کیٹیگری: مضامین

حقیقت میں اعتکاف کرنا کیا ہے؟

یہ تو درست ہے کہ اعتکاف لیلةالقدر کو ڈھونڈنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈھونڈا کیسے جائے؟ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ اسپتال ہے تو یہاں اسپتال اِس لئے ہوتا ہے کہ علاج کیا جائے تو آپ کو علاج کا بھی تو پتہ ہوگا نا کہ علاج کیسے ہوتا ہے! اگر آپ کو کوئی آپریشن کرانا ہے تو آپریشن ہوگا اُس کے ذریعے علاج ہوگا یا آپ کو کوئی دوائی دینی ہے تو دوائی لکھ کر دیں گے اُس کے ذریعے آپ کا علاج ہوگا۔ اِسی طریقے سے جب آپ اعتکاف کرتے ہیں تو اعتکاف میں شبِ قدر آپ ڈھونڈتے کیسے ہیں؟ قرآن پڑھ کر، نوافل پڑھ کر! اُس کیلئے تو آپ گھر پر بھی پڑھ سکتے ہیں قرآن بھی پڑھ سکتے ہیں نوافل بھی پڑھ سکتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ نہیں یکسُو ہونے کیلئے مسجد میں اعتکاف کرتے ہیں تو یکسُو گھر پر بھی ہوسکتے ہیں۔ گھر والوں کو اُن کے میکے میں بھیج دیں، اندر باہر سے تالا لگاکر گھر پر بیٹھ جائیں آپ کو کوئی تنگ نہیں کرے گا۔ پھر اعتکاف کیا ہے! یہ جو اعتکاف تھا اور یہ جو تراویح تھیں یہ نبی پاکؐ نے خاص صحابہ اکرام کو سکھائی تھیں۔ اِسی لئے حضورؐ نے کبھی بھی باجماعت تراویح عام طور پر نہیں پڑھائی۔ بعد میں خرابی جو پیدا ہوئی ہے اب جو تروایح باجماعت مسجد میں ہوتی ہیں یہ حضورؐ کے عمل سے ثابت نہیں ہیں۔ اِن کو مستقل بیس رکعت تراویح باجماعت جو مسجد میں ادا کرنے کا جو حکم نامہ جاری کیا تھا وہ عمربن خطاب نے کیا تھا۔ نبی پاکؐ نے نہیں کیا اور نہ حضورؐ نے کبھی کسی پر زور دیا کہ تم تراویح ہرحال میں پڑھو، کہیں نہیں ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری پر کہہ رہے ہیں آپ ڈھونڈ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاکؐ نے کبھی آٹھ رکعت پڑھائی ہیں، کبھی بارہ رکعت، کبھی سولہ اور کبھی بیس تاکہ اِس کو کوئی معمول نہ بنالے۔ یہی بات اعتکاف کیلئے تھی۔ چند صحابہ اکرام کو دیکھا تو باقی سب نے نقل کرنا شروع کردیا نقالیہ زندیق ہوگئے۔ اب اگر آپ تراویح اور اعتکاف کی نقل کریں گے تو آپ کو کیا ملے گا! ہم تو آپ کو کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں، جاکے کسی بھی حدیث کے دفتر کھنگال کر دیکھ لیں حضورؐ نے کبھی بھی تراویح کا معمول نہیں بنایا۔ آپ اپنے گھر پر پڑھ سکتے ہیں۔ آپ کی مرضی ہے، نہ بھی پڑھیں تو خیر ہے۔ یہ تو نقل کی کہ باقی سب نے تراویح پڑھنا شروع کردی اعتکاف کرنا شروع کردیا لیکن جب نبی کریمؐ نے اعتکاف اپنی مسجد میں کرایا تو اعتکاف جو کرایا تو اُس اعتکاف میں حضورؐ نے کِیا کیا! کِیا یہ کہ جیسے ابوبکرصدیقؓ ہیں اُن کو آپؐ نے باطنی شریعت کی تعلیم دی تو اُن کو مسجد کے کونے میں بٹھا کے چاروں طرف سے اُس کو کپڑے لگاکے بند کردیا اور کہا کہ تم لطیفہٴِ نفس کا مراقبہ لگاوٴ تو مراقبے میں اُن کا لطیفہٴِ نفس چلا جاتا۔ حضورؐ اُن کے لطیفہٴِ نفس کو اپنے لطیفہٴِ نفس کے ساتھ صحبت میں رکھتے اور باطنی مقامات پر گھماتے پھراتے۔ مولیٰ علی معتکف ہوتے تو یہ ہوتا کہ حضورؐ اُن کو لطیفہٴِ قلب کے مراقبے میں لے جاتے۔ کسی کو لطیفہٴِ روح کے مراقبے میں لے جاتے۔ اب اِن کے یہ سیارے اوپر گھوم رہے ہیں تجلیاں دیکھ رہے ہیں۔ کسی کو لطیفہٴِ اخفٰی کا مراقبہ وہ عالمِ وحدت کے پردے تک پہنچ گیا، وہ وہاں دیکھ رہا ہے کہ کہیں لائٹیں آئیں تو پتہ چلے کہ لیلة القدر ہے یا نہیں ہے۔ کوئی لطیفہٴِ قلب کے ذریعے عالمِ ملکوت دیکھ رہا ہے اِدھر اُدھر کہ کہیں کوئی لائٹیں نظر آئیں تو پتہ چلے کہ لیلة القدر ہے۔ اب یہ سب کے سیارے جس کی پہنچ جہاں تلک اُس کیلئے وہیں پر تُو۔ کسی کا لطیفہٴِ قلب نکلا ہوا ہے عالمِ ملکوت میں اِدھر اُدھر گھوم رہا ہے، جیسے ہی وہاں سے کوئی تجلیات پڑی ہیں تو قلب اُس کی زَد میں آگیا اور تُجھے لیلة القدر مل گئی۔ کسی کا لطیفہٴِ روح بیت المامور پر تو اب وہاں معلومات ہونے کے ذیادہ مواقع ہیں کہ ہو کیا رہا ہے کیونکہ بیت المامور پر سارے انبیاء کی ارواح جو ہیں وہ روزانہ حاضر ہوتی ہیں۔ جب تیری بھی روح بیت المامور پہنچ جائے گی تو تجھے تو پتہ چل جائے گا کہ یہاں پر کیا ہورہا ہے۔ وہ شبِ قدر تجھے جیسے ہی تجھے پتہ چلا کہ یہاں تو انوار و تجلیات کی بارش ہورہی ہے یہاں تو جمکٹھا لگا ہوا ہے کوئی سواری آرہی ہے کوئی ذات آرہی ہے جس نے اِن تمام مقامات سے گزرکرجانا ہے۔ جیسے ہم آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتے ہیں کہ سرکار گوھر شاہی جب کوٹری شریف سے کراچی تشریف لاتے نا تو غفور بھائی ہائی وے پر جاکر پہلے سے بیٹھ جاتے۔ کراچی شہر سے تھوڑا باہر نکل کر وہ جو سُپرہائی وے تھا وہاں گاڑی کھڑی کرکے بیٹھ جاتے اور پھر سرکار وہاں سے آرہے ہیں۔ ابھی تو آستانے پر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگے گا۔ جو آستانے پر بیٹھے ہوئے ہیں اُن کو پتہ نہیں ہے کہ سرکار کب آئیں گے لیکن یہ ہائی وے پر چلاگیا تو وہاں آنے سے پہلے ہی اِس نے دیکھ لیا کہ سرکار آرہے ہیں۔ اِسی طرح پتہ نہیں کونسی مسجد میں کونسے گھر میں وہ ذات جائے گی دنیا میں آکے پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ تیرے اندر کے سیٹلائٹ نکل کے اُن کے راستے میں کھڑے ہوگئے جہاں سے اُن کو گزرنا ہے۔
تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے
تُو اپنے لطیفہٴِ قلب کے ذریعے عالمِ ملکوت میں چلا گیا، کوئی عالمِ جبروت میں چلاگیا، کوئی عالمِ وحدت میں چلاگیا، کوئی عنکبوت میں چلاگیا، کوئی لاہوت میں چلاگیا، کوئی ہاہوت میں چلاگیا اور کوئی عالمِ وحدت تک پہنچ گیا۔ سب اپنی اپنی بِساط کے مطابق سُپرہائی وے پر قطاردرقطار پہنچ گئے۔ یہ اعتکاف ہے۔ اب تمھارا مراقبہ ہی نہیں لگے گا تو تم وہاں اعتکاف میں بیٹھ کر مکھیاں مارو گے۔

اعتکاف معتکف ہونے سے مراد مُراقبے میں جانا ہے۔

لیلة القدر کو کیسے ڈھونڈا جاتا ہے؟

سوائے قلب کے جو بھی لطیفہ تمھارا تیار ہوگیا ہے، اگر تمھارا قلب تیار ہوگیا ہے توتم قلب کے ذریعے ملکوت تک پہنچ جاؤ اور اگر تمھاری روح تیار ہوگئی ہے توتم روح کے ذریعے چلے جاوٴ۔ اگر تمھارا لطیفہٴِ انا تیار ہوگیا ہے تو تم اُس کے ذریعے وہاں چلے جاؤ اور اگر تمھاری حضورؐ سے یاری دوستی ہوگئی ہے تو تم مقامِ محمود تک چلے جاوٴ کیونکہ وہاں سے تو گزر ہوگا۔ جب وہ ذات جائے گی تو وہ تو قدم قدم پر مورچے ہیں، تم کسی بھی مورچے تک پہنچ جاوٴ۔ ہاں ایک بات ہے کہ جب وہ روح وہاں سے نکلتی ہے، قرآن مجید میں آیا ہے کہ

تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ
سورة القدر آیت نمبر 4

جب وہ ملائکہ اور وہ روح جب نیچے آتے ہیں تو جیسے نکلتے ہیں تو اُس وقت اُن کا جو طب و تاب ہے اُس وقت جو اُن کا جلال و جمال ہے وہ حشرانگیز ہے فتنہ پرور ہے۔ اُس وقت اُن کا جو حُسن ہے تازہ تازہ بیوٹی پارلر سے نکلے ہیں۔
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

وہاں سے تو ابھی میک اپ کرکے نکلے ہیں وہ سواری تو وہاں سے نکلی ہے۔ جب آپ بیڈرُوم میں ہوتے ہیں تو آپ ننگے گھومتے ہیں، مرضی ہے آپ کی کہ اگر اُس وقت بھی آپ جیکٹ پہن کر گھومیں کوئی کچھ بھی بولے آپ کو کیا پرواہ آپ گھومیں۔ لیکن اگر آپ اپنے بیڈرُوم میں ننگے بھی گھومیں یا کم سے کم لباس پہنیں تو یہ آپ کا معمول ہے ہر آدمی یہ کرتا ہے۔ پھر بیڈرُوم سے جب وہ باہر نکل کر لِیونگ رُوم میں جاتا ہے تو پھر کوئی پاجامہ یا دھوتی وغیرہ باندھ لیتا ہے۔ اِسی طریقے سے جب وہ ذات وہاں سے نکلتی ہے تو اب وہ ذات وہاں سے نکلی ہے اب آگے عالمِ وحدت آیا ہے، وہاں مقامِ محمدی ہے، مقامِ محمود ہے تو وہاں اُن کی حشرسامانی کچھ اور ہے، وہاں اُن کے جلوے کچھ اور ہیں، وہاں اُن کا حُسن کسی اور ہی جِدّت و شِدّت کا ہے، حُسن کی کوئی اور ہی جہت ہے۔ اب جیسے جیسے وہ آگے بڑھیں گے اب پردے ڈلنا شروع ہونگے کیونکہ جو تاب عالمِ وحدت کی مخلوق کو تھی ہوسکتا ہے جبروتیوں کو وہ راس نہ آئے جل کے خاکستر ہوجائیں۔ پھر آگے آئے ملکوت کیطرف آگئے، اب اُس سے بھی کم جلووٴں کا اظہار ہوگا۔ اُس کے بعد پھر اور آگے آئیں زمین پر پہنچتے پہنچتے ستر ہزار پردوں میں وہ ذات آئے گی۔

یہاں بیٹھ کر لیلة القدر مل بھی گئی تو حجابوں میں ملے گی۔ اِن کو کھولو اوپر جاوٴ کم سے کم پردے اُٹھتے چلے جائیں گے اور جب لطیفہٴِ انا کو جاری کردیا تو اِس کے ذریعے وہاں پہنچ جاوٴ گے جہاں وہ بے نقاب نکلا تھا جہاں وہ بغیر حجاب کے نکلا تھا وہاں پہنچو۔ وہ لیلة القدر ہوگی۔ لیلہ سے ملاقات اور حجاب میں ہو تُف ہے۔ آوٴ ایسی لیلة القدر منائیں جس میں نہ تمہارے دل پر حجاب ہو نہ اُس کے حُسن پر کوئی حجاب رہے۔ ایسی لیلة القدر گوھر شاہی سکھاتے ہیں۔

اعتکاف کا فائدہ کیا ہے! یہ، دس دن تک یہ سب کچھ ہٹاوٴ، ہم تو وہاں جاکر ڈھونڈیں یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہو! مسجد میں بیٹھ کر کیا ڈھونڈ رہے ہو، کیا یہاں لیلة القدر آئے گی! لوگ کہتے ہیں کہ مسجد میں ڈھونڈو۔ مسجد میں لیلة القدر نہیں آتی۔ اگر اُن کو مسجد کا پتہ معلوم ہے تو تیرے گھر کا بھی معلوم ہے۔ مولویوں سے کوئی پوچھے جاکر کہ تم جو مسجد میں بُلا رہے ہو تو یہ بتاوٴ کہ اِس سے کوئی نظام ہے تمہارا تم نے تمام مسجدوں کے پتے اللہ کو بھیج دئیے ہیں تو ہمارے گھر کا پتہ بھی اگلی مرتبہ ڈال دینا۔ لیلة القدر کو پانے کیلئے مسجد میں بیٹھنا ضروری نہیں ہے۔ اُس راستے پر بیٹھنا ضروری ہے جہاں سے وہ گزرتے ہیں۔

یہ جو محفل جہاں آپ بیٹھے ہیں یہ راستہ اُنہی کا ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے جس میں بغیر اعتکاف کے آپ اعتکاف میں ہیں۔ یہ ایسا راستہ ہے بغیر اعتکاف کے آپ اعتکاف میں ہیں۔ اپنے گھر بیٹھ کر اُس کے راستے میں کھڑے ہیں کیونکہ جس سے مخاطب ہیں یا وہ آپ سے مخاطب ہے وہ وہاں ہے تو آپ بھی وہاں ہیں۔ غم نہ کریں کہ آپ نئے ہیں یا دُور ہیں۔ رب دُوری اور نزدیکی سے ماورا ہے۔ رب کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نے ایک طریقہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے کہ اعتکاف کِسے کہتے ہیں اور لیلة القدر کو جو ڈھونڈا جاتا ہے وہ کیسے ڈھونڈا جاتا ہے۔

اب ہمیں بتائیں کے اعتکاف جو آج لوگ کرتے ہیں وہ مسجد کے کونے میں بیٹھ کر قرآن پڑھیں گے، نفل پڑھیں گے اوراللہ ھو اللہ ھو ذکر کریں گے۔ اِن تین کاموں کو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ لیلة القدر ڈھونڈی جارہی ہے! یہ تین کام تو آپ رمضان کے علاوہ بھی کرتے ہیں، بغیر اعتکاف کے بھی تلاوت کرتے ہو یا نہیں، بغیر اعتکاف کے بھی نوافل پڑھتے ہو یا نہیں! وہی اعتکاف میں کررہے ہو جو تم اعتکاف کے بغیر کرتے ہو تو لیلة القدر ڈھونڈنا پھر کیا ہے! لیلة القدر ڈھونڈنی ہے تو اُن کے راستے میں جاکر بیٹھو جیسے غفور سُپر ہائی وے پر جاکر بیٹھتا تھا اِس طرح بیٹھنا پڑتا ہے لیکن سُپر ہائی وے پر تو جانا آسان تھا گاڑی پر بیٹھے چلے گئے۔ یہ سُپر ہائی وے وہ ہے جس پر بندہ اپنی مرضی سے نہیں چلتا ہے، لے جانے والے لے جاتے ہیں۔ بس جس دن ہم یہ کہیں کہ اب تھوڑی کیلئے آنکھیں بند کرکے سرکار کا تصور کرلو تو پھر سمجھ جانا۔

لیلتہ القدر کو طاقت والی رات کیوں کہتے ہیں؟

ہمارے مولوی یہ کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کو لیلة القدر میں نازل کیا اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تئیس سال میں نازل ہوا۔

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
سورة القدر آیت نمبر 1

قرآن کو یہ کہتے ہیں کہ لیلة القدر میں نازل کیا۔ قرآن کو لیلة القدر میں تھوڑی نازل کیا ہے کسی ذات کی بات ہورہی ہے۔ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ ہم نے اُس کو نیچے بھیجا فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وہ طاقت والی رات۔ طاقت اُسی کو کہا گیا ہے صاحبِ قدر۔ طاقتور یعنی طاقت، قدر کا مطلب ہے طاقت تو وہ جو نیچے جس کو بھیجا ہے وہ ہے صاحِبُ القدر۔ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ہم نے اُنہیں نیچے بھیجا ہے لیلة القدر میں۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ تم جان ہی نہیں سکتے کہ لیلة القدر ہے کیا شے! تمہیں ادراک نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو روح ہے وہ نظر ہی نہیں آتی۔ جب وہ کسی وجود میں آئے گی سورج، چاند، حجرِاسود پر تصویریں آئیں گی اُس کی پھر تمہیں پتہ چلے گا اچھا یہ ہیں۔ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ اور تمہیں ادراک ہی نہیں ہوسکتا کہ لیلة القدر کیا ہے۔ اب لیلة القدر کی تفصیل میں اللہ نے فرمایا کہ نہیں وہ تو بتانا بیکار ہے تمہیں ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ اللہ یہ فرمارہا ہے کہ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ تمہیں ادراک ہی نہیں ہوسکتا کہ لیلة القدر کیا ہے تو اُس کی تو تفصیل اللہ نے اُس کو کِیا ہی نہیں۔ یہ بتادیا پھر کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ، شَهْرٍ مہینے کو کہتے ہیں أَلْفِ کا مطلب عربی زبان میں ایک ہزار ہے کہ ایک ہزار مہینوں سے یہ ایک رات بہتر ہے۔ اب سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں تو دس سال میں ایک سو بیس مہینے ہونگے اور سو سال میں بارہ سو۔ اب ہزار مہینے اگر ہوں تو آپ یُوں کہہ لیں کہ پچانوے چھیانوے سال تو اللہ نے یہ تمہاری زندگی کا تخمینہ لگایا ہے، ایسے ہی ایک ہزار مہینے کا خدوخال نہیں دیا ہے تو اِس کا مطلب اللہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ تمہاری پوری زندگی میں ایک دفعہ اگر لیلة القدر مل جائے تو تمہارے مزے آجائیں۔ ایک دفعہ اُس کی نسبت جُڑ جائے، اُس لیلة القدر میں ایک لمحہ اُس کی صحبت کا اگر مل گیا پوری زندگی کیلئے کافی ہے۔ جو ایک ہزار مہینے کہا ہے یہ تمہاری زندگی کا تخمینہ لگایا ہے۔ دیکھ لو آپ کتنے مہینے! جو ہم نے ابھی حساب لگایا ہے نا کہ دس سال میں ایک سو بیس مہینے تو سو سال میں بارہ سو مہینے ہونگے تو اب یہ دو سو مہینے نکال دو۔ عام لوگوں کی عمر اِسی کے آگے پیچھے ہوتی ہے پچانوے سال کہہ لو۔ فرمایا کہ تمہاری پوری زندگی میں تمہاری پوری زندگی کی عبادتیں ایک طرف اور اُس رات کا ایک لمحہ ایک طرف۔ ساری زندگی کی عبادتیں اُس کی ایک لمحے کی صحبت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ نیچے آتے ہیں اُس کے ملائکہ، وَالرُّوحُ اور وہ روح فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ اپنے رب کے امر کے ساتھ آرہے ہیں۔ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ اور سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اُس وقت تک تمہارا ساتھ دیں گے جب تک رحمٰن جاگ نہیں جاتا۔ اُنہوں نے کہا کہ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ کہ اُس وقت تک اُس کا سایہ رہے گا جب تک تمہارے اندر سویرا نہیں ہوجاتا، جب تک تمہارے اندر سے اندھیرا غائب نہ ہوجائے جب تک تمہارے اندر سورج طلوع نہ ہوجائے اُس وقت تک اُس کی رحمت برستی رہے گی۔ وہی الفاظ مبارک سرکار گوھر شاہی کے ہیں کہ “اُس وقت تک تمہارا ساتھ دیں گے هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ جب تک تیرے اندر سورج طلوع نہ ہوجائے اُس کی رحمت تیرے ساتھ رہے گی۔
اگر ڈھونڈنا ہے تو اِن باطنی مقامات پر لیلة القدر کو ڈھونڈو کہ ہم کو تو نہیں پتہ بیت المامور پر تو سارے مُرسلین ہوتے ہیں اُدھر سے تو پتہ چل ہی جائے گا اُدھر چلیں۔ ملکوت پر جائیں وہاں ڈھونڈتے ہیں، وہاں تیاری کررہے ہونگے اگر لیلة القدر ہوگی تو وہاں تیاریاں ہورہی ہونگی۔ ہم اگر وہاں جائیں گے تو وہاں سے ہمیں پتہ چل جائے گا۔ جن کی اور پہنچ ہے آگے تلک ہے مقامِ محمود تک ہے ارے اُدھر چلتے ہیں حضورؐ کو تو اِس وقت پتہ ہوگا۔ کسی کی پہنچ اگر عالمِ احدیت تک ہے تو وہاں چلتے ہیں وہاں تو بالکل تازہ تازہ حُسن دیکھیں گے تو یہ اِتنے سارے مقامات ہیں۔ دس دن بیوی بچوں کو چھوڑ کر الگ مسجد میں کونے میں پڑے ہوئے ہو گندی لاش کی طرح سڑرہے ہو اور تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ شبِ قدر کو ڈھونڈا کیسے جاتا ہے، ایسے ہی بس بیٹھے ہوئے ہو۔ پہلے پتہ تو کرلو کہ اعتکاف ہوتا کیا ہے! لوگوں نے تو اعتکاف کا شہر بنا دیا۔ بتاوٴ تو صحیح کہ لیلة القدر کو کیسے ڈھونڈ رہے ہو، سوال پیدا ہوتا ہے نا ذہن میں بات آتی ہے۔

اولیاء کرام کی سوانح حیات سے مثال:

یہ جو ابراہیم بن ادہم تھے یہ بادشاہ تھے۔ یہ اپنے محل میں سو رہے تھے۔ اللہ تعالی نے خضرؑ کو بھیجا کہ اِس کا وقت آگیا ہے جاوٴ تو خضرؑ جو ہیں اِن کے محل کی چادر کے اوپر چہل قدمی کرنے لگ گئے اِن کو تنگ کرنے کیلئے۔ بادشاہ سلامت کو تو نہیں پتہ کہ اوپر خضر کھڑا ہوا ہے تو بادشاہ سلامت نے پوچھا کہ میرے کمرے کی چھت پر کون ہے تو اُنہوں نے کہا کہ میرا بیل کھوگیا ہے میں اُسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ بیل تیرا کھوگیا ہے یہ کوئی بیل کو ڈھونڈنے کی جگہ ہے! چھت کے اوپر تُو اِدھر اُدھر چل رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بیل ڈھونڈ رہا ہوں۔ خضرؑ جواب دیتے ہیں کہ تُو بھی تو نرم بستروں میں اللہ کو ڈھونڈ رہا ہے یہ کوئی جگہ ہے اللہ کو ڈھونڈنے کی! ہم بھی یہ کہیں کہ تُو چاروں طرف سے کپڑا لگاکر یہیں بیٹھا ہوا ہے اور تُو لیلة القدر کو ڈھونڈ رہا ہے جیسے تیری مسجد میں لیلة القدر آئے گی۔ جب اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا کہ آخری عشرے کی تاک راتوں میں لیلة القدر کو ڈھونڈو تو ڈھونڈنے کا طریقہ بھی تو بتایا ہوگا نا۔ ڈھونڈنے کا کہہ دیا طریقہ نہیں بتایا یہ کیسے ہوسکتا ہے!

تم کو اِس لئے نہیں پتہ کیونکہ جن لوگوں نے تراویح اور اعتکاف کی نقل کی اُن صحابہ اکرام کی جن کو حضورؐ نے لیلة القدر ڈھونڈنے کا طریقہ بتایا تھا وہ صرف دیکھ کرکے خود نقل کرنے لگ گئے کہ کونے میں بیٹھ جاوٴ یہی اعتکاف ہے اور بس بیٹھ جاوٴ بس ڈھونڈ رہے ہو۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اعتکاف سب کیلئے نہیں تھا، یہ اُن کیلئے تھا جن کے اندر منور ہوچکے تھے۔ جن کے دلوں کو روحوں کو لطیفہ انا، خفی، اخفٰی کو حضورؐ اپنے ساتھ اِن مقامات پر لے جاتے اور استقبال کیلئے جاتے کہ آجاوٴ جو آرہا ہے میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ اِن چیزوں کو اُن مقامات پر لے جانا یہ لیلة القدر کا ڈھونڈنا ہے۔

آج پہلا دن ہے پہلی تاک رات ہے آج آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ ڈھونڈنا کیسے ہے۔ اب تئیس کو تھوڑی سی ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ اب آنکھیں بند کرلیں، پورے سینے پر لفظ “محمد” کا تصور کریں اور بڑی توجہ کے ساتھ تصور کریں اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ آپ کے اندر کی کوئی مخلوق نکلے اور اوپرطیر سیر کیلئے جائے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ مہدی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 3 مئی 2021 کو رمضان المبارک کے دن کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوز کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس