کیٹیگری: مضامین

اللہ تعالیٰ کی آواز کو کیسے سنا جاسکتا ہے؟

ایک تو ضم کی تعلیم ہم نے لوگوں کو بتائی ہے۔ ضم کی تعلیم یہ ہوتی ہے کہ سرکار گوھر شاہی اپنی ذات کا ایک عکس ہمارے جسم میں ڈال دیتے ہیں اور وہ ہماری روح میں مِکس ہوجاتا ہے۔ جب وہ مکس ہوجاتا ہے تو پھر وہ مادہٴِ شناخت ختم ہوجاتا ہے کہ یہ بندہ ہے یا رب ہے۔ تب ہی بلھے شاہ نے کہا کہ
بلھا کیہ جاناں میں کون
ایک تعلیم وہ ہے جو ضم سے بھی آگے ہے۔ جیسے ذکرِقلب ہے اور ضم کی تعلیم ہے، کتنا فرق ہے۔ اِسی طرح وہ ہے تو کہاں ضم اور کہاں وہ، یعنی وہ ضم کی تعلیم سے ایک ہزار درجے ذیادہ افضل ہے۔ جسطرح ہمارے جسم میں یہ مخلوقیں ہیں، ہمارا قلب، روح اور نفس۔ اِس کے اندر سے اور جثے نکلتے ہیں۔ جو ہمارا قلب ہے اِس میں سے تین جُثے نکلتے ہیں ایک قلبِ سلیم، دوسرا قلبِ منیب اور تیسرا قلبِ شہید، یہ تین فرشتے اِس کے اندر بند ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہر مرشد کو یہ تعلیم نہیں ہے۔ کسی مرشد کو صرف ذکر کی تعلیم ہے وہ آپ کا بس ذکرِقلب جاری کردے گا۔ اِس کو کہیں گے کہ یہ ذکوریت کا ماہر تھا کیونکہ طریقت کے چار جُز ہیں۔ پہلا جُز ذکوریت، دوسرا جُز خُشیت، تیسرا جُز قشیت اور چوتھا جُز حُرِیت ہے۔ کچھ مرشد تو ایسے ہوتے ہیں جو تم کو صرف ذکرِقلب میں لگاتے ہیں باقی اذکار میں لگاتے ہیں، وہ ذکوریت کے ماہر ہیں۔ اگر کوئی مرشد خُشیت کا ماہر ہو تو پھر وہ تمہارے قلب کی مخلوق کو بھی نکالے گا قلب کا جُثہ نکالے گا۔
اب یہ جو مقامِ وصل ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا مضمون Organic Chemistry تھا تو ہمیں یہ بات روحانیت بہت جلدی سمجھ میں آئی کیونکہ ہم نے Organic Chemistry میں یہ پڑھا کہ Equations کے Radicals کیسے بنانے ہیں۔ جیسے CH4 ہے تو اب اُس کی کیمیائی مساوات کسی اور کے ساتھ کرنی ہے تو اُس کے اندر سے ہائیڈروجن کا ایک مالیکیول نکالیں گے تو وہ Methyl ) CH3) بن جائے گا۔ اب کوئی مساوات اُس کے ساتھ کرتے ہیں تو ریڈیکل بنتا ہے۔ اِسی طرح ہمارا جو قلب ہے اِس کے چار خانے ہیں اور تین اِس کے اندر مخلوقیں ہیں ایک خانہ خالی ہے جہاں مرشد کے قلب سے جُڑنا ہے۔ چرخا بھی اِسی کو کہا گیا ہے۔ کچھ پیرانِ طریقت تو ایسے ہیں جو صرف آپ کو ذکرِقلب دیں گے، آپ کا دل اللہ اللہ کرے گا بس آپ موٴمن بن گئے یعنی ہلکا سا روحانیت کا touch دیا بس ذاکرِقلبی بنادیا۔ لیکن ایسے مرشد بہت کم ہوتے ہیں کہ جو تمہارے قلب کی مخلوق کو بھی باہر نکالیں، اِس میں قُشیت کی مہارت چاہئیے۔ پھر کچھ ایسے ہوتے ہیں جو مخلوقیں نکال کے جہاں سے وہ مخلوق آئی ہے اُس کو اُس جہان کی سیر پر لے جانا کہ دیکھو یہ تمہارا عالم ہے اور اُن سیاروں کو وہاں چھوڑ دینا۔
عالمِ ملکوت میں ہر رات کو اللہ تعالیٰ کی آواز آتی ہے کہ ہے کوئی بندہ جو مجھ سے میری محبت طلب کرے۔ روزانہ یہ اللہ کی ذاتی آواز عالمِ ملکوت میں گُونجتی ہے۔ آپ کو سنائی دیتی ہے؟ نہیں، کیونکہ یہ اُن کو سنائی دیتی ہے کہ جن لوگوں کے قلب کا ایک سیارہ عالم ملکوت میں ٹھہرا ہوا ہو۔ جیسے اب یہ کیمرہ لگاہوا ہے تو لوگ دیکھ رہے ہیں۔ یہ کیمرہ ہٹا دو تو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ کیمرہ یہ لگاہوا ہے تو اب لوگ امریکہ، کینڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور اور پوری دنیا میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ کیمرہ یہاں پر لگاہوا ہے۔ جو بھی یہاں کچھ ہورہا ہے کیمرے کے ذریعے وہاں کے لوگوں کو پتہ چل رہا ہے۔ اِسی طرح تم کو بھی اگر وہاں عالمِ ملکوت کی خبرگیری کرنی ہے تم بھی اپنا کوئی کیمرہ اوپر بھیجو۔ اُن لوگوں کو اللہ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کہ جن کے قلب کا ایک جُثہ عالمِ ملکوت میں ہر وقت پڑا ہوا ہے۔ اب اِس کے تین جثے ہوتے ہیں۔ پھر نفس کے چار جثے ہوتے ہیں نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ الہامہ اور نفسِ مطمئنہ۔ اِسی طرح پھر روح ہے روح کے جثے ارضی ارواح سے نکالے جاتے ہیں تو دو جُثے اُس کے ہوتے ہیں۔ اب ہر بندے کے اندر یہ لطائف اور جُثے موجود ہیں۔

وحدت سے کثرت میں آنے کا باطنی راز:

ایسا نہیں ہوسکتا کہ قلب کے تین جُثے ہوں اور تم چار نکال لو۔ نفس کے چار جُثے ہوتے ہیں تو تم آٹھ نکال لو، نہیں ہوسکتا۔ تیرے اندر اُس نے اِتنے جثے رکھے ہیں لیکن ایک ذات ایسی ہے کہ وہ اِن جثوں کو ضرب کرسکتی ہے، اِس روح کو ضرب کرسکتی ہے۔ اب وہ جو روح ہے اُس کو ضرب کرنا کیا ہے؟ ہم آپ کو جو زبان بول رہے ہیں وہ آج کی زبان ہے، یہ Contemporary Lingo ہے جس میں ہم آپ کو روحانیت سمجھا رہے ہیں۔ پہلے ہم آپ کو وہ سمجھا دیں جو عام طور اِس کی وضاحت ہے جوکہ آپ نے سُنی ہے اور پسند کی ہے لیکن آپ کے کچھ پلّے نہیں پڑا۔ وہ یہ ہے کہ وحدت سے کثرت میں نزول ہونا۔ اب جیسے پانی کی یہ ایک بوتل ہے ہم اِس میں سے ایک ایک قطرہ سب کے منہ میں ڈال دیں تو بوتل ختم ہوجائے گی۔ پھر ہم کہیں گے کہ جب تک یہ بوتل میں پانی تھا اپنی وحدت میں تھا۔ اب یہ پانی کثرت میں آگیا ہے۔ اب یہ رب کا کام ہے کہ وحدت سے کثرت میں نزول کرے۔ یہ کام آپ کو تو نہیں آتا۔ آپ اگر چاہیں کہ ہم جاکے آصف بھائی، اخلاق صاحب کے اندر بیٹھ جائیں تو تھوڑی تھوڑی اپنی جو حقیقت ہے وہ ایک ایک قطرہ اپنی حقیقت کا سب کو بانٹ دوں تو آپ تو نہیں کرسکتے۔ آپ کی تو ایک ہی روح ہے لیکن کوئی ذات عالمِ غیب سے آئے اور وہ اپنی ہستی کے قطرے بنائے، وحدت سے کثرت میں آئے، اپنے جلووٴں کو ضرب دے اور پھر اپنی آستین سے اپنا ایک جلوہ نکالے اور وہ پھر تمہارے اندر چلاجائے۔ اور وہ جب جائے تو تمہارے ساتوں لطائف کو جلاکر راکھ کردے یعنی کُل فنائیت کا مقام ہوجائے اور پھر وہ وہاں بیٹھ جائے۔ جب وہ وہاں بیٹھ گیا تو اب بولنے کی طاقت بھی اُس کی نہیں ہے، اب بولنے کی طاقت بھی اُسی کی ہے جو وحدت سے کثرت میں آیا ہے وہ بول رہا ہے۔
گفتہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

ابھی یہ ہم نے اصل تعلیم بیان نہیں کی ہے یہ ہم نے مثال دی ہے یعنی وحدت سے کثرت میں آنا۔
وحدت سے کثرت میں آنے کا ایک تو رُخ یہ ہے کہ اُس نے اپنی ذات کا جب اظہار کیا تو مختلف صفات نمودار ہوئیں جیسے کہ وہ رحیم ہے رحم کرنے والا ہے، جیسے کہ وہ کریم ہے کرم کرنے والا ہے، جیسے کہ وہ خلیل ہے دوستی کرنے والا، جیسے کہ وہ عاشق ہے عشق کرنے والا ہے۔ یہ مختلف اُس کی صفات ہیں۔
ہندومت اور اسلام میں بھی فرق یہی ہے وحدت اور کثرت کا۔ اب جو ہندو کہتے ہیں گاؤماتا اُس کی بھی تعظیم کرو، ہنومان جی اُن کی بھی تعظیم کرو، یہ اِس لئے کہتے ہیں کیونکہ اِنہوں نے صفاتی تجلی پہاڑوں، پرندوں، جانوروں، درختوں میں دیکھی، وہ اُس کی صفاتی تجلی تھی۔ وہ رب ہی کی تجلی ہے لیکن ہندومت کو صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کا معلوم ہوا وہاں تک کا علم ملا۔ اِس لئے جہاں جہاں صفات نظر آئیں اُنہوں نے اُس کو پوجنا شروع کردیا۔ اسلام کے اندر ذاتی نور آیا تو تم نے صفات پر توجہ نہیں دی تم نے کہا یہ کافر ہے۔ ہم اگر یہ کہیں کہ یہ پانی کی بوتل اِن سب کے اندر ہے تو بولیں گے کہ دماغ خراب ہوگیا ہے یہ پانی کی بوتل اِن سب کے اندر کیسے موجود ہوسکتی ہے! لیکن اگر پھر ہم اِس کا ڈھکن کھولیں اور ایک ایک قطرہ اِن سب کے منہ میں ٹپکائیں اور جب یہ ختم ہوجائے اور پھر ہم تم ہی سے پوچھیں کہ بتاوٴ بوتل کہاں ہے تو آپ کہو گے کہ آپ نے سب کو پلادی ہے۔ جب عمل کرکے دکھایا جائے گا تو پھر آپ کو سمجھ میں آجائے گا۔ اِسی طرح سرکار گوھر شاہی نے ہم کو بھی دکھایا اور سمجھایا کہ

ہندو جو کہتے ہیں کہ یہ بہت سارے خدا ہیں تو اِن کو کہنا نہیں آتا ہے۔ بہت سارے خدا نہیں ہیں خدا کے بہت سارے جلوئے ہیں۔

صرف یہ ہے کہ اِن کو بیان کرنا نہیں آیا کیونکہ ہندو دھرم میں کوئی باقاعدہ ولائت کا نظام نہیں ہے۔ اللہ نے جس کو بنادیا تو بن گیا۔ ہندو دھرم میں کچھ اولیائے کرام گزرے ہیں لیکن جو نظام ولائت کا محمد الرسول اللہ نے دیا ہے یہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ وہ کسی دین میں روحانیت کا مربوط نظام اِس طرح کا نہیں ہے۔

ولائت کا نظام:

ولائت کا جو نظام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ ہم نے یہودیوں کو بھی بہت پڑھا ہے، عیسائیوں کی بھی روحانیت پڑھی ہے۔ اِس بات کا انکار نہیں کہ وہاں پر ولی نہیں، ولی وہاں پر بھی آئے ہیں لیکن اِکّا دُکّا۔ یہ تو باقاعدہ نظام حضورؐ نے قائم کیا۔ ہر دور میں تین سو ساٹھ ولیوں کا ایک محکمہ رہے گا۔ اُس کا سربراہ غوث ہوگا، اُس کے نیچے تین قطب ہونگے، پھر چالیس ابدال ہونگے، پھر اخیار ہونگے، پھر زُنجبہ ہونگے، سالک ہونگے، درویش ہونگے، تین سو ساٹھ کا محکمہ ہر دور میں رہا ہے۔ کچھ غوث ناسوتی ہونگے، کچھ غوث ملکوتی ہونگے، کچھ غوث جبروتی ہونگے۔ جیسا کہ ایک عام ناسوتی غوث ہوتا ہے اُس کا کام صرف نفس پاک کرنا ہے۔ ایک غوث جبروتی ہوتا ہے وہ پیرِطریقت بھی ہوتا ہے اور پیرِشریعت بھی ہوتا ہے، مرتبہ اُس کا شریعت والا ناسوتی ہے اور طاقت اُس کی ملکوتی ہے۔ ایک غوث جبروتی ہوتا ہے جیسے غوثِ اعظم تھے۔ جسطرح ابوبکرصدیق تھے وہ بھی پہلے اپنے دور کے غوث الزماں تھے لیکن ناسوتی تھے۔ اور مولیٰ علی وہ بھی غوث تھے لیکن وہ ملکوتی تھے۔ اور اویس قرنی وہ جبروتی تھے۔ جو ولائت کا نظام نبی کریمؐ نے اپنی اُمت کو بناکر دیا اور اُس کی ایک وجہ یہ بھی ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اللہ نے باقی مذاہب کے ساتھ ذیادتی کردی ہے کہ صرف حضورؐ کو ہی ایسا نظام کیوں دیا ہے باقی لوگوں نے کیا بگاڑا ہے۔ اُس کی وجہ جو ہم کو سمجھ میں آتی ہے اور اللہ بھی اُس سے متفق ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ حضورؐ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ حضورؐ نے فرمایا کہ

انا خاتم النبیین لانبی بعدی
ترجمہ: میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اگر حضورؐ کی اُمت میں بھی ویسا ہی ولائت کا نظام ہوتا جو ہندو دھرم، عیسائیت، یہودیوں میں ہے تو پھر تو دنیا ٹھکانے لگ جاتی۔ اب جب نبوت اور رسالت ختم ہوگئی ہے تو اُس کا متبادل دنیا کیلئے نبیؐ نے مہیا کیا ہے کہ ہم ولائت شروع کرتے ہیں نبوت ختم ہوگئی ہے۔ اب جو کام نبیوں سے لیا جاتا تھا اب وہ ولیوں سے لیا جائے اور اللہ نے بھی اِس سے اتفاق کیا کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک بات ہے نبوت اور رسالت ختم ہوگئی ہے اب تو ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ولائت کا ایسا نظام ہو کہ آپ کی اُمت سے ولی نکل نکل کرکے جائیں پوری دنیا میں پھیل جائیں۔ قرآنِ مجید میں اِس کا ذکر آیا ہے کہ اور ہم نے تم کو بہترین اُمت کے طور پر چُنا تاکہ تم دنیا میں نکل جاوٴ اور دنیا کو رحمت سے بھردواور لوگوں کو اللہ سے جوڑدو۔ یہ آیت اُن ہستیوں کیلئے ہے جن ہستیوں کو اللہ رب العزت نے رُشدو ہدایت کی ڈیوٹی پر فائز کیا، یہ اُن لوگوں کے حوالے سے ہے۔ نبی پاکؐ کی طرف سے جو ولائت ہوئی ہے اُس کو فقرِباکرم کہتے ہیں۔ پھر اُس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک ولائت کا تحفہ ملا وہ فقرِباکمالیت ہے جوکہ اللہ کی طرف سے ملی ہے۔ جوحضورؐ کی طرف سے ولائت کا نظام قائم ہوا ہے اُس میں ہردور میں تین سوساٹھ ولی ہوتے ہیں۔ اُن کا تعلق حضورؐ کے سینے سے ہوتا ہے۔ اور ایک نظام ولائت کا اللہ نے بھی متعارف کرایا وہ ہے فقرِباکمالیت۔ اُس میں ولیوں کا تعلق اللہ سے ہوتا ہے۔ اُس کے ولی کم سے کم دیدار والے ہوتے ہیں۔
اِن فقرِباکمالیت والوں کے اندر بھی کچھ خاص ہوتے ہیں اور کچھ خاص الخاص ہوتے ہیں۔ پھر جو خاص الخاص ہوتے ہیں تو اُن کو پھر جو ہے فقرِباکمالیت والوں میں سے اُن خواص الخاص کو پھر وصل کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب یہ جو لفظ “وصل” ہے اِس کا مطلب ہے آمد۔ جس طرح اُردو میں ہم کہتے ہیں کہ آپ کا پارسل موصول ہوگیا۔ موصول کا مطلب ہے کہ پہنچ گیا، وصول کرنا۔ آپ ہمیں کوئی چیز دیں گے تو ہم اُس عمل کو کہیں گے کہ ہم وصول کررہے ہیں یعنی کوئی چیز ہمارے پاس آرہی ہے۔ تو لفظ وصل کا مطلب ہے آمد توصل باللہ کا مطلب ہوا کہ اللہ کی آمد۔ اِس کیلئے حدیث شریف میں آیا ہے

اِذَا تَم الفَقر فَھواللہ
نورالہدی صفحہ نمبر 86

جب تُو فقر میں کامل ہوگیا فقر پورا تیرے رگ و پے میں سماگیا فَھواللہ پھر اللہ ہی رہ جائے گا تُو ختم ہوگیا۔
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمودِحق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں

وصل کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی اللہ کی طرف سے چیز آئی، کوئی جثہ توفیقِ الہی یا طفلِ نوری، ذاتی ہو یا صفاتی ہو وہ تیرے اندر آئی۔ یہ مقامِ وصل ہے۔ اُس کے بعد پھر ضم کی تعلیم ہے۔ ضم کے بعد پھر ایک اور بھی تعلیم ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کرنا ہے۔ وہ تعلیم جنسیت کہلاتی ہے۔ جنسیت بھی عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں جنسیت کا مطلب ہے قومیت تو جنس ہوگیا قوم ۔ اگر کہا جائے کہ یہ جنسِ اللہ سے ہے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ یہ اللہ کی قوم ہے۔ لفظ قومیت، قوم سے نکلا ہے تو جنسِ اللہ کا مطلب ہوگیا اللہ کی قوم۔ یہ بات قرآن میں ہی ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ
سورة المائدة آیت نمبر 54

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے موٴمنو مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ جب تم اپنے اپنے دین سے پھِر جاوٴ گے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ تو پھر اللہ اپنی قوم کے ساتھ آئے گا۔ ترجمہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ اللہ ایک گروہ کو لائے گا۔ گروہ کیوں کہہ رہے ہو؟ تم کو معلوم نہیں ہے کہ قوم کو انگریزی میں قوم بولتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اے موٴمنو ایسا وقت آنے والا ہے کہ جب تم اپنے اپنے دین سے پھِر جاوٴ گے تو اگلا قدم ہمارا کیا ہوگا، یہ خدائی پلان ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اپنا پلان بتارہا ہے کہ یا تو ٹھیک ٹھیک دین پر چلتے رہو اور اگر تم اپنے اپنے دین سے پھِر گئے تو پھر ہم تم سب کی چھٹی کرادیں گے۔ اب اللہ کی سوچ بھی یہی ہے اللہ صاف صاف بتارہا ہے کہ سُدھر جاوٴ بڑی مشکل سے ہم نے اُن نبیوں کو بھیجا ہے بڑی مشکل سے اُنہوں نے دین قائم کیا اور اگر تم اُن ادیان سے پھِرگئے اب ہم دوبارہ تم کو نہیں آزمائیں گے۔ اب اللہ کا آگے پلان کیا ہے؟ آپ دیکھو کہ شیعہ، سُنی، وہابی، دیوبندی، یہ کتنے فرقے بن گئے ہیں۔ سِکھوں میں بھی فرقے بن گئے ہیں، ہندووٴں میں بھی فرقے بن گئے ہیں، عیسائیوں میں بھی فرقے بن گئے ہیں اور یہودیوں میں تو تھے۔ حضورؐ نے مثال دی کہ یہودیوں میں بہتر ہیں میری اُمت میں تہتر ہونگے۔ اب سارے فرقے ہوگئے تو تم اُمتی کہاں رہے؟ آج کسی مسلمان سے پوچھو کہ آپ کون ہو تو وہ کہتا ہے کہ میں سُنی ہوں الحمدللہ، کوئی کہتا ہے کہ میں شیعہ ہوں۔ تو کیا کوئی بولتا ہے کہ میں حضورؐ کا اُمتی ہوں؟ کوئی بول ہی نہیں رہا کیونکہ ہے ہی نہیں۔ آپ شیعہ، سُنی، بریلوی، وہابی ہیں، اُمتی نہیں ہیں۔ تم دین سے پھِرگئے۔ اب آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی نئی چیز آئے تو نئی چیز یہ آرہی ہے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ تو پھر اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ مستقبل میں اللہ تعالیٰ بِقَوْمٍ اپنی قوم کو لائے گا۔

قرآن میں اللہ کی قوم سے مُراد کیا ہے؟

اللہ کی قوم سے کیا مراد ہے؟ آپ یہی سمجھیں گے کہ اُن کے سینگھ نکلے ہوئے ہونگے وہ aliens ہونگے! قوم سے مُراد ہے روحیں۔ وہ روحیں مختلف ہونگی۔ جسم تو اِسی طرح کے ہونگے لیکن اُن کی روح مختلف ہے۔ اب یہ جو قوم ہوگی یہ مختلف ارواح ہونگی۔ قرآن نے سابقون کا ذکرکیا۔ ایک گروہ روحوں کا ہے جس کو اللہ نے قرآن مجید میں سابقون کا کہا تو اُس میں تین گروہ ہیں۔
1. ایک روحوں کا گروہ وہ ہے کہ جس کو اللہ نے اپنی محبت کے نور سے بنایا۔
2. دوسرا وہ ہے جس کو اللہ نے اپنے قرب کے نور سے بنایا۔
3. تیسرا وہ ہے جس کو اللہ نے اپنے جلووٴں کے نور سے بنایا۔
یہ تینوں گروہ پیچھے رکھے۔ یہ جو اِدھر مال بھیجا ہے یہ وہ روحیں ہیں جو امرِکن سے بنائیں کہ بن جاوٴ بن گئیں۔ حدِنگاہ سے دُور کتنی روحیں بن گئیں۔ پھر اِن لوگوں کے رہنما کو جو چُنا تو وہ سابقون کے گروہ سے چُنا۔ جو مرسلین، اولوالعزم مرسلین، رسول، انبیاء آئے وہ روحیں سابقون کے گروہ سے آئیں۔ کوئی مقربین میں سے آگیا، کوئی جلوئے والوں میں سے آگیا، کوئی صالحین میں سے آگیا۔ کُل ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور انسان تو کتنے ٹریلین آچکے ہیں۔ اب ارواح کے گروہ میں سے صرف ایک لاکھ چوبیس ہزار ارواح آئیں ہیں باقی ساری تو ہاتھ پر ہاتھ دھرکربیٹھی ہیں۔ اب عام لوگوں میں وہاں سے روحیں آرہی ہیں۔ اُن کا ذکر اللہ نے کیا ہے فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ کہ ہم اپنی قوم کو لیکرآئیں گے۔
اُس کی قوم وہ کیسے بنی؟ وہ اُس کی محبت، جلووٴں اور قرب کے نور سے بنی ہے۔ وہ اُن کو لیکر آئے گا۔ اب جس کو اللہ نے اپنی محبت کے نور سے بنایا تھا اُس کو صرف اللہ کی محبت والا پیغام سمجھ میں آئے گا۔ جس کو اللہ نے اپنی محبت کے نور سے بنایا اُس کی تو اولین تلاش یہ ہوگی کہ مجھے اللہ سے محبت کرنی ہے۔ اُس کو بولو کہ داڑھی رکھ لواگر اللہ سے محبت کرنی ہے، اُس کو آپ روزیں رکھوائیں تو وہ کہے گا کہ رکھ لیں گے لیکن اللہ سے محبت کرنی ہے۔ یہ سوئی اُس کی اٹک جائے گی کہ ڈھونڈو اللہ سے محبت کہاں سے ملے گی! اور دیکھیں کہ یہ وہی لوگ تو بیٹھے ہوئے ہیں جو ڈھونڈتے ڈھونڈتے آگئے ہیں۔ کوئی قرب کا متلاشی ہے، کوئی جلووٴں کا متلاشی ہے، کوئی اُس کی محبت کا متلاشی ہے۔ نماز روزہ سب نے کیا ہے لیکن وہ مزہ نہیں آیا کہ مزہ تب آئے گا جب اللہ کی محبت بھی آجائے اللہ کا قرب بھی آجائے۔ جب اللہ کی محبت، قرب اور جلوہ تیرے اندر آگیا تو پھر تیری نمازیں جو ہے وہ محبت، جلووٴں اور قرب کے ترازو میں تُلیں گی۔ ابھی تو تم اِدھر اُدھر کے خیالات کو لیکر نمازوں میں پھرتے رہتے ہو، بیوی بچوں کا خیال، کاروبار کا خیال، اِدھر کا خیال، اُدھر کا خیال تو اُن کی جو نمازیں تھی وہ کیسی تھیں؟ اللہ اکبر کہا اور روح اللہ کے پاس چلی گئی جسم کھڑا ہوا ہے۔ بی بی عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ رات رات قیام میں یُوں کھڑے رہتے ہلتے بھی نہیں کیونکہ اندر کی چیزیں نکل گئیں۔

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب
سورة الشرح آیت نمبر 7 تا 8

ہم دبئی میں ایک پرفیوم کی دُکان پر گئے اور وہ پرفیوم آپ کے سامنے بناکر دیتا ہے۔ کچھ تو پرفیوم کی بوتلیں بنی بنائی رکھی ہیں لیکن کچھ مٹیریل رکھا ہوا ہے اور وہ آپ کے سامنے بناکر دے گا۔ یعنی فرض کیا کہ آپ نے سوچا کہ Tom Ford تو بڑا مہنگا ہے تو مجھے Absolute Patchouli وہ چاہئے وہ کہے گا کہ میں بنادیتا ہوں۔ اِدھر سے کچھ ڈالے گا، اُدھر سے کچھ ڈال کر اور بناکر آپ کودے دے گا۔ Tom Ford کا جو پرفیوم ہے وہ ہوسکتا ہے تین سو ڈالر کا ہو لیکن وہ آپ کو وہاں پر دس ڈالر میں بناکر آپ کو اُس سے بہتر کوالٹی دے دے گا۔ اِس لئے وہ بہت کامیاب جارہا ہے۔ اب یہ بات آپ کو سمجھ میں آگئی کہ ایک تو پرفیوم بنے بنائے فرانس سے آئے اور ایک اُس نے خام مال رکھا ہوا ہے ہاتھ کے ہاتھ بناکر دے گا۔ یہی کام امام مہدی نے کیا ہے کہ

قرب، محبت اور جو جلوہ ہے اُس کا خام مال ہاتھوں میں رکھا ہوا ہے۔ جو قرب کی تلاش میں آگیا اگر روح قرب والی نہیں تھی تب بھی قرب کی تہہ چڑھادی۔ ویسا ہی ہوگیا جیسے سابقون والی روح تھی۔ یہ کرم ہے یہ فضلِ گوھر شاہی ہے۔

کوئی آگیا اور محبت نہیں تھی تو محبت کا رنگ کردیا، جلووٴں کا رنگ چڑھا دیا۔ اور سابقون کے سامنے ایسی روح چلی جائیں جو بالکل کچھ نہیں تھی سرکار گوھر شاہی نے محبت کا رنگ کیا تو سابقون کہیں گے کہ یہ تو بہت اچھے درجے کی روح ہے، اُن کو حیرت ہوگی۔ ایسی نظرِکرم فرمارہے ہیں۔ اب آپ کے آنے کی ہمیں خوشی تو ہوگی۔ مٹی کو جو سونا بنا دے۔ بھکاری، گناہگار، ناہنجار لوگوں کو اپنے قدموں میں جگہ دیکر مقربین، صالحین کے درجے پر بٹھا دیں تو ایسی ہستی کا، ایسی ذات کا کیوں نہ احسان مند ہوں!

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 25 نومبر 2021 جشنِ ریاض کے موقع پر یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس