کیٹیگری: مضامین

عام انسان کا اللہ کے دیدار کے بارے میں کیا تصور ہے؟

جب ولی اللہ کو لطیفہٴِ انا کے ذریعے اللہ کا دیدار ہوتا ہے تو وہ خواب میں ہوتا ہے۔ اُس وقت کے جو محسوسات ہیں اُن کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے، نہ ہم اُس کو اپنے نارمل جذبات کی زبان میں محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ جو واقعہ ہمارے جسم کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اُس میں ہمارے جسم کے جذبات اور خیالات کی جو ہے وہ attachment ہوسکتی ہے، لیکن جب لطیفہٴِ انا کے ذریعے اللہ کا دیدار ہوتا ہے تو آپ خواب میں ہوتے ہیں سورہے ہوتے ہیں آپ کا جسم بھی زمین پر ہوتا ہے اور آپ کا نفس بھی زمین پر جسم میں ہوتا ہے۔ صرف آپ کا لطیفہٴِ انا نکل کر مقامِ محمود پر جاتا ہے تو جو احساسات ہیں جو جذبات ہیں وہ اِسی مخلوق کے اندر ہی محفوظ رہتے ہیں۔ اُس وقت جو پہلی رب کے وجود پر نظر پڑتی ہے وہ پہلی نظر بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ خطرناک اِس لئے ہوتی ہے کہ کسی کے بارے میں بھی آپ نے اُس کو دیکھا نہ ہو اور آپ کئی سالوں سے اُس کی تعریفیں سُنتے آرہے ہیں یا کرتے آرہے ہیں، وہ ایک کتابی شخصیت ہے۔ کبھی اُس کو دیکھا نہیں ہے اُس کی کہانیاں سُنی ہیں کہ وہ اِتنا اعلیٰ وہ اتنا عظیم وہ ایسا وہ ایسا کوئی اُس جیسا نہیں اور پھر جب اچانک اُس سے ملاقات ہوجاتی ہے تو وہ دیکھنے کے بعد جو ہے تھوڑا سا آدمی جو ہے وہ اسکے جوش و خروش میں کمی ہوجاتی ہے کیونکہ اِس وقت خدا کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں ہے وہ یہ ہے کہ اللہ چلتی پھرتی کرامت ہے معجزہ ہے کرشمہ ہے کہ یہاں یُوں کردے، وہاں یُوں کردے یعنی ہم نے جو اللہ کا تصور اپنے ذہنوں میں رکھا ہوا ہے اُس کے اندر اللہ کی طاقت جو ہے اُس کو ہم نے سب سے ذیادہ جگہ دی ہے کہ وہ قادرِمطلق ہے۔ اگر اللہ کہہ دے کہ آج میں اپنی طاقت neutralize کررہا ہوں، نہ کسی کو جنت بھیجوں گا، نہ کسی کو دوزخ بھیج سکتا ہوں، نہ کسی کو مصیبت میں ڈال سکتا ہوں، نہ کسی کو زندگی دے سکتا ہوں، نہ کسی کو مار سکتا ہوں تو پھر دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔
ہم کو جو سرکار گوھر شاہی نے تعلیم دی ہے اُس کی نظر میں جب ہم لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی بھی اللہ کا پُجاری نہیں ہے۔ کوئی اِس لئے عبادتیں کررہا ہے کہ اللہ اِن کو جنت میں بھیجے گا، کوئی اِس لئے عبادتیں کررہا ہے کہ اللہ تعالی اِن کو جہنم میں کہیں نہ بھیج دے، کوئی اِس لئے عبادتیں کررہا ہے کہ اللہ تعالی قادرِمطلق ہے، نماز نہیں پڑھیں گے عبادت نہیں کریں گے تو عذابِ قبر ہوگا۔ مزہ تو تب ہے جب اللہ تعالی اعلان کردے کہ جنت بھی ختم ہوگئی ہے، دوزخ کا بھی پروگرام ختم ہوگیا ہے تو اب میں کچھ بھی نہیں کروں گا کہ نہ جنت، نہ دوزخ، نہ عذابِ قبر تو اگر مُوڈ ہے تو اب جو ہے آپ میری عبادت کرلو، میں کوئی اجر نہیں دوں گا، نہیں پڑھو گے تو کوئی سزا نہیں دوں گا تو کون پڑھے گا! یہی وجہ ہے کہ صوفیاءکرام نے اِس چیز کو خاص طور پر مدِّنظر رکھا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں تو خالص اللہ کیلئے کریں، نہ جنت کے لالچ میں کریں اور نہ جہنم کے خوف سے کریں۔ زندہ رکھے یا مارے، خوش رکھے یا فاقہ کشی میں رکھے اُس کی مرضی ہے اور پھر ایک حدیث میں آیا ہے کہ

اَرِّدَا فَوقُ القَضَا
ترجمہ: اُس کی جو رضا ہے اُس کی قضا سے ذیادہ بڑی ہے۔

اللہ تعالی جو ہے اُس کا کوئی سچا ماننے والا وہی ہوسکتا ہے کہ جس نے اِخلاص کے ساتھ اُس کو مانا مخلصین میں سے ہوگا۔ اب اِتنے بڑے خواب و خیالات میں ہم نے تصورات جو اللہ کے بنا رکھے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم یہی سوچتے ہیں نا کہ یہ بڑے بڑے پہاڑ اللہ نے بنائے، سمندر اللہ نے بنائے، اللہ قادرِمطلق ہے، إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے، سب کچھ کرسکتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک عجیب و غریب خاکہ بن جاتا ہے اور پھر جب پہلی نظر اللہ کے وجود مبارک پر پڑتی ہے تو سرکار گوھر شاہی نے یہ فرمایا کہ جب پہلی نظر اللہ کے وجود پر پڑتی ہے تو بندے کو خیال آتا ہے کہ ایسی صورت زمین پر میں نے کہیں دیکھی ہے اور پھر وہ دیکھتا ہے کہ وہ تو ایک نوجوان لڑکا ہے جو وہاں پر بیٹھا ہوا ہے۔ اتنا نوجوان دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی سترہ سال کا نوخیز لڑکا ہو۔

حور اور غلمہ کا جنت میں مقصد:

ابھی دو تین دن پہلے ہم پڑھ رہے تھے کہ جنت میں حُور اور غلمہ ہونگے تو ہم سوچنے لگے کہ چلو بھئی حُوروں کی کہانی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ غلمہ۔ غلمہ کا مطلب ہوتا ہے نوخیز لڑکا۔ ہم یہ سوچنے لگے کہ یہ جو بات ہے کہ جنت میں حُوریں بھی ہونگی اور نوخیز لڑکے بھی ہونگے تو ہم سوچنے لگے یہ بات جو ہے نا اِس بات کی وجہ سے مولویوں نے لونڈے بازی شروع کی ہے۔ ہمارے ذہن میں آیا کہ یہ اللہ نے کیا کِیا کیونکہ غلام کا مطلب جو ہے، ہم تو اُردو میں غلام کا مطلب slave لیتے ہیں لیکن عربی زبان میں غلام کا مطلب ہوتا ہے نو عمرلڑکا۔ تو نو عمر لڑکے جو ہیں وہ اللہ نے جنت میں لوگوں کو حوروں کے ساتھ رکھے گا، کوئی تُک نہیں بنتا کہ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی۔ ہم (یونس الگوھر) نے اللہ کی بارگاہ میں رجوع کیا۔ ہم آپ کے سامنے کوئی ایسی کسی بات کی secret نہیں بناتے کہ بھئی یہ ہوا وہ ہوا۔ اللہ سے رجوع کرنے کا ہمارے لئے بڑا آسان طریقہ ہے کہ ہم اللہ کا نام تصور کرکے اور اُس سوال کو بھیج دیتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد اُس کا جواب آجاتا ہے۔ ہم نے کہا کہ اے اللہ! ہم جاننا چاہتے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آرہا، جو کچھ ہماری سمجھ میں آرہا ہے وہ بڑی ہی خطرناک بات ہے تو مجھے جو ہے اِس کا جواب عطا فرمادیں تو اللہ کیطرف سے پھر جواب یہ آیا اور ہمارے دل میں اللہ کا جواب اُتر گیا۔ ایک لمحے بھر کیلئے کوئی اُس میں دشواری نہیں ہوئی، دل و دماغ میں وہ جواب جاکے چپک گیا کہ حق۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ جنت الفردوس، دارالنعیم، دارالماویٰ، سب سے ذیادہ واضح دیدار اللہ کا جنت الفردوس میں ہوگا۔ پھر دارالنعیم میں تھوڑا دُھندلا، پھر ماویٰ میں اُس سے بھی ذیادہ دُھندلا تو باقی جو جنتیں ہیں اُن میں ہمارا دیدار ہم نے نہیں رکھا اور ذیادہ تر لوگ اُنہیں جنتوں میں جائیں گے۔ جنت الفردوس عاشقوں کیلئے ہے، دارالنعیم انبیاء کیلئے ہے، دارالماویٰ جو ہے وہ علمائے حق، اولیاء حق اور صالحین کیلئے ہے۔ باقی جو جنتیں ہیں وہ موٴمنین کیلئے ہیں وہاں اللہ کا دیدار نہیں ہوگا، نہ دارالخلد میں ہوگا، نہ دارالسلام میں ہوگا، نہ دارالقرار میں ہوگا اور نہ دارالعدن میں ہوگا۔ اِن چار جنتوں میں اللہ کا دیدار نہیں ہوگا۔ اللہ کا دیدار بڑا چھوٹا ہی خفیف اور دُھندلا سا دیدار وہ دارالماویٰ سے شروع ہوتا ہے جیسے کہ ہم ٹی وی سکرین کے اوپر دیکھ رہے ہیں۔ اُس سے ذرا بہتر دارالنعیم میں اور جو بِلاحجاب دیدار ہوگا نا وہ جنت الفردوس میں ہوگا۔ ہم نے پھرعرض کیا کہ ہم نے دیدار کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں ہے ہم نے کہا ہے کہ یہ جنت میں لوگوں کو آپ لونڈے کیوں دیں گے تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ سُن تو لو یہ تو سمجھ میں آگیا نا کہ اِن چار جنتوں میں دیدار نہیں ہوگا تو ہم نے کہا کہ یہ تو سمجھ میں آگیا۔

اللہ نے فرمایا کہ وہ جو لونڈے ہیں نا وہ ہم نے اپنے حُسن پر اپنی صورت پر بناکرکے اُن کو دیں گے کہ چلو تم میرا دیدار نہیں کرسکتے، جیسا میرا نقشہ ہے اُن جیسے لڑکے بناکے رکھ دیں تاکہ اُن کو دیکھ کر میری یاد تم کو آتی رہے

اب یہ نہیں کہنا کہ اِس کا حوالہ دو کیونکہ یہ براہِ راست بات ہوئی ہے، ہم حوالہ ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ جو غلمہ ہیں نا وہ خدمت کیلئے نہیں ہیں اُن کو دیکھ کے جو جنتی ہونگے وہ اُن کو دیکھیں گے تو اُن کو میری یاد آئے گی۔ پھر یہ بھی آگے پتہ چلا کہ یہ جو غلمہ ہونگے یہ اُن کو ملیں گے جن کا کم سے کم روزانہ کا ذکر بہتر ہزار تھا، بہتر ہزار سے کم نہیں۔

وہ جو حوروں کے ساتھ غلمہ (نوخیز لڑکوں) کا ذکر ہے وہ ذکر اِس لئے ہے کہ اِن چار جنتوں میں اللہ کا دیدار نہیں ہے لیکن اللہ نے اِس دنیا کو بنایا اِس لئے ہے کہ میں پہچانا جاوٴں۔ دیدار تو نہیں ہوسکتا، میں پہچانا جاوٴں یہ خواہش اِس طرح پوری ہوگی کہ وہ اپنے حُسن کے مدِّمقابل وہ صورتیں بناکر غلمہ کی صورت میں اُن جنتوں میں رکھے گا تاکہ اُن کو دیکھ کر اُن کو اللہ کی یاد آتی رہے۔

دیدارِالہٰی کے بعد انسان کا اللہ کے بارے میں تصور:

جب بندے کو پہلی دفعہ دیدارِالہٰی ہوتا ہے تو سب سے پہلے تو یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت تو میں نے زمین پر کہیں دیکھی ہے۔ اور پھر یہ خیال بڑا ایک ایٹم بم کی طرح اُس کے ذہن میں پھٹتا ہے یہ اللہ ہے۔ وہ خطرناک لمحہ اِس لئے کہا گیا ہے کہ اُس لمحے میں اگر آدمی جو ہے وہ کہے کہ یہ اللہ ہے تو وہاں پر جو ہے وہ آدمی کا ایمان بھی جاسکتا ہے۔ دیدارِالہٰی جو ہے اُس کے بعد انسان کا جو تصور اللہ کے بارے میں ہے وہ بدل جاتا ہے۔ ابھی تو جو ہے نا وہ ہم نے جو سُنا ہوا ہے۔ کوئی بہت بڑا پولیس کا انسپیکٹر ہو تو تم اُس کے سامنے ڈرو گے۔ پاکستان انڈیا کے لوگ پولیس والوں سے ڈرتے ہیں کہ ارے بڑا افسر آگیا لیکن اُس کو تم نے اپنے گھر پر دیکھ لیا کہ اسکی بیوی کیسی ہے، اُس کا روب و دبدبہ کیسا ہے! کیونکہ وہ تو تھانہ نہیں ہے گھر ہے۔ جو بھی انسپیکٹر یا فوجی ہوگا، اب فوجی جو سرحد کے اوپر بندوق لیکر گھومتا ہے اب وہ بیڈروم میں تو بندوق لیکر نہیں گھومے گا۔ اِسی طرح آپ کو جب اللہ کا دیدار ہوتا ہے تو آپ اللہ سے ذاتی نوعیت کا رشتہ بناتے ہیں۔ زندگی دینے والا، مارنے والا، جہنم بنانے والا، جنت بنانے والا، انسانوں کو پیدا کرنے والا، وہ تمام کی تمام چیزیں اُس وقت نہیں ہوتیں،اللہ سے آپ اپنا ذاتی ایک رشتہ بناتے ہیں اُس میں وہ آپ سے پیار کرتا ہے آپ اُس سے پیار کرتے ہیں اور جب لوٹ کر آپ زمین پر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو کچھ اللہ کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو یہ کرو، وہ کرو، ایک نماز پانچ منٹ میں دیر ہوگئی تو سو کوڑے پڑیں گے، یہ ہو جائے گا وہ جائے گا، یہ نہ کرو وہ نہ کرو لیکن وہ جو دیکھ کر آیا ہے وہ کہتا ہے کہ میری تو اُس سے ذاتی علیک صلیک ہوگئی ہے تم ایسا کرو کہ تم پڑھتے رہو میں بیٹھا ہوں۔ ہم نے اپنی ایک شاعری میں بھی کہا ہے کہ
وہ خدا کا خوف رکھیں جن کی فطرت خوف ہے
اللہ کا دیدار ہوجانے کے بعد جو ہے انسان کی سوچ اللہ کے بارے میں بدل جاتی ہے، اُس کا ایمان بدل جاتا ہے اور پھر اُس کی سوچ حقیقت پسندانہ ہوجاتی ہے۔ جب تک اللہ کا دیدار نہ ہوتو آپ کے ہر کام میں بڑی عجیب و غریب اُلجھنیں ہیں کہ پتہ نہیں نماز کیوں پڑھ رہے ہیں، جنت کے لالچ میں پڑھ رہے ہیں یا جہنم کے خوف سے پڑھ رہے ہیں لیکن جب دیدار ہوگیا اُس سے ذاتی تعلق قائم ہوگیا، اُس کے بعد پھر معاملہ کچھ اور ہے۔ اُس کے بعد اللہ کی جو سمجھ بوجھ آپ کے ذہن میں آگئی ہے وہ بڑی مختلف ہے۔

مثال:

اگر آپ جیسے اب جاوید صاحب ہیں یہ وُڈبرج میں ایسے ہی ٹہل رہے ہیں تو سامنے سے ایک گاڑی آگئی، گاڑی کا پنکچر ہوگیا اور اُس میں سے ڈونلڈ ٹرمپ نکلا اور جاوید بھائی نے دیکھ کر کہا ٹرمپ جی میں آپ کا پنکچر لگا دیتا ہوں۔ اچھا آپ لگالیتے ہو تو چلو جی لگاوٴ۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا پنکچر لگوایا، علیک صلیک کی، اپنا کارڈ دیا اور کہا کہ کوئی ضرورت پڑے تو مجھے یاد کرنا۔ اب یہ گھر گئے اور اِن کو ندوی صاحب ٹکراگئے اور جاوید صاحب کہنے لگے ندوی صاحب سُنا ہے آپ کی ابھی تک citizenship نہیں آئی۔ ہاں یار نہیں آئی، چلومیں تمہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس لیکر چلتا ہوں وہ ابھی کرادے گا۔ وہ کہے گا کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے، نہیں یار اپنی اچھی خاصی ڈونلڈ ٹرمپ سے علیک صلیک ہے۔ تمھاری علیک صلیک کہاں سے ہوگئی، بس ہے تمہیں کیا پتہ۔ اب جاوید کو یہ اُمید ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا پنکچر لگایا تھا یہ وائٹ ہاوٴس پہنچ گیا تو کچھ نہ کچھ ڈونلڈ ٹرمپ کرے گا کیونکہ وہ کارڈ دیکر گیا ہے لیکن اِس کو نہیں پتہ۔ اِس کو پتہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر ہے، اِس کو بھی پتہ ہے لیکن جو ایمان و عقیدہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ندوی صاحب کا ہے کیونکہ ملاقات نہیں ہوئی ٹی وی پر دیکھا ہے کہ امریکہ کا صدر ہے اور اِس کو وہ یاد ہے کہ سامنے سے گاڑی آرہی تھی پنکچر ہوگئی ڈونلڈ ٹرمپ اکیلا تھا تو میں نے کہا کہ میں پنکچر لگادیتا ہوں اور اُس نے کہا کہ لگا دو، لگا دیا وہ خوش ہوگیا کارڈ دیا اور کہا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہو میرے پاس آنا، اُس کو یہ یاد ہے۔ اُس کو یہ یاد ہی نہیں ہے کہ وہ تو اتنا بڑا آدمی ہے۔ دونوں کے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں نظریات ہونگے وہ مختلف ہونگے۔ یہ کہے گا کہ وہ امریکہ کا صدر ہے، پولیس ہے، کیپیٹلسٹ پولیس ہے، سی آئی اے ہے اور ایف بی آئی ہے تو کوئی تجھے وائٹ ہاوٴس میں ملنے کیلئے جانے دے گا لیکن اُس کے پاس تو ذاتی فون نمبر ہے۔ وہ گھر بیٹھے بیٹھے کہے گا کہ ڈونلڈ جی پنکچر لگایا تھا یاد ہے نا، ہاں جی یاد ہے آجاوٴ۔
اِسی طرح جب اللہ کا دیدار ہوجاتا ہے تو انسان کا اللہ سے ذاتی تعلق بن جاتا ہے۔ لوگوں کی نظر میں قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ° اَللَّـهُ الصَّمَدُ° لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْ° وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ ہے۔ اُس کی نظر میں یہ ہے کہ میں تو مل کر آیا ہوں اللہ نے میرا نام لیا کہ آجاوٴ دیکھ لو۔ اب وہ جو ذاتی تعلق بن گیا نا وہ ذاتی تعلق جو ہے وہ ایسا انسان کا نظریہ اورعقیدہ بنادیتا ہے کہ جو پہلے بن ہی نہیں سکتا۔ اِس لئے دیدار والے جو ہے وہ وہی اُن کا اللہ سے تعلق ہوتا ہے جیسے کہ پولیس انسپکٹر کا گھر جاکر ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندوہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 19 مئی 2021 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس