کیٹیگری: مضامین

وحی اور وحیِ الہٰی میں فرق:

لوحِ محفوظ کو اُم الکتاب کہا جاتا ہے۔ ساری آسمانی کتابیں یہاں پر محفوظ ہیں۔ یہاں سے جبرائیل وحی لیکر آتے ہیں۔ اب اِس کے دو حصے ہوگئے، ایک ہوگئی وحی اور ایک ہوگئی وحیِ الہٰی۔ جو آسمانی کتاب ہیں اُن میں جو لطیفہ نفس کا علم ہے وہ لوحِ محفوظ سے ہر مذہب میں آیاجیسے قرآن کے تیس پارے۔ جبرائیل جو تعلیم لیکرآیا وہ وحی کے طور پر نفس کی لیکرآیا ہے۔ اور وہ جو باطن کا علم ہے وہ لوحِ محفوظ میں نہیں ہے وہ اللہ کی طرف سے آیا اُس کو وحی الہٰی کہتے ہیں۔ یہ علم لوحِ محفوظ میں نہیں ہے کیونکہ لوحِ محفوظ میں تو لطیفہ انا، لطیفہ قلب بند نہیں ہوتا نا تو وہ باطنی علم تو قلب، انا، روح، خفی، اِخفٰی اور سِرّی کا ہے، وہ یہاں کہاں سے آیا! وہ جو باطنی علم تھا وہ جبرائیل لیکر نہیں آیا بلکہ وہ علم براہِ راست اللہ تعالی کی طرف سے آیا۔
تمہارے علماء یہی کہتے ہیں کہ جبرائیل ساتھ آیا تاکہ شیطان کی مداخلت نہ ہوسکے۔ شیطان کی مداخلت کہاں ہوگی؟ لطیفہ نفس کا علم آرہا ہے تو نفس کے ساتھ شیطان کی مداخلت ہےنا۔ جو نفس کا علم آیا اُس کے ساتھ جبرائیل کو بھیجا کیونکہ نفس کا علم ہے، نفس کے ساتھ شیطان کی مداخلت ہے۔ اور وہ جو علم روح کا قلب کا آیا وہ تو اللہ سے براہِ راست قلب کے اندر آیا اُس میں شیطان کی مداخلت کِدھر سے آئی! جبرائیل جو وحی لایا وہ لوحِ محفوظ سے آئی بھلے وہ بائبل کی وحی ہو، بھلے وہ یہودیوں کی کتاب کی وحی ہو یا عیسائیوں کی کتاب کی وحی ہو یا مسلمانوں کی کتاب کی وحی ہو، یہ ظاہری علم جو ہے اُس کی وحی لوحِ محفوظ سے آئی۔

قرآنِ مکنون اور قرآنِ مجید:

وہ جو خاص علم آیا جس کو قرآنِ مکنون کہتے ہیں وہ اللہ کیطرف سے آیا براہِ راست قلبِ مصطفٰیؐ پر آیا۔ قرآن تو جبرائیل لیکرآئے تو جو جبرائیل لیکرآرہے ہیں اُس کے اندر تو کوئی شک ہی نہیں ہے۔ جو جبرائیل لیکر نہیں آیا اُس کے بارے میں شک ہے نا۔ اُس کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
سورة النجم آیت نمبر 3 تا 4
ترجمہ: یہ اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے جو میں نے کہا ہے وہ کہہ رہے ہیں۔

یہ اُس وحی کیلئے ہے جس میں جبرائیل نہیں ہے۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ اب جو هَوَىٰ ہے هَوَىٰ کا جو مطلب ہے وہ یا تو آپ کہہ دیں خواہشِ نفس لیکن ہمیں جو سرکار گوھر شاہی نے ادب سکھایا ہے اُس کے مطابق ہم اِسے شرک سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں پر هَوَىٰ کا مطلب خواہشِ نفس نہیں ہے۔ محمد الرسول اللہ کے بارے میں یہ گمان کیسے کرسکتے ہیں کہ اُن کی کوئی خواہشِ نفس سے بات ہوگی، یہ تو عام آدمی کیلئے سوچا جاتا ہے کہ پتہ نہیں اپنے نفس کی خواہش سے کہہ رہا ہے یا صحیح سچ بول رہا ہے۔ محمد الرسول اللہ کیلئے نہیں ہے۔ یہاں پر هَوَىٰ کا جو اللہ نے مطلب لیا تھا وہ محبت تھا۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ یہ اپنی محبت میں نہیں کہہ رہے، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ یہ جو کچھ بھی کہا ہے إِنْ هُوَ جو کچھ بھی ہے إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ وہی کہہ رہے ہیں جو وحی اِن کے پاس آئی ہے۔ یہ وحیِ الہٰی کیلئے ہے کیونکہ جب اللہ بولتا تھا تو حضورؐ کے لب بولتے تھے جبرائیل نہیں تھا۔ اِس لئے کہا کہ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ یہ جو ہونٹ محمد الرسول اللہ کے ہِل رہے ہیں یہ محبت کی وجہ سے نہیں ہے۔
شریعت کے بارے میں لطیفہ نفس کی جو تعلیم آئی وہ ہر حال میں حضورؐ نے زبان سے بیان کروائی، لوگوں نے لکھی شریعت کے مسائل جو تھے۔ اور جو اللہ کی طرف سے آئی وہ باطنی علم کیلئے تھی اُس کو لکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ علم تو نظروں اور بولنے اور سُننے کا ہے ہی نہیں بلکہ وہ علم تو قلب کیلئے ہے۔ تیری تو قلب تک رسائی نہیں ہے تُجھے بتا کر کیا کریں گے قلب کو بتائیں گے نا۔ تیری تو روح تک رسائی نہیں ہے تو تُجھے کیوں بتائیں، تیری روح کو سمجھائیں گے نا۔ یہ جو علم اللہ کی طرف سے آیا تھا یہ محفوظ ہوتا گیا۔ لوحِ محفوظ سے علم بھی اللہ کی طرف سے آیا اور باطنی علم بھی اللہ کے حکم سے آیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے یہ نازل کیا ہے اور ہم ہی اِس کو محفوظ رکھیں گے۔ یہ وہ علم ہے جو اللہ کی طرف سے براہِ راست قلبِ مصطفٰیؐ پر آیا۔
اب قرآن دو طرح کا ہوگیا۔ ایک تو ہوگیا قرآنِ مجید اور ایک ہوگیا قرآنِ مکنون۔

قرآنِ مجید ذیادہ تمہارے لئے اہم تھا وہ تمہارے پاس موجود ہے کیونکہ اُس میں شریعت کے مسائل تھے نفس کو پاک کرنے کا طریقہ تھا۔ ساری اُمت کو تو عشق نہیں سیکھنا، ساری اُمت کو تو محبتِ الہٰی نہیں سیکھنی تو یہ سب کے ہاتھوں میں آگیا۔ اور یہ جو اللہ کیطرف سے وحیِ الہٰی آئی تھی وہ قلبِ مصطفٰیؐ میں محفوظ رہی۔

اُس کیلئے کہا کہ

اَنَا مَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا
حاکم المستدرک جلد نمبر 3 صفحہ 126
ترجمہ: میں اُس علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔

محمد الرسول اللہ کے سینے سے وہ علم نکلا اور مولیٰ علی کے سینے میں گیا۔ مولا علی سے وہ علم نکلا اور ہوتا ہوتا خواجہ غریب نواز تک پہنچ گیا۔ وہ علم اِس طرح چلتا رہا۔ اب جب خواجہ غریب نواز نے اپنی زبان میں وہ علم بیان کیا جو حضورؐ کے سینے سے مولیٰ علی کے توصل سے اُن کے سینے تک پہنچا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ علم کہاں سے آیا ہے یہ تو ہم نے سُنا نہیں۔ تم نے کیا نہیں سُنا، حضورؐ کے دور میں جب یہ آیا تھا حضورؐ کے پاس برابر بیٹھنے والوں نے نہیں سُنا کیونکہ یہ اُن کیلئے تھا جن کو اللہ تعالی اپنی ذات کی ہدایت دینا چاہتا ہے تو اللہ کی ذات کی ہدایت لینے والے جو اُس دور میں تھے اُن کو بھی مل گیا جو اِس دور میں ہیں اُن کو بھی مل رہا ہے فرق نہیں پڑتا۔ ایک وحی ہے اور ایک وحیِ الہٰی ہے۔ ظاہری علم جو آیا ہے وہ لوحِ محفوظ سے آیا ہے۔ حضورؐ کے اندر تو وہ باطنی علم آگیا تمہارے اندر تو نہیں ہے۔ اب تم نے کہا کہ ہم تو اللہ سے محبت کرتے ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
سورة آل عمران آیت نمبر 31

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ اِن کو کہہ دو کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو، فَاتَّبِعُونِي علم نہیں دوں گا یہ میرا محبوب ہے اِس کے اندر ہی سب کچھ وہ علم ہے بس اِس کی اتباع کرو، اگر اِس کی اتباع کرلی يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا کیونکہ وہ قلبِ مصطفٰیؐ کے اندر ہے۔
ہر دور میں یہی ہوا۔ پھر سرکار گوھر شاہی نے ایک کتاب دینِ الہٰی لکھی۔ اب اکثریت جو سرکار گوھر شاہی کے ماننے والوں کی ہے وہ اِسی طرح کٹر ہوگئے جسطرح مسلمان کٹر ہیں، شیعہ کٹر ہیں، دیوبندی کٹر ہیں کہ جو دینِ الہٰی میں لکھا ہے بس اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اچھا تم نے وہ باتیں کیوں مانیں جو قرآن میں نہیں ہیں! یہ تو ہمیں سرکار نے بتائیں وہ راز تھے تو ہم بھی تمہیں دینِ الہٰی سے ہٹ کر وہ باتیں بتارہے ہیں جو سرکار نے ہمیں بتائیں جو راز تھے۔ اگر دینِ الہٰی میں نہیں ملتے، قرآن میں نہیں ملتے تو سمجھ جاوٴ نا کہ وہ کوئی خاص بات ہے قرآن اور دینِ الہٰی میں نہیں ملے گی۔ وہ اُدھر ملے گی جہاں پر وہ خاص چیز آئی ہے۔

جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں سب کچھ ہے یہ بات درست ہے لیکن وہ قرآن کو نہیں جانتے کہ پورا قرآن کہاں ہے! قرآن میں تو سب کچھ ہے لیکن تمہارے پاس تو آدھا قرآن ہے، پورا قرآن کیا ہے؟ پورا قرآن محمدؐ کی ذات ہے۔ یہ جو کتاب ہے یہ آدھا قرآن ہے اور محمد الرسول اللہ پورا قرآن ہے۔ جو محمد الرسول اللہ تک پہنچ گیا وہاں سب کچھ ہے۔ اِسی طرح یہ دینِ الہٰی آدھا قرآن ہے، جو سرکار گوھرشاہی تک پہنچ گیا تو وہ حق کو پہنچ گیا۔

عام علم لوحِ محفوظ سے اُٹھایا اِدھر لے آئے اِس کی ذیادہ پرواہ بھی نہیں ہے، ٹھیک ہے جبرائیل آئے تو ٹھیک ہے آجاوٴ۔ اب وہ جو خاص علم ہے جب وہ حضورؐ نے بیان کیا کسی نے سُن لیا تو آگے بھی بیان کردیا۔ اُن کو پھر بعد میں مولویوں نے اُن باتوں کو کہہ دیا کہ یہ حدیثِ قدسی ہے۔ حدیث قدسی بھی قرآن ہی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا تھا کہ یہ میں حدیث قدسی بیان کررہا ہوں؟ حضورؐ نے تو یہ فرمایا کہ اللہ نے یہ فرمایا اللہ نے وہ فرمایا اللہ نے ایسا کہا اللہ نے ویسا کہا۔ یہ تمہارے مولویوں نے بعد میں کہہ دیا کہ یہ حدیث قدسی ہے۔ وہ وہی علم تھا جس کیلئے کہا کہ یہ پوری حدیث ہے جس کو حدیثِ قدسی کہتے ہیں کہ

من عادى لي وليا فقد آذنته بالحرب وما تقرب إلي عبدي بشيء أحب إلي مما افترضت عليه وما يزال عبدي يتقرب إلي بالنوافل حتى أحبه فإذا أحببته كنت سمعه الذي يسمع به وبصره الذي يبصر به ويده التي يبطش بها ورجله التي يمشي بها وإن سألني لأعطينه ولئن استعاذني لأعيذنه
6502 – کتاب الرّقاق – صحیح البخاری
ترجمہ: پھر جس نے میرے دوست سے دشمنی کی عداوت رکھی تو میں اُس سے اعلانِ جنگ کردیتا ہوں کیونکہ وہ میرے قرب میں ایسے آجاتا ہے کہ میں اُس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سُنتا ہے، میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اُس کی ٹانگ بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔

گفتہء او گفتہء الله بود
گرچہ از حلقوم عبدالله بود

یہ اُس وقت اُس کے اوپر بات صادق آجاتی ہے اور حضورؐ کے اُسی تعلیم کے اندر قرآنِ مکنون موجود ہے۔ لوگ ہمیں قرآن کے اُس حصے سے سوال بھیجتے ہیں جو لوحِ محفوظ سے آیا ہے اور معنی قرآنِ مکنون کا پوچھتے ہیں جو اللہ کی طرف سے آیا تھا، اب ہم کیسے ڈھونڈ کربتائیں گے کیونکہ قرآنِ مجید کے تو معنٰی ہے ہی نہیں اِس میں تو وہی ہے جو سامنے لکھا ہوا ہے کہ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ دو، فلاں کرے تو وہ کاٹ دو، اِس کی باطنی تفسیر کیا ہوگی! باطنی تفسیر تو اُس کی ہے جو اللہ کیطرف سے آیا ہے۔

وہ کونسا حافظِ قرآن ہے جس کی سات پُشتیں بخشی جائیں گی؟

جو اللہ کی طرف سے قرآن آیا ہے نا اصل میں قرآن ہے وہی اور اُس قرآن کیلئے کہا کہ جس کے سینے میں یہ قرآن ہوگا اُس کی سات پُشتوں کی مغفرت ہوگی۔ وہ سات پُشتیں کون ہیں! اب اُس نے جو فیض دیا، فرض کیا کہ اُس کے پاس وہ باطنی قرآن آیا اُس نے اُس باطنی قرآن کا فیض حافظ ندیم کو دے دیا۔ وہ حافظ ندیم نے آگے لوگوں کو دیا، وہ جو جن لوگوں کو دیا وہ ایک پُشت ہوگئی۔ پھر اُن میں سے کسی ایک کو مقرر کیا اُس نے آگے اوروں کو دیا وہ دوسری پُشت ہوگئی۔ پھر اُس نے باطنی سلسلہ آگے اور بڑھایا، اِس طرح سات لڑیاں روحانی طور پر چلتی رہیں اور سات کی سات جو پُشت ہوئیں، خونی پُشت نہیں بلکہ روحانی فیض کی جو پُشتیں وہ جو کہتے ہیں کہ حافظِ قرآن کی سات پُشتیں بخشی جائیں گی وہ مطلب یہ تھا کہ جس کے سینے میں وہ قرآن ہوگا اور پھر وہ قرآن آگے اُس پشت میں جائے گا اُس قرآن کی وجہ سے وہ پُشت بخشی جائے گی نا۔ جو اِدھر تھا وہ اُدھر بھی گیا۔ اُسی کیلئے کہا تھا کہ تم میں سب سے افضل وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور قرآن کا علم لوگوں کو دے۔ وہ قرآن کا علم کِدھر ہے، یہ قرآن کا علم جس میں تم نے بہتر فرقے بنا دئیے! تم اِسی کو پڑھ کر اپنے آپ کو افضل سمجھ رہے ہو نا اِسی لئے تم جو ہے چودھویں صدی کے علماء آسمان کے نیچے زمین پر بدترین مخلوق بن گئے کیونکہ تمہارے پاس وہ قرآن ہے ہی نہیں، تم سمجھ رہے ہو کہ تم عالم ہو۔ تم عالم کہاں سے ہو! تمہارے اندر ذرا سے بھی غیرت ہے ذرا سا بھی اللہ سے پیار ہے اُس وقت تک اپنے آپ کو عالم نہیں کہنا جب تک سینے کا علم نہ مل جائے جب تک محمد الرسول اللہ نہ فرمادیں کہ میں تجھے اِذن دے رہا ہوں کہ جاوٴ اب جو میں نے علم تیرے سینے میں بھرا ہے اُس کو عام کردے۔ پھر تم اپنے آپ کو عالم کہنا، اِس سے پہلے عالم کہا تو مردُود ہوجائے گا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 اپریل 2021 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآن مکنون کے پروگرام میں کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس