- 2,334وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
مرشدِ کامل کو پہچاننے کی کسوٹی کیا ہے ؟
لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ بیعت کرنے کا مقصد کیا ہوتاہے اور فیض لینے کا طریقہ کیا ہے اور پھر وہ کیسا مرشد ہوگا جو مرید کو بیعت کرلے اور فیض کا ذکر نہ کرے ۔اب تو مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہابیوں کے چنگل میں پھنس گئی ہے وہ تو بیعت اور پیروں کو مانتے ہی نہیں ہیں اور جو تھوڑے بہت بچیں ہیں ماننے والے اُن کے پاس نہ روحانیت کی تعلیم ہے نہ اُن کو یہ پتا ہے کہ مرشد کی پہچان کیا ہے مرشد کسے کہتے ہیں اور مرشد کے ہاتھ پر بیعت کیوں ہوتے ہیں اور فیض کیا ہوتا ہے؟ اب چونکہ معلوم نہیں ہے لوگوں کو لیکن وہ ولیوں کے ماننے والے ہیں تو کوئی بھی مولوی ،مفتی تعویز لکھنے والا مرشدِ کامل بن کے بیٹھ جاتا ہے لوگوں کے پیسے لوٹتا ہے لوگوں کے ایمان لوٹتا ہے ، یہاں تک کہ اُن کی عزتیں تک لوٹ لیتا ہے پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے اور یقینا انڈیا میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہوگا جس زمانے میں ہم رِہ رہے ہیں یہ وہ زمانہ ہے کہ جس میں فیض کا ملنا ،اللہ کا ملنا ،عشقِ الہی کا ملنا ، دیدارِ الہی کا ملنا ، حضور ﷺ کی محفل تک رسائی کا ہوجانا ، قلب کا زندہ ہو جانا ،نفس کا پاک ہوجانا ،شریعتِ باطن طریقت یہ ساری کی ساری چیزیں سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی سے منسوب ہیں ۔اِس دور میں کوئی مردِ کامل نہیں ہے یہ قحط الرجال کا دور ہے ولایت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب یہ تعلیم جو ناپید ہوئی ہے ہر گِز ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں منجانب اللہ مامور مرشدِ کامل تو بہت سے ہوں لیکن یہ تعلیم ناپید ہوگئی ہے لہذا لوگوں کو پتا نہیں ہے کہ کون مرشد ہے ایسا نہیں ہے ۔
مثال کے طور پر اگر آپ کا ریسٹورینٹ چل رہا ہے تو اس کی تشہیر کرتے ہیں ،آپ لوگوں نے کیا کبھی ایسا سنا ہے کہ ریسٹورینٹ بند ہو اوراسکی تشہیر جاری ہو۔ ولیوں کا دور ہی ختم ہوگیا اب جب ولیوں کا دور ختم ہو گیا تو اُن کی پہچان کی ضرورت ہی نہیں ہے اب ۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج بھی اِس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے پاس مرشدِ کامل کو پہچاننے کی کسوٹی ہو مرشدِ کامل ملے گا تو کوئی نہیں لیکن یہ کسوٹی آپ کے اِس طرح کام آئے گی کہ کوئی دھوکے باز آپ کو دھوکہ دینا چاہے گا تو آپ اُس کے کام اور فریب میں نہیں آئیں گے ۔
مرشد کِامل کی ضرورت دین کا حصّہ ہے:
سب سے پہلے تو یہ اہلِ حدیث ،وہابی، دیوبندی اِس قسم کے جو لوگ ہیں اُنہوں نے مرشدِ کامل کا جو تصور ہے اسے ہی باطل قرار دے رکھا ہے لہذا مسلمانوں کی اکثریت کا تو یہ خیا ل ہے کہ یہ فضول باتیں ہیں بدعت اور شرک والی پہلے تو آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مرشدِ کامل کو ڈھونڈنا یا مرشدِکامل کی ضرورت کیا یہ واقعی اسلام کا حصہ ہے کیا قرانِ مجید نے یا احادیث نے ایسا کہا ہے کہ ایسا کرو کیونکہ یہ جو غیر مقلِد لوگ ہیں دیوبندی،وہابی، اہلِ حدیث توحیدی فرقہ یہ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ کسی شیخ کی کسی پیر کی ضرورت نہیں ہے اللہ سے مانگو وہ سننے والا ہے براہ راست اللہ سے مانگو وہ سنتا ہے۔ اب اِس پروپیگنڈے کی وجہ سے وہ لوگ جو پیروں کے ماننے والے تھے ولیوں کے ماننے والے تھے جب اُن کی دوسری نسل آئی ہے نوجوان جو کالجوں میں پڑھی ہے یونیورسیٹیوں میں پڑھنے باہر جاتی ہیں اور اُن کو ٹکرا جاتے ہیں مولوی طارق جمیل جیسے لوگ، اُن کو ٹکرا جاتے ہیں ذاکرنائک جیسے لوگ وہ اُن کا عقیدہ بگاڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قران و حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ مرشد پکڑو ۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مرشدِ کامل کو تلاش کرنا یا مرشدِکامل کی ضرورت ہونا کیا یہ دین کا حصہ ہے کیا قرانِ مجید نے یا اللہ کے رسول نے اِس کے بارے میں کچھ فرمایا سب سے پہلے سورۃ کہف کی ایک آیت ہے کہ
ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ ۗ مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا
سورۃ الکہف آیت نمبر 17
ترجمہ : کہ یہ اللہ کی نشانی کہ اللہ تعالی جس کو ہدایت دے گا وہی ہدایت والا بنے گا اور جس کو وہ گمراہ کرے گا اُس کو کوئی ولی اور مرشد نہیں ٹکرائے گا
پھر سورۃ التغابن میں کہا کہ
وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ
سورۃ التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ : اگر اللہ کسی کو مومن بنانا چاہے تو اُس کے قلب کو ہدایت دے گا۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورۃ الکہف آیت نمبر 28
ترجمہ : اور اُن کی پیروی نہ کرنا کہ جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر رکھا ہے ۔
یہ تو ہے قرآن مجید اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالی نے جوروحانیت کی مختلف فیلڈز کے ماہر ہیں ان کو ذکر کیا ہے ۔ اب یہ فیلڈز مختلف ہیں روحانیت کی جیسے کہ صادق ہونا ، صالح ہونا، صالحین کا ذکر ہے صادقین کا ذکر ہے قران شریف کہتا ہے
كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبة آیت نمبر 119
ترجمہ : صادقین کی صحبت اختیار کرو۔
مختلف جو ماہر گزرے ہیں جیسے مقربین ،جیسےمحسنین بلکہ اُس کے لئے تو اللہ تعالی نے یہاں تک کہہ دیا کہإِنَّ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ یہ جو محسنین ہیں تم ان کے قرب میں ہی اللہ کو پالو گے اور محسن کون ہیں یہ درجہِ احسان پر فائض لوگ ہوتے ہیں اور حدیث جبریل میں اسکی وضاحت آچکی ہے کہ درجہ احسان کیا ہے ؟ درجہِ احسان کیا بیان کیا گیا کہ وہ ہستیاں کہ جب وہ اللہ کی عبادت کریں تو اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اُن کو اللہ کا دیدار بھی ہوتا رہے اور اس کے بعد حدیث جبریل کا جو دوسراحصہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر تو اس قابل نہیں ہے کہ اللہ کو دورانِ عبادت دیکھ سکے تو پھر کوشش کر کہ وہ تجھے دیکھے۔ مولویوں نے اس کو کہہ دیا کہ اللہ تو دیکھتا ہی ہے ۔نہیں وہ دیکھتا نہیں ہے، ایک حدیث میں ہے کہ
إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ و نیاتکم
ترجمہ : نہ تمھارے شکلوں ،عملوں کو دیکھتا ہوں نہ تمھارے جسموں کو دیکھتا ہوں میں تمھارے دل اور نیت کو دیکھتا ہوں ۔
اب دل اپنا چمکا لیں اب وہ چمکتے ہوئے دلوں کو دیکھے گا اب اپنا دل چمکا لیں تو کسی نہ کسی دن اُن کی نظروں میں آجائے گا۔ ایک دفعہ جبرائیل حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ایک عجیب بات ہے آپ ﷺ نے فرمایا جبرائیل نے دیکھی ہے تو عجیب ہی ہوگی آپ ﷺ نے پوچھا کیا دیکھا بتاؤ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ایک ہندو تھا وہ بت کے سامنے کھڑا ہوکر اُس کی پوجا کر رہا تھا تو جب وہ ہندو بت کے سامنے کھڑے ہو کر پوجا کر رہا تھا تو یا رسول اللہ میں نے دیکھا اس پجاری کی عبادت کے جواب کے طور پر اللہ نے کہا ” لبیک یا عبدی “۔ حضور پاک نے فرمایا اچھا تعجب کی بات کیا ہے فرمایا ۔ یا رسول اللہ وہ تو بت کے سامنے کھڑا ہوا تھا، وہ تو اللہ کو یاد بھی نہیں کر رہا تھا پھر اللہ نے اس کا جواب کیوں دیا؟ توآپؐ نے فرمایا اللہ نے کہا کہ یہ مجھے بھول گیا ہے میرا نام اور پتہ لیکن یہ پکار تو مجھے ہی رہا ہے میں تو نہیں بھولا اِس کو۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا جو بھی صا ف دل سے رب کو پکارے گا وہ ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو رب تک بات پہنچے گی اور وہ جواب دےگا دل کا صاف ہونا سچا ہونا ضروری ہے پھر تو بت کے سامنے بیٹھ کے پکارے یا مسجد میں بیٹھ کے پکارے ایک ہی بات ہے ۔ جہاں سے بھی یہ دل کو صاف کرنے کا تم کو نسخہ مل جائے بس یہی سب سے بڑا دین ہے کہ تمھارا دل جو ہے پاک اور صاف ہوجائے چمک جائے دل چمک گیا تو رب کی نظروں میں آجائے گا۔
مرشدِ کامل اور مرشد ِناقص کون ہوتے ہیں :
اب جو مرشدِ کامل ہے اس کی پہچان حدیث میں کیا ہے پہلے تو یہ کہ مرشد کے بارے میں حضور نے کچھ فرمایا ہے بلکل کہا ہے ایک حدیث شریف میں آیا ۔ ۔ ۔الشیخ فی القوم لا نبی فی الامتیکہ جو مرشد یاشیخ ہوتا ہے وہ اپنی قوم میں، اپنے گروہ میں وہی درجہ رکھتا ہے کہ جو درجہ نبی کا اپنی امت میں ہوتا ہے اور ایک دوسری حدیث میں آیا ۔ ۔ ۔من لا شیخ لہ فھوالشیخ الشیطٰن ۔۔۔۔ اب اس کا عجیب و غریب ترجمہ لوگوں نے کیا اور ہم پڑھتے تھے ۔ لیکن پھر نبی کریم ﷺ نے ایک دن کرم فرما دیا اور آپ نے اس کا صحیح معنی سمجھایا آپ نے فرمایامن لا شیخ لہ فھوالشیخ الشیطٰن اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا مرشد اس کی خبر گیری کو نہ پہنچے ، جس کا مرشد اس کے اوپر شاہد نہ ہو ،حاظر و ناظز نہ ہو ، مرید کے ظاہرو باطن کے احوال سے واقف نہ ہو تو پھر شیطان اُس کا مرشد بن کے سامنے آجائے گا۔ یہ ان ہی جعلی پیروں کیلئے حدیث شریف آئی جس طرح کہتے ہیں یار یہ گھر میرا ہے لیکن کوئی اور رِہ رہا ہے میرے کس کام کا ۔ ۔ اب جس کا شیخ اُس کیلئے نہیں ہے ، بیعت ہو گیا کہیں فیض کیلئے اُس کو پتہ ہی نہیں ہے پھر تو مسئلہ ہوجائے گا ۔ چلو کسی مرشد سے بیعت ہو بھی گئے لیکن بیعت کے بعد مرشد نے کیا کرنا ہے ؟ اب حدیث شریف میں آگیا کہ “یہ جو شیخ ہوتا ہے وہ مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے “۔ اور اس کا حوالہ کیا ہے جب اللہ تعالی معرفت کے رموز ابراہیم علیہ السلام کو سکھا رہا تھا تو اُس وقت اللہ تعالی نے بتایا کہ ہم موت میں سے زندگی نکالتے ہیں اور زندگی میں موت ڈالتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تو کیسے زندہ کرتا ہے اور کیسے مارتا ہے؟ تو پھر اللہ تعالی نے اُن کو یہ معرفت کے اصول سکھائے اور وہی اصول مرشدِ کاملین کو مل جاتےہیں کہ مرشد زندہ کس کو کرتا ہے اور مارتا کس کو ہے ۔صحابہ اکرام نے حضورؐ سےپوچھا مارتا کس کو ہے اور زندہ کس کو کرتا ہے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ
“مرشدِ کامل قلب کو زندہ کرتا ہے اور نفس کو مارتا ہے اگر تیرا مرشد قلب کو زندہ نہ کرے اور نفس کو نہ مارے تو پھر وہ مرشد نہیں ہے شیطان ہے”
مرشد دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شریعت والے مرشد ہوتے ہیں جنھیں مرشدِ ناقص بھی کہتے ہیں ۔یہ جو وقت کےغوث الزماں ہوتے ہیں یہ مرشدِناقص ہوتے ہیں ۔ ان کو ناقص اس لئے کہا کہ مرشد کا کام زندہ کرنا بھی ہے اورمارنا بھی ہے یہ جو ہوتے ہیں یہ صرف نفس کومارتے ہیں، یہ قلب کو زندہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اِس لیے ان کو ناقص کہتے ہیں۔ نقص کیا ہے ان میں کہ یہ قلب کو زندہ نہیں کرسکتے اور کامل اسے کہتے ہیں کہ جو نفس کو مارے اور قلب کو زندہ کرے ،یہی فیض ہے ۔
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری
ایک دفعہ امام ابو حنیفہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ بتائیں کہ جب تک آپ ہمارے درمیان موجود ہیں تو ہم آپ سےمسائل پوچھ لیتے ہیں ، یہ علم بھی حاصل کرلیتے ہیں لیکن اگر روئے زمین پر کوئی بھی ولی نہ ملے تو پھر کیا کرے آدمی؟ تو انہوں نے ایک حدیث پھر اُن کو دی وہ کیا تھی اذا طہیرتم في العمور فاستعینو من الااہل القبور۔۔۔۔کہ جب تم کسی معاملے میں حیران و پریشان ہو جاؤ، کسی معاملے میں اب حیران پریشان تو تب ہی ہوں گے جب کوئی بتانے والا نہیں ہو گا۔ جب غوث پاک کا دور ہے تو اُن سے جا کے پوچھ لیا ،نظام الدین اولیاء کا دور ہے اُن سے جا کے پوچھ لیا، خواجہ صاحب کا دور ، داتا صاحب کا دور اُن سے پوچھا جو بھی ولی تمھارے زمانے میں ہوا تم نے اُس سے پوچھ لیا اب کوئی بھی نہیں ہے تمھارے دور میں ولی اب تو تم حیران اور پریشان ہی رہو گے ۔ تو پھر کیا کریں کہ جب تم کسی معاملے میں حیران اور پریشان ہوجاؤ تو یہ جو اہلِ قبور ہیں یعنی وہ اہلِ قبور سے مراد وہ ہوگئے کہ جن ولیوں کا وصال ہوچکا ہے اور اپنے مزاروں میں دفن ہیں تو پھر وہاں مزاروں پر چلے جایا کرو ۔ اب اہل مزار کے پاس جا کر کس طرح مخاطب ہونا ہے اس کا طریقہ کیا ہےجس سے اُن سے بات چیت کرلیں وہ بھی طریقہ موجود ہے۔ روحانیت میں جو سب سے بڑا کام ہے مرشد کا اور سب سے اولین کام ہے وہ قلب کے جاری ہونے اور نفس کو مارنے سے شروع ہوتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا۔داع نفسک وتعا ل۔ ۔یعنی اپنے نفس سے پیچھا چھڑا اور بھاگ کے میرے پاس آجا ۔ایک اور حدیث شریف میں آیا ۔ ۔ فاقتلوا أنفسكم أنفسكم ۔ کہ اپنے نفوس کو قتل کر ڈالو۔ یہ سارے اشارے ہیں نفس کو در حقیقت مارا جانا نہیں ہے بلکہ نفس کو پاک کرنا ہے اور پاک کرنے کیلئے کسی زبردست کامل کی ضرورت ہوگی۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ کامل شریعت نفس کو پاک کرتا ہے لیکن آپ یقین کریں وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک چیز آپ نے جو ہے مارکس اینڈ سپینسر سے جا کر خریدی اور دوسری آپ نے خریدی لڈل سے بڑا فرق ہے یہ ایسے ہی نفس ان کے پاک ہوتے ہیں۔ وہ جو اصل نفس پاک ہوتا ہے وہ مرشدِ کامل کی نظروں سے ہوتا ہے یہ کامل شریعت کا نفس پاک کرنا ایسا ہی ہے ۔یہ جو مرشدِ کامل شریعت والے ہیں یہ 12سال لگ جاتے ہیں نفس کو کمزور کرتے کرتے ۔ان کا طریقہ کار ویسا ہی ہے جیسے کہ آپ نے 8،10 لاکھ کا بیل خریدا تگڑا اب اُس کو آپ نے ذبح کرنا ہے تو ذبح ہی نہیں ہو رہا اتنا طاقتور ہے، وہ کسی کے ہاتھ ہی نہیں آرہا پھر کسی نے کہا اسے کمزور کرو اور وہ مرشدِکامل کے ہاتھ میں چلا گیا ۔کامل شریعت کےہاتھ جب وہ اتنا بڑا بیل ہاتھی کے برابر کا گیا تو وہ کامل شریعت اُس کو اس وقت ذبح کرے گا جب وہ کمزور ہو کے سکڑ کے مرغی کی طرح رہ جائے گا ۔اب اس کا نقصان کیا ہوا بھئی جتنا نفس کمزور ہوگا اتنی ہی تیری پرواز کے اندر پریشانی ہوگی اور جو کامل مرشد ہوتا ہے اگر تیرا نفس بیل کی طرح طاقتور ہے تو اُس کو پریشانی نہیں ہوتی پچھاڑنے میں۔ بس وہ ایسے ہی ہے جیسے اگر تیرا نفس بچہ ہو تو اس کو فیڈر لگا رکھا ہے شیطان نے نار کا مرشدِ کامل وہ فیڈر ہٹا دیتا ہے اور نور کا فیڈر لگا دیتا ہے۔ تیرے اُسی بیل کو وہ نورانی کردے گا تواب وہ نور کیلئے دوڑ دوڑ کر مر شد ِ کامل کے پاس جائے گا۔لہذا مرشدِ کامل سے جو فیض لینا ہوتا ہے وہ قلب کے پاک اورزندہ ہونے کا ہے، نفس کے پاک ہونے اور حضورﷺ کی ذات تک پہنچنے کا ہے ۔
جیسے ہی نفس پاک ہوتا ہے مرشدِپاک اس کی حضورﷺ تک رسائی کرا دیتا ہے حضورﷺ کے دربار تک پہنچ جاتا ہے جہاں حضورﷺ کےلطیفہِ نفس کی محفل ہوتی ہے ۔بیعت کرنا سنتِ رسول ﷺبھی ہے اور طریقہِ فقراء بھی ہے ، طریقہِ اولیا بھی ہے ۔ایک سسٹم ہے اس کے زریعے بیعت کی جا رہی ہے بیعت ایک معاہدے کی طرح ہوتی ہے چیز ایک معاہدہ ہے بیعت کرلی اب آپ مرشد کے تابع ہو گئے جو مرشد نے کہا ہے وہی آپ نےکرنا ہے اور اگر آپ نے ایک بھی مرشد کی بات نہیں مانی تو بیعت ختم ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے زمانے میں لیکن اب یہ جو دور آگیا ہے اِس دور میں ایک بھی مرشدِ کامل نہیں ہے کیونکہ ولایت ختم ہو چکی ہے ۔
“اب کوئی اللہ کے رسول اور اللہ تک پہنچے گا تو امام مہدی سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی کے ذریعے ہی پہنچے گا اگر کسی کو گمان ہے کہ نہیں اور بھی مرشدِکامل ہیں تو جائیں قلب کو زندہ کروا لیں، اپنے نفس کو پاک کروا لیں پھر آکر بتائیے گا کہ دیکھوہم نے یہ کرلیا ہے “
باقی سلطان صاحب نے بھی اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے مرشدِ کامل کی نشانی لیکن وہ عام لوگوں کیلئے نہیں لکھا ہے۔ مرشد کئی قسم کےہوتے ہیں کوئی مرشد جو ہے وہ جسطرح آپ نے کسی مرشد کے ذریعے اپنا نفس پاک کروایا اب وہ نفس کو پاک کرنے کا ہی ماہر تھا بیچارہ۔ اب آپ کو قلب پاک کرنے کیلئے کوئی اور مرشد پکڑنا پڑے گا پھر آپ کا قلب بھی جاری ہو گیا پھر آپ نے اب روح کو بھی منور کرنا ہے ، اب اُسے بڑا کوئی مرشد پکڑنا پڑے گا تو اس طرح مختلف درجے ہوتے ہیں مرشدوں کے۔ جیسے اگر آپ روح کو منور اور بیدار کرنے والے مرشد کے پاس جائیں گے تو ضروری ہے کہ آپ کا نفس اور قلب پاک ہو چکا ہو۔ اگر کوئی مرشد یہ کہے کہ میں ایک ہی لمحے میں تیری روح کو بیدار کردوں آپ سب پہنچ جائیں پھر وہاں جاکے پتا چلے گا آپ کو کہ نفس اور قلب کے پاک ہوئے بغیر وہ کچھ نہیں کرتے ہیں ۔ تو ہر فیلڈ کا مرشد الگ ہوتا ہے اور سلطان حق باہو نے اپنی کچھ کتابوں میں لکھا ہے کہ مرشد ایک نظر میں حضور ﷺ کے پاس نہ پہنچائے تو اُس کو پھینک دو اُٹھا کے ۔اب سلطان صاحب نے یہ اُن لوگوں کیلئے کہا ہے کہ جو حضور ﷺ کی مجلس میں جانے کے قابل ہوگئے ہیں اب صرف اُن کو وسیلہ چاہیے یہ اُن کیلئے لکھا ہے ہر آدمی کیلئے نہیں ہے۔ اب یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سرکار گوہر شاھی بیعت کیوں نہیں فرماتے تو اِس کیلئے میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دے دیتا ہوں ،بلکل ہی دنیا کی مثال ہے سمجھنے کیلئے جیسے کہیں سمندری طوفان یا طوفان آجاتا ہے اور لوگ بے گھر ہوگئے اور تباہ و برباد ہو گیا شہر، اب سارے جو ہیں ان کو کسی کمپاؤنڈ میں کسی اسکول میں یا کسی اسٹیڈیم میں پناہ دے رکھی ہے اور کھانا وغیرہ آیا کمبل وغیرہ آئے ہیں اب وہ آپ لیتے جائیں بس پیسے تھوڑی مانگے گے وہ ۔ وہ امداد ہے وہ مدد ہے کہ یہ بے گھر لوگ ہیں ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے ابھی تو ان کی زندگیوں کو بچانا ہے کاروبار کا وقت نہیں ہے یہ۔ اسی طریقہ سے اب یہ تمھارے ایمانوں کو بچانے کا ذریعہ ہے ۔ یہ وقتِ آخر ہے اب وہ قانون جو عمومی طور پر بیعت کا ہوتا ہے اب وہ کارفرما نہیں ہے امام مہدی کو اللہ تعالی نے پوری دنیا ،ہر مذہب کیلئے بھیجا ہے پوری انسانیت کیلئے بھیجا ہے اور اس لیئے بھیجا ہے کہ وہ اللہ سے پوری انسانیت کا تعلق جوڑ دیں ،جیسے جیسے دور مشکل آتا گیا ہے ویسے ویسے انسانیت کے لئے اللہ کی مہربانیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 01 ستمبر 2017 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔