کیٹیگری: مضامین

شریعت ِ محمدی میں سجدہ تعظیمی ترک ہو گیا :

مسلمان قوم کا مسئلہ یہ ہے عام لوگ بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ساری مخلوقات،سارے فرشتوںکو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو لیکن اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ کون سا سجدہ کرو؟ اگر وہ سجدہ کریں جو خالق کے سامنے کیا جاتاہے تو یہ سجدہ توشرک ہے تواللہ ایسا کام کیوں کروائے گاجس کا اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ شرک مت کرو ۔تو کیا اللہ وہ حکم دے گا کہ تم آدم کوسجدہ کرو؟ یہ سجدہ ،سجدہ تعظیم تھا،با الفاظ دِیگر تمام فرشتوں اور ملائکہ کو حکم دیا تھا کہ یہ جو آدم میں نے بنایا ہے اس کو خاص علم دے رہا ہوں اسکی عظمت کو تسلیم کرو اس کے آگے جھک جاؤ۔یہ بات نہیں تھی کہ سجدہ کرو۔ایک سجدہِ ربو بیت ہے اور ایک سجدہِ تعظیمی ہے۔محمد رسول اللہ کی جو شریعت قائم ہوئی اِس شریعت میں سجدہ تعظیمی کو ترک کر دیا گیا۔
لیکن آپؐ کی شریعت اورآپؐ کے اسلام بنانے سے پہلے جو دین آئے تھے اُن میں سجدہ تعظیمی جائز تھا۔سجدہ تعظیمی کیا ہے؟جو آپ سے بڑا ہے آپ اسکے آگے اپنی گردن جھکا دیں وہ والا سجدہ نہیں جو آپ نماز میں کرتے ہیں بلکہ کھڑے،کھڑے گردن جھکا دیں۔دوسری بات یہ ہے کہ

“محمدﷺکی شریعت میں سجدہ تعظیم کو ترک کر دیا گیا،لیکن طریقت میں ترک نہیں ہوا۔لہذا صوفی اپنے مرشد کے آگے سجدہ تعطیم کرتے تھے اورابھی بھی کر تے ہیں ۔وہ مرشد کے قدموں پہ سر رکھ دیتے تھے”

وہابی جن کو روحانیت کا علم ہی نہیں تھا وہ کہتے ہیں دیکھوپیروں کو سجدہ کر رہے ہیں۔پیروں کو سجدہ نہیں کر رہے۔پچھلی جو اُمتیں گذری ہیں ،جو آسمانی کتابیں آئی ہیں اُن کا بھی مطالعہ کرو ۔اُن شریعتوں میں بہت کچھ جائز تھاجو کسی وجہ سے اِس شریعت میں جائز نہیں رکھا گیا۔ہم نے حضور کی بارگاہ میں پوچھا یارسول اللہ آپ نے اپنی شریعت میں سجدہِ تعظیمی کیوں ترک کر دیا؟ تو اُنہوں نے فرمایا یہ جو عرب قوم ہے اُن کے اندرتکبر،حسد بغض بھرا ہوا ہے یہ اپنی انانیت کی وجہ سے لوگوں کو اپنے سامنے جھکاتے ہیں جبکہ سجدہِ تعظیمی اللہ کی وجہ سے ہوتا ہے (وتعزومن تشاء وتزل من تشاء)اللہ نے جس کو عزت دی اپنا دوست بنایا۔عام مخلوق اُسکی عظمت کی وجہ سے اُس کے آگے اپنا سر جھکا دے۔سجدہ صرف تعظیم کا نہیں ربوبیت کا بھی ہوتا ہے۔

سابقہ اُمتوں میں سجدہ تعظیمی جائز تھا:

حضورؐ کی شریعت کے اندر تو سجدہ تعظیم ترک کر دیا گیالیکن طریقت صوفیوں کے سلسلے میں ترک نہیں ہوا۔ایک روایت اور بھی ہے۔صحا بہ ا کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ہمارا جی چاہتا ہے ہم آپ کوسجدہ کریں۔اس حدیث کے الفاظ میں لوگوں نے بڑاہیر پھیر کردیا ہے۔آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ اگر سجدہ جائز ہوتا تو عورت اپنے شوہر کو کرتی‘‘ ۔بس اتنی بات کہی گئی ہے نہ اسکا مطلب سمجھایا گیا نہ اس کی سابقہ معلومات دی گئی پتا نہیں کیا سے کیا کہانیاں بنا لی گئیں۔اگر میں آج آپ سے پوچھوکہ رسول اللہ نے تو سب سے پہلے صحابہ اکرام کو توحید کا درس دیا کہ بتوں کے آگے نہ جھکو،انسان کے آگے نہ جھکوتو وہ صحابہ کرام جن کے سینے میں لاالہ الا للہ محمد رسول اللہ کا نور تھا وہ حضور کی بارگاہ میں ایسی بیہودہ بات کیسے کہہ سکتے تھے کہ یا رسول اللہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔نہیں کہہ سکتے تھے نا لیکن حدیث میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے ایسا کہا۔اب یہ عقدہ کیسے حل ہو گا جب یہ حدیث پوری ہو گی۔صحابہ اکرام نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم آپ کو سجدہ تعظیم کر سکتے ہیں۔کیوں کہا؟ اس سے پہلے جو نبی آئے تھے اُنکی اُمتیں اپنے نبیوں کو سجدہ تعظیم کرتی تھیں،اُن کے آگے جھک جاتے تھے۔لیکن حضور کی شریعت میں یہ ترک کر دیا گیا۔صحابہ اکرام نے جو کہا کہ کیا ہم آپ کو سجدہ کریں وہ سجدہِ تعظیم کی بات تھی۔بات سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ اس سے پہلے جو اُمتیں تھیں ان میں سجدہ تعظیم ہوتا تھا۔چونکہ پچھلی اُمتوں میں سجدہِ تعظیم جائز تھا۔لہذا وہ اپنے انبیاء کی قبر کے سامنے جا کے بھی سجدہ تعظیم کرتے تھے۔آپ کے مولوی ملاؤں نےتوڑمروڑ کے کہہ دیا کہ یہ عیسائی،یہ یہودی اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کرتے تھے۔سجدہ نہیں کرتے تھے سجدہ تعظیم کرتے تھے ۔کھڑے کھڑے جھکتے تھے۔مولوی، ملاؤں نے یہ بگاڑپیدا کر دیا ہے۔
قرآن مجید میں یہ ہی چیز اللہ تعالیٰ نے آدم صفی اللہ کے حوالے سے فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔اب پچھلی اُمتوں میں جو سجدہ تعظیم جائز تھا یہاں اسکا ثبوت مل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں اور ملائکہ کو حکم دے رہا ہے۔اسک مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ غلط تھے اسکایہ مطلب بھی نہیں ہے کہ سجدہِ تعظیم کرنا فطری طور پر فی نفسہ غلط عمل ہے،اگر یہ غلط عمل ہوتا تو اللہ تعالیٰ فرشتوں اور ملائکہ کو کیوں کہتا کہ سب جھک جاؤ آدم صفی اللہ کو سجدہ کرو۔

“سجدہ تعظیم کرنا اللہ کے احکامات کی روشنی میں جائز ہے۔کسی مصلحت کے تحت حضورﷺ نے اپنی شریعت میں اِس کو ترک کردیا لیکن راہ طریقت میں جائز ہے ”

یہاں جو سجدے کی بات ہو رہی ہے وہ سادہ الفاظ میں یہ تھی کہ ملائکہ اور فرشتے آدم صفی اللہ کی عظمت کو تسلیم کریں۔آج کل تو ہم بیعت کا ایک مطلب سمجھتے ہیں کہ اس نے بیعت کی ہے یہ پیر صاحب ہیں۔ لیکن حضور کے زمانے میں مختلف وجوہات کی بنا پر بیعت کی جاتی تھی۔جیسے اگر کسی کو امیر المومنین تسلیم کرنا ہے تو تسلیم کرنے کا عمل یہ ہو گا کہ آپ ہاتھ پر بیعت کریں کہ میں مانتا ہوں کہ آپ امیرالمومنین ہیں ،یا پھر سب سے کوئی وعدہ لینا ہو ،فرض کیا کہ ہم نے کفار کامقابلہ کرنا ہے تو آؤ بیعت کرو کہ تم میر ے ساتھ ڈٹ جاؤ گے اور کوئی میدان چھوڑ کے نہیں بھاگے گا وعدہ کرنے کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ وہ بیعت کرتے جیسا کہ عثمانؓ کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ قاصد بن کے گئے ہیں تو کفار نے اُنہیں مار دیا ہے تو آپؐ نے لوگوں کو درخت کے نیچے جمع کیاوہاں پر وعدہ کیا کہ ہم اس کا بدلہ لیں گے اور اُس کو بیعتِ رضوان کا نام دیا۔فیض کے لئے تو بار بار بیعت نہیں ہوتی ۔تویہ ایک طریقہ تھا۔جس طرح ہم لوگ کہتے ہیں قسم اُٹھاؤ ۔وہ لوگ قسم نہیں اُٹھاتے تھے بیعت کرتے تھے۔کسی کو امیر تسلیم کرنا ہے تو بیعت کرتے تھے۔اسی طر یقے سے کسی کی عظمت کو تسلیم کرنے کےلئے سجدہِ تعظیم کرتے تھے۔انڈیا میں مسلمان بادشاہوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی۔مغلیہ سلطنت میں جب بادشاہ سلامت آتے تو لوگ اپنا سر جھکاتے تھے یہ سجدہ تعظیم تھا،لیکن یہ تو دنیاوی وجوہات کی وجہ سے جھکایا لیکن اللہ کی یہاں اور مذاہب میں یہ نہیں تھاکہ کسی کی اس لئے تعظیم کرو کہ اس کے پاس پیسہ یا پاور ہے۔

“پیسے یا پاور کی وجہ سے کسی کے آگے سر جھکانا جائز نہیں ہے۔ہاں یہ پتا چل جائے کہ فلاں آدمی کے دل میں اللہ رہتا ہے پھر اُس کے آگے جھک جانا فرض ہے ۔نہیں جھکو گے تو تمھارا ایمان چلا جائے گا”

آدم صفی اللہ کے سامنے ملائکہ اور فرشتوں نے جو سجدہ کیا وہ سجدہ ربوبیت نہیں تھا وہ سجدہِ تعظیم تھا اور سجدہِ تعظیم کرنا نہ صرف جائز ہے،بلکہ اسکا حکم اللہ نے خود فرشتوں اور ملائکہ کو دیا تھا تو ناجائز کیسے ہو سکتا ہے۔لیکن سجدہ تعظیمی کی یہ رعایت اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں کے لیئے نہیں رکھی۔بغیر سجدہ تعظیمی کے اُن کا نفس کتنابڑا ہے۔اکڑا ہوا ہے گردن اکڑی ہوئی رہتی ہے۔اگر سجدہِ تعظیمی جائز ہوتا تو سب سے پہلے ماں بیٹے کو سجدہ کرنے کا کہتی ۔آجکل کے ماں باپ بھی دجال سے کم نہیں ہیں۔آجکل کی ماں ہندہ سے کم نہیں ہے۔ اپنی انانیت میں آکے اپنی اولاد کی زندگیاں برباد کر دیتے ہیں۔مولویوں نے تو دین کو موڑا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ والدین نے بھی دین کو اپنی سہولت کے حساب سے موڑ لیا ہے جو کہ غلط ہے اور سراسر گمراہی ہے۔

مندرجہ بالا موضوع 15 مئی 2017 کی نشست میں کئے گئے سوال سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس