- 1,211وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
ایمان کی حقیقت :
جب ہم اپنے اطراف میں نظر ڈالتے ہیں تو بہت سے مذہبی اسکالرز قرآن و حدیث کے نام پہ دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں، اللہ اور اسکے رسول کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ ڈھٹائی کے ساتھ روحانیت کے اس راستے کو رّد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی روحانیت اور تصوف نہیں ہے یہ سب بکواس کی بات ہے ۔معرفت و طریقت کا کوئی علم نہیں ہے، سب جھوٹ کا پلندا ہے کہیں حدیث میں اسکا ذکر نہیں آیا۔ ہمارا کام امام مہدیؑ کی راہ ہموار کرنا ہے ، اور راہ ہموار کرنے میں ہمارا جو کردار ہے وہ عام مبلغین سے مختلف ہے ۔ ہم اپنا موازنہ اُن سے نہیں کر سکتے ۔ایک مبلغ ، ولی یا عالمِ حق کا جو کام ہے وہ حق بیان کرنا ہے اور خاموش رہنا ہے۔ جبکہ ہم امام مہدی کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ جہاں دین ، اللہ اور رسول کے نام پر گمراہی پیدا کی جا رہی ہے تو ہم اُس کے اوپر بھی گفتگو کریں گے ۔نبی کریمؐ کا فرمانِ ذیشان ہے کہ جہاں برائی ہوتی دیکھو ہاتھ کے زور سے روکو، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے بُرا کہواور اگر اسکی بھی طاقت نہیں ہے تو دل میں بُرا جانو۔ قلب کی توحید سے متعلقہ نبی کریمؐ کی ایک حدیثِ مبارکہ ہے کہ
عن علی بن حسین عن ابی بن طالب قال: قَالَ رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَلَایمَانُ مُعَرِفَت بَالُقَلبّ وَلَاقُولَ بَالسّانِ وَ الَعمَلِ بَالارکَان
حقیقت الایمان، راوی ابن ماجہ، تبرانی اور البہقی، مقدمہ باب فی الایمان
ترجمہ : ایمان قلب کی معرفت ، زبان کے اقرار اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوگا۔
اس حدیثِ مبارکہ میں تین چیزیں بتائی گئی ہیں کہ پہلے زبانی اقرار کرنا ہے ، اقرار باللسان وتصدیق بالقلب۔ دین اسلام کے اراکین پر عمل کرنا ہے جیسے نماز، روزہ ، حج اور زکوة ہےاور پھر قلب کی توحید سے ایمان کامل ہوگا۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر یہ تین جملے کسی مجنون پر پڑھ کر پھونک دو تو وہ ٹھیک ہو جائے گا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے ۔ اگر کسی میں شیطان جن بھرے ہوئے ہوں اور اُس نے اُس آدمی کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہو جسکی وجہ سے ہدایت کو سمجھنے سے عاری ہو ، اگر یہ تین نقطے اُسے حاصل ہو جائیں گے تو وہ شیطان کے جنون سے باہر نکل کر مومن بن جائے گا۔
دیدارِ الہی سے متعلقہ حدیث:
عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيْلِي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنْ أَخْشَي اللهَ کَأَنِّي أَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ أَکُنْ أَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَانِي. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ
الحدیث رقم 45: اٴخرجہ اٴبو نعیم فی کتاب الاٴربعین، 1 / 39، الرقم: 12، وابن رجب فی جامع العلوم والحکم، 1 / 126
ترجمہ : حضرت ابوذر (غفاری) رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں خشیتِ الٰہی میں ایسا ہو جاؤں گویا میں اسے دیکھوں اور اگر میں اس قابل نہیں ہوں تو پھر میں ایسا ہو جاؤں کہ وہ مجھے دیکھے۔
جب ہم نے طریقت کی تشریح بیان کی ہے تو اس کے چار باب بتائے ہیں ۔ پہلا باب ذکوریت ، دوسرا بتایا ہے قُشیت ، تیسرا خشیت ، تو یہاں اس حدیث میں حضورؐ تیسرے باب خشیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں خشیت الہی میں ایسا ہو جاؤں کہ میں اُسے دیکھوں۔ اب یہ حضورؐ اپنے لئے تو نہیں کہہ رہے بلکہ سکھانے کا انداز مبارک ہے۔ پھر آگے فرمایا ہے کہ اگر میں اس قابل نہیں ہوں کہ اُسے دیکھوں تو پھر میں ایسا ہو جاؤں کہ وہ مجھے دیکھے۔
جہاں بھی قرآن میں دیدارِ الہی اور ملاقاتِ الہی کے بارے میں بات آئی ہے لوگ اُس کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ بات مرنے کے بعد یوم محشر میں ملاقات کی بات ہو رہی ہے ۔جبکہ مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں دوران عبادت اللہ کے دیدار کی بات ہو رہی ہے ، یہ مرنے کے بعد دیدار کی بات کہاں ہے! حدیث مبارکہ کے الفاظ تو یہ ہیں کہ دوران عبادت تو اُسے دیکھ لے ۔جب تو عبادت میں ہو تو پھر سارے پردے ہٹ جائیں اور پھر تو رب کو دیکھے اور رب تجھے دیکھے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اَلإِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ ِللهِ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِلَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ: رَوَاهُ الرَّبِيْعُ
الحدیث رقم 46: اٴخرجہ ابن الربیع فی المسند، 1 / 42، الرقم: 56، وابن رجب فی جامع العلوم والحکم، 1 / 36
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے لئے اس طرح عمل کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا تو یقینا وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ يُنَادِي مُنَادٍ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ: أَيْنَ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ بِاللهِ؟ أَيْنَ الْمُحْسِنُوْنَ؟ قَالَ: فَيَقُوْمُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَقِفُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ، فَيَقُوْلُ. وَهُوَ أَعْلَمُ بِذَلِکَ: مَا أَنْتُمْ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَحْنُ أَهْلُ الْمَعْرِفَةِ الَّذِيْنَ عَرَّفْتَنَا إِيَاکَ وَجَعَلْتَنَا أَهْلاً لِذَلِکَ. فَيَقُوْلُ: صَدَقْتُمْ. ثُمَّ يَقُوْلُ لِلآخَرِيْنَ: مَا أَنْتُمْ؟ قَالُوْا: نَحْنُ الْمُحْسِنُوْنَ. قَالَ: صَدَقْتُمْ، قُلْتُ لِنَبِيِّ: (مَا عَلىٰ الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ) (التوبة، 9: 91) مَا عَلَيْکُم مِنْ سَبِيْلٍ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي. ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَ: لَقَدْ نَجَّاهُمُ اللهُ مِنْ أَهْوَالِ بِوَائِقِ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ فِي کِتَابِ الْأَرْبَعِيْنَ
الحدیث رقم 53: اٴخرجہ اٴبو نعیم فی کتاب الاٴربعین، 1 / 100، الرقم: 51، والمناوی فی فیض القدیر، 1 / 420، الرقم:4
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب اولین و آخرین کے لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا: کہاں ہیں اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے؟ کہاں ہیں صاحبانِ احسان؟ فرمایا: لوگوں میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آ کھڑا ہوگا۔ پس وہ (یعنی اللہ تعالیٰ) فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جاننے والا ہے: تم کون ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے: ہم اہلِ معرفت ہیں جنہیں تو نے اپنی معرفت عطا کی اور ہمیں اس معرفت کا اہل بنایا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، پھر دوسرے گروہ سے پوچھے گا: تم کون ہو؟ وہ عرض کریں گے: ہم صاحبانِ احسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا: ’’صاحبانِ احسان پر اِلزام کی کوئی راہ نہیں۔‘‘ لہٰذا تم پر بھی (طعنہ زنی کی) کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھر حضور نبی اکرمؐ نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے احوال اور سختیوں سے نجات دے دے گا۔‘
صاحبان احسان پر الزام کی کوئی راہ نہیں ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ کوئی ایسا کام کرتے تمھیں نظر آئیں کہ جسکو تم کتاب و سنت کی روشنی میں غلط سمجھتے ہو تو تم اُن پر اس کا الزام نہیں لگانا، وہ اِس راستے پر نہیں ہیں ۔اس بات کو بہت سے صوفیاء و اولیاء نے بھی دہرائی ہے اور سرکار سیدنا گوھر شاہی نے بھی اپنے خطبات میں اس بات کو بتایا ہے جو حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں بھی درست ثابت ہوتا ہے ۔ فرمایا کہ
جب کسی کو اللہ کا دیدار ہوجاتا ہے تو وہ قید شریعت سے آزاد ہو جاتا ہے
بہت سے علماء تصوف، معرفت الہی اور دیدارِ الہی کے علم کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں ایسا نہیں ہے سب من گھڑت باتیں ہیں لیکن آپ اس حدیث مبارکہ کو دیکھ لیں اس میں واضح طور پر بتایا جا رہا ہے یومِ محشر میں درجہ احسان والوں کو پکارا جا رہا ہے ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتَي أَکُوْنُ مُحْسِنًا؟ قَالَ: إِذَا قَالَ جِيْرَانُکَ: أَنْتَ مُحْسِنٌ فَأَنْتَ مُحْسِنٌ، وَإِذَا قَالُوْا: إِنَّک مُسِيئٌ فَأَنْتَ مُسِيئٌ: رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ وَاللَّفْظُ لَهُ
الحدیث رقم 52: اٴخرجہ ابن ماجہ فی السنن، کتاب: الزھد، باب: الثناء الحسن، 2 / 1411، الرقم: 4222.4223، وابن حبان فی الصحیح، ذکر العلامة التی یستبدل المرء بھا علی احسانہ، 2 / 284، الرقم: 525، والحاکم فی المستدرک، 1 / 534، الرقم: 1399، والبیھقی فی شعب الایمان، 7 / 85، الرقم: 1399، والحسینی فی البیان والتعریف، 1 / 48، الرقم: 97، والمناوی فی فیض القدیر، 1 / 244
ترجمہ: حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرمؐ کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں محسن کب بنوں گا؟ فرمایا: جب تیرا پڑوسی تجھے کہے کہ تو محسن ہے تو تُو محسن ہے، اور جب وہ تجھے کہیں کہ تُو برا ہے۔ تو تُو برا ہے۔
یہاں اس حدیث مبارکہ میں پڑوسی وہ برابر والا نہیں ہے، اس حدیث میں الفاظ کا ایک فرق آ گیا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے جِيْرَانُکَ جبکہ صحیح لفظ ” جِبرَانُکَ ” ہے۔ سریانی زبان میں جبران “مرشد” کو کہتے ہیں ۔اگر کوئی درجہ احسان پر فائز ہے تو اُس کی گواہی پڑوسی کیسے دے سکتا ہے ۔ ایک بات اور بھی اللہ تعالی نے فرمائی ہے کہ مرشد کا کام دلوں کو جوڑنا ہوتا ہے۔ تو دلوں کو جوڑنے والے کو سریانی زبان میں جبران کہتے ہیں۔ وہیں سے جبرائیل نکلا ہے یعنی دو عالموں کو جوڑنے والا ۔