کیٹیگری: مضامین

جو لوگ راہِ طریقت پر گامزن ہیں اُن کےلئے قرآن مجید میں آیا ہے کہ

مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
سورة ھود آیت نمبر 15

جو روحانیت میں چلنے والے لوگ ہیں اُن کیلئے یہ بڑا اہمیت کا حامل اللہ کا کلام ہے یعنی اللہ تعالی کی طرف سے نصیحت آئی ہے۔ اِس میں خاص طور پر صوفیوں کیلئے جو راہِ طریقت میں چل رہے ہیں اُن لوگوں کیلئے اِس میں بڑا سبق ہے۔ اب یہاں فرمایا گیا ہے۔ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا اب یہ جو حیات الدنیا ہے یہ یہاں کی زندگی کیطرف اشارہ ہے کہ آج جو ہم زندگی گزار رہے ہیں جیسے بہت سے لوگوں کو ہم لیکرآئے، کچھ پاکستان سے آئے کچھ امریکہ سے آئے کچھ انڈیا سے آئے کچھ کہیں اور کچھ کہیں سے آئے اور یہاں پر بسایا کہ چلو یہاں اپنا روزگار بھی کماوٴ اور مشن کا کام بھی کرو لیکن اُن میں سے کچھ کی اولاد جو تھی اُن کو یہ پسند نہیں آیا کہ ہم اتنی سادہ زندگی نہیں گزار سکتے اور بڑی بڑی آرزوئیں کیں کہ بڑے بڑے محل ہوں، مشہور شخصیت ہو، بڑی بڑی گاڑیاں ہوں، بڑا پیسہ ہو، دنیا میں گھومیں پھریں عیاشی کریں تو اب یہ چیز انسان کے دل میں آتی ہے تو پھر اُس کے اندر کی جو موٴمن اور اللہ والا بننے کی نیت ہے وہ پہلے ختم ہوتی ہے پھر یہ دنیا کی زندگی کا انسان کو خیال آتا ہے۔ اب اگر ہم آپ سے عام ساسوال کریں کیونکہ ہم میں اکثر لوگ تو انگلینڈ میں پاکستان اور انڈیا سے آئے ہیں ہم یہاں پیدا نہیں ہوئے۔ فرض کیا کہ کوئی بندہ ہمارے انڈیا بنگلادیش پاکستان سے باہر کے ملک جیسا کہ دبئی میں چلا جاتا ہے تو اب وہ پاکستان ہندوستان سے دبئی پیسہ کمانے کیلئے گیا ہے۔ اب وہ پیسہ کمائے اور پیسہ گھروالوں کو بھیجے تو آنے کا مقصد پورا ہوگا۔ اگر وہ پیسہ کمائے گا، بھیجے گا تو وہ مقصد پورا ہوگیا اور اگر وہ پیسہ کما کے ایک دن اُسے خیال آئے کہ میں اتنی محنت کررہا ہوں اور سارے پیسے اپنے گھر پر بھیج دیتا ہوں تو یہ تو میرے ساتھ بڑی ذیادتی ہورہی ہے، اُس کے بعد وہ جتنے پیسے کماتا ہے اپنے اوپر لگالیتا ہے تو وہاں صفر ہوجاتا ہے کیونکہ وہاں کا خیال اُس کو نہیں رہا تو یہ خیال جو اُس کو اِس بنیاد پرآیا کہ اُس نے اپنی پرواہ کی اور جن کو وہ وہاں چھوڑ کرآیا ہے آسرا دے کرآیا ہے کہ میں پیسے بھیجوں گا اُن کی پرواہ نہیں کی اور خود غرض ہوگیا۔ اِسی طرح اِس دنیا میں جو ہم آئے ہیں ہم اِس دنیا میں ایک امتحان کیلئے آئے ہیں۔ یومِ ازل میں اللہ تعالی نے سب کواکٹھا کرکے پوچھا تھا کہ

أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا
سورة الاٴعراف آیت نمبر 172
ترجمہ: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو سب نے کہا کہ بیشک آپ ہمارے رب ہیں۔

پھر اللہ تعالی نے اُن کو جنت اور دنیا کے نظارے دکھائے ہیں اور فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہے وہ یہ لے لے تو جن لوگوں نے دنیا کو پسند کیا وہ دنیا دار ہوگئے اور جن لوگوں نے جنت کے لذات کو پسند کیا اب اُن کے ساتھ شرط لگادی گئی کہ مذہب پرعمل پیرا ہونگے اور اب وہ دنیا میں آگئے۔ دنیا میں آنے کے بعد آپ نے جو جنت کے لذات پسند کئے تھے اب آپ نے اُن کیلئے کام کرنا ہے۔ فرض کیا کہ آپ نے وہاں جنت کے لذات کو پسند کیا تھا تو وہ آپ کی تقدیر ہے تو اُس کیلئے آپ نے یہاں پر زندگی ایسی گزارنی ہے کہ آپ نے جو جنت کے لذات پسند کئے ہیں وہ جنت آپ کو مل جائے یا اگر آپ نے اللہ کا انتخاب کیا تھا تو اللہ آپ کو مل جائے۔ پھر اِس دنیا میں آگئے اور آپ کا قلب جاری ہوگیا، دل اللہ اللہ کرنے لگ گیا تو اِس بات کی وہ گارنٹی ہوگئی کہ ہاں یہ موٴمن ہے۔ پھر موٴمن ہونے کے بعد ایک دن بندے کوخیال آئے کہ یہ میں کیا کررہا ہوں مجھے تو لاس آنجلس (امریکہ) میں رہنا چاہئیے، میرے پاس تو بڑا محل ہونا چاہئیے، گاڑیاں ہونی چاہیئیں اور یہ سب تو بیکار ہے اور یہاں میری زندگی تباہ ہورہی ہے اور یہاں کا تو بہت دم گھٹنے والا ماحول ہے، یہاں پر تو ایسی بات ہی نہیں ہوتی ہے کہ جس میں دنیا بنانے کی کوئی بات ہو، پیسہ بنانے کی بات ہو، عیاشیوں کی بات ہو تو معلوم یہ ہوا کہ موٴمن بننے کے بعد اُس کو دنیا کی اِس لذت نے اور اِس زندگی نے جو اِس دنیا میں اُس کو ملی ہے، اپنی طرف کھینچ لیا۔ پھر وہ یہ تمام خواہشات اپنے سینے میں لیکر اِس ماحول سے روحانیت، خدا اور رسول سے اور امام مہدی سے چکما دیکر، دھوکا دیکردور بھاگ جاتا ہے۔ مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا کہ اور جس نے یہ جو دنیا کی زندگی ہے اِس کے معیار کو بہتر کیا اور اِس کی جو زینت ہے اور اِس میں جو اللہ نے اچھی اچھی چیزیں تمہیں لالچ دینے کیلئے رکھی ہیں اگر اُن کے پیچھے پڑگیا تو پھر کیا ہوگا! نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا تو جو اُنہوں نے موٴمن ہوکر جو بھی عمل کیا تھا نور کمایا تھا اللہ تعالی اُس کو بدل کراُس کا صلہ دنیا میں دے دے گا اور آخرت میں اندھا کھڑا کرے گا۔ لہٰذا جن لوگوں کے قلب جاری ہوجائیں جو درجہ ایمان پرفائزہوجائیں اُن کواپنی زبان پرقابو کرنا چاہیئے، اپنے خیالات پر قابو پانا چاہئیے کیونکہ اُنہوں نے خودہی یہ راستہ چُنا ہے۔ اور سُن لو کہ اگر اللہ کی محبت کا راستہ چُن رہے ہو تو پھر جان لو کہ محمد الرسول اللہ نے تین تین دن کے فاقے کئے ہیں۔ اِس راستے میں اگرآپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نوٹوں کی گڈیاں تمہارے گھر کے آگے لگادے گا اور وہ بیش بہا دولت تمکو دے گا تو یہ تمہاری بھول ہے۔ کوئی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اللہ تعالی سے محبت کی ہو اور محمد الرسول اللہ سے ذیادہ محبت کی ہو۔ سب سے ذیادہ اللہ سے محبت ہمارے نبیؐ نے کی تو ہمارے نبیؐ کے حالاتِ زندگی کیسے رہے ہیں کہ تین تین دن کے فاقے کئے ہیں، تین تین پتھر باندھے ہیں اور آپؐ کی بیٹی کا رہن سہن کیا تھا! ایک دن حضورؐ اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے، دروازہ کھٹکھٹایا تو سیدہ فاطمہ نے جواب دیا کہ بابا جان میرے جسم پر اتنے کپڑے نہیں ہیں کہ میں آپ کو اندر بلا سکوں تو غربت کا یہ عالم تھا اور نبی پاکؐ نے اپنی کالی کملی اوپر سے پھینکی کہ بیٹا یہ اوڑھ لو اور پھر اُنہوں نے دروازہ کھولا۔ اپنی چہیتی بیٹی کی غربت کا یہ عالم دیکھ کر نبی پاکؐ غم زدہ ہوگئے اور کہا کہ اے فاطمہ! تیرے باپ کو اللہ نے اتنی طاقت دی ہے کہ اگر میں تیرے درودیوار کو ایک نظردیکھ لوں تو سونا اور چاندی کا بنا دوں تو کیا تجھے دنیا کی محبت چاہئیے تو آپؐ کی لختِ جگر سیدہ فاطمة زہرا نے فرمایا کہ نہیں بابا جان مجھے دنیا کی محبت نہیں چاہئیے مجھے اللہ کی محبت چاہیئے اور مجھے اِس فقروفاقے سے اللہ کی محبت کی خوشبو آتی ہے۔ آج جو لوگ روحانیت کو اختیار کررہے ہیں دلوں میں اللہ اللہ بسا رہے ہیں وہ یہ جان لیں سُن لیں کہ تم محمد الرسول اللہ سے ذیادہ اللہ سے محبت نہیں کرسکتے تو محمد الرسول اللہ نے، آپ کے گھرانے نے بھی فاقے تو کاٹے ہیں لیکن اُس میں اللہ کی محبت کو پایا ہے۔ تم آج محبت کا دعویٰ کرکے سچے ہونے کا دعویٰ کرکے دنیا کے لذات کیطرف بھاگ رہا ہے۔ تیری تقدیر میں اگر لذات نہیں تھے تو تجھے کیسے ملیں گے! جب تیری تقدیر میں لذاتِ دنیا نہیں ہیں اُن کیلئے تُو روحانیت کو ٹھوکر مار کر بھاگ جاتا ہے تو وہ تو مقدر میں ہی نہیں ہیں جن کیلئے تُو بھاگ رہا ہے تو پھر کیا ہوگا کہ صرف دماغ خراب ہوگا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

یہاں سے بھاگ گئے، وہاں کچھ ملا نہیں تو اب راستہ کیا رہ جائے گا سوائے ذلت اور رسوائی کے۔ سوچ لیں سمجھ لیں کہ

روحانیت میں آنے سے پہلے کوئی آپ کو سبز باغ نہیں دکھائے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ ذکرِقلب چلنے کے بعد سونے کی اشرفیاں چاندی کی اینٹیں اوپر سے برسیں گی اور آپ کو راتوں رات امیر بنادیں گی یا اللہ آپ کو یہ طاقت دے دے گا کہ آپ کُن کہیں گے تو فَیَکُن ہوجائے گا باوجود اِس کے کہ جن کی زبانوں میں کُن کی طاقت ہے وہ کبھی بھی اِس طاقت کو دنیا اور حیات الدنیا کیلئے استعمال ہی نہیں کرتے۔

کبھی کبھی مجھے (یونس الگوھر) یہ خیال آتا ہے کہ ریاض الجنة میں کیا ہے اِس کی مجھے خبر ہوجاتی ہے، لوحِ محفوظ پر کیا لکھا ہے اِس کی مجھے خبر ہے، بیت المامور میں کیا ہے اِس کی مجھے خبر ہے لیکن اِسی شہر لندن میں کون کہاں ہے اِس کی مجھے خبر نہیں ہورہی تو کیا خبر نہیں ہورہی یا ہورہی ہے! اگر مجھے یہ نہیں پتہ کہ کینری ورف (انگلینڈ) میں کیا ہے اور تم نے مان لیا تو تمہارا ایمان تباہ ہوگیا۔ کینری ورف میں کیا ہے یہ مجھے نہیں پتہ تو پھر جو ہم نے ریاض الجنة کے بارے میں تم کو بتایا ہے اُس پر تم نے یقین کیسے کرلیا! کون موٴمن ہے کون منافق ہے اگر ہماری اِس بات پریقین نہیں ہے تو پھر یہ سب کچھ واقعی غلط ہے۔ اگر تیرے جانے سے ایک مہینے پہلے تجھے یہ کہے کہ کھاوٴ بیٹا خوب کھاوٴ کیونکہ جانور کی قربانی کرنے سے پہلے اُسے خوب کھلاتے ہیں تو پھر پتہ ہے لیکن جو فقیر ہے وہ اتنی آسانی سے کسی کے ہتھے چڑھتا نہیں ہے۔ فقیر کی یہی تو ایک رمز ہے کہ فقیر کے اپنے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی کو یقین نہیں ہونے دے گا کہ وہ کون ہے، کیا کرسکتا ہے اور کیا کررہا ہے۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ بیٹھا ہوا ہے روزانہ کیطرح گفتگو ہورہی ہے۔ فقیر کا مزاج، رنگ اور کیفیت پر مبنی ہے۔ کبھی اُس کا مزاج معشوقانہ ہے اور کبھی اُس کا مزاج عاشقانہ ہے اور کبھی اُس کا مزاج جلالانہ ہے۔ جب اُس کا مزاج جلالانہ ہے تو وہ پیشانی کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹے گا اور پھر وہ یہ کہے گا کہ اب اپنے ساتھیوں کو بلالو ویسٹ کوسٹ (انگلینڈ) پر اِدھر اور اُدھر جتنے بھی ہیں سب کو بلالو۔ ہم بھی قہاری مخلوق کو بلالیتے ہیں۔ فقیر بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اُس کی سب سے ذیادہ خطرناک بات یہ ہوتی ہے کہ وہ شکل و صورت گفتگو انداز اِن سب سے بالکل بے ضرر انسان لگتا ہے کہ یہ کیا کریں گے جانے دو۔

فقیر کی سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ وہ کبھی اپنی عظمت کا پتہ نہیں لگنے دے گا، اپنی طاقت کا پتہ نہیں لگنے دے گا، وہ بادشاہ ہوکر بھیک مانگے گا، وہ خدا ہوکر سجدہ کرے گا اور وہ سچا ہوکر تم کو نظارے دکھائے گا جس سے تم کہو گے کہ یہ جھوٹا ہے۔

لسان الفقراء سیف الرحمٰن
ترجمہ: فقیر کی جو زبان ہے وہ اللہ کی تلوار ہے۔

اگر اللہ آپ کو کچھ سمجھا دے تو آپ کسی کی کوئی بات مان لیں گے تو اگر اللہ نے کسی کو کچھ سمجھا دیا تو اب وہ کسی کی بات نہیں مانے گا اور لوگ کہیں گے کہ متکبر ہوگیا ہے نفس کا مسئلہ بنالیا ہے۔ مولا علی کو یہی تو لوگ الزام دیتے تھے کہ یہ کسی کی سنتے نہیں ہیں اور مولا علی چیخ چیخ کر یہ کہتے تھے کہ میں اپنے رب کی باتوں پر عمل کررہا ہوں جو وہ مجھے کہتے ہیں میں وہ کررہا ہوں اور جو نفس پرست لوگ اِردگرد تھے وہ یہی کہتے تھے کہ یہ اپنی چلارہے ہیں لیکن آپ کو پتہ نہیں ہے کہ رب نے اُس کو کہا ہے کہ یہ کرو اور یہ نہیں کرو تو وہ رب کی بات مانے گا۔
ایک حدیث شریف ہے کہ

اتقوا فراسة المؤمن فإنه ينظر بنور الله
رواہ الترمذی (3127)
ترجمہ: موٴمن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

دوسری حدیث میں آیا ہے کہ

استقامة فوق الکرامة
ترجمہ: استقامت جو ہے وہ کرامت سے بڑی شے ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 اکتوبر 2020 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآنِ مکنون کی خصوصی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس