کیٹیگری: مضامین

ذات کا علم کیا ہوتا ہے؟

قرآن شریف میں ایک آیت ہے کہ

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ
سورة الجاثیہ آیت نمبر 23
ترجمہ: یارسول اللہ! آپ نےاُس شخص کو دیکھا نہیں جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔

یہ بات اللہ تعالی نے حضورپاکؐ کو اشارہ دیا کہ لوگوں نے شیطانوں کو اپنا معبود بنارکھا ہے، جو دین اور عبادتوں میں کمزور ہوں تم اُن کے دل میں اپنی خواہش ڈال دو کہ بجائے شیطان کے وہ رحمان کو ہی اپنا معبود بنالیں۔ یومِ محشر میں اگر قبر میں اِن سے پوچھا کہ بتاوٴ تمہارا رب کون ہے تو یہ کہیں گے محمدؐ، تمہارا دین کیا ہے کہیں گے محمدؐ، تمہارا نام کیا ہے کہیں گے محمدؐ، اگر ہر سوال کے جواب میں محمدؐ محمدؐ آئے گا تو کیا میرے لئے قابلِ قبول نہیں ہوگا! اِس طرح حضور پاکؐ کی صحبت میں بیٹھنے والے جو ہیں، ایک تو وہ تھے جن پر صحبت کا کوئی اثر نہیں ہوا، ایک وہ گروہ تھا کہ جن کو شریعت کے زریعے لگایا۔ شریعت سے جو لگایا اُن کیلئے فرمایا کہ

يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ
سورة الجمعہ آیت نمبر 2
ترجمہ: یہ آیتیں پڑھ پڑھ کر اُن کا تزکیہ کرتا ہے۔

کچھ ایسے بھی تھے جن پر آیتیں پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اُن کی صحبت میں ہی وہ پاک ہوتے چلے گئے۔ وہ جو تھے اُن کی صحبت میں جب بیٹھتے تو اُن کی جو ظاہری حالت تھی وہ ایک حفاظتی ڈھال کے طور پر استعمال ہوئی کہ اِن سے بدبُو آرہی ہے، اِن کے بال میل سے اَٹے ہوئے ہیں، اِن کے کپڑے گندے ہیں کوئی اور آکر بیٹھ نہ جائے۔ پھر جب کوئی اور آکر بیٹھے گا نہیں تو اُن پر پھر حضورؐ اپنی ذات کے جلوے بکھیرتے۔ اب وہ محمد الرسول اللہ کی باطنی شخصیت کے جو جلوے تھے جب اُن سے وہ حجاب ہٹاتے پردہ ہٹاتے تو اُس کے نور کی جو روشنیاں ہوتیں اُن سے اُن لوگوں کے جو لطائف تھے وہ بے خود ہوجاتے۔ اور اُن سے ہر طرح کی سمجھ بُوجھ ختم ہوجاتی اور یُوں سمجھ لو کہ اُن کے لطائف حالتِ جذب کا شکار ہوجاتے۔ اور پھر اُن کو ہر شے میں مصطفٰیؐ نظر آتے۔ یہ ذات کا علم تھا۔ ایک تو علم طریقت کا ہے اُس میں تمہارے لطائف کو ذکرفکر میں لگائیں گے۔

ایک ذات کا علم ہے اُس میں ذات اپنے جلووٴں کے سامنے تمہاری روحوں کو رکھے گی۔ اُن جلووٴں کی جو شدّت ہوگی وہ تمہاری اُن روحوں کی سُدھ بُدھ چھین لے گی۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اِدھر کے

اُن کی جو روحیں وہ محمد الرسول اللہ کے جلووٴں سے یُوں سمجھ لیجئیے کہ حالتِ جذب میں چلی جاتیں اور تمام عمر کیلئے حالتِ سُکر اُن کو نصیب ہی نہ ہوتی۔ پھر اور جو دوسرے صحابہ اکرام اُن کو آکر لعن طعن کرتے کیونکہ اِن کو تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا کررہے ہیں۔ اِن کے دماغ کو تعلیم تھوڑی دی تھی کہ تم صحیح ہو۔ اصحابِ صُفہ ایسے ہی اِدھر اُدھر پھرتے رہتے تھے، اِن کے لطائف بے ہوش تھے اور بس وہ حضورؐ کی ہی بات کرتے تھے کہ بس محمدؐ ہی ہمارے لئے کافی ہیں ہم نے کوئی نماز نہیں پڑھنی، بگاڑ لو جو بگاڑنا ہے، ڈال دو جہنم میں۔ بس اُن کا وِرد یہی تھا مصطفٰیؐ مصطفٰیؐ مصطفٰیؐ۔ حضورؐ کے عشق میں دیوانے ہوگئے اور حضورؐ کے عشق میں عقل چلی گئی۔ اب جب عام جو صحابی تھے اِن کو جب ڈانٹتے کہ یہ تم نے کیا لگا رکھا ہے کیونکہ یہ ایسی باتیں کرتے تھے کہ ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم حضور پاکؐ کو سجدے کریں۔ جو صحابہ کے رُوپ میں منافق بیٹھے ہوئے تھے اُن کو بُری لگتی تھی، وہ پھر حضورؐ کے سامنے کھڑے ہوکر کہتے کہ اگر آپ کو سجدہ کرنا جائز ہے تو ہمیں بھی بتائیں ہم بھی کریں گے۔ حضورؐ نے پھر فرمایا کہ سجدہ تو جائز ہی نہیں ہے اگر جائز ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو کرتی، یہ کہہ کر بات ٹال دی۔ لیکن ایسی بات آئی کیوں؟ اِس لئے آئی۔
ایک دن حضورؐ اصحابِ صُفہ کے ساتھ ہی بیٹھے تھے اور جبرائیل وحی لیکر آگئے۔ اب حضورؐ جو ہیں کیونکہ وہ اپنے جلوے عُریاں کررکھے تھے تو وہ حالت ہی حضورؐ کی ایسی تھی کیونکہ اُس وقت وہاں پر نبی نہیں تھا، اُس وقت وہاں پر محمدؐ تھے۔ محمدؐ وہ ہے جس کی جُوتیوں سے نبوت نکل کر جائے۔ حضورؐ اصحابِ صفحہ کو بھی تسلّی دینا چاہتے تھے کیونکہ اُن کو مصطفٰیؐ کے علاوہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا تو اُن کے سامنے جبرائیل سے سوال کیا کہ ہاں تم وحی تو لیکر آئے ہو لیکن کہاں سے لیکر آئے ہو اور کبھی اُس کو دیکھا ہے! جبرائیل نے کہا کہ دیکھا تو نہیں تو پھر فرمایا کہ چلو اب جاکر دیکھو۔ جب جاکر دیکھا تو جبرائیل نے آکر بتایا کہ وحی جہاں سے میں لاتا ہوں وہاں پر آپ ہی بیٹھے ہیں۔ حضورؐ نے اصحاب صفہ کو فرمایا کہ سُن لو اب کوئی آکے ڈانٹے اُس کی باتوں میں مت آنا۔ وحی لینے والا بھی مصطفٰیؐ اور بھیجنے والا بھی مصطفٰیؐ ہے۔ خود عشق اور خود معشوق ایسے ہی نہیں ہیں۔ لینے والا بھی خود ہے اور دینے والا بھی خود ہے، وہ ایک جلوہ ہے۔ یومِ محشر میں کیا کہوں تو کہہ دینا میرا رب محمدؐ ہے۔ اِس کا پھر ثبوت وہاں سے ملا کہ عرشِ الہٰی پر محفل سجی ہے۔ ایک طرف سرکار گوھر شاہی تشریف فرما ہیں، بیچ میں اللہ بیٹھا ہے، اِس طرف حضورؐ تشریف فرما ہیں، جبرائیلِ امین سجدے لیکر آتا ہے تو اللہ تعالئ فرماتا ہے کہ یہ میرے محبوب کو دیدو کیونکہ اِس کی محبت میں کئے ہیں اور اِس کے جلوے کو کئے ہیں۔ یہ الگ ہے کہ محمدؐ کا جلوہ درپردہ خدا ہے۔ محمد الرسول اللہ کا جو جلوہ ہے درحقیقت وہ خدا ہی ہے۔
اِسی طرح جلوہٴِ گوھر شاہی ہے۔ سرکار گوھر شاہی کا فرمان ہے کہ

جو امام مہدی سے ٹکرا گیا پھر وہ خدا سے دُور نہیں ہے۔

جس کی روحوں کو مصطفٰیؐ کے عشق نے عشق میں دیوانہ کیا ہے وہ قبر میں کہے گا مَن رَبُّکَ مُحَمَّد، مَنْ دِینُکَ مُحَمَّد اور جس کو گوھر شاہی نے اپنی زلفوں کا اسیر بنایا ہے وہ قبر میں جاکر کیا کہے گا! تمہارا دین کیا ہے گوھر شاہی، تمہارا رب کون ہے گوھر شاہی، نماز پڑھتے ہو گوھر شاہی، روزہ رکھا ہے گوھر شاہی، زکوٰة دی ہے گوھر شاہی، یہ ذات کا علم ہے۔

غلام ہونے کی نشانی کیا ہے؟

سرکار گوھر شاہی کا غلام وہ ہوگا کہ جس کی صحبت میں بیٹھ کر اُس غلام کا رنگ تم پر نہ چڑھے بلکہ گوھر کا رنگ چڑھ جائے۔

چاندی کے برابر میں بیٹھ کر کبھی سونا بن سکتے ہو؟ نہیں بن سکتے نا تو اگر چاندی کے برابر میں بیٹھ کے سونا بن جاوٴ تو پھر چھوڑ دو کہ وہ چاندی ہے یا کچھ اور ہے۔ کم سے کم تم سونا ہوکر کسی کو سونا نہیں بنا سکتا، وہ چاندی ہوکر تجھے سونا بنا دیتا ہے۔ وہ دِکھ رہی ہے چاندی لیکن ہے کچھ اور۔ بیٹھو فرید کے پاس اور محبت کا رنگ سرکار گوھر شاہی کا چڑھے تو کس کے پاس بیٹھے ہو! بیٹھو امجد کے پاس اور رنگ سرکار گوھر شاہی کا چڑھے تو اِس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ جو امجد کے پاس بیٹھ کر سرکار کا رنگ چڑھا ہے نا اب اِس کے اندر سوائے سرکار کے کچھ نہیں بچا، ورنہ تجھ پر گوھر کا رنگ نہیں چڑھتا۔ اگر اِس کے اندر یہ خودہی بیٹھا ہوتا، اِس کے نفس کا کتا ہوتا، اِس کا اپنا قلب ہوتا، اپنی روحیں ہوتیں تو اِس کا رنگ چڑھتا۔ اِس کے پاس بیٹھ کر گوھر کا رنگ چڑھ گیا ہے تو پھر یہ کسی کے جلوے نے بُرکھا پہننا ہوا ہے۔
بُلھا شوہ اساں تھیں وکھ نہیں
پر ویکھن والی اکھ نہیں

بلھے شاہ نے کہا کہ مرشد ہم سے جُدا نہیں ہے۔ اساں توں وکھ نہیں کہ وہ ہم سے جدا نہیں ہے لیکن کسی کی دیکھنے والی آنکھ نہیں ہے جس کو نظر آئے کے کِس کے پاس بیٹھے ہیں۔ ایک ہی ثبوت ہے کہ اُس کی صحبت میں بیٹھو اور پھر دیکھو کہ کِس کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی محبت میں اضافہ ہوا ہے اُسی کے پاس سے اُٹھ کرآئے ہو۔ اگر ظاہر شاہ کے پاس بیٹھ کر ظاہر شاہ ظاہر شاہ کرتے ہو تو ظاہر شاہ کے پاس سے ہی بیٹھ کر آئے ہو۔ بیٹھو ظاہر شاہ کی صحبت میں اور رنگ چڑھے گوھر کا تو کوئی چکر ہے۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
ایک حدیث میں آیا کہ صحابہ کی تعریف بھی بہت ہوتی تھی تو سب ہی اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے تو ایک صحابی نے پوچھ لیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم میں سب سے بہتر کون ہے تو حضورؐ نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے کہ

اَلَّذِيْنَ اِذَا رُؤُوْا ذُكِرَ اللهُ
سنن کبریٰ للنسائی،ج10،ص124،حدیث:11171
ترجمہ: جس کو دیکھنے سے تمہارے اندر ذکراللہ شروع ہوجائے۔

ہم کسی بندے کو دیکھیں اور ہمارے اندر ذکراللہ شروع ہوجائے تو ہم کِسکو دیکھ کر آرہے ہیں! جس کو دیکھا ہے اُس میں اللہ ہے تبھی تیرے اندر اللہ اللہ شروع ہوگیا ہے۔ فرمایا کہ وہ تم میں سب سے افضل ہے۔ اور یہاں مولویوں نے سب صحابیوں کو افضل بنادیا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 جون 2021 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس