کیٹیگری: مضامین

جہنم کیلئے تخلیق کردہ مخلوقات:

اللہ تعالی کا راضی ہونا اوراللہ تعالی کا ناراض ہونا ایسے نہیں ہوتا ہے جیسے انسان راضی ہوتے ہیں یا ناراض ہوجاتے ہیں۔ اس کے دونکات ہیں ، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ فرمایا کہ

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
سورۃ الاعراف آیت نمبر179

اورہم نے انسانوں اور جنوں کی کثرت کو جہنم کیلئے بنایا ہے۔ جن کو جہنم کیلئے بنایا ہے اُنکی پہچان یہ ہے کہلَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَاکہ اُن کیلئے جو لطیفہ قلب رکھا جائے گا اُن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی۔ يَفْقَهُونَ کا معنی یہ ہے کہ اُن کے قلب کو دین کی فقہ نہیں ملے گی۔ انسانوں کے جو قلب ہونگے وہ باطنی سمجھ اور فہم سے خالی ہونگے۔وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَاکہ اورجواُنکی آنکھیں ہونگی اُن میں باطنی بصیرت نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اندھے ہونگے کیونکہ ابوجہل اندھا نہیں تھا۔ ابوجہل کو نظر آتا تھا لیکن اُس کی آنکھوں میں بصیرت نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ آنکھوں کو باطنی بصیرت جس روحانی لطیفے سے ملتی ہے وہ اُس بصیرت سے خالی ہوگا اور یہاں مراد ہے کہ لطیفہ سری یعنی وہ لطیفہ سری سےخالی ہوگا۔وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَاکہ اور اُن کو جو آسمانوں سے زمین پر جبرائیل اور ملائکہ کی پکاراورجو اللہ کی آواز آتی ہے اور جواُن کے پاس سماعت ہوگی وہ اُس کو سننے سے عاری ہونگے۔ جیسا کہ شبِ قدر کو بھی بہت آوازیں آتی ہیں لیکن لوگوں کو سنائی نہیں دیتی۔ ملائکہ بھی آتے ہیں لیکن عام لوگوں کو نظر نہیں آتے یعنی باالفاظِ دیگر جن لوگوں کو اللہ نے جہنم کیلئے بنایا ہے اگر وہ کسی مرشدِ کامل کو پکڑ بھی لیں تو نہ کبھی اُن کاقلب بیدار ہوگا اور نہ ہی کوئی اور لطیفہ بیدار ہوگا۔ اُن کے لطائف کی زندگی ختم ہوچکی ہوگی۔ وہ جو لوگ ہیں جن کو جہنم کیلئے بنایا اور جن کے لطائف بیکار ہیں اور جن میں نہ بصیرت ہے، نہ سماعت ہے، نہ فہم ہے اور نہ ادراک ہے ایسے لوگوں کیلئے کہا کہأُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِکہ وہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں اور اُس کے بعد اللہ نے فرمایا کہبَلْ هُمْ أَضَلُّبلکہ وہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کوغفلت کے پردوں میں ڈال دیا ہے یعنی باالفاظِ دیگرجن کو جہنم کیلئے بنایا ہے اُن کے لطائف جاری نہیں ہونگے۔

ہدایت اور گمراہی کا دارومدار کس پر ہے؟

اللہ تعالٰی نے سورۃ فاتحہ میں فرمایا کہ

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
سورۃ فاتحہ آیت نمبر7 تا 5

سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ان دو لفظوں میں راز چھپا ہے۔ انھی دو لفظوں کا مفہوم وہابیوں نے اور مولویوں نے بگاڑ کے اُمت میں بربادی پھیلادی۔إِيَّاكَ نَعْبُدُکہ تیری عبادت کرنا چاہتے ہیںوَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُاوروہ تب ہی ممکن ہوگا جب تیری مدد شاملِ حال ہو کہ وہ عبادت کیسے کریں یعنی ہم تیری مدد کے ساتھ ہی تیری عبادت کرنے کے قابل ہونگے۔ تمہاری عبادت کیلئے تمہاری مدد چاہئے اور تمہاری مدد کے بغیر عبادت نہیں ہوسکتی۔ اگر آج کا مولوی اس سے متفق ہے تو وہ لوگوں کو نماز کا طریقہ سکھا کر کیسے کہہ سکتا ہے کہ اُس نے لوگوں کو عبادت کا طریقہ سکھا دیا اور مولوی نے لوگوں کو نماز کے مسائل اور وضو کرنا سکھا دیا لیکن قرآن میں تو فرمایا گیا ہے کہ رب کی عبادت کے قابل اُس وقت ہونگے جب رب کی مدد ملے گی اور رب کی مدد کے بغیر ہم عبادت کے قابل نہیں ہوسکتے۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ وہ مدد کیا ہے! وہ مدد یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو اللہ چاہے گا اُس کو دے گا۔ اب آپ کو تو پتہ نہیں کہ اللہ کہاں ہے تو آپ اللہ سے ہدایت کیسے لیں گے اوراُس کی مدد کیسے پائیں گے۔ اس مدد کیلئے اللہ نے انبیا ومرسلین،صالحین اوراولیاء کا گروہ بنایا ہے یہ وہ ہیں جن کو اللہ نے سکھایا ہے کہ تم جاؤاور میرے بندوں کو میری بندگی سکھاؤ۔ یہ انسانوں کو بندگی سکھاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اللہ کا اِذن ہوتا ہے اور جس انسان کیلئے اِذن ہوتا ہے اُسی انسان کی مدد ہوسکتی ہے۔ نماز کا طریقہ سکھانا عبودیت سکھانا نہیں ہے بلکہ وہ جو ہمارے اندر روحیں بیٹھی ہوئی ہیں اُن پر سے پردے ہٹانے ہیں اور اُن روحوں کو اللہ اللہ میں لگانا ہے۔ یہ دلوں اور روحوں کا اللہ اللہ میں لگنا عبودیت ہے اور اللہ کی مدد اولیاوانبیاء اور شہداء کے بغیرممکن نہیں ہے۔اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَکہ ہم کو سیدھا راستہ دکھا۔صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْکہ اُن لوگوں کا راستہ جن لوگوں کو تم نے اپنی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْکہ ہمیں اُن کے راستے پر نہیں چلنا جن سے تم ناراض ہو۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ ہمیں اُن کے راستے سے بچنا ہے کہ جن کو تم نے اپنے غضب سے بنایا۔ اُردو میں غضب کا مطلب ہے غصہ۔غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْکہ ہمیں اُن کے راستے پر نہیں چلنا ہے جن پر آپکا غصہ منکشف ہوا ہے۔ یہ غصہ آج نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ازلی بات ہے۔ جن روحوں کو جہنم کیلئے بنایا ہے ان لوگوں کو بنایا ہی اُس تجلی سے ہے جو اللہ کے غصے کی تجلی ہے۔ اللہ کسی کو پیدا کرنے کے بعد ناراض نہیں ہوتا بلکہ اپنی ناراضگی سے تخلیق کرتا ہے۔ جن کو ناراضگی کے جلوئے سے تخلیق کیا ہے اُنھی سےہمیشہ ناراض رہتا ہے اور جن کو ناراضگی کے جلوئے سے تخلیق نہیں کیا اُن سے ناراض نہیں ہوتا۔اللہ کا مزاج ایسا ہے۔
جہنمی لوگوں کی پہچان یہ ہوگی کہ اُن کا قلب جاری نہیں ہوگا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تم نے ذکر لے لیا ہے اورایک مہینہ ہوگیا ہے لیکن اگر قلب جاری نہیں ہورہا ہے تو اب رؤاور گڑگڑاؤ کیونکہ یہی ایک پہچان ہے کہ تم کون ہو۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اتنے غریب خاندان سے تھا اوراتنا بڑا افسر لگ گیا ہوں اگر اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا، اتنا بڈھا ہوں اتنی صحت ہے اگر کرم نہیں تو اور کیا اور پھرسرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اگر تم اسی چیز کو کرم سمجھتے ہو تو یہ چیزیں تو کافروں کے پاس بھی ہیں اور جو کافروں کو دیں وہ تم کو بھی دیں تو تم پر کیا کرم ہوا۔ اگر تم دیکھنا چاہتے ہو کہ تم پر رب کا کتنا کرم ہے تو اس دل کو اللہ کے ذکر میں لگانے میں لگ جاؤ اور اگر ایک دو یا سات دن میں دل اللہ اللہ کرنے لگ جائے تو اللہ کا کرم ہی کرم ہے کہ اُس نے تم کو اپنے نام لیواؤں میں رکھا۔ اگر محنت کے باوجود اور رونے گڑگڑانے کے باوجود بھی دل کے اندر اللہ کا اسم داخل نہیں ہوتا ہے تو تم پر اللہ کا کوئی کرم نہیں اور اگردل نے صرف ایک دفعہ بھی اللہ کہہ دیا تو سمجھ جاؤ کہ تم اُس کے بندوں میں سے ہو جن سے وہ کبھی ناراض نہیں ہوتا۔ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں توماں بار بار اُن کو دیکھتی ہے کہ زندہ ہے یا زندہ نہیں ہے تو اگر سانس آرہا ہوتا ہے تو ماں سمجھ جاتی ہے کہ زندہ ہے اور بے پرواہ ہوکر سوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک دفعہ بھی دل نے اللہ کہہ دیا تو مرشد سمجھ جاتا ہے کہ یہ ازلی مؤمن ہے ورنہ ایک دفعہ بھی دل اللہ کہہ نہیں سکتا۔إِيَّاكَ نَعْبُدُپروہ اُترتا ہے جس کا دل اللہ اللہ کرتا ہے اوراللہ کی مدد،رضا اور حکم کے بغیریہ دل اللہ کا نام لے ہی نہیں سکتا ہے اور اگر لے رہا ہے تو پھر کرم ہی کرم ہوگیا۔
یہ صرف سیدنا سرکار گوھر شاہی کی کرم نوازی اور فضل ہے کہ ہم جیسے گناہگاروں کو سرکار گوھر شاہی نے گوارہ کیا اور اپنے قدموں میں جگہ دی ہے اور کرم کی دلیل یہ ہے کہ لوگ اتنے گناہگار ہیں لیکن پھر بھی اُس کا کرم ہوگیا۔ کرم ایسے ہوا کہ اللہ فرمائے کہ یہإِيَّاكَ نَعْبُدُکے درجے پر کیسے فائز ہوگئے تو جواب آئےإِيَّاكَ نَسْتَعِينُکہ کسی مہربان نے آکر میری زندگی سجادی۔ جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے اُن کا دل اللہ اللہ نہیں کرتا اور جن کا دل اللہ اللہ کرلیتا ہے وہ ہم اور تم جیسا بھی ہو تو وہ کرم والا یعنی مکرم کہلاتا ہے جس پر کرم ہوگیا ہو۔ سارا کا سارا رازإِيَّاكَ نَسْتَعِينُمیں ہے کہ اُس کا مددگار ڈھونڈ لو یعنی اچھا وکیل کرلو۔ کچھ وکیل ایسے بھی ہوتے ہیں جو جج کو مجبور کردیتے ہیں کہ میرے حق میں فیصلہ دو اور خاص طور پر جب جج کو پتہ ہو کہ سامنے جو وکیل کے کوٹ میں کھڑا ہے یہ جج سے بڑے درجےکا ہے۔ یہ کہلانے کی حد تک وکیل ہے ورنہ یہ خود کفیل ہے اور اسی کی کفالت پر پوری کائنات چلتی ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کون ہیں کہ آپ اللہ کے پیارے ہو یا جہنمی ہو یا دشمنِ خدا ہو تو اس کیلئے بھی ایک روحانی طریقہ ہے جس میں زیادہ سے زیادہ سات دن میں پتہ چل جاتا ہے کہ تم کون ہو،کہاں سے آئے ہو اور کہاں تک جاؤ گے۔ اسمِ ذات اللہ کا جو ذکر ہے اس کا ازن لے لیں اور جب دل میں اللہ کا نام اُتر جائے توتم ازلی مومن ہو۔
قرآن مجید میں یہ بھی لکھا ہے کہ

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ الزمرآیت نمبر22

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِکہ جس نے اپنی شرح صدر کرلی اور محفوظ ہوگیا۔فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِتو پھر شرح صدر والا اپنے رب کے نورپرگامزن ہوگا۔فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِکہ اُس کی ساری عبادتیں،سجدے،نمازیں،زکوٰۃ،عید،شبِ برات ،روزے،شبِ قدراورشبِ معراج سب ضائع ہوجائیں گیقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِاُن لوگوں کی کہ جن کے صرف جسموں اور زبانوں پر ہی صرف حج،روزہ اور زکوٰۃ ہے اور دل اندر سے اتنے سخت ہیں کہ اسمِ اللہ دلوں میں داخل ہی نہیں ہوتا اور زبانوں سے ہی صرف اللہ اللہ کرتے ہیں۔ اگر دل کی سختی کا یہ عالم ہے کہ کوشش کے باوجود بھی دل میں اسمِ ذات اللہ داخل نہیں ہورہا توأُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍیہی لوگ ہیں جو کُھلی گمراہی میں ہیں۔ جوگمراہی ہے وہ گناہوں کا نام نہیں ہے کہ اس نے اتنے روزے چھوڑدئیے،اس کی اتنی نمازین قضا ہوگئیں،اس نے کبھی حج نہیں کیا، یہ کلب میں ناچتا رہتا ہے یا شرابیں پیتا رہتا ہے بلکہ یہ گناہ ہیں، یہ گمراہی نہیں ہے۔ اگر دل میں اللہ کا نور داخل نہ ہو تو یہ گمراہی ہے۔ راستہ دل سے ملتا ہے اور اگر دل پتھر سے زیادہ سخت ہوگیا ہے تو رب کا راستہ نہیں ملے گا اسی لئے قرآن نے دل کی تاریکی کو گمراہی کہا ہے۔ رب کا راستہ دل سے ملتا ہے اور اگر اس دل میں رب کا نور اور اسم داخل نہیں ہورہا تو سمجھ جاؤ کہ رب کیلئے تمہارا دل غیر ہے اور تمہارا رب سے تعلق نہیں ہے۔ اگر تمہارا رب سے تعلق ہوتا تو اللہ کا نام اور نور تمہارے دل میں فوراً داخل ہوجاتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ
سورۃ آل عمران آیت نمبر191
ترجمہ: اُن کی پہچان یہ ہے کہ اُٹھتے بیٹھتے کروٹوں کے بل بھی ذکراللہ ہوتا رہتا ہے۔

یہ جو نمازیں بغیر ذکرِ قلب کے پڑھی جارہی ہیں،جو امامے باندھے جارہے ہیں اور جو داڑھیاں رکھی جارہی ہیں،جو انگلیوں میں پتھراور دل بھی پتھر ہیں۔ اگر دل میں اسمِ ذات داخل نہیں ہوتا تو یہ ساری عبادتیں غارت جائیں گی۔ ہدایت اور گمراہی کا تعلق اور دارومدار قلب پر ہے۔جس کے دل میں اسمِ اللہ اُتر گیا وہ مؤمن ہے اور وہ ہدایت یافتہ ہے۔ جس کے دل میں کوشش کے باوجود بھی اسمِ اللہ داخل نہیں ہوتا تو وہ گمراہ ہے۔ اگر دل میں نور اُتر گیا اور اب جسمانی طور پر کوتاہی ہوگئی اور عبادتوں میں نہیں بھی لگا تو اللہ اُس کیلئے نکتہ نواز بن جائے گا۔ یومِ محشر میں پہلا سوال یہ ہوگا کہ کیا تم قلبِ سلیم لائے ہو۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے فرمایا کہ

إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورۃ الشعراء آیت نمبر89

اللہ اُسے بخشے گا جو قلبِ سلیم لایا۔ ہدایت اور گمراہی دونوں کا تعلق انسان کے قلب سے ہے۔

اللہ پر ایمان لانے کی کیا نشانی ہے؟

قرآن مجید میں میں آیا ہے کہ

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورۃ التغابن آیت نمبر11
ترجمہ:اور اللہ اُس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔

اور پھر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ

أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ
سورۃ المجا دلۃ آیت نمبر22
ترجمہ: اُن کے دلوں پر اسمِ ذات اللہ نقش کردیتا ہے۔

اگر دل اللہ اللہ کررہا ہے تو پھر اللہ تم سے ناراض نہیں ہوگا کیونکہ اللہ ناراض اُنھی سے ہوتا ہے جن کو ناراضگی کی تجلی سے بنایا ہے۔ اگر اُس سے نہیں بنایا تو اللہ ناراض نہیں ہوگا۔ جیسا کہ حجاج بن یوسف ایک بہت بڑا ظالم آدمی تھا۔ اُس نےکعبے پرچڑھائی کی، دس ہزار مسلمانوں کا مدینے میں قتل کیا اور اُس نے اپنی بہن سے نکاح کیا۔ ایک دن حجاج بن یوسف اپنے لشکر کے ساتھ جارہا تھا تو اُس نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک بزرگ لیٹے ہوئے ہیں۔ اُس بزرگ کا نام حسن بصری تھا۔ حجاج بن یوسف نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو اُس کے لوگ پریشان ہوگئے کہ اگرحجاج بن یوسف کو بتا دیا کہ یہ اللہ کے ولی ہیں تو وہ حسن بصری کو قتل نہ کردے۔ اس لئے حجاج بن یوسف کا لشکر خاموش رہا لیکن حجاج بن یوسف کے باربار پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ وہ اللہ کے ولی ہیں۔ یہ سنتے ہی حجاج بن یوسف نے حسن بصری کے پاؤں چوم لئے اور کچھ عرصے بعد حجاج بن یوسف کا انتقال ہوگیا۔ اُس دور کے اولیاء نے خواب میں دیکھا کہ یہ ظالم انسان جنت میں ٹہل رہا ہے تو لوگوں نےحضورﷺکی بارگاہ میں سوال کیا کہ یارسول اللہ! حجاج بن یوسف تو بہت ظالم آدمی تھا۔ آپﷺنےفرمایا کہ اُس نے حسن بصری کے پاؤں چوم لئے تھے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ اگر کوئی ازلی مومن ہے تو یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ رب کو ناراض نہیں کرسکا۔ اُن کیلئے رب نے نکتہ ڈھونڈا۔ بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ
اک نقطے وچ گل مُکدی اے
اک نقطہ یار پڑھایا ہے
پھڑ نقطہ چھڈ کتاباں نوں
بند کر کفر دیاں باباں نوں

وہ نقطہ یہی ہے کہ دل میں اللہ کا نور چلا جائے اور اُنہی کو بخشا جائے گا۔ اگر ان لوگوں کودنیا میں ہی کوئی سہارا مل گیا تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں ملا تو یومِ محشرمیں ان کو حکم ہوگا کہ دیکھو تم نے کوئی بھلائی کی ہو۔ پھر یہ انتظار میں ہونگے اور اتنے میں دیکھیں گے کہ بہت سواری آرہی ہے تو شان و شوکت ایسی ہوگی کہ یہ لوگ سمجھیں گے کہ کسی نبی کی سواری ہے اور قریب آئیں گے تو کہیں گے کہ یہ کوئی ولی ہے۔ جب یہ کہیں گے کہ ولی تو ہمارے دور میں بھی تھا اور دیکھیں گے کہ یہ ہمارے دور کا ولی نہ ہو اور دیکھ کر پہچان جائیں گے اور شور مچا مچا کر کہیں گے کہ میں نے اسے وضو کرایا تھا۔ اُس دن معلوم ہوگا کہ کسی نے ولیوں کو ٹماٹر کھلادیا تھا تو اس کا مطلب کیا ہے، کسی نے پانی کا گلاس پکڑا دیا تو اس کا کیا مطلب ہے۔ یہاں تونمازیں، عمرے اور حج کر کر کے متھا گِس گیا لیکن پھر بھی یار نہیں منا سکے لیکن یہ کون ہیں جن کو پانی بھی پلا دیا تو اللہ نے فرمایا کہ جاؤ بخش دیا۔ کچھ لوگ پھر بھی کھڑے رہ جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم نے وضو وغیرہ نہیں کرایا یا کچھ کھلایا پلایا بھی نہیں تو یہ لوگ جواب دیں گے کہ نہیں۔ پھر آخر میں حکم ہوگا کہ اب یہ بتاؤ کہ کبھی تم نے اسے دور سے ہی پیار سے دیکھا تھا تو کہیں گے کہ ہاں جی ایک دفعہ پیار سے دیکھاتھا تو پھر ان کی بھی بخشش ہوجائے گی۔ اسی لئے ایک دفعہ ابوبکر صدیق مولا علی کے چہرے تو تک رہے تھے تو بی بی عائشہ نے اپنے والد سے پوچھا کہ باباجان آپ علی کے چہرے کو باربار کیوں تک رہے ہیں تو ابوبکرصدیقؓ نے کہا کہ بیٹا میں نے حضوؐرسے سنا ہے کہ

النظر الی علی عبادۃ
مستدرک الا الصحیح، الحاکم، جلد 3، صفحہ 152
ترجمہ:علی کے چہرے کودیکھنا عبادت ہے۔

یہ الفاظ ایسے ہیں لیکن بات وہ ہے کہ پیار سے بھی دیکھا تو بخشا گیا۔ اگر دل اللہ اللہ میں لگ گیا تو یہی ہدایت کی دلیل ہے۔ جو تم عبادتیں کرتے ہو یہ بندگی کا ثبوت ہے جو لوگوں کو دیتے ہو ورنہ اللہ کو تو پتہ ہے تم کون ہو۔ ہدایت اور کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ دل اللہ اللہ کرے اور گمراہی ک راستہ ہے کہ دل میں اللہ کا نور،ذکر اور اسم داخل نہ ہوسکے۔ یہ عطا سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی کے نعلینِ مقدس سے ہورہی ہے کیونکہ کائنات میں کوئی نہیں ہے جو اذنِ ذکرِ قلب دینے کا متحمل ہو۔ سوائے سرکار گوھر شاہی کے کسی کے پاس یہ طاقت نہیں ہے۔ پوری کائنات اور پوری انسانیت کی بقا سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کے قدموں میں ہے۔ یہ کوئی نیا فرقہ نہیں ہے بلکہ یہ فرقہ قرآن کا ہے کیونکہ آپ لوگوں نے قرآن کا چلیپا کر دیا ہے اور مولویوں نے کبھی بتایا نہیں کہ شرح صدر کیسے ہوتی ہے ۔ آج کو دور میں بڑے بڑے علماء میرے الفاظ استعمال کررہے ہیں ورنہ کبھی اُن کی زبان سے نہیں سنا تھا کہ تصفیہ قلب اورتزکیہ نفس کیا ہوتا ہے لیکن اُن کو پتہ پھر بھی نہیں ہے کہ تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کیا ہے۔ یہ صرف اپنی بقا کیلئے کہ یہ جو تعلیماتِ گوھر شاہی عام ہورہی ہے یہ ایک انقلاب آرہا ہے اوراگر ہم نے اپنی جھونپڑی سلامت رکھنی ہے تو ہم نے بھی اس انقلاب کی زبان بولنی ہے اور ایسی باتیں کرنی ہیں۔ لیکن یاد رکھنا کہ دلوں کو زندہ کرنے کی طاقت اس وقت کئنات میں سوائے سرکار گوھر شاہی کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ دلوں کو زندہ کرنے کی طاقت صرف سرکار گوھر شاہی کے پاس ہے۔ سرکار گوھر شاہی نے تنے تنہا پوری انسانیت کا ذمہ اُٹھا رکھا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے5 جون 2019 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس