کیٹیگری: مضامین

کیا مجذوب سے تلقین لی جاسکتی ہے؟

مجذوب کا کوئی مرتبہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ڈیوٹی پرنہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی جن لوگوں کو ازن و ارشاد کی ڈیوٹی پر مامور کرتا ہےاور مرشد بناتا ہے وہ مرتبے پرہوتے ہیں۔ مجذوب کا کوئی مرتبہ نہیں ہوتا اِس لئے مجذوب سے تلقین لینا حرام ہے کیونکہ مجذوب شریعت پرعمل پیرا نہیں ہوتا۔ اُس کا شیشہٴِ عقل ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ مجذوب سے تلقین لینا طریقت میں حرام ہے۔ حرام اِس لئے ہے کہ جیسی حرکتیں مجذوب کرتا ہے توآپ بھی ویسے ہی کریں گے لیکن وہ تو اِس لئے کررہا ہے کہ اُس کا شیشہٴِ عقل اللہ تعالی کی تجلی سے ٹوٹا ہے لیکن آپ کیوں کررہے ہیں کیونکہ آپ کا شیشہٴِ عقل تونہیں ٹوٹا تو پھر آپ زندیق ہوجائیں گے۔ اگر مجذوب کی پیروی سے انسان زندیق ہوجائے گا تو پھرمجذوب کی پیروی حرام ہوگئی۔ مجذوب خود تعلق باللہ والا ہوتا ہے اور اُس کا اپنا اللہ سے معاملہ ہوتا ہے لیکن وہ کسی ڈیوٹی پر نہیں ہوتا، اِس لئے آپ اُس کی پیروی نہیں کرسکتے۔ مجذوب کا مرتبہ اِس لئے نہیں ہوتا کیونکہ جو مرتبے والے ہوتے ہیں اُن کی ڈیوٹی اللہ تعالی رُشد و ہدایت کی لگاتا ہے تو مجذوب کی پیروی کرکے تو لوگ گمراہ ہوجائیں گے اس لئے مجذوب سے تلقین اور فیض لینا جائز نہیں ہے۔

مجذوب کی پیروی کرنا جائز کیوں نہیں ہے؟

جیسا کہ ایک دن سرکارسیدنا گوھر شاہی مانچسٹرلندن میں تشریف فرما تھے اور ایک دن سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ برمنگھم میں راولپنڈی سے ایک ولی اللہ آیا ہوا ہے تو چلو اُس سے ملنے چلتے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اِس کا اللہ سے بہت اچھا تعلق ہے۔ جب ہم وہاں گئے تو اُس نے اپنا اللہ تعالی سے ذاتی تعلق بتانا شروع کردیا۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اِس کا اللہ سے تعلق بہت قربت کا ہے جس میں یارانہ ہوتا ہےلیکن غلط بات یہ ہے کہ اِس کو یہ باتیں عام عوام میں بیٹھ کرنہیں کرنی چاہیئے کیونکہ وہ تو اُس مقام پر پہنچا ہوا ہے اور اِس کا تو اللہ تعالی سے لینا دینا اورتعلق واسطہ ہے لیکن اِس کے ماننے والے جو برابر میں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں جن میں کوئی ایک ذاکرِ قلبی بھی نہیں ہے تو پھر جب وہ بھی ایسی باتیں کریں گے تو زندیق ہوجائیں گے۔ سرکار سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ ہم تم کو اِسی لئے یہاں لے کرآئے تاکہ تم کو پتہ چلے کہ کتنے بھی بڑے مقام کا کوئی ولی کیوں نہ ہو، تم نے بالکل راہِ راست پررہنا ہے اور طریقت کے قوانین کے مطابق چلنا ہے۔ جب کوئی مرتبہ نہ ملے تو پھرایسی باتیں کرنا فضول ہے کیونکہ اِس سے لوگوں کا ایمان برباد ہوگا۔ اب وہ ولی تو اُس مرتبے پرفائز تھا اور اگر آپ کی دیدارِ الہی کے بعد اللہ سے ذاتی جان پہچان ہوجائے تو اللہ تعالی اتنا یاروں کا یار ہے کہ بھول جاتا ہے کہ وہ خُدا ہے۔ اللہ تعالی اِتنا اپنے بندے سے پیارکرتا ہے کہ بندہ بُھول جاتا ہے اورجب بندہ بُھول جاتا ہے تو وہ ابے تبے کی زبان بولنے لگتا ہے اور اللہ تعالی بُرا بھی محسوس نہیں کرتا لیکن یہ باتیں اُس کے اور رب کے بیچ کی باتیں ہیں۔ اِن باتوں کوعوامی سطح پر عام لوگوں کے سامنے نہیں کہا جاسکتا۔ اُس ولی کی بہت سی کرامات بھی تھیں لیکن اگرآپ لوگوں کو حقیقت سمجھ میں آئے تو پتہ چلے گا کہ اللہ کا کسی سے کیسا ہی بے تکلف تعلق ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ طاقت وہ سب کو نہیں دیتا کہ تم کسی کے مردہ قلب کو زندہ کردے۔ یہ طاقت ولیوں کے پاس عام نہیں ہے بھلے اُن کا اللہ سے کیسا بھی تعلق ہو۔

موجودہ دور میں کس کی پیروی کرنا جائز ہے؟

ایک دفعہ ہماری سرکار گوھر شاہی سے مانچسٹر میں بات ہورہی تھی تو ہم نے کہا کہ غوثِ اعظمؓ نے فرمایا ہے کہ

میرا انڈہ دوسرے ولیوں کے ایک ہزارانڈوں کے برابر ہے۔

سرکارگوھر شاہی نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن کرامت تو یہ ہے کہ جب گندے انڈے میں سے چوزہ نکالیں۔ اچھے انڈوں میں سے تو سب ہی ہزار انڈے نکال لیں گے۔ گندے انڈے میں سے چوزہ نہیں نکلتا لیکن یہ صرف وہی نکالیں گے جن کا نام گوھر شاہی ہے۔ ایک طرف تو ولیوں کا اللہ سے تعلق ایسا ہے کہ وہ اللہ سے بہت بے تکلف ہیں لیکن اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اتنا بے تکلف ہے تو اُس کی تو بہت بڑی روحانی طاقت ہوگی۔ طاقت الگ ہے اور رب سے تعلق الگ ہے۔ رب سے جو تعلق ہوتا ہے وہ صرف آپ اور اللہ کے درمیان ہے جس کوعام عوام میں نہیں بتایا جاسکتا۔ ہمیں سیدنا گوھرشاہی نے اللہ کا ادب سکھایا ہے۔ تم تو اپنی رمز میں بہت کچھ بول جاتے ہو لیکن اب جو تصوف کا پرچارکرنے والے ہیں اُن کو پھرہزاروں سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے تو کس کس کو مطمئن کریں گے۔ جیسا کہ بلھے شاہ نے فرمایا کہ
نہ میں پنج نمازاں نیتی نہ تسبا کھڑکایا
بلھے نو ملیا مرشد جو اینویں جا بخشایا

اِن اولیاء اللہ کو کہنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ اِس سے تصوف، روحانیت کے نام پردھبہ پڑتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ صوفی ہیں لیکن نہ نماز پڑھتے ہیں نہ روزہ رکھتے ہیں اور نہ دینِ اسلام کو مانتے ہیں بلکہ صرف اللہ ھو کرتے رہتے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بلھے شاہ کا مقام بہت اعلیٰ ہے۔ بلھے شاہ یہ بات آسانی سے بھی کہہ سکتے تھے کہ وہ بے نمازی تھے، نہ تسبیح کی لیکن پھر بھی انہیں اُن کے مرشد نے نواز دیا۔ مجذوب سے تلقین لینا گمراہی ہے۔ سرکارسیدنا گوھرشاہی نے پوری کائنات کے انسانوں کو چار حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
1. ایک وہ جن کا ظاہر بھی خراب ہے اور باطن بھی خراب ہے۔ وہ نہ ظاہر میں نماز روزہ اور نہ ذکرفکرکرتے ہیں اور نہ باطن میں کوئی روشنی ہے۔ یہ کافروں کا گروہ ہے بھلے زبان سے کلمہ ہی کیوں نہ پڑھتے ہوں۔ فاسق اُسے کہتے ہیں جو زبان سے درود و سلام اور قرآن مجید کی تلاوت بھی کرے لیکن عمل میں کچھ نہ ہو۔ توحید کے نارے لگاتا رہے لیکن مُشرکانا زندگی گزارے۔ حضورؐ کے عشق کے نارے لگاتا رہے لیکن حضورؐ سے کوئی واقفیت نہ ہو۔ یہی کفر ہے کیونکہ قرآن تمہارے گھرمیں پڑا ہوا ہے اور تم دین سے ناواقف ہو تو اِس سے بڑا کفرکیا ہے! تم نے صرف قرآن کے اوپر ویلوٹ کا کپڑا لگا کراونچا رکھ دیا ہے۔ یہ عزت نہیں ہے بلکہ دین کو سمجھنے کیلئے قرآن کو پڑھو۔ قرآن کو پڑھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ ظاہر میں نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور نہ باطن میں دل کی کوئی روشنی تو فرمایا کہ یہ مقامِ کفر ہے۔
2. دوسرا طبقہ وہ ہے جو ظاہرمیں تو نماز روزہ ہے لیکن باطن میں سیاہی ہے۔ یہ منافقوں کا گروہ ہے۔
3. تیسرا گروہ وہ ہے جن کا ظاہر خراب اور باطن آراستہ۔ یہ مجذوبوں کا گروہ ہے۔ یہ بھی صراطِ مستقیم نہیں ہے۔
4. سیدنا امام مہدی گوھرشاہی نے فرمایا کہ ظاہر بھی درست اور باطن بھی درست کہ ظاہر میں بھی نماز روزہ ہو اور دل بھی اللہ اللہ کرے تو یہ صراطِ مستقیم ہے۔ اب اگرتم نے ظاہر میں تو علم حاصل کرلیا لیکن دل کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا کہ
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں

صراطِ مستقیم یہ ہے کہ تمہارا ظاہر بھی درست ہو اور باطن بھی درست ہو تو اِس لئے مجذوب سے تلقین لینا باعثِ گمراہی، حرام اور زندیقی ہے۔

اہم نکتہ :

جب کوئی مومن اپنی ارواح کو بیدار کر کے اللہ کے وصل پر فائز ہوتا ہے تو وہ ولی کے درجے کا حامل ہو جاتا ہے اس کے بعد اگر اللہ کسی کی ڈیوٹی لوگوں پر ہدایت کیلئے لگانا چاہتا تو پھر ازن و ارشاد کے مرتبے سے نوازتا ہے پھر وہ مرشد اللہ کی طرف سے ہدایت پر مامور ہوجاتا ہے ۔ اور اگر اللہ اسے اذن و ارشاد پر مامور نہیں کرتا ہے تووہ مرشد کا درجہ نہیں رکھتا ہے ۔ اس لئے ہر مرشد ولی ہوتا ہے لیکن ہر ولی مرشد نہیں ہو سکتا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 21 فروری 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس