کیٹیگری: مضامین

یومِ محشر میں جب ساق سے پردہ ہٹایا جائے گا تو وہ سرکار گوھر شاہی کے قدم ہونگے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمیں ابھی پتہ چل گیا ہے اور جب یہ راز تمہیں پتہ چلے گا تو اُس وقت سجدہ کرنے کی استطاعت چِھن چُکی ہوگی۔ یہی سچ ہے کہ مرشد کے قدم ہی خدا کے قدم ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو محمدؐ کی شخصیت اور صورت میں خدا نظر نہیں آیا تو اُن کو خدا کہیں نظر نہیں آیا اور جن کو خدا اپنے مرشد کی صورت میں نظر آگیا تو اُن کو ہرجگہ نظر آیا۔ جب ساق (پنڈلی) پرسے پردہ اُٹھایا جائے گا تو وہاں قدمین شریفین کونسے ہونگے! ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سرکار گوھر شاہی کی ساق ہوگی لیکن تم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اللہ کی ساق ہوگی حالانکہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ

يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ
سورة القلم آیت نمبر42

اس آیت کی تشریح یہ ہے کہ جس دن وہ ساق پرسے غلاف اُتارے گا یعنی ساق کو عُریاں کرے گا تو اُس وقت تم سجدہ نہیں کر پاوٴ گے سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے پہلے ہی کرلیا تھا۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ یہ جو ساق ہیں یہ سیدنا گوھر شاہی کی ساق کا ذکر ہے۔ اللہ تعالی نے ساق کا ذکر اس آیت مبارکہ میں فرمایا۔ اللہ تعالی نےتوقرآن مجید میں اُس ریت کا بھی ذکرفرمایا ہے کہ جس ریت کے اوپر محمد الرسول اللہ کے گھوڑے چلتے تھے اور اُس ریت کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ

وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا
سورة العادیات آیت نمبر1
ترجمہ: قسم ہے اُن گھوڑوں کی جو بانپتے ہوئے دوڑتے ہیں۔

آپ امام مہدی کی ساق کا بھی ذکر نہیں چاہتے کہ جہاں ریت کی قسمیں کھائی جارہی ہیں۔ يَوْمَ يُكْشَفُ کہ اُس دن کھول دے گا۔ عَن سَاقٍ اب یہ جو “ساق” ہے اس کا مطلب ہے ساق۔ ساق اس لئے دکھائے گا کیونکہ آدم صفی اللہ کی ران میں سے بچے نکلتے تھے اور وہ ساق دکھائے گا کہ سب کچھ یہاں سے نکلا تھا اور جب لوگوں کو پتہ چلے گا کہ وہ بھی یہاں سے نکلا تھا تو پھر اُس کی عظمت کے قائل ہونگے۔ اُس کے بعد پھر اعلان ہوگا کہ آوٴ اور سجدہ کرو۔ پھر وہ چاہیں گے کہ سجدہ کریں لیکن گردنیں اکڑ جائیں گی اور جسم میں جھکنے کی طاقت باقی نہیں ہوگی۔ يَوْمَ يُكْشَفُ کہ اُس دن وہ راز کھول دے گا۔ عَن سَاقٍ اپنی ران سے پردہ ہٹا دے گا۔ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ اور سجدہ کرنے کیلئے دعوت دی جائے گی کہ آجاوٴاور جھک جاوٴفَلَا يَسْتَطِيعُونَ لیکن اُن میں اُس وقت استطاعت باقی نہیں رہے گی یعنی طاقت ہی نہیں رہے گی لیکن ترجمہ کرنے والوں نے کہا ہے کہ کفارکو سجدہ کرنے کی استطاعت نہیں ہوگی۔ اگر وہ کفار ہی ہونگے تو اُن کو ساق کیوں دکھائی جائے گی!

یومِ محشر کے کتنے زمانے ہیں؟

قرآن نے کہا ہے کہ ایک دن آئے گا لیکن یہ مولویوں کی اپنی سوچ ہے کہ يَوْمَ سے مُراد وہ یومِ محشر کو لے رہے ہیں کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ وہ یومِ محشر ہی ہو بلکہ “یوم” ہے تو کوئی بھی دن ہوسکتا ہے لیکن آپ مجھ سے پوچھیں گے تو وہ یومِ محشر نہیں ہوگا کیونکہ ایک دفعہ سیدنا امام مہدی سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ فضیل بن عیاض جو عاشقوں کا سردار ہے انہوں نے اللہ تعالی کو کہا کہ سنا ہے یومِ محشر میں آپ سب کو اپنا جلوہ دکھائیں گے اور اگر ایسا ہوا تو ہم کو اتنے چلّے مجاہدے کرنے کا کیا فائدہ ہوا کہ اب سبھی آپ کو بے پردہ دیکھیں گے۔ جب اُس نے یہ اعتراض اُٹھایا تو سارے عُشاق آگئے اور اُنہوں نے بھی کہا کہ ایسا تو نہیں ہونا چاہیئے کہ یومِ محشر میں آپ سب کے سامنے بے پردہ ہوجائیں گے۔ پھر اُس وقت اللہ تعالی نے اُن کوکہا کہ یومِ محشر میں، میں نہیں ہوں گا تو وہ سب خاموش ہوگئے۔ اب اُن کو صرف اتنا ہی ذہن میں آیا کہ اللہ تعالی نہیں ہونگے لیکن اللہ نہیں ہوگا تو پھر کون ہوگا! پھر یہ ہوگا کہ جو طفلِ نوری ہونگے سلطان الفقراء والے ڈیوٹی والے وہ اللہ کے تخت پربیٹھے ہونگے۔ جب تک کنجی حضور پاکؐ کے پاس تھی اُس وقت تک کا جو زمانہ ہے اُس کا یومِ محشر الگ ہوگا۔ ایک تو حضورؐ کا زمانہ ہوگیا جو حضورؐ کے آنے سے شروع ہوا اور جو اسمِ ذات کی کنجی ہے جب وہ غوثِ اعظمؓ کودی ہے تو حضورؐ کی تقرُری ہونے سے لے کر جب غوثِ پاکؓ دنیا میں آئے، یہ سارا زمانہ حضورؐ کا کہلاتا ہے۔ اس دوران میں جتنے انسان آئے ہیں اُن سب کا یومِ محشر الگ ہوگا اور وہاں تخت پر اللہ کی جگہ محمد الرسول اللہ بیٹھے ہونگے۔ پھر اسمِ ذات کی کنجی والا دوسرا زمانہ شروع ہوتا ہے اور دوسرے زمانے میں غوثِ اعظم کے پاس کنجی چلتی ہے جب تک کہ امام مہدیؑ تشریف نہ لے آئیں۔ جب امام مہدیؑ تشریف فرما ہوگئے تو وہاں غوثِ اعظم کا زمانہ ختم ہوگیا اور اِس زمانے میں جتنے بھی انسان آئے اُس زمانے کے یومِ محشر میں غوثِ اعظم اللہ کی سیٹ پر بیٹھے ہونگے۔ اس کے بعد امام مہدیؑ کا زمانہ ہوگا اور جب سے امام مہدیؑ کو کنجی ملی ہے اؐس سے لے کرقیامت تک امام مہدیؑ کا زمانہ ہوگا۔ امام مہدیؑ کے زمانے میں جتنے بھی انسان ہونگے اُس یومِ محشر میں امام مہدیؑ بیٹھے ہونگے۔ اب یہ تین جگہیں محشر کی ہوگئی ہیں اور تین جگہ محشر لگا ہوگا۔ حضورؐ کے زمانے میں حضورؐ اپنے پورے زمانے پرشاھد ہیں۔ جوغوثِ اعظم کا دور ہے اُس میں غوثِ اعظم شاھد ہیں۔ ایک دفعہ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اگرغوثِ اعظم کو کوئی نہ مانے تو وہ اُمت سے خارج ہے تو ہم نے سوچا کہ ولی تواور بھی بہت سارے آئے ہیں توصرف غوثِ اعظم کی بات اتنی خاص کیوں ہے تو پھر ان زمانوں سے سمجھ میں آیا۔ اس طرح یہ تین زمانے ہوگئے۔

اللہ تعالی کس زمانے میں ساق کا ظہور فرمائے گا؟

یومِ محشر میں اللہ تعالی ساق نہیں دکھائے گا بلکہ وہ تو کوئی خاص جگہ ہوگی۔ جب لوگوں کا یومِ محشرہوگیا، جنتی جنت میں چلے گئے، جہنمی جہنم میں چلے گئے اور اب ولی اور نبی رہ گئے تو اُن کے اندر ہوگا کہ اِن کو دیدار کیوں نہیں دیا اور ان کو دیدار کیوں دینا چاہتا ہے تو اُس کے بعد پھر وہ ساق دکھائے گااُس محشر میں جس میں انبیاء اور اولیاء ہونگے۔ اِن محشروں میں تو ولی ایک دوسرے کی پانی اور وضو پر بخشش کررہے ہونگے تو اب پانی پلانے پر بخشش ہوجائے تو وہ کیا بخشش ہوگی جو پانی پلانے سے ہوگئی۔ ایک اُدھر بخشش ہوگی جو مختلف ہوگی اور وہ بخشش خاص ہے۔ وہ کہیں گے کہ جب ہم نیچے تمہارے حرم کا طواف کرتے تھے تو تمہاری آواز آتی تھی کہ آپ اپنے حرم میں ہمیں بلائیں گے تو اب ہمیں اپنے حرم میں بلاوٴ۔ جو حرم یہاں ہے یہ وہ حرم نہیں ہے کیونکہ حرم کا مطلب ہے حجاب اور اگر کوئی حجاب میں بیٹھا ہوتوکہیں گے کہ یہ حرم میں ہے۔ ایک حرم اُدھر ہے جہاں وہ پردے میں بیٹھا ہوا ہے۔ اب نیچے تو بخشش وغیرہ کیلئے تھا لیکن وہاں جنت کیلئے نہیں بلکہ حرم میں جانے کیلئے ہوگا۔ جنہوں نے زمین پراُسے دیکھ لیا تھا وہ خودکار مشروط ہوجائیں گے اور جو زمین پر نہیں دیکھ سکے تو اُن کیلئے پھر بخشش ہوگی۔ وہ بخشش یہ ہوگی کہ وہ اپنی ٹانگ آگے کرے گا اور کہے گا کہ اس کو پہچانتے ہو تو کچھ کہیں گے کہ ہاں میں نے دیکھی تھی توکہا جائے گا کہ جاوٴ بخش دیا۔ جو پہلے سے دیداروالے تھے وہ بہت حیرت میں ہونگے کہ اِن کو یہ ساق زمین پرکہاں نظرآئی کیونکہ بہت سے لوگ جو وہاں دیدار میں چلے گئے تو انہوں نے رب کو بہت ٹٹولنے کی کوشش کی لیکن صرف دوردور سے باتیں کرتے رہے اور اتنا قریب کسی کو آنے نہیں دیا کہ وہ ٹٹولے۔ جب یہ ساق پر سے پردہ اُٹھایا تو کچھ کہیں گے کہ ہم نے دیکھنا تو درکنار ہم نے تو دبایا ہے۔ اسی لئے اُن کو صاحبِ حرم کیا جائے گا۔ یہ اُس وقت اور اُس دن کا واقعہ ہے جو یومِ محشر کے بعد ہوگا کیونکہ دوسرے یومِ محشرتوعام لوگوں کیلئے ہیں۔ وہ یومِ محشر نہیں بلکہ خاص دن ہوگا۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 19 نومبر 2019 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ ہے۔

متعلقہ پوسٹس