- 1,561وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
حضورؐ سے قبل انبیاء دین اسلام کے پیروکار نہیں تھے:
لفظ حنیف جمع کا صیغہ ہے اسکا واحد ہے “حنفاء” ۔ حنیف کا ایک معنی لفظی ہے اور ایک اسکے معنی تاریخی ہیں ۔ اگر تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہو گا بت پرستی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا آدم صفی اللہ کی تاریخ ہے۔ (جب آدم صفی اللہ کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل میں ایک عورت کی وجہ سے لڑائی ہوگئی اور ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا تو وہیں سے بت پرستی کا آغاز ہو گیا تھا)۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کا شمار اللہ کے انتہائی برگزیدہ نبیوں میں سے تھا انکے والد آذر بت تراشتےتھے، بت پرست تھے۔ لیکن اُنکے بیٹے ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے اپنا پیغمبر بنایا۔
آج کل کے مسلمانوں میں یہ ایک غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ حضور پاکؐ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام بھی مسلمان تھے، ایسے خراب عقیدے سے انبیاء کی نفی کا پہلو نکلتا ہے، اسے جھٹلا رہے ہیں، اسلام تو بالکل آخر میں حضور پاک نے قائم کیا ہے۔
وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ
(سورۃ الاانعام آیت نمبر 163 )
کچھ آیات میں موسی علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مسلمین میں سے تھے ۔اس سے لوگوں نے یہ تاثر لے لیا ہے کہ وہ انبیاء کرام بھی مسلمان تھے۔یہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ مسلم صرف اسلام لانے والے کو نہیں کہتے، لفظ اسلام صرف دین نہیں ہے لفظ اسلام کا اپنا بھی ایک لفظی معنی ہے۔ سب سے پہلے یہ غلط فہمی دور فرما لیں کہ وہ انبیاء کرام دین اسلام کے پیرو کار نہیں تھے، اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا وہ یہودی یا عیسائی تھے؟ جواب ہے نہیں وہ یہودی اور عیسائی بھی نہیں تھے، انبیاء کرام اُس دین کے پیرو کار نہیں ہوتے جس دین کو وہ لے کر آتے ہیں۔
آسمانی ادیان کی بنیاد توحید پر مبنی ہے:
یہاں یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے جو انبیاء کرام بھیجے گئے ان تمام نے اپنی اپنی امت اور قوم کو دین کا جو سب سے بڑا پیغام دیا وہ تھا “توحید”۔
“وحی الہی کی روشنی میں بننے والے ہر دین کی بنیاد” توحید “( oneness of God) ہے۔ توحید کا فلسفہ تمام ادیان میں یکساں ہے”
آدم صفی اللہ نے جو دین بنایا اُس میں بھی بنیاد “توحید” تھا ، ابراہیم علیہ السلام کا دین بھی “توحید” پر مبنی تھا، موسی اور عیسی علیہ السلام نے بھی “توحید” کی بات کی پھر بالکل آخر میں پیغمبراسلام محمد رسول اللہ نے بھی “توحید” کی بات کی، توحید ہر اس دین کا (Principle Theme) ہے جو دین وحی الہٰی کی بنیاد پر بنا ہے۔اب دنیا میں کچھ دین ایسے بھی بنے جو انسانوں نے بنائے ، جو دین انسان بناتا ہے اُس دین کے ذریعےانسان اللہ تک نہیں پہنچ سکتے لہذا وہ دین بے کار ہے، کارآمد دین وہی ہے جو وحی الہٰی کی بنیاد پر کسی نبی نے بنایا۔
ہر دین کی سب سے بڑی خصوصیت جس پر کہ اس دین کی عمارت عقائد قائم ہے وہ ہے “توحید” اللہ کی وحدانیت ،اللہ کو یکتا ماننا،( Divine oneness)۔اور پھر اُس دین کی شریعت جو ہے وہ ان لوگوں کے مزاج کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کے لیے انکو ایک قانون دیا گیا، شریعت کا قانون ہر نبی کے مذہب کا مختلف ہے کیونکہ شریعت کا تعلق اانسانوں کو گناہوں سے روکنے، حق تلفی نہ کرنے ، اخلاق سنوارنے ،عبادات کا طریقہ سکھانے سے ہے لیکن تمام ادیان میں جو بات قدر مشترک ہے وہ ہے “توحید” جس دین کی بنیاد توحید ہو تو وہ مذہب سچا ہے ، اللہ کے نبی نے بنایا ہو گا ۔
ابراہیم علیہ السلام کو ابو الانبیاء بھی کہا جاتا ہے اور انکی بڑی اہمیت ہے۔ اس وقت دنیا میں چاربڑے مذہب ایسے ہیں جو (Monotheist) ہیں یعنی توحید پر مبنی ہیں ۔ (Monotheist) (یعنی ایک اللہ کو ماننے والے۔ (Mono) کا مطلب ایک، اور (Theist) خدا سے تعبیر ہے۔ جیسا کہ (Theology) کا مطلب ہے دین کی تعلیم یا جس میں خدا کا ذکر ہو۔ ہر وہ دین جو نبی نے وحی الٰہی کی روشنی میں بنایا اسکی بنیاد”توحید” ہے۔ توحید کے ساتھ اگر شریعت لگا دیں تو مذہب بن گیا ۔ایسا بھی ہوا کہ لوگ کسی مذہب میں نہیں آئے لیکن توحید کے قائل رہے ۔
“کسی مذہب میں آئے بغیر توحید کا قائل ہونا ، اللہ کی وحدانیت اور یکتائی پر یقین رکھنا اور اللہ کو تلاش کرنا “دینِ حنیف” کہلاتا ہے”
دین ِحنیف کا تاریخی پس منظر:
بغیر مذہب کے توحید کو ماننے والا “حنیف ” کہلاتا ہے، بہت سے مفسرین حنیف کا مطلب سچا بتاتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ یہ اسکالفظی مطلب ہے اگر صرف لفظی مطلب بتائیں اورحقیقی معنی نہ بتائیں توغلط فہمیاں جنم لیتی ہیں ۔ جیسا کہ اردو کا ایک محاورہ ہے کہ “ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور”۔ اگر صرف یہ ہی بتائیں اور یہ نہ بتایا جائے کہ یہ ایک محاورہ ہے تو لوگ یہی حقیقت سمجھیں گے کہ ہاتھی کے دانت کچھ ایسے ہوتے ہیں جو کھانے میں کام آتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو دکھانے کے لیے ہیں ،تو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ یہ ایک محاورہ ہے۔
وہ لوگ جو کسی مذہب میں آئے بغیر اللہ کی توحید ، اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی یکتائی کے قائل ہوں وہ لوگ “حنیف” کہلائیں گے ،یہ اسکا تاریخی معنی ہے ، تاریخ کا کوئی مطلب نہیں ہوتا لیکن ہم نے اس کو تاریخی اس لیے کہا کیونکہ اسکا ایک تاریخی معنی ہے ۔ جب اللہ تعالی ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ نہ وہ یہودی تھے نہ وہ عیسائی تھے وہ دینِ حنیف کے پیرو کار تھے تو مطلب یہ ہوا کہ کوئی دین نہیں تھا وہ شروع سے ہی موحد تھے، توحید پرست تھے، جب انکے والد صاحب بت بناتے تھے جب انہوں نے کہا اللہ ایک ہے تو اس وقت کوئی دین تو تھا ہی نہیں لہذا اس کو اللہ نے دین حنیف کہا ؛
“توحید پرستی بغیر مذہب کے “دین ِحنیف ”کہلاتی ہے اور اگرتوحید مذہب میں آجائے تو پھر اس مذہب کا نام ہوگا، یا تو وہ یہودی مذہب ہوگا، یا عیسائی ہو گا یا پھر مسلمان ہوگا”
اب اگر یہ کہیں سارے توحید پرست سارے مسلمان ہیں تو یہ غلط ہوگا وہ اس لیے کے عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی توحید پرستی کی تعلیم دی گئی تھی بعد میں یہودیوں اور عیسائیوں نے کیا کیا یہ انکا اپنا فعل ہے لیکن بنیادی طور پر اللہ نے انبیاء کے ذریعے جو مذاہب بنوائے ان کا مقصد یہ ہی تھا یہ توحید پرست ہونگے اور پھر ان توحید پرستوں کو ایک شریعت دی پھر اس مذہب کا نام رکھا یعنی یہ اسلام ، یہودیت ، یا عیسائیت ہے ،اسلام، یہودیت اور عیسائیت یہ مذاہب ہیں اورتمام کا بنیادی مقصدتوحید ہے۔اگر کوئی انسان کسی مذہب کسی شریعت پر نہ ہو لیکن توحید پرست ہو یعنی ایک اللہ کا ماننے والا ہو کسی شریعت کا ماننے والا نہ ہو تواسکو کہیں گے یہ دینِ حنیف کا پیرو کار ہے۔
سیدنا گوھر شاہی توحید پرست بنا رہے ہیں:
دین ِحنیف توحید پرست ہونا ہوگیا ، بغیر مذہب کے ،اب سیدنا گوہر شاہی کل انسانیت کو کیا سکھا رہے ہیں ؟ ہندو کو کہتے ہیں پڑھو اللہ اللہ ،اسکے دل میں اللہ کا نور پہنچا رہے ہیں بغیر کسی مذہب میں جائے وہ ایک اللہ کا ماننے والا بن گیا یہ دینِ حنیف نہیں ہے تو اور کیا ہے، یہودی جو اپنے دین سے ہٹ گیا اس کو معلوم بھی نہیں رہا توحید پرستی کیا ہے اور انکی شریعت کیا ہے ، اپنے دین سے بالکل ہٹ گیا ، گوہر شاہی انکو بھی کہہ رہے ہیں چلو دل ہی دل میں پڑھو اللہ اللہ، انکو بھی توحید پرستی میں لگا رہے ہیں ، مسلمانوں کو بھی کہتے ہیں تو روزہ نماز میں تو لگا ہوا ہے ، نماز پڑھ کے دعا کرتا ہے مجھے جنت میں جگہ دے دے، کبھی تیرے دل میں خیال آیا اے اللہ مجھے تو مل جائے!!!دنیا اور جنتوں کے خواب اور خیالات سے مسلمانوں کو ہٹا کر توحید پرستی میں لگا رہے ہیں ، یہ دین حنیف نہیں ہے تو اور کیا ہے۔بغیر کسی مذہب کے لوگوں کے دلوں کو اسم اللہ سےزندہ کرنا ہی دین الہی ہے، اس لیے ہم دین الہی کو دین حنیف کہہ رہے ہیں ۔
سیدنا گوہر شاہی فرماتے ہیں مذہب کی قید نہیں ہے، تم کسی بھی مذہب سے ہو اگر دل میں اللہ اللہ چلا گیا تو تم دین حنیف میں ہو،مسلمان اعتراض کرتےنہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، توحید پرستی اصل چیز ہے، دین کی روح توحید پرستی ہے ، پہلے بھی یہ ہی تھا ، جب آدم صفی اللہ آئے تھے اس وقت بھی یہ ہی چیز تھی اور آخر میں بھی یہ ہی ہوجائے گی۔قرآن نے کہا
وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
(سورۃ یونس آیت نمبر 19)
ابتداء میں بھی تمام انسان امت واحدہ تھے اور آخر میں جب امام مہدی آئیں گے تو وہ بھی سارے انسانوں کو امت واحدہ میں منتقل کر دیں گے ، جدا جدا مذہب ختم ہو جائیں گے امت واحدہ ہو جائے گی امت واحدہ کیا ہوگی؟ سب کی وحدت قائم ہو جائے گی، سب توحید پرست ہو گئے، سب کے دلوں میں صرف اللہ آ گیا ۔ اس کے دل میں اللہ اور(Jesus) اسکے دل میں اللہ اور ابراہیم ، اس کے دل میں اللہ اور محمد، لیکن دین حنیف یہ ہے کہ سب کے دلوں میں اللہ آ گیا ،یعنی انبیاء ہٹ گئے اور اللہ آ گیا یہ دین ِحنیف ہے۔پہلے یہ یہودیت کا حصہ تھا تھوڑا تھوڑا ، پھر یہ عیسائیت کا حصہ بنا تھوڑا تھوڑا، پھر یہ اسلام کا حصہ بنا تھوڑا تھوڑا ، اور اب امام مہدی سیدنا گوہر شاہی پورا کا پورا اسے زمین پر لے آئے ، تاکہ سب توحید پرست بن جاؤ ، سب کے سینوں میں اللہ کا نور آجائے۔لوگوں نے سیدنا گوھر شاہی سے پوچھا جسکا کوئی مذہب اور دین نہیں ہے اسکا کیا ہوگا؟آپ نے فرمایا اسکے لیے پھر میں ہی ہوں ۔یعنی اسکے دل میں توحید میں ہی ڈالوں گا۔ اسکے سینے کو میں ہی منور کروں گا۔ یہ دینِ حنیف ہے۔توحید پرستی بغیر مذہب کے دین ِحنیف کہلاتی ہے پہلے بھی یہ ہوا ہے تو اب بھی ہوگا !!
دینِ حنیف اور دین ِ الہٰی کی مکمل تشریح:
زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار توحید پرستی کی ابتداء ہے جوکہ سب ہی کرتے ہیں اب قرآن مجید میں ایک بات اور بھی آ گئی اللہ تعالی نے فرمایا “یا رسول اللہ کیا آپ نے اُس شخص کا حال نہیں دیکھا کہ جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے”۔اب یہ بات کافروں کے لیے ہے یا مسلمانوں کے لیے اسکا ذکر نہیں ہے، آپ نے ایک عام بات فرمائی ، اب اگر آج کے مسلمانوں پر نظر ڈالیں تو زبان سے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اللہ کی وحدانیت کے قائل ہیں ، یعنی عقلی اور زبانی طور پر تو قائل ہیں لیکن حقیقی طور پر قائل ہونا کیا ہے ؟ اس آیت سے جان کب چھوٹے گی کہ اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔
آپ دیکھیں پاکستان میں لوگ رشوت لیتے ہیں ، غبن اور فراڈ کرتے ہیں ، بے ایمانی کرتے ہیں تو یہ خواہشات کے پجاری بنے ہوئے ہیں اور اللہ یہ ہی تو فرما رہا ہے کہ آپ نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، تو لوگ ظاہری طور پر تو توحید پرست ہیں لیکن باطنی طور پر اپنا معبودخواہش نفس کو بنا رکھا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ اصلا ًیہ توحید پرست نہیں ہیں یہ صرف زبان سے کہہ کر ریا کاری کر رہے ہیں ، اصل توحید پرست وہ ہے جو اسکے معنوں پر جاتا ہے ، صرف زبان سے اسکا اقرار ہی نہیں کرتا جیساکہ کوئی کہے ہاں جی کیا تم کو پانی پینا ہے ہاں پینا ہے ، پانی پینا اچھی بات ہے؟ ہاں جی پانی پینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے پانی پینا جائز ہے ، پانی پینا زندگی کی ضرورت ہے لیکن پانی پیتا نہیں ہے ،اب آپکے ذہن میں شک و شبہات پیدا ہونگے کہ زبان سے کہہ رہا ہے تو پی کیوں نہیں رہا ۔اسی طریقے سے دیکھنا ہوگا کہ زبان سے تو کہہ رہے ہیں لا الہ الا اللہ ۔۔۔۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، تو یہ کہنے کے باوجود اپنے من میں ساری دنیا کو کیوں بسا رکھا ہے! غیر اللہ کو اپنے دل سے نکالتا کیوں نہیں ہے! صرف زبان سے ہی کہتا رہتا ہے اللہ ایک ہی ہے ، اللہ ایک ہی ہے۔اللہ ایک ہی ہے اس کا اقرار کر کے پھر صرف اللہ کو دل میں لا اور باقی سب کو سینے سے نکال نا!حقیقی توحید پرست زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا پھر لا الہ کی تلوار سے غیر اللہ کو اپنے سینے میں ختم کیا ۔ اندر جو شیطان اور خناس بیٹھا ہوا ہے ، لا الہ کی تلوار سے انکی نفی کرتا ہے، پھر الا اللہ یہ اثبات ہے اب اللہ کو دل میں لانا ہے ، جب دل میں اللہ کا نور آ گیا پورا سینہ نور سے منور ہو گیا اب اصل میں تو توحید پرست ہوا ۔ جب تیرے سینے میں اللہ کا نور آ گیا ،نس نس میں نور آ گیا تو پھر تو توحید پرست ہو گیا اور یہ ہی دینِ حنیف ہے۔
“بغیر کسی شریعت پر عمل کیے اگر تیرا سینہ منور ہو گیا تو پھر تُو دین ِحنیف میں ہے اور جب تُو بغیر کسی مذہب کے رب تک پہنچ گیااسکے رو برو ہوگیا ، تو نےاسکو دیکھا اسنے تجھے دیکھا وہ ” دین الہی” ہے۔سینے سے غیر اللہ کو نکالا ” توحید پرست ” اور اسکے سامنے جا کر اسی میں کھو گیا فنا فی اللہ ہو گیا تو پھر یہ ” دین الہی” ہو گیا۔ دین ِحنیف ابتداء اور دین الہی انتہا ہے۔دین ِحنیف بغیر مذہب کے سینے کو منور کرنا توحید پرست ہونا ہے اور دین الہی رب کو پا کر سارے مذہب کو بھول جانا ہے ۔نہ دینِ حنیف میں مذہب کا کام ہے نہ دینِ الہٰی میں کسی مذہب کا کوئی کام ہے”
بغیر مذہب کے توحید پرست بننا ، جس میں نفس کی خواہشات کا مرید نہ ہو اللہ کے نور کے تابع ہو جائے۔اللہ کے تابع ہونا ایک تو یہ ہے کہ قرآن شریف میں لکھا کہ یہ نہ کرو وہ نہ کرو یہ تو قرآن شریف کے تابع ہونا ہوا نا ! توحیدپرست وہ ہوگا جب تیرے نس نس میں نور چلا جائے گا سینہ بالکل منور ہو جائے گا تو اس وقت تو اللہ کے نور کے تابع ہوگا، پھر جب دیدار الہٰی میں چلا گیا وہ تو اسے دیکھے وہ تجھے دیکھے اب یہ کفر ہوگا کہ تو اسکے علاوہ کسی اور کی اتباع کرے، بھلے کوئی دین ہو اللہ سے بڑا کوئی دین نہیں ، جو اللہ کے دیدار میں چلا گیا ، وہ اللہ میں اور اللہ اس میں ہے ۔قرآن میں ہے ، میں اسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، میں اسکے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، میں اسکی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ، اور یوم محشر میں اسکی زبان بن جاؤںگا جس سے وہ بولے گا۔یومِ محشر میں جب لوگ ولیوں کو کہیں گے میں نے اسکو وضو کرایا تھا اللہ تو نہیں کہے گا جاؤبخش دیا، یہ وہ ولی کہے گا کہ تو نے وضو کرایا تھا جا بخش دیا۔ اس دن اللہ اس ولی کی زبان بن جائے گا۔جو وہ بولیں گے وہ اللہ کا کلام ہی ہوگا۔
بغیر مذہب کے توحید پرست بنا، سینہ اللہ کے نور سے منور ہو گیا اور تو نور الہٰی کے تابع ہوگیا تو یہ دینِ حنیف ہے اور دین الہی کیا ہوا؟ تو اللہ کی ذات اسکے دیدار تک پہنچ گیا تو اللہ میں اللہ تجھ میں تو اب تجھ پر حرام ہے کہ تو کسی اور کی اتباع کرے۔ ، اب تو براہ راست اُسی کی اتباع میں آگیا۔ اللہ کے دیدار کے بعد تو نبی کے تابع نہیں ہو سکتا کیونکہ اب تو اللہ کے تابع ہو گیا ، اور اللہ کا تابع ہی ہونا پڑے گا۔ کیونکہ وہ نبی بھی تو اللہ ہی کے تابع ہے۔ اب تو اللہ کی اتباع میں آ کے نبی کی اتباع میں کیسے جا سکتا ہے!!توحید کی اصل منزل سینہ کے اندر سے تمام غیر اللہ کو نکالنے سے ہوتی ہے ، جب سارا غیر اللہ نکل گیا تو تو توحید پرست اور موحد ہو گیا ،موحد وہی ہے، زبان سے کہہ بھی دیا کہ اللہ ایک ہے، نہیں ،بلھے شاہ نے کہا
تیرا دل کھلانڈا منڈے کڑیاں تو سجدے کریں مسیتی
دنیا دارا رب دے نال وی تو چارسو وی کیتی
نماز میں جاتا ہے دل میں بیوی بچے بھرے ہوئے ہیں انکا خیال نماز میں آتا ہے ، اللہ سے چارسو بیسی کر رہا ہے۔پھر کہا“اکو الف تیرے درکار”، یعنی توحید پرست بن جا، موحد بن جا، اپنے سینے کو رب کے نور سے منور کر لے، باقی سب کچھ نکال کر پھینک دے، غیر اللہ سے پاک کر لے۔جس نے سینے اور دل کو غیر اللہ سے پاک کیا اور اس میں اللہ کا نقش جما دیا، اسی کے لئے قرآن میں آیا کہ
أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
(سورة المجادلة آیت 22 )
وہ توحید پرست ہے، اگر مذہب میں ہے تو مومن ، مذہب پرنہیں ہے تو پھر وہ دین ِحنیف کا پیرو کار ہے۔ابراہیم علیہ السلام جب بچے تھے اور انکے والد صاحب بت بناتے تھے اُس وقت دین نہیں تھا لیکن وہ توحید پرست تھے اسی لیے انکو دین ِحنیف کا پیرو کار کہا گیا ، دین حنیف صرف انہی زمانوں میں تھا جب کوئی مذہب قائم نہیں تھا ، یہ بھی یاد رہے کہ بغیر مذہب اللہ توحید اسی وقت دے گا جب کوئی مذہب نہیں ہوگا آج اگر کوئی یہ فتنہ فساد کرے کہ میں بناء مذہب توحید پرست بننا چاہتا ہوں تو یہ غلط ہے ، اللہ بناء مذہب کے توحید کا فیض اُس وقت دیتا ہے کہ جب اسکا بنایا ہوا مذہب اسکے نزدیک نہ ہو ۔
اہم نکتہ :
بغیر مذہب کے توحید پرست بننا دینِ حنیف کہلاتا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ بغیر مذہب توحید پرست بننا صرف توحید کا اقرار نہیں ہے ، عملی طور پر توحید پرست بننا ہے تب دینِ حنیف ہوگا ، اب عملی طور پر توحید پرست بننا کیا ہے؟ کہ اپنے قلب و قالب سے غیر اللہ کو نکال کر اللہ کو بسا لینا ، اقرار تو زبان سے پڑھنے کا نام ہے اور اِس کام کے لیے تصوف کی ضرورت ہے ، بغیر روحانیت کے اللہ دل میں آتا نہیں ہے اور غیر اللہ باہر جاتا نہیں ہے۔ اور تصوف آتا ہے ولیوں کی طرف سے ، ولی نہیں ہوں گے تو توحید پرست کیسے بنو گے اور ولی آئے ہیں مذاہب میں ، اگر کوئی مذہب نہیں ہوگا تو ولی بھی نہیں ہوگا ، تو پھر تم توحید پرست کیسے بنو گے؟ لہذا انبیاء کرام جب آئے تو اللہ نے جبرائیل کے ذریعے انکو توحید پرست بنایا لہذا یہ صرف انبیاء کے لیے تھا کیونکہ جبرائیل نے انکی صفائی کی ان کو توحید پرست بنایا اس لیے تمام انبیاء کا مذہب دینِ حنیف کہلایا ۔ایک تو زبان سے توحید پرست ہے توبے کار ہے۔
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔۔۔۔۔۔ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
زبان سے کہنا بے کار ہو گیا ، دین حنیف تب ہو گا ،جب تیرا نفس اور سینہ پاک صاف ہو گیا اور یہ تصوف اور روحانیت کی تعلیم سے ہوتا ہے ، ولی اور صوفی لے کر آتے ہیں ، مذہب کے اندر ہی تو یہ تعلیم آئی ، مذہب نہیں تھا تو صوفی اور ولی بھی نہیں تھے تو ایسے دور میں کوئی عام آدمی کیسے دین ِحنیف میں جا سکتا تھا ؟ اُس وقت صرف انبیاء کرام ہی دین حنیف میں داخل ہوئے ، کوئی مذہب کوئی ولی نہیں تھا تو ان روحوں کو صاف ستھرا کرنے کی ذمہ داری اللہ کی تھی، جبرائیل کے ذریعے ان کا تذکیہ نفس اور تصفیہ قلب کرایا گیا، جب قلب اور سینہ پاک ہو گیا اب انکا مذہب تو تھا نہیں تو انکو دینِ حنیف کا پیرو کار کہا۔
دور ِمہدی میں عوام الناس کے لئے دینِ حنیف اور دین ِالہٰی کی رسائی:
اب امام مہدی کے دور میں وہی حالت ہوگئی ایک وقت وہ تھا جب کوئی مذہب نہیں تھا اور اب وہ وقت ہے جب کوئی مذہب اللہ تک لیجانے والا باقی نہیں بچا، سارے مذہب بے کار ہوگئے ، اب نہ یہودیت میں روحانیت رہی ، نہ ہی عیسائیت میں روحانیت رہی اور اسلام کا حال آپکے سامنے ہے روحانیت رہتی یا نہ رہتی وہ تو روحانیت کو ہی کفر کہتے ہیں ،اب سارے مذاہب بے کار فتنہ کا شکار ہو گئے ،اب کسی نبی نے بھی نہیں آنا آخری نبی بھی آ کر چلے گئے تو اب اللہ تعالی نے امام مہدی کو اپنا طریقہ دیا ، کہ بغیر مذہب کے ہی تم لوگوں کو توحید پرست بناؤ ، بغیر مذہب کے ہی انکے دلوں انکے نفوس کو پاک کرو، انکا سویا ہوا نصیبہ چمکاؤ۔اسی لیے امام مہدی نے فرمایا“ جدا جدا مذاہب ختم ہو جائیں گے اور ذکر قلب سب کا ایک ہی ہوگا”۔ ظاہر میں انکا کوئی مذہب ہو ہمیں اس سے سروکار نہیں ہے کیونکہ وہ مذہب بیکار ہی ہے اسکو کیا تبدیل کرنا، جب دل میں اللہ آ گیا تو تیرا رخ بھی اس طرف ہو گا جدھر اللہ کا۔ دین الہی کے اس جملے کا یہ ہی مطلب ہے کہ بغیر مذہب کے تیرا سینہ پاک ہو گیا اس میں اللہ آ گیا تو یہ دین حنیف ہے اور جب جس کو تو ایک مانتا ہے جب تو اس کے ساتھ ایک ہو گیا ،واصل ہو گیا تو وہ دین ِالہٰی ہے۔جب تک تو اس کو ایک مانتا ہے اسکا نور تیرے اندر ہے، جب غیر اللہ نکل گیا توحید پرست دینِ حنیف ، جب تو اور اللہ ایک دوسرے سے واصل ہوگئے تو تم دین الہی میں داخل ہوگئے۔
عام آدمی دینِ حنیف میں کیوں جا نہیں سکا ، کیونکہ دین ِحنیف میں جانے کے لیے روحانیت کی ضرورت تھی، مذہب نہیں تھے تو ولی بھی نہیں تھے ، ولی نہیں تھے تو روحانیت بھی نہیں تھی اس لیے عام آدمی دین حنیف میں جا نہیں سکا ۔ نبیوں کی ذمہ داری تو اللہ نے لی تھی انکا صاف ہوگیا تو وہ موحد اور توحید پرست ہو گئے ، عام آدمیوں کے لیے یہ تھا نہیں ، اب امام مہدی آ گئے ہیں انکا طریقہ وہی ہے جو نبیوں کو فیض دینے کا تھا اس لیے امام مہدی کے دور میں سب موحد ہو گئے ، جو بھی امام مہدی سے فیض پا گیا وہ اللہ تک پہنچ گیا ،بھلے اسکا نبی یا اسکا دین کوئی بھی تھا یا نہیں تھا ، خیر ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی عزت ماب سیدی یونس الگوھر کے 27 مئی 2017 کے یوٹیوب کے لائیو سوال و جوابات کے سیشن سے لیا گیا ہے۔