کیٹیگری: مضامین

انسان اپنے رائے کو رب کی رائے سے مقدم سمجھتا ہے:

انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ رب کی طرف سے احکامات آنے کے باوجود نہ جانے کیوں وہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتا ہے ۔ جو بھی دین و مذہب اس دنیا میں آیا اسکے ماننے والوں نے اسکے ٹکڑے اسلئے کئے کہ کسی نے رب کی رائے کو مقدم نہیں سمجھا سب اپنی اپنی رائے کو اپنا دین سمجھنے لگ گئے ۔ تمہاری رائے بیکار ہے ، اسکی کوئی قدر نہیں ہے ۔ جو مذاہب انسانوں نے بنائے ہیں کیا ان مذاہب کے ذریعے کوئی رب تک پہنچ سکتا ہے ؟ یقینا نہیں پہنچ سکتا ، تو پھر جو مذہب رب نے بنائے ہیں ، رب نے کلام اتارا ہے اسکو چھوڑ کر اگر کوئی اپنی رائے کو اپنا دین سمجھ بیٹھے تو اس سے وہ رب تک نہیں پہنچ پائیگا ۔

روحانیت کی تشریح:

روحانیت ایک سائنسی علم ہے اور اِس علم کے ذریعے آپ نور بناتے ہیں ۔ روحانیت کےنظام کا سارا دارومدار نور کے اوپر ہی قائم ہے یعنی روحانیت کا سسٹم نور کے اوپر چلتا ہے۔ نور کیسے بنایا جاتا ہے ؟ یہ انسانی تاریخ میں پہلی بارسیدنا گوھر شاہی امام مہدی نے سمجھایا ۔ یہ بات میں حلفیہ کہتا ہوں کہ تاریخ ِانسانی میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے ،لاکھوں ولی آئے لیکن کسی نے یہ راز آشکار نہیں کیاکہ روحانیت کیا ہے ؟ لوگ روحانی بن بھی گئے ، رب تک پہنچ بھی گئے لیکن انکو بھی پتہ نہیں کہ ان کیساتھ کیا ہوا ، کب ہوا ، کیسے ہوا؟ مثال کے طور پر آپ آم یا پپیتا کھاتے ہیں لیکن آپکو معلوم نہیں کہ یہ کیسے بنے ہیں اور ذائقے میں میٹھے کیوں ہیں اور کیوں یہ تمہاری صحت کیلئے اچھے اور کیوں پپیتا معدے اور آم جگر کیلئے مفید ہے ؟ سیدنا گوھر شاہی نے انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ آشکار فرمایا کہ روحانیت میں تمہیں اپنی ارواح یا لطائف کو بیدار اور منور کرنا ہے تاکہ انکی رسائی اپنے اپنے مقام تک ہو سکے ۔ سیدنا امام مہدی گوھر شاہی نے روحانیت کی تشریح فرمائی ہے کہ

“تمہارے اندر روحوں اور لطائف کو بیدار کرنا اور نور سے طاقت پہنچانا اور پھر اُنکو اُنکے مخصوص عالم تک پہنچا دینا یہ روحانیت ہے ”

اس سے پہلے کسی نے اسکی وضاحت نہیں کی ، یہ صرف سیدنا گوہرشاہی کی تعلیمات کا اثر ہے ۔ اور پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ نور کیسے بنائیں ؟ اس ایک جملے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ جو تعلیم سرکار گوہرشاہی دینے والے ہیں وہ انسان کو کہاں لے جائیگی ، انسان کو نور بنانے کا طریقہ سکھارہے ہیں ۔

نور کیسے بنتا ہے؟

آپکو معلوم ہے کہ فرشتے نوری یعنی نور سے بنے ہیں لیکن کیا آپکو یہ معلوم تھا کہ نور کی جس مقدار سے وہ بنے ہیں وہ مقدار بڑھ نہیں سکتی ۔ جتنا بھی نور ان میں موجود ہے وہ ازل سے ابد تک اتنا ہی رہے گا ، نہ تو اس نور کی خصوصیت میں تبدیلی و تغیر آئیگا اور نہ ہی اسکی بہتات میں تغیر و تبدیلی آئیگی ۔ فرشتوں کو جس نور سے بنایا ، جتنی مقدار کے نور سے بنایا وہ اتنی ہی رہے گی اور یہاں سرکار گوہرشاہی تم کو ذاتی نور تخلیق کرنے کی تعلیم اور طریقہ عطا فرما رہے ہیں ۔ سچ سچ بتاؤکونساایسا نبی ہے جس نے کہا ہو کہ آؤ میں نور بنانے کا طریقہ سکھاؤں ؟ دنیا میں بڑے بڑے فنکار آئے ہیں عبدالقادرجیلانی جنکی ولایت کا کوئی پتہ ہی نہیں ہے انہوں نے لوگوں کو مرید بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا اور ایک لمبا سا ہاتھ نکال کر کھڑا کردیا اور کہا کہ میرے مرید تیرا جو جی چاہے کر میرا ہاتھ بہت بڑا ہے لیکن کہانی نہیں بتائی ، شاید بیچاروں کو پتہ ہی نہ ہو لیکن سرکار گوہرشاہی نور بنانے کا طریقہ بتارہے ہیں ۔ آج کم سے کم یہ طریقہ لوگوں کے اتنی تو سمجھ میں آجائے کہ جب بھی یہ ذکر کریں تو اس طریقے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کریں تاکہ نور بنے ۔ اگر رب کا نام وقفے کے ساتھ لیا جائے تو عبادت ہے ۔ رب کا نام وقفے سے لینا تسبیح نہیں ہے ۔ تسبیح کیا ہے ؟ تسبیح سریانی کا لفظ ہے اور تسبیح کا مطلب ہے ایک پوائنٹ سے پھدک کر دوسرے پوائنٹ پر آنا ، کم سے کم 101 مرتبہ مسلسل کرنے سے نور بنتا ہے ۔ سیدنا گوھر شاہی نے اسکو بڑے ہی آسان طریقے سے انتہائی سادگی سے فرمایا :

“ رگڑا لگاؤ یعنی رب کے نام کا رگڑا لگے اور پھر فرمایا جس طرح دودھ سے مکھن بناتے وقت رگڑا لگتا ہے تو دودھ میں سے مکھن نکلتا ہے اسی طرح رب کے نام سے نور بنانے کیلئے نام کا رگڑا لگاتے ہیں ۔ یہ روحانی سائنس ہے ۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں لیکن کہا نہیں کہ امام مہدی گوہرشاہی واحد روحانی سائنسدان ہیں ”

کیا کسی نے ایسی باتیں بتائیں؟ کسی نے کچھ کہا ہی نہیں سب بغلیں جھانکتے رہ گئے ، قرآن پکڑ کے ادھر ادھر کرتے رہے ، صرف سیدنا امام مہدی گوہرشاہی نے کرم فرمایا ۔ تو یہ طریقہ ہے نور بنانے کا ۔ اگر آپکو کامیابی چاہئے تو کوئی طریقہ اپنانا ہوگا اور اگر آپ ایسے ہی یعنی سائیں لوگ بن گئے ۔ سرکار گوہرشاہی کے ہاں پر کوئی روایتی پیروں فقیروں والی چیز نہیں ہے کہ جبہ پہن لیا اور ہاتھ میں مسواک کی لکڑی پکڑ کر منہ میں مسواک کررہے ہیں ، یہ تصوف نہیں ہے ۔ اور میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ جو سرکار نے تعلیم فرمائی اسکے آگے تو تصوف بھی پانی بھرتا ہے ۔ تصوف کیا ہے ؟ تصوف تو صرف صفائی کا نام ہے ۔
چمک تجھ سے پاتے ہیں چمکانے والے
چمک تو تو نے عطا فرمائی ہے ، دلوں کو تو تونے چمکایا ہے اور عشق کی لازوال داستان تونے دلوں میں اور رگوں میں پیوستہ فرمائی ہے ۔ تسبیح کا مطلب ہے رب کا نام جب بار بار لیا جائے تو وہ ٹکرائے اور سرکار گوھر شاہی نے کتنی خوبصورت مثالیں دی ہیں ، پانی پانی سے ٹکراتا ہے تو توانائی بنتی ہے ، بادل بادل سے ٹکراتا ہے تو بجلی بنتی ہے یعنی پوری کائنات کا طریقہ بتاکر کہ کائنات اس طرح تخلیق ہوئی ہے ، اسلئے یہ جو میں تمہیں دے رہا ہوں یہ مادہ ِتخلیق ہے ۔

“ پوری کائنات کی تخلیق کا بتارہے ہیں کہ پانی پانی سے ٹکراتا ہے تو توانائی پیدا ہوتی ہے بادل بادل سے ٹکراتا ہے تو بجلی چمکتی ہے ، پتھر پتھر سے ٹکراتا ہے تو چنگاری اٹھتی ہے اسی طرح جب رب کا نام رب کے نام سے ٹکراتا ہے تو نور پیدا ہوتا ہے ”

اب یہاں پر ایک بات رہ گئی بند کردیتے ہیں اس موضوع کوجو عشق اللہ نے متعارف کیا اور جو عشق راریاض گوہرشاہی نے متعارف کروایا ان میں کیا فرق ہے؟

اللہ کا عشق کیا ہے؟

یہ جو عشق ہے اس میں کیا ہوتا ہے کہ جب دیدار کیا تو انا کے ذریعے اللہ کا جو عکس ہے اسکا جو تصور ہے وہ لطیفہ انّا کے ذریعے پہلے آنکھوں پر آتا ہے ، آنکھوں سے زیادہ کشش دل میں ہے ، ایک دفعہ تم نے کسی کو دیکھا اسکی تصویر تمہاری آنکھوں سے نہیں جائیگی ، اسی طرح اگر دل میں کسی کیلئے ایک جذبہ آگیا تو دل کے اندر آنکھوں سے زیادہ کشش ہے وہ جذبہ کیسے مرے گا ؟ پھر آنکھوں سے رب کی وہ تصویر بوسیلہ انّا دل پہ آگئی ۔ جب رب کی وہ تصویر دل میں آگئی تو پھر کیا ہوا ؟ پھر رب تجھے بھول گیا ۔ جب رب کی تصویر دل پہ آگئی پھر اللہ تجھے بھول گیا ، اب اسکا تعلق تجھ سے ختم ہوگیا اور وہ جو اسکی تصویر تیرے دل پر آئی اس سے تیرا تعلق جڑ گیا ۔ اسکے بعد اللہ اس تصویر یا عکس کو کہتا ہے اب تو نیچے چلا جا ، تجھے نہیں کہتا ، تو اس وقت تو نیچے ہی خواب میں ہے ۔ انجمن والوں نے سمجھا کہ یہ ولی کو کہتا ہے ، ولی تو نیچے ہی سو رہا تھا تب ہی تو لطیفہ انّا اوپر گیا ۔ وہ جو اسکی تصویر تھی اسکو کہتا ہے کہ اب تو نیچے چلا جا اب جو تجھے دیکھ لے وہ مجھے دیکھ لے ۔ جب حضور پاک کیساتھ یہ ہوا تو انہوں نے بھی کہا: من راعنی فقد را الحق ۔ اسکے بعد کہا کہ وہ نیچے سو رہا ہے اور ادھر جبرائیل اعلان کرتے ہیں کہ فلاں ابن ِفلاں میں اللہ کا عکس آگیا ہے ۔ اب وہ جو فرشتے ہیں انکو اللہ کو دیکھنے کا بڑا شوق ہے ، دیکھا جو نہیں ہے ، وہ دیکھنا چاہتے ہیں ادھر اللہ اجازت نہیں دیتا ۔ لہذا جب اعلان ہوتا ہے تو وہ اس بندے کے پاس جاتے ہیں ۔ وہ بندہ سو رہا ہوتا ہے اور وہ اسکے سرہانے سے لیکر آسمانوں تک قطار در قطار اسکو دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔
جب تم اپنی تصویر لگاتے ہو تو تم چاہتے ہو یہ گندی نہ ہو اسکو صاف ستھرا رکھتے ہو ۔ اُسی طرح وہ بھی چاہتا ہے کہ جب وہ اپنی تصویر لگادے تو وہ اُسی طرح صاف رہے ۔ میں نے انسان کے دل میں تصویر لگائی ہے یہ تو گندہ ہے ، گناہوں میں بھی ہوگا اور گناہ نہ بھی کرے لیکن ارد گرد کے لوگ تو گناہ کرینگے ، انکے گناہوں کی نار اسکے قریب آئیگی جس سے تصویر گندی ہوسکتی ہے ، پھر وہ تجلیاں ڈالنا شروع کردیتا ہے تاکہ میری یہ تصویر صاف ستھری رہے ۔ پھر کیا ہوتا ہے ؟ وہ جو تجلیاں پڑتی ہیں وہ جب اللہ کی تصویر سے ٹکراتی ہیں ۔

“یہاں ذکر میں اللہ کا نام آپس میں ٹکرایا تو نور پیدا ہوا وہاں وہ تجلیاں اسکی تصویر سے ٹکرائیں اس سے عشق پیدا ہوتا ہے ۔ یہ تو اللہ کے عشق کا طریقہ ہے ۔ ہمارا طریقہ مختلف ہے ، ہمارے ہاں سات حبل ہیں ان ساتوں کا نور آپس میں ٹکراتا ہے خوب ٹکراتا ہے اور اس ٹکرانے کے بعد جب بہت سارا نور ہوجاتا ہے تو پھر وہ عکس ریاض سے ٹکراتا ہے اس سے پھر عشق ِریاض بنتا ہے ”

ہر چیز ٹکرانے سے ہے اسلئے اس نے کہا ہم نے ہر چیز کو زوجین میں بنایا ۔ زوجین میں ہونگے تو ٹکرائینگے ۔ تمہارے جو بچے ہوتے ہیں ، آپس میں ٹکراتے ہو توہی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب تم قصیدہ پڑھتے ہو اس قصیدے میں کسی اور کا نام آگیا تو پھر ایک جنس کے نام نہیں ٹکرائے ، ایک جیسے نام آپس میں ٹکرائینگے تو نور پیدا ہوگا ۔ اب یہ جو لوگ کرتے ہیں یااللہ یارحمان یہ بیکار ہے ۔ ادھر قانون ہے کہ ایک ہی جنس کا اسم آپس میں ٹکرائے تو نور پیدا ہوگا ۔ ایک ہی جنس کا اسم ہو یا تو یارحمان یارحمان بولو یا پھر یااللہ یااللہ بولو ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے رہو کچھ بھی نہیں ہوگا یا تو ان تینوں اسموں کو کوئی باندھنے والا ہو جو ان تینوں کو باندھ کے آپس میں ٹکرائے تب بسم اللہ کا فیض ہوگا ، یہ الگ الگ ہونگے تو کبھی بھی فیض نہیں ہوگا لیکن تم کو تو باندھنا نہیں آتا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس