کیٹیگری: مضامین

دین کی تجدید کیوں کی جاتی ہے؟

ہمارے دین اسلام میں بہتر تہتر فرقے بن چکے ہیں۔ بہت سے مسلمان کہتے ہیں کہ اِس کی پیشن گوئی نبی پاکؐ نے کردی تھی کہ بہتر تہتر فرقے بنیں گے تو یہ تو ہونا ہی تھا لہٰذا اِس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ پریشانی کی بات تو ہے لیکن آپ کی بات کا جواب یہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جو سُود لے گا وہ میرا اُمتی نہیں ہے وہ جہنم میں جائے گا۔ جب حضورؐ نے فرمادیا کہ تم نے جہنم میں جانا ہے تو پریشانی کی کیا بات ہے! دنیا میں کوئی دین ایسا نہیں آیا کہ جس میں ایک وقتِ مقررہ پر آکر فرقہ نہ بنا ہو۔ ایک مخصوص عرصے کے بعد ہر دین میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ دین میں بگاڑ پیدا ہونا ہی تھا کیونکہ دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں۔ موٴمن بھی ہونگے، منافق بھی ہونگے، کافر بھی ہونگے، شاطر اور چالاک لوگ بھی ہونگے اور دین کی تعلیمات میں گڑبڑ کرنے والےبھی ہوں گے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے رسالت کے ساتھ ساتھ نبوت کو بھی رکھا تاکہ کوئی مرسل آکر دین بنائے اور اُس میں گڑبڑ ہو تو اُس کے بعد نبی بھیجا جائے، نبی پر اللہ رب العزت صحیفہ اُتاریں اور وہ نبی اُس صحیفے کے ذریعے اُس دین کو دوبارہ صحیح کردے اُس کی تجدید فرمادے۔ اب نبوت کا سلسلہ جو اللہ تعالی نے شروع کیا اُس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کے علم میں بھی یہ بات ہے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہوگا تبھی تو اُس کے سُدھار کیلئے اُنہوں نے نبوت کو رکھا ہے۔ آپ کے گھر میں اگر ویکیوم کلینر ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ گردوغبار آئے گا، ورنہ کیوں خرید کر لائے ہو! اگر اللہ تعالی نے مرسلین کے بعد دین کی تجدید کیلئے انبیائے کرام کو بھیجا تو اِس کا معنی یہ ہے کہ اللہ رب العزت جانتا ہے کہ دین میں بگاڑ ہوگا۔

دین میں بگاڑ کیسے ہوتا ہے اور کون کرتا ہے؟

علم کا تعلق دماغ سے ہے اور دین کا تعلق دل سے ہے۔ اِس لئے اللہ تعالی دین کی فقہہ قلب کو عطا فرماتا ہے۔ جو ظاہری علم ہے اُس کا تعلق انسان کے دماغ سے ہے۔ علم کا تعلق دماغ سے ہے جیسے ہم نے ابھی کہا کہ اگر علم کا تعلق دماغ سے ہو تو اسکول یا مدرسے میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اُس کو سمجھ میں نہیں آئے گا۔ معلوم یہ ہوا کہ علم کا تعلق دماغ سے ہے۔ جو بھی علم ہے آپ کوئی کتاب پڑھیں، کوئی لیکچر سُنیں، مولانا کی تقریر سنیں، کچھ بھی کریں، احادیث کا درس سنیں، قرآن کی تلاوت سنیں، جو بھی علم آپ کے دماغ میں جائے گا، زبان پر آنے سے پہلے وہ دماغ سے دل میں جائے گا اور پھر دل سے زبان پر آئے گا۔ اب آپ نے کوئی بھی علم پڑھا، جب وہ علم دل سے گزرا اور دل میں شرک، نار، ظلمت، شیطان ہے اور اِن سے دل بھرا ہوا ہے تو وہ علم قرآن کا بھی ہوا حدیث کا بھی ہوا تو جب وہ دماغ سے دل کے اندر گزرے گا تو پھر فسق و فجور اور ظلمت اُس علم میں شامل ہوجائے گی اور زبان سے نکلے گا تو شر بن جائے گا۔ جو لوگ دین کا علم تو حاصل کرتے ہیں لیکن اصلاحِ قلب نہیں کرتے ، فسادِ قلب کا علاج نہیں کرتے تو ایسے علماء کا یہ ہوتا ہے کہ سارا علم حاصل کرلیا اور دل میں فسق و فجور، ظلمت اور نار ہے، توحید اور رسالت کے نعرے زبان پر ہیں دل میں نہیں ہیں تو وہ جب دل سے گزرے گا تو دل کا فسق و فجور اُس کے ساتھ مل جائے گا۔ اور زبان سے جب وہ علم نکلے گا تو وہ علم فتنہ بن جائے گا۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

اتقوا عالم الجاھل قیل من العالم الجاھل یا رسول اللہ قال عالم اللسان وجاھل القلب یعنی اسود
ترجمہ: جاہل عالم سے ڈرو اور بچو تو صحابہ کرامؓ نے کہا کہ عالم میں جاہل کون ہوتا ہے تو اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ زبان کا عالم ہے لیکن قلب کا جاہل یعنی سیاہ ہے۔

معلوم یہ ہوا کہ دل سیاہ ہے، دل میں نور نہیں ہےبلکہ اسکے بجائے نار، ظلمت اور فسق و فجور ہے۔ اگر ایسا کوئی عالم ہو تو اُس سے ڈرو اور بچ کربھاگ جاوٴ۔ اب وہی بات یہاں پرآگئی کہ اتقوا عالم الجاھل کہ جاہل عالم ڈرو اور بچو۔ عالم اللسان وجاھل القلب کہ زبان پر علم ہے لیکن قلب جاہل یعنی سیاہ ہے۔

دل کا سیاہ ہونا اور قلب کا جہل کیا ہے؟

ایک دفعہ نبی پاکؐ نے اپنے صحابہ کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

انَّ العَبدَ اذَا اٴَخطَاٴَ خَطِیئَةً نُکِتَت فِی قَلبِہِ نُکتَة سَودَاءُ
سنن الترمذی: 3334، التفسیر- سنن ابن ماجہ: 4244، الزھد- مسند احمد: 2/297
ترجمہ: جب کوئی انسان گناہ کرتا ہے تو کراماً کتبین اُس کا جو گناہ ہے اُس کی بدی ہے برائی ہے وہ اُس کو کتاب میں لکھ لیتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے دل پر سزا کے طور پر ایک سیاہ نُکتہ بھی لگا دیتے ہیں۔

کتاب میں اعمال نامے میں اِس لئے لکھتے ہیں کہ اِس کے نبی کو ضرورت پڑی تو کتاب منگوا کر دیکھ لے گا کہ میرے اُمتی کی کتاب میں کیا گناہ اور کیا ثواب لکھا ہے لیکن اگر اللہ کو پوچھنا ہوا تو اللہ تعالی کتابوں کو نہیں دیکھتا اللہ تعالی دل کو دیکھتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا کہ

ان اللہ لا ینظر الی صورکم واعمالکم ولکن ینظرالی قلوبکم ونیاتکم
نورالہدی صفحہ نمبر 60
ترجمہ: اللہ تعالی نہ تمہاری شکلوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے قلب اور تمہاری نیت کو دیکھتا ہے۔

اب چونکہ اللہ نے دل کو دیکھنا ہے اِس لئے سزا کے طور پر کتاب میں بھی لکھا اور دل پر ایک سیاہ نُکتہ بھی لگا دیا۔ پھر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ گناہوں کی کثرت سے ایک دن ایسا آتا ہے کہ سیاہ نُکتوں کی زیادتی ہوتی ہے اور دل بالکل سیاہ کالا ہوجاتا ہے۔ جب دل سیاہ ہوجائے تو اُس وقت نصیحت اثر نہیں کرتی۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہ! ایسی اگر کسی پر نوبت آجائے تو وہ کیا کرے! اُس کے جواب میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ

لِکُلِّ شَیءِِ صقَلَة وَّصقَلَةُ القَلبِ ذِکرُاللہِ تَعَالٰی
نورالھدی
ترجمہ: ہر چیز کو دھونے کیلئے کوئی نہ کوئی دھونے کا آلہ ہے اور دلوں کا جو آلہ ہے وہ اللہ کا ذکر ہے۔

فسادِ قلب جو بپا ہوجاتا ہے اُس کا علاج اللہ کے ذکر میں ہے کہ جب دل کی دھڑکنوں میں اللہ کا نام ملتا ہے، اللہ ھو کی ضربیں لگتی ہیں، نور کا رگڑا لگتا ہے تو نور بننا شروع ہوجائے گا۔ وہ نور اُن سیاہ دھبوں کو مٹائے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ ھو کی ضربوں سے تیرا دل جو بالکل سیاہ تھا وہ دوبارہ چمکدار ہونا شروع ہوجائے گا، اُس میں اللہ کا نور آجائے گا۔

فرقہ واریت کی جڑ اور عالمِ جاہل کی نشانی:

علم حاصل کرنے سے پہلے دل کو چمکانا ضروری ہے ورنہ جو بھی علم حاصل کیا، جب وہ دل سے گزرے گا تو وہاں کی نار، ظلمت، فسق و فجور، شرک اور شیطان اُس کے ساتھ مل جائیں گے اور پھر آمیزش والا علم زبان سے نکل کر فتنہ پیدا کرے گا۔ جب بھی کسی دین میں ایسے عالم آگئے کہ جن کی زبان عالم اور دل جاہل تھا تو فرقہ واریت پیدا ہوگئی۔

قلب کی ناپاکی سے فرقہ واریت نے جنم لیا۔

قرآن مجید میں آیا ہے کہ

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورة الکھف آیت نمبر 28
ترجمہ: ایسے لوگوں کی ہر گِز نہ پیروی کرنا کہ جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کررکھا ہے۔

فرقہ واریت نے جنم لیا جب ہمارے دل سیاہ ہوگئے۔ ابھی چند روز پہلے ہم جنید جمشید بھائی شہید کی نعت سُن رہے تھے کہ “میرا دل بدل دے” اور یہی دُعا کررہے تھے کہ اے مولا دل بدل دے کیونکہ سارا کا سارا دین دل سے وابستہ ہے۔ دل خراب ہے تو دین خراب ہے اور دل صاف ہوگیا تو ہمارا دین درست ہوگیا۔ پھر اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ

الا وان فی الجسد مضغة، اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا وہی القلب
السنن ابن ماجہ، باب ما یرجی من رحمة اللہ 328/2
ترجمہ: اے بنی آدم! تیرے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ایسا ہے کہ اگر اُس کی اصلاح ہوجائے تو پورے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اگر وہی فساد میں مبتلا ہو تو پورا جسم فساد میں مبتلا رہتا ہے، یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے۔

اب بتائیے کہ ہمارے جو مذہبی رہنما ہیں وہ ہمیں کہاں لے جارہے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنما ہمیں اصلاحِ قلب کی دعوت کیوں نہیں دیتے، ہمیں بتاتے کیوں نہیں ہیں کہ اصلاحِ قلب کیا ہے، ہمیں صرف یہی کیوں بتاتے رہتے ہیں کہ نماز ایسے پڑھو، قرآن ایسے پڑھو، وضو ایسے کرو، عمامہ ایسے باندھو، داڑھی ایسے رکھو؟ پہلے اصلاحِ قلب تو کرو ورنہ دین سارا کا سارا خراب ہوجائے گا۔ سب سے پہلا کام اصلاحِ قلب ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ: جو کوئی بھی ایمان باللہ پر قائم ہوجائے تو اللہ اُس کے قلب کو ہدایت دے گا۔

اب قرآنِ مجید کی روشنی میں ہم کو یہ پیغام ملتا ہے کہ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا کہ ایسے لوگوں کی پیروی نہ کرو جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کررکھا ہے تو کسی عالم کی پیروی کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اِس کا قلب اللہ کا ذکر کرتا ہے یا نہیں کرتا ہے۔ یہ کتابیں بعد میں کھولنا، پہلے یہ ثبوت دینا ہوگا کہ قلب اللہ کا ذکر کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ کتنی کتابیں پڑھی ہیں، کتنے دورِحدیث کئے ہیں، یہ بعد میں بتانا پہلے قلب کی طہارت کا ذکرہوگا کیونکہ جس کا قلب برباد ہے اُس کا دین برباد ہے۔ جس کا قلب غیرحاضر ہے اُس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ

لَا صَلوٰةَ اِلَّا بِحُضُورِ القَلبِ
عین الفقرص 118
ترجمہ: قلب کی حاضری کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔

جب تم لوگوں نے اصلاحِ قلب کو فراموش کردیا اور سب کچھ عبادات کی ادائیگی پر روح کی سُوکھی عبادتوں پر اپنے دین کی عمارت تعمیر کرلی تو پھر شیعہ، سُنی، وہابی اور بریلوی بنتا گیا۔ جب دوبارہ اصلاحِ قلب ہوجائے گی، دل میں اللہ کا نور آجائے گا، نورِایمان، شمعِ توحید قلب میں جاں گُزیں ہوجائے گی تو پھر دل تم کو گمراہ نہیں ہونے دے گا۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ

ان القلوب بین اصبعین من اصابع اللہ یقلبہا کیف یشاء
2457- المسند لا حمد بن حنبل، 4/408

پھر ان القلوب بین اصبعین من اصابع اللہ تمہارا دل اللہ کی دو اُنگلیوں کے بیچ میں آجائے گا، جب تمہارا قلب اللہ کے ذکر سے منور ہوگیا۔ آج کتنے عالم ہیں، کیا کہتے ہیں، شیعہ، سنی، وہابی، دیوبندی، بریلوی، کبھی نور اور بشر کا جھگڑا، کبھی علمِ غیب کا جھگڑا، کوئی کہتا ہے کہ حضورؐ کو علمِ غیب ہے اور کوئی کہتا ہے نہیں ہے، کوئی کہتا ہے حضورؐ نور ہیں، کوئی کہتا ہے حضورؐ بشر ہیں، کوئی کہتا ہے حضورؐ حاضروناظر ہیں اور کوئی کہتا ہے حضورؐ حاضروناظر نہیں ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کی بات بعد میں کرنا، تم کون ہو یہ پہلے جانو۔ تم کون ہو، قرآن تمہارے بارے میں کیا کہتا ہے اور قرآن میں جو موٴمنوں کی صفات ہیں کیا وہ تم میں ہیں یا تم میں وہ صفات ہیں جو منافقین کی قرآن میں بیان ہوئی ہیں؟ پہلے اپنے آپ کو جاننا ہے۔ تم نے کتابیں پڑھ لیں، بڑی بڑی لائبریریوں میں چلا گیا، مدرسوں میں چلا گیا، صحاح ستہ پڑھ لی، قرآنِ مجید کی دس تفاسیر پڑھ لیں، سب کچھ کرلیا اور تم نے اپنی پہچان تو کی نہیں۔ تجھے کتابیں پڑھنے سے رب تو نہیں ملے گا کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہی ایسا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ مَن عَرَفَ نَفسَہ فَقَد عَرَفَ رَبَّہ کہ جس نے اپنا عرفان حاصل کیا جس نے اپنے ظاہروباطن کی کھوج کی جس نے اپنے اندر جھانک کے دیکھا کہ میرے اندر کون ہے، شیطان بیٹھا ہے یا رحمٰن بیٹھا ہے، جس نے یہ کھوج لگا لی مَن عَرَفَ نَفسَہ فَقَد عَرَفَ رَبَّہ کہ جب تم نے کھوج لگا لی کہ تیرے اندر کون ہے تو اب راستہ ہموار ہوگیا، اب رب کا عرفان حاصل ہونے کیلئے تیار اور بے قرار ہے۔ کتابیں تو ساری پڑھ لیں، اپنے آپ کو تو پہچانا نہیں۔
تُو جا جا وڑدا مندر مسیتی، کدی من اپنے وچ وڑیا ای نئیں
روز ایویں شیطان نال لڑدا، کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں

تم مسجد اور مندر کی دوڑ لگاتا ہے تو کبھی اپنے دل کے اندر بھی جھانک کر دیکھ نا کہ اندر کیا ہے۔ روز ایویں شیطان نال لڑدا کہ جو بھی غلط کام کرکے کہے گا کہ یہ شیطان نے کرایا ہے، کدی نفس اپنے نال لڑیا ای نئیں کہ وہ جہادِ اکبر کرنا جہاد بن نفس جس کا حکم آیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورة الاٴعلی آیت نمبر 14
ترجمہ: کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا۔

یہ وضو اور غسل کرنے سے کامیاب ہوتے ہیں! یہ غسل، نہانا دھونا، ہاتھ منہ دھونا، یہ تو کافر بھی کرتا ہے تو کیا وہ پانی سے وضواور غسل کرکے کامیاب ہوگیا! نہیں، اندر کو پاک کرنا ہے اندر کو دھونا ہے۔
وضو کرلے شوق شراباں دا
تیرے اندر باروں پلیتی اے

وہ اندر کو دھونا پڑے گا نا۔ کوئی بھی دُھلا دُھلایا پیدا نہیں ہوتا۔ جب تم اِس دنیا میں پیدا ہوتے ہو تو تمھارا قلب صنوبر ہوتاہے۔ اب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس میں کوئی سُدھ بُدھ نہیں ہوتی۔ کوئی پچہ ابھی ابھی پیدا ہوا اور وہ بچہ لیٹا ہوا ہے، اب اگر اتنے میں کوئی آگ لیکرآجائے تو بچہ تو ویسا ہی لیٹا رہے گا، کوئی سانپ آجائے بچہ تو ویسا ہی لیٹا رہے گا، کوئی گاڑی آگے سے آرہی ہوگی تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بچہ وہاں سے ڈرکربھاگ جائے گا، بچے میں تو سُدھ بُدھ ہے ہی نہیں۔ جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے اور کوئی سُدھ بُدھ نہیں ہوتی ہے نا اِسی طرح تمہارا قلب ہے اُس کو قلبِ صنوبر کہتے ہیں اُس میں کوئی سُدھ بُدھ نہیں ہوتی ہے۔ بچہ جب بڑا ہوتا ہے اُس کو سکھاتے ہیں سمجھاتے ہیں، آہستہ آہستہ اُس کو چلاتے ہیں، اُس کو ہاتھ منہ دھونا سکھاتے ہیں، اُس کو میز پر بیٹھنا سکھاتے ہیں، کھانا پینا سکھاتے ہیں تو آہستہ آہستہ اُس کی تربیت ہوتی رہتی ہے نا۔ پھر بڑا ہوتا ہے تو اُس کو آداب آجاتے ہیں۔ اِسی طرح یہ جو قلبِ صنوبر ہے اِس کو بھی سکھانا پڑے گا نا۔ قلبِ صنوبر میں اسمِ ذات اللہ کا جب نور جائے گا نورِ قرآن جائے گا تو اِس میں سُدھ بُدھ پیدا ہوگی۔ پھر جیسے ہی تُو نماز کیلئے کھڑا ہوگا یہ فوراً تیرا جو قلب ہے وہ متوجہ ہوجائے گا کہ یہ تو نماز کیلئے کھڑا ہورہا ہے، میں بھی اور پھر جیسے ہی تُو قرآنِ مجید پڑھنا شروع کرے گا وہ تیرا قلب فوراً متوجہ ہوگا کہ ارے یہ تو قرآن پڑھ رہا ہے، میں اِس کا ساتھ دیتا ہوں۔ تیرے ہر کام میں پھر تیرا قلب تیرا ساتھ دے گا۔ پھر جب تیرے ہر کام میں، ہر عمل میں، ہر نیکی میں، ہر کامِ کارِثواب میں جب قلب تیرا ساتھ دے تو اُسی کو عملِ صالح کہا جائے گا۔ ہر نیکی کا عمل، عملِ صالح نہیں ہے نجانے تیری نیت کیا تھی اُس عمل کے پیچھے۔

عملِ صالح وہ ہوگا جس کے پیچھے سچا دل اور سچی نیت ہوگی۔

کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ

اِنما الاٴعمال بالنیّات
رواہ البخاری ومسلم
ترجمہ: ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔

نیت پاک تب ہوگی جب قلب پاک ہوگا۔

عالمِ حق کی تشریح:

سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ

جو عالمِ حق ہے تو اُس کے سامنے تو پُشت کرنا بھی گناہ ہے۔

عالمِ حق کیلئے سرکار گوھر شاہی نے یہ بھی فرمایا کہ

جو بھی عالمِ حق ہوگا وہ خلیفہٴِ رسول سمجھا جائے گا کہ یہ اللہ کے رسول کا خلیفہ ہے۔

عالمِ حق کے دل میں دائمی ذکراللہ ہورہا ہے، نور کی شعائیں نکل رہی ہیں، یہ عالمِ حق ہے۔ اور پھر اسکے ساتھ ساتھ ایک تارحبل اللہ اللہ کی طرف سے آرہی ہے جس کی وجہ سے اللہ کا ذاتی نور بھی اُس کے اطراف میں گھوم رہا ہے۔ اب یہ ہوا کہ اُس عالم نے جب مدرسے میں تعلیم حاصل کی تو وہ دماغ میں جمع ہوگئی۔ بارہ سال اُس نے درسِ نظامی کیا اور جتنے بھی سال لگے درسِ نظامی کیا، سارے حدیث کے دور، قرآن کی تفاسیر، علمُ الکلام سیکھا، سب کچھ سیکھ ساکھ کے جب وہ فارغ التحصیل ہوگیا، سارا علم دماغ میں جمع ہوگیا تو اب وہ خطیب بن گیا۔ اب وہ تقریریں کرنے لگا تو اب اُس کے دماغ سے قرآن و حدیث کا علم دل سے گزرے گا۔

اگر یہ علم جو اِس نے حاصل کیا تھا اگر یہ صحیح ہوا تو یہاں نور اسمِ اللہ کا لگے گا اور یہاں سے گزرجائے گا اور زبان سے گزرے گا تو نور بن کر نکلے گا۔ وہ علم دماغ سے گزرے گا، اللہ اللہ کا نور اِس کو ساتھ لگے گا اور نورالنور بن کر یہ نور زبان سے نکلے گا۔ اگر یہ علم حاصل کیا ہے اِس میں کوئی گڑبڑ تھی اور یہ گڑبڑ والا علم قلب سے گیا تو حبل اللہ اُس علم کو درست کردے گا بھلا اُس نے تفسیریں بھی غلط پڑھیں لیکن جب اُس کی زبان سے نکلا تو قلب سے گزرنے سے پہلے وہ جو حبل اللہ جڑی ہوئی تھی وہ حبل اللہ اُس علم کو پاک کرکے یہاں سے نکالے گی اور نور النور بنادے گی۔ اِس کو تجدیدِ دین کہتے ہیں۔

تجدیدِ دین وہ علماء، وہ مجدد کرتے ہیں جن کے قلب سے حبل اللہ جڑی ہوئی ہو کیونکہ اللہ کی حبل جو ہے وہ اُمُّ الکتاب ہے۔ اللہ کی حبل جو ہے وہ تجدید کرتی ہے انسان نہیں کرتا۔ جب علم، تفاسیر، اُس کے معنی میں کوئی کمی رہ گئی تو قلب سے گزرا اور حبل اللہ نے اُس کو بالکل ٹھیک کرکے یہاں زبان سے نکالا۔ ایسے علماء کی نشانی یہ ہے کہ ایسے علماء تم کو فرقہ واریت سے نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چھوڑو یار نہ کوئی دیوبندی ہے، نہ کوئی بریلوی ہے، نہ کوئی سنی ہے، نہ کوئی شیعہ ہے، نہ کوئی اہلحدیث ہے، آوٴ سب اُمتی بن جاوٴ۔ جن کے دلوں میں شیطان بیٹھا ہوا اُنہوں نے تم کو فرقوں میں بانٹ دیا۔ جن کے دلوں میں حبل اللہ جڑی ہوئی ہے وہ فتنہ ختم کرکے تم کو دوبارہ اُمتی بننے کی دعوت دینگے، تم کو دوبارہ اُمتی بنائیں گے۔ جن کے دلوں میں اللہ کا نور ہوا اور اللہ کا نور جس دل میں ہوتا ہے وہیں حبل اللہ بھی لگتی ہے تو درحقیقت جب قرآنِ مجید نے یہ فرمایا کہ

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
سورة آل عمران آیت نمبر 103
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جانا۔

حبل سے مُراد وہ علماء ہیں جن کے دلوں سے نور کی رسّی جُڑی ہوئی ہے اور اللہ تعالی قرآنِ مجید کے خصوصی معنی اور رازِ قرآن جو تفاسیر میں نہیں ملتے، ایسے بندے کے قلب پر حبل اللہ کے ذریعے وارِد فرماتا ہے۔ اور ایسے علماء کی زبان سے دین کے قرآن کے راز برآمد ہوتے ہیں اور اللہ تعالی ایسے عمائے حق کو اپنے خزانہٴِ خاص سے علمِ لدنی بھی عطا فرماتا ہے۔ علمِ لدنی کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ علم جو اُس کی طرف سے آئے۔ ایسے بہت سے علمائے حق گزرے ہیں جیسے مجدد الف ثانیؒ، سیدنا غوثِ اعظمؓ، عبدالقادرجیلانیؒ، معین الدین چشتیؒ، یہ کتنے بڑے بڑے علمائے حق تھے۔ یہ وہی تھے جن کے قلوب سے حبل اللہ جڑی تھی، جنہوں نے دین سے فتنے کوختم کیا اور دین کو ازسرِنو دوبارہ اُس کو دوام بخشا۔ اور یہ جو مُلّا ہیں جن کے دلوں میں شیطان بیٹھا ہے جو تم کو وہابی، بریلوی، سنی، شیعہ، مرزئی اور اہلحدیث بنارہے ہیں، یہ وہ عالم ہیں جن کا منہ یومِ محشر میں کالا ہوگا کیونکہ اِس دنیا میں اِن کا دل کالا ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 دسمبر 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس