کیٹیگری: مضامین

علماء حق اور علماء جاہل میں فرق :

جو ہم یہاں تعلیم دیتے ہیں وہ کتابی علم نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی ہے ۔دین کا علم اگر کہیں تو لوگوں کے اذہان میں قرآن آتا ہے اور قرآن کہتا ہے جبرائیل نے قرآن کو اللہ کے حکم سے محمد الرسول اللہ ﷺ کےقلب پر نازل کیا ہے ۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا
سورۃ الفرقان آیت نمبر 32

قرآن کے اس فرمان کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ قرآن کا علم حضورؐ کے قلب میں موجزن ہے ۔اب جس کو بھی وہ علم ملے گا وہ حضور کے قلب سے ہی عطا ہو گا۔تو جس عالم کو دین حضورﷺ کے سینے سے ملا ہے وہ عالم حق ہے ۔حضورؐ نے بھی فرمایا کہ أنَا مَدینَةُ العِلمِ وعَلِیٌّ بابُها ۔۔۔ کہ میں علم کا شہر ہو ں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔ تو وہ اصل قرآن کا علم حضورؐ کے سینے میں ہے ۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا کہ
بہ مصطفیؐ بہ رساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اونرسیدی تمام بو الہبیت

کہ تو حضورؐ کی ذات تک رسائی حاصل کر لے کیونکہ اُن کی ذات ہی تو سراپا دین ہے اور اگر تو اُن تک نہیں پہنچ سکا تو پھر تیرے سارےاعمال بو لہب کے جیسےہیں ۔ اب وہ سارا قرآن کا علم حضورؐ کے سینے میں موجود ہے تو آپ نے فرمایا علماء من صدری ۔۔۔۔ علماء وہ ہوں گے جن کو حضورؐ کے سینے سےعلم اور فیض ہو گا۔ایک اور حدیث میں آیا کہ

اتقوا عالم الجاہل قیل من العالم الجاہل یا رسول اﷲ قال عالم اللسان و جاہل القلب یعنی اسود
(بحوالہ زمرۃ الابرار)

یعنی جاہل عالم سے بچو اور ڈرو۔اب یہ اچھنبے کی بات ہے کہ عالم ہے تو جاہل کیسے ہو گیا !! جب آپ ؐ نے یہ فرمایا تو صحابہ کرام پریشان ہو گئے اور سوال کیا کہ یا رسول اللہ عالم بھی اور جاہل بھی ، وہ کیسے ۔ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ عالم اللسان و جاہل القلب یعنی اسود ۔۔۔۔ جاہل عالم وہ ہے جس کا سارا علم اس کی زبان پر ہے اور اس کا قلب جاہل ہے یعنی سیاہ ۔یہاں اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ جاہل کا مطلب ہے جس کا دل کالا ہو ۔جاہل وہ نہیں ہے جو اسکول نہیں گیا بلکہ جاہل وہ ہے جس کا دل کالا ہے ۔ مدارس میں تو حضورپاک ؐ بھی نہیں گئے اسی لئے آپ کا ایک لقب “اُمی” بھی ہے ۔

“اب عالم حق وہ ہوا جس کا قلب حضورؐ کے قلب سے روشن ہوا اور عالم جاہل وہ ہو گیا جس کے زبان پر تو بڑا علم ہے لیکن اسکا قلب سیاہ ہے ”

اب اگر موجودہ معاشرے میں نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ایسے مولوی ہیں جو زبان سے ایسے خطبے دیتےہیں کہ آدمی عش عش کر اُٹھے لیکن اگر اُن کے اعمال کی طرف نظر دوڑائیں تو یہی سب سے بڑے شیطان ہیں ۔ عالم اللسان و جاہل القلب یعنی اسود ۔۔۔۔۔یعنی ان کے زبان پر تو علم ہے لیکن اُن کےدل کالے ہیں ۔اب اُن کے دل کالے کیسے ہوئے ؟ حدیث کے مطابق جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے اور کثرتِ گناہ سے اُس کا دل مکمل سیاہ ہو جاتا ہے۔تو صحابہ کرام نےپوچھا کہ اگر کسی کا دل مکمل سیاہ ہو جائے تو پھر کیا ہو گا۔تو آپؐ نے فرمایا کہ پھر اس پر نصیحت عمل نہیں کرے گی ۔تو پھر صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی اس مقام پر پہنچ جائے تو پھر کیا کرے ، تو پھر اس کے جواب میں آپ ؐ نے فرمایا کہ

لكل شيء صقالة، وإن صقالة القلوب ذكر الله
(بحوالہ الوابل الصيب من الكلم الطيب)

کہ ہر چیز کو دھونے کا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے ، اورقلب کی صفائی ذکر اللہ میں ہے ۔ تو عالم حق وہ ہیں جن کا قلب منور ہو گا ، اللہ کا ذکر بنے گا اور جب ان کا قلب اللہ کا ذاکر بن گیا ، منور ہو گیا پھر مرشد کامل اُن کو حضورؐ کی بارگاہ تک لے جائیں گے پھر حضورؐ اس کو اپنے سینے سے لگا کر وہ باطنی قرآن اس کے سینے میں منتقل فرما دیں گے ۔اس لئے عالم از زبان صلی علی ہو گا۔پھر حضورؐ اجازت دیں گے کہ آج سے تو میری اُمت میں عالم ہے اور جس کو محمد الرسول اللہ نے عالم بنایا ہو اس کی عزت ہم سب پر لازم ہے ۔اور جو خود ہی عالم بنے بیٹھے ہیں اور مسجدوں میں اغلام بازی بھی کرتے ہیں یہ عالم نہیں ہیں یہ تو شیطان ہیں ، یہ ابلیس کے خلیفہ ہیں کیونکہ ان کے دل تو سیاہ ہیں اور اسی سے جڑتی ہوئی ایک اور حقیقت قرآن سے آئی

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورۃ الکہف آیت نمبر 28
ترجمہ : اور ایسے شخص کی اطاعت نہ کرنا کہ جس کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے ۔

اب قرآن کی اس آیت کی روشنی میں ہے کوئی جس کو ہم عالم کہہ سکیں اور جس کا قلب اللہ کے ذکر سے جاری نہیں تو قرآن کا فیصلہ ہے کہ ایسے عالموں کی پیروی نہیں کر سکتے ۔اور یہاں اس آیت میں جو أَغْفَلْنَا ۔۔۔استعمال ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ خود غافل نہیں ہے بلکہ اللہ نے اسے غافل کیا ہے ۔اللہ اُن کے قلب میں اپنا نام جانے نہیں دینا چاہتا ۔تو ہندوستان یا پاکستان کے مسلمان ہوں اُن کو چاہیے کہ کسی کو پیر کہنے سے پہلے یہ تو دیکھ لو کہ اس کا قلب بھی اللہ کے ذکر میں ہے یا نہیں ہے !! ہدایت میں جو بنیادی چیز ہے کہ قلب اللہ کا ذکر کرے ۔ ومن یومن باللہ یہدی قلبہ ۔۔۔۔۔ اور اللہ جس کو مومن بناتا ہے اس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے ۔
سورۃ الزمر میں بھی آیا ہے کہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورۃ الزمر آیت نمبر 22

وہ شخص جس کی شرح صدر اللہ کے نام سے ہو گئی تو وہ اصل مسلمان ہیں ۔ اگر تو دین اسلام چاہتا ہے تو دین ِ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تیرا شرح صدر کرے اور جس کا اللہ نے شرح صدر کر دیا تو پھر اسے اللہ کا نور میسر آئے گا۔دل کا دروازہ کھلنا ، قلب کا منور ہونا ، قلب میں زندگی کا آنا ہے اگر قلب میں اللہ کا نور اور نام داخل نہیں ہو گا ، دل اللہ اللہ کرنا شروع نہیں کرے گا تو نہ اسلام کا تصور حق ہو گا اور نہ ہی آپ یہ کہہ سکیں گے ہمیں نور مل رہا ہے کیونکہ قرآن مجید نے شرط لگا دی ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 06 اگست 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس