- 802وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
فرقہ واریت سے لوگوں پر ظلم و زیادتی:
پاکستان 1947 میں بنا۔ اِس سے پہلے ہندو، سکھ، مسلمان، تینوں قومیں متحدہ ہندوستان میں پیار محبت سے رہتے تھے۔ پھر انگریز آگئے، بہادر شاہ ظفر کی بادشاہت ختم ہوگئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تخت انگریز وہاں گھُس گئے، اُنہوں نے راج کیا۔ پھر ہندوستان کی آزادی کی تحریرک چلی۔ اِس میں بڑے بڑے رہنما سبھاش چندر بوس، گاندھی جی، محمد علی جناح، سب کی کوششیں شامل رہیں۔ شروع شروع میں تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک چلتی رہی۔ ایک مرحلے پر آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک نیا نظریہ پیش کیا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ قوم ہیں۔ علامہ اقبال کی طرف سے یہ دو قومی نظریہ آیا اور اس طرح مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کا قیام عمل میں آیا جہاں پر بھاری اکثریت میں مسلمان آباد ہوئے۔ ایک بڑے پیمانے پر ہجرت شروع ہوگئی۔ جو علاقہ آج پاکستان کہلاتا ہے یہاں سے ہندو اور سکھ ہندوستان کیطرف جانے لگے اور ہندوستان سے مسلمان پاکستان کیطرف آگئے۔ یہ ایک سیاسی بحران تھے جو متحدہ ہندوستان میں پیش آیا۔ پاکستان میں بھاری اکثریت کے ساتھ مسلمان ہوگئے اور آہستہ آہستہ پاکستان میں فرقہ واریت کو عروج ملنا شروع ہوا۔ ایک زمانہ یہ تھا کہ پاکستان میں خاص طور پر پاکستان کا جو صوبہ پنجاب ہے وہاں پراہلِ تصوف کی اکثریت تھی، سندھ میں اہلِ تصوف، پنجاب میں اہلِ تصوف، ولیوں کو ماننے والے صوفی درویش منش لوگ۔ اُس کے بعد پھر پاکستان میں سیاسی بحران آگئے اور پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ مشرقِی پاکستان اور مغربی پاکستان جُدا ہوگئے۔ یہ ایک بہت بڑی دھاندلی تھی۔ یہ ایسی دھاندلی تھی جس میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے پاکستانیوں کے حقوق پر شبِ خون مارا ہے جو آج بنگلادیش کی صورت میں پاکستان کا حصہ موجود ہے جو ہمارے بنگالی بھائی ہیں اِن کے اوپر ظلم اور ذیادتی ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات میں دھاندلی کی اُس کے باوجود بھاری اکثریت سے جب مجیب الرحمٰن جیت گئے اور پورے پاکستان کا وزیرِاعظم مجیب الرحمٰن کو بننا چاہئیے تھا، نہیں بننے دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمٰن کو نعرہ لگایا کہ وہ تمہارا یہ ہمارا اور 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ ہوگیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو فوج نے مروایا۔ ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوادی۔ حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اب ضیاءالحق مارشل لاء لیکر آگئے اور اُس کے بعد اُنہوں نے پاکستان کو مذہبی جنونیت کیطرف دھکیل دیا۔ یہ وہ دور ہے جب پاکستان میں مذہبی انتہاء پسندی کی شروعات ہوئی اور پھر وہاں سے ایک مخصوص فرقے کو فروغ دیا گیا۔ بیرونی طاقتوں نے سرمایہ لگایا، پاکستان کے سیاستدانوں کو خریدا، پاکستان کی فوج میں ایک مخصوص فرقے کی تبلیغ کو جائز قرار دیا۔ اِس سے پہلے پاکستان کی فوج میں تبلیغ جائز نہیں تھی، پروفیشنل تھی۔ اور پھر 70s کے آخر سے یہ مذہبی انتہاء پسندی اور جنونیت کی بنیاد رکھی گئی اور وہ یہ دور ہے کہ جب افغانستان کے اوپر رُوس نے قبضہ کر رکھا تھا۔ اُس کو جہاد کا نام دیا گیا اور تمام اسلامی ممالک سے لوگوں کو بلایا گیا کہ اِس جہاد میں حصہ لیا جائے، اُن کو مجاہدین کا نام دیا گیا۔ امریکہ نے اُن مجاہدین کو فنڈ، ہتھیار اور ٹریننگ دی۔ اُنہیں مجاہدین میں اُسامہ بن لادن بھی شامل تھا۔ اسطرح یہ سوویت یونین کو شکست دینے کیلئے اِن مجاہدین کا افغانستان میں عمل دخل شروع کردیا۔ لاکھوں لوگ جہاد کیلئے مختلف اسلامی ممالک سے جس میں عرب ممالک پیش پیش ہیں وہاں پر آئے۔ روس کو شکست ہوگئی روس چلاگیا۔ افغانستان سے سوویت یونین کا قبضہ ختم ہوگیا۔ اب وہ جو مجاہدین تھے اب اُن کا کام افغانستان میں ختم ہوگیا۔ جب افغانستان میں اُن کا کام ختم ہوگیا تو امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور یہ مجاہدین آزاد ہوگئے۔
جب یہ مجاہدین آزاد ہوئے تو اِن مجاہدین کی سرپرستی سعودی عرب نے شروع کردی کہ اب اتنی بڑی تعداد ہماری وہاں جمع ہوگئی ہے تو اپنے فرقے کو دوام بخشنے کیلئے اُس مخصوص فرقے کو آگے بڑھایا گیا۔ اِس طرح پاکستان میں باقی تمام فرقے نیچے جاتے رہے اور ایک مخصوص فرقہ پورے پاکستان کو اپنے قبضے میں لیتا رہا۔ فوج کو کنٹرول کیا، سیاستدانوں کو کنٹرول کیا، بیورو کریسی کو کنٹرول کیا، اشرافیہ، یہ سب کے سب اُن کے قبضے میں آگئے۔ اُس کے بعد پھر اسی مخصوص فرقے نے اپنے مختلف ادارے بنائے تشکیل دیئے۔ ایک ادارہ ایسا بنایا کہ جس کو ذمہ داری یہ دی گئی کہ وہ اہلِ تصوف کو نشانہ بنائے۔ جو بھی صوفی ہو، جو بھی تصوف کی بات کرنے والا ہو، جو بھی محمد الرسول اللہ کی عظمت بیان کرنے والا ہو، جو بھی ولیوں کی عظمت بیان کرنے والا ہو، اُن کو نشانہ بنایا جائے اور اُن پر توہینِ رسالت، توہینِ قرآن اور توہینِ مذہب کے جھوٹے مقدمات بنا کے اُن سے جان چُھڑائی جائے اُن کا خاتمہ کیا جائے۔ اور اِس کام کیلئے اُنہوں نے باقاعدہ ایک دائرہ بنایا ایک تنظیم بنائی جس کا نام “عالمی مجلسِ ختمِ نبوت” رکھا گیا، جس کا ہیڈ کواٹر پاکستان میں نمائش چورنگی پر بنایا گیا۔ پھر اِس عالمی مجلسِ ختمِ نبوت کی تنظیم میں جو علماء تھے اُن کا کام صرف یہی تھا کہ سارے ملک میں دیکھیں صوفی کہاں ہیں، تصوف کی بات کرنے والے کہاں ہیں، یہاں تک کہ پاکستان میں جتنے مزارات ہیں اُن مزارات کا نظم و نسق سنبھالنے والا ادارہ کو محکمہ اوقاف کہلاتا ہے وہ اِس مخصوص فرقے کے قبضے میں چلا گیا اور محکمہٴِ اوقاف میں وہ لوگ عہدِ دار بن گئے جو مزارات کے خلاف تھے۔ جو مزارات اور تصوف کے خلاف تھے وہ تصوف کے ٹھیکیدار بن گئے اور وہ مزارات کے متولی بن گئے۔ پھر اِنہوں نے چُن چُن کے ایسے لوگوں کے خلاف اپنی کاروایاں شروع کیں کہ جن کے بارے میں اِن کو پتہ چل جاتا کہ یہ تصوف کی بات کرنے والا ہے، یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چاہنے والا ہے، یہ محمد الرسول اللہ سے محبت کرنے والا ہے، اُن کے پیچھے پڑگئے۔ مزارات پر یہ مخصوص فرقہ آگیا، لوگوں کو متنفر کرنے لگا، چُن چُن کے صحافیوں اور میڈیا کے ساتھ مل کر، جھوٹی کہانیاں بنا کر اِن علمائے سوء نے صوفیوں کو پھنسایا۔ جیسے کہ لاہور میں ایک صوفی محمد یوسف تھے اور فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھے، اُن کے اوپر توہینِ رسالت کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور پھر جب وہ جیل میں تھے تو وہاں پر کسی قیدی نے جوکہ اُس مخصوص فرقے سے ہی تعلق رکھتا تھا اِن علمائے سوء کے احکامات پر جیل میں محمد یوسف کو اُس نے گولی مارکے شہید کردیا۔ پورے پاکستان میں جابجا واقعات ہوئے۔ اہلِ تصوف کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم عمران خان صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ اِن باتوں کو نوٹس میں لائیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ اللہ تعالی آپ سے بہت بڑے بڑے کام لینا چاہتا ہے۔ اِس مخصوص فرقے نے منصوبہ یہ بنایا کہ پورے ملک پر اِن کے فرقے کا قبضہ ہوجائے یا سارے فرقے والے اِن کے فرقے کو قبول اور اختیار کرلیں اور جو اختیار نہ کرے اُس کو ماردیں یا اُس کو جیل میں ڈال دیں۔ اہلِ تشیع کو نشانہ بنایا گیا، اُن کی امام بارگاہوں پر بم بلاسٹ کئے گئے خاص طور پر کوئٹہ اور بلوچستان میں۔ کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ جہاں پر اہلِ تشیع کی مجالس پر اُن کے جلوس پر فائرنگ کی گئی، بم بلاسٹ کئے گئے اور ہزاروں کی تعداد میں اہلِ تشیعوں کو جاں بحق کردیا گیا۔ اولیائے کرام کے مزارات کو نشانہ بنایا گیا، سیون شریف میں لال شہباز قلندر کے مزارِمبارک پر بم بلاسٹ کیا گیا، لاہور میں داتا علی ہجویری کے مزار پر بم بلاسٹ کیا گیا، یہ سارا کا سارا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے۔ اہلِ تشیعوں کے خلاف، اہلِ تصوف کے خلاف، ہندو برادری کے خلاف اور عیسائی برادری کے خلاف، اِن سب کے خلاف ایک مکمل منتظم جامع تحریک چلائی گئی جس کے ذریعے ہندو برادری پر مظالم ڈھائے گئے، کہیں اُن کو مقدمات میں پھنسایا گیا کہ اِنہوں نے قرآن جلایا ہے، اسلام کی توہین کی ہے، توہینِ رسالت کی ہے اور کہیں اُن کی معصوم لڑکیوں کو گھروں سے اُٹھا کر ذبردستی اُن کو مسلمان بناکر اُن سے نکاح کرلیا گیا۔ آج سے پچاس سال پہلے پاکستان میں اقلیت کی تعداد چوبیس فیصد تھی اور آج پاکستان میں اقلیت صرف ایک فیصد ہے۔ ہزاروں ہندو برادری کے لوگ پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے اور ہندوستان میں آج بھی پاکستان سے آیا ہوا ہندو مہاجر کیمپ میں رہتا ہے۔ ہندوستان کی سرکار نے پاکستانی ہندووٴں پر بھروسا نہیں کیا۔ آج بھی پاکستان کا ہندو ہندوستان میں دربدر کی ٹھوکریں کھارہا ہے۔ آپ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کا ہندو ہے ہندوستان جائے گا وہاں کی سرکار اِن کو گلے لگائے گی اِن کو حق شہریت دے گی، ایسا نہیں ہوا۔ اِسی طرح جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا اُس وقت بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو پاکستان کے بٹوارے کے حق میں نہیں تھی جو چاہتے تھے کہ پاکستان کا بٹوارا نہ ہو بنگلادیش نہ بنے۔ ایسے آج بھی پینتالیس ہزار بنگالی ڈھاکہ میں مہاجر کیمپ میں رہتے ہیں جن کی زندگی یہ ہے کہ بھکاریوں کی طرح وہ زندگی گزاررہے ہیں، نہ پاکستانی اُن کی مدد کرتے ہیں اور نہ بنگلادیش کی گورنمنٹ اُن کو انسان سمجھتی ہے۔ دودھ کا دُھلا ہوا کوئی نہیں ہے نہ بنگلادیش کی سرکار ہے، نہ ہندوستان کی سرکار ہے اور نہ ہی پاکستان کی سرکار ہے۔ سب اپنے مفادات کی خاطر جھوٹے نعرے لگاتے ہیں، انسانیت اور جمہوریت کی جھوٹی باتیں کرتے ہیں، کسی دیس میں کوئی انسانیت نہیں ہے۔
پاکستان میں اہلِ تصوف پر ڈھائے گئے مظالم:
پاکستان میں اہلِ تصوف کے خلاف جوجومظالم ڈھائے گئے ہیں اُس کی وجہ سے لوگ تصوف کو چھوڑ گئے، اہلِ تصوف پر اتنے توہینِ رسالت کے مقدمے بنائے جائیں کہ پاکستان کی عوام پر یہ ثابت ہوجائے کہ تصوف کی بات کرنے والا اللہ کے رسول کا گستاخ ہوتا ہے اِن کا دینِ اسلام سے تعلق نہیں ہوتا ہے، یہ قرآنِ پاک کو ماننے والے نہیں جلانے والے ہیں، یہ تاثُر دیا ہے۔ اور پاکستان میں دنیا کی تاریخ میں اِس کی مثال نہیں ملتی کہ جو مظالم پاکستان کی حکومت، پاکستان کے صحافیوں، پاکستان کے وکلاء اور پاکستان کی عوام نے سیدنا سرکار گوھر شاہی کے خلاف کیا۔ اگر کسی نے یہ کہا سرکار گوھر شاہی کے ماننے والے نے کہ چاند میں سرکار گوھر شاہی کی تصویر ہے تو اِس قول کے اوپر اُن پر توہینِ اسلام کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا گیا۔ کسی نے کہا کہ میں سرکار گوھر شاہی کو امام مہدی مانتا ہوں تو اِس قول کے اوپر لوگوں نے توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمات بنا دئیے، یہ ظلم ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو مختلف مقدمات میں 295 کے پھنسایا گیا۔ اُس نے نہ توہینِ رسالت کی، نہ اُس نے توہینِ اسلام کی اور نہ اُس نے توہینِ قرآن کی۔ ایک عام سمجھ بوجھ کی بات بھی ہوتی ہے آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں کہ جہاں ستانوے فیصد سے ذیادہ لوگ مسلمان ہیں، دب کے رہتے ہیں۔ آپ ایسے ملک میں اگر چاہیں بھی تو اُن کے دین کے خلاف اُن کی کتاب کو کیوں جلائیں گے، کیا آپ کو موت کی دعوت دینا چاہتے ہیں! نواز شریف کا چھوٹا بھائی شہباز شریف چند سال پہلے لاہور میں عیسائیوں کی ایک بستی تھی، اِن کو پیسہ ملا کہ یہ عیسائیوں کی بستی جو ہے اِس کو خالی کرائیں یہاں پرشاپنگ مال بنائیں گے رہائشی سکیم بنائیں گے تو ڈرا دھمکا کے اِنہوں نے اُن کو بھگانے کی کوشش کی وہ نہیں بھاگے تو پھر اِنہوں نے یہ کیا کہ پوری بستی کو آگ لگادی اور حکم دینے والے کا نام شہباز شریف ہے۔ ہزاروں انسانوں کو قتل کرکے زندہ جلا کے پھر یہ نام لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، پھر یہ کعبے کو حج اور عمرہ کرنے کیلئے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مولویوں کو طاقت اور پیسہ دکھا کے خریدتے ہیں۔ وہ عالمِ دین نہیں ہے جو حکمرانوں کے جوتے چاٹے، جو حکمرانوں کے اشاروں پر چلے وہ عالمِ دین نہیں ہے۔ توحید کا سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کے آگے نہیں جھکنا تو اللہ کے بعد تُو حکومت کے آگے کیسے جُھکا، حکومت کی ہاں میں ہاں کیوں ملائی، تم کہاں کے عالمِ دین ہو! تم جھوٹے اور مکار ہو۔ جن لوگوں کو اِس جھوٹے قانون کے تحت سزائیں ملی ہیں آپ اِس کو اللہ کیطرف سے فیصلہ سمجھ کر قبول کرلیں۔ چودہ سو سال پہلے نبی کے نواسے کے ساتھ بھی تو یہی ہوا۔ نبی کے نواسے سے ذیادہ قرآن اور اسلام کون جانتا تھا! اُس دور کے مولویوں نے بھی یزید بن معاویہ کی حمایت کی تھی۔ مولویوں نے یزید بن معاویہ کو اُکسایا تھا۔ یزید بن معاویہ کی ہمت نہیں تھی کہ وہ امامِ عالی مقام کے آگے تلوار لیکرکے کھڑا ہوجائے، مولویوں نے اُس کو اُکسایا کہ تم امیرالمومنین ہو، تم اُولوالامر ہو، وہ نواسہ رسول ہونے نے باوجود اُن کو تیری بات ماننی چاہئیے۔ اُس کے دماغ میں یہ سودا سماگیا۔ اُس نے ابنِ زیاد کو گورنر بنا دیا لہٰذا کربلا کے میدان میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کو کاٹ دیا گیا۔ بہتر نفوسِ قدسیہ کربلا کی خاک پر تڑپتے رہے خون بہتا رہا۔ تم بھی رسمِ شبیری ادا کرو۔ آج اگر تمہیں سزائے موت مل بھی گئی تو اللہ کے ہاں انصاف ہوگا۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالی اِس سزا کی وجہ سے تمہاری آخرت بہتر کردے۔
اللہ تعالی کا دین عشق:
ہم سیدنا سرکار گوھر شاہی کے پیروکار ہیں۔ بڑی ہی نفاست کے ساتھ انتہائی غیرمحسوس طریقے کے ساتھ اِس دنیا میں روحانی انقلاب بپا کررہے ہیں اور وہ دن دور نہیں ہے کہ یہ ظالم جو صدر اور وزیرِاعظم کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں، ایسے ضمیرفروش جج جو عدلیہ کے اوپر سانپ کی طرح مل کے بیٹھے ہیں اِن کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ ظلم کا خاتمہ ہوگا کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ امام مہدی آئیں گے اور دنیا کو انصاف سے اِس طرح بھردیں گے جس طرح پہلے وہ ظلم سے بھری ہوئی تھی۔ یہ مخصوص فرقے جو پاکستان میں ظلم اور بربریت کو فروغ دے رہے ہیں ہمیشہ اِن کا راج نہیں رہے گا۔ اللہ تعالی کو گنہگار گوارہ ہے ظالم گوارہ نہیں۔ وقت آنے والا ہے کہ جب اِن کے ساتھ امام مہدی کا انصاف ہوگا۔ سرکار گوھر شاہی کے خلاف بھی توہینِ رسالت کے جھوٹے مقدمے بنائے گئے۔ کبھی لوگ ہم کو گستاخِ رسول کہتے ہیں، کبھی لوگ ہم کو قادیانی کہتے ہیں، کبھی لوگ ہم کو مشرک کہتے ہیں، کبھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ توحید کو نہیں مانتے اور کبھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اسلام کو نہیں مانتے۔ یہ سارے منفی پروپیگنڈے اِنہیں ظالموں کے کئے دھرے ہیں، اِن کا کوئی دین نہیں ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اِن کا دین اسلام ہے، نہیں اسلام ایسا دین نہیں ہے اسلام تو انصاف پسند مذہب ہے۔ توحید ضروری نہیں ہے کہ صرف اسلام میں پائی جائے۔ اگر آج کا مُلّا یہ سمجھتا ہے کہ صرف مسلمان توحید جانتا ہے تو پھر اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مُلّا قرآن سے واقف نہیں، نہ وہ انجیل سے واقف ہے، نہ وہ زبور سے واقف ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے اپنے تمام ملت کی بنیاد توحید پررکھی، دینِ حنیف پر رکھی ہے۔ ابراہیمؑ کا دین بھی توحید پرستی ہے، عیسٰیؑ کا دین بھی توحید سکھاتا ہے۔ توحید صرف اسلام کا حصہ نہیں ہے لہٰذا ہم اپنے عیسائی بھائیوں اور ہندو بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے بارے میں بدگمان نہ ہوں، اپنا گمان اسلام کے بارے میں بُرا نہ کریں اللہ کے رسول کا فرمان یہ نہیں ہے جو مولوی تم کو بتاتے ہیں۔ تم سب ایک اللہ کی مخلوق ہو، مسلمان ہو یا نہ ہو کسی نہ کسی طریقے سے ہر انسان کا محمد الرسول اللہ سے تعلق بنتا ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
سورة الاٴعراف آیت نمبر 158
ترجمہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے انسانوں کو کہہ دو کہ میں تم سب کیلئے رسول بناکر بھیجا گیا ہوں۔
پھر اللہ تعالی نے فرمایا کہ
لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ
سورة الزمر آیت نمبر 53
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
یہ سفر کٹھن بہت ہے مگر اُداس نہیں ہونا ہے۔ زمانہ آرہا ہے جب امام مہدیؑ کا راج ہوگا، ہر طرف انصاف ہوگا، ہر دل میں رب بسے گا، ہر عبادت گاہ میں رب کو پوجا جائے گا، کہیں اللہ کہہ کے پوجا جائے گا، کہیں رام کہہ کے پوجا جائے گا، کہیں بھگوان کہہ کے پوجا جائے گا، کہیں God کہہ کے پوجا جائے گا لیکن پجاری سب اُسی کے ہونگے اور توحید کی شمع ہر قلب میں بیدار ہوگی۔ سرکار گوھر شاہی کی اِس آواز پر لبیک کہنا ہر انسان پر فرض ہے اور سرکار گوھر شاہی کی آواز کہتی ہے کہ طالب بیا اے رب کو ڈھونڈنے والے جلدی آ، تا رسانم روزِ اول با خدا، دوڑ کے آ تاکہ پہلے دن ہی میں تجھے رب سے روشناس کرادُوں۔ تیرا تعلق رب سے جوڑ دوں۔ تیرا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو کسی بھی دین سے ہو ہمیں اِس سے کوئی سروکار نہیں، اگر تم رب کو ڈھونڈ رہے ہو تو آجاوٴ۔ سیدنا سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ
اللہ کی پہچان اور رسائی کیلئے روحانیت سیکھو خواہ تمہارا تعلق کسی بھی مذہب یا کسی بھی فرقے سے ہو۔
پھر سرکار گوھر شاہی نے فرمایا
روحانیت کا تعلق مذہب سے نہیں، اِن روحوں کو نور پہنچا کر اِن کو طاقتور کرنے سے ہے۔ جب یہ روح منور ہوکر طاقتور ہوجائے گی تو خودہی رب کو پہچان لے گی۔ پھر رب جس مذہب میں تجھے بھیجے تم اُن مذہب میں چلے جانا۔
لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ جب کوئی رب تک پہنچ جاتا ہے تو اُس کو دین کی ضرورت نہیں رہتی۔ مولانا روم نے کہا تھا
کافرِ عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ حاجتِ زنار نیست
کافرِ عشقم کہ تیرے عشق نے مجھے کافر بنا دیا ہے، مسلمانی مرا درکار نیست کہ اب مجھے مسلمان بننے کی ضرورت نہیں ہے تیرے عشق میں کافر ہوگیا ہوں میں۔ ہر رگِ من تار گشتہ کہ جو جہنم کی آگ ہے اُس سے بڑی آگ میری رگ رگ میں لگی ہوئی ہے، حاجتِ زنار نیست کہ اب جہنم میں ڈال کر کیا کرو گے جب جہنم میری رگوں میں دوڑ رہی ہے، اُس کے عشق کی آگ دوڑ رہی ہے۔ پھر میر تقی میر نے کہا کہ
سخت کافر تھا جن نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
بہت ہی بڑا کافر ہوگا وہ جس نے سب سے پہلے مذہبِ عشق اختیار کیا۔ اور مذہبِ عشق میں جوبھی گیا ہے تو بس پھر وہ ہر دین سے دُور ہوگیا۔ منصور حلاج نے کہا کہ جب سے میں نے اللہ کا عشق اختیار کیا ہے تو میں نے سارے مذاہب کو بُھلا دیا۔ میرے نزدیک میرا مذہب عشق ہے لیکن مسلمانوں کے نزدیک یہ بڑی ہی بُری بات ہے۔ پھر کسی نے میر تقی میر سے پوچھا کہ آپ کا دھرم کیا ہے تو اُنہوں نے کہا
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا
کب کا ترک اسلام کیا
میر کے دین و مذہب کا کیا پوچھو ہو
سوال یہ ہے کہ کوئی اپنا دین بدل لے تو وہ مرتد ہوگیا اور کوئی اپنا رب بدل لے تو وہ کون ہوگا؟ ہم وہ ہیں جو دین بدل سکتے ہیں رب نہیں بدل سکتے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں سب کا رب ایک ہے، یہی توحید ہے۔ کیا ہندو، کیا مسلم، کیا سکھ، کیا عیسائی، کیا یہودی، سب کا رب ایک ہے۔ جب رب ایک ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا۔ جب بلھے شاہ کی یہ بات سمجھ میں آئی تو بلھے شاہ نے کہا کہ
اساں عشق نماز جدوں نیتی اے
تدوں بُھل گئے مندر مسیتی اے
جب سے ہم نے عشق کی نماز سیکھی ہے نا اُس وقت سے مندر اور مسجد دونوں سے ہم باہر آگئے، اب ہم نہ مندر جاتے، نہ مسجد جاتے۔ ہندو کہتے ہیں
آ ہم برہما سمی
مجھ میں شیو ہے مجھ میں راما
پھر میں کاہے مندر جاوٴں
جب سب میرے ہی اندر ہے تو پھر مجھے مندر مسجد جانے کی ضرورت کیا ہے! مندر مسجد وہ جاتے ہیں جن کو رب اپنے اندر ملتا نہیں ہے۔ جن کو رب اپنے اندر مل جاتا ہے پھر مندر مسجد اُن کے پاس آتے ہیں۔
یہ مندر، مسجد، کلیسا عبادت گاہ ہیں ثواب گاہ ہیں۔ اِن کے اندر تم پکارو گے اور یہ جو دل ہے یہ آماجگاہ ہے اِس کو بیدار کرلے اِس میں رب پُکارے گا۔
کیا تاریخ میں کوئی ثبوت ہے کہ کسی نے مسجد میں کعبے میں رب کو بیٹھا ہوا دیکھا ہو لیکن بابا بلھے شاہ نے کہا
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا ای
اک بندے دا دل نہ ڈھانویں رب دلاں وچ ریندا ای
یہ صوفیوں کی بات ہے۔ یہ مُلا کی سمجھ میں نہیں آتی ہے اور آج کا مُلا سمجھتا یہ ہے کہ گوھر شاہی کے لوگوں کو زیر کرلے گا۔ آج کا مُلا سمجھتا یہ ہے کہ وہ آئے گا اُن کو زیر کرلے گا اُن کو پٹا لے گا اُن کو چُپ کرادے گا لیکن وہ مُلا یہ جانتا ہی نہیں ہے کہ گوھر شاہی نے وہ علم اپنے غلاموں کو دیا ہے کہ اگر پوری پاکستان کی فوج کو سامنے بٹھایا جائے، پاکستان ٹیلی ویزن پی ٹی وی کے اوپر گوھر شاہی کے ایک غلام کو بٹھایا جائے اور سارے پاکستان کے مولوی آکے اُس سے بحث کریں تو وہ ایک ہی غلام نہ فوج کے بُوٹ ہلنے دے گا نہ مولویوں کو پسینہ صاف کرنے دے گا، نہ قرآن اُٹھائے گا، سامنے نوری سطور میں قرآن تیرتا ہوا نظر آئے گا۔ یہ اُس سرزمین کے مقدر میں بات لکھ دی گئی ہے کہ اُس کو پاک استھان بنایا جائے گا۔ ابھی وہ پاکستان ہے لیکن امام مہدی اُس کو پاک استھان بنائیں گے۔ “استھان” جگہ کو کہتے ہیں اور پاک کہتے ہیں پاک۔ ابھی وہ پاکستان ہے، امام مہدی اُس کو پاک جگہ بنائیں گے۔ ابھی نام رکھا ہے اُس کا، وہ پاک نہیں بنی ہے۔ جگہ پاک تب اچھی ہوتی ہے جب رہنے والے اندر سے پاک ہوں پھر پاک جگہ میں رہیں۔ ابھی اُس جگہ کو پاک کرنے کا کیا فائدہ جب وہاں گندے لوگ رہ رہے ہیں! پہلے لوگ پاک ہونگے پھر جگہ پاک ہوگی۔ پہلے لوگوں کے دلوں کو پاک صاف کیا جائے گا، لوگوں کے دلوں کو کعبہ بنایا جائے گا، لوگو کے دلوں کو عرش بنایا جائے گا اور جب لوگوں کے دلوں میں نور آجائے گا سب اللہ والے ہوجائیں گے کسی کے اوپر ظلم نہیں کریں گے۔ جب اُن کو پتہ چلے گا یہ ہندو ہے اِس کے دل میں بھی اللہ ہے، یہ سکھ ہے اِس کے دل میں بھی اللہ ہے، یہ عیسائی ہے اِس کے دل میں بھی اللہ ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا، سب اللہ والے ہیں نا۔ پھر تم کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ دین اور دھرم سے بھی بڑی کوئی چیز ہے، دین اور دھرم سے بڑی چیز اللہ کی محبت ہے اور اللہ کی محبت سے بڑی چیز اللہ کا عشق ہے۔ اللہ کے عشق سے بڑا کچھ بھی نہیں ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 7 دسمبر 2020 کو پیرانِ حرم پروگرام کی خصوصی نشست میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔