اول خلیفہ آدم صفی اللہ اس مقدس پتھر کو بہشت سے اپنے ہمراہ لائے تھے۔ آخری خلیفتہ اللہ امام مہدی کی حجر اسود میں تصویر موجود ہے۔حجرِ اسود در حقیقت امام مہدی خلیفتہ اللہ کی ملکیت ہے۔ معلوم ہوا کہ حجر اسود ہی تابوت سکینہ ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ تابوت سکینہ امام مہدی کے پاس ہو گا۔ اس سے مراد بھی حجر اسود کا امام مہدی کی ملکیت ہونا ہی ہے۔

حجر اسود کی اہمیت اور افادیت

کل انسانیت کی بخشش اور شفاعت کیلئے اول خلیفہ آدم صفی اللہ اس مقدس پتھر کو بہشت سے اپنے ہمراہ لائے تھے ۔ کل انبیاء اور اُن کی اقوام نے حجر اسود کی بے حد تعظیم کری اور محبت اور عقیدت سے بوسہ لیا تاکہ شفاعت کے حقدار بن سکیں ۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی تحویل میں ہوتا ہوا حجر اسود حضرت محمد ﷺ تک پہنچا ۔آپ ؐ نے بھی عقیدت و محبت سے اس پتھر کو بوسہ لیااور تمام مسلمانوں کی اس کی تعظیم اور عقیدت و محبت سے بوسہ لینے کی تاکید کری۔

حتیٰ کہ مناسکِ حج کا اہم ترین جُز قرار دیا۔ حجر اسود کا بوسہ لئے بغیر حج نامکمل قرار دیا گیا۔

قرآن کے مطابق حج تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا ۔کیونکہ خانہ کعبہ دنیا میں قائم ہونے والا اول عبادت گھر ہے۔آدم صفی اللہ کے دور سے خانہ کعبہ کا طواف اور حج ہوتا آرہا ہے۔ خانہ کعبہ کا طواف اور حج کل انسانیت کیلئے فرض ہوا کیونکہ حج در حقیقت حجر اسود کے گرد چکر لگانے کا نام ہے۔چونکہ حجر اسود کل انسانیت کی شفاعت کیلئے اس دنیا میں بھیجا گیا اس لئے حج بھی کل انسا نیت کیلئے فرض کیا گیا ہے۔جب حجر اسود مسلمانوں کی تحویل میں آیا تو انہوں نے دیگر تما م اقوام کو اس کے بوسے سے محروم کر دیا۔یہودیوں کا خانہ کعبہ میں داخلہ ممنوع ہو گیا جبکہ حقیقت یوں ہے کہ ابراہیم ؑ کے ساتھ ملکر اسماعیل ؑ نے خانہ کعبہ کی ازسر نوتعمیر کری۔ اسی وجہ سے یہودی بھی خانہ کعبہ پر اپنا حق روا سمجھتے ہیں۔

چونکہ آدم صفی اللہ اس مقدس پتھر کو بہشت سے اپنے ہمراہ لائے تھے اسی بناء پر ہندو برادری بھی حجر اسود پر اپنا حق روا جانتے ہیں۔کیونکہ ہندو دھرم والے آدم صفی اللہ کو شنکر جی کے نام یا لقب سے جانتے ہیں۔مسلمانوں کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے حجر اسود کیلئے دیگر اقوام عالم میں احساس محرومی پیدا ہو گیا ۔ نفرتوں نے جنم لے لیا۔

ایک سے زیادہ اقوام زبردستی حجر اسود اور کعبہ پر قبضہ کرنے کی کوشش میں لگ گئے۔کئی مواقعوں پر یہ مقدس پتھر چوری بھی کر لیا گیا۔تما م اقوامِ عالم کیلئے حجر اسود اس قدر متبرک اس لیے ہے کہ کوئی بھی انسان اس مقدس پتھر کو عقیدت و محبت سے بوسہ لے کر بخشش اور شفاعت کا حقدار بن سکتا ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی روایت ثابت ہے کہ ایک دفعہ عمر بن خطاب حجر اسود کے بوسے کیلئے قریب آئے تو کہنے لگے ’’اے حجر اسود میں تجھے صرف اس لئے بوسہ کر رہا ہوں کہ حضور پاکﷺ تجھے چوما ورنہ میں جانتا ہوں کہ نہ تو توُ مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان‘‘ ۔ یہ سن کر حضرت علی نے کہا کہ ،اے عمر ! تو غلط کہتا ہے میں نے خود حضور پاک ﷺ سے سنا ہے کہ یہ مقدس حجر اسود فائدہ بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی ۔ جو اس کو عقیدت و محبت سے بوسہ دے گا تو یہ پتھر اُس انسان کی یومِ محشر میں شفاعت کرے گا اور گواہی دے گا کیونکہ اس پتھر میں دو آنکھیں ، دو کان اور ایک زبان ہے۔ چونکہ ہر مذہب والے اس مقدس پتھر کی عظمت ،بزرگی اور اہمیت کے قائل ہیں اس لئے ہر قوم کی نظریں حجر اسود پر مرکوز ہیں۔

حجر اسود کی برکت سے ہی خطہء عرب میں ظاہر ی دولت کی ریل پیل ہے

احادیث اور روایتوں میں آیا ہے کہ امام مہدی عرب والوں سے اُن کی سلطنت چھیں لیں گے۔اس سے مراد بھی حجر اسودہی ہے۔ اس مقدس پتھر حجر اسود کی برکت سے ہی خطہ ء عرب میں خوشحالی ہے اسی وجہ سے عرب کے مادیت پرست فرقہ وہابیہ کے شیوخ امام مہدی کے دشمن بنے ہوئے ہیں کہ امام مہدی اُن سے اُن کی سلطنت چھین لیں گے ۔ اے عرب کے شیوخ! عرب کی سلطنت تمھاری بادشاہت نہیں ہے۔ عرب کی سلطنت حجر اسود ہے۔امام مہدی کا چہرہ حجر اسود پر ظاہر ہو چکا ہے یہی سیدنا را ریاض گوھر شاہی کے مرتبہ مہدی کا ٹھوس ثبوت ہے اور یہی اس حق کا ثبوت ہے کہ حجر اسود امام مہدی گوھر شاہی کی ملکیت ہے۔ امام مہدی گوھر اپنی ملکیت حجر اسود تم سے واپس چھین کر کل انسانیت کو انصاف مہیا کر نے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔امام مہدی کے نزدیک حجر اسود ہی سلطنتِ عرب ہے۔ امام مہدی کو تمھاری بادشاہت ، سونا ، چاندی اور تخت وتاج سے کوئی سروکار نہیں ہے۔چونکہ حجر اسود مختلف ادوار میں مختلف انبیاء اور اقوام کی تحویل میں رہا ہے۔اس وجہ سے ہر قوم حجر اسود پر قابض ہونا چاہتی ہے۔اللہ نے اس فساد کو ختم کرنے کیلئے امام مہدی کو مبعوث فرمایا ہے۔حجر اسود میں مختلف اقوام میں مبعوث کئے گئے انبیاء اور اصفیاء کی تصاویر ظاہر ہو چکی ہیں جبکہ عین وسط میں امام مہدی گوھر شاہی کی تصویر ہے جن کو ہر مذہب والا اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق مختلف القاب سے تسلیم کرتا ہے اور سرنگوں ہے۔ امام مہدی گوھر شاہی اس مقدس پتھر کو جو کہ آپ کی ملکیت ہے عرب والوں سے چھین کر تمام اقوام کیلئے باعثِ رسائی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ تمام انسانیت اس کے فیض سے مستفیض ہو سکے ۔ چونکہ تما انسانیت امام مہدی کے آگے سرنگوں ہے لہذا ہر قوم خاموشی سے فیصلہ مہدی کے آگے سرخم کرے گی۔

حجر اسود ۔۔۔ امام مہدی گوھر شاہی کی سلطنت و ملکیت ہے۔ مہدی فاؤنڈیشن انٹر نیشنل حجر اسود پر ملکیت مہدی کا باقاعدہ دعویٰ کر رہی ہے ۔ باطنی تدبیر کے تحت جلد ہی حجر اسود کو واپس لے لیا جائے گا اور پوری انسانیت اس مقدس پتھر کو بوسہ لے کر شفاعت کی حقدار بن سکے گی۔

مرتبہ مہدی کے چند منتخب حقائق

  • حجر اسود ہی تابوت سکینہ ہے ۔۔۔فرمانِ گوھر شاہی
  • حجر اسود آخری خلیفتہ اللہ امام مہدی گوھر شاہی کی ملکیت ہے
  • سعودی عرب والوں سے حجر اسود لینا ہی اس کی سلطنت چھیننا ہے
  • ہر مذہب والوں کے قلوب میں اسم اللہ کو جنا (نظر گوھر شاہی سے)، نفوس میں ظاہر کردہ اور چاند ، سورج ، مریخ، ستاروں پر تصاویر گوھر شاہی کا ظاہر ہونا، آسمانوں میں منجانب اللہ نشانیاں ہیں جنکا قرآن میں ذکر آیا ہے۔
  • سینکڑوں خواتین و حضرات : امام مہدی گوھر شاہی کی پشتِ مبارک پر مہر مہدیت کے عینی شاہد ین موجود ہیں۔
  • ہر مذہب والا تعلیمات گوھر شاہی کو بخوشی قبول کر کے جام عشق نوش کر رہا ہے۔

اعلان مہدی

سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کے حق میں منجانب اللہ مرتبہ ء مہدی کا اعلان :

  1. ۔حدیث نبوی ﷺ اما م مہدی کا ظہور خانہ کعبہ میں مقام ابراہیم اور رکن یمنی کے وسط سے ہو گا۔
  2. ۔ امام جعفر صادق کا قول مبارک ہے کہ امام مہدی کا چہرہ چاند میں چمکے گا۔
  3. چاند اور حجر اسود میں تصاویر ِ گوھر شاہی کا ظہور منجانب اللہ بحقِ گوھر شاہی سرکار ،مرتبہ مہدی کا اعلان ہے۔
  4. 1998 میں خانہ کعبہ کے امام نے بھی حجر اسود میں انسانی چہرے کا ظہور کا اعلان کر دیا تھا۔ مکہ کے فقیروں نے کہا کہ یہ ظاہر ہونے والا چہرہ امام مہدی کا ہے۔

سیدنا را ریاض گوھر شاہی کا اعلان مہدی ۔۔1999 میں سالانہ غوثیہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سیدنا را ریاض گوھر شاہی نے فرمایا کہ چاند ، سورج، مریخ، حجر اسود ، شیو مندر اور دیگر مقامات پر تصاویر ِ گوھر شاہی کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ نے ہم کو ہی مرتبہ مہدی دیا ہے۔

سیدنا را ریاض گوھر شاہی کے معتمد خاص محترم سیدی یونس الگوھر کا بحقِ سرکار گوھر شاہی اعلانِ مہدی ۔۔۔سیدنا را ریاض گوھر کی تصنیفِ لطیف دین الہی کے پیش لفظ میں معتمد خاص محترم جناب سیدی یونس الگوھر نے اعلان کیا کہ سیدنا را ریاض گوھر شاہی امام مہدی ، کالکی اوتار اور مسیحا ہیں۔ جنکا مختلف آسمانی کتب میں ذکر آیا ہے۔

کوٹری میں تعمیر کردہ مزار

انجمن سرفروشان اسلام اور اہل خانہ کی حماقتوں ، بد اعتقادی ، لالچ دنیا اور بد باطنی کی بناء پر ایک مزار تعمیر کر دیا ۔کسی بھی صاحبِ ایمان اور صاحب علم کہ ورطہء حیرت میں ڈالنے کیلئے یہ بات کافی ہے کہ جس ہستی نے اس دنیا میں دوبارہ ظاہر ہونا ہے اُس کی روپوشی پر مزار تعمیر کر کے اُس سے منسوب کر دیا جائے۔ حضرت عیسٰی بھی جسم سمیت عالمِ بالا میں تشریف لے گئے۔ مدعیان ایمان کی آزمائش کیلئے ایک ہم شکل صورت و حلیہ صلیب پر لٹکا دیا جس سے ان لوگوں کو شبہ ہوا کہ عیسٰی کو مصلوب کر دیا گیا ہے۔حالانکہ ان کوتو اللہ نے جسم سمیت اپنی جانب رفعہ کر لیا تھا ۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ قرآن حکیم نے صراحت کے ساتھ امرِ واقعہ کی وضاحت فرما دی ہے کہ حضرت عیسٰی کو نہ یہودیوں نے قتل اور نہ ہی مصلوب کیا بلکہ اللہ نے حضرت عیسٰی کو اپنی جانب رفعہ کر لیا۔ پھر بھی مسلمانوں کا ماننا ہے کہ حضرت عیسٰی کا افغانستان میں مزار ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی خود کو عیسٰی اور مہدی دونوں شخصیات کو خود میں یکجا کر نے کے لئے نعوذباللہ حضرت عیسٰی کو فوت ثابت کر دیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی والوں کا خیا ل ہے کہ حضرت عیسٰی کا مزار کشمیر میں ہے۔
لمحہ فکر: ذرا سوچئے! جب عیسٰی کہ اللہ نے جسم سمیت اپنی جانب اُٹھا لیا تو مزار میں کیا ہو گا؟ اور پھر اگر کوئی جسم دفنانا بھی ہوتا تو اُس پیادہ زمانے میں اسرائیل سے پیدل چل کر افغانستان یا کشمیر میں مزار بنانا یا دفنانا کیا معننی رکھتا ہے۔حضرت عیسٰی کو اللہ نے جسم سمیت اٹھا لیا ۔ احادیث کے مطابق انہوں نے اس دنیا میں دوبارہ آنا ہے۔ 1997 میں حضرت عیسٰی اس دنیا میں دوبارہ تشریف لے آئے۔امریکہ کی ایک ریاست نیو میکسکو کے شہر طاؤس میں حضرت عیسٰی نے امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی سے ملاقات بھی کر لی ہے۔ معلوم ہو کہ حضرت عیسٰی کے مزارکا پروپگنڈاغلط اور گمراہ کن ہے۔

امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی کو بھی اس دنیا میں دوبارہ تشریف لانا ہے

مستند روایات میں آیا ہے کہ امام مہدی اچانک غائب ہو جائیں گے،مومنین کی آنکھیں اشک بار ہونگیں ، اس دورِ غائبہ میں افضل ترین عبادت منتظرِ مہدی رہنا ہو گی۔بہت سے لوگ امام مہدی کی اس غیبت کو وصال بھی قرار دیں گے۔ امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی 27 نومبر 2001 کو اچانک غائب ہو گئے ۔ یوں دور غیبتِ کا آغاز ہو گیا۔ بد عقیدہ لوگوں کے ایمان ضائع ہو گئے۔ انہوں نے ہی بد اعتقادی کی بناء پر وصال کا پروپگینڈا کیا اور مزار تعمیر کر دیا۔جن کو امام مہدی کی جانب سے قلوب میں نور عطا ہوا اُن کے ایمان سلامت رہے، وہی کامل یقین سے منتظر مہدی بھی ہیں اورا صحابِ مہدی بھی ہیں ۔ ا صحابِ مہدی کا یہی ٹولہ پوری دنیا میں سرکار امام مہدی گوھر شاہی کے مرتبہ ء مہدی کا پرچار کر رہے ہیں اور تعلیماتِ کی ترویج و اشاعت میں بھی مشغول ہیں۔روایت میں آیا ہے کہ حضرت عیسٰی ، امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت ہوں گے۔یعنی امام مہدی گوھر شاہی، حضرت عیسٰی کے مرشد ہوئے۔لہٰذا مرید یعنی حضرت عیسٰی غائب ہوئے، دوبارہ آنا قرار پایا۔ مزار کی ضرورت نہیں ہوئی ۔ جب جسم سمیت عالمِ بالا میں چلے گئے تو دفنایا کیا جاتا؟ اور پھر حضرت عیسٰی کے مرشد یعنی امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی غائب ہو گئے،دوبارہ آنا قرار پایا تو مزار کا پروپگینڈا کیا معنی رکھتا ہے؟ کوٹری میں اہل خانہ اور انجمن سرفروشان اسلام کا تعمیر کردہ مزار فقط اِن کی بد اعتقادی ، بد باطنی ، لالچ دنیا کا مزار ہے۔گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔ اس گمراہ کن عمارت سے امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

گوھر شاہی سے کیا نسبت مزارِ منسلک کو ہے ۔۔۔۔بمعہ جسم دوبارہ گوھر شاہی نے آنا ہے
مزارِ بے محل کی عزت و توقیر کیسے ہو؟ ۔۔۔۔د ل آزاری و گستاخی کا جب ٹھہرا نشانہ ہے

مہر مہدیت

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ :جس طرح حضور پاک ﷺ کی پشت مبارک پر مہر نبوت بمعہ کلمہ تھی ، اسی طرح امام مہدی کی پشتِ مبارک پر مہر مہدیت بمعہ کلمہ ثبت ہو گی۔
امام مہدی سیدنا را ریاض گوھر شاہی کی پشت مبارک پر مہر مہدیت : معلوم ہو کہ

سیدنا را ریاض گوھر شاہی کی پشت مبارک پر مہر مہدیت نسوں سے اُبھرتی ہے اور اس سے سات رنگ کی نوری شعاعیں بکھرتی ہیں اس کے ساتھ ہی مہدی خلیفتہ اللہ کا کلمہ بھی اُبھرتا ہے۔چونکہ نسوں سے اُبھرتی ہے لہٰذا کسی ایک مقام پر نہیں بلکہ پشتِ مبارک کے دائیں بائیں اور درمیان میں وقتافوقتا ابھار ہوتا ہے۔

یہ قدرتی تدبیر اس لئے ہے کہ نقل اور اصل میں پہچان ہو سکے۔ کیونکہ اگر کوئی دھوکہ باز سائنسی طریقہ یا سرجری کے ذریعے اس مہر کی شباہت اپنی کمر پر بنوا بھی لے تو وہ ایک مقام پر رہے گی اور اُس سے نوری شعاعوں کا اخراج نہیں ہو گا ۔ عینی شاہدین: مہدی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل میں سینکڑوں خواتین و حضرات ایسے موجود ہیں جنہوں نے امام مہدی سیدنارا ریاض گوھر شاہی کی پشتِ مبارک پر مہر مہدیت بچشم ظاہر ملا حظہ کی ہے۔
امام مہدی کا چہرہ چاند میں چمکے گا۔۔۔۔امام جعفر صادق۔۔1994 سے یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ چاند میں انسانی چہرہ ظاہر ہو چکا ہے ۔دستیاب سائنسی اور دیگر ذرائع سے ثابت ہو چکا ہے کہ چاند میں ظاہر ہونے والا چہرہ سیدنا را ریاض گوھر شاہی کا ہے۔ سیدنا را ریاض گوھر شاہی نے بھی تصدیق فرما دی کہ چاند میں ظاہر ہونے والا چہرہ سیدنا را ریاض گوھر شاہی کا ہی ہے۔ امام جعفر صادق کے قول کی روشنی میں یہ حق واضح ہو جاتا ہے کہ سیدنا را ریاض گوھر شاہی امام مہدی ہیں ۔بہت سے شیعہ حضرات اسی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ امام عسکری کے بیٹے ہی امام مہدی ہیں جو کہ پانچ سال کی عمر میں گم ہو گئے تھے۔ شیعہ حضرات کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ امام جعفر صادق کے قول کی روشنی میں چاند پر ظاہر ہونے والی تصویر ملاحظہ فرمائیں اور اگر اُن کے پاس اما م عسکری کے فرزند کی کوئی تصویر موجود ہے تو چاند پر ظاہر ہونے والی تصویر سے ملا کر دیکھیں پھر جس کی صورت چاند پر ظاہر ہوئی ہے امام جعفر صادق کے قول کی روشنی میں اُس ہستی کو امام مہدی تسلیم کر لیں۔ اگر شیعہ حضرات اپنی رائے کو امام جعفر صادق کی رائے پر مقدم سمجھتے ہیں تو اُن کی اہلِ بیت کی محبت اور آئمہ سادات کی محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔

مقدس پتھر حجر اسود میں چہرہ گوھر شاہی کا ظہور

متعدد مسلمان بالخصوص پاکستانی فرقہ ورانہ عناصر ، پاکستانی پولیس انتظامیہ ۔۔حجر اسود میں چہرہ گوھر شاہی کے ظہور کی خبر پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور اس حقق کا پرچار کرنے والوں پر توہینِ رسالت ، توہین اسلام، توہین قرآن اور مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کے مقدمات عائد کرتے ہیں۔ آج کا مسلمان اپنے فرقے کی تعلیم کو قرآن و حدیث پر مقدم جانتا ہے۔ وہابی ، اہل حدیث،اہل سنت، اہل سنت و الجماعت ، اہل سنت ، شیعہ فرقے یہ سب کے سب قرآن و حدیث کو برائے نام ہی مانتے ہیں اور اگر مانتے بھی ہیں تو اپنے فرقے کے علماء کی فرقہ ورانہ تشریح کو ہی تسلیم کرتے ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان آج بھی محمد الرسول اللہ کے قول، باب العلم حضرت علی کر م اللہ وجہہ کی روایت کو اہمیت دیتا ہے تو زیر نظر روایتِ حضرت علی پر غور فرمائیں ’’حجر اسود میں دو آنکھیں، دو کان اور ایک زبان ہے جو عقیدت و محبت سے بوسہ لینے والوں کی یوم محشر میں شفاعت کر ے گی اور گواہی دے گی‘‘
اے مسلمانوں! اگر تم میں ذرا بھی عقل و حواس آج بھی قائم ہے تو بتاؤ کیا دو آنکھیں ، دو کان اور ایک زبان کسی تصویر کا حلیہ نہیں ہے؟ جب روایت علی سے ثابت ہے کہ حجر اسود میں موجود تصویر بوسہ دینے والوں کی شفاعت اور گواہی دے گی تو پھر مسلمانوں کی یہ ہٹ دھرمی کیوں ہے؟ حجر اسود میں موجود تصویر کے پرچار پر ہمیں توہینِ رسالت اور توہین اسلام میں کیوں پھنسایا جاتا ہے ؟ حجر اسود میں موجود جن دو آنکھوں ، دو کان اور زبان نے تمھاری شفاعت کرنی ہے اُس کے پرچار سے تمھارے جذبات مجروح کیسے ہوئے! بتاؤ تم محمد الرسول اللہ ﷺ کے محب ہو یا دشمن ؟ تم شفاعت کے حقدار بننا چاہتے ہو تو شافع آنکھیں ، شافع کان اور شافع زبان کے پرچار سے تم کو آگ کیوں لگ رہی ہے؟