کیٹیگری: مضامین

وَنَادَىٰ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ۖ قَالُوا نَعَمْ ۚ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَن لَّعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ۔‏ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُم بِالْآخِرَةِ كَافِرُونَ
سورة الاعراف آیت نمبر 44-45

اللہ کا راستہ کیا ہے اور شیطان وہاں کیسے نقعب لگاتا ہے ؟

اصحاب الجنہ جب جنت میں چلے جائیں گے تو وہ اصحاب النار کو صدا لگائیں گے اور کہیں گے ہمارے رب نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ ہمیں مل گیا ۔ کیا تم کو بھی وہ مل گیا ہے جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیاتھا؟ وہ کہیں گے ہاں مل گیا ہے۔ پھر اُن میں ایک دونوں گروہوں کو صدا لگائے گا کہ اللہ ظالموں پر لعنت بھیجتا ہے اور یہ وہ لوگ تھے جو لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹاتے تھے اور اللہ کے راستے کو اسطرح پیش کرتے تھے جیسے یہ گمراہی کا راستہ ہے ۔ يَصُدُّونَ کا مطلب ہے روکنا۔ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ، یعنی وہ اللہ کےراستے سے روکتے تھے۔ جب تک آپکو یہ سمجھ نہیں آئے گا کہ اللہ کے راستے سے روکنا کیا ہے اُسوقت تک آپ لٹتے رہیں گے ، بدگمان ہوتے رہیں گے۔ اللہ کا راستہ کوئی راہ گزار نہیں ہے بلکہ دل سے نکل کر جونور اللہ کی طرف جا رہا ہے وہ اللہ کا راستہ ہے اور اس سے کوئی کیسے روکے گا؟ اس اللہ کے راستے سے روکنے کیلئے تمھارے دل میں رہبر کیلئے بدگمانی ڈالے گا اور ذہن خراب کرے گا۔ جہاں سے نور ملنا تھا وہاں سے نوری رسد بند ہو گئی اور اب تمھاری گاڑی اللہ کی طرف نہیں جا رہی۔
حالیہ دور کو دیکھیں تو اسمیں وہابیت کا دور دورہ ہے ، انہوں نے اولیاءاللہ اور محمد الرسول اللہ کی اتنی برائی کی ہے کہ جودل والا راستہ اللہ کی طرف جا رہا تھا اب لوگ اسکی طرف نہیں جا رہے ہیں بلکہ اسکے بجائے نماز، روزہ، حج و زکوة میں لگے ہوئے ہیں ۔ یہی عمل اللہ کے راستے سے روکنا ہے ۔جو بھی ہستی موجودہ دور میں ڈیوٹی پر مامور ہے ، جس سے نور آپ کو میسر ہو رہا ہے ،اس سے اور اسکی تعلیم سے بدگمان کرنا ہی رب کا راستہ روکنا ہے ۔ کیونکہ رب کا راستہ دل سے گزرتا ہے ۔

باریک نکتہ :

جب تک محمد الرسول اللہ موجود رہے تو شیطان لوگوں کو آپؐ کے خلاف ورغلاتا رہا اور جب محمد الرسول اللہ کا وصال ہو گیا تو اب وہ رب والا راستہ مولی علی کے زریعے جا رہا تھا تو شیطان نے کہا کہ اب محمد الرسول اللہ کا نعرہ لگاؤ اور مولیٰ علی کو نیچا کرو۔تو لوگوں نے کہا کہ ہم بھی محمد الرسول اللہ کے ماننے والے ہیں اور ہم بھی دورود پڑھتے ہیں لیکن یہ علی کون ہے ۔ یہ وہ سازش ہے جس کے زریعے ہر دور میں اللہ کا راستہ روکا گیا ہے۔ مولیٰ علی کے پردہ فرمانے کے بعد غوث الاعظم جیسی جید ہستی تشریف لائی تو شیطان صفت لوگوں کا طریقہ واردات یہ رہا کہ ہم تو محمدؐ اور مولی علی کے ماننے والے ہیں لیکن یہ عبد القادر جیلانی کون ہیں اور دین میں ان کی کیا حیثیت ہے۔پھر آخر میں سرکار سیدنا گوھر شاہی تشریف لے آئے تو اُنکے خلاف بھی منفی پراپگینڈا کیا گیا کہ ہم تو محمدؐ کی اُمت ہیں اور مولی علی کے پیروکار ہیں، غوث الاعظم کا دم بھرتے ہیں لیکن یہ سیدنا گوھر شاہی کون ہیں ! اور جب سرکار سیدنا گوھر شاہی نے غیبت (عارضی روپوشی) اختیار فرما لی اور بطور نمائندہ عزت مآب سیدی یونس الگوھر کو مقرر فرما دیا تو پھر سیدنا گوھر شاہی کے خلاف منفی پراپگینڈا چھوڑ کر اب یونس الگوھر کے خلاف برسر پیکار ہو گئے ہیں ۔ وہابی جو پہلے مولیٰ علی کی شان میں گستاخیاں کرتے تھے وہ اب یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی مولیٰ علی کو مولیٰ کہتے ہیں ۔ ایسا اس لئے ہے کہ اب وہ دروازہ بند ہو گیاہے اس لئے مولیٰ کہہ بھی دیا تو کیا فرق پڑتا ہے ، وہاں سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اسی طرح اب سرکار گوھر شاہی نے یونس الگوھر کو بطور نمائندہ مقرر فرما دیا ہے تو شیطان اُس طرف جانے سے روکے گا اور آپکو انکی کردار کشی کی طرف مائل کرے گا کیونکہ اب وہ ڈیوٹی پر مامور ہیں اور دل والا راستہ اب اُنکے زریعے اللہ تک جاتا ہے تو شیطان پوری کوشش کرے گا کہ لوگ وہاں سے بدگمان ہو جائیں تاکہ وہ نوری رسد کٹ جائےجس سے آپ اللہ تک پہنچ سکتے ہیں ۔
محمد الرسول اللہ کے دور میں بھی جن لوگوں نے آپکی ذات سے معجزے دیکھے اس کے باوجود یہ کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ان پر کسی جن کا سایہ ہے کیونکہ اُنکے زریعے لوگ اللہ تک رسائی حاصل کریں گے تو شیطان نے وہاں آپکی ذات کے خلاف لوگوں کو بدگمان کیا تاکہ وہ نور کی فراہمی کا سلسلہ ختم ہو جائے اور لوگ سبیل اللہ سے محروم ہو جائیں۔ اسی طرح دور حاضر میں سرکار گوھر شاہی نےسیدی یونس الگوھر کو ڈیوٹی پر مامور کیا ہے اور اپنے قلب سے سات سات تاریں منسلک کی ہیں ، اگر اُن کی ذات کے بارے میں بدگمانی آ گئی یا اُنکی کردارکشی کی تو وہ نور کی فراہمی کا سلسلہ رک جائے گا اور یہی بات قریبی لوگوں کے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اب اُن میں کچھ لوگوں کا نفس جھک جاتا ہے اور کچھ کا نہیں جھکتا ہے جس کا نفس نہیں جھکتا ہے اسکو ڈیوٹی پر مامور ہستی سے حسد ہو جاتا ہے اور پھر وہ حسد اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بر ملا یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ سرکار گوھر شاہی سے معاذاللہ نا انصافی ہو گئی ۔وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اُس ہستی کو سرکار گوھر شاہی نے ہی ڈیوٹی پر بٹھایا ہے، اسکے باوجود اسکے کردار میں نقص نکال کر اپنی آخرت برباد کر لیتے ہیں ۔

گمراہی کیا ہے؟

یہ جو روحانیت میں دل کا راستہ اللہ کی طرف جا رہا ہے اُس راستے پر اللہ اور اسکے رسول نے کسی کو مامور کیا ہے تاکہ وہ لوگ جو خالی سینہ لے کر آ رہے ہیں وہ اُسے نور اللہ سے بھرتا رہے۔ شیطان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ وہ اُس ڈیوٹی پر مامور ہستی کے خلاف آپ کے دل میں کسی کے زریعے بدگمانی ڈالے گا تاکہ وہ نوری تار کٹ جائے ۔اب وہ شخص بھلے نمازیں پڑھتا رہے، روزہ رکھتے رہے یا دیگر عبادات کرتا رہے وہ رب تک پہنچیں گی ہی نہیں کیونکہ اُن عبادات نے تو نوری تار جو مرشد کے دل سے ہو کر گزر رہی تھی اُسے ہی کاٹ دیا اس لئے تمام عبادات بھی رائیگاں ہوگئیں۔ شیطان یہ نہیں کہے گا اللہ اور اسکے رسول کو برا کہو، مولیٰ علی کو برا کہو، غوث الاعظم کو برا کہو بلکہ اُس وقت جو ہستی ڈیوٹی پر بیٹھی ہوئی ہے وہ اس کی کردار کشی کرے گا، اسکے خلاف کسی کے زریعے آپ کے دل میں بد گمانی ڈالے گا تاکہ وہ سبیل اللہ والا راستہ رک جائے اور آپکو ہدایت نہ مل سکے۔اور جو شخص یہ بدگمانی کسی کے دل میں ڈال رہا ہوتا ہے اُسے اسکا شعور بھی عطا نہیں ہوتا ۔ ایک وہ بھی مقام تھا جہاں پر اللہ تعالی نے فرمایا کہ تمھارے بہت سے راہب اور عالم ایسے ہیں جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور لوگوں کا مال بالباطل کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۗ
سورة توبہ آیت نمبر 34

اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہودی عالم اور راہب کی طرف اشارہ ہے اُس وقت دین اسلام تو نیا بن رہا تھا اسی لئے حوالے پچھلے دین کے دئیے جا رہے تھے کہ تمھارے بہت سے راہب اور عالم ایسے ہیں جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور لوگوں کا مال بالباطل کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ یہاں اللہ نے شیطان کا کہاں فرمایا کہ وہ اللہ کے راستے سے روکتا ہے ۔ شیطان گمراہ کرتا ہے رب کے راستے سے روکتا نہیں ہے۔ روکنے والے انسان ہیں جو دور حاضر میں ڈیوٹی پر مامور ہستی کی کردار کشی کر کے دلوں میں اس کے خلاف بد گمانی کا بیج بوتے ہیں تاکہ جہاں سے نور میسر ہونا ہے وہ راستہ رک جائے اور تمھارا سینہ بنجر ہو جائے۔ جب وہ نور کا راستہ رک گیا تو اب تمھارا دل اللہ کے راستے میں چل ہی نہیں سکتا کیونکہ نور ہی نہیں ہے۔ یہ ہے اللہ کے راستے سے روکنے کا عملی طریقہ اور لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 17 ستمبر 2021 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کی خصوصی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس