ہے؟

کوئی نبی، کوئی اولاالعزم مرسل، کوئی فقیر، کوئی سلطان، آدم صفی اللہ سے لے کر محمد الرسول اللہ تک اور پھر مولیٰ علی سے لے کر امام مہدی کی ذات تک کوئی ایسا نہیں ہے جس میں اللہ نے لطیفہ نفس نہ رکھا ہو۔ جس جہان میں ہم رہ رہے ہیں وہ عالم ناسوت ہے جو کہ اللہ نے جنات کیلئے بنایا تھا۔ اسی لئے ہمارے اندر ہمارا پنا ایک نوکر جن ہونا چاہیےجس کی وفا داریاں ہمارے ساتھ ہوں، جس کی تربیت ہم نے اپنے نور سے کی ہو ، جس کی حفاظت کیلئے ہمارے سینے میں پانچ لطائف ہوں ، وہ لطیفہ نفس ہمارے وجود میں ہو تاکہ ہم جنات سے محفوظ رہیں ۔تاکہ نبی کی اُمت جنات سے محفوظ رہے۔ نبی یا ولی کے لطیفہ نفس کے زیر اثر آکر شیطان جن کے شر سے محفوظ ہو جائیں اور یہ ایک راز ہے ۔ اگر نبیوں ، ولیوں اور فقیروں میں لطیفہ نفس نہ ہوتا تو جنات سے اُمتیوں اور مریدوں کو کون بچاتا ۔یہ ضروری ہے کہ ہمارے اندر ہمارا اپنا تربیت یافتہ ایک ایسا جن ہو جو آپ کی اندر کی صحبت سے ، تجلی کی زد میں آ کر نفس مطمئنہ بن گیا جب وہ جن آپکے اندر بیٹھا ہو گا تو پھر دنیا میں جوخبیث، شقیق، داؤس جنات گھوم رہے ہیں وہ آپ کی زیر نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اُن سے زیادہ طاقتور ہے۔عام آدمی کے اندر جو لطیفہ نفس ہے وہ تو خود شیطان کا مرید ہے اسی لئے تم پر جادو ہو جاتا ہے اور جنات کا اثر ہو جاتا ہے۔ روحانی لوگوں پر جنات کا اثر اسی لئے نہیں ہوتا ہے کہ اُنکا اپنا جن ہے ۔ جب وہ سو جاتے ہیں تو وہ جن جسم سے باہر نکل کر اُنکی حفاظت کیلئے بیٹھ جاتا ہے ۔
لہذا حاصل کلام یہ ہے کہ لطیفہ نفس کا نبیوں، ولیوں، فقیروں اور سلطان میں ہونا اس لئے ضروری ہے کہ یہاں ہم جنات کے عالم عالم ناسوت میں ہیں اور ان سے نپٹنے کیلئے ہمارا اپنا روحانی تربیت یافتہ ایک ذاتی جن ہونا چاہیے۔ ہماری روح ان سےلڑائی نہیں کر سکتی۔ جسطرح آدم صفی اللہ کے ایک ساتھ ایک کتا اُنکی حفاظت کیلئے بھیجا ہے اسی طرح یہ لطیفہ نفس ہمارے اندر ہماری حفاظت کیلئے ہے جس کو روحانی تربیت کے ذریعے طاقتور کرنا ہے تاکہ تو اسکی فطرت کو جان لے۔ اگر ہمارے اندر لطیفہ نفس نہ ہوتا تو پھر ہماری خصلت ملکوتی ہوتی اور ہر جن ہم کو بیوقوف بنا کر چلا جاتا ۔ اب جب ہمارے اندر خود اپنا جن لطیفہ نفس بستا ہے تو ہم اسکی فطرت اور مکر سے واقف ہیں ۔
اس لطیفہ نفس کو لوگوں کی مدد کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ کچھ جن ایسے ہوتے ہیں جو دم کرنے سے چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دم کرنے سے نہیں جاتے ، پھر اس لطیفہ نفس کو بھیجتے ہیں کہ اس بندے کے اندر جا کر اُس جن کو نکال کر لاؤ۔ بلھے شاہ نے کہا کہ اس نفس نے پلیت کیتا اسی منڈوں پلیت نہ سی “، اس کے بعد کی تعلیم سرکار گوھر شاہی نے ہم کو یہ دی ہے کہ نفس تمھارے اندر اس لئے ڈالا تاکہ تو کسی جن سے زیر نہ ہو جائے ، تجھے جنات کی فطرت اور عادات کا پتہ چلےاور جب وہ تجھ پر حملہ آور ہوں تو ان سے مقابلے کے قابل ہو جائے۔ لہذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سرکار گوھر شاہی میں لطیفہ نفس ہی نہیں ہے ان کی یہ بات جھوٹ کا پلندا ہے ۔ سرکار گوھر شاہی کی عظمت اس میں نہیں ہے کہ آپکا میں لطیفہ نفس نہیں ہے بلکہ عظمت اس بات میں ہے جو ہم نے بیان کی کہ نبیوں ، ولیوں ، فقیروں اور سلطان میں لطیفہ نفس ڈالا کیوں جاتاہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 28 ستمبر 2021 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس