کیٹیگری: مضامین

رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیوں کیا جاتا ہے؟

أہلِ سُنت و الجماعت ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جو کم و بیش ایک ہزار اور چار سو سال پُرانا ہے۔ اہلِ سُنت و الجماعت کوئی فرقہ نہیں ہے، اہلِ سُنت والجماعت ایک عقیدہ ہے اور وہ عقیدہ ہے جو قرآن اور سُنت سے ملا ہے۔ ولیوں کے جو ماننے والے ہیں اہلِ سُنت و الجماعت کے جو مسالک اور ان سے مُنسلک جو احباب ہیں اُنکے ہاں نظرونیازکی جاتی ہے۔ اب نظر ماننے پر وہابیوں اور دیوبندیوں کے ہاں بڑی پریشانی ہوتی ہے کہ یہ سارا کفرہے، شرک ہے۔ اب اگر اِن سے یہ پوچھیں کے نظر ماننےکا مطلب کیا ہے تو وہ اِس بات سے قاصر ہیں۔ نظرماننے کا وہی مطلب ہے جواعتکاف کا ہے۔ اعتکاف کا یہ مطلب ہے کہ کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کرلینا۔ لازم کرنا یہ ہے کہ اگر ہم صحت یاب ہوگئے تو دس بکرے اللہ کی راہ میں کاٹ کر لوگوں کو کھلائیں گے، یہ نظر ہوگئی۔ اِس میں اَپ نے اپنے اوپر ایک چیز لازم کی ہے کہ اگر میں ٹھیک ہوجاتا ہوں تو پھرمیں دس بکرے کاٹ کر غریبوں کو تقسیم کردوں گا۔ اب آپ کو ہم ایک مثال دیتے ہیں کہ فاروقِ اعظم عمر بن خطاب نے حضورؐ سے پوچھا کہ یارسول اللہ! زمانہ جہالیت میں میں نے ایک نظر مانی تھی کہ میں ایک رات کیلئے مسجدالحرام میں اعتکاف کروں گا۔ توآپؐ نےفرمایا تو جو تم نے نظرمانی اُس کو پورا کرو۔ وہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ! وہ تو زمانہ جاہلیت میں میں نے مانی تھی۔ فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں تو مانی تھی لیکن بات توصحیح کہی تھی۔ اب حدیث کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جواعتکاف ہے یہ محض صرف رمضان المبارک کیلئے مخصوص نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اسماعیلؑ کو فرمایا ہے کہ تم دونوں باپ بیٹے مسجدالحرام میں اعتکاف کرو۔
اب یہاں سمجنا یہ ہے کہ ایک تو اعتکاف کا وہ معنیٰ ہے جو آج مسلمانوں نے رسمی طور پر لے رکھا ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں کپڑے سے ڈھانپ کرکے مسجد کا کونہ اور اُس میں بیٹھ جائیں گے۔ اورایک مخصوص معنیٰ جو ہے ہم نے اِس لفظ کو دے دئیے ہیں۔ ہم نے اِس کو رمضان سے مشروط کردیا ہے۔ ایک خاص معنیٰ اِس کو پہنا دیا حالانکہ ایسا ہے نہیں۔ اعتکاف کا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی شے اپنے اوپرلازم کرلیں۔ عورتیں بھی اعتکاف کرسکتی ہیں، مرد بھی اعتکاف کرسکتےہیں ۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں دس دن کا اعتکاف اِس لئے ہوتا ہے تاکہ وہ رات لیلة القدر ہمیں مل جائے۔ لیکن رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔ جو اعتکاف رمضان المبارک میں کیا جاتا ہے اُس کو بہت سے لوگ شریعت کی زبان میں کہتے ہیں کہ یہ فرضِ کفایہ ہے لیکن یہ بات غلط ہے۔ یہ فرضِ کفایہ نہں ہے، یہ سُنتِ موکدہ ہے۔ اب رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے۔
صرف اعتکاف دس دن کا نہیں ہوتا۔ اعتکاف رمضان کا دس دن کا ہے۔ رمضان کے علاوہ پھر اعتکاف کی کوئی مدّت مخصوص نہیں ہے، صرف اعتکاف کی کم از کم مدت ہے کہ ایک دن اور ایک رات کا ہو۔ اِس سے کم کا ہوگا تو اعتکاف نہیں کہلائے گا۔ کم سے کم ایک رات اور ایک دن کا ہو تو پھر وہ اعتکاف کہلائے گا۔ خصوصی بات سمجنے کی یہ ہے کہ اعتکاف سے مراد یہ ہے کہ آپ عُضلت اِختیار کریں۔ عربی میں کہتے ہیں کہ عضلہ۔ اردو میں آخر کا ت لگادیتے ہیں تو وہ عضلت ہوجاتا ہے۔ عضلت کا مطلب ہے تنہائی، اپنے آپ کو devote کرنے کیلئے۔ اور اِس اعتکاف سے ہی پھر صوفیا کرام نے بارہ سال کا چلّہ نکالا ہے۔ کوئی دس دن کا اعتکاف کررہا ہے، کوئی بارہ سال کا اعتکاف کررہا ہے تو جولوگ پڑھے لکھے جاہلوں کی باتوں میں آجاتے ہیں جو اکثر کہتے ہیں کہ یہ کیا ہے حضور نے چلّہ کب کیا ہے! حضور نے کب کیا ہے کوئی ایسا مجاہدہ کوئی ایسا چلّہ! تو یہ وہ لوگ ہیں جو الفاظوں سے کھیلتے ہیں۔ اور ہمارے جو اہلِ تصوف کے لوگ ہیں اُن کے پاس علم نہیں ہے۔ عام آدمی جو ولیوں کا ماننے والا ہے، صوفیوں کو مانتا ہے، اہلِ تصوف، اہلِ باطن اور اہل اللہ میں سے ہے، جب کوئی غیرمقلد اُن کو کہتا ہے کہ یہ کیا تم چلّے مجاہدے کرتے رہتے ہو یہ چلے کدھر لکھے ہوئے ہیں تو اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ چلّے جو ہیں ہماری زبان کےالفاظ ہیں اور ہم اپنی زبان کے الفاظ قُرآن اور حدیث میں ڈھونڈتے ہیں۔ چونکہ قُرآن میں تو کوئی چلّے کا لفظ ملتا نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ دیکھو یہ سارے صوفیا جو تھے سارے کافر تھے۔ انہوں نے بدعت کی، دین میں نئی چیز پیدا کردی، چلّے نکال دئیے۔ اب یہاں پر ہمیں شکایت دین کے اُن ذمہ دارعلماء اور اولیاء سے ہے کہ جنھوں نے دین کی اِصطلاحات جو نبی کریمؐ کے دور میں رائج العمل تھیں بجائے اُن کو آگے بڑھانے کے اپنی زبان کے الفاظ اُس میں آگے لگا دیئے جس کی وجہ سے پھر بعد میں لوگوں کو بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور یہاں تک نوبت آگئی کہ صرف اپنی زبان کے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے ہم کو یہ کہہ دیا گیا کہ یہ چیزیں تو قرآن اور حدیث میں ہیں ہی نہیں۔ اب جیسے لفظ “نماز” ہے قُرآن میں تو ہے ہی نہیں نماز بلکہ قُرآن میں تو صلوة ہے۔ یہ ہماری ہندوستان، پاکستان، بنگلادیش کی جو قوم ہے قوم تو ایک ہی ہے، یہ ہماری گُھٹی میں ہے لکیر کا فقیر ہونا۔ جس طرح وہ رجب کے مہینے میں امام جعفرصادقؓ کیلئے فاتحہ خانی کی جاتی ہے تو اُس کو بچپن سے ہم نے یہ نہیں سُنا کہ یہ امام جعفر کی فاتحہ خانی کیلئے اہتمام کیا جا رہا ہے بلکہ ہم نے سُنا کہ کونڈے ہو رہے ہیں تو دین کا کونڈا کردیا۔ اب وہ کونڈا کیوں کہا کہ کونڈے ہو رہے ہیں کیوںکہ وہ کونڈے میں اُنہوں نے حلوہ رکھا ہے اور کونڈے میں ہی اُنہوں نے پُوریاں بنا کےرکھی ہیں تو ہم نے لکیر کے فقیر بتایا تو کہا کہ یہ رسم کوئی کونڈا ہی ہے۔اسی طرح یہ لفظ چلّہ ہے۔ لوگ اب باتیں بناتے ہیں کہ یہ حضورؐ چلہ کہاں کرنے گئے تھے! اب اگر اُن کو کوئی پوچھے کہ حضورؐ غارِ حرا میں کیوں جاتے تھےتو غارِ حرا کو اُنہوں نے یعنی اُس کا اعتکاف کرلیا، اُس کو اپنے اوپر لازم کرلیا۔ تو ایک تو اعتکاف کے لفظ سے ہم کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ نظرجو مانتے ہیں وہ حضورؐ کے طریقے سے جائز ہے۔ اِس کو ناجائز کہنے والا دین کا دشمن اورمُطلق جاہل ہے جو کہتا ہے کہ نظر ونیاز نہیں مانو۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر جاکر فاتحہ خانی کروں گا، چادر چڑھاوٴں گا۔ تو اگر اُن کی نظر پوری ہو جائے، اُن کی خواہش پوری ہو جائے تو وہ جاکرکے اولیاء اللہ کے مزار پر فاتحہ خانی کرتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں اور چادر چڑھاتے ہیں۔ اب ہمیں بتائیے کہ اِس میں شرعی طور پر کیا بُرائی ہے! یہ باتیں ہم آپ کے سامنے اِس لئے کر رہے ہیں کہ تصوف کو جو لوگ مانتے ہیں اِن باتوں کی وجہ سے صوفیوں کو وہابیوں نے بدعتی، مُشرک اور کافر قرار دیا ہوا ہے۔ وہابیہ فرقہ جو ہے اُس کے نزدیک اُنکے علاوہ کوئی صحیح مسلمان نہیں ہے چونکہ اُنکی دانست میں کوئی صحیح مسلمان نہیں ہے لہذا کافر ہے۔ جیسے اب یہ نظر ماننا ہے، عمر بن خطاب نے بھی تو نظر مانی تھی اپنے اُوپر لازم کیا تھا کہ اگر میرا کام ہو گیا تو میں ایک دن کا اعتکاف مسجد الحرام میں کروں گا۔ اُس وقت تو زمانہ جہالیت کا دور تھا۔ تو اعتکاف بالخصوص رمضان میں دس دن کا ہے۔ اپنے اُوپر لازم کر لینا تاکہ اُن دس دنوں سے کچھ مل جائے۔ اِس کے علاوہ رمضان کے علاوہ بھی اعتکاف کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے اور اُس کی کوئی مُدت مقرر نہیں ہے۔ آپ ایک دن سے شروع ہو جائیں، دو دن کا اعتکاف کرلیں، دس دن کا کرلیں، بیس دن کا کرلیں، ایک سال کا اعتکاف کرلیں آپ کی ہمت پر ہے کہ دو سال کا کر لیں تین سال کا کرلیں۔

دس دن کے اعتکاف کی حقیقت:

جس طرح رمضان میں اعتکاف ہر حال میں دس دن کا ہوگا۔ اِس سے کم کا اعتکاف نہیں چلے گا، یہ رمضان کیلئے مخصوص ہے۔ اِسی طرح لطیفہ نفس کیلئے بارہ سال کا اعتکاف مخصوص ہے۔ حضورؐ نے بارہ سال کا اعتکاف کہاں کیا ہے کیونکہ بات تو قُرآن اور سُنت کی روشنی میں کی جانی چاہئیے۔ اب مثال ڈھونڈنی پڑے گی کہ حضورؐ نے خود نفس کو پاک کرنے کیلئے بارہ سال کا اعتکاف کیا ہے یا نفس کو پاک کرنے کیلئے صحابہ کو بارہ سال کا اعتکاف کرایا ہے، یہ دیکھتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ نفس کی طہارت کیلئے بارہ سال کا اعتکاف کریں اُس کی ضروت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ناپاک لوگوں کیلئے ہے۔ حضورؐ کی حدیثِ مبارکہ ہے حضورؐ نے فرمایا کہ

جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیدا ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا لیکن وہ میری صُحبت میں پاک ہوگیا۔

اب حضورؐ کو معاذ اللہ نفس پاک کرنے کی حاجت و ضرورت ہی نہیں ہے تو نفس پاک کرنے کا عمل سُنت اس لئے نہیں ہے۔ تونفس پاک کرنے کا عمل حضورؐ کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ حضورؐ کے عمل سے ثابت اِس لئے نہیں ہے کیونکہ حضورؐ تو پاک ہی پاک ہیں۔ نفس کو پاک کرنا تو ناپاکوں کی ضرورت ہے۔ اِس میں ہمیں سُنت نہیں دیکھنی، جو عمل حضورؐ سے ثابت نہ ہو تو پھر وہ سُنت کے پیھچے نہیں پڑنا کہ سُنت میں ہوگا تو کریں گے۔ اُس کیلئے پھر اللہ کا حکم دیکھنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاٴعلیٰ آیت نمبر 14
ترجمہ: کامیاب ہوجائے گا وہ شخص جِس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا۔

اچھا یہ تو مان لیتے ہیں کہ حضورؐ تو پاک ہیں اُن کو تو ضرورت نہیں ہے تو صحابہ کرامؐ تو پاک نہیں تھے نا اُن کو تو نفس پاک کرنے کی ضرورت تھی۔ صحابہ کرام کو حضورؐ نے بارہ سال کا چلّہ اس لئے نہیں کرایا کہ آپؐ کی بطورِ رسول یہ خاصیت ہوئی کہ بمطابق آپ قران مجید کی تلاوت کرتے اور اپنی نظروں سے اُن کے نفوس کو پاک کرتے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُوعَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 151

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ کہ جیسے ہم نے بھیجا۔ فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ تمہارے اندر ہم نے رسول بھیجا تم میں سے ہی۔ يَتْلُوعَلَيْكُمْ تمہارے اوپر تلاوت کرتا ہے۔ ایک تو عام تلاوت ہے اور کسی کے اُوپر تلاوت کرنا اِس کا کیا مطلب ہے؟ ایک تو ہم یُوں کرکے خود ہی سانس لیتے ہیں لیکن جب کسی کی آنکھ میں گرد چلی جاتی ہے تو پھر ہم اُسکی آنکھ کُھلوا کر پھونک مارتے ہیں، یہ دوسروں پر سانس لینا ہے۔ ایک تو تلاوت کرنا یہ ہے کہ الفاظ قرآن کے ٹکرائیں، نور بن کر ہمارے اندر جائے اور ایک دوسروں پر تلاوت کرنا ہے کہ اُس قرآن کے الفاظ ٹکرا کے اُن کا نور لوگوں پر جائے۔ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُوعَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ کہ تمہارے اُوپر تلاوت کرتا ہے آيَاتِنَا ہماری آیات کی۔ اچھا اب گڑبڑ کی بات یہ ہے یہ دین اور دین کا سمجھنا بڑا نازک ہے۔ یہاں پر جو اشکال پیدا ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی نشانی کو بھی عربی زبان میں آیت کہتے ہیں اور قرآن کی جو سطر ہےاُس کو بھی آیت کہتے ہیں۔ اب کوئی بتانے والا تو ہو کہ يَتْلُوعَلَيْكُمْ آيَاتِنَا سے مراد کیا ہے، یہ کونسی نشانی ہے جو تلاوت کررہی ہے! يَتْلُوعَلَيْكُمْ آيَاتِنَا کہ ہماری جو نشانی ہے تمہارے اوپر اُس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہاں پر مراد ہے وہ جو حضورؐ کے وجود میں طفلِ نوری ہے۔ نبی پاکؐ کے جو طفلِ نوری ہے اُس کی طرف اشارہ ہے۔ تو پھر يَتْلُوعَلَيْكُمْ آيَاتِنَا سے حاصل یہ ہوتا ہے کہ ہماری آیت کی تلاوت تمہارے اوپر وہ کرتا ہے وَيُزَكِّيكُمْ اور تمہیں پاک کرتا ہے وَيُعَلِّمُكُمُ اور تمہیں علم عطا فرماتا ہے۔ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ یہاں پر غور کرنا ہے کہ کتاب کیا ہے! عربی زبان میں کتاب کا مطلب صرف book نہیں ہوتا۔ کتاب اُس وقت بھی کہا جاتا ہے جب اللہ نے کچھ تمہارے لئے تحریر کردیا ہو کہ یہ تم نے کرنا ہے یعنی کوئی چیز اللہ تم پر لازم کر دے کہ یہ تم نے کرنا ہے تو اُس کو بھی کتاب کہتے ہیں۔

یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 183

یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ تو کیا روزوں کی کتاب نازل ہوئی ہے! تو یہاں کتاب سے مُراد یہ ہوا یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ کہ ہم نے روزے تم پر لکھ دئیے ہیں۔ اب یہاں سے جو ہے اُس کا لغوی معنٰی نہیں لیا گیا۔ جسطرح گاڑی جو ہے آپ کا حادثہ ہوتا ہے اورگاڑی بالکل تباہ و برباد ہوجاتی ہے تو ہم یہاں انگلینڈ میں کہتے ہیں کہ گاڑی write-off ہوگئی ہے، یہ تو نہیں کہتے کہ destroyed ہوگئی۔ امریکہ میں کہتے ہیں کہ total ہوگئی۔ اِسی طریقے سے قُرآنِ مجید ہر شیخ الاسلام کے سمھجنے کی بات نہیں ہے۔ کچھ شیخ الاسلام ایسے ہوتے ہیں جو شیخ قوم کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ شیخ پیسے میں کنجوس، یہ شیخ دین میں کنجوس۔ شیخ الاسلام اسلام کی بُو تک نہیں پہنچے۔ اچھا اب یہاں کیا مطلب ہے وَيُعَلِّمُكُمُ اور تم کو علم دیتا ہے۔ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ تو الْكِتَابَ کا مطلب ہے کہ وہ دین کے عماد، عماد الدین کہ وہ دین کے عماد، دین کے وہ اراکین جو اللہ تعالیٰ نے تم پر تحریر کئے ہیں تم پر فرض کئے ہیں، وہ بھی سکھاتا ہے۔ وَالْحِكْمَةَ اور وہ بھی جو فرض نہیں کئے لیکن اُن کے بغیر رب ملتا نہیں ہے، وہ حکمت ہے۔ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ اور تمہیں وہ علم دیتا ہے الْكِتَابَ جو دین کے ذریعے احکامات تم پر فرض کر دئیے گئے وہ بھی سکھا رہا ہے۔ وَالْحِكْمَةَ اور وہ جو فرض تو نہیں کئے گئے نہ تحریر میں آئے لیکن اُن کے بغیر رب ملتا نہیں ہے۔ وَيُعَلِّمُكُمُ اور تم کو وہ بھی سکھاتا ہے۔ پہلے تو آگیا کہ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ تو کتاب اور حکمت تو اوپر سکھادی۔ اور اُس کے بعد پھر مزید کہا ہے وَيُعَلِّمُكُمُ اب کیا سکھا رہا ہے؟ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اور تمہیں اُس کا بھی علم دے رہا جِس کا تمہیں علم نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جِس کا ہمیں علم نہیں ہے وہ تو علم دے رہا ہے تو ہمیں قرآن اور حکمت کا علم بھی تو نہیں تھا وہاں تو نہیں کہا کہ نہیں دے رہا۔ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اِس سے مُراد یہ ہے کہ اور وہ علم بھی دیتا ہے جو اب تک کسی وحی میں نازل نہیں ہوا، جو اب تک کسی آسمانی کتاب میں آیا نہیں یعنی علمِ خاص علمِ لدُنی۔ وہ علم جو نہ آدم کو دیا، نہ ابراہیم کو دیا، نہ موسیٰ کو دیا، نہ عیسیٰ کو دیا، ہم نے اپنے حبیب کو دیا ہے۔ یہ علم کتاب سے ہٹ کرہے کیونکہ پہلے کہا ہے کہ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کہ وہ کتاب اور حکمت کا علم تمہیں دے رہا ہے۔ وَيُعَلِّمُكُمُ مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ اور وہ بھی علم دے رہا ہے جو انسانیت پر آیا نہیں تھا۔ اب یہ صرف قرآن چل رہا ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ ربُ العزت نے یہ priviliged or authority دی کہ وہ اپنی نظروں سے آپ کا نفس پاک اور صاف کردیں۔ اور اپنی نظروں سے، اپنی ادائے تلاوت سے آپ کے سینے کو علم وعرفان کے خزائین سے مزین کردیں، فقط نظروں سے۔ لیکن باقی جو نائبِ رسول آئے ہیں اُن کو تو یہ طاقت نہیں تھی لہذا انُہوں نے پھر بارہ سال کا اعتکاف کروایا۔ خواجہ غریب نواز کے پاس تو یہ طاقت نہیں تھی ۔ رسول الله اور خواجہ غریب نواز میں تو فرق ہے۔ رسول اللہ میں اور غوثِ اعظم میں تو فرق ہے۔ رسول اللہ میں اور مولا علی میں تو بڑا فرق ہے۔ محمد الرسول اللہ جیسا تو کوئی ہو نہیں سکتا۔ اگر محمد الرسول الله جیسا کوئی دوسرا ہوجائے تو خدا کی خدائی غرق ہو جائے، اُس کی توحید کا بیڑہ غرق ہو جائے کیونکہ

توحید کیلئے ضروری ہے کہ جِس کے اکیلے ہونے کا اقرار اور شہادت کوئی دے رہا ہے وہ بھی اُس کی طرح اکیلا ہو، توحید کا تقاضہ ہے۔ جو اُس کے حُسن کو دیکھ رہا ہے اور کہہ رہا ہے میں گواہی دیتا ہوں وہ ایک ہی ہو ایک کی گواہی دینے والا، یہ توحید کا تقاضہ ہے۔

محمد الرسول اللہ کے برابر میں مولا علی کو کھڑا مت کرنا۔ محمدؐ جیسا کوئی نہیں کیونکہ یہ توحید کا تقاضہ ہے۔ کسی آسمانی کتاب میں اللہ نے یہ جملے نہیں فرمائے کہ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کیونکہ وہ اپنی توحید کی اپنی وحدانیت کا اقرار صرف ایک زبان سے کرانا چاہتا ہے، یہ توحید کا تقاضہ ہے۔ اُس کے ایک ہونے کی گواہی اگر “دو” دیں گے تو توحید میں فرق آجائے گا۔ اچھا اب آپ کہیں گے کہ بہت لوگوں نے گواہی دی ہے وہ سُن لیں کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طفلِ نوری اللہ سے جڑا ہے۔ اُس کے بعد غوثِ اعظم کا ہے۔ اگر غوثِ اعظم نے گواہی دی ہے کہ وہ اللہ ایک ہے تووہ محمد الرسول اللہ کے توسل سے دی ہے، براہ راست توحید کی گواہی نہیں ہے۔ براہ راست توحید کی گواہی صرف محمدؐ نے دی ہے، باقی توسل سے آئی ہے تو محمد الرسول اللہ جیسا کوئی بھی نہیں ہے۔

لیلة القدر کیلئے کیا ہونا لازم ہے؟

اب ایک بات اِس سے بھی زیادہ اہم آگئی ہے۔ پوری اُمت کے ولیوں کو نفس پاک کرنے کیلئے بارہ بارہ سال کے اعتکاف کرانے پڑے اور حضورؐ نے اپنی نظروں سے ہی لوگوں کے نفس پاک کردئیے، کوئی چلّہ کوئی مجاہدہ کوئی اعتکاف نہیں کرایا۔ اب اگر اتنی طاقت ہے تو پھرلیلة القدر کو ڈھونڈنے میں اعتکاف کیوں کرا رہے ہیں! نظروں سے بتادیں وہ رات کب ہوگی۔ بارہ سال کا چلّہ کرانے کی اُن کو حاجت نہیں ہے۔ نظروں سے لوگوں کے نفوس پاک کر دئیے۔ آپ کو کسی مدرسے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے محمد الرسول اللہ کی نظر سے علم وحکمت کے خزانے آپ کے سینے میں پیوستہ ہوجایئں گے۔ لیکن لیة القدر کو ڈھونڈنے کیلئے اعتکاف کرنا پڑے گا کیوںکہ وہ روح جو آرہی ہے اُس کے ٹھکانے کا پتہ نہیں ہے۔ پتہ نہیں کب آئے! قُرآنِ مجید میں آیا کہ

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
سورة یونس آیت نمبر 20

قرآن مجید میں آیا کہ اِن لوگوں کو کہہ دو فَانتَظِرُو کہ انتظار کرو۔ وَيَقُولُونَ اور وہ کہتے ہیں لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ کہ رب کیطرف سے کوئی نشانی وغیرہ تو نازل ہوئی نہیں، کسی کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آنے والا کب آئے گا! اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے کہا ہے وہ آنے والا آئے گا لیکن اُس کیلئے ابھی تک رب کی نشانی تو آئی نہیں ہے۔ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ کہ رب کیطرف سے اُس کی نشانی تو آئی نہیں۔ اب اللہ نے یہ مشورہ دیا فَقُلْ، یہاں پر یہ یاد رہے یہ اُس وقت کی conversation نہیں ہے کہ اُس وقت کسی نے پوچھا ہو۔ فَقُلْ سے مُراد ہے تو پھر کہہ دینا، مستقبل کی بات ہے۔ قُلْ کا مطلب ہے direct imperative یہ حکم ہے اور فَقُلْ مشورے میں آجاتا ہے مستقبل میں کہنا۔جسطرح ہے قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ کہ ابھی بولو یہ اِس زمانے کی بات ہے اور کہا کہ فَقُلْ تو اِس زمانے کی نہیں ہے اگلے زمانے کی ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ کچھ آیتیں ایسی بھی ہیں جو حضورؐ کے چلے جانے کے چودہ صدیوں بعد حضورؐ نے بیان کرنی ہیں کیونکہ الله کا حکم ہے کہ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ اُس کی نشانی کیسے بھیجوں! فَقُلْ کہہ دینا اُن کو إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ کہ غیب میں صرف اللہ کیلئے ہے۔ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ کہ وہ عالم صرف اللہ کیلئے ہے۔ لہٰذا اب اِس کا اوپائے یہ ہوگا فَانتَظِرُو تو پھر انتظار کرو کیونکہ إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ میں بھی تو انتظار کرنے والوں میں شامل ہوں۔ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ کہہ دو کہ جو غیب ہے وہ تو صرف اللہ کیلئے ہے، میں وہاں نہیں جاسکتا اور نہ وہاں کی کوئی بات باہر آ سکتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب اللہ نے فرمایا ہے کہ

عِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا
سورة الاٴنعام آیت نمبر 59

چابیاں اللہ کے پاس ہیں تو اب کوئی بات باہر کیسے ہوگی لَا يَعْلَمُهَا اوراُن چابیوں کا کسی کو پتہ ہی نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں ہم قُرآن سے کر رہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ساری باتیں قرآن کی جو ہیں یہ ہماری اپنی ہیں۔ وَيَقُولُونَ وہ یہ کہتے ہیں لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ کہ کوئی نشانی رب کی طرف سے کیوں نہیں آئی فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ تو اُن کو یہ بتانا کہ عالمِ غیب جو ہے وہ اللہ کیلئے ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہے۔ اور اُس کے بعد یہ فرمایا کہ فَانتَظِرُو انتظار کرو وَإِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کررہا ہوں۔ اب جب تم بھی انتظار کررہے ہو اور میں بھی انتظار کررہا ہوں تو پھر دس دن کا اعتکاف تو بنتا ہے۔ کچھ کام نظروں سے نہیں ہوتے۔ جہاں کسی بھی جگہ اعتکاف کی نوبت نہ آئی اور نظروں سے کام ہوگیا لیکن رمضان کا آخری عشرہ ایسا ہے جہاں پرآنے والا کوئی اور ہے۔ اُس کے ٹھکانے کا کوئی اتہ پتہ نہیں، اُس کے مُوڈ کا کوئی اتہ پتہ نہیں اُس کے مزاج کا کوئی اتہ پتہ نہیں اور سب سے بڑی بات وہ کسی چیزکا، کسی عادت کا، کسی حکم کا قیدی نہیں۔ جو روز دس بجے آئے وہ عادت کا قیدی ہے۔ وہ عادت کا قیدی تو نہیں ہےکہ ہر سال ستائیس کو آئے۔ وہ عادت کا قیدی تو نہیں ہے وہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ لہٰذا اب تم دس دن کیلئے یہ اپنے اُوپر لازم کرلو نجانے وہ کب آجائے۔ دس دن کیلئے معتکف ہوجاوٴ، دس دن کیلئے عاکف بن جاوٴ۔ عاکف اُس کو کہتے ہیں جو اعتکاف کرتا ہے۔ اللہ نے قرآن میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال فرمایا ہے عَاکِفِینْ۔

لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 125

عَاکِفِینْ مریمؑ کیلئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ وہ عاکفہ تھیں۔ عاکفہ سے مُراد یہ ہے کہ اُنہوں نے اللہ کی دھن اپنے اوپر لازم کرلی تھی، تنہا بیٹھ کر بس اللہ کی عبادت میں مصروف رہنا۔ یہ حکم اللہ نے اسماعیلؐ کو بھی دیا ابراہیمؑ کو بھی دیا۔ طَائفِینْ اُس کو کہتے ہیں جو زیارت کرنے کیلئے آرہے ہیں، طائفہ۔ تو اب یہ جو عمرہ کرنے خانہ کعبہ جا رہے ہیں حج کرنے جا رہے ہیں اِن کو طَائفِینْ کہیں گے۔ جو زیارت کیلئے آئے اُسکو طَائفِینْ کہتے ہیں۔ اب یہاں پر اللہ تعالیٰ نے جو یہ لفظ استعمال کیا ہے کہ آنے والے اور جو اعتکاف کرنے والے آئیں جو وہاں مسجدِ الحرام میں آکے اعتکاف کرنا چاہیئں اُن کیلئے پاک صاف رکھنا ہے۔ اب یہ بات ہماری نکلی تھی کہ بارہ سال کا چلّہ ہوتا ہے۔ چلے کا لفظ جو ہے وہ ہمارے لوگوں نے اِستمعال کیا ہے۔ اصل لفظ ہے اَعتکاف۔ اسی طرح نظر ماننے والی جو بات ہےوہ بھی یہیں سے نکلی ہے۔ اب آپ کے دو مسائل تو حل ہوگئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ نظر ماننا۔ اِس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یہ رسم زمانہ جاہلیت کی ضرور ہے لیکن حضورؐ نے فرمایا کہ اِس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوںکہ یہ غلط نہیں ہے۔ زمانہ جاہلیت میں حج بھی ہوتا تھا، وہ بھی جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جب وہ کفارے مکہ حج کرتے تھے تو وہ وہاں کھڑے ہوکے اپنے خاندان کے لوگوں کی تعریف کے پُل باندھتے تھے، زمین وآسمان کے قلابے ملاتے تھے کہ وہ ایسے تھے ویسے تھے اور زور زور سے بڑی شدت کے ساتھ چیخ چیخ کرکے اُن کی مدح سرائی کرتے تھے۔ یاد ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
سورة البقرة آیت نمبر 200
ترجمہ: اے موٴمنو! تم بھی مناسکِ حج کے دوران اِتنی ہی شدت سے ہمارا ذکر کیا کرو جسطرح تم اپنے آباوٴاجداد کا کیا کرتے تھے۔

مندرجہ بالامتن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 5 مئی 2021 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس