ہم نے یہ تگ و دو اور جماعت حضرت سیدنا را ریاض گوھر شاہی کی مدد کے لیے بنائی ہے کیونکہ ہمارا ذاتی تجربہ جو کہ ہم اپنے سینوں میں حضرت گوھر شاہی کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھا اور چاند ، سورج اور ستاروں میں حضرت گوھر شاہی کی تصویروں کی ہم نے تصدیق کری تو ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ حضرت گوھر شاہی اللہ کی طرف سے ہی بھیجے گئے ہیں اور جو نشانیاں امام مہدی علیہ السلام کی ہم نے کتابوں میں پڑھیں یا سنی ہیں ان کی 80% فیصد حقیقت ہم کو ان میں نظر آئی ہے۔

ہمارا یقین ہے حضرت سیدنا را ریاض گوھر شاہی امام مہدی ہیں لیکن ان کے خود اعلان نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ کنفیوز ہیں۔

حضرت سیدنا امام مہدی گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ
مجھے ابھی اللہ کی طرف سے ایسا کوئی الہام نہیں ہوا اور، جب اللہ چاہے گا تو میری زبان رک نہیں سکے گی۔

ہم بھی اسی کے منتظر ہیں اور آپ لوگوں کو بھی حضرت را ریاض گوھر شاہی کو ان کی تعلیمات اور ان نشانیوں کو پرکھنے کی دعوت دیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی مخالفت تمہارے لیئے بلیعم باعور کی طرح مصیبت ایمان بن جائے ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم حدیثوں کی روشنی میں امام مہدی علیہ السلام کو پہچانیں گے جبکہ کئی حدیثوں کے اقوال ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جس کی وجہ سے کسی نے کسی حدیث کو مستند اور کسی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسی حدیث نہیں ہے جو حضور پاک کے وقت کے زمانے کا نسخہ ہو! اور یہ حدیثیں علماء نے ہی وقتا فوقتا پریس کے ذریعے طبع کرائی ہیں جن میں علماء کا بھی اپنا کردار اور اختلاف ہے۔

قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ نے جبرائیل علیہ الاسلام کو بھیجا تھا تاکہ شیطان آیات میں کچھ ردو بدل نہ کر سکے،اور یہ حدیثیں تو جبرائیل علیہ الاسلام کی حاضری کے بغیر ہی طبع ہوتی رہی ہیں اور چونکہ ان حدیثوں میں انسانی عمل دخل بھی شامل ہے، لیکن یہ چاند ستاروں پر جو رب کی نشانیاں ہیں ان میں انسانیت کا دخل نہیں ہے۔

ایک قرآن تھا، لوگوں نے اس کی تفسیروں کو بھی بدل کر فتنہ پیدا کر دیا جبکہ حدیثیں دوسرے نمبر پر آتی ہیں، شاید اسی وقت کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا

گیا دور حدیث لن ترانی

اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ آپ انسانیت کی آواز کو ترجیح دیں گے یا اللہ کی نشانیوں کو! جو کہ ہر قسم کے استدراج اور بناوٹ یا آمیزش سے مبرا ہیں۔

لوگ سوچتے ہیں کہ چاند ، سورج ، ستاروں پر اس سے پہلے نہ ہی کسی نبی اور نہ ہی کسی ولی کی تصویر آئی، اب ایسا کیونکر ہوا؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کے اس سے پہلے امام مہدی آئے ہی نہیں کہ ان کی پہچان یا تسلیم کے لیے کوئی کتاب یا کوئی نشانی آتی۔

عربی حدیثوں میں بھی صاف طور پر شروع سے ہی امام زمانہ کو امام مہدی کے خاص لقب سے نوازا گیا، جس کا مطلب چاند والا ہے، نہ کہ مھدی کہا گیا جس کا مطلب ھدایت ہے۔

لوگوں کی حجت ختم کرنے کے لیے دوسرے سیاروں اور مقامات پر بھی امام مہدی کی نشان دہی کی گئی ہے۔

سادات کے گھر پیدا ہونا یا فاطمی ہونا بڑی بات نہیں کیونکہ ایسے لوگ عام ہیں، محفل حضوری تک رسائی یا لوح محفوظ تک پہنچ، یہ بھی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ یہ بھی کئی ولیوں کو حاصل ہے لیکن ان مراتب کے باوجود کل کائنات میں کسی ایک ہستی کو منجانب اللہ ان جگہوں پر متعارف کرانا بڑی بات ہےجہاں مختلف مذاہب کے سر جھکتے ہیں۔

اہل علم نے جب قرآن کا مطالعہ کیا تو انہوں نے برملا کہا کہ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے، یہ رب کی طرف سے ہی اتری ہوئی کتاب ہے، جس کی وجہ سے حضور پاک پر ایمان لے آئے تھے، اب چونکہ نبوت ختم ہے، کسی کتاب کو آنا بھی نہیں ہے تو پھر اہل علم رب کی نشانیوں کے ذریعے ہی امام مہدی علیہ السلام کو پہچانیں گے۔

آسمانی کتابیں مستقبل میں آنے والی کتابوں کے لیے اشارے کرتی رہیں اسی طرح آخری کتاب قرآن نے بھی اللہ کی نشانیوں کے اشارے کر دیئے ہیں۔