- 1,192وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
حسد کی کتنی اقسام ہیں؟
ایک دفعہ سرکار گوھر شاہی نے ہمیں حسد کے حوالے سے فرمایا اور ہم سہم گئے۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ حسد دو طرح کا ہوتا ہے۔
1۔ کسی کے پاس کوئی چیز آگئی اور تمہارے پاس نہیں ہے لیکن اگر اُس کے پاس وہ چیز حرام کے ذریعے آئی ہے اور پھر تم نے اُس سے حسد کرلیا تو اِتنا نقصان نہیں ہے۔
2۔ کسی کے پاس کوئی چیز آگئی اور تمہارے پاس نہیں ہے۔ اور وہ اللہ نے اُس کے مقدر میں لکھی تھی اور تم نے پھر حسد کیا تو پھر تمہارا ایمان کٹ جائے گا۔
اِسی طرح ایک حسد وہ ہوتا ہے جو اللہ کے دوستوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جسطرح کہ اللہ نے کسی کو عزت دی اور کسی کو اپنا دوست بنایا۔ تم بھی بہت عبادت گزار ہو اور تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھے تو کچھ نہیں ملا، اِس کو دیکھو کتنی عزت مل رہی ہے اور اِس بات پر تم اُس سے حسد کرنے لگ گئےتو یہ حسد اللہ تعالیٰ براہِ راست اپنی ذات میں گستاخی تصور کرتا ہے کہ یہ تو میرا فیصلہ ہے میں نے اِس کودوستی عطاکی ہے اپنی ولائت عطاکی ہے۔ یہ تو میرا فیصلہ ہے انسان کا تو ہے ہی نہیں۔ کوئی ایک بھی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہے جواپنے بل بُوتے پر اللہ کا دوست بن جائے۔ اللہ جِسے چاہتا ہے اُس کو اپنا دوست بناتا ہے۔ بس اِس خوف کی وجہ سے حسد جاتا رہا کہ مجھے اِس سے حسد ہوجائے اور اگر اِس کو اللہ نے یہ چیز عطا کی ہے تو پھر میراتو ایمان کٹ جائے گا۔ اگر اِس کے مقدر میں لکھی ہے اور وہ چیز اِس کو ملی ہے اور میں اِس سے حسد کررہا ہوں تو میں اللہ کی عطا پر معترض ہوں۔ نفس پاک ہونے کے بعد چونکہ انسان کے قلب اور نفس سے خواہشات کا جو ہجوم اور طوفان بپا رہتا ہے وہ خواہشات خارج ہوجاتی ہیں اور جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں۔
حسد کی وجوہات کیا ہیں؟
ایک مقام پر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ
امیر وہ ہے جس کا دل خواہشات سے پاک ہے۔
امیر وہ نہیں ہے جس کی جیب نوٹ سے بھری ہوئی ہے کیونکہ جس کی جیب نوٹ سے بھری ہے اُس کا دل نوٹوں سے ذیادہ خواہشات رکھتا ہے۔ ہماری جیب میں دس پاوٴنڈ کا نوٹ ہے اور دل میں ایک بھی خواہش نہیں ہے تو ہم اُسے کہاں خرچ کریں! دل میں کوئی تمنا نہیں دل میں کوئی خواہش نہیں اور جیب میں دس کا نوٹ ہے تو اب جائیں تو جائیں کہاں! امیری دل کی ہے، پیسےکی نہیں ہے۔ امیر تم تب ہو جب خواہش کوئی نہ ہو اور پیسہ ذیادہ ہو۔ تمہارے پاس ایک کروڑ پاوٴنڈ ہیں لیکن دل میں خواہش یہ ہے کہ بیس پچیس کروڑ کی مالیت کی کوئی چیز لینے کی تو تم غریب ہو۔ جیب میں ایک کروڑ ہے اور خواہش پچیس کروڑ کی ہےتو تم تو چوبیس کروڑ کے خسارے میں چلے گئے۔ کتنا آزاد ہے وہ انسان جس کی کوئی خواہش نہیں ہےجیسے اگر تقریب وغیرہ میں جانا ہو تو لوگوں کو کتنی پریشانی ہوتی ہے کہ بال کٹواوٴ، بال بناوٴ، شیو بناوٴ، کپڑوں پر استری کرواوٴ، خوشبو کونسی لگانی ہےاور یہ سارے کاموں سے فقیر جو ہے آزاد ہے، منہ دھویا اور چلاگیا۔ کوئی خواہش ہی نہیں ہے۔
نئے کپڑے پہن کر جاوٴں کہاں، اور بال بناوٴں کِس کیلئے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا، اب میں ناز اُٹھاوٴں کِس کیلئے
وہ شہر میں تھا تو اُس کیلئے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا، اب ایسے ویسے لوگوں کیلئےمیں ناز اُٹھاوٴں کِس کیلئے۔ آپ یقین کریں کہ کپڑے وغیرہ پہننے کا مزہ اُس وقت آتا تھا جب غیبت سے پہلے سرکار گوھر شاہی تشریف فرما ہیں، پھر جی چاہتا تھا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑے پہنیں۔ پھرجب غیبت کا واقعہ ہوگیا تو اب کیا کپڑے پہننے، کیا سنگھار کرنا! سرکار سامنے بیٹھے ہوں تو پھر آدمی ادائیں دکھائے۔ ادائیں اُس وقت کام آتی ہیں جب یاردیکھ رہا ہوتو فقیر کی کوئی خواہش نہیں رہتی۔ اب چونکہ اُس کی کوئی خواہش نہیں ہے تو پیسے کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ ذیادہ سے ذیادہ پیسہ کماوٴں کیونکہ خواہشات کا انبار لگا ہے۔ کچھ انسان کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں، کچھ بیگم کی خواہشات ہوتی ہیں، کچھ اولاد کی خواہشات ہوتی ہیں، کچھ ضروریات ہوتی ہیں اور کچھ خواہشات ہوتی ہیں۔ یہ دو چیزیں اہم ہیں۔
ضرورت کو پورا کرنا فرض ہے اور خواہشات کے پیچھے جانا انسان کیلئے وبال ہے۔
بس اِس میں فرق رکھنا کہ ضرورت اور خواہش۔ اب بیٹی اسکول جائے گی اور دس ہزار پاوٴنڈ جمع کرانے ہیں تو یہ خواہش نہیں ہے، یہ ضرورت ہے۔ تجھے معلوم ہے یہ ضرورت ہے اور رب کو بھی معلوم ہے کہ یہ ضرورت ہے، اُس پر توکّل کروہ پورا کرے گا۔ اور اگر کچھ خواہش ہے تو خواہش کا اللہ نے کوئی وعدہ نہیں لیا۔ اللہ نے کوئی فرمائشی پروگرام تو چلایا نہیں ہےلیکن ضرورت وہ پوری کرے گا۔ اگر اِس پر تمہارا ایمان نہیں ہے تو پھر سمجھانا بیکار ہے۔ اُس کا وعدہ ہے کہ وہ ضرورت پوری کرے گا۔ جب اُس نے فرمایا کہ رزق کا وعدہ اُس نے کیا ہے تو رزق کا مطلب روٹی نہیں ہوتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ وہ روٹی اور مرغ چھولے بھیج دے گا، یہ رزق کا مطلب نہیں ہے۔ رزق کا مطلب ہے کہ ضرورتِ انسانی کو پورا کرے گا۔ اُس میں کھانے پینے کی چیزیں بھی ہیں، پہننے اوڑھنے کی بھی ہیں، تعلیم کی بھی ہیں اور انسان کی ضرورتِ زندگی کی تمام اشیاء اُس میں شامل ہیں۔ اِس فرق کو سمجھنا ضروری ہے، ضرورت اور خواہش۔ اگرآپ ضرورتِ زندگی کیلئے کام کرتے ہیں تو آپ کچھ غلط نہیں کررہے، اللہ آپ کی مدد فرمائے گا۔ لیکن خواہشات ضرورتِ زندگی کا حصہ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کسی ملک کا دورہ کررہے ہیں اور آپ ہوٹل تلاش کررہے ہیں تو ہوٹل میں 2 star hotel، 3، 4اور 5star hotel ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ آپ کو رہنے کیلئے جگہ چاہئےتو چاہے وہ 2 star hotel ہو یا 3 star hotel ، لیکن آپ جائیں اور 5 star hotel میں رہیں، یہ ضرورتِ زندگی نہیں ہےیہ آپ کی خواہش ہے۔ اگر آپ کو ایک رات کے پچاس پاوٴنڈ والاہوٹل مل رہا ہے تو آپ 300 پاوٴنڈ والے ہوٹل میں کیوں رہیں گےتو پچاس پاونڈ والا کمرہ ضرورت ہے اور 500 پاوٴنڈ والا کمرہ خواہش ہے۔ رب ناراض نہیں ہوگا اگر آپ ضرورتِ زندگی حاصل کرنے کیلئے دن میں دس گھنٹے کام کرتے ہیں بلکہ اللہ تب ناراض ہوگا جب آپ مزید پانچ گھنٹے اپنی خواہش پوری کرنے کیلئے کام کریں گے۔ آپ کام کرسکتے ہیں اور ضرورتِ زندگی حاصل کرسکتے ہیں لیکن خواہشات کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ اِس لئے پسند نہیں فرماتا کیونکہ جب آپ کے پاس خواہشات ہیں اور آپ کچھ حاصل کرنے کیلئے خواہش کررہے ہیں لیکن آپ کی وہ خواہش پوری نہیں ہوئی اور کسی اور نے اُس کو حاصل کرلیا تو آپ کی خواہشات آپ پر حملہ کریں گی اور آپ حسد میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یہ ہم نے آپ کو راز کی بات بتائی ہے کہ حسد سے کیسے بچا جائے۔ آدمی کے دل میں کوئی خواہش نہیں ہوگی۔آپ دل سے خواہشات کو ختم کرکے حسد میں مبتلا ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
حسد سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟
سرکار گوھر شاہی کی نظر سے جب آپ کا دل پاک ہوجائے گا تو خواہشات جل کر راکھ ہوجائیں گی۔ کوئی خواہشات باقی نہیں رہیں سوائے اس کہ میں آپ کو چاہتا ہوں۔ جب آپ کے دل کے گرد صرف رب کو پانے کی خواہش رہ جائے گی تو حسد کیلئے کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ ایک خواہش ہے تیرے دل میں کہ مجھے رب مل جائےتوتمہارا اِس دوڑ سے تعلق ہی نہیں ہےتو تم حسد کیوں کرو گےکیونکہ تم تو خدا کو تلاش کررہے ہوتو تیرے دل میں تو خواہش ہی رب کی ہے۔ تیرے دل میں خواہش کسی اور شے کی ہے ہی نہیں۔
حسد کا شکار وہ ہوسکتا ہے جس کا قلب خواہشات سے بھرا ہواور جب قلب خواہشات سے پاک ہوجائے گا، خواہش ہی کوئی نہیں رہی تو پھر حسد کیسے آئے گا!
یہ روحانی سائنس ہے۔ قلب میں اگر دنیا کی خواہشات ہونگی اور پھر انسان دیکھے گا کہ اُس کو مل گئی مجھے نہیں ملی ، جیسے وہ ریس میں بھاگ رہے ہیں کہ میں جیتوں۔ اگر کوئی اور جیت گیا تو اچھا تو نہیں لگے گا کہ یار مجھے جیتنا چاہئے تھا یہ جیت گیا۔ یہ حسد ہے۔ یہی چیز ابلیس کے ذہن میں آئی تھی۔ ایک دن یہ ہوا کہ یہ جو ملائکہ فرشتے تھے آپ لوگوں نے تو اوپر کا حال دیکھا نہیں ہے آپ تو بس یہی اپنے اِدھر اُدھر کے ساس بہُو کے لڑائی جھگڑے، بیویوں کے فتنوں اور شوہروں کی ہٹ دھرمی سے واقف ہیں۔ اب وہاں کے جو مسائل ہیں اُن سے واقف نہیں ہیں۔ ایک دن اللہ کو یہ خیال آیا کہ یہ جو ملائکہ اور فرشتے ہیں یہ تھوڑے سے مجھ سے فری ہوگئے ہیں تو اب اللہ چاہتا تھا کہ اِن کو تھوڑا سا ٹائٹ کرے، لیکن اللہ کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی۔ اللہ بہت تکنیکی ہے۔ اللہ کے پاس کوئی وجہ اِس لئے نہیں تھی کیونکہ فرشتوں اور ملائکہ کے اندر لطیفہ نفس ہی نہیں ہوتاتو وہ کونسا جرم عائد کرکے اُن کو سزادے۔ ملائکہ کے اندر تو لطیفہ نفس ہی نہیں ہوتا اور وہ اللہ تعالی کی نرمی کا فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ وہ ہنس رہے ہیں کھیل رہے ہیں یعنی بالکل اللہ سے فری ہوگئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے سوچا کہ یہ تو بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔ اللہ نے پھر ایک منصوبہ بندی کی۔ یہ منصوبہ بندی اللہ کو اِس لئے کرنی پڑی کیونکہ اللہ کے ذہن میں یہ تھا کہ میں نے اب آدم صفی اللہ کو جنت میں بنانا ہے، اب یہ جو ملائکہ اور فرشتے ہیں اِن میں سے کوئی ڈرتا ہی نہیں ہے اور آدم صفی اللہ کو بناکے اُس کو جنت میں رکھنا ہے تو یہ اُن کو بگاڑ نہ دیں۔ تو اب یہ آخری آدم بنارہے ہیں اور اِس کو عظمت دے کر بھیجیں گے۔ اگر اِس کے زمین پر جانے سے پہلے ہی نکھرے ہوگئے اور پہلے ہی یہ ہم سے فری ہوگیا تو پھر یہ تو بڑی مصیبت ہوجائے گی۔ یہ جب ذہن میں کہانی آئی تو اللہ نے یہ کیا کہ عزازیل جوکے قومِ جنات سے تھا اور یہ عالمِ ناسوت میں رہتا تھااور اللہ کی بڑی عبادت کرتا تھا۔ اللہ نے فرمایا کہ یہ صحیح ہے کہ عزازیل کو فروغ دیکر ملائکہ کا سردار بنادیتے ہیں۔ اللہ کو معلوم تھا کہ جب میں تمام ملائکہ کوکہوں گا کہ آدمؑ کی تعظیم میں آدم کو سب سجدہ کرو تو اللہ کو معلوم تھا کہ یہ اڑ جائے گاکہ میں تو نہیں کروں گا۔ اور جب یہ اڑ جائے گا تو ہم اِس کو سزا دیں گے۔ جب ہم اِس کو سزا دیں گے تو ملائکہ اور فرشتوں کو پیغام یہ جائے گا کہ اللہ نے ہمارے سردار کو نہیں چھوڑا تو ہم سب سُدھر جائیں۔ اللہ نے یہ منصوبہ بنایا لہٰذا منصوبے کہ تحت اُس نے اعلان کرادیا کہ عزازیل ہم تم سے بہت خوش ہیں اور تم کو ملائکہ کا سردار بنارہے ہیں۔ اب وہ ملائکہ کا سردار بن گیا۔ وہ بڑا خوش تھا کہ ملائکہ کا سردار ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ جب اللہ تعالی نے آدم صفی اللہ کو بنایا۔ اُس کے ذہن سے ذرا سوچو جو بیچارا یتیم روتا ہے صحیح روتا ہے، وہ تو یہ سوچ بیٹھا تھا کہ آج مجھے ملائکہ کا سردار بنایاہے میرے اندر کچھ ہوگا۔ تو اُس نے یہ سوچا کہ میں نے تو ترقی کرکے جانا تھا میں تو سمجھ رہا تھا اللہ نے مجھے چُن لیا ہے، ابھی مجھے ملائکہ کا سردار بنایا ہے ابھی مجھے آگے جانا ہےاور میری عظمت بڑھے گی۔ اب اُس کی سوچ سے دیکھیں تو اُس کی سوچ یہ تھی کہ ابھی مجھے ملائکہ کا سردار بنایا ہے تو میں اللہ کا بڑا مکرم ہوں میں سارے ملائکہ کا سردار ہوں اب مجھ سے بڑا کون ہے! اور اچانک اللہ کا اعلان ہوگیا کہ ہم نے ایک نیا انسان بنایا ہے اور ہم اُس کو عظمتیں دے رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے بناکر سب ملائکہ کو کہا کہ سجدہ تعظیم کرو تو سب نے تو کرلیا لیکن عزازیل قومِ جنات سے تھا اور فروغ دیکر اِس کو ملائکہ کا سردار بنایا تھا حالانکہ بن نہیں سکتا تھا لیکن اللہ کی منصوبہ بندی تھی اُس نے بنادیا۔ اب عزازیل کی تو ساری منصوبہ بندی فیل ہورہی تھی کیونکہ اِس کے ذہن میں تو یہ تھا کہ یہ سارے طمغے تو مجھے لگیں گے، ابھی مجھے فروغ دیکر ملائکہ کا سردار بنایا ہے ابھی میں آگے عرش تک جاوٴں گا۔ ابھی تو پتہ نہیں میرے لئے کیاکیا ہوگا اور جب اچانک اِس کو پتہ چلا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شاہکار چُن لیا ہے اور آدم انسان کو وہ صفی اللہ اللہ نے جس کو عظمت دی وہ بنارہا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا کہ جُھک جاوٴ تو اِس نے کہا کہ میں تو نہیں جھکوں گا۔ اِس نے انکار کردیا کہ میں کیوں جھکوں! اللہ نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں جھکو گے تو اِس نے کہا کہ اَنا خَیرُ مِنہُ کہ میں تو اِس سے بہتر ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ وہ کیسے تو کہنے لگا کہ اِنا مِنَ نَّار وَھُوَ مِنَ طِین کہ مجھے آگ سے بنایا گیا تھا اِس کو مٹی سے بنایا گیا ہے تو میں اِس کے آگے جھکوں! اب یہ ساری جو کہانی تھی یہ اِس لئے ہوگئی کیونکہ اُس کے دل میں خواہش تھی کہ اُس نے آگے جانا ہے۔ جب اُس کو معلوم ہوا کہ کوئی اور اللہ نے آگے جانے کیلئے چُن لیا ہے اُس خواہش نے اُس کو حاسد بنادیا۔
سرکار سیدنا گوھر شاہی کی نصیحت:
یہ بات سرکار گوھر شاہی نے ہمیں (یونس الگوهر) ایک دن سمجھائی۔ سرکار گوھر شاہی نے ہمیں ایک دن فرمایا کہ جب یہ ظفر آتا ہے ہم اُس سے ہنس کر بات کرتے ہیں اُس کے ہرکام کی تعریف کرتے ہیں، ندیم آتا ہے اُس کے ہم ٹکٹ خریدتے ہیں اُس کے نخرے بھی برداشت کرتے ہیں تو تم کو کیسا لگتا ہےتو ہم خاموش رہے۔ ہم نے کہا کہ سرکار ٹھیک ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ نہیں تم کو حسد نہیں ہوتا ہے؟ ہم حسد کا نام سُن کرڈر گئے تو ہم نے کہا کہ سرکار حسد کیا ہوتا ہےتو سرکار نے فرمایا کہ حسد یہ ہوتا ہے کہ
انسان کے دل میں ایک جلن سی ہو کہ میرے پاس نہیں ہے اِس کے پاس کیوں ہے!
سرکار نے پوچھا کہ کیا ایسا ہوا کہ مجھ سے مسکرا کر بات نہیں کرتے اُس سے کررہے ہیں! ندیم ابھی آیا ہے اُس نے امریکہ جانا ہے اُس کو اپنی جیب سے ٹکٹ نکال کر پیسے دئیے ہیں اور میرے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں مجھے کبھی نہیں کہا، ایسا خیال کبھی آیا! ہم نے کہا کہ سرکار ایسا خیال تو بہت آتا ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ تو پھر اگر تجھے ہمارے ساتھ رہنا ہے اور تجھے محبت چاہئے عشق چاہئے تو ہر طرح کی خواہش ختم کردے۔ ہم نے کہا کہ سرکار آپ مجھ سے مسکرا کر بات کریں یہ خواہش بھی! فرمایا کہ یہی تو خواہش خطرناک ہے۔ اُس کو اتنا عطا کیا مجھے نہیں کیا، فرمایا کہ خواہشات ہی ختم کردے۔ یہ خواہش بھی ختم کردے کہ سرکار کا اُس کو دیدار ہوا ہے مجھے ہوا ہی نہیں، اُس کا قلب جاری ہے میرا ہے ہی نہیں۔ یہ سب ختم کردےاور بس یہ سوچا کر کہ بس سرکار جس حال میں رکھیں۔ جب خواہش ہی کوئی نہیں ہوگی تو پھر کہیں مسئلہ ہی نہیں ہوگا، لیکن یہ تعلیم صرف ہمارے لئے ہےہم آپ کو صرف بتارہے ہیں۔ یہ تعلیم آپ کیلئے نہیں ہے۔ یہ تعلیم صرف ہمارے (یونس الگوهر) کیلئے تھی یہ بتانا ضروری ہے۔ جو ہمارے لئے خواہش ہے وہ آپ کیلئے خواہش نہیں ہے وہ آپ کیلئے مقام اور مرتبہ ہے۔ لیکن ہماری منزل کچھ اور ہے نا لہٰذا ہمیں کہا کہ رب کی تمنا بھی خواہش ہے۔ ہمیں یہ کہا کہ ہماری رضا چاہتا ہے تو میری جو تمنا ہے کہ مجھے گوھر مل جائے یہ بھی خواہش ہے، نکال دے۔ میں تجھے ملوں یا نہ ملوں نکال دے۔ سرکار پھر تو کچھ فائدہ ہی نہیں ہے آپ کی تمنا کیسے نکال دوں؟ فرمایا تمنا نکال دے مجھے نہیں نکال۔ تمنا نکال دے کہ میں مل جاوٴں۔ تمنا نکال دے کیونکہ ہم تو سب سے محبت کرتے ہیں۔ اگر میری محبت کی تمنا رہے گی تو اِس سے بھی حسد ہوگا، اُس سے بھی حسد ہوگا اور اُس سے بھی پھر تجھے حسد ہوگاکیونکہ وہ تو ہرجائی ہے۔
اُس کا محبوب کوئی ایک انسان نہیں ہے وہ تو کتنوں سے محبت کرتا ہےلہٰذا جن کو محبت عطا ہوگی پہلے اُس کو کہتے ہیں کہ میری دل سے خواہش نکال پھر میں تجھے محبت دوں گا، پھر تم شکر کرو گےکہ یار اُن سب سے محبت کرتا ہے تو مجھے بھی کرتا ہے۔ تمنا اور خواہش دل میں رہی تو پھر یہ ہوگا کہ یار وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو اِن سے کیوں کرتا ہے؟ پھر یہ ہوگا۔ تمنا نکال دی تو یہ ہوگا کہ وہ اِن سب سے محبت کرتا ہے تو مجھ سے بھی کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے اِس کو بیان کیا ہےکہ
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بُت خانہ بھی حرم بھی کلیسا بھی چھوڑ دے
اورمجنونِ نے شہر چھوڑا تُو صحرا بھی چھوڑ دے
اور نظارے کی ہوس ہے تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے
اور سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اوبے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اگر لیلیٰ کو دیکھنا چاہتا ہے تو لیلیٰ کو چھوڑ یعنی اُس کی تمنا نکال دے کہ یہ مجھے مل جائے، بس دیکھ لے۔ یہ بڑا خوبصورت ایک تصور ہے جوکہ تصوف کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے اِس کو بیان کیا ہے اور اِس میں بات وہی ہے تمناوٴں کا ہجوم دل پر نہ ہو، خواہشات کا انبار نہ لگا ہو۔ صرف غیراللہ سے دل خالی نہ ہو، ہرخواہش سے خالی ہوجائے۔ اگر تم لاالہ الا اللہ پڑھتے ہو اور تیرے دل میں خواہشات بھی موجود ہیں تو لاالہ الا اللہ پڑھنے کا فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لاالہ الا اللہ کا جو لا ہے اُس سے تجھے ہر شے کی نفی کرنی تھی۔ جب لا کی چُھری سے خواہشات کو تم کاٹ ہی نہیں سکے تو لاالہ الا اللہ پڑھنے کا فائدہ کیا ہوا! صحیح لاالہ الا اللہ پڑھنا اُس کا ہے جس نے لا کی چُھری سے تلوار سے تمام تمناوٴں، خواہشوں، کامناوٴں کا خون کردیا۔ اب کوئی تمنا نہیں رہی۔ آخری مرتبہ مجھے سرکار کا دیدار ہوا تھا جب میں آخری دفعہ 2016 میں کرائیسٹ چیرچ نیوزی لینڈ گیا تھاتو کرائسٹ چرچ میں سرکار کا دیدار خواب میں ہوا تھا۔ پانچ سال ہوگئے اور لوگ روز آکر کہتے ہیں کہ ہمیں سرکار خواب میں آگئے۔ مجھے اب کچھ نہیں ہوتاکہ ٹھیک ہے مبارک ہو۔ تمنا نہیں ہے کیونکہ ایک آسرا ہے کہ سرکار اپنی نسبت عطاکردیں گے تو ہم اپنی مرضی کیوں چلائیں! اگر میری خواہش اور تمنا میرے اور سرکار کے بیچ میں آرہی ہے، بھلا ہی وہ خواہش اور تمنا سرکار کی ہی ہو لیکن اگر حائل ہورہی ہے تو چھوڑدو۔ جس کو چاہیں ملیں، جہاں چاہیں جائیں، جس کو چاہیں جتنا پیار کریں۔ میرے ساتھ کیا کریں؟ جو اُن کی مرضی ہو۔ اُن کی مرضی ہو کہ یہ یہاں پڑا رہے تو بس اِسی میں راضی رہنا ہے۔ اُن کی مرضی یہ ہے کہ زمانے میں بدنام ہوجائے تو بس یہ کافی ہے۔ تمنا اور خواہشات سے دل کو پاک اور صاف رکھنا ہے۔ اگر یہ تمنائیں اور خواہشات دل سے نکل گئی ہیں پھر مزہ آجائے گا۔ پھر حسد نہیں ہوگا۔ کیو نکہ یہ چھوٹا موٹا حسد تو اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا خطرناک حسد یہ ہوتا ہے کہ یار سرکار نے اُس کو اپنے پاس بٹھایا مجھے نہیں بٹھایا۔ اب یہ تیری بات سرکار کے خلاف چلی گئی کہ یار مجھے اللہ نے مجھے اِتنا نہیں دیا جتنا اُسے دیا ہے۔ اب یہ مسئلہ تیرا اُس بندے سے نہیں رہا بلکہ تم نے اللہ کو للکاردیا ہے۔ لہٰذا حسد کا نہ ہونا یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اِس پر کام کرنا ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر و حسد ہوا وہ جنت کے قابل نہیں۔
آپ حج، نمازیں، عمرہ کرتے رہیں، پڑھتے رہیں شب و روز قرآن، اگر دل سے حسد اور تکبر کو نکال نہیں پائے اور نکالتے رہے لیکن رائی برابر بھی رہ گیا تو جنت کے قابل نہیں۔ اب پھر عبادتیں کِس کام کی ہوئیں! آپ کو نماز پڑھنے کا بڑا شوق ہے، قرآن پڑھنے کا بڑا شوق ہے، حج کرنے کا کا بڑا شوق ہے، خانہ کعبہ جائیں، غلاف کو چُومیں، آدھا چُرا کر وہیں سے لے آئیں، اِن چیزوں کا بڑا شوق ہے اور آخر میں جب آپ کو پتہ چلے کہ آپ نے عبادتیں تو بہت کی ہیں لیکن جنت کے قابل نہیں ہیں آپ میں جہنم میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا! آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پہلے سے اطلاع نہیں دی کیونکہ حضورؐ نے صاف صاف واضح طور پر فرمادیا کہ رائی برابر میں دل میں تکبر اور حسد ہوا تو جنت کے قابل ہی نہیں ہے۔ اگر حسد ہے تو جنت میں جانے کے قابل اِس لئے نہیں ہے کیونکہ وہاں اللہ کی تقسیم ہی ایسی ہے۔ کسی کو دو حُوریں دی ہیں، کسی کودس دی ہیں، کسی کو یہ گھر دیا ہے، کسی کو وہ تو وہاں جاکر تم ہر وقت عیب جوئی کرتا رہے گا کہ اے اللہ اِس کو دس حوریں کیوں دی ہیں مجھے دو کیوں دی ہیں تو اگر حسد کی بیماری تم ساتھ جنت میں لیکر گئے تو وہاں اللہ کیلئے ایک مسئلہ کھڑا کردے گا۔ اگر آدمی کے دل سے حسد وغیرہ نہیں ہوگا تو پھر آپ کہیں گے کہ مجھے دو ملی ہیں تو ملی تو ہیں نا۔ ذرا غور فرمائیں کہ آپ ساری زندگی عبادات کرتے رہے اور آپ نے حسد اور تکبر کو دل سے نکالنے کے اوپر کوئی محنت نہیں کی تو چلو آپ نے اپنی کتاب ساری نیکیوں سے بھرلی، اب یومِ محشر کا دن آگیا آپ نے نمازیں، روزے سب کچھ کیا ہے لیکن جب آپ کو جہاز پر چڑھانے لگے اللہ تعالیٰ پُل صراط پر جانے کیلئے کہ جنت میں بھیجنا ہے چلو بھئی اپنا دل چیک کراوٴ کیونکہ قرآن شریف میں لکھا ہےکہ
وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ
سورة العادیات آیت نمبر 10
ترجمہ: جو کچھ تمہارے سینوں میں چھُپا ہوا ہے وہ نکال کے دیکھا جائے گا۔
وہ تو تمہارے دل کو نکال کر دیکھے گا اور تمہارے دل کو اگر اُس نے تکراور حسد سے بھراہوا پایا وہ کہے گا کہ یہ جنت کیلئے موضوع نہیں ہےاِس کو باہر بٹھادیں۔ یہ مولوی آپ کونہیں سمجھاتے لیکن یہ حدیثوں میں لکھا ہے۔ آپ پڑھے لکھے ہیں تو اِس بات پر توجہ دیں کہ جتنی توجہ آپ نے نمازوں پر دی ہے، جتنی توجہ آپ نے قرآن پڑھنے پر دی ہے، داڑھیوں پر دی ہے، تھوڑی سے توجہ اِس بات پر بھی دیں کہ یہ جو میرا دل ہے اِس دل میں کوئی تکبر اور حسد نہ ہو ورنہ یہ جتنی عبادتیں کی ہیں یہ سب ضائع جائیں گی۔ پھر جب آپ کوشش کریں گے کہ میرا دل حسد اور تکبر سے صاف اور پاک ہوجائے اور آپ اُس میں کامیاب نہیں ہونگے تو پھر آپ پریشان ہونگے کہ میں کیا کروں، اپنے دل کو حسد اور تکبر سے پاک اور صاف کیسے کروں! پھر آپ کو کسی درویش کی بارگاہ میں جانا پڑے گا کیونکہ آپ کے پاس تو کوئی ایسا ہتھیار ہی نہیں ہے جس سے آپ اپنے دل کو حسد اور تکبر سے پاک کرلیں۔ یہ نعتوں، قوالیوں، روزے رکھنےسے پاک نہیں ہوتا ہے۔ یہ وہ شے ہے کہ جو صرف اور صرف مرشدِکامل کی نظر سے ٹوٹتی ہے۔ مرشدِکامل کی نظر قلب کو پاک کرتی ہےاور کچھ نہیں کرسکتی، صرف مرشدِکامل کی نگاہ۔ جب سرکار گوھر شاہی نے یہ بات سمجھادی کہ تم تمنا نکال دو کہ میں تم کو دیکھ کر مسکراوٴں یا نہ مسکراوٴں تم یہ تمنا نکال دو، میں تمہیں اپنے پاس بٹھاوٴں یا نہ بٹھاوٴں یہ تمنا نکال دے، میں تجھے ملوں یانہ ملوں یہ تمنا نکال دے، میں تجھے نظر آوٴں یا نہ نظرآوٴں یہ تمنا نکال دے، تیرا یہ ایمان کہ میں ہوں اُس کیلئے ضروری ہے کہ میں نظر آوٴں ؟ اگر میں نہ نظر آوٴں تو تم مجھے ماننا چھوڑدو گے؟ اگر میں دیدار ہی دیتا رہوں اور پھر تم مجھے مانے تو کیا فائدہ، لہٰذا ایمان ایسا ہو کہ تمنا نہ ہوخواہش نہ ہو۔ اور یہ نعرہ ہوجائے کہ ربی تو بضائک ربی تو برضائک کہ اے رب میں تیری رضا میں راضی ہوں۔ جو تُو چاہے میں اُس میں راضی ہوں۔ جس دن ہم ایسے بندے بن گئے تو اُس دن ہم سمجھیں گے کہ ہم مسلمان ہوگئے۔ اگر اِس مقام تک نہ پہنچے تو پھر ہم کافر ہیں۔ ہم نے اپنی خواہشات کا کیا لینا ہے ہمیں یار کی خوشی عزیزہونی چاہئے۔ آپ کب آئیں گے آپ کی مرضی، میرے خواب میں آئیں یا نہ آئیں آپ کی مرضی ہے، اگر آپ نے آنا ہے تو تشریف لے آئیں اور اگر نہیں آنا ہے توآپ میری طرف سے بےفکر رہئیے میں کبھی آپ کو پریشان نہیں کروں گا۔ قدموں میں رکھیں یا نہ رکھیں کوئی شرط نہیں ہے۔ یار کو اپنی ہر خواہش، اپنی ہر تمنا سے آزاد کردو۔ کبوتر کو چھوڑدو اگر تیرا ہوا تو لوٹ کر آئے گااور ذبردستی اُس کو روک کررکھا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
جب تم سے کہا جائے کہ تمنا مت کرو تو پھر تمہارے اندر جو نیت اور ارادہ ہوتا ہے اُس نیت اور ارادے کو ترک کرنے سے وہ تمنائیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ پھر مرشد اُس پر نورونی وار کرتا ہے تو ختم ہوجاتی ہیں۔ نیت اور ارادہ ترک کرنا ضروری ہےورنہ مرشد کی مدد کام نہیں آئے گی۔ نیت اور ارادہ ترک کرنا ہے کہ مجھے نہیں چاہئے تو اب وہ کمزور ہوگیا لیکن دل میں پھر بھی ہلکا پُھلکا بھُجی بُھجی آگ رہتی ہے۔ پھر جب وہ ہلکا ہوجاتا ہے پھر مرشد اُس کے اوپر نور کی lazergun مارتا ہے تو وہ جل جاتا ہے۔آپ اپنی مرضی اور کوشش سے نہیں کرسکتے۔
کیا حسد نیک خواہشات اور نیک تمناوٴں کا بھی ہوتا ہے؟َ
حسد نیک خواہشات اور نیک تمناوٴں کا بالکل ہوتا ہے جسطرح تکبر ہے۔ تکبر صرف دولت اور حُسن کا تھوڑی ہوتا ہے بلکہ تکبر سجدوں کا بھی ہوتا ہے، تکبر نمازوں کا بھی ہوتا ہے کہ میں اِتنا بڑا نمازی ہوں۔ جب نیک اعمال کا تکبر ہوسکتا ہے تو حسد بھی ہوسکتا ہے۔ پھر جو نیک خواہشات ہیں اِن کو رکھنا جائز ہے لیکن اگر آپ اُس سے بڑی تمنا کرکے بیٹھے ہیں، ایک تو دیدار ہے ایک عشق ہے لیکن آپ تمنا کرکے بیٹھے ہیں کہ نہیں مجھے عشق سے بھی آگے اُس کی رضا چاہئے۔
تم ہمیں چاہو یا نہ چاہو یہ پریت نہ ہوگی کم
اُس کی رضا چاہئے تو اُس کیلئے یہ تمام تمناوٴں سے دستبردار ہونا ہوگا کیونکہ اگر تم وہاں نظر جماکر بیٹھا ہے اور یہاں پر بھی تم نے لائن لگائی ہوئی ہے تو اِس کو محبت ملے گی اُس کو عشق ملے گا تو تم سوچو گے کہ اِن کو مل گیا مجھے اب تک نہیں ملا تو تم یہاں سے نکل جاوٴ تاکہ یہاں سے یہ جو پوری کی پوری ایک دوڑ ہے، یہاں سے تم نکل جاوٴ تاکہ اِن سے تو تم پاک ہی ہوجاوٴکہ جس کو جو ملتا ہے ملےمیں تو کسی اور چیز کیلئے بیٹھا ہوں۔
اللہ کے دیدار کی تمنا کرنا بھی خواہش ہے، یہ اُس وقت خواہش نہیں ہے کہ جب آپ نے اللہ کے دیدار کیلئے مرشدِکامل پکڑا اور مرشدِ کامل اب آپ کو اللہ کے دیدار کی تعلیم سکھارہا ہےتو اب وہ آپ کی منزل ہےخواہش نہیں ہے۔ جب کوئی شے اللہ قبول کرلے تو پھر اُس کا حصول خواہش نہیں ہے منزل ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہمارے لئے وہ خواہش اِس لئے ہوئی کہ ہماری منزل کچھ اور ہے۔ اگر آپ کی منزل کچھ اور ہے اور بھاگ کسی اور چیز کے پیچھے رہےہیں پھر وہ خواہش ہے۔
تیرا دل کھلاوے منڈے کُڑیاں، تُوں سجدے کرے مسیتی
اب اِس جملے کو آپ سُنیں کہ دل میں منڈے، کُڑیاں، بیٹی، بیٹوں کو بسایا ہوا ہے اور تم سجدے مسجد میں جاکر کررہے ہو تو تمہاری خواہش تو تمہاری اولاد اور اُن کی خوشنودی اور خوشحالی ہےاور تم مسجد میں لگا ہوا ہے۔ اب یہ غلط ہوگیا نا۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 25 ستمبر 2021 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔