- 1,199وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
قرآن مجید نے ابتدا ء میں ہی صراط ِمستقیم کا ذکر کیا ہے۔ لیکن صراط ِمستقیم کیا ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صراط مستقیم کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ جوآ پ کر لیں تو صراط مستیقم آپ کو مل جائے گا۔میں اپنی پوری روحا نی زندگی کی روحانیت کو ایک مرکز پہ مرکوزکر کے صراطِ مستقیم کے معنٰی اخذکروں تو صراطِ مستقیم کے معٰنی ہو گے’’ مرشد ِ کامل کی اتباع‘‘یہ صراطِ مستقیم ہے۔قرآن مجید نے جو کہا ہے اب وہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔سورہ فاتحہ میں ہے
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
سورۃ الفاتحہ آیت نمبر 5
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔
یہ وہ دو ،تین الفاظ ہیں جن سے وہابی ،دیوبندی مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔یہاں سے و ہ معٰنی گھڑ لیتے ہیں کہ رسول ا للہ اور ولیوں سے مدد نہ مانگو، صرف اللہ سے مددمانگو۔ لیکن کا اس کا حقیقی معٰنی سیدنا امام مہدی گوہر شاہی نے بیان فرمایا ہےإِيَّاكَ نَعْبُدُ ہم تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں ۔ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اورتیری عبادت کرنے کے قابل ہونے کے لئے تیری ہی مدد چاہتے ہیں۔معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی عبادت کے قابل بننے کے للئے اللہ کی مدد چاہیے اللہ کی مد دکے بغیر کوئی اللہ کی عبادت کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔اِسی بات کو ہدایت کہتے ہیں۔قرآن مجید نے اِسی بات کو دوسرے طریقے سے بھی کہا ہے۔’’اور ہدایت والا تو ہے جسکو اللہ نے ہدایت دی‘‘عبادت کرنے قابل کب بنے جب اللہ کی مدد پہنچ گئی۔اب اللہ کی عبادت کرنے میں اللہ کی مدد چاہیے۔اللہ کی ایک عبادت تو وہ ہے جس میں آپ تسبیح گھما کرنماز پڑھ کے عبادت کرتے ہیں اسمیں تو آپ کو اللہ کی مدد نہیں چاہیے ،آپ وضو کریں گے اور کھڑے ہو کے نماز پڑھ لیں گے عبادت ہو گئی۔یہ کسی اور عبادت کی طرف اشارہ ہے۔ وہ عبادت جس کی طرف اشارہ ہے اس کے لئے آپ کو غور کرنا ہو گاکہ وہ کسطرح کی عبادت ہے کہ جسمیں ہم اللہ کی مدد کے بغیر عابد نہیں بن سکتے ،اللہ کی عبادت وبندگی نہیں کر سکتے۔قرآن شریف میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورۃ الذریات آیت نمبر 56
ترجمہ:اور اللہ نے جنات کواور انسانوں کواپنی عبادت کے لئے بنایا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو عبادت کے لئے بنایا ہے اور وہ تسبیح پھیر رہا ہے، نمازیں بھی پڑھ رہا ہے پھر بھی جنت کی گارنٹی نہیں ہے اور نمازیں منہ پر دے ماری جائیں گی۔پھر وہ کونسی عبادت ہے جس کے لئے اللہ نے تم کوبنایا ہی ویسا ہے۔ اگر اللہ نے آپ کو عبادت کیلئے بنایا ہے تو پھر آپ کی عبادت ادھوری کیسے رہ سکتی ہے،آپکی عبادت کمزور کیسے ہو سکتی ہے کہ منہ پہ دے ماری جائے!! اگر اللہ نے آپ کو عبادت کے لئے بنایا ہے تو پھر اللہ نے آپ کی فطرت میں وہ مادہ رکھا ہو گا کہ جس سے آپ اللہ کے عابد بنیں۔جب اللہ نے آپ کو بنایا ہی عبادت کے لئے ہے تو پھر آپ کی عبادت کمزور کیوں ہو گی ،وہ ایسی کیوں ہو گی کہ منہ پہ دے ماری جائے گی؟ معلوم یہ ہوا کہ اللہ نے آپ کو جس عبادت کے لئے بنایا ہے وہ آپ کر ہی نہیں رہے ہیں۔
انسان کی حقیقت اُس کی روح میں مضمر ہے:
انسان کو سب سے بڑا مغالطہ اِس بات کا ہے کہ وہ اپنے جسم کو اپنی حقیقت سمجھتا ہے۔اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی ہماری روحیں عالمِ ارواح میں تھیں تو کیا ہم اس وقت انسان نہیں تھے،اُس وقت بھی انسان تھے،مرنے کے بعد جب ہماری روحیں اوپر چلی جائیں گی تب بھی ہم ا نسان ہی ہوں گے ۔تینوں حالتوں میں ہم انسان ہیں۔زندگی سے پہلے جب ہماری روحیں عالمِ ارواح میں تھیں اسوقت بھی انسان تھے،پھر اِس دنیا میں پیدا ہو گئے روح جسم میں آگئی پھر بھی ہم انسان ہیں ،پھر جسم قبر میں رہ گیا ختم ہوگیا اور روحیں اوپر چلی گئیں اُس وقت بھی ہم انسان ہیں۔انسان کی حقیقت جسم سے معمور نہیں ہے اگر انسان کی حقیقت جسم سے معمور ہوتی تو پیدا ہونے سے پہلے ہماری جو روح تھی اسکو انسان نہیں کہا جاتا،ہماری روح ہماری حقیقت ہے اور ہماری روح کی فطرت میں عبادت کرنا ہے،لیکن ہماری دسترس ہماری روح تک نہیں ہے اور نہ ہی ہماری دسترس لطیفۂ قلب تک ہے ۔اب ہم کیسے اپنے قلب و روح کو اللہ اللہ میں لگائیں اس کے لئے ہمیں اللہ کی مدد کی ضرورت ہے اور اللہ کی وہ مدد درویش،فقراء،قلندر،صالحین،انبیاء اِنکی صورت میں آتی ہے۔یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اِن کو وہ طریقہ سکھایا ہوا ہے یہ لوگ طریقہ جانتے ہیں اِن لوگوں کی دسترس ہماری روح تک ہو جاتی ہے ہماری نہیں ہوتی ان کی ہو جاتی ہے کیونکہ اِن کی ساری روح اور لطائف منور ہیں پورے عالم کی سیر کرتے پھرتے ہیں یہ ہمارے اندر دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِن کی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ جو مستحقین ہوں گے جن کی تقدیر میں،میں نے ایمان لکھا ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اُس کا بندوبست بھی کرتا ہے ، کسی نہ کسی مرشدِ کامل کے نصیبے میں اُس کا نام لکھ دیتا ہے پھر اُس کو وہاں سے فیض ہوتا ہے یہ مرشدِ کامل کا ملنا اللہ کی مدد ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورہِ کہف میں یہ کہہ دیا ہے ومن یضلل فلن تجد لہ ولیا مرشدا ’’جس کو میں گمراہ کرنا چاہوں گا تو اسکو ولی و مرشد سے نہیں ملائو گا‘‘۔ولی و مرشد سے ملانا اللہ کی مدد ہو گیا۔اگر وہ ہدایت نہ دینا چاہے تو وہ تمہاری مدد نہیں کرے گا ،تم خود ہی سجدوں ،نمازوں میں لگے رہو گے اللہ کی مدد تمہاری شاملِ حال نہیں ہے تو تم کبھی بھی اللہ کے عبادت گزار نہیں بن سکتے،ایسے عبادت گزار جیسا وہ چاہتا ہے۔قرآن نے یہ کہا
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
سورۃ الفاتحہ آیت نمبر 6 اور 7
ترجمہ: ہمیں صراط ِ مستقیم کی طرف گامزن کر دے ، اُن لوگوں کا راستہ جس پر میں نے انعام کیا ہے۔
اب صراطِ مستقیم فی نفسہ کیا ہے اس کا ذکر نہیں فرمایا ہے بلکہ جن ہستیوں پر انعام کیا ہے اُن کا راستہ بتایا ہے۔لوگ تویہ سمجھتے ہیں جنت میں چلے جائیں گے یہ انعام ہو گا ۔ جو لوگ مر جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے تو ہم اُن سے صراط مستقیم کیسے سیکھیں گے!! اِس کا مطلب ہے جن پر انعام کیا ہے وہ ہمارے زمانے میں ہی رہتے ہوں گے اورزندگی میں ہی انعام کیا ہو گا تب ہی تو ہم اُن سے سیکھیں گے کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔اللہ کا اپنے بندے کے لئے سب سے بڑا انعام کیا ہو گا،بینک بیلنس ہو گا ،وہ تو ان کے پاس بھی ہے جو اللہ کو نہیں مانتے،نواز شریف اور ذرداری نے کتنا بینک بیلنس بنایاہے ،کیا یہ اللہ کی دین ہے۔لوگ حرام کی کمائی کا بنگلہ بناتے ہیں اور اوپر لکھ دیتے ہیں ماشاء اللہ یہ آپ کی اپنی مرضی ہے کہ آپ نے حرام کے اوپر حلال کا سٹیکر لگا دیاہے۔اللہ اگر انعام فرمائے گا تو کیا کرے گا آپ کو بہت سارے بیٹے دے دے گا،وہ تو ان کے بھی ہیں جو رب کو مانتے ہی نہیں ہے۔اللہ کا انعام یہ بھی نہیں ہو گا کہ وہ تمہیں بہت سارا سونا اور چاندی دے دے گا،دنیاوی دولت دے دے گا ،یہ اللہ کا انعام نہیں ہے۔
اللہ کا انعام کیا ہے ؟
ایک دن حضورؐ اپنی بیٹی بی بی فاطمہ کے گھر تشریف لے کر گئے تو انہوں نے دروازہ نہیں کھولا اور یہ کہا میرے جسم پر غربت کی وجہ سے اتنے کپڑے نہیں ہیں کہ میں آپ کو اندربُلا لوں غربت کا یہ عالم تھا۔آپؐ نے اپنی کالی کملی باہر سے اندر پھینکی اور کہا بیٹا اِس کو اوڑھ لو اور دروازہ کھولو۔ جب آپ اندر گئے تو آپ کی آنکھوںمیں آنسو آگئے اور آپؐ نے کہا
’’ اے فاطمہ تیرے باپ کو اللہ نے اتنی طاقت دی ہے کہ اگر میں تیرے در و دیوار پر ایک نظر ڈالوں تو ان کو سونے اور چاندی کا بنا دوں لیکن کیا تجھے دنیا کی محبت پسند آجائے گی‘‘
تو انہوں نے کہا ’ ’ نہیں مجھے اِس فقر وفاقے سے اللہ کی محبت کی خوشبو آتی ہے‘‘۔معلوم یہ ہوا کہ اللہ کا انعام یہ مادیت والی چیزیں نہیں ہیں۔اللہ کا انعام دیدار ہے۔ جن لوگوں کو اللہ نے اپنا دیدار دے دیا ہے۔جو اللہ سے آنکھ لگا بیٹھے ہیں،آنکھیں دو چار ہو گئی ہوں۔جن کے قلب پہ اللہ کا نقش آگیا ہے۔جن کے دلوں پر اللہ کی تصویر آگئی ہے۔جن کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ اُن کو دیکھو تو گویا اللہ کو دیکھا، اُن کو کھلایا،پلایا گویا اللہ کو کھلایا،پلایا۔اُن کی صحبت میں بیٹھے تو گویا اللہ کی صحبت اختیار کی۔اُن ہستیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُن کو اللہ نے انعام دیا ہے اور ایسی ہستیاں مختلف علاقوں میں آتی رہی ہیں۔ہندوستان ،پاکستان میں بیشمار اولیاء عظام آئے۔مصر میں بھی اولیاء عظام آئے،بہت علاقے ہیں جہاں ایسی ہستیاں آتی رہیں ہیں۔ کبھی اسلام میں آئے،کبھی ہندودھرم ،کبھی عیسائی دھرم میں آئے۔اِن لوگوں کی پیروی، اِنکی اتباع کرناصراطِ مستقیم ہو گا۔اِنکی اتباع اِنکے ظاہری اعمال کی اتباع نہیں ہے بلکہ اِن کے جو باطنی اعمال ہیں،جو انکی روحوں کا طریقہ ہے اُس طریقے کو اپنانا اتباع ہے۔یہ ہی بات بابا فرید نے کہی تھی کہ جس راستے سے فرید گزر رہا ہے، روحانی راستہ جو بھی اس راستے سے گزرے گا وہ جنتی ہو گا۔جاہلوں نے سمجھا یہ جو ظاہر میں بیٹھے ہوئے ہیں اس طرف سے گزرنے والا جنتی ہو گا اُنہوں نے وہاں بہشتی دروازہ لگالیا اُنہوں نے اس کو ظاہر میں لے لیا۔بابا فرید نے تو روحانی راستے کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جس روحانی راہ پہ میں چل رہا ہوں جو بھی اس راہ پہ چلے گا وہ جنتی ہو جائے گا ،یہ بات حق ہے کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے اوپر اللہ نے اپنا انعام کیا ہے۔روحوں کو منورکرنا،دلوں کو منور کرنا،قلب کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگا نا،ذاکرِ قلبی بن جانا،ذاکرِقلبی بننے کے بعد نماز پڑھنے ،روزہ رکھنے کا مزہ کچھ اور ہو گا۔
“جیسے جیسے آپ کا قلب منور ہوتا جائے گا تو وہ قلب آپ کو گھسیٹ کے اللہ کی طرف لے جائے گا۔وہ راستہ جس پر گھسیٹ کر دل آپ کو اللہ کی طرف لے جا رہا ہے وہ صراطِ مستقیم ہے،جو دل ربّ کی طرف مائل ہو رہا ہے، نور سے منور ہو رہا ہے ایک ذکر کے نور کی تار یہاں سے اوپر جا رہی ہے،نور کی ایک تار اوپر سے نیچے آرہی ہے جس مقام پہ دونوں مل جائیں گی تو آپ کا اللہ سے تعلق اوررابطہ جڑ گیایہ صراطِ مستقیم ہے”
مندرجہ بالا مضمون 1 مئی 2017 کی نشست سے ماخوز کیا گیا ہے۔