کیٹیگری: مضامین

موت کی مختلف اقسام:

عام آدمی کا موت کے حوالے سےیہ تصور ہے کہ جو مرگیا وہ قبر میں ہے لیکن کچھ لوگوں کو موت ایسی بھی آتی ہے کہ وہ مر کے بھی چلتے پھرتے جاتے ہیں اور وہ سامنے بیٹھ کر باتیں بھی کرتے ہیں۔ وہ مر کے چلے گئے یعنی اُن کی روح اور لطائف بھی چلے گئے، لیکن اُن کا جسم اِسی طرح روز مرّہ کے کاموں میں لگا ہوا ہے۔ حِس نہیں ہے ایک نور جو ہے وہ اُن کے اندر داخل کیا ہوا ہے۔ اُس نور اور حِس کی وجہ سے جو جو صحیح کام ہیں وہ خودبخود زبان کہہ رہی ہے، آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ یہ آگے کی بات ہے، یہ کوئی طریقت، حقیقت اور معرفت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ غیبی علم ہے۔ تمہاری عقل یہ جانتی ہے کہ جو مرگیا وہ قبر میں، تو یہیں سے تم ناکام ہوجاوٴ گے۔ آدھا حق اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرما بھی دیا تو تمہاری سمجھ میں کیا آیا! قرآن مجید میں آیا ہے کہ

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
سورة البقرة آیت نمبر 15
ترجمہ: کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُن کو مُردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمھیں اسکا شعور نہیں ہے۔

اب اللہ نے یہ فرمایا کہ جو اللہ کی راہ میں ماریں جائیں اُن کو مُردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں تو اب لاش کو کہا جارہا ہے کہ اِس کو زندہ سمجھو۔ آدھا تو یہ آگیا اور جو پہلا حصہ تھا وہ تمہیں پتہ نہیں ہے جو ہم نے آج آپ کو بتایا کہ مُردہ لاش کو زندہ سمجھو اور جو زندہ چل رہا ہے اُس کو کہا جائے کہ اِس کو زندہ نہیں سمجھنا یہ دس سال پہلے مرگیا ہے تو آپ کہیں گے کہ نہیں کیا باتیں کررہے ہو وہ تو کھارہا ہے، پی رہا ہے، اُٹھ رہا ہے، بیٹھ رہا ہے اور سب کچھ رہا ہے۔ اب یہ تو حضورؐ نے علم متعارف کرادیا کہ وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ کہ یہ مرگئے ہیں اِن کو مُردہ نہیں کہنا یہ زندہ ہیں۔ اللہ نے فرمادیا تو اب ماننا ہی ہے۔ اور یہ بات محمد یونس کہہ رہا ہے یہ کون مانے گا کہ یہ جو زندہ پِھر رہے ہیں اِن کو زندہ نہ کہو یہ مُردہ ہیں، یہ تو کوئی نہیں مانے گا لیکن جس نے ہماری اِس بات کو مان لیا تو اُن کا بھی شمار خضر کے اُن صاحبین کے درمیان ہوگا کہ جو آبِ حیات کی تلاش میں بحرِظلمات میں گئے تھے۔ اور آبِ حیات جو ہے معلوم ہوا کہ وہ ملا نہیں تو اُنہوں نے کہا کہ یہ جو کنکریاں پتھر پڑے ہیں یہی اُٹھا لو۔

آبِ حیات کا جو پہلا مقام تھا وہ تو ایمان، ایقان اور مرشد کی بات پر یقین تھا، یہی آبِ حیات ہے۔

خضرؑ نے کہا کہ بس یہی پتھر اُٹھا لو تو خضر کی بات پر یقین، یہ آبِ حیات کا پہلا مرحلہ ہے کیونکہ یہ جو خاص علم والے ہوتے ہیں اِن کی باتیں ایسی ہوتی ہیں۔ آدمی کو پکا یقین ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے جیسے خضرؑ نے بچے کو ماردیا تو موسٰیؑ سے برداشت نہیں ہوا۔ اِسی طریقے سے یہ علم بھی ہے کہ کوئی مرگیا لیکن وہ تمہارے ساتھ اُٹھتا، بیٹھتا، چلتا، بولتا بھی ہے اور تم اُس کو زندہ ہی سمجھ رہے ہو کیونکہ تمہاری عقل صرف یہ ہی سمجھتی ہے کہ زندہ ہے تو چل رہا ہے، پھِر رہا ہے، کھا رہا ہے، بول رہا ہے۔ اور اگر نہیں بول رہا ہے، نہیں چل رہا ہے، نہیں کھا رہا ہے اور ایسے ہی کئی سال ہوگئے ہیں پڑا ہوا ہے تو یہ مرگیا ہے۔ لیکن آدھا سچ تو قرآن میں آگیا وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ کہ جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں اُن کو مُردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں، وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ تمہیں شعور نہیں ہے۔
اِسی طرح اِس کا پہلا حصہ امام مہدیؑ نے ہم پر کھولا۔ پہلا حصہ یہ ہے کہ جو راہِ گوھر میں ماریں جائیں وہ چلتے پھرتے بھی رہیں تو یہ نہ کہنا کہ یہ کب مرا تھا یہ تو پھِر رہا ہے، اِدھر اُدھر گھوم رہا ہے، آرہا ہے جارہا ہے۔ اب ایسا جو علم ہوگا اُس کے اندر وہ پھر عقل کے اوپر نہیں چلے گا وہ جو مُردہ ہوگا۔ وہ جس کو کہہ رہے ہیں کہ یہ مرگیا ہے ابھی جو تمہارے سامنے یہ چل پھِر رہا ہے، ہاں یہ چل پِھر رہا ہے لیکن یہ مُردہ ہے، تمہیں اِس کے مرجانے کا شعور نہیں ہے۔ جس طرح اُس مُردے کے جینے کا تمہیں شعور نہیں ہے، اِسی طرح اِس مُردے کی موت کا تمہیں شعور نہیں ہے۔ موت کو جو شعور ہے اِس کے تین درجے ہیں۔

1۔ ناسوتی موت:

اللہ نے قرآن میں یہ کیوں نہیں فرمایا کہ بندے مرتے ہیں بلکہ اللہ نے تو یہ فرمایا ہے کہ

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
سورة العنکبوت آیت نمبر 57
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔

یہ ناسوتی موت ہوگئی۔ اگر کوئی مرگیا تو مرنے کے بعد وہ قبر میں چلا گیا اُس کا نفس وہاں پر زندہ ہے۔ مولویوں سے جاکر پوچھو نا کہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ یہ جو بندہ مرا ہے اِس کا نفس تو قبر میں زندہ ہے اِس کی موت واقع کہاں ہوئی ہے تو كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ سے مُراد مرنا کہاں ہے؟ اِس کا نفس تو قبر میں زندہ ہے۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ سے مُراد یہ ہے کہ تمہاری زندگی میں تمہارے جسم میں رہتے ہوئے تمہارا جو نفس ہے وہ فنا کا شکار ہوجائے، وہ درجہٴِ فنا پر فائز ہوجائے۔ جب درجہٴِ فنا پر نفس فائز ہوتا ہے تو اُس کے کئی طریقے ہیں۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ نفس کے ایک جُثے کو قربان کردیا جاتا ہے۔ جسطرح تم جب حج کرنے جاتے ہو ظاہر میں جانور کی قربانی دیتے ہو لیکن جو باطنی حج والے ہوتے ہیں وہ اپنے نفس کی قربانی کرتے ہیں۔ اب وہ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ والی شرط اُس وقت پوری ہوتی ہے جب بندہ مرشد کی غلامی میں جاتا ہے تو مرشد پھر اُس کے اوپر وفاداری کی چھری چلاتا ہے کہ اب تُو میرا ہے۔ تو اُس کا پھر خون بہا ہوجاتا ہے۔ اُس کے ایک نفس کا جثہ جو ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ جب نفس کا وہ جثہ ہلاک ہوجاتا ہے تو اِس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اب اِس سے قبر میں سوال جواب نہیں ہوسکتے کیونکہ اِس کے نفس کا جثہ اللہ کی راہ میں قربان ہوگیا وہ اب قبر میں جواب ہی نہیں دے سکتا۔ اُس کے اوپر پھر قبر میں سوال جواب نہیں ہوسکتے۔ تم سوال جواب کِس سے کرو گے کیونکہ وہ تو رب کی راہ میں قربان ہوگیا۔

2۔ ملکوتی موت:

ملکوتی موت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول اللَّه صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: «إِنَّ اللَّه تعالى قال: منْ عادى لي وليًّاً فقدْ آذنتهُ بالْحرْب، وما تقرَّبَ إِلَيَ عبْدِي بِشْيءٍ أَحبَّ إِلَيَ مِمَّا افْتَرَضْت عليْهِ، وما يَزالُ عبدي يتقرَّبُ إِلى بالنَّوافِل حَتَّى أُحِبَّه، فَإِذا أَحبَبْتُه كُنْتُ سمعهُ الَّذي يسْمعُ به، وبَصره الذي يُبصِرُ بِهِ، ويدَهُ التي يَبْطِش بِهَا، ورِجلَهُ التي يمْشِي بها، وَإِنْ سأَلنِي أَعْطيْتَه، ولَئِنِ اسْتَعَاذَنِي لأُعِيذَّنه» رواه البخاري
6502 ۔ کتاب الرقاق ۔ صحیح البخاری

“جب بندہ کثرتِ عبادت کے ذریعے میرے قُرب میں پہنچ جاتا ہے تو میں اُس سے عشق کرتا ہوں۔ میں جب اُس سے عشق کرتا ہوں تو میں اُس کو قتل کردیتا ہوں۔ جب میں اُس کو قتل کردیتا ہوں تو اُس کی خون بہا مجھ پر لازم ہوجاتی ہے۔ پھر میں اُس کے خون بہا کے طور پر اُسی کا ہوجاتا ہوں۔” یہ ملکوتی موت ہے۔ یہ جب ہوتا ہے تو اب مقام جو ہے وہ فنائیت پر لطیفہٴِ قلب کا ہے۔ تو اُس کے لطیفہٴِ قلب کا ایک جثہ جو ہے وہ فنائیت کے مقام پر چلا جاتا ہے ختم ہوجاتا ہے۔ جب وہ لطیفہٴِ قلب کا ایک جثہ ختم ہوتا ہے تو پھر اب وہ موٴمن نہیں رہ سکتا۔ جس دل میں ایمان تھا وہ دل تو مرگیا۔ پھر وہ ایمان سے خارج اور عشق میں داخل ہوجاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لکھا ہے کہ

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورة التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ: جب اللہ پر کوئی ایمان لائے تو اللہ اُس کے قلب کو ہدایت دیتا ہے۔

جس کو قلب کو ہدایت دی تھی اُس کو تو اللہ کی تجلی نے ماردیا تو اب تم موٴمن کِدھر رہے! اِس بات کو سلطان صاحب نے بڑے ہی اِدھر اُدھر سے گُھما کر سمجھایا کہ
ایمان سلامت ہر کوئی منگدا، پر عشق سلامت کوئی ہُو
میرا عشق سلامت رکھیو باھو، ایمان نو دیاں دھروئی ہُو

یہ اُس وقت کی بات ہے کہ جب اُن کے لطیفہ قلب کی گردن کاٹی گئی۔ یہ ملکوتی موت ہوگئی۔

3۔ جبروتی موت:

ملکوتی موت پر آکے یہاں کا علم ختم ہوگیا۔ اب جبروتی موت آئے گی۔ وہ علم امام مہدی سرکار گوھر شاہی لے کر آئے ہیں۔ اُس کے اندر یہ ہوگا کہ بندہ کہے گا کہ مجھے تُو چاہئیے۔ وہ کہیں گے کہ مجھے تیرے اندر حاصل کون کرے گا، نہ میرا تعلق تیرے جسم سے، نہ میرا تعلق تیرے نفس سے، نہ میرا تعلق تیرے قلب سے، نہ کسی اور مخلوق سے تو تیرے اندر صرف ایک چیز تیری روح ہے جو تیری ہے۔ نہ یہ نفس تیرا، نہ یہ قلب تیرا کیونکہ یہ ملائکہ ہیں اور نفس تیرا شیطان جِن ہے۔ تیرے اندر صرف تیری ایک روح ہے کیونکہ جو اُدھر عالمِ غیب ہے اُس کے اندر یہ لطائف وغیرہ نہیں ہوتے، نہ اُدھر قلب ہوتا ہے، نہ اُدھر انا ہوتا ہے، نہ اُدھر خفی، نہ اخفیٰ اُدھر کچھ بھی نہیں ہے۔ اِس لئے پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں تو ہمارے لئے بیکار ہیں، تیرے اندر وہ روح ہے۔ پھر اُس کی روح کو تیار کرتے ہیں۔ تم اپنے صرف سمجھنے کیلئے سمجھ لو کہ پھر وہ اپنی روح کا ایک عکس تمہارے اندر بھیجتے ہیں۔ پھر وہ عکس آتا ہے اور تمہاری روح اُس عکس میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ کوئی نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ جیسے پانی کے اندر چینی ڈال کر چمچے سے ہلاوٴ تو چینی کے سارے ذرات حل ہوجاتے ہیں۔ اب آپ اُس کو ڈھونڈ نہیں کرسکتے لیکن پینے سے میٹھا ذائقہ آئے گا، پورا پانی میٹھا ہے۔ پانی پی کر دیکھو گے تو پتہ چلے گا کہ ارے یہیں ہے لیکن نظر نہیں آئے گا۔ یہ جبروتی موت ہے۔
اب کسی بندے کی ناسوتی موت ہوگئی، ملکوتی موت ہوگئی، جبروتی موت ہوگئی تو اب تم کہتے ہو کہ اِنہوں نے مجھے تھپڑ مارا تو اِس کی کتاب میں لکھتے رہو لیکن اِس کی کتاب ہی نہیں ہے۔ پھر کوئی کہتا ہے کہ یہ تمباکو کھاتا ہے تو لکھ لو۔ یہ بیوقوفی تمہارے ہی ذہن میں ہے، کاندھوں پر تو کوئی بیٹھا ہی نہیں ہے جو لکھے گا۔ عام آدمی جو مرتا ہے تو صرف اُس کا جسم مرتا ہے تو تمہاری تو ناسوتی موت بھی نہیں ہوئی۔ اگر تمہاری ناسوتی موت ہوچکی ہوتی تو پھر تجھے قبر کی کیا فکر ہوتی کیونکہ جن کی ناسوتی موت ہوگئی ہے اُن کے لطیفہ نفس کا ایک جو جثہ ہے وہ تو فنائیت کا شکار ہوگیا۔ اور اِس بلبوتے پر اب اُن سے قبر میں کوئی سوال نہیں کرسکتا۔ نفس کے جو دوسرے جثے ہیں وہ سوال جواب کیلئے ہے ہی نہیں کیونکہ جو مرکزی جثہ ہے اُس سے سوال جواب ہوتے ہیں اور وہ مرگیا۔

مثال:

عیسیٰ علیہ الصلوة السلام کو جب اللہ تعالی نے اوپر اُٹھایا ہے اب ہم سمجھتے ہیں کہ تم ہماری بات کو سمجھنے کے قابل ہوگئے ہو حالانکہ چھوٹی سی بات ہے۔ جب عیسٰیؑ کو اللہ تعالی نے اوپر اُٹھایا ہے تو اُن کی ناسوتی موت واقع ہوئی۔ نہ اُن کے جسم کو اور نہ اُن کی کسی اور چیز کو بلکہ اُن کے نفس کو مارا گیا۔ جسم سمیت اللہ تعالی نے اُن کو اوپر اُٹھایا۔ اب اللہ تعالی نے جو قرآنِ مجید میں لفظ استعمال فرمایا کہ

إِنِّي مُتَوَفِّيكَ
سورة آل عمران آیت نمبر 55

إِنِّي مُتَوَفِّيكَ تو وہ اُسی کیطرف اشارہ ہے جو اُن کا لطیفہٴِ نفس تھا اُن کے لطیفہ نفس کو مارا۔ وہ جو سُولی کے اوپر چڑھا ہوا تھا وہ عیسٰیؑ کے لطیفہ نفس کا جثہ تھا۔ اُس کے اوپر چھُری چلادی اُن کی ناسوتی موت واقع ہوگئی۔ اور موسٰیؑ کی جسمانی موت واقع ہوئی۔

ناسوتی، ملکوتی اور جبروتی موت کے بعد کیا ہوتا ہے؟

ناسوتی موت اگر ہوجائے تو بندہ واپس آسکتا ہے لیکن اگر جسمانی موت واقع ہوجائے تو پھر واپس نہیں آسکتے کیونکہ نفس اگر نکل کر چلا بھی گیا تو روح کو کیا اثر پڑے گا! ایک گھر میں سات آدمی رہ رہے ہیں تو ایک آدمی چلا گیا تو واپس کبھی بھی آسکتا ہے کیونکہ باقی چھے تو اِدھر ہی ہیں رہ رہے ہیں نا۔ جو گیا ہے وہ جب مرضی چاہے واپس آجائے لیکن اگر یہ گھر ہی تباہ کرکے چلاگیا تو پھر کِدھر آئے گا! اب یہ جو كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ہے یہ آپ کے جسم کے مرنے کیلئے نہیں کہا گیا، یہ یومِ محشر میں ہوگا کہ سارے نفوس کو ماردیا جائے گا اور پھر تمہیں نئے نفوس دئیے جائیں گے۔ یہ اُس دن کیلئے ہے۔ اور جس نے وقت سے پہلے یہاں اِس دنیا میں ہی اپنے نفس کو اللہ کی خاطر مارلیا تو پھر اُس کا مقام ذیادہ ہے۔ ہمارے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ اب تین طرح کے مُردہ لوگ ہوگئے، یہ ظاہری نہیں بلکہ یہ تین طرح کے باطنی مُردہ ہیں۔ ظاہری مردہ تو وہ ہے جس کا جسم مرگیا۔ یہ وہ مُردہ ہیں جو مُردہ نہیں ہیں۔ اگر کسی کا نفس مارا گیا تو دیکھنے والے کو پتہ تھوڑی چلے گا کہ یہ زندہ ہے یا مردہ ہے کیونکہ نفس زندہ بھی ہوتا ہے تو تمہارے اندر نظر نہیں آتا۔ اُس کا پھر یہ ہوگا کہ جس کا وہ نفس مارا گیا دنیا کے لذات سے اُس کی رغبت چِھن جائے گی۔ ساری کی ساری لذتیں اُس کے پاس ہونگی لیکن کسی بھی لذت کا مزہ نہیں ہوگا کیونکہ جس کی وجہ سے مزہ آتا ہے وہ نفس ہے اور وہ مارا گیا۔ جیسے زبان کے اوپر ذائقے کے بڈز ہوتے ہیں، یہ جو آپ کو ذائقہ آتا ہے، یہ جو زبان آپ کو بتاتی ہے کہ یہ پائے ہیں۔ آنکھیں بند کرکے اگر آپ کے منہ میں آم ڈال دیں تو پھر آپ پہچان لیتے کہ یہ آم ہے کیونکہ تم نے تو دیکھا نہیں اور تم نے کیسے کہہ دیا کہ یہ آم ہے کیونکہ اُس کا جو ذائقہ ہے وہ آپ کے ذائقے کے بڈز میں محفوظ ہوگیا ہے۔ یہ جو ذائقے کے بڈز ہیں اِن کی وجہ سے ہماری زبان چٹکھارے مانگتی ہے۔ پہلے زمانوں میں جو فقیر ہوتے تھے وہ ازخود کوئی نہ کوئی چیز ایسی کھاتے کہ جن کی وجہ سے اُن کے ذائقے کے بڈز ختم ہوجاتے تھے تاکہ پھر چلّہ کشی اور نفس کشی میں اُن کو آسانی ہو۔ اب اُنہوں نے اپنے ذائقے کے بڈز مار لئے تو اب جب ذائقے کے بڈز مرجائیں تو اب آپ کچھ بھی کھالیں کوئی ذائقہ ہی نہیں ہے۔ اُنہوں نے ذائقے کےبڈز مارلئے اُس کے بعد بوسی ٹکڑے پانی میں بھگو بھگو کر کھاتے تھے اور ہم کہتے تھے کہ یہ کتنا بڑا بزرگ ہے۔ آج ہم کو یہ بات جب سمجھ میں آئی تو اب ہم یہ کہتے ہیں کہ تیری بزرگی کو تو اُس وقت ہم مانیں جب تم ذائقے کے بڈز کو ختم نہ کرو اور پھر کھانا اِس طرح کھائے، بزرگی تو تب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تم مکار ہو بھلے تم دیدارِالہٰی میں ہو تم ہم کو دھوکہ دیتا رہا ہے۔ زبان میں جو ذائقے کے بڈز ہیں اِن کو مت مارو اِن کو زندہ رہنے دو پھر پرہیز کرکے دکھاوٴ۔ آپ کا برطانیہ کا پاسپورٹ ہو تو جب چاہا آپ امریکہ، جاپان، یوروپ چلے جائیں لیکن باقی سب کے انڈین پاکستانی پاسپورٹ ہیں۔ آپ کسی کو نہ بتائیں کہ میرے پاس تو برطانیہ کا پاسپورٹ ہے، وہ نہیں جاسکتے تو آپ بھی اُنہیں کے ساتھ بیٹھے رہیں تب مزہ ہے۔ اگر اُنھی کی طرح آپ کا بھی انڈین بنگلادیشی پاکستانی پاسپورٹ ہوتا اور آپ بھی یہیں ٹِکے رہتے تو یہ کرامت تھوڑی تھی بلکہ کرامت تو یہ ہے کہ امریکہ برطانیہ کا پاسپورٹ ہے پھر بھی تمہارے ساتھ بیٹھا ہوا ہے جا ہی نہیں رہا۔ مزہ تو تب ہے کہ جب وہ پرواز کرسکتا ہو پھر بھی تمہارے پاس بیٹھ جائے۔ ناسوتی موت واقع ہوجائے تو اُس کا سارا مزہ ختم ہوجائے اور تم دیکھو کہ یار بڑی اچھی شرٹ پہنی ہوئی ہے، دیکھو یار کتنی مہنگی گاڑی چلارہے ہیں لیکن اُس کو تو مزہ ہی نہیں ہے۔ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ وہ عیاشی کررہا ہے، تمہارے اِس گُمان کا اللہ بدلہ لے گا۔ تم کہو گے کہ اے اللہ میں نے کونسا بُرا کیا وہ اتنی اچھی اچھی گاڑیاں چلاتا تھا تو اللہ فرمائے گا لیکن وہ اپنے لئے تو چلاتا ہی نہیں تھا تو چلو اِس گمان کی وجہ سے اِس کو جہنم میں ڈال دو۔ پھر ملکوتی موت ہوگئی۔ اب جب ملکوتی موت ہوگئی اب ہم یہ کہیں کہ یار اِس کی ملکوتی موت ہوگئی ہے اب تم اِس کو یومِ محشر میں کیوں کھڑا کررہے ہو کیونکہ یومِ محشر میں تو اللہ تعالی نے قانون رکھا ہوا ہے کہ

إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
سورة الشعراء آیت نمبر 89
ترجمہ: وہ کامیاب ہوگا جو قلبِ سلیم لایا۔

اِس کے قلب کی تو موت پہلے ہی رب کیلئے ہوگئی ہے تو اِس کو یومِ محشر میں تم نے کیوں مدعو کیا!
اب ملکوتی موت تو واقع ہوگئی تو اللہ کو یہ کیا دکھائے جب اِس نے پہلے ہی اپنا قلب اللہ پر قربان کردیا ہے۔ یومِ محشر اِس کیلئے ہے ہی نہیں۔ اب یومِ محشر کے بعد جنت میں جانے کا مرحلہ ہے تو اِس کی روح تو جبروتی موت ہوچکی ہے، اِس کی روح ہی اِدھر نہیں ہے تو جنت میں کیسے جائے گا؟ اِس لئے سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا کہ نہ تم کو اللہ کیلئے تیار کررہے ہیں نہ تم کو جنت کیلئے تیار کررہے ہیں۔ ناسوتی موت ہوگئی تو تمہارا عذابِ قبر چُھوٹ گیا نا کیونکہ قبر میں سوال جواب تو نفس سے ہونگے جسم سے تو نہیں ہونگے۔ اب تیرے نفس کی ملکوتی موت ہوگئی تو تمہارا حساب کتاب ختم کیونکہ حساب کتاب جس سے ہونا ہے وہ شہید ہوگیا، پھر جب ملکوتی موت ہوگئی تو تمہارا یومِ محشر بھی ختم اور جب جبروتی موت ہوگئی تو تمہارا جنت الفردوس بھی ختم۔ جو اصل موت ہے وہ اُسی وقت تک ہوسکتی ہے جب تک تم زندہ ہو۔ مرنے کے بعد موت کہاں ہوتی ہے! مرنا ہے تو زندہ ہونے کے دوران مرجاوٴ۔ مُوْتُ قَبْلَ اٴَنْتَ مُوْتُ جب تک تم چل پِھر رہے ہو بس مرجا۔ جتنا عرصہ پھر چلنے کے بعد تم چلوپِھروگے دنیا کیلئے ہے اللہ کی مخلوق کیلئے ہے، اِس کو خدمتِ خلق کہتے ہیں۔ پہلے وہ رب کیلئے زندہ تھا جب رب مل گیا تو اب کِس کیلئے زندہ ہے؟ اب یہ مخلوق کیلئے زندہ ہے کیونکہ رب نے اِس کے جسم کو کہا ہے کہ مخلوق کیلئے زندہ رہو۔ اندر کی تو تین موت اِس کی واقع ہوگئیں۔ جسطرح تین تلاق ہوتی ہیں اِسی طرح یہ تین تلاقیں ہیں جو وہ دنیا کو دے چُکا ہے۔ اِس کیلئے کسی نے کہا کہ
فراغت نہیں دیدِ گوھر سے جن کو
وہ دنیا کو مثلِ رسم دیکھتے ہیں

جس کی ناسوتی موت ہوگئی اُس کا ذہن دجال کیطرف نہیں جائے گا۔ جو ہمارے ساتھ ہو لیکن اُس کے نفس کی راہِ محبت میں اُس کی قربانی لے لی گئی ہو، پھر وہ نہیں جائے گا۔ اگر آپ کو کوئی بھی نعمت کھانے سے ذائقہ نہ آئے، کسی بھی چیز کو آپ کھالیں تو کوئی فرق ہی نہ پڑے ، آپ کو مزہ ہی نہ ہو تو پھر اگر آکر کوئی کہہ رہا ہو کہ آوٴ جی میں مفت حلیم بانٹ رہا ہوں تو جن کو ذائقہ آتا ہے وہ جائیں گے لیکن آپ تو آرام سے بیٹھے رہیں گے۔ اِس طرح جن کے نفس کا موت ہوگیا وہ دجال جب کرتب دکھائے گا تو وہ اُن کو ورطہ حیرت میں بات نہیں ڈالے گی۔ وہ نفس کو حیرت ہوتی ہے کہ یہ یہ کام ہورہے ہیں۔ جس کے نفس کی موت ہوگئی تو اُس کو تو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی لیکن جن کا نفس طاقتور ہوگا اور اُن کے جسم میں ہی ہوگا تو وہ کہیں گے کہ یہ کرامت ہورہی ہے۔ پھر جن کے دل کی بھی موت ہوگئی اُس کا موٴمنوں میں بھی دل نہیں لگے گا کیونکہ اُس کے دل کی موت ہوگئی۔ موٴمن کے ساتھ تو دل اُس کا لگے گا کہ اِس کا دل بھی اللہ اللہ کرے اُس کا دل بھی اللہ اللہ کرے۔ اِس کا دل مرگیا تو اِس کا موٴمن میں کِدھر دل لگے گا! وہ موٴمن کو دیکھے یا کافر کو دیکھے، کہے گا کہ میں آدم بیزار ہوں، مجھے نہ موٴمن کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور نہ کافر کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ پھر جس کا جبروتی موت بھی ہوگیا تو اب اُس کو نہ موٴمن دیکھ کر لگاوٴ ہوگا، نہ کوئی ولی دیکھ کر لگاوٴ اور نہ اللہ دیکھ کر کوئی لگاوٴ۔ اللہ تعالی نے روح کو بنایا تھا اُس کی موت ہوگئی تو اب کسی کو کیا دیکھ کر اُس کو کیا سمجھ میں آئے گا لہٰذا وہ نہ تم کو پہچانتا، نہ تمہارے رب کو پہچانتا، نہ موٴمن کو پہچانتا، نہ ولی کو پہچانتا اور نہ کسی نبی کو پہچانتا کیونکہ اُس کی جبروتی موت ہوگئی۔ یہ تین موت ہیں جو ہونے کے بعد بھی آدمی چلتا پِھرتا رہتا ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ مرگیا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 28 جون 2021 کو یو ٹیوب لائیو سیشن حق کی عدالت کے خصوصی پروگرام میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس