کیٹیگری: مضامین

مرشدِ کامل کون ہوتا ہے؟

طریقت اورروحانیت میں جوسب سے اہم ترین نکتہ ہے وہ مرشد ہے۔ عبادات میں کمی رہ جائے اور گناہ بھی ہوجائیں لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے۔ اگر کچھ بھی نہ کرے توتب بھی طریقت کی گاڑی چلتی رہتی ہےلیکن اگرمرشد ناراض ہوجائے توسب کچھ ختم ہوجاتا ہے۔ عام طورپر تو لوگ یہی جانتے ہیں کہ مرشد نے وظیفہ بتایا اور آپ وہ وظیفہ کررہے ہیں تو فیض ہورہا ہے یا پھرمرشد نے ذکرِ قلب دیا اوردل اللہ اللہ کررہا ہے اوربس یہی فیض ہورہا ہے لیکن درحقیقت مرشد کی ذات سے فیض کیا ہوتا ہے اورمرشد کی وہ تعریف جونبی پاکؐ نے بیان فرمائی ہے اُس بات کا کیا مطلب ہے! کسی صحابی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مرشد کیا ہوتا ہے توآپؐ نے فرمایا وَيُحْيِي وَيُمِيتُ کہ مرشد وہ ہوتا ہے جو زندہ کرتا ہے اورجوماردیتا ہے۔ مرشد کی یہ پہچان نبی کریمؐ نے بیان فرمائی ہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ مرشد زندگی دیتا ہے اور مرشد موت بھی دیتا ہے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! مرشد زندہ کرنے سے کیا مُراد ہے اورمرشد ماردیتا ہے سے کیا مُراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ

مرشد قلب کوزندہ کردیتا ہے اور نفس کوماردیتا ہے۔

یومِ محشر میں بخشش کس بنیاد پر ہوگی؟

فیضِ پیہم اُسے کہتے ہیں کہ جومسلسل ملتا رہے۔ نبی پاکؐ نے فرمایا کہ

اِنَ اللہ لَا یَنظُراِلَا صُورَکُم وَ اَعمَالَکمُ وَلاَ کِن یَنظُر اِلَا قُلوبِکمُ وَ نیِاتَکُم
ترجمہ: اللہ تعالی نہ آپ کی صورت کو دیکھتا ہے، نہ اعمال کودیکھتا ہے بلکہ وہ قلب اورنیت کو دیکھتا ہے۔

متعدد احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ یومِ محشرمیں جوبخشش ہوگی وہ اعمال کی بنیاد پرنہیں ہوگی بلکہ اللہ کے فضل سے ہوگی۔ اورمندرجہ بالا حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالی تمہاری صورت اوراعمال کو نہیں دیکھتا تواُس حدیث سے یہ بات پکیّ ہوجاتی ہے کہ اللہ نہ آپ کے اعمال کودیکھتا ہے اورنہ ہی فیصلہ سازی میں اِس کا حساب کتاب ہوگا۔ اللہ تعالی جوآپ کوبخشے گا توآپ کواپنے فضل سے بخشے گا۔ جواللہ کا فضل ہوگا وہ اولیاء، انبیاء، فقراء اورمرشدوں کے ذریعے حاصل ہوگا۔ جس نے اِن کے ساتھ اچھا معاملہ رکھا ہوگا وہ اللہ کے فضل کے مستحق ہوجائیں گے کیونکہ اللہ تعالی بہت بڑا سخی ہے اوراُس کی ایک عادت یہ ہے کہ وہ کسی کا احسان لیتا نہیں ہے۔ اگرتم نے کسی اللہ والے کیلئے کچھ کردیا توبس اب اللہ تعالی نے اُس کا بدلہ تمہیں ضروردینا ہے۔ اگرتمہاری عبادتیں رد ہوجائیں تو ہوجائیں لیکن یہ جوکام ہے کہ تم نے کسی اللہ والے کے ساتھ کچھ اچھا کردیا یعنی وضوکرادیا، پانی پلا دیا، کھانا کھلادیا یا پیارسے دیکھ ہی لیا تواللہ تعالی تجھے اِس کا بدلہ ضروردے گا۔ اِس کا بدلہ نیکیوں کی صورت میں نہیں ہوتا ہے، وہ بخشش کی صورت میں ہوتا ہے کہ جا تجھے معاف کیا۔

مرشد سے انسان کو فیض کیسے ملتا رہتا ہے؟

اِنَ اللہ لَا یَنظُراِلَا صُورَکُم وَ اَعمَالَکمُ کہ اللہ نہ تمہاری صورتوں کودیکھتا ہے اورنہ اعمال کودیکھتا ہے وَلاَ کِن یَنظُر اِلَا قُلوبِکمُ وَ نیِاتَکُم لیکن وہ تمہارے قلب اورتمہاری نیت کودیکھتا ہے۔ قلب کودیکھنا توبات قابلِ فہم ہے کہ اِس کوبڑی آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ چمکتے ہوئے دلوں کو دیکھے گا لیکن نیت کس چیزکوکہتے ہیں! نیت کو اُردو میں اِرادہ کہا جاتا ہے۔ اب اگر آپ لفظ “مُرید” پرغورکریں تومُرید اُس کوکہتے ہیں جس کا ارادہ ہو۔ اگرارداہ کی جگہ عربی کا لفظ نیت لگادیں توپھر کیا ہوجائے گا کہ جس کی نیت ہو۔ اب جومرید ہوگیا ہے اوراِرادے کے ساتھ آیا ہے کہ اللہ کوپانا ہے۔ مرید مرشد کے پاس اللہ کوپانے کیلئے آیا تواللہ کوپانا اُس کا اِرادہ اُس کی نیت ہے۔ مُرید کا مطلب ہے کہ وہ جواللہ کوپانے کا اِرادہ لایا ہے۔
مُرید لفظ ارادے سے نکلا ہے تو کسی کا مرید ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ مرشد سے اللہ کا ارادہ رکھتا ہے۔ اب فرض کیا کہ مرشد نے مرید کوبیعت کرلیا توجب بیعت کرلیا تواب دوکام ہونگے۔ مرشد مرید کے قلب کواسمِ ذات اللہ سے زندہ کردے گا۔ جب اسمِ ذات اللہ سے قلب زندہ ہوگیا تواب مرید ذاکرِقلبی بن گیا۔ ذاکرِقلبی بننا مرید ہونے کی تیاری ہے کیونکہ ابھی مرید نہیں ہوا ہے۔ مرید تب ہوگا کہ جب اُس نے جواللہ کا ارادہ کیا ہے توجب وہ اللہ سے جڑجائے گا تووہ مریدِ کامل بنے گا۔ دینِ اسلام اورروحانیت میں جونیت یعنی ارادہ ہے جیسے کسی کی شادی ہوتی ہے توعورتیں مہندی لگاتی ہیں۔ جب اُن سے پوچھتے ہیں کہ کس کے نام کی مہندی لگائی ہے توپھرکہتی ہیں کہ فلاں ابنِ فلاں کے نام کی مہندی لگائی ہے۔ اسی طریقے سے یہ اِرادہ ہے کہ اللہ کا ارادہ کیا ہے۔ جسطرح عورت مہندی لگاتی ہے اسی طرح جو مرشدِ کامل ہوتا ہے وہ مرید کے ارادے اور نیت کو رب سے جوڑتا ہے۔
مرشد کے قلب میں اللہ ہے اورمرید کے قلب میں ذکراللہ ہے تواب مرید کے ارادے کورب سے جوڑنا ہے تومرشد کے قلب سے ایک نورکی تارمرید کے قلب کوجڑجاتی ہے اوریہاں سے وہ کام ہوتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ میں جو بچہ پل رہا ہوتا ہے وہ ٹیوب کے ذریعے ماں کی کوکھ سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جوماں کے پیٹ میں بچہ نو مہینے تک پل رہا ہے وہ کھانا یا پانی نہیں پیتا لیکن وہ جوتارلگی ہوئی ہے اُس کے ذریعے ساری غذایت اُس کے اندرجاتی ہے لیکن بچہ کچھ نہیں کرتا نہ کھاتا نہ پیتا۔ جو ماں اوربچے سے تارجڑی ہوئی ہوتی ہے توبچہ پیدا ہونے کے بعد وہ تارکاٹ دیتے ہیں۔ اسی طریقے سے مرشد کے قلب سے نورکی ایک تارمرید کے قلب سے جڑجاتی ہے۔ اب مرید کا قلب ذکرِاللہ بھی کررہا ہے اورمرشد کے قلب سے نوربھی آرہا ہے، تعلیم بھی آرہی ہے، رازبھی آرہے ہیں اوراسرارورموزِالہی بھی آرہے ہیں۔

مرشد کے قلب سے مرید کے قلب تک تار کا کام ہے کہ
1۔ نور کی فراہمی
2۔ علم و عرفان
3۔ اسرارِالہی
یہ سارا کا سارا کچھ جومرشد کے قلب سے نورکی تارمرید کے قلب تک آرہی ہے اُس کے ذریعے آرہا ہے تومدرسے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سلطان حق باھو نے فرمایا کہ میں کسی اسکول مدرسے میں نہیں گیا بلکہ قرآنِ مجید کا ایک حرف لے لیا “الف” اورالف سے اللہ اللہ کرتا رہا تو حضور پاکؐ نے سینہ منوردیکھا توسینے سے سینہ لگایا توسارا قرآن اِدھرآگیا۔ بلھےشاہ اپنے مرشد کے پاس گئے تومرشد نے پوچھا کہ بلھا کیسے آیا! بلھے شاہ نے کہا کہ رب کوحاصل کرنے کیلئے آیا رب واسطے آیا تومرشد نے کہا کہ
رب دا کی پاوٴنا، ایدھروں پٹنا تے ادھرلاوٴنا
اے بلھے شاہ! رب کا حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ تھوڑا سا رب مرشد کے قلب سے نکالا اورمرید کے قلب میں ڈال دیا۔ یہ جونورکی تارہے اِس نورکی تارکواللہ دیکھتا ہے اور اِسے اللہ نے نیت کہا ہے وَنیِاتَکُم۔ اللہ تمہاری شکلوں کونہیں دیکھے گا کہ تم ہندوستانی ہو، پاکستانی ہو، سری لنکن ہو، امریکن ہو یا برطانوی ہو۔ اللہ یہ نہیں دیکھے گا کہ تمہاری جلد کا کیا رنگ ہے کیونکہ اللہ کو تمہاری شکل و صورت سے کوئی مطلب نہیں اورجس شکل و صورت سے اللہ کوکوئی مطلب نہیں تو اُس کے اعمال سے کیا ہوگا!

نسبتِ باطن سے کیا مراد ہے؟

اللہ لافانی ہے اور وہ صرف دائمی عمل قبول کرتا ہے کیونکہ وقتی عمل فنا ہوجاتا ہے اورقیامت تک باقی نہیں رہتا۔ اللہ لافانی ہے تووہ دائمی وجود پسند کرتا ہے تواللہ نے کچھ بھی ایسا نہیں بنایا جووقتی ہو۔ اللہ نے تمہاری روح کوبنایا ہے جودائمی ہے۔ اللہ تعالی نہ تمہاری صورت کودیکھتا ہے اور نہ صورت کے اعمال کودیکھتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے وَلاَ کِن یَنظُر اِلَا قُلوبِکمُ وَ نیِاتَکُم لیکن تمہارے قلوب اور نیت کودیکھتا ہوں۔ قلب اور نیت دونوں ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مرید کا قلب اللہ کے ذکر سے جاری ہے، اللہ اللہ ہورہی ہے، نوربن رہا ہے، قلب نورکی وجہ سے چمک رہا ہے اوراللہ کی نظروں میں آگیا توپھراللہ نے دیکھا کہ یہ جودل چمک رہا ہے، اِس کوچمکایا کِس نے ہے تواُس نوری تارکوبھی دیکھو جس کوچمکانے والا کون ہے! پھر اللہ نے فرمایا قُلوبِکمُ وَنیِاتَکُم کہ وہ جو تمہاری نیت جو تم مرشدِ کامل سے میرے لئے جوڑی ہے میں اُس نورکوبھی دیکھتا ہوں۔ جودل ذکراللہ والا چمک رہا ہے اِس کواللہ ایک ہی دفعہ دیکھتا ہے اُس کے بعد کبھی دل کونہیں دیکھتا بلکہ صرف نور کی تارکودیکھتا ہے جومرشد کے قلب سے نکل کرمرید کے قلب کوجوڑے ہوئے ہے جسطرح ماں کے پیٹ میں بچہ ماں کے ساتھ خونی تار سے جڑا ہوتا ہے توساری غذایت اُسے وہاں سے ملتی ہے۔ اب اسی طرح

مرشد کے قلب سے مرید کو نوری تارکے ذریعے فیضِ پیہم ملتا رہے گا جوکہ نورکا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ ہے۔ جونورکی تار مرشد کے قلب سے آرہی ہے یہ آپکا سرمایہ حیات ہے۔ یہ نوری تار ہے جس کونسبتِ باطن کہتے ہیں۔

اوراگریہ سلامت ہے توسب سلامت ہے۔ جب یہ نوری تارجڑجائے توکون کونسا لطیفہ چل رہا ہے گننا ہی چھوڑدو۔ ہم بچوں کیلئے اکثرپُھلایا ہوا سوئمنگ پول رکھتے ہیں اورپھراُس میں پائپ سے پانی بھرنا پڑتا ہے۔ ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ پائپ سے پانی آرہا ہے یا نہیں کیونکہ اگرپانی آرہا ہے تووہ بھر ہی جائے گا۔ جب تک نوری تارسلامت ہے تم سلامت ہو۔ یہ تارہٹتی نہیں ہے بلکہ ترقی ہوجاتی ہے۔ جب تمہاری تعلیم وتربیت پوری ہوجائے گی توپھراللہ تم پرتجلی ڈالے گا اورپھرمرشد کی جوتار ہے یہ مرشد سے ہٹ کرپھراللہ سے جڑجائے گی۔ پھراِس کو”حبل اللہ” کہا جائے گا۔ اِسی کو صراطِ مستقیم کہا جائے گا۔ کسی نے مولٰی علی سے پوچھا کہ مولٰی صراطِ مستقیم کیا ہے تومولٰی علی نے فرمایا کہ “میں صراطِ مستقیم ہوں”۔ اگراِس کی تشریح نہ کی جائے توبات بہت پیچیدہ ہوجاتی ہے کہ جب تک مولٰی علی ہمارے درمیان تھے وہ صراطِ مستقیم تھے تواب جب مولٰی علی یہاں سے تشریف لے گئے ہیں اُن کا وصال ہوگیا ہے تواب صراطِ مستقیم کہاں گئی! یہ پیچیدہ بات ہوجاتی ہے اِس لئے اسکی تشریح ضروری ہے۔ اُس کی تشریح یہ ہے کہ

صراطِ مستقیم اُس تارکوکہتے ہیں جوبندے کے دل سے عرشِ الہی تک جاتی ہے۔ وہی حبل اللہ ہے، اُسی کوصراطِ مستقیم کہتے ہیں اورایسے لوگوں کی پیروی کرنا ہی صراطِ مستقیم ہے۔

قرآنِ مجید میں جواللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہ ایسے لوگوں کا راستہ جن پرتیرا انعام ہوا ہے۔ وہ انعام کا مطلب نعمت ہے اوروہ نعمت یہی حبل اللہ ہے۔ جب مرشدِ کامل نے تیری تعلیم پوری کردی تواب تارکا ذریعہ بدلے گا تار نہیں ٹوٹے گی۔ وہی مرشد والی تاراب مرشد کے دل سے ہٹ کراللہ سے جڑجائے گی اور تم ولی اللہ کہلاوٴگے۔ طریقت میں سب سے زیادہ اہم ترین شے جومرشد کے نورکی تارجودل سے جڑجائے وہ سب سے زیادہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کوپتہ چلے اوروہ اپنے مرشدوں کے پاس جائیں اور کہیں کہ کیا آپ نے اپنے قلب سے نوری تارکے ذریعے میرے قلب کوجوڑا ہوا ہے؟ اگروہ مرشد کہہ دے کہ ہاں جوڑا ہوا ہے تو کہیں کہ وہ اسرارورموز اورعلم وعرفان مجھے آہی نہیں رہا توکیا وہ نورکی تارخالی ہے تاکہ لوگوں کوپتہ چلے۔ ہمارے خود انجمن سرفروشانِ اسلام (سابقہ تنظیم) کے لوگ نناوے فیصد جاہل تھے اور جاہل ہیں۔ جب سرکارگوھرشاہی عالمِ غَیبت میں چلے گئے توانجمن والوں نے کہا کہ اب ویب سائٹ پرکچھ نہ لگاوٴکہ جتنا کچھ سرکارگوھرشاہی سے سنا ہے بس وہی لگاوٴ۔ تم تو روحانیت کے علم بردار ہواورتم توروحانیت کا پرچارکرتے ہو توتم کونہیں پتہ کہ مرشد کے قلب سے مرید کے قلب میں نور کی تارجڑی ہوتو اسرارِالہی، عرفان، فیض اورعلم یہ سب کچھ مستقل آتا رہتا ہے رکتا نہیں ہے۔ القاء اورالہام بھی اِسی سے آتا ہے۔ انسان کتابیں نہیں پڑھتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ
سورة النورآیت نمبر35
ترجمہ: اللہ جس کوچاہتا ہے اپنے نورکے ذریعے ہدایت دیتا ہے۔

اُن کوکتابوں سے فیض نہیں ہوتا بلکہ نورسے فیض ہوتا ہے۔ جب نورسے فیض ہوگا تووہ کتابوں کا متبادل کیسے ہوگا اورکیا علم وحکمت بھی آئے گی! جب یہ نورکی تارجڑجائے گی توجوتم بات مدرسوں میں بارہ سال قرآن کی تشریح نہیں سمجھ سکا وہ اللہ کے نورکے ذریعے مرشد ایک سیکنڈ میں تمہارے دماغ میں بھردے گا۔ سب کچھ اسی نورکی تارکے بل بوتے پرہوتا ہے۔

مرشد اور مرید کا حقیقی تعلق کیسے جڑتا ہے؟

سیدنا گوھرشاہی کے ماننے والے وہ ہیں جن کے قلب کوسرکارسیدناگوھرشاہی نے نورکی تارکے ذریعے اپنے قلب سے جوڑرکھا ہے۔ جن کوکبھی روحانیت اورباطنی علم سمجھ میں نہیں آیا یہ وہ لوگ تھے جوعصبیت میں لگے رہے، زبانوں کے توافُت میں لگے رہے، جوکہتے رہے جیسے عربی کہتے ہیں کہ عربی افضل ہیں، گجرخان کے لوگ کہتے ہیں کہ وہاں کی پٹواری سب سے افضل ہے لیکن ہزاروں گستاخانِ گوھرشاہی بھی پوٹھوہار میں رہتے ہیں جوسرکار کی ہی زبان بولتے ہیں اور سرکار کی ہی مخالفت کرتے ہیں، زبانیں عظیم نہیں ہوتیں ذات عظیم ہوتی ہے وہ کوئی بھی زبان بولے۔ پنجابی، اردو، پٹواری یا انگریزی بولے، ذات کی وجہ سےعظمت ہے زبان کی وجہ سے نہیں ہے۔ بھلے ہی آپ کے باپ کا کوئی بھی نام ہو، آپ کے باپ کا نام گھسیٹا رام ہو یا آپ کے باپ کا نام محمد عثمان ہو یا آپ کے باپ کا نام گوھرشاہی خاندان سے جڑا ہوا ہو، فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تواِس بات سے فرق پڑتا ہے کہ سرکارگوھرشاہی کے قلب سے نورکی تارتیرے قلب کوجڑی ہے یا نہیں جڑی ہے۔ یہ تارہے جوانسان کورب تک لے جاتی ہے۔ یہی تارہے جوعظمت کی دلیل ہے۔ اگریہ تارنہ ہوتونہ کوئی سائیں، نہ کوئی معزز، نہ کوئی آل اور نہ کوئی اہلِ بیت ہے۔ اگریہ نورکی تار جڑی ہے توسب کچھ ہے۔ سرکارگوھرشاہی فرماتے ہیں کہ
اُدھرسید قریشی کی کیا پرواہ جوتارکِ قرآن ہے
اہلِ حرفَ اہلِ سیاست سبھی کیلئے اِک فرمان ہے
تھا جو بھی تیری یاد سے غافل وہی حیوان ہے

(سیدنا گوھر شاہی کے منظوم کلام سے ماخوذ)
وہاں یہ نہیں پوچھتے کہ تم جرنل تھے یا کرنل تھے بلکہ وہاں تونوری نسبت کام آتی ہے۔ جس کے دل سے سیدنا گوھرشاہی کی نوری تارجڑی ہووہ کبھی ہِجر، فراق اور تنہا نہیں ہوتا۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

سرکارگوھرشاہی نے فرمایا کہ
اُدھر یہ تو پوچھتے نہیں کہ ادیب تھا شاعرتھا ملّا تھا یا بخاری تھا
دیکھیں گے یہی کہ کتنا نور یہاں (مرشد کے قلب) سے اِس کا جاری تھا

یہ نوری تارہے جس کونیت کہتے ہیں اور یہی وہ شے ہے جوطریقت میں سب سے زیادہ، تمام عبادات سے زیادہ، ذکروفکرسے زیادہ، سب سے زیادہ جوضروری چیزہے وہ یہ نورکی تارہے اورمرشد بھی وہی ہوتا ہے جو یہ نور کی تار لگانے کے قابل ہو۔ کچھ ایسے اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے لوگوں کے قلب جاری کئے لیکن یہ نور کی تار نہیں لگائی۔ نور کی تار لگانا بہت خطرناک کام ہے کیونکہ مرید جوبھی گناہ کرے گا وہ نورکی تارکے ذریعے مرشد کے پاس جائیں گے تومرشد تیرے گناہوں کو کیوں سہے گا! جس کوتارلگائی ہے اُس کوتو مرشد نے خرید لیا ہے۔ ساری زندگی وہ اُس مرشد کا تابعدارہے۔ جان، مال، عزت وآبروسب کچھ مرشد پرنچھاورہے اورنتیجے میں یہ نورکی تارلگی ہوئی ہے۔ اگرآپ قرآنِ مجید کا مطالعہ فرمائیں توآپ دیکھئیے گا کہ یہی نوری تاروالا حصول حضورؐ کے معاملے میں بھی کارفرما تھا۔ جب اللہ تعالی نے فرمایا کہ

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
سورة الشرح آیت نمبر 1
ترجمہ: یا رسول اللہ! کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کی شرح صدر نہیں کردی تھی۔

جو اُردو بولنے والے لوگ ہیں اُن کے نزدیک ایک غلط تاثُر پیدا چکا ہے کہ اگروہ لفظ “عرض” استعمال کریں تواِس کا مطلب ہے کہ کوئی چھوٹا بڑے سے مخاطب ہورہا ہے اوراگراُس کی جگہ لفظ “فرمائیں” کہیں تواِس کا مطلب ہے کہ بڑا چھوٹے سے مخاطب ہے لیکن یہ تصور غلط ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بھی کئی مقامات پریہ لفظ استعمال فرمایا ہے اورکہا کہ اللہ نے اُن سے عرض کی۔ اللہ تو جُھکتا نہیں ہے کیونکہ اللہ سب سے بڑا ہے توپھراللہ ایسا لفظ کیوں استعمال کرے گا! معلوم یہ ہوا کہ اِس لفظ کا معنیٰ وہ نہیں ہے جوآپ سمجھتے ہیں۔ “عرض” سُریانی زبان کا لفظ ہے اور اِس کا مطلب ہے اللہ تعالی نے اُن کو منتخب کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کہ یا رسول اللہ! کیا ہم نے آپ کی شرح صدرنہیں کردی! پھراللہ نے فرمایا کہ

وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
سورة الشرح آیت نمبر 2 تا 3
ترجمہ: اور جو جسمانی عبادتوں کا بوجھ آپ پرتھا، کیا وہ ہٹا نہیں دیا!

جو جسمانی مشقتوں اورعبادات میں لگے ہوئے تھے وہ بوجھ توہم نے ہٹا دیا کیونکہ شرح صدرکردی۔ اب جسمانی مشقتوں کی کیا ضرورت ہے جورات رات بھرنمازمیں کھڑے رہے! پھراللہ تعالی نے فرمایا کہ

وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
سورة الشرح آیت نمبر 4 تا 5

رَفَعْنَا کہ ہم نے اونچائی، بلندی عطا کردی، رفعت عطا کردی۔ لَكَ ذِكْرَكَ آپ کے ذکرکیلئے۔ اِس کا مطلب ہے کہ اب جب کوئی نورانی دل والا “یا محمد” کہے گا تواُس ذکرکورفعت مل چکی ہے وہ فوراً اوپرمقامِ محمود پرجائے گا، زمین پرہی اِدھراُدھرنہیں رہے گا۔ اُس ذکرکورفعت دے دی ہے وہ اُونچا جائے گا۔ تم یہاں پریاد کروگے یا رسول اللہ اُنظَرحَالَنَا اوراگرتیرے دل میں تاب اورطاقت ہے تو پھر یہ نامِ محمد مقامِ محمود تک پہنچ جائے گا کہ یا رسول اللہ! تیرا اُمتی تمہیں زمین پریاد کررہا ہے۔ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کہ یا رسول اللہ یاد رکھیے گا ہرمشکل کیلئے کوئی حل اورآسانی ہم نے بنادی ہے۔ کثرت سےعبادت کرنی ہے اور یہ جسم سے ممکن نہیں ہے مشکل ہے توآسانی یہ بنادی ہے کہ جسم کو سُلا دو اوراندر کوجگا دو۔ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کہ ہرمشکل کیلئے آسانی بنادی ہے۔ مشکل یہ تھی کہ

اذْكُرُوا اللَّـهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
سورة الاٴحزاب آیت نمبر 41
ترجمہ: اللہ کا کثرت سے ذکرکرو۔

کثرت کہاں سے لائیں گے، نہیں ہوسکتا مشکل ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کہ ہم نے ہرمشکل کیلئے آسانی پیدا کی ہے اور یہ کثرت والی مشکل کی آسانی یہ ہے کہ تم سوجاوٴ اوراندر جاگے گا اوروہ کثرت میں اپنے رب کے ذکر، دیدار اور عشق میں مشغول ومصروف رہے گا اور یارسول اللہ آپ خوابِ خرگوش کے مزے لیتے رہیں۔ تبھی توحضورؐ نے فرمایا کہ

تَنَامُ عَيْنِي وَلَا يَنَامُ قَلْبِي
مسند احمد ۔ جلد چہارم ۔ حدیث 2459
ترجمہ: میری آنکھیں تو سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

اب حضورؐ کا منصب یہ ہے کہ آپ نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں، سارا دن لوگوں میں تبلیغ اور دینِ اسلام کی اشاعت کا کام کرتے ہیں تو اُس وقت تودن بھرموقع نہیں ملتا ہے۔ یہاں پرحضورؐ کو مُراقبے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب
سورة الشرح آیت نمبر 7 تا 8

فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ کہ جوآپ کا منصبِ نبوت ہے، دن بھرجب آپ اُس سے فارغ ہوجائیں، رات کا وقت آجائے تواب جسمانی عبادتیں نہیں کرنی۔ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب اپنے اندرکواُدھرلے جانا ہے مراقبہ قائم کرنا ہے۔ جیسا کہ ہم آئی فون خرید کرلے آتے ہیں اوراکثرلوگ یہ کرتے ہیں کہ اگر اُن کے پاس آئی فون بھی ہو تو وہ صرف کال کرنے کیلئے ہی استعمال کرتے ہیں اوراُن کوکچھ نہیں پتہ۔ اگرہم کسی کو دیکھیں کہ اِس کے پاس آئی فون تو ہے لیکن یہ کال کرنے اورسننے کے کچھ کرتا ہی نہیں ہے تو پھرہم اُس کوبتائیں گے کہ اِس کے اندرگُوگل، بیٹری اورفیس بُک بھی ہے تو اِن تمام چیزوں کو استعمال کرو کیونکہ تم نے آئی فون رکھا ہوا ہے لیکن لیپ ٹاپ ڈھونڈ رہے ہو اورکہہ رہے ہوکہ باہر جاتا ہوں تو لیپ ٹاپ کیسے استعمال کروں! آپ باہرلیپ ٹاپ لے کرکیوں جارہے ہیں کیونکہ آئی فون کے اندرسب کچھ ہے توتجھے بتایا جارہا ہے۔ یہاں پرنبی پاکؐ کواللہ تعالی نے یہ سہولت دی ہے اور یہ قرآن میں بیان فرمارہا ہے کہ ساری اُمت سن لے کہ محمدؐ کوتومعلوم ہے کیا سہولت مل گئی ہے تو اب اسے باضابطہ بنانے کیلئے کہ جس جس کا شرحِ صدرہوجائے وہ اِس سنتِ مبارک پرعمل کرے کہ اب جسمانی مشقتوں اورعبادتوں میں نہیں پڑنا، اب اندرکوبیدارکرنا ہے اوراب اندرکوجوان کرنا ہے۔ سارے دن حضورؐ تبلیغ کرتے اورتم سارے دن اپنا کاروبارکرو۔ رات کا وقت آئے فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب وہ منصبِ نبوت تھا اورتم اپنے کاروبارمیں لگے ہوئے تھے تودونوں کو ہٹاوٴ اورجب رات کا وقت آئے تومراقبہ کرکے رب تک پہنچ جاوٴ۔
اُنگلیاں دانت میں دیتے پھرتے، پوچھے ہیں بات ہے یہ کدھرکی
جس جگہ ہے گوھر کا ٹھکانا، بات کرتا ہوں میں بھی اُدھرکی
سارے عُشاق مرشد میں گُم ہیں، ہرشجرکوپڑی ہے ثمرکی
خسرواپنے پیا کی لگن میں، اوربات یونس کرے ہے گوھرکی

یہ کلام اُن لوگوں کوسمجھ میں آتا ہے کہ جن کے دلوں کوسرکارگوھرشاہی نے نورکی تارلگادی ہے۔ یہ تارنہ ہوتوسب بیکارہے۔ اسی تارکیلئے بلھے شاہ نے فرمایا کہ
نہ میں پنج نمازاں نیتی، نہ تسبا کھڑکایا
بلھے نوں ملیا مرشد، جوایویں جا بخشایا

یہاں دل کی بات ہورہی ہے جہاں مرشد نے رب تک پہنچا دیا۔ یہ نوری تار جس کے دل کولگی ہوتواللہ تعالی کی اِس تارکودیکھ کرکے یہ فہم ہوتی ہے کہ اِس کوخریدا ہوا ہے، نورکا پٹا اِس کے گلے میں ڈالا ہوا ہے یہ آوارہ نہیں ہے۔ اِس کا وارث موجود ہے جس نے نورکا پٹا اِس کے دل میں ڈالا ہے تو اب وہ کوٹری میں ہویا ریاض الجنة میں ہو یہ اُسی کا غلام ہے جس کا پٹا ڈلا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کوٹری میں رہے یا لندن میں رہے یا وہ بیت المامورپرانتظارکیلئے بیٹھا ہو یا وہ مریخ چلا جائے یا وہ ریاض الجنة چلا جائے یا کہیں بھی چلا جائے اُس کا پٹا جس کے گلے میں لگا ہوا ہے وہ اُسی کا غلام ہے اور وہ اُسی کے درپرپڑا رہے گا۔ وہ گِرنے والا نہیں ہے، اُس کوکوئی گمراہ نہیں کرسکتا جس کے گلے میں اُس کے مرشد کا نوری پٹا پڑا ہوا ہوتواُس کوکوئی ہرا، ڈرا اوربھگا نہیں سکتا اور اُس پرکسی کی بددعا اثرنہیں کرتی، اُس پرکسی کا کالا جادواثرنہیں کرتا، اُس کے اوپرشیطان کی چالیں نہیں اثرکرتیں، اُس کے اوپرابلیس کے واراثرنہیں کرتے، اس لئے کہ اُس کے گلے میں نور کا پٹا پڑا ہوا ہے اوروہ کسی کی جائیداد اور مال ہے کیونکہ وہ اپنے اختیارمیں نہیں ہے وہ گوھرکا مال ہے جوگوھرسے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اسی مناسبت سے ہمارا ایک شعر بھی ہے
یونسِ مالِ گوھر، گھبراتا ہے کیوں اِس قدر
تُو گوھر کا مال ہے، بس تُو گوھر کے ہاتھ ہے

یہ جوقلب سے نورکی تارنکل کے مرشد اورمرید کے بیچ میں جوایک پُل جس نے بنایا ہوا ہے، یہ سرمایہٴِ ایمان اور خرمنِ ایمان ہے۔ اِسی سے تیرے باطن کی نشونما ہوتی ہے اور اِسی سے تم ننھے ننھے نوری قدموں سے چلتے چلتے رب تک پہنچ جاتے ہو۔ یہی نوری تارشاہرائے خدا ہے.

نوری تار کی نشونما اور کمزوری کیسے ہوتی ہے؟

اِس کی کمزوری اُس وقت واقع ہوتی ہے جب آپ کا گمان مرشد کے بارے میں منفی ہونا شروع ہو جائے اور جب مرشد کے بارے میں بدگمانی آجائے۔ اگرمرشد سے بدگمان ہوجائیں تویہ تارٹوٹ جاتی ہے۔ اِس کے برعکس یہ تاراورزیادہ مضبوط ایسے ہوتی ہے کہ مرشد سے محبت ہوتی چلے جائے۔ جتنی زیادہ مرشد سے محبت ہوتی ہے اُتنی زیادہ ہی یہ تارمضبوط ہوجاتی ہے۔ ایک مقام پرابنِ عباسؓ نے حضورؐ کی بارگاہ میں پوچھا کہ یا رسول اللہ! محبت کیا ہے اور مُحب کسے کہتے ہیں تو نبی پاکؐ نے فرمایا کہ محبت مطیع بنا دیتی ہے۔ مطیع بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کا ظاہروباطن، قلب اور نفس مرشد کے تابع ہوجاتا ہے۔
جس طرف وہ نظر نہیں آتے، ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں
کعبہ بنتا ہے اُس طرف کو ریاض، جس طرف رُخ یہ موڑ دیتے ہیں

انسان کے قلب سے جڑی یہ نورکی تارمضبوط سے مضبوط ہوتی ہے۔ اگرتجھے مرشد سے محبت ہوجائے اورمرشد سے محبت کرنے کا جوظاہری راز ہے وہ یہ ہے من اَحبَ شیئاً اَکثرَ ذِکرہ کہ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ کثرت سے اُس کا ذکرکرتا ہے تومرشد سے محبت بڑھانے کیلئے مرشد کے نام کا وِرد کیا جاتا ہے۔ جیسے نظام الدین اولیاء تھے اور بابا فرید کودیکھا نہیں تھا۔ نظام الدین اولیاء دہلی میں رہتے تھے اور بابا فرید اجودھن شریف جو اب پاکپتن کہلاتا ہے تو جب پتہ چلا کہ پاکپتن میں ایک مردِ کامل موجود ہے توارادہ کرلیا کہ وہ وہاں جاکربیعت ہوجائیں گے۔ جب سے یہ ارادہ کیا اُس وقت سے تسبیح تبدیل کردی۔ اِس سے پہلے اللہ ھوکی تسبیح پڑھتے تھے اور جن بابا فرید کا چہرہ خواب میں دکھا دیا گیا کہ تیرا نصیبہ یہاں ہے اورتجھے اِن کے ہاتھوں پرجاکے بیعت ہونا ہے تو خدا کی عزت کی قسم اُس کے بعد تسبیح بدل گئی۔ اب نظام الدین نے اللہ اللہ نہیں کہا بلکہ اب حق فرید اور یا فرید کی تسبیح شروع کردی۔ حدیث میں بھی ہے کہ

تنزل الرحمة عند ذكر الصالحين
ترجمہ: جب صالحین، اولیاء اور فقراء کا ذکرکیا جاتا ہے تو اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔

یہ نظام الدین اولیاء کی سنت ہوگئی کہ مرشد کے نام کی تسبیح پڑھنا۔ ایک دفعہ پاکپتن بابا فرید کا عُرس تھا اور وہاں پیرمہرعلی شاہ بھی اُس عُرس میں شرکت کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ لوگ جھوم رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے اور وارفتگی کا عالم تھا، بابا فرید کے دیوانے پاکپتن میں بابا فرید کا عُرس منا رہے ہیں۔ مستی کا عالم ہے، نعرے بلند ہورہے ہیں اور آسمانوں تک پہنچ رہے ہیں کہ حق فرید یا فرید۔ ایک غیرمقلد وہابی وہاں آگیا اور پیرمہرعلی شاہ کوکہنے لگا کہ آپ تواتنے عالم فاضل ہیں تواب یہ جوبدعت ہورہی ہے اِس کے اوپرآپ تبصرہ نہیں فرمائیں گے! یہ جوبجائے اللہ کا ذکرکرنے کے لوگ “یا فرید” کا ذکرکررہے ہیں اِس کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرمائیں گے تو پیرمہرعلی شاہ نے کہا کہ نادان تم نے قرآن نہیں پڑھا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
سورة البقرة آیت نمبر152
ترجمہ: تم میرا ذکر کرو تو میں تیرا ذکر کروں گا۔

اے نادان! بابا فرید نے ساری زندگی اللہ کا ذکرکیا اوراب اللہ خلقِ خدا کے ذریعے بابا فرید کا ذکر کررہا ہے۔ مرشد کا جوذکرکرنا ہے، مرشد کے نام کی مالا جپنا ہے، یہ جتنے بھی اولیاء، فقراء اور صالحین آئے ہیں اُنہوں نے یہ تسبیح عبادت کی طرح مکرم، مقدم اورمحترم جان کے ساری زندگی اِس کواپنایا۔ زبان مرشد کی یاد اورذکرسے ترک رکھیں اوراِس کے ذریعے مرشد کی محبت دل میں پیدا ہوگی اوروہ محبت اُس نوری تارکومزید طاقتوربناتی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ جوپائپ کی چوڑائی ہے وہ بھی بڑھ جائے اورنورکا بہاوٴبھی زیادہ ہوجائے۔ جتنے بھی اولیاء، فقراء اورصالحین گزرے ہیں سب نے مرشد کے نام کی مالا جپی ہے۔ سیدنا غوثِ اعظمؓ نے اپنے قصیدہ غوثیہ میں کہا ہے کہ میرے نام سے دل زندہ ہوتے ہیں۔ وہ روحانی جماعت انجمن سرفروشانِ اسلام کے جاہلین جوروحانیت کو جانتے نہیں تھے اُن کویہ بات پتہ نہ چلی کہ شیخ عبدالقادرجیلانی کے نام سے دل زندہ ہوتے ہیں۔ زبان سے غوثِ اعظم کا نام لینے سے زندہ نہیں ہوتے بلکہ جب غوثِ اعظم کا نام دل میں گونجتا ہے تب دل زندہ ہوتے ہیں۔ اگردل کی دھڑکنوں میں غوثِ اعظم کا نام گونج سکتا ہے، سلطان حق باھوکا نام گونج سکتا ہے، لال شہباز قلندرکا نام گونج سکتا ہے توامام مہدی کا نام دل کی دھڑکنوں میں کیوں نہیں گونج سکتا کیسے نہیں گونج سکتا!

رب نے ایسے بھی دل بنائے ہیں جن کی دھڑکنیں یا گوھر یا گوھر یا گوھر کرتی ہیں۔

بات ساری یہ ہے کہ تم کسی شیطان صفت ذاکرِقلبی کے چُنگل میں نہ پھنس جائے۔ انجمن سرفروشانِ اسلام میں چارپانچ ذاکرِقلبی اورننانوے فیصد ڈبہ ذاکرجیسے ڈبہ پیرہوتے ہیں جوروحانیت سے واقف نہیں، طریقت کے اسرارورموز سے واقف نہیں اورجن کویہ ہی نہیں پتہ کہ طریقت میں سب سے اہم ترین شے مرید اورمرشد کا رشتہ ہوتا ہے۔ اگرمرید اورمرشد کا رشتہ مستحکم نہ ہوتوروحانیت میں کوئی ترقی نہیں ہوتی۔ سب سے افضل واعلیٰ شے مرشد کے قلب سے مرید کے قلب کوجونورکی تار آتی ہے وہ مستحکم رہے۔
یقین محکم رہے گوھر پہ تو ہر دوراچھا ہے
جسے گوھر سے اُلفت ہو وہ گنہگار سچا ہے

راہِ حق میں مرشد کے بغیر گمراہی ہوسکتی ہے اورمرشد ہوتوسب کچھ ہوسکتا ہے مگرگمراہ نہیں ہوسکتا۔ یہی گارنٹی ہم کوسرکارگوھرشاہی نے دی تھی۔ ہم نے سرکارگوھرشاہی سے عرض کی کہ آج کل بڑا عجیب معاملہ ہورہا ہے توسرکارگوھرشاہی مسکرا رہے ہیں اورفرمایا کہ بتاوٴکیا ہوا! ہم نے عرض کیا کہ سرکارکیسے بتاوٴں، حلق میرا (یونس الگوھر) ہے، زبان میری ہے اورآواز آپکی آرہی ہے تویہ کیا ہورہا ہے! سرکار نے فرمایا کہ اِس میں گھبرانے کی کیا بات ہے ہم تمہارے دل میں رہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ہم تمہارے دل میں رہتے ہیں تاکہ تم کبھی گمراہ نہ ہوسکو۔ جس کے دل میں مرشد بیٹھا ہو وہ کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اُسکی گارنٹی گوھرشاہی نے لی ہے۔ پوری تنظیم پوری دنیا اگر اُسے گمراہ کہتی رہے تووہی ہوتا ہے جومنظورِگوھرہوتا ہے۔ یہی بات یہی نصیحت ہم سب کوکررہے ہیں کہ مرشد کے ساتھ رشتہ اُستوارکرنا ہے اوراگروہ رشتہ مستحکم ہوگیا توپھراب ڈرنے ڈرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بابا بلھے شاہ نے اسی لئے فرمایا کہ
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبا کھڑکایا
بلھے نوں مرشد جو ایویں جا بخشایا

پھرتم بھی اُس کے مصداق ہوجائے گا۔ روحانیت میں سب سے زیادہ اہم مرید اور مرشد کا باطنی تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ باطنی تعلق ایک سچے مرشدِ کامل کے ساتھ ہی جڑتا ہے۔ جوجعلی پیرہیں اُن کا سینہ توقفل زدہ ہے اوراُن کے سینے سے تونورکی صورت میں کچھ برآمد نہیں ہوتا توایسے لوگوں کی بیعت اورنسبت بس ظاہری لفاظی تک ہی محدود ہے۔ لیکن جوواقعتاً مرشدِ کامل اور کامل ذات ہوتے ہیں تووہ اپنے مریدین کوجوباطنی نسبت عطا کرتے ہیں وہ باطنی نسبت اِس روحانی رابطے پر مبنی ہوتی ہے۔ مرید کا مرشد کے ساتھ روحانی رابطہ قائم ہوتا ہے اورمرشد کے قلب سے تارمرید کے قلب تک پہنچتی ہے اورایک پُل کا کام کرتی ہے اورساری کی ساری فراہمی یا یوں سمجھ لیں کہ یہ سپلائی لائن ہے اِس میں نہ صرف یہ کہ نورجاتا ہے بلکہ قرآنِ مجید کا مغز، کلامِ الہی کا نور، اسرارورموز، علم وعرفاں اورسب کچھ اِس نوری تارکے ذریعے مرشد کے سینے سے مرید کے سینے میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ آپ لوگوں نے بارہا ایک لفظ روحانی اصطلاحات میں سنا ہوگا کہ سینہ بہ سینہ۔ یہ علم سینہ بہ سینہ چلتا ہے اوریہ آپ نے سنا ہوگا لیکن پتہ نہیں ہوگا کہ یہ علم سینہ بہ سینہ کیسے چلتا ہے! وہ اِسطرح سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ ایک مرشد کے دل سے مرید کے قلب میں نورکی تارجڑتی ہے اوروہاں سے سب کچھ منتقل ہوتا ہے۔ یہی طریقہٴِ اللہ ہے اور یہی سنتِ الہی ہے۔

نوری تارکا آغازآدم صفی اللہ سے کیسے ہوا؟

جب آدم صفی اللہ کواللہ تعالی نے زمین پربھیجا تھا توظاہر میں ایک نورکی تاراللہ نے آدم صفی اللہ کے قلب سے جوڑدی تھی۔ آدم صفی اللہ ملکوت جنت میں تھے اوروہاں سے جب اللہ تعالی نے آدم کو عالمِ ناسوت میں بھیجا ہے تواب آدمؑ صفی اللہ عالم ناسوت میں آگئے۔ اللہ تعالی نے رابطے کیلئے ایک نورکی تارآدم کے قلب سے جوڑدی اوراِس کے ذریعے رابطہ رہا۔ لیکن پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اسی لئے اس ظاہر والی تار کو باطن والی تار میں منتقل کر دیا۔
جب اللہ تعالی نے آدم صفی اللہ کو ملکوت سے نکالا اورناسوت میں بھیجا اوررابطے کیلئے نورکی تار لگادی۔ پھراِسی تارکونبوت کا فیض بنا کراُنہیں دیا بھی توفرمایا کہ اب جوجواللہ کے چاہنے والا تمہیں زمین پرملے اُس کویہ تارجوڑنے کا طریقہ سکھاتے جانا۔ اسطرح یہ رب سے رابطہ اورتعلق قائم کرنے کا جونظام ہے یہ پہلی نبوت اورپہلی ولایت یعنی اساسِ نبوة اوراساسِ ولایة ہوگئی۔ اِس نوری تارکےبغیرنہ کوئی نبی بنتا ہے اورنہ کوئی ولی بنتا ہے۔ آپ زمانے کی ساری کتابیں اپنے اوپرلادلیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی روحانی، متقی اور پارسا نہیں بنتا کیونکہ یہ اللہ کا طریقہ ہی نہیں ہے۔ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ تم کواتنی دوربھیجا ہے تورابطے کا ذریعہ توہونا چاہئیے تھا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کوزمین پربھیجے اوراُس سے رابطے کیلئے کوئی آلہ تیارنہ کرے یا اُن کورابطے کیلئے کوئی سہولت نہ دے، یہ ممکن نہیں ہے۔ آدم صفی اللہ جوتعلیم لائے وہ یہ تعلق جوڑنے والی تعلیم لے کرآئے۔ اِس تعلیم کوکوئی بھی نبی آکرکیسے جھٹلاسکتا ہے! اِس تعلیم کے بغیر تووہ نبی، نبی نہیں ہوسکتا تواِس تعلیم کوکوئی بھی نبی اورمرسل جھٹلا کیسے سکتا ہے! اِس تعلیم کے حصے ہوئے اوراِس تعلیم کا کچھ حصہ سِکھ مذہب میں چلاگیا اورکچھ حصہ سناتن دھرما میں چلاگیا۔ سناتن دھرما بھی اِسی تعلیم کے ماننے والے ہیں اورسِکھ دھرم بھی اِسی تعلیم کے ماننے والے ہیں۔
“اک اُن کار” کا مطلب ہے اللَّـهُ أَحَدٌ۔ اک اُن کارسناتن تواُن کی تعلیم بھی یہی ہے۔ سِکھ دھرم بھی توحید پرست ہے اور ایک خدا کوماننے والے ہیں۔ اُس کے بعد جب ابراہیمؑ آئے تواُن کوبھی آدم صفی اللہ کے دین پرعمل کرنا پڑا تاکہ یہ تارلگے۔ اُس کے بعد جب موسیؑ آئے تواُن کوبھی اِن پرایمان لانا پڑا اورپھرجتنے بھی انبیائے کرام آئے یہ تار ضروری ہے، یہ بنیادی نبوت ہے۔ آدم کا دین ہردین کا حصہ ہے کیونکہ اِس کے بغیررب سے رابطہ ہی نہیں ہوسکتا۔

حبل اللہ اور صراطِ مستقیم:

جو یہ نورکی تارہے یہ تاراللہ تعالی خود جولگاتا ہے وہ نبیوں کولگاتا ہے اوراُن کو لگاتا ہے جنکو ولایت کیلئےمنتخب کر لیتا ہے۔ اِس تارکوقرآن مجید نے حبل اللہ کہا ہے۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
سورة آل عمران آیت نمبر103

قرآن مجید کے مترجمین نے نجانے کیوں “حبل” کا مطلب رسی کہا۔ جب قرآنِ مجید میں یہی لفظ حَبْلِ الْوَرِيدِ کے طورپرآیا توانہوں نے اِسے شہ رگ نس کہا۔ “نس” وہ ہوتی ہے جس میں خون کا بہاوٴ ہوتا ہے۔ آپ کی اُمت کے علمائے کرام نے یہ بہت بڑی زیادتی کی اور یہ زیادتی آج تک جاری ہے اور دینِ اسلام کوآج تک بھی اِس کو پہ مال کیا جارہا ہے۔ قرآنِ مجید میں جب حبل الورید کا ذکرآیا کہ

نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
سورة ق آیت نمبر 16

اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ میں اُن کی شہ رگ تو یہ نس ہوگئی۔ نس کا کام ہے کہ اُس میں خون کا بہاوٴہو۔ پھرحبل اللہ کا مطلب ہے کہ اللہ کی رگ۔ اِس کا مطلب رسی نہیں ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلواورپھرکہا کہ یہ قرآن ہی اللہ کی رسی ہے۔ اگرقرآن اللہ کی رسی ہوتا توتہترفرقے اِسی قرآن کوپڑھنے کے باوجود شیعہ، سنی، وہابی اوردیوبندی بنے ہوئے ہیں توپھرتم فرقوں میں کیوں بٹ گئے؟ یہ اللہ کی رگ ہے جواللہ کے وجود سے آرہی ہے جسطرح ماں کے پیٹ میں جب بچہ بنتا ہے تووہ ایک تارہوتی جس کے ذریعے بچے میں ساری غذائیت اُس کے اندرپہنچتی رہتی ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں کوئی کھانا پینا تونہیں کرتا۔ زندہ رہنا تودورکی بات وہ زندگی کے مراحل سےگزرہا ہے لیکن پھربھی نہیں کھا رہا۔ باہرنکلنے کے بعد تواُس کوزندگی کوبرقراررکھنا ہے۔ ابھی تووہ تخلیقِ حیات کے مراحل سے گزرہا ہے۔ اِسی طرح یہ اللہ کے وجود کی ایک نس ہے ایک رگ ہے جوآدم کے دل سے جڑی ہوئی تھی۔
مولویوں سے پوچھوکہ اُنہوں نے یہاں اللہ کی رسی کیا لیکن حبل الورید میں رسی کیوں نہیں کیا! جتنے بھی بڑے بڑے نامور اورصوفی سکالرزہیں اِن سب نے اِس رسی کوپکڑا ہوا ہے۔ اگراِن کوپتہ ہوتا کہ یہ رسی نہیں ہے اللہ کی رگ ہے تب اِن کوحیات ملتی۔

انسان کی رگ میں خون بہتا ہے لیکن اللہ کی رگ میں نوربہتا ہے۔ جوحبل اللہ ہے یہ جواللہ کی رگ ہے اِس کے اندراللہ کی ذات سے نورکا بہاوٴہوتا ہے اورآدم تک جاتا ہے۔

جب آدمؑ نیچے آگئے تواب اُنہیں کہا کہ جومیں نے تم کوحبل لگائی ہے اب جوجومجھ سے رابطے میں آنا چاہے یہ حبل لگانے کا طریقہ اُس کو سکھا دو۔ حبل اللہ مرشد کو جڑی ہے اورپھرایک چھوٹی سی نورکی تار(حبل الصغیرہ) مرشد اپنے دل سے مرید کے دل کوجوڑدیتا ہے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ مرشد مرید کے دل کواسمِ ذات اللہ سے جاری کردیتا ہے۔ پھراسمِ ذات کا رگڑا لگتا رہتا ہے اورنوربننا شروع ہوجاتا ہے۔ ذکراللہ ہورہا ہے “اللہ ھو، اللہ ھو” اورنور بن رہا ہے۔ اِدھرسے نوربھی دل میں جارہا ہے اور جو مرشد کے دل سے تارآرہی ہے اِس سے نور، علم وعرفان، نورِالہی، اسرارِالہی آرہے ہیں اور اِس دل کی تعلیم وتربیت ہورہی ہے۔ یہ جوذکرِقلب کا نورہے اورجومرید سے نورآرہا ہے یہ دونوں ملتے ہیں اورپھرقطرہ بہ قطرہ مرید کے قلب سے نوراوپرجاتا ہے۔ جب اللہ دیکھتا ہے کہ نوراوپرچڑھ رہا ہے تواُدھرسے بھی نورآنا شروع ہوجاتا ہے۔ اب یہ اُس آیت کی تفسیرہے کہ

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
سورة البقرة آیت نمبر 152
ترجمہ: تم میرا ذکرکرو اور میں تیرا ذکرکروں گا۔

اِس آیت کی مزید تشریح بیان کرتے ہیں کہ جب تم نے اللہ کا ذکرکیا تویہ ذکراللہ کا نوراوپرگیا اور أَذْكُرْكُمْ کہ اللہ نے تمہاری طرف نوربھیجا۔ پھریہ دونوں مل گئے اور یہ پوری تیری رب سے جڑگئی۔ یہ صراطِ مستقیم ہے۔ اللہ سے وہ رابطہ نبیوں اورولیوں کوآیا، تم ولیوں سے جڑگئے اورجب تم اُن سے جڑگئے توانہوں نے تم کودوطرف سے نوردیا۔
1۔ ایک توتمہارے دل کواللہ اللہ میں لگایا۔
2۔ پھراپنے سینے سے بھی نوربھیجتے رہے۔
اِدھرسے بھی نورآرہا ہے اوراُدھرسے بھی نورآرہا ہے توپھرتمہاری ترقی ہوتی رہی۔ پھرتمہاری تار اللہ سے جرگئی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگرتم نبی یا ولی ہو تو یہ تارحبل اللہ کہلاتی ہے۔ اگرتم موٴمن ہوتویہ تارصراطِ مستقیم کہلاتی ہے۔ بات ایک ہی ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ یہ صرف اللہ کی طرف سے نورنیچے آرہا ہے تمہاری طرف سے نہیں اور مرید میں یہ ہے کہ کچھ تیری طرف سے کچھ اللہ کی طرف سے۔ دونوں کی طرف سے محبت کا پیغام آیا ہے۔

مردہ دل لوگ کون ہیں؟

اِس ذکراللہ کیلئے حضورؐ نے فرمایا تھا وہ ذکراللہ جس کے ذریعے دل سے نور اُٹھے اوراللہ کی ذات کے ساتھ جاکرجڑجائے اور نوری تار کی شکل اختیارکرجائے ایسے ذکرکیلئے فرمایا تھا کہ

مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لاَ يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الحَيِّ وَالمَيِّتِ
صحیح بخاری، جلد سوم، دعاوٴں کا بیان، حدیث نمبر 1356
ترجمہ: ذکرکرنے والا زندہ اورنہ کرنے والا مردہ ہے۔

حضورؐ نے زبانی ذکرکیلئے نہیں فرمایا تھا کیونکہ زبانی ذکرتوطوطا بھی کرلیتا ہے۔ اِسی طرح قرآنِ مجید میں ایک آیت آئی اور اللہ تعالی نے فرمایا کہ

إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
سورة النمل آیت نمبر 80
ترجمہ: یارسول اللہ! تم مردوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکتے اور اندھوں کو اپنی آوازنہیں پہنچا سکتا۔

وہابیوں نے کہا کہ جو لوگ مرگئے اور قبروں کوچلے گئے تواِن تک آوازنہیں پہنچا سکتا اور وہ سُن نہیں سکتے۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں اِس کا جواب موجود ہے۔ یہ اُن کیلئے کہا تھا جن کے دل مرگئے ہیں اورجن کی روحانی زندگی ختم ہوگئی ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

خَتَمَ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ
سورة البقرة آیت نمبر 7
ترجمہ: اللہ تعالی نے اُن کے دلوں کی زندگیوں کو ختم کردیا ہے۔

دین اسی طرح تباہ ہوا کہ تمہیں کچھ نہیں آتا اور تم صوفی اسکالر بن گئے اور پیربن کربیٹھ گئے۔ آج تو نامور مولوی ہیں اور دنیا اُن کو سلُوٹ مارتی ہے اور اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ محمد الرسول اللہ کا انتقال ہوگیا تو اب جوتم صلوة والسلام پڑھ رہے ہو وہ سُن نہیں سکتے اور کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن کی بات کررہے ہیں۔ قرآن کی بات جوتم کررہے ہوتوتم نے قرآن کوصحیح سمجھ لیا ہے! قرآن کو اگر صحیح سمجھا ہوتا توپھراپنے نبی کومردہ نہ کہتے۔ علامہ اقبال نے حضورؐکی شان میں یہ کہا تھا کہ
ہم توجیتے ہیں زمانے میں تیرا نام رہے
کیسے ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے

اگرمحمدؐ کا دین زندہ ہے، اگرقرآن باقی ہے، فیضِ نبوتِ محمد الرسول اللہ باقی ہے تومحمد الرسول اللہ کیسے مرسکتے ہیں! جولوگ کہتے ہیں کہ حضورؐختم ہوگئے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا باطن ختم ہوگیا، جن کی روحیں مرگئیں، جن کا دل مرگیا اور اندرسوائے بوسیدہ ہڈیوں کے کچھ نہیں بچا، یہ وہ مردہ دل لوگ ہیں۔ یہ بات اُن لوگوں کیلئے کہی گئی کہ جن کا اندرمرچکا ہے۔ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ یہ اةن لوگوں کیلئے ہے کہ جولوگ پلٹ کرآئیں اورتیری مخالفت کریں۔ اب اگریہ مردہ لوگوں کیلئے ہوتا تویہ جملہ کہاں سے آتا کہ جو مخالفت میں پلٹ کرآئیں! اگریہ مردوں کیلئے ہے توکیا مردے قبرسے اُٹھ کر حضورؐکی مخالفت کولوٹ کرآرہے تھے؟ خاص طور پر إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ کہ جب وہ لوٹ کرآئیں۔ مردے سُن اور دیکھ نہیں سکتے لیکن لوٹ کرآسکتے ہیں، یہ کونسی بات ہوگئی۔ یہ اُن کیلئے کہا گیا ہے جن کے دل مردہ ہیں اور جن کے دلوں پراللہ تعالی نے قفل لگا دیا ہے۔ یہ تعلیم فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ ہے۔

مرشد کی صحبت کے مرید پر روحانی اثرات:

اِس تعلیم کے ذریعے انسان اپنے دل کومنورکرتا ہے اورپھردل کے منور ہونے کے بعد اِس تعلیم میں مرشد کی طرف سے جونوری تارلگی ہوئی ہوتی ہے وہ اُس منوردل کو مزید طاقتوربناتی ہے۔ اُس نوری تارکے ذریعے وہ دل سے نوراب اوپرجاتا ہے۔ اگروہ نوری تارنہ ہو صرف ذکرِقلب ہوتوکبھی بھی وہ نوراوپرآسمان کی طرف رب کی طرف نہیں جاسکتا۔ ذکرِقلب تمہیں ذاکرِقلبی بنائے گا لیکن تم ولی نہیں بن سکتا اور تمہارا تعلق باللہ پیدا نہیں ہوگا۔ تعلق باللہ اُن کا پیدا ہوا کہ جن کے پاس ذکرِقلب بھی تھا اورپھراُس نورکواوپرچڑھانے کیلئے باطنی کرین بھی تھی۔ دل میں نورتوبن رہا ہے تواُسے اوپرکون لے کرجائے گا؟ قرآنِ مجید میں ایک سورة المعارج ہے اور معارج کا مطلب ہی یہی ہے کہ کیسے بتدریج دل سے عرش تک انسان کی روحیں پہنچتی ہیں۔ معارج کا مطلب ہے چھوٹی چھوٹی سیڑھیاں جواوپرجارہی ہیں۔ جومرشد کے دل سے تارآرہی ہے یہ ہرعبادت، ذکر، ذکرِروح، ذکرِقلب اور ذکرِانا سب سے افضل ہے۔ ہم نے بھی یہی کہا ہے لیکن ہم سے پہلے داتا علی ہجویریؓ نے کہا تھا۔ داتا علی ہجویری نے کہا تھا کہ اے خوش بخت! اگرتم مرشد کی بارگاہ میں بیٹھا ہے تومرشد کی موجودگی میں ذکرکرنا حرام ہے۔ مرشد کی موجودگی میں ذکرکرنا اِس لئے حرام ہے کہ ہوسکتا ہے تمہارے ذکرکی آوازسے مرشد جورب میں مستغرق رہتا ہے مُختل ہوجائے۔ تیرے ذکرکی آوازسے مرشد جودیدارِرب میں مستغرق ہے اُس سے وہ مُختل ہوجائے اورتجھے ذکرکرنے سے نجانے نور ملے یا نہ ملے لیکن جوتم مرشد کی صحبت میں بیٹھے ہوتواُس کے اوپرتواللہ کی تجلیات کا نزول ہے۔ تیری ایک ہزارسال کی زندگی میں صبح شام کیا ہوا ذکر ایک تجلی کے برابرنورنہیں بنا سکتا۔ اِس لئے مولانا جلال الدین رومی نے فرمایا کہ
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء۔۔۔۔۔۔ بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ایک لمحہ جوکسی ولی کی صحبت میں گزارلیا وہ سوسال کی بے ریا عبادت سے افضل ہے کیونکہ اُس سوسال کی بے ریا عبادت میں تمہیں کوئی نظرِرحمت میسرنہیں آئے گی اورمرشد کی صحبت میں نجانے کتنی تجلیات تیرے اندراورباہرکو منور اور روشن کردیں۔ روحانیت میں جوسب سے زیادہ اہم شے ہے وہ نوری نسبت ہے۔
ایک دفعہ وہابیوں اور مولویوں نےسیدنا گوھر شاہی پر جھوٹے کچھ کیس بنا دیئے توہمارے کوٹری آستانے پرپولیس نے ریڈ کیا توجو ذاکرین وغیرہ تھے جن کا سرکارگوھرشاہی سے نوری رشتہ جڑا ہوا تھا اُن کوکوئی ڈرخوف نہیں تھا لیکن خاندان کے افراد طارق چچا تھے اُن کواتنا ڈرلگا کہ وہ بھاگنے کیلئے دیوارسے کُودے اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔ سرکارگوھرشاہی کی بارگاہ میں جب عرض کیا گیا توسرکار نے فرمایا کہ یہ خونی رشتے والے ہیں اِس لئے اِن کے اوپروہ اثرنہیں ہوا۔ اگراِن کا دل بھی ہماری نوری نسبت باطنی نسبت سے جُڑا ہوتا توکبھی بھی خوف نہ آتا اورکبھی بھی یہ دیوارسے چھلانگ نہ لگاتے اورآج دیکھو پیربن کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ جوباطنی تعلق ہے یہ ازخود نہیں بنتا بلکہ یہ بنایا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگرکوئی ولی ہے تواُس کا بھائی خودکارولی بن جائے گا یا والد صاحب خودکارولی بن جائیں گے۔ جب سرکارگوھرشاہی جنگل نہیں گئے تھے توکیا جو سید فضل حسین ہیں اللہ اُن کی مغفرت فرمائے، کیا اُس وقت سید فضل حسین، چچا پرویز اور چچا طارق اپنے آپ کوولی سمجھتے تھے تو آج خود بخود کیسے بن گئے! خود بخود توکوئی نہیں بنتا اور نہ یہ تعلیم ہم کودی جاتی ہے۔ ہمارے پاکستان میں بھیڑچال ہے۔ سرکارگوھرشاہی کی نسبت سے اب سرکارکے رشتہ دار پنجاب سے کوٹری آرہے ہیں جن میں کوئی ماموں، سالا، بھتیجا، بھانجا اورکوئی کچھ اورکچھ ہے۔ اب ذاکرین سب کے ہاتھ چوم رہے ہیں۔ مجھے (یونس الگوھر) کوکوٹری شریف میں جب موقع ملتا تومیں لوگوں کوبتاتا کہ تم نے فلاں شبیربھائی کے ہاتھ کیوں چومے اوراُنہوں نے کہا کہ وہ سرکارگوھرشاہی کے خاندان سے ہیں توپھرمیں نے کہا کہ حضورؐ کے خاندان نے کیا بگاڑا تھا تو ابوجہل کے بھی سب لوگ ہاتھ چومتے۔ یہ خاندان کا لفظ جوانہوں نے استعمال کیا یہ بہت بڑے فتنے کا شکارہوا۔ کوئی ماموں آیا تواُس کے بھی ہاتھ چوم رہے ہیں اورپوچھا گیا کہ یہ کون ہے توبتایا کہ یہ دورکا کوئی رشتہ دار گوجرخان سے آیا ہے۔ ہاتھ بھی چومے، سب کچھ کیا، عزتیں بھی ملیں اورپھر یہ ہوا کہ جتنے بھی رشتہ دارتھے ہمارے ذاکرین نے اُن کے ہاتھ بھی چومے اورعزت بھی کی اور پھرہررشتے دار نے دس دس پندرہ بیس ذاکرین کواپنی طرف کھینچ لیا، اپنے کام نکلوانے شروع کردئیے کہ پیسہ لاوٴ، اُن کی خدمت کرواوراُن کوخرافات میں لگا دیا۔ یہی سلسلہ جاری رہا، واقعہ غَیبت ہوگیا اور میں (یونس الگوھر) نے لوگوں کوسمجھانے کی کوشش کی توسب نے مل کرمیرے خلاف اتحاد کرلیا۔ اُنیس سال ہوگئے لیکن میرا کیا بگاڑا تو اِس میں میری بڑھائی نہیں ہے بلکہ اِس میں حقیقت یہ ہے کہ مجھے سرکارگوھرشاہی نے اپنی باطنی، نوری، قلبی اورروحی نسبت عطا کرکے مجھے یہاں بٹھایا ہے۔ جو اِس حقیقت کومان لے گا اُس کے دل کوہم حبلِ ریاض سے جوڑدیں گے اورجونہیں مانے گا اُس کا اپنا قصورہے اوروہ خودہی محروم رہ جائے گا۔ ہم توآج بھی تیارہیں کہ اگرطلعت آکرکے کہے کہ اُس کے دل کوبھی حبلِ ریاض سینہٴِ ریاض سے جوڑدوتومجھے اوپر والے کی قسم ہے کہ اگرنہ جوڑوں تومیرا نام بدل دینا۔ کوئی بھی آجائے لیکن وہ کیوں آئیں گے کیونکہ اندرتونفس کا کُتا بیٹھا ہے، انانیت، حسد، بغض وعناد اورسب سے بڑی بات کہ اگراُن کی منزل گوھرشاہی ہوئی توتب آئیں گے۔ اگرکسی کی منزل گوھرشاہی نہیں ہے بلکہ صرف ولدیت ہے توپھر اُس سے کوئی کام نہیں بنتا۔ ولدیت ایمان کیلئے ضروری نہیں ہے کیونکہ اگرایمان کیلئے ضروری ہے توولایت کیلئے بھی ضروری ہونی چاہیئے تھی۔ اگرولایت کیلئے ولدیت کا خانہ ضروری ہے تونبوت اور رسالت کیلئے بھی ہونا چاہئیے تھا۔ اگرہے توابراہیمؑ کا باپ کافرکیوں تھا؟ اِس سے فرق نہیں پڑتا کہ تیرے باپ کا نام گوھرشاہی ہے اور میں کسی ایرے غیرے کا بیٹا ہوں بلکہ فرق اِس سے پڑتا ہے کہ میرے سینے سے کس کی تار جڑی ہے۔ اگرتیرے سینے سے گوھرشاہی کی تارجڑی ہے توپھر تیرے سینے میں اورعرشِ الہی میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ یہ نسبتِ گوھرشاہی ہے جونوری تارکی صورت میں جُڑتی ہے تواُس سے سب کچھ آتا ہے۔ ولدیت کے خانے میں اگرمحمد الرسول اللہ بھی لکھا ہو توکوئی فرق نہیں پڑتا اوراگردل کے خانے میں یہی نام لکھا ہوتوپھریہی دل مسکنِ یارہے۔

روحانیت میں سب سے زیادہ افضل چیز کیا ہے؟

یہ تارچلّوں اوروظیفوں سے نہیں جڑتی بلکہ یہ توپہلے رگڑا لگایا جاتا ہے تاکہ تمہیں آزمائیں کہ یہ سچا ہے یا نہیں ہے۔ یہ جوبارہ سال کا چلّہ ہوتا ہے اِس بارہ سال کے چلّے میں پورے بارہ سال صرف آزمائش ہی آزمائش ہے کیونکہ کام توآخرمیں ایک سیکنڈ میں ہوجاتا ہے۔ اِن بارہ سالوں میں وہ آزماتا ہے کہ یہ واقعی اِس کے دل میں اِس کی اہمیت کتنی ہے کہ کیا ساری چیزیں اِس کیلئے چھوڑسکتا ہے! پھرجب چھوڑدیتا ہے تونوازدیتا ہے۔ اصل چیزیہ نورکی تارہے۔ ظاہری عبادات لوگوں کودکھانے کیلئے ہیں تاکہ لوگوں کوپتہ چلے کہ یہ اچھا آدمی ہے۔ آپ کے یہ رکوع سجود اللہ دیکھتا ہی نہیں ہے، یہ لوگوں کودکھانے کیلئے ہیں۔ اگرہم نمازنہیں پڑھتے توہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی نماز پڑھیں توپھرہمیں بتانا پڑے گا کہ ہماری تونمازعرشِ الہی پرہوتی ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ تم سوئے ہوئے ہوتوتمہاری نمازعرشِ الہی پرکیسے ہوتی ہے! اب وہ باتیں مشکوک ہیں اوربڑے بڑے بزرگوں نے بھی کہا ہے کہ
خاصاں دی گل عاماں اگے نہیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی

اِس لئے نبیوں اور ولیوں کوبھی نمازیں پڑھنی پڑیں کیونکہ لوگ توتمہارے جسم کودیکھیں گے اور کہیں گے کہ خود توآرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اورہم کونمازمیں لگا دیا۔ پھروہ جوماننے والے تھے جنہوں نے نبی کودیکھا اور جب ماننے والوں کے دلوں میں بھی ہلچل ہوئی اوراُنکا باطن بھی مقامِ محمود تک پہنچا تواُنہوں نے مرشد کووہاں پہلے کھڑا پایا۔ پھراُن کویہ گواہی ہوگئی کہ یہ نیچے تو سورہے ہیں لیکن اوپرپہنچے ہوئے ہیں۔ پھراُن کے سامنے اُنہوں نے یہ لاک ڈاوٴن میں تھوڑی سی نرمی کردی کہ اپنے ہی بیٹھے ہوئے ہیں توڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے سوتے رہو۔ نئے آگئے تو نماز میں کھڑے ہوگئے۔ اُن کے سامنے اِس لئے نہیں کیا کہ اُن کواُدھردکھا دیا کہ تم جدھرپہنچے ہو ہم پہلے وہاں پرامام بن کرکھڑے ہوئے ہیں تواُن کیلئے پھرتھوڑا تھوڑا بے پردہ ہوجاتے ہیں۔ جواصل چیزہے جس کے ذریعے مرشد ماں باپ کی طرح تمہیں پالتا ہے اورتمہاری پرورش کرتا ہے وہ یہ نورکی تارہے۔ مرشد کے سینے سے نکل کے وہ جنگلوں میں گئے، اُنہوں نے چلّے مجاہدے کئے، پتے کھائے، بھوکے رہے اور نجانے کیسی کیسی قربانیاں دیں، اپنی اولاد قربان کردی اوراُس کے بعد نہ چندہ، نہ نظرانہ، نہ کوئی بیعت اورنہ کوئی جان پہچان، نہ کوئی عزم اوراتنا بڑا فیضانِ کرم عطا فرما رہے ہیں۔ اپنے سینے کا نورکُھرچ کُھرچ کے پوری انسانیت کے سینوں میں ڈال رہے ہیں۔ ہونا تویہ چاہئیے تھا کہ اِن کے نام کے علاوہ کسی بھی نام کا وِرد ہی نہ کیا جاتا کیونکہ یہ جو نورکی تاریہاں سے آرہی ہے یہی نورکی تارہے جوآپ کے سینے کوذرخیزبناتی ہے، سیراب کرتی ہے اوریہ جوآپ کا ذکرِقلب ہے یہ توایسا ہے جیسے کوئی ہاتھ میں کشکول پکڑکرسڑک پربھیک مانگ رہا ہو۔ وہ اللہ ھوکے رگڑے سے کتنا نوربنتا ہے کیونکہ تم توسارا دن جھوٹ بولتے ہو، عورتوں کوتاڑتے رہتے ہو، بے ایمانی کرتے ہو، فراڈ کرتے ہو تووہ ذکرِقلب تمہارا چلتا رہے گا! اگر تمہارے ذکرِقلب کے نورپرہی تمہارے ایمان کی گاڑی چلے توبمشکل ڈیڑھ یا دوسیکنڈ چلے بلکہ یہ تو مرشدِ کامل کے نورکی تارہے جوسینے سے لگی ہوئی ہے اورجس کی وجہ سے فرق پڑتا ہی نہیں ہے۔ وہ بحرِوحدت سے صرف نورآرہا ہے۔ اس لئے یہ نورکی تارضروری ہے اور یہ نسبتِ مرشد ضروری ہے۔
آپ سب اپنے ایمان سے بتائیں کیا یہ زیادتی نہیں ہے کہ ترجمہ کرنے والوں نے “حبل الورید” میں بھی حبل ہی آیا تووہاں اِس کا مطلب رگ لکھا اورجب “حبل اللہ” آیا توکہا کہ اللہ کی رسّی۔ اگریہاں پر بھی رگ ہی لکھتے کہ اللہ کی رگ جڑی ہوئی ہے اوراللہ کی رگ کوڈھونڈوتواللہ کی رگ جب ڈھونڈو گے توپھروہ کسی جسم میں ملے گی کیونکہ رگیں توجسم سے جڑتی ہیں، رسی جسم سے نہیں جڑتی۔ تم کوتوانہوں نے گمراہ کرنا تھا اِس لئے کہا کہ رسّی ڈھونڈو کہیں لٹک رہی ہوگی۔ اگریہ رگ کا ذکر کرتے پھرتم کسی جسم کے اندرحبل اللہ ڈھونڈتے۔ وہ جسم یا مولی علی کا ہو، یا وہ غوثِ اعظم کا جسم ڈھونڈتے یا لعل شہبازقلندرکا جسم ڈھونڈتے اوریا پھرگوھرشاہی کوہی ڈھونڈ لیتے۔ اگرتم کوپتہ ہوتا کہ یہ رگ ہے تورگ جسم میں ہوتی ہے۔ ترجمہ کرنے والوں نے کہا کہ اِس کورسی کردواوروہ رسی اتنا مشہورہوئی کہ اِن سب کے گلے کا پھندا بن گئی کیونکہ تم اُمتی ہی نہیں رہے، تم وہابی، سلفی، اہلحدیث، سنی، بریلوی اورشیعہ ہوگئے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سارے فرقے غلط ہیں کہ نہ سنی سہی، نہ بریلوی، نہ وہابی اورنہ شیعہ سہی توسہی وہ ہے جہاں سے یہ نکلے ہیں۔ یہ اُمت سے نکلے ہیں۔

یومِ محشرمیں اُمتی کی پہچان اوربخشش کیسے ہوگی؟

ایک عالم نے کچھ دن پہلے کہا کہ سارے انبیاء یومِ محشرمیں دوزانوں پرکھڑے ہوکرکہا کہ نفسی نفسی نفسی کہ اے اللہ مجھے معاف کردے اوراُن کواُمت کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی اوراُن کواپنی بخشش کی پڑی ہوئی ہوگی لیکن تم لوگ ایسے عالم کی باتیں سُن کرعش عش کراُٹھتے ہو۔ کیا تم نے دین کو چھوڑدیا ہے کیونکہ دین ہم کوکہتا ہے کہ انبیاء اُمتیوں کی بخشش کرائیں گے۔ اگریومِ محشر میں نبی کواپنی بخشش کی پڑی ہوگی اوراُمت کا ذکرہی نہیں کرے گا توپھرہمارا اُمتی ہونا بیکار ہے۔ اگر انبیائے کرام کا بھی یومِ محشرمیں بُرا حال ہوگا توعام آدمی کی توپھربات ہی نہ کرو۔ دوسری بات یہ کہ کیا یہ دین کے خلاف بات نہیں ہے کہ ایک نبی یومِ محشرمیں کھڑا ہوکراللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ رہا ہے اورہمارا عقیدہ اورایمان یہ ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اُس سے کوئی گناہ نہیں ہوتا تونبی بخشش کس بات کی مانگے گا! آج کل بھیڑچال ہے کہ کیا بات ہے کیا بات ہے لیکن وہ جو عالم یہ باتیں آپ کے سامنے کررہا ہے یہ سب دین اور قرآن کے خلاف ہے۔ اگرنبی بھی اپنی زندگی گناہوں کی یومِ محشرمیں پرواہ کرے گا توہمارا توتصورِدین ہی تباہ ہوگیا کیونکہ ہم کوتوبتایا گیا ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اورنبی کے گناہ نہیں ہوتے۔ جب نبی کے گناہ نہیں ہوتے ہیں تویومِ محشرمیں وہ اپنی اُمت کوچھوڑکے اپنی بخشش اپنے گناہوں کوبخشوانے کیلئے رورہا ہوگا یہ ہم کیسے مان لیں! پھرایک حدیث شریف میں آیا کہ

قیامت کے دن اُمتی کی پہچان نور سے ہوگی۔

جن کے دل “یا رحمٰن” سے چمک رہے ہونگے وہ خود بخود پہچان لیں گے کہ یہ موسٰیؑ کے اُمتی ہیں اِن کوجانے دو۔ “یا قدوس” سے چمک رہے ہیں توعیسٰیؑ اورجو”اللہ ھو” سے چمک رہے ہونگے یہ حضور پاکؐ کی اُمت ہے۔ اُمتیوں کے دلوں میں جواِسم کا نورہوگا اُس کی وجہ سے وہ پہچانے جائیں گے اور کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا اُن کے جونبی ہونگے وہ بخشش کیلئے رورہے ہونگے۔ یہ اِن کی زبان کا پہیا ہے علم الکلام جوگھومتا رہتا ہے، گستاخی پرگستاخی، نادانی پرنادنی اور لوگ رو رہے ہیں، عش عش کررہے ہیں، واہ واہ کررہے ہیں کہ واہ وا مولانا کیا بات ہے اورمولانا صاحب آپ کے دین کی دھجیاں بکھیررہے ہیں۔ ہمارے دین میں توسب سے پہلے یہی لکھا گیا ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ نبی اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش مانگ رہا ہے اور اُس کو تو اُمتیوں کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ پھرآپ یہ دیکھیں کہ یہ احادیث میں لکھا ہوا ہے کہ نبی پاکؐ نے حضرت عمراور مولا علی کواپنا جبّہ دے کراویس قرنیؓ کے پاس بھیجا اورکہا کہ میرا سلام کہنا، میرا جبّہ دینا اور اویس سے کہنا کہ میری اُمت کی شفاعت کیلئے دعا کریں۔ اویس قرنی اگراُمت کی شفاعت کرسکتے ہیں توپھرایک نبی نہیں کرسکتا! جودین کے بنیادی ستون ہیں اُنہی کوآپ تباہ کررہے ہیں یعنی یہ نبی کی جومعصومیت کا پہلوہوتا ہے اُس کے اوپریہ کاری ضرب ہے کہ یہ لوگوں کے ذہنوں سے تصور مٹادوکہ نبی یومِ محشرمیں تمہارے کام آسکتا ہے اوریہ تصورپیش کردوکہ نبی تو خود اپنی بخشش کی بھیک مانگ رہا ہوگا تاکہ یہ جونبی کے نعرے لگاتے ہیں، الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ اور یہ جو نبی کے عشق کے دعوے کرتے ہیں اِن کا ایمان تباہ و برباد ہوجائے۔ یہ ابلیس کی سازش ہے۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی سازش کو بے نقاب کیا اور کہا کہ
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا۔۔۔۔۔۔۔ روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو

یہ جوروحِ محمدؐ ہے یہ ایمان ہے۔ اگرروحِ محمدؐ، عشقِ محمدؐ اور محبتِ محمدؐ قلب اور سینے میں نہ ہو توکوئی اسلام نہیں ہے۔
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

حضورؐ کی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 2 تا 3 مئی 2020 کو بزمِ مرشد کی لائیوخصوصی نشریات میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس