کیٹیگری: صوفی کورس

تصوف کی تشریح اکابرین کی نظر میں:

تصوف باطنی علم کا نام ہے لیکن تصوف کی جب تشریح کی جاتی ہے تو کم وبیش تمام ہی لکھاریوں، مصنفین اورتصوف پرکتب لکھنے والوں نے تصوف کی جوتشریح بیان کی ہے وہ ظاہری لبادے سے منسوب کی ہے۔ انہوں نے تشریح کی ہے کہ تصوف “صوف” سےنکلا ہے۔ عربی زبان میں اُون کا جو بنا ہوا کپڑا ہوتا ہے اُسکو صوف کہتے ہیں یا اگرآپ صوف کو اُردو میں کہنا چاہیں تو گدڑی کہتے ہیں لیکن سوچنےکی بات یہ ہے کہ آپ باطنی علم کی تشریح بیان کررہے ہیں اوراُسکے جو لفظ ہیں اسکے معنٰی ظاہر سے اخذ کر رہے ہیں، یہ کیسےممکن ہے! اب تک جتنے بھی جَیَد مصنفین گزرے ہیں اُن کا قلم اس سے آگے بڑھا نہیں ہے اور کم وبیش سب نے یہ کہا ہے کہ اُون کا کپڑا پہننے والوں کو صوفی کہتے ہیں۔ وہ کپڑا توکوئی بھی پہن سکتا ہے تو کیا وہ صوفی ہوجائے گا! یقیناً وہ صوفی نہیں ہوسکتا۔ پھر سیدنا حضورغوثِ اعظمؓ کے ارشادات کو اگرآپ ملاحظہ فرمائیں تو سیدنا غوثِ اعظمؓ نے فرمایا ہے کہ تصوف “الصفاء” سے ماخوذ ہے اور اس کا مطلب ہے باطن کو پاک کرنا۔ کشف المحجوب میں داتا علی ہجویری نے رقم کیا ہے کہ حضرت ابوالحسن نوریؒ فرماتے ہیں کہ

التصوّف تَرْکُ کُلِّ حَظِّ النَّفْس
کشف المحجوب صفحہ نمبر25
ترجمہ: اپنے نفس کو کُلی طور پر تمام خواہشات سے ہٹا دینا تصوف ہے۔

پھر ایک جگہ ابوالحسن نوریؒ نے فرمایا کہ

الصّوفیّ الّذی لایُمْلِکُ ولایُمْلَک
کشف المحجوب صفحہ نمبر25
ترجمہ: صوفی وہ ہے کہ جو نہ کسی کے قبضے میں ہے اور نہ کسی کا اُس پر قبضہ ہوسکتا ہے۔

اس کے بعد حضرت ابوبکر شبلیؒ نے فرمایا ہے کہ

التصوّف شِرکٌ، لانَّهُ صِیانةُ الْقَلْبِ عَنْ رُؤْیَةِ الغيرِ ولاغيرَ
کشف المحجوب صفحہ نمبر82
ترجمہ: تصوف میں شرک ہے، اس لئے کہ دل کوغیرکی رویت سے بچائے کہ دل سوائے رب کے کسی اور کو نہ دیکھے، یہ تصوف ہے۔

اس کے بعد پھر ذوالنورین مصریؓ نے فرمایا ہے کہ

التصوّف صَفاءُ السِّرِّ منکُدورات المُخالفاتِ
کشف المحجوب صفحہ نمبر26
ترجمہ: تصوف دل کی مخالفت کی کدورت کو دور کرتا ہے۔

اس میں مخالفت سے مراد یہ ہے کہ دل اللہ کا گھر ہے تواللہ کی مخالفت شیطان اور ابلیس ہے۔ دل کا کام یہ ہے کہ وہ غیراللہ کی کدورت کو دل سے باہر نکالتا ہے۔ کشف المحجوب میں چالیس پنتالیس صفحے انہیں باتوں پر لکھے ہوئے ہیں کہ اُس نے یہ کہا اُس نے وہ کہا تو یہ سب قصہ اور کہانیاں ہیں یعنی یہ یوں ہے کہ آپ سائیکل کی تعریف کرنا چاہیں اورکہیں کہ سائیکل کا سفر ایسا ہے کہ آپ کو پیدل نہیں چلنا پڑے۔ یہ توسمجھ میں آگیا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ سائیکل کا سفر کیسے ہوتا ہے۔ سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ سرکار گوھر شاہی دورِحاضر کے مرشدِ کامل ہیں اور دورِ حاضر کے دُوبدُو بیٹھ کرکے رب کی راہ دکھانے والےہیں۔ سرکار گوھر شاہی نے تصوف کی اناٹومی بیان کی ہے۔ جس کی مثال آپ یوں سمجھ لیں کہ آپ ڈاکٹرکے پاس جاتے ہیں تووہ ظاہری علامتیں دیکھ کرآپ کو دوائی دیتا ہے اور ڈاکٹرآپ سے پوچھے گا کہ کیا ہورہا ہے تو اگر آپ جھوٹ بول دیں تو ویسی ہی دوائی آپ کو دے دے گا۔ بالکل اسی طرح جوانسان کےجسم کا اندرونی حصہ ہے اُسے “اناٹومی” کہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے تصوف پرجو بات کی ہے انہوں نےموٹی موٹی کتابیں لکھیں اور کتاب ختم کرنے کے بعد آپ کو یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ میں صوفی کیسے بنوں کیونکہ تذکرہ کیا ہے۔ جسطرح آپ کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں تو آپ کسی پروفیشنل کرکٹر کے پاس جاکر پوچھیں کہ مجھے دوچار تجاویز دے دو تو وہ آپ کو بتائے گا کہ یہ ٹانگ اِدھر رکھو اور وہ ٹانگ اُدھر رکھو تو خوب سکور شاٹزلگیں گی لیکن یہ ماہر کرکٹر وہ بات کہہ رہا ہے جوپروفیشنل کرکٹر بننے کے بعد وہ کرتا ہے۔ وہ شروع سے یہی نہیں کرتا آیا اس لئے یہ پڑھانا نہیں ہے۔
تصوف کی تعریف کوئی اگر یہ کرے کہ تصوف یہ ہے کہ دل رب کےعلاوہ کسی کو نہ دیکھے اور اب ایک عام آدمی کا دل جوشیطان کے قبضے میں ہے اُس کو اس بات سےکیا فائدہ ہوگا اور وہ عام آدمی اپنے دل کو ایسا کیسے بنائے گا کہ رب کے علاوہ اُس کے دل کو کوئی نہ دیکھے کیونکہ وہ نہیں بنا سکتا ہے۔ اسی لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ جو حقائق ان کتابوں میں لکھے ہیں یہ مزے لینے کیلئے بہت اچھے ہیں لیکن جس دن آپ نے یہ سوچا کہ میں ابوبکر شبلی جیسا ولی بن جاؤں یا میں جنید بغدادی جیسا بزرگ بن جاؤں تو ہماری قوم کے ذہنوں میں یہ سوچ بسادی گئی ہے کہ تم کسی قابل نہیں ہو اور تم گنہگار ہو اور تمہاری اوقات کیا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے ولی ہیں لہٰذا ولایت کو اور صالحین کو اور فقراء اولیاء کو دیومالائی کہانیوں کا کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں داتا یا خواجہ بننا چاہتا ہوں کیونکہ اگرآپ کہیں گے تولوگ کہیں گے کہ اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اگرآپ کسی کوجا کر یہ کہیں کہ میں راتوں رات ارب پتی بننا چاہتا ہوں تو لوگ ہنسیں گے اور اسی طرح اب دنیا ہنستی ہے کہ جب اُن کو یہ کہا جاتا ہے کہ ولی بنا جاسکتا ہے اور اللہ کا ولی تم بھی بن سکتے ہو تو وہ ہنستے اس لئے ہیں کیونکہ اُن کے پاس ولی بننے کی تعلیم نہیں ہے۔ جب تم بتاتے ہو کہ میرے دل میں اللہ کا ذکر اور نور آچکا ہے احساسِ کمتری کا شکار ہو کر تمہارے اس حق کو مانتے نہیں ہیں۔ اگر مان لیا تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم کمتر ہیں۔ سرکار گوھر شاہی کی جو تعلیم ہے اُس میں ان کتابوں جیسا یہ نہیں ہے کہ اُس نے کیا کہا تھا بلکہ سرکار گوھر شاہی کی کتاب میں یہ ہے کہ دیکھو میں کیا کہہ رہا ہوں، یہ سنو اور جو میں کہہ رہا ہوں آؤ میرے ساتھ کرو۔

تصوف کی ضرورت کیوں ہے؟

تصوف جوہے وہ بنیادی طورپرنہ صرف دینِ اسلام بلکہ پوری ملتِ ابراہیم جس میں یہودی مذہب، عیسائی مذہب اوراسلام تینوں آتےہیں۔ روحانیت اورتصوف ان تینوں مذاہب کی بنیاد اوراساس ہے۔ یُوں سمجھ لیں کہ اگرزہد کےساتھ محبت ملادی جائے توزہد تصوف بن جاتا ہے۔ جوتصوف ہےوہ اسطرح چلا ہےجسطرح کچھ لوگ دوسری شادی کرکےچھپاکررکھتےہیں۔ ایک بیوی سامنےہےاوردوسری چھپی ہوئی ہے۔ دوسری بیوی کےبارے میں دوچارقریبی رہنےوالوں کوپتہ ہے لیکن سب کونہیں پتہ ہے۔ جوقریبی لوگ ہیں انہیں پتہ ہےوہ جانتےہیں لیکن اگرعوامی سطح پرپوچھا جائےگاتوکوئی نہیں جانتاہے۔ اسی طرح تصوف اورشریعت میں شریعت ایک ظاہری بیوی کی طرح ہےاورطریقت اُس کی طرح ہے کہ جس سےنکاح کوعام نہیں کیا گیا۔ دینِ اسلام کی صرف ابتداء زبانی اقرار سےشروع ہوتی ہے اورزبانی اقرار سےانسان کفرکےزمرے سےباہرآجاتاہے لیکن باقی دین کاساراکام تصوف کےذریعے طےہوتاہےاور درجہ ایمان تک پہنچنےکیلئے بغیرتصوف کے اسلام میں ترقی ناممکن ہے۔
جواللہ کی توحیداورواحدانیت کااقرارکرلے اورنبی پاکؐ کی رسالت ونبوت کااورآپ کےآخری نبی ہونےکااقرارکرلیتاہےاورتمام انبیائےکرام کااقرار کرلیتا ہےاورملائکہ، فرشتوں،یومِ محشرکااورحساب کتاب کاجوزبان سےاقرارکرلیتاہےوہ مسلم ہے۔ اگرکسی نےان تمام چیزوں میں بھی گڑبڑکی ہے تووہ مسلم بھی نہیں ہے۔ جسطرح مرزئی اورقادیانی ہیں انہوں نےنبی پاکؐ کےختمِ نبوت کاجومعاملہ ہےاُس میں انہوں نےمختلف بہانےشامل کرکے اوراپنےاٹکل پچوسےیاجوان کوسکھایاپڑھایاگیاہےاُس پراپنے علم کی بنیادرکھ کے دائرہ اسلام سےخارجیت کوترجیح دی ہے کیونکہ اس میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔ جوحق قرآن نےاوراللہ کےنبی نےاپنی زبان سےواضح کردیا ہو، پھراُس میں ردّوبدل کرنے والاکسی طوربھی دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا۔ حضورنبی پاکؐ آخری نبی ہیں اورآخری رسول ہیں، اس پرایمان لانااسلام میں داخلے کیلئےناگزیرہے۔ اگراس میں گڑبڑہے توپھرآپ مسلم میں شامل نہیں ہوسکتےلیکن جن لوگوں نےتوحید، رسالت، ختمِ نبوت، ملائکہ، ملائکہ کےچاروں سردارجبرائیلؑ، اسرافیلؑ،میکائیل،عزرائیلؑ، یومِ محشراوریومِ ازل کا زبانی اقرارکرلیا ہے تووہ دائرہ اسلام میں داخل ہے۔ اب مسلم ہونے کےبعدساراکاسارادین کاسفرتصوف کےذریعےہوگا۔ اس لئےتصوف بہت ہی زیادہ ضروری ہے۔ اگرکسی سفرکانام دینِ اسلام ہوتوکلمےکاجوظاہری اقرارہےاُس کی اہمیت صرف اتنی ہےجتنی سفرمیں آپ ہوائی اڈےجاکرجہازمیں بیٹھ گئے۔ جب آپ ہوائی اڈےچلےگئےتوباقی سفرہوائی اڈے میں نہیں ہوتا ہےبلکہ جہازمیں ہوتاہے۔ جن لوگوں کوظاہری ااقرارکےبعد تصوف کی تعلیم اور فیض مل گیا انہی لوگوں نےتصوف کی مدد کے ساتھ دینِ اسلام کےمختلف درجات کوحاصل کیا۔

تصوف میں پہلا قدم کیا ہے؟

قرآنِ مجید نے فرمایا ہے کہ

اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا
سورۃ البقرۃ آیت نمبر257
ترجمہ: اللہ ولی بناتا ہےدوست بناتا ہےولایت دیتاہے تووہ اُن لوگوں میں سےچناؤکرتا ہےجومؤمن بن چکےہیں اورایمان والےہوچکےہیں۔

اس سے معلوم یہ ہوا کہ ولی اللہ بننےسےجوپہلہ مرحلہ ہےوہ مؤمن بننےکاہے۔ جسطرح آپ سفر کرتے ہیں توفرض کیاکہ آپ نےانڈیا سےامریکہ جاناہےتوسب سےپہلےآپ کوویزہ لگواناپڑےگا۔ پھرآپ کو ٹکٹ خریدنا ہے اور پیسوں کا بندوبست کرنا ہے۔ اس کے بعد آپ نے ہوائی اڈے جانا ہے اور جہاز میں بیٹھنا ہے۔ ویزہ اس لئےلگواتےہیں کہ امریکاوالوں کی آپ مرضی پوچھ لیں کہ وہ ہمیں امریکاجانےکی اجازت دے رہیں ہیں یانہیں۔ پھراجازت لینےکیلئےآپ سفارتخانہ جاتےہیں۔ اگراجازت مل جائےتوویزہ لگ جاتا ہےتوویزہ لگنےکامطلب یہ ہےکہ امریکاوالوں کی طرف سےاجازت آگئی ہےکہ آپ امریکاجاسکتے ہیں۔ اگرانڈیامیں بیٹھ کرہی آپ نےامریکا کی باتیں کرنی ہیں تو کرتے رہیں کیونکہ اس کیلئےویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح اگرآپ نےمسجد میں بیٹھ کرقرآن وحدیث کی باتیں کرنی ہیں توکرتے رہیں کیونکہ اس کیلئےاللہ کی مرضی کی ضرورت نہیں ہے۔ پھرجس نےاللہ کے پاس جانا ہے تو پھرآپ کواجازت لینی پڑے گی کہ میں آپ سے پیار کرتا ہوں تو کیا مجھے اجازت ہے۔ اس اجازت کو”اذنِ ذکرقلب” کہتےہیں یعنی اللہ کی منظوری۔ یہ تصوف کا پہلا قاعدہ ہے۔

اذن ذکر قلب کیلئے منظوری کیوں ضروری ہے؟

اب تصوف کےنام پربہت غلط غلط باتیں بھی معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں جن کی وجہ سےلوگ تصوف اورصوفیوں سےمتنفرہوگئے۔ کوئی کہتاہے کہ ہمارےپیرنےنظرڈالی توہماری نمازعرشِ الٰہی پرہوتی ہے یاہمیں تودین کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ ہمارے پیریہ کردے گا وہ کردےگا۔ اس طرح کی باتوں سےلوگ متنفرہوئےلیکن تصوف کاپہلاقاعدہ یہ ہےکہ آپ نےتصوف میں داخل ہونے کیلئےاللہ کی مرضی معلوم کرنی ہے جیسا کہ اگرآپ امریکا کاویزہ لینےامریکانہیں گئےبلکہ امریکا کےسفارتخانےگئے۔ اس لئےاللہ کی مرضی آپ براہِ راست اللہ سےنہیں پوچھ سکتےبلکہ اللہ نےبھی اپنی مرضی کیلئے کوئی سفارتخانہ کھولاہوگا۔ اللہ کاسفارتخانہ یہ داتا، خواجہ، غوث پاکؓ، نظام الدین اولیاء، بابافرید، سائیں سہیلی سرکار، بابابلھےشاہ، باباگرونانک، لال شہبازقلندراورسداسہاگن یہ سب اللہ کےسفارتخانےہیں۔ آپ ان کےپاس جاتےہیں اوریہ پوچھتےہیں کہ کیوں آئے ہوتواگرآپ کہتےہیں کہ حضورمیں مؤمن بنناچاہتاہوں تویہ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ اب آپ درخواست دےدواورپھراس کےبعد ہم اللہ کی مرضی معلوم کرکے تمہیں بتائیں گے۔ درخواست یہ ہے کہ آپ اللہ کیلئے آئےہوتوتین دفعہ اقرار کرلو۔ جس طرح تین دفعہ اقرار کرکے میاں بیوی بنے تھے اسطرح تین دفعہ اللہ سےاُس کابندہ ملنےآیا ہے تواُس کی بندگی اختیارکرنےکااقرارکرلو۔ پھرتم کہتےہوکہ اللہ ھواللہ ھواللہ ھوتویہ تمہاری طرف سےاقرارہوگیا۔ اب وہ جومرشدِ کامل ہے وہ تمہارے حلیئےکوبیت الماموربھیج دےگا۔ وہاں ایک خاص مخلوق ہے جوتمہارے حُلیےکواللہ کے سامنے پیش کرےگی۔ اللہ تعالی پوچھےگاکہ کیوں لےکرآئےہوتووہ مخلوق کہےگی کہ تم سے دوستی کرانےکیلئے لایا ہوں۔ جسطرح آپ ویزہ لینے کیلئےجاتےہیں توپھریاتویہ ہوگاکہ شکل دیکھتےہی ویزہ کاانکار ہوجائےگا لیکن اگروہ آپ میں دلچسپی رکھتےہوئےکہ آپ امریکاجاکے کہاں رہیں گے یاآپ اپنےآپ کو وہاں جاکرکیسےسہارادیں گے۔ جب وہ اسطرح کی باتیں پوچھےتواس کامطلب ہےکہ وہ دیکھنا چاہ رہا ہےکہ اس کےپاس زادِراہ ہےیانہیں ہے۔ اسی طرح پھراگراللہ بھی بندے میں دلچسپی رکھتا ہوتواللہ تعالی اُس سےپوچھتا ہےکہ اس بندے کی کوئی ضمانت لینےوالابھی ہےیانہیں ہے یعنی کوئی اس کی تصدیق کرنےوالا ہےیانہیں ہے تو پھراس بندےکی تصدیق کرنےکیلئےہرمذہب کاجونبی ہے یا ولی ہے توان کوحاضرکیاجاتاہے۔اگروہ ہندؤں کاہےتوتصدیق کرنےکیلئےہندؤں کےولی آئیں گے۔ اگرعیسائی ہےتوتصدیق کرنےکیلئےعیسائیوں کے ولی آئیں گے۔ اگریہودی ہےتویہودیوں کےولی آئیں گےاوراگرمسلمان ہے تو پھرغوث پاکؓ آئیں گے۔ پھر اللہ تعالی منظور کرنےکےبعداُس مرشدِکامل کوکہتا ہے کہ تمہاری ضمانت پرداخلہ دےرہاہوں اور اب یہ تمہاری ذمہ داری ہےکہ اس کوبھاگنےنہیں دینا۔ یہاں اللہ تعالی اذن عطافرماکراُس بندےکواُس کامل ولی کی روحانی کفالت میں دےدیتا ہےکہ اب تم اس کی روحانی پرورش کرو۔تصوف میں سب سےپہلا نقطہ یعنی نقطہ نیازاللہ کی بارگاہ سے منظوری کا حاصل کرنا ہے۔

مومن کی پہچان:

جب اللہ کی منظوری حاصل کرلی گئی ہےتواس کامطلب ہےکہ اللہ اسےہدایت دینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالی اس کےبارے میں قرآن مجید میں فرماتاہےکہ

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورۃ التغابن آیت نمبر11

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ کہ جواللہ کی ذات کامؤمن بنے یعنی جب اللہ کی طرف سے منظوری ہوگئی کہ اسے مؤمن بنانا ہے تو پھراللہ تعالی نےفرمایا يَهْدِ قَلْبَهُ کہ اللہ اس کےقلب کوہدایت دےگا۔ وہ ہدایت یہ ہے جیسا کہ سلطان باھونے فرمایا کہ
الف اللہ چمبے دی بوٹی، مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات دا پانی ملیا، ہر رگے ہر جائی ہو
اندر بوٹی مشک مچایا، جاں پھلن تے آئی ہو
میں قربان تنھاں تو باھو، جیں ایہہ بوٹی لائی ہو

وہ اسمِ ذات اللہ کی بوٹی آپ کےقلب میں پیوستہ کردی۔ اسمِ اللہ دل کی دھڑکنوں میں مرشد کی نگاہ سےداخل ہوتاہے۔ پھرجودل کی دھڑکنیں ہیں وہ اسمِ ذات سے گویاہوجاتی ہیں جاری ہوجاتی ہیں۔ انسان سوتا رہتاہے اوردل اللہ اللہ کرتا رہتا ہے۔ انسان کام کاج میں لگارہتاہےاوردل اللہ اللہ کرتا رہتا ہے۔ سلطان باھو نےفرمایاکہ سُتے ہوئےجاگدےہو،جاگدےہوئےسُتےہو کہ کچھ ایسےلوگ ہیں جوسورہےہیں لیکن اُن کاشمارجاگنےوالوں میں ہےاورکچھ ایسےہیں جوجاگ رہےہیں لیکن اُن کاشماراللہ کی نظرمیں سونےوالوں میں ہے۔ اللہ کی نظرمیں اُن کاشمارسونےوالوں میں اس لئےہےکیونکہ اس کاجسم جاگ رہا ہےاوراس کادل سورہاہےتواللہ کیلئےتویہ سورہاہے۔ دوسرابندہ ایساہےکہ جس کاجسم سویاہواہےاور اس کادل اللہ اللہ میں لگاہواہےتووہ اللہ کی نظرمیں جاگاہواہے۔ پھرجب دل کی دھڑکنوں میں اللہ کانام مل گیا توسلطان باھونےفرمایاکہ ہتھ کارول دل یارول۔ اس کامطلب یہ ہےکہ مؤمن کےہاتھ کام کاج میں ہیں لیکن دل یارکےساتھ مطلب اللہ کےساتھ جڑاہواہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے مؤمنوں کی پہچان کے بارے میں فرمایاکہ

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ
سورۃ النورآیت نمبر37
ترجمہ: اُس کوخریدوفروخت تجارت ذکراللہ سے تنگ کرہی نہیں سکتا۔

وہ کاروبارکررہا ہےلیکن پھربھی تنگ نہیں ہے کیونکہ اگرزبان، آنکھوں اورہاتھوں سےکاروبارکررہا ہے توذکراللہ میں رکاوٹ اس لئے نہیں ہے کیونکہ ذکراللہ دل کررہا ہے۔ یہ مؤمن کی پہچان ہے۔ جب یہ دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ میں لگ جاتی ہیں توپھرآپ قرآنِ مجید پڑھیں۔ قرآن مجید میں اللہ نےمؤمنوں کی صفات کا فرمایاکہ

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
سورۃ آل عمران آیت نمبر191
ترجمہ: وہ لوگ توایسےہیں کہ اُٹھتےبیٹھتےکروٹوں کےبل سوتےہوئےبھی اللہ کےذکرمیں ہیں۔

اگرتم اپنےآپ کومؤمن سمجھتےہوتوجب تم سوتےہوتوکروٹوں کےبل ذکراللہ نہیں کرتےہو۔ اگرآپ جاگتےہوئے تسبیح سے ذکراللہ کررہےہیں توسوتےہوئے تسبیح آپ کےہاتھوں سےگرجائےگی کیونکہ نیند آنےکی وجہ سےعام دنیاوی کام جوآپ کررہےہیں وہ رُک جاتا ہے توذکرِاللہ کیسے نہیں رُکےگا۔ کیونکہ کروٹوں کےبل ذکراللہ صرف اُس صورت میں ہوگا کہ جب کوئی ایسی چیزذکرمیں لگی ہوکہ جوجاگتےہوئےبھی مصروف تھی۔ جب آپ ظاہری کام کاج میں لگےہوئےتھےیا بیوی بچوں کےساتھ تھےیاکاروبارمیں تھےتواُس وقت بھی آپ کا دل دھڑک رہاتھا۔ جب آپ سوجاتےہیں تواُس وقت بھی دل دھڑکتا رہتا ہے کیونکہ دل کوکوئی آرام نہیں ہے تواگردل کواللہ کےذکرمیں لگایاجائےتوپھرذکرکی کثرت کوپایاجاتاہے۔ اسی بات کومولاناروم نےفرمایا کہ دست بکاردل بایارکہ ہاتھ کام کاج میں لگے ہوئے ہیں اوردل اللہ کےساتھ مشغول ہے۔ ذکرِقلب تصوف اورطریقت کی ابتداء ہے۔

تصوف کے درجات:

1۔ ذکوریت:

طریقت کاپہلاباب ذکوریت ہے اوریہ ایک باقائدہ علم ہے۔ آپ نےدیکھاہوگاکہ جتنےبھی صوفی آئےہیں بھلےوہ کامل ہوں یاجھوٹےپیرفقیرہوں توسب نےذکرکےاوپرتوجہ دی ہے۔ جو اصل تھےانہوں نےتو توجہ دینی ہے توجوجھوٹےفقیرتھےانہوں نےبھی اس لئےذکرپرتوجہ دی کہ انہوں نےیہی دیکھاکہ صوفی ذکرکرتےہیں توذکرہی کرو۔ ظاہری ذکرمیں تویہ جھوٹے صوفی اورپیرفقیران کی نقل کرلیتے ہیں لیکن وہ جواندرکاذکرہےاُس کی نقل کیسےہوگی۔ تصوف کا اورطریقت کا جوپہلا درجہ ہے وہ ذکوریت ہے یعنی علمِ ذکراللہ۔ ذکوریت میں ہرطرح کاذکرہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہےکہ

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر152

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ کہ تم میراذکرکرومیں تیراذکرکروں گا۔ پھراللہ نےفرمایاکہ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ۔ اب یہاں جوعام لوگوں نےترجمہ کیا ہےوہ شُکرسےمراد لی ہے۔ اب کہاں ذکرِالہی اورکہاں شکراورپھر شکرکےبعدکفر۔ سرکارگوھرشاہی اس کی خفیہ تاویلِ قرآن بیان فرماتے ہیں کہ یہاں جولفظ وَاشْكُر بیان کیا گیا ہےیہ شُکروالانہیں ہےبلکہ سُریانی زبان جواللہ کی زبان ہےمشکورکوسُریانی زبان میں دوستی بولتے ہیں۔ اللہ نےفرمایاکہ تم میراذکرکرومیں تیراذکرکروں گا وَاشْكُرُوا لِي تاکہ تم میرےدوست بن جاؤ۔ وَلَا تَكْفُرُونِ اوراس رازکواس حقیقت کوجھٹلانا مت کہ دوستی کیلئےصرف اتنی سی بات ہےکہ میں اُس کویادکروں وہ مجھےیادکرے کہ اس چھوٹےسےعمل سےدوستی ہوجائےگی۔ اللہ کوانسان کی فطرت معلوم ہےلہٰذا اللہ نےتنبیہ کےساتھ فرمایاہےکہ وَلَا تَكْفُرُونِ کہ جھٹلامت دینا کہ اس چھوٹی سی بات میں اللہ کی دوستی پوشیدہ ہے۔ اس لئےہردین میں خواہ وہ ہندودھرم ہو، سِکھ دھرم ہو، اسلام ہو، عیسائیت ہویا یہودی دھرم ہوتوآپ دیکھیں گےکہ بُدھ مت میں بھی تسبیاں لےکےبیٹھےہوتےہیں کیونکہ ہردھرم میں یہ ذکر، حمد اورمناجات کی تعلیم دی گئی ہے۔ سارے ادیان کوپتہ ہے کہ رب کویادکرناہے اوراُس کاذکر کرنا ہے۔ ہندواس کوسمرن کہتےہیں، سکھوں کےاندراس کوجاپ کہاجاتاہے جس میں ایک منہ کاجاپ ہےاورایک من کاجاپ ہے۔ ہندوؤں میں بھی سانس کاذکرہےاوردل کاذکرہے۔ دل کےعلاوہ دیگر لطائف کابھی ذکرہے۔ ذکوریت صرف زبان سےذکرکرنےکانام نہیں ہےبلکہ ذکوریت کی جوابتداءہےوہ ذکرِقلب سےہوتی ہے۔ فَاذْكُرُونِي کامطلب یہ ہےکہ تم میراذکرکرو۔ آپ سمجھتےہیں کہ زبان سےیااللہ کہنےسے ذکرہوگیاہےلیکن اللہ نےکتنی مخلوقیں تمہارے اندررکھی ہیں لیکن تم صرف زبان سےذکر کررہےہو۔ ان سب مخلوقوں سےذکرکرو۔ فَاذْكُرُونِي پرتم اُس وقت قائم ہوگےجب قلب اورقالب ظاہراور باطن میں جتنی مخلوقیں اللہ نےتمہارے وجودمیں ڈالی ہیں وہ سب اپنےاپنےدرجۂِ کمال کوپہنچ کراُس کےذکرمیں مشغول ہوجائیں۔ زبان بھی ذکرکرے، حواس بھی ذکرکریں، لطیفہ قلب بھی ذکرکرے، قلب کےجثےبھی نکل کرذکرکریں، لطیفہ روح بھی ذکرکرے، روح کے جثےبھی نکل کرذکرکریں، لطیفہ سری بھی ذکرکرے، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفٰی اورلطیفہ نفس، لطیفہ نفس کےجثے اورلطیفہ انابھی ذکرکرے۔ پھر ہر لطیفہ مختلف اسمائےالہی سےاللہ کاذکرکرے۔ یہ ایک مرحلہ طے ہوگیا۔

ذکرِسلطانی اورکامل مؤمن:

اس کے بعد اللہ نےذکوریت کےبعداگرتمہیں اوراعلٰی درجہ دیناہےتوپھرذکرِسلطانی کروائےگا۔ ابھی اسمِ ذات کاذکر صرف قلب کیلئےہےاورباقی جولطائف ہیں اُن کاذکرمختلف ہے۔ کسی لطیفےکاذکر یاواحد ہے، کسی کا یااحد ہے، کسی کا یاحیُّ یاقیوم ہے۔ یہ عام ذکرہے۔ ایک ذکرِسلطانی ہے جس کیلئے پھر اجازت ہے۔ ایک عام انسان جس کےساتوں لطائف ذکرکرتےہیں وہ ذاکرِسلطانی کیسے بن سکتاہے۔ ہمارےسینےمیں جوپانچ لطائف ہیں ان میں ہرلطیفےکاتعلق کسی ایک مرسل سےہے توقانوناً تمام لطائف نےوہ ہی اسمائےالہی کاذکرکرناہےجواُن لطائف کےانبیاء کوعطاہواتھا۔ اُس سےآپ روگردانی نہیں کر سکتےاورنہ اُن کےاندرکوئی اورنام جائےگا۔ اب اس کیلئےاجازت کی ضرورت ہے۔ وہ اجازت یہ ہے کہ مرشد کہتا ہےکہ اےاللہ!یہ طالبِ حق اب اپنامشرب چاہتا ہے اوریہ چاہتاہےکہ دیگرجوانیاءاورمرسلین ہیں وہ سارے ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراب اسےاپنی نبوت ورسالت سےآزادکردیں اوریارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کُلی طورپراس کےوجودکےحاکم بن جائیں اوراس کےسارےلطائف پرآپ کاحق ہوجائے۔ پھراللہ تعالی انبیاءسےپوچھتا ہےکہ کسی کواعتراض ہےتوکسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس کے بعد سارے انبیاءاُس سےدستبردارہوجاتےہیں۔ اب وہ اس مرحلےپرکامل مؤمن بنتاہے جس کاتعلق باطن میں کسی اورنبی سےنہیں رہتابلکہ صرف محمدالرسول اللہ سےہوجاتاہے۔ اس کےبعد پھراسمِ ذات سارے لطائف میں دوڑایاجاتاہے۔ وہ لطیفہ بھی جس کی نبوت موسیؑ کےپاس تھی اوراسمِ ذات نہیں تھا۔ اُس لطیفے میں بھی جس کی نبوت عیسٰیؑ کےپاس تھی لیکن رب کودیکھنے کیلئے مارے مارے پھرتےتھے، اس میں بھی اسمِ ذات دوڑتاہے۔ پھرایک ہی توجہ سےساتوں لطائف اسمِ ذات اللہ سے رنگین ہوجاتےہیں۔ یہ ذکرِ سلطانی ہے۔ سلطان کامطلب ہےاختیار۔ یہ ذکرکااختیارپھرآپ کےہاتھ میں آ جاتا ہے کہ آپ زبان سےکہیں یاتصور کریں سارےلطیفے اسمِ ذات سےگویاہوجائیں گے۔ سیدناغوثِ اعظمؓ جب سترہزارکےمجمع میں آکر بیٹھتے اوربیٹھ کرصرف کہتےکہ سبحان اللہ توکئی آدمی فوت ہوجاتے۔ غوثِ اعظمؓ کی زبانِ مبارک سے صرف ایک مرتبہ سبحان اللہ نکلتا تھا اوراُس کااتناروحانی اثرہوتا تھا، ایسی ہلاوتِ ایمانی، ایسی چاشنی محبت اورلوگوں پرایسی کیفیت اورایسی جازبیت روحانی واردہوتی تھی کہ لوگ کپڑےپھاڑکریا تودیوانہ وارنکل جاتےاوریا تووہ مرجاتے۔ انہوں نےصرف زبان سےسبحان اللہ کہاتھالیکن پوراوجودِ غوثِ اعظم ایک دفعہ کہنے سے جاری ہوجاتاتھا۔ غوثِ اعظمؓ کے اندرموجود طفلِ نوری میں جاری ہوگیا، اکیس لطائف جاری ہوگئے، اُن کےسارے جثے جاری ہوگئے، جثہِ توفیقِ الہی بھی جاری ہوگیا اوراتنی ساری مخلوقات جواُن کےوجود میں ہیں سب سبحان اللہ کہہ رہی ہیں تولوگوں کاکیاحال ہوگا۔ ذکرِسلطانی کیلئےرب کی اجازت ضروری ہےاوروہ اجازت یہ ہے کہ اُن انبیاءسےکہیں کہ تمہیں فارغ کردیں۔ یہی قرآن مجید میں بھی آیا ہےکہ

وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
سورۃ المزمل آیت نمبر8
ترجمہ: اپنےرب کےاسمِ ذات میں اب غرق ہونےکاوقت آگیاہے، اپنی ساری روحوں کواسمِ ذات میں غرق کردےاوران تمام انبیاءسےاب ناطہ توڑلےتیرارب کافی ہے۔

یہ آیت ذکرِسلطانی کیلئےہے۔ پھرآپ نےاپنی ارضی ارواح کوبھی ذکرمیں لگاناہےاورجب یہ تمام چیزیں ذکرسےمنورہوگئیں۔ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوتا۔ لطیفہ قلب کوبالغ ہوتےہوتےتین سال چاہئیے۔ بایزید بسطامیؒ نےصرف منظوری کیلئے جنگل میں بارہ سال کاچلّہ کیاتھا تاکہ اسمِ ذات کی منظوری ہوجائے یعنی ذکرِقلب کی منظوری ہوجائے۔ اب سرکارگوھرشاہی کاجوچاہنےوالاہےجوسرکارگوھرشاہی سے ذکرِقلب حاصل کرتاہےتووہ پہلےدن ہی مثلِ بایزیدہےکیونکہ سرکارگوھرشاہی نےفرمایاکہ ہم اُس وقت تک بندے کوروحانیت میں نہیں چلاتےجب تک اُس کی منظوری نہ ہوجائے۔ اگرذکرچل گیاہے تو منظوری ہوگئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
سورۃ آل عمران آیت نمبر191

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ کہ مؤمن ایسےہوتےہیں جوسوتے، اٹھتے، بیٹھتے اورکروٹوں کےبل سوتے ہوئے بھی اللہ کاذکرکیاکرتےہیں یعنی اللہ کےذکرمیں مشغول رہتے ہیں۔ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کہ اوروہ آسمان اورزمین کی تخلیق میں تفکرکرتےہیں۔ ہماراتفکر توروٹی دال کیلئےہوتاہےیاہم بیٹھےہوتےہیں توسوچتےہیں کہ اللہ نےآسمان اورزمین کیسےبنائےاوراس کاذکرسےکیاتعلق ہے۔ یہاں پرجولفظ تَفَكَّرُونَ ہےیہ اشارہ باطنی فکریعنی مراقبےکیلئےہےکہ زمین اور آسمانوں میں جوان روحوں کےعالم ہیں اُن کامراقبہ کرتےہیں اوراُن میں فکرکرتےہیں۔ قرآن میں جولفظ “فکر”ہےیہ مراقبہ یعنی روحانی سفرکیلئےہے۔ اس لئےمولاعلی نےفرمایاکہ

ایک لمحے کا تفکر ثقلین کی عبادت سے بہتر ہے۔

وہ تفکرپریشان ہونانہیں ہےاوروہ ثقلین کی عبادت سے بہتراس لئےہےکیونکہ فقروہ ہے کہ جس میں آپ کےاندرکی مخلوقیں (لطائف) نکل کراوپرپہنچ گئیں توپھرثقلین کی عبادت سےبہترہی ہوگا۔ ایک ہوتا ہےکشش ثقل توسات سیاروں کی ہرایک کی کشش ثقل ہےتوسات ثقل مل کرثقلین ہوگئےیعنی مولاعلی نےفرمایا کہ یہاں سات سیاروں پراللہ نےانسان کوآبادکیاہے جس کےچودہ طبق ہیں تواگرتیرالطیفہ قلب عالمِ ملکوت میں چلاگیا توان ساتوں سیاروں میں جوانسان بستےہیں اُن سب کی عبادت سےبڑھ چڑھ کرتمہاری عبادت ہوجائےگی۔ اسی لئے ثقلین کی عبادت سےزیادہ افضل ہے۔ قرآن مجید میں ایک آیت ایسی ہے جس کوسوائے سیدنا گوھرشاہی کےکسی نےاس کی اللحق معنی اورتفسیربیان نہیں کی۔ وہ آیت یہ ہے

فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ
سورۃ النساء آیت نمبر 103

فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ کہ جب تمہاری نمازقضاہوجائے۔ جب تمہاری قضاہوجائےتوتم قضاکرتےہو۔ آپ نے کبھی یہ نہیں دیکھاہوگاکہ کسی کی نمازقضاہوئی ہےاوروہ ذکرکررہاہےکیونکہ جب نمازقضاہوئی ہےتو وہ نمازقضاکرکےپڑھ لےگا۔ ہمیں کسی نےبتایانہیں کہ قضا کاکیامطلب ہےکیونکہ ہم نےازخوداس کو اپنےاٹکل پچوسےسمجھاہےکہ قضانمازوہ ہوتی ہےجوآپ نےوقت پرنہیں پڑھی یعنی دیرسےنماز پڑھو تووہ قضا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نےجوقضا کامطلب لکھا ہےوہ یہ ہےکہ آپ کی نمازہوئی نہیں۔ جب نماز ظاہری طورپرنہ ہوتو تب ہی اُس کوقضا کہاجاتا ہے لیکن اللہ مستقبل کااشارہ دے کریہ فرمارہا ہےکہ جب تمہاری نمازیں قضاہوجائیں یعنی جب تمہاری نمازیں رب تک نہ پہنچیں، فوت ہوجائیں، بیکار ہوجائیں، جب تمہاری نمازیں حقیقت کارنگ نہ پکڑیں اور جب تمہاری نمازیں تمہیں برائیوں اور بےحیائیوں سےنہ روکیں توپھر یہ کرو فَاذْكُرُوا اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ کہ ایساذکرسیکھ لینا جواُٹھتے، بیٹھتےاورکروٹوں کےبل ہوتاہو توتمہاری نمازدرست ہوجائےگی۔ اس کےبعدفرمایاکہ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ اورپھرجب ذکرِقلب کےذریعےقلب میں اطمینان بھرجائےتو فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ پھرنمازقائم کرلینا۔ سرکارگوھرشاہی نےبھی یہی کیا کیونکہ سرکارگوھرشاہی نےفرمایا کہ اگرتم کچھ نہیں کرناچاہتےتومت کرولیکن تم پہلےدل کواللہ اللہ کراؤاورجب دل میں اللہ اللہ ہوجائے گی تویہ خود تم سےنمازپڑھالےگا۔

اللہ کے نظریے کے مطابق ہدایت اور گمراہی کیا ہے؟

اللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایا کہ

الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّـهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّـهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
سورۃ الرعد آیت نمبر28
ترجمہ: مؤمن وہ ہیں جن کےقلوب کو ذکراللہ نے اطمینان بخش دیا ہے تو خبردار ہوجاؤ کہ دلوں کواطمینان تواللہ کے ذکر سے ملے گا۔

آپؐ نے بھی فرمایا کہ

اقرار باللسان وتصديق بالقلب
ترجمہ: زبان اقرارکرے اوردل اس کی تصدیق کرے۔

یہ جو اطمینان ہے یہ تصدیق بالقلب کے زمرے میں آیا ہے۔ یہ اطمینانِ قلب کے اوپر صادر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے پھرفرمایا ہے کہ

مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورۃ الکھف آیت نمبر17

مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ کہ ہدایت دینےوالاوہ ہےجس کواللہ نےہدایت دی ہےاورکوئی نہیں ہے۔ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا اورجس کواللہ ہدایت نہیں دیناچاہتاہےیعنی جس کواللہ گمراہ کرناچاہےتواُس کواللہ ولی اورمرشد سےنہیں ملاتا ہے۔ اس کےبعد اللہ نےقرآن مجید میں فرمایاکہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ الزمرآیت نمبر22

یہ آیت طریقت، تصوف اورروحانیت کی اساس ہے۔ جولوگ تصوف کواسلام سےباہرسمجھتےہیں یہ اُن کیلئے دعوتِ فکرہے۔ أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ کہ اسلام میں تکمیل کیلئےاوراسلام کواپنانے کیلئےاورپکّہ مسلم ہونےکیلئےجس شخص نےاسمِ اللہ کےساتھ شرح صدرکرلی تووہ مؤمن ہوجائےگا۔ شرح صدرکرنااندرروحوں کونورفراہم کرناہےکیونکہ یہ طریقت، روحانیت اورتصوف کےذریعے ہےاوریہ اللہ کاحکم ہے۔ جب شرح صدرہوگی تواس کانتیجہ یہ ہوگا کہ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ توپھروہ جوشخص ہےاُس کواپنےرب کا نورملناشروع ہوجائےگا۔ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ کہ کچھ لوگ ایسے ہونگےکہ اُن کےقلب اتنےسخت ہونگےکہ اللہ کاذکراُن میں سرائیت نہیں کرےگا۔ اگراللہ کاذکر کسی دل میں سرائیت نہ کرےتو أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ کہ دلوں کاذکرسےجاری نہ ہونااللہ کےنزدیک صریحاً گمراہی ہے۔ گمراہ وہ نہیں ہےجوگناہوں میں لگاہےبلکہ گمراہ وہ ہےجس کادل نورِالہی کےساتھ مطابقت نہیں رکھتاہے۔ جس کےدل میں اللہ کانام نہیں اُترتاہےاوردھڑکنیں اسمِ ذات کوقبول نہیں کرتیں اُس کیلئے اللہ تعالی نےبالکل صراحت کےساتھ فرمادیاہےکہ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ کہ ایسےتمام لوگ جن کےدلوں اللہ کاذکرداخل نہیں ہوتاتووہ تمام گمراہ ہیں۔ اسلام میں وہ داخل ہے جس کاسینہ اسمِ اللہ سےکُھل گیاہے۔ اسلام کی تشریح قرآن نے یہ کی ہے۔ یہ نمازیں، روزہ، حج اورزکوٰۃ آپ کی بندگی کاثبوت ہےکیونکہ یہ ہدایت کانشان نہیں ہے۔ ہدایت کانشان دل کاذکرکرنا یانہ کرناہے۔ اگردل میں اسمِ ذات اُترگیاتوتم صاحبِ ایمان ہواوراگرتمہارےقلب میں اسمِ ذات اللہ سرائیت نہیں کرسکتاتوپھرتم ازلی بدبخت اورجہنمی ہواور گمراہ ہو۔ گمراہ وہ نہیں ہےجوگناہ کرے بلکہ گمراہ وہ ہےجس کےدل میں نورکی مطابقت نہ ہو، جنسِ مخالف ہواورنارکامکان ہو۔ قرآن میں اللہ کے نظریے کے مطابق دل کااللہ کےذکرسےآبادہونا ہدایت ہےاوریہ ہدایت يَهْدِ اللَّـهُ اللہ دےگا اور فَهُوَ الْمُهْتَدِ وہ ہدایت یافتہ ہوگاکہ جس کواللہ کی طرف سےاللہ کااسم عطاہوگا اوراُسی کےقلب میں اسم داخل ہوگا۔ اگراللہ کی طرف سےاسمِ ذات عطانہیں ہوتا توپھرکائنات میں نہ کوئی نبی یاولی ایساہے جواللہ کی منظوری کے بغیراللہ کا نام کسی کےدل میں اُتاردے۔ گمراہی وہ ہےکہ فَوَيْل جس کامطلب تباہی ہےیعنی فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ کہ اُن کیلئے تباہی ہےجن کےدل میں اللہ کاذکرداخل نہیں ہورہاہے۔ وہ تباہی یہ نہیں ہےکہ آپ کاکاروبارتباہ ہوجائےگا بلکہ تباہی ایسےہوگی کہ دل میں اسمِ ذات داخل نہیں ہوا، دل میں اتنی سختی لیکن وہ نمازیں پڑھ رہاہے، روزے رکھ رہاہے،قربانی کررہاہےاورسب کچھ کررہا ہےاورسمجھ رہاہےکہ وہ بہت پکّا حاجی اورجنتی ہے لیکن اللہ نےقرآن مجیدمیں فرمادیاہےکہ اگر تمہارے دل میں ذکر داخل نہیں ہواتویہ ساری عبادات تباہ ہوجائیں گی۔ نمازکیلئےتواللہ کےرسول نےفرمایا ہےکہ

لاصلوٰۃ إلا بحضور القلب
ترجمہ: قلب کی حاضری کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

اگرآپ کےقلب میں اللہ کانوراورذکرداخل نہیں ہوتاہےتوپھرجویہ عبادتیں ہیں یہ بیکارہیں کیونکہ اللہ نےفرمایاکہ یہ تباہی ہے۔ تباہی ایسےہوگی کہ دل میں اللہ کاذکراورنورداخل نہیں ہوالیکن تم نےنمازیں پڑھیں، روزےرکھےاورحج بھی کئےاوردل میں نورداخل نہ ہونےکی وجہ سے اس کاآپ پراُلٹااثرہوگا۔ تم ان عبادتوں پر، نمازوں پر، اماموں پر، سنتوں پر، اُس ذکراورروزے پرتمہیں تکبرآئےگا کہ میں تو بہت بڑانمازی ہوں جیساکہ آپ نےدیکھاہوگاکہ اگرکوئی تھوڑاسا مذہبی ہوجاتاہےتووہ دوسروں کوکہتا ہے کہ اسےدیکھویہ گانےسن رہاہے یااس نےشکلیں یہودی جیسی بنارکھی ہےتواس لئے تم اپنےایمان پردھیان دو۔ وہ اپنےایمان پردھیان نہیں دےسکتاکیونکہ اُس کی جتنی بھی نمازیں ہیں یہ اللہ کومنظورہی نہیں ہیں اوراللہ نےردکردیا کہ مجھےتمہاراسجدہ نہیں چاہیئےتوپھرتم جتنی نمازیں، جتنےروزےاور جتنی قربانیاں دوگے تواُتنا ہی زیادہ اُس سےچڑکھائےگا اورتمہاری عبادتوں اورسجدوں کوتباہ کرتا جائےگا۔ ایک تویہ اللہ نےذکرِقلب کیلئےیہ فرمایا ہےکہ اگرتمہارےقلب میں اللہ کاذکرداخل نہیں ہورہا تویہ عبادتیں تمہیں ہلاک اورتباہ کردیں گی۔ ایک جگہ اللہ تعالی نےحضورؐکےادب کےحوالےسے فرمایاکہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
سورۃ الحجرات آیت نمبر2
ترجمہ: اےمؤمنو!اپنی آوازکونبی پاکؐ کی آوازسےاونچامت کرنااوران کوایسےمخاطب بھی نہ کرناجیسےآپس میں ایک دوسرےکومخاطب کرتےہو۔

اسی سےوہ حکم نکلا ہےکہ جب لوگوں کوکہتےہوالسلام علیکم توحضورؐکواس طرح سلام نہیں کر سکتےکیونکہ اللہ نےمنع کیاہےکہ جس طرح آپس میں گفتگوکرتےہو حضورؐسےاس لب ولہجے میں اوراس طرزِتخاطب میں کلام نہیں کیاجاسکتا۔ حضورؐسےکلام کااندازہی مختلف نہیں ہوگا بلکہ اصطلاحاتِ تخاطب بھی مختلف جائیں گی۔ جب حضورؐکومتوجہ کرنا ہوگا توکہناہوگا اُنظُرنَا کہ یارسول اللہؐ مجھ پرکرم فرمائیں۔ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ کہ اپنی آوازوں کواونچا نہ کرنا۔ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ کہ نبی کی آوازسے۔ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ کہ نہ اُن سےاسطرح مخاطب ہونا جیساایک دوسرے سےمخاطب ہوتےہواوراگرتم نےاس بات کونہ مانااورحضورؐکاادب ملحوظِ خاطرنہ رکھا تو أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ پھرتمہارےسارے اعمال، سارےعمرے، سارےحج، ساری نمازیں، ساراذکراورسب کچھ غارت جائےگا۔ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ کہ سارےاعمال ردکردئےجائیں گےاگرحضورؐ کی بارگاہ میں ادب نہیں کیا۔ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ اورتمہیں اس کاادراک بھی نہیں ہوگاکہ میرے اعمال ضائع ہوگئے۔ تم اسی چکرمیں رہوگےکہ میں نےدس حج کئےہیں اورتم اسی چکرمیں رہوگےکہ میں بیس سال سےنمازپڑھ رہاہوں کہ میں توبہت متقی بن گیاہوں۔ تم اسی گھمنڈ میں رہوگےاوریہی گھمنڈی بن کررہوگےکہ میں توبڑا پرہیز گارہوں اورمیں توبڑاعبادت گزارہوں جس طرح مولوی کےدماغ میں ہوتا ہےکہ ہم توبنی اسرائیل کےنبیوں کی طرح ہیں اورمولوی اپنےآپ کونبیوں کی مانندسمجھتےہیں اورجب یہ حدیث میں گڑبڑ کرتےہیں تواُن کویہ احساس نہیں ہوتاکہ وہ گڑبڑکررہےہیں بلکہ وہ کہتےہیں کہ وہ تجدیدکررہےہیں۔ اس لئےانہوں نےحدیثوں میں جوشیطانی تجدیدکی ہےاُس سےحدیثوں کاحال ہی بگڑگیا۔ ایک حدیث شریف جس کوسلطان حق باھونےبیان کیا کہ

ان اللہ لا ینظر الی صورکم واعمالکم ولکن ینظرالی قلوبکم ونیاتکم
نورالہدی صفحہ 60

اب آپ یہ حدیث کتابوں میں دیکھیں گےتووہاں تبدیلی کرکےقلوب کےساتھ مولویوں نےاعمال بھی لکھ دیاہے۔ کتابوں میں مولویوں نے نیت کوہٹاکراعمال لگادیاکہ اللہ قلب کواورعمل کودیکھتاہےجوکہ اسلام کی بنیادی تعلیم کےخلاف ہے۔ خلاف ایسےہےکہ ایک حدیث شریف میں صحابہ اکرام حضورؐسے پوچھتےہیں کہ یارسول اللہ! ہماری بخشش کیسےہوگی کہ کیااعمال کی بنیادپرہوگی توآپ نےفرمایا کہ آپ کےاعمال سےبخشش نہیں ہوگی بلکہ اللہ کےفضل سےہوگی۔ صحابہؓ نےپوچھاکہ آپ کےساتھ کیا معاملہ ہوگاتوآپؐ نےفرمایاکہ میں بھی اللہ کےفضل کےساتھ ہوں۔ پھراس بات کومیاں محمد بخش نے اپنے اشعارمیں سمویا کہ
جے میں ویکھاں عملاں ول تے کج نہیں میرے پلے
جے میں ویکھاں تیری رحمت ول تے بلے بلے بلے

یہ بات بھی اُسی طرف اشارہ کررہی ہےکہ بخشش اعمال سےنہیں ہوگی بلکہ اُس کی رحمت اورفضل سےہوگی۔ جونکتہ بحث یہاں پرتھاوہ یہ تھاکہ ہدایت کیاہےاورگمراہی کیاہے۔ ہدایت اورگمراہی اعمال پرنہیں ہےکیونکہ نہ گمراہی کسی عمل کانام ہےاورنہ ہدایت کسی عمل کانام ہے۔ پھرہدایت یہ ہے کہ دلوں کااسمِ ذات سےبیدارہوجاناہدایت ہے اوردل میں اسمِ ذات کاسرائیت نہ کرناگمراہی ہے۔ اب ایک حدیث میں ہےکہ نبی پاکؐ کی بارگاہ میں بہت سارے صحابی آکربیٹھےتوظاہرہےکہ جب قرآن مجید میں یہ آیاہےکہ اے مؤمنو!جب تم سےکوئی فحاشی یاگناہ ہوجائےتوحضورؐکےپاس آکران سےدعاکراؤتواللہ معاف کردےگا لیکن آج مولوی کہتےہیں کہ صحابہ گناہ نہیں کرتےتھے۔ مولویوں نےبڑھاچڑھاکردین کوبربادکردیا ہے کیونکہ قرآن میں یہ لکھا ہےکہ اےمؤمنو!اگرتم سےغلطی یافحاشی ہوجائےتوحضورؐ کےذریعےمعافی مانگ لو۔ یہ ہمارےلئےنہیں لکھاہےکیونکہ ہم توحضورؐکےدورمیں نہیں تھےتوجواُس دورمیں تھےانہیں کوکہاہےجوہم پربھی لاگوہوتاہے۔ اس سےیہ ثابت ہواکہ جوحضورؐکی بارگاہ میں بیٹھنےوالےتھےوہ سارےکےسارےمکمل بازِگناہ نہیں تھے۔ اسی طرح ایک آدمی زید بن حارث تھا جو حضورؐسے بہت پیاربھی کرتاتھااوروہ شراب بھی پیتاتھا۔ جب وہ شراب پیتےہوئےنظرآجاتاتوصحابہؓ حضورؐ کے پاس پکڑکرلےآتےاورحضورؐزید سےپہلےتومذاق کرتےتواس کےبعد کہتے کہ اس کو کوڑےمارو۔ پھر دوسری دفعہ پکڑاگیاتویہی ہوالیکن جب تیسری دفعہ پکڑاگیاتوکچھ صحابہ کرامؐ بہت اداس ہوگئےاور کہنےلگےکہ تم پرلعنت ہوکہ باربارشراب پی کرپکڑاجاتاہےرکتانہیں ہے۔ جب انہوں نےلعنت بھیجی توحضورؐکوجلال آگیا۔ حضورؐنےفرمایاکہ اس پرلعنت نہ بھیجوکیونکہ اس کےدل میں اللہ اوراس کے رسول کی محبت ہے۔ جس کےدل میں اللہ اوراس کےرسول کی محبت ہوتواس پر آپ لعنت نہیں بھیج سکتے۔ اب آپ یہ بتائیےکہ ہدایت اگراعمال کانام ہوتاتوشرابی ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ ہدایت یہ ہے کہ دل میں اللہ اوراس کےرسول کی محبت کاآجانا۔ دل میں اللہ اوراس کےرسول کی محبت اعمال سےنہیں آتی ہےاوراگراعمال سےآتی توشرابی زید کےدل میں کیسےآگئی۔ یہ تونظروں سےآئی ہے کیونکہ حضورؐ کی نظروں سےاُس کادل منورہوگیا۔ یہی وجہ ہےکہ اولیائےکرام، بزرگانِ دین، صوفیائےکرام اور صالحین نےاپنی نظروں سےلوگوں کےسینوں کوآبادکیا ہے۔ اُس کےبعد آہستہ آہستہ جیسےجیسےان کوسینوں میں نورکااضافہ ہوتاگیا وہ گناہوں سےدورہوتےگئے۔ ایسا نہیں ہوتاہےکہ آج قلب جاری ہوااور جب وہ صبح اٹھےگاتوامام ابوحنیفہ جیسامتقی ہوگا۔ یہ آہستہ آہستہ ہوتاہے۔ جیسے جیسےنورجاتاہے ویسےویسے اس کانفس طہارت کی طرف گامزن ہوتاہے۔ جیسےجیسے نفس میں طہارت آتی ہےانسان گناہوں کی طرف کم راغب ہوتا ہےکیونکہ برائی کا حکم دینےوالی جوچیزہےاب وہ خوداللہ اللہ میں لگ گئی ہے۔ اس کورس میں جوبنیادی نکتہ آپ کوسمجھنا ہےوہ یہ ہےکہ ہدایت قلب کامنورہوناہےاور گمراہی قلب کاسیاہ رہ جاناہے۔ اسی طرح نبی پاکؐ نےایک حدیث میں یہ بھی فرمایا ہےکہ

اتقوا عالم الجاہل قیل من العالم الجاہل یا رسول ﷲ قال عالم اللسان و جاہل القلب یعنی اسود
بحوالہ زمرۃ الابرار

اتقوا عالم الجاہل کہ جاہل عالم سےڈرو۔ صحابہ کرامؓ نےفرمایاکہ قیل من العالم الجاہل یا رسول ﷲ کہ یارسوال اللہ! جاہل عالم کون ہے۔ آپؐ نےفرمایا عالم اللسان و جاہل القلب یعنی اسود کہ وہ جاہل عالم ہے جس کی زبان توعالم ہےلیکن اُس کاقلب جاہل یعنی سیاہ ہے۔ آج کےدورمیں توایسےہی عالم ہیں جن کی صرف زبان ہی عالم ہےلیکن دل سیاہ ہے۔ کسی بھی مولوی کی گفتگوسن لیں توقرآن کے حوالوں سےمزین، عشق کی باتیں، ایمان کی باتیں اور محبت کی باتیں بہت ہونگی لیکن وہ صرف بھاشن ہوگا۔ اُس کاتم پراثراس لئےنہیں ہوگاکیونکہ قلب توخالی ہے۔ بابا بلھےشاہ نےکہاکہ
کرلے دل دی صفائی جے دیدار چاہی دا
یہ دل کو صاف کرنا پڑتا ہے۔

آج کے پرفتن دورمیں خود کواللہ کےنورسےمنورکرسکتےہیں؟

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہےکہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ
سورۃ الأعلی آیت نمبر15-14

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ کہ کامیاب وہ ہواجس نےتزکیہ کرلیا یعنی اپنےآپ کوپاک کرلیا۔ یہ تصوراب ہماری قوم میں نہیں رہاکہ کامیاب کون ہوگا۔ ہم ترجمہ کرتےہیں توصرف پڑھتےجاتےہیں کہ کامیاب وہ ہوا لیکن غورنہیں کرتےکہ یہ ہمارےلئےہےہم جائزہ تولیں کہ ہم اپنےدین پرعمل کرنےمیں کامیاب ہوئے ہیں یا ناکام ہوئےہیں۔ ہم نےکبھی یہ نہیں سوچاکہ کامیاب کون ہوااورہم کون ہیں اور کیاہم کامیاب ہوگئے ہیں یانہیں۔ آپ کوقرآن پڑھ کرکبھی یہ خیال آیاکہ آپ کامیاب ہونےوالوں میں ہیں یا ناکام ہونےوالوں میں ہیں۔ یہاں اللہ نےفرمایا قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ کہ کامیاب وہ ہوگاجس نےاپنےآپ کوپاک کرلیا۔ اُس کے بعداللہ نےفرمایاکہ وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ کہ جس نےاپنےرب کےاسم کوپہلےدل میں حاصل کیااور فَصَلَّىٰ پھرنمازپڑھی۔ اگرآپ نےاسمِ ذات کاذکرنہیں لیااورنمازوں میں لگےہوئےہیں تووہ نمازیں بیکارجارہی ہیں۔ قرآن کی یہ ترتیب بتارہی ہےکہ پہلےآپ نےخودکوپاک کرناہے، اسمِ ذات کوقلب میں بساناہےاور فَصَلَّىٰ پھرنمازہوگی۔ اگرآپ نےاپنےآپ کوپاک نہیں کیااورنہ اسمِ ذات کوقلب میں داخل کیااورنماز میں لگ گئےتونتیجہ یہ نکلاکہ بیس سال کی پانچ وقت کی نمازپڑھنے کے باوجودبھی آپ بےایمان ہیں۔ بابا بلھےشاہ نےان کیلئےفرمایاکہ
تیرا دل کھلاوے منڈے کڑیاں
توں سجدے کرے مسیتی

اللہ نےقرآن مجید میں نماز کےبارےمیں فرمایاکہ

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
سورۃ العنکبوت آیت نمبر45
ترجمہ: نماز برائیوں اور بےحیائیوں سے روکتی ہے۔

پہلےتوہم نےبات کی تھی کہ بقول قرآن حقیقی طورپردائرہ اسلام میں وہ داخل ہےجس نےشرح صدرکرلی۔ اب اللہ نےحضورؐکوفرمایا

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
سورۃ الشرح آیت نمبر1
ترجمہ: کیا ہم نے آپ کی خاطرآپ کی شرح صدرنہیں کی۔

قرآن کےمطابق شریعت اوراسلام کی روح سےشرحِ صدرکرناسنتِ رسول ہے۔ حضورؐکی جوشرحِ صدرہوئی ہےیہ اللہ کاحضورؐسےعشق کانتیجہ ہے۔ اُس عشق کی وجہ سےقانون ہٹادیااوراپنےحبیب کیلئےتحفہ دیا۔ تصوف میں کچھ کام ایسےبھی ہوتےہیں کہ جوکسی کی خاطرکئےجاتےہیں۔ عام لوگوں کوکہاکہ أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ کہ میں توانہیں لوگوں کومسلمان سمجھتاہوں جنھوں نےاسمِ اللہ سےشرحِ صدرکرلی ہےاوردوسری جگہ فرمایاکہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کہ کیاہم نےآپ کی شرح صدرنہیں کی تو پھرشرح صدرسنتِ رسولؐ ہوگئی۔ فرق صرف اتناہےکہ حضورؐکوشرحِ صدراللہ نےتحفےمیں دی اورہم کوکماناہے۔ ہم نےشرحِ صدرکیلئےمرشدتلاش کرناہےاورمرشدوہی ہوگاجوشرحِ صدرکردےگاجوسینہ کھول دےگا۔ شرح صدریہ ہےکہ سینےکےاندرجومخلوقیں ہیں اُن کوبیدار کرنا شرحِ صدرہے۔ ایک مقام تویہ ہےجہاں اللہ تعالی اپنےحبیب کوکہہ رہاہےکہ یارسول اللہ! ہم نےآپ کی شرح صدرکردی اورقرآن میں ایک مقام ایسابھی ہےجہاں موسٰیؑ اللہ سےدعاکررہےہیں:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
سورۃ طہ آیت نمبر25
ترجمہ: اےاللہ! میری خاطرمیری شرح صدرکردو۔

اب یہ نہیں لکھاکہ اللہ نےموسٰیؑ کی شرحِ صدرکی یانہیں کی کیونکہ بس دعاکاذکرہے۔ اس سےیہ معلوم ہواکہ شرح صدرکوئی معمولی شےنہیں ہےکیونکہ موسٰیؑ اللہ سےدعاکررہےہیں کہ میری شرح صدر کردو۔ آج کامسلمان شرحِ صدرکیوں نہیں کروارہا؟ یہ شرحِ صدرکرنےوالاجوعلم ہے بدعت اورشرک کیسےہوگیا۔ دلوں کومنورکرنا، دلوں کوبیدارکرنااورشرحِ صدرکرنا، یہی توفلسفہِ الہی ہےاوریہی تو اسلام ہےاوریہ ہی توقرآن ہے۔ یہ سیدنا گوھرشاہی کامشن ہےجس کےپیچھےجولوگ مخالفت کررہے ہیں اس لئےکررہےہیں کیونکہ یہ اندرسےکالےہیں۔ جس طرح اللہ کوحضورؐسےمحبت ہےتواُس کی خاطرشرحِ صدرکی اسی طرح سرکارگوھرشاہی کوبھی انسانیت سےمحبت ہے۔عشق کی خاطر شرحِ صدرکوسرکارگوھرشاہی نےسیل پرڈال دیاہے۔ طالب بیاطالب بیاتارسانم روزِاوّل باخدا۔ جیسابھی ہے آجاکیونکہ سرکارگوھرشاہی کی صدائیں بلندہیں۔ سرکارگوھرشاہی کی صدائیں تحت السرہ سے لے کر اوج سُریا تک گونج رہی ہیں کہ جومحبتِ وعشقِ الہی کامطمنی ہومیرےپاس آجائے۔ یہ شرحِ صدر یا تو قانون کےتحت حاصل کیاجاتاہےیاپھرکسی کادل جیت کرکہ جوآپ کی خاطرآپ کاسینہ کھول دے۔ جیسےاللہ نےحضورؐکےعشق کی خاطرآپ کی شرحِ صدرفرمائی کہ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ۔ یہ جو لَكَ ہےاس کی تشریحات میں قاضی عیاض نےلکھاہےکہ یہ اللہ کےفضل کی نشانی ہے۔ اللہ کا فضل یہ ہےکہ جوچیزقائدہ اورقانون سےحاصل نہ ہواوراللہ کسی کی خاطردےدےتووہ فضل ہے۔ جویہ لفظ لَكَ ہےکہ “تیری خاطر”تویہ صرف عشق میں استعمال کیاجاتاہے۔ بازیدبسطامی کوصرف اسمِ اللہ کی منظوری کیلئے12سال لگےتھے لیکن یہ صرف خالصتاً سیدناامام مہدی گوھرشاہی کا فضل اور کرم ہےاوراس کےعلاوہ ہونہیں سکتا۔ حضٖرت سلطان باھونےفرمایاکہ
جے تو چاہیں وحدت رب دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مل مرشد دیاں تلیاں ہو
اگرتم اللہ کاوصل چاہتےہوتومرشدکےتلووں میں سماجاؤ۔ا للہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایاکہ

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورۃ الحجرات آیت نمبر14

کچھ اعرابیوں نے تازہ تازہ اسلام قبول کیا اوروہ کہنےلگےکہ ہم مؤمن ہیں تواللہ تعالی نےفرمایا کہ قَالَتِ الْأَعْرَابُ کہ یہ اعرابی کہتےہیں آمَنَّا کہ ہم مؤمن ہیں۔ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا ان کوکہہ دوکہ تم مؤمن نہیں ہو وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا بلکہ یہ کہاکروکہ مسلمان ہوئےہوکیونکہ وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ کہ ابھی توایمان تمہارےقلب میں داخل نہیں ہواہےاورتم اپنےآپ کومؤمن کہہ رہےہو۔ اب دیکھنا یہی ہےکہ ایمان کاقلب میں داخل ہونا کیاہے۔ ایمان کا قلب میں داخل ہونا اسمِ ذات اللہ کا قلب میں داخل ہوکر استقرارپکڑنا ہے۔ جس کےقلب میں اسمِ ذات اللہ نےاستقرارپکڑلیا اورذاکرقلبی بن گیاتووہ مؤمن ہے۔ اس کےبعد اللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایاہےکہ

يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورۃ الشعراء آیت نمبر89-88
ترجمہ: یومِ محشر میں نہ بیٹے کام آئیں گے اور نہ آپ کا مال کام آئے گا۔ اُس دن کامیاب وہ ہوگا جو قلبِ سلیم لایا۔

سیدنا گوھر شاہی کی کتابِ مقدس روشناس سے ایک باب:

سرکارگوھرشاہی نےفرمایا کہ
اسلام میں پانچ رُکن ہیں: کلمہ، نماز، روزہ، حج اورزکوٰۃ۔ پہلا اسلامی رُکن یعنی کلمہ یہ دائمی اور بنیادی فرض ہے۔ باقی جوچارفرض ہیں وہ وقتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ کلمہ دائمی فرض ہے اوردائمی کامطلب ہےہروقت کرنےوالا۔ وقتی کامطلب ہےکہ جب وقت آئےتوکرےلیکن ہروقت کانہیں ہے۔ جیسےنمازِعصرکاوقت نہیں ہےتونمازنہیں ہوسکتی کیونکہ جب وقت آئےگاتوہوگی۔ جب رمضان کا مہینہ آئےگاتوفرضی روزہ ہوگا۔ اگرآپ چاہیں کہ محرم میں فرضی روزہ رکھیں تونہیں ہوگا لیکن صرف نفلی ہوگا۔ حج اگرآپ ہرمہینےچاہیں تونہیں ہوسکتا کیونکہ حج سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے۔ زکوٰۃ بھی آپ روزانہ نہیں دیتے۔ اس لئے کلمہ کےعلاوہ باقی چارفرائض وقتی ہیں۔ ایک فرض جو کلمہ ہے یہ دائمی ہےاوریہ ہروقت کرناہے۔ جوہروقت کرناہے اُس کوہم نےبھلادیا اورچاروقتی فرائض کےاوپرہم نےدین کی عمارت کھڑی کی ہےجوگرگئی۔ کلمہ اسلام کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد حدیث شریف ہےکہ
فرض دوقسم کےہیں: ایک دائمی فرض اورایک وقتی فرض۔ پھرفرمایا کہ جودائمی فرض ادانہیں کرتا تواللہ تعالی اُس کےوقتی فرض کوقبول نہیں کرتا۔ جب تک یہ کلمہ اقرارباللسان وتصديق بالقلب یعنی جب تک کلمہ قلب میں داخل ہوکردائمی ذکرنہیں کرےگا تو یہ نماز، روزہ، حج اورزکوٰۃ سب ضائع جائیں گے۔ یہ روحانیت کہتی ہے۔ حدیث النبویؐ ہےکہ

من لم یؤدالفرض الدائم لن یقبل اللہ فرض الوقت
محک الفقرکلاں صفحہ 225
ترجمہ: جوشخص فرضِ دائمی ادانہیں کرتا تواللہ تعالی اُس کےفرضِ وقتی کوبھی قبول نہیں کرتا۔

ایک حدیث شریف میں ہےکہ

افضل الذکرلاالہ الااللہ
ابن ماجہ،ج 4،ص247،حدیث:3800
ترجمہ: سب سے افضل ذکر لاالہ الااللہ ہے۔

افضل الذکرلاالہ الااللہ کلمہ طیبہ ہے اورزبانی مسلمان اقرارِ زبان سے ہے اورحقیقی مسلمان جب تصدیقِ قلب بھی ہو۔ زبانی کلمہ پڑھنےوالےتولاکھوں کروڑوں ہیں لیکن زبانِ قلب سے پڑھنے والے چند ہی ہیں کیونکہ زبانی کلمہ پڑھنےوالوں کوتہہ دل سےپڑھنےکاپتہ نہیں۔ یہی ایک نسخۂِ روحانیت ہے۔ یہ نسخہ سستا نہیں کیونکہ تہہِ دل میں پہنچانے کیلئے نفس سے مقابلہ ضروری ہے۔ جب قلب کا منہ ایک دفعہ کُھل جائے تو وہ بند نہیں ہوتا اور وہ ہروقت کلمہ پڑھتا رہتا ہے۔ چونکہ پورے کلمے کا مغزاسمِ ذات اللہ ہے اس لئے کچھ سلسلے والے اسمِ اللہ سے ہی چلتے ہیں۔ جب لطیفہ قلب ہروقت یا ذیادہ وقت ذکرکرتا ہے تودل گناہوں سے دُھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب دل ذکراللہ کے نورسے صاف شفاف ہوجاتا ہے تب وہ اللہ کی نظرِرحمت کے قابل ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ

ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا اعمالکم ولکن ینظر الی قلوبکم ونیاتکم
نورالہدی صفحہ 60
ترجمہ: اللہ تعالی نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اور نہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے لیکن تمہاری نیتوں کو اور قلوب کو دیکھتا ہے۔

جب کوئی شخص نظرِرحمت میں آتا ہے تودن بدن برائیوں سے دور اور نیکیوں میں سُرور حاصل کرتا ہے اور نیکی کی رغبت بڑھتی ہے اور اِس وقت یا اُس سے قبل اللہ تعالی اُسے صراطِ مستقیم کیلئے کسی کامل سے ملادیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ

وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورة الکھف آیت نمبر 17
ترجمہ: اور اللہ جس کو گمراہ کرے تو وہ ہرگزولی مرشد نہیں پائے گا۔

یاد رہے کہ دل اور قلب میں بڑا فرق ہے۔ دل ایک گوشت کا ٹکڑا جوجانوروں میں بھی عام ہوتا ہے لیکن ہفت لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جس کا تعلق روحِ انسانی کی طرح مخلوق سے ہے، یہ محافظِ دل ہے۔ جب اِسے جگایا جاتا ہے تویہ طاقتورہوکرجسمِ انسانی سے باہرنکل کرارواح اور ملائکہ کی صفحوں میں جاکراس حالتِ خواب یا مراقبہ یا مکاشفہ کے ذریعے دیکھتا ہے۔ یہ تصدیقِ قلب کا راز ہے اور اِسی لطیفہ قلب کے ذریعے حضورپاکؐ کی محفلِ پاک نصیب ہوتی ہے۔ ذکر کے حلقے اور ضربیں اِسی قلب کو جگانے کیلئے لگائی جاتی ہیں۔ جولوگ اِس علم سے بے بہرہ یا ذکر کے مخالف ہیں وہ کبھی بھی ظاہری عبادت یا ظاہری علم سے قلب تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ظاہری علم کی انتہاء بحث و مباحثہ و مناظرہ ہے جومقامِ شر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ بہترفرقے اِسی ظاہری علم کی پیداوار ہیں اور باطنی علم یعنی قلبی عبادت کی انتہاء محفلِ حضوریؐ ہے جوہرقسم کے شرسے محفوظ ہے۔ اِس وقت مسلمان چھلکے کی مانند رہ گئے ہیں اور سینوں میں جومغزتھا وہ اِس سے محروم ہوگیا ہے۔ وہی مغز اصل ہے جس سے نماز میں لذت، ذکرمیں جنبش، سخاوت میں پہل اور آپس میں اخوت ومحبت اور دین کوپھیلانے کا مجاہدانہ جذبہ تھا لیکن اِس مغزکےضائع ہونے سے یہ تمام چیزیں سینوں سے نکل گئیں اور اِن کی جگہ حسد، تغبر، بغض، کینہ، عداوت اور بخل نے لے لی۔ اب وہی مسلمان ایک دوسرے کا اِن کی وجہ سے دشمن ہوگیا حتیٰ کہ وہی مسلمان جو کافروں عیسائیوں کومسلمان بناتا تھا، اب اِن کا جاسوس اوراعلیٰ کاربنا ہوا ہے۔ بہت سے مسلمان اپنا مذہب چھوڑکرکمیونسٹ اورعیسائی بن چکے ہیں۔ اِس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اسمِ ذات کا مغز مسلمانوں کے سینوں میں دوبارہ پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ ذیادہ تراسمِ ذات اللہ کا مغزکسی کامل کے ذریعے ہی عطا ہوتا ہے، بعض کواویسی طورپربھی نصیب ہوجاتا ہے۔ دونوں طرح سے حاصل کرنے کا طریقہ پیشِ خدمت ہے۔ بہترہے کہ سب سے پہلے کسی کامل کوتلاش کرے اوراگر کہیں مرید ہے تواُن سے اسمِ ذات کا قلبی ذکرمانگیں۔ کامل ذات ایک ہی نظرسے، کامل ممات ذیادہ سے ذیادہ تین دن اور کامل حیات سات دن تک قلب کا منہ کھول کرذاکرِقلبی بنا دیتے ہیں۔ اگرکوئی مرشد سات دن سے ذیادہ ٹال مٹول سے کام لے توبہترہے کہ اُس سے جُدا ہوجائے اور اپنی عمرِعزیز برباد نہ کریں کیونکہ یا تومرشد ناقص ہے یا اِس کی کوئی اپنی زمین ناقابلِ کاشت ہے اور یا پھراِس کا نصیبہ کہیں اورہے۔ایک عام مسلمان کیلئے پانچ نمازوں کے ساتھ پانچ ہزار ذکر روزانہ، امامِ مسجد کی زکوٰة پچیس ہزار ذکر روزانہ ہے تب اِس کومقتدیوں پرفضیلت ہے، غوث و کتب کا درجہ حاصل کرنے کیلئے بہترہزار کی زکوٰة ہے تب اِس کواماموں پرفضیلت ہے اور فقیرکی زکوٰة سوا لاکھ روزانہ ہے تب اِس کوغوث و قطب پرفضیلت ہے۔ جب قلب کا منہ کُھل جائے تووہ ایک گھنٹے میں چھ ہزاردفعہ اسمِ اللہ کا ذکرکرلیتا ہے۔ بعض کا بوقتِ تصور اور بعض کا بغیر تصور بھی ہوجاتا ہے۔ ظاہری عبادت سکھانے اور ظاہر میں چلانے کیلئے علماء ہی کافی ہوتے ہیں۔ پیروں فقیروں کا کام باطنی محفلوں میں پہنچانا اور باطنی عبادات یعنی قلبی، روحی، سرّی، نفسی وغیرہ سکھانا ہے۔ اگرکوئی کامل نہ مل سکے تواپنی قسمت کو آزمانے کیلئے کسی غوث، کتب یا شہید کے مزار پر جائے اور پاک و صاف ہوکر ذکرِانفاس یعنی سانس اندر لیتے وقت “اللہ” اور نکالتے وقت “ھو” کی مشق کرے اور دل پرتصور کے ذریعے اسمِ اللہ جمانے کی کوشش کرے۔ ذکرِانفاس حبسِ دم، ذکرِخفی، ذکرِجہرکی ضربیں یہ سب وسیلہٴِ ذکرِقلبی۔ جب قلب جاری ہوجائے تواتنی محنت کی ضرورت نہیں رہتی۔ قلب کے جاری ہونے کی پہچان یہ ہے کہ ذکر کے وقت قلب میں جنبش ہوگی، ذکرمیں لذت آئے گی، ممکن ہے کہ کسی مقام کا دورانِ ذکر کشف بھی ہوجائے، طبیعت خوش و خرم رہے گی، بغیردھیان دیئے یا دھیان سے دل میں اللہ اللہ شروع ہوجائے گی، سکونِ قلب میسرہوگا اور دنیاوی اور نفسانی خیالات کم ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اگربات اِس کے برعکس ہوتوذکرکی مشک ترک کردینی چاہیئے جب تک کسی کامل سے اجازت نہ ہوجائے کیونکہ ہر بوٹی لائقِ کیمیا نہیں ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 ستمبر 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں صوفی کورس کے پہلے دن کی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس