کیٹیگری: مضامین

تین بڑے مذاہب ایسے ہیں جو کہ توحید پرست(ایک خدا ماننے والے) ہیں جبکہ سکھ ازم بھی تو حید پرستی پر یقین رکھتا ہے اوران کا نعرہ بھی ”اک اُن کار“ہےجو کہ گردواروں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔مرسل اور نبیوں کے زریعے جو ادیان قائم ہوئے ہیں ان میں خدا کی یکتائی کو مرکزی خیال کی سی حیثیت حاصل ہے ۔ان مذاہب میں توحید پرستی (ایک خدا ہونے ) کے نقطے پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے ۔اسلام ، یہودیت اور عیسائیت یہ تینوں مذاہب ملت ابراھیمی کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ان تینوں مذاہب کا بنیادی عقیدہ توحید پرستی ہے اور یہ جب اپنے مذاہب کا پرچار کرتے ہیں تو اُس میں بھی اس نقطے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں ۔تاہم یہودیت میں ان کے کچھ پیروکار یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے نبیوں میں سے کچھ نبی خدا یا خدا کا بیٹے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ توحید پرستی پر بھی کاربند ہیں ۔جیسے عیسائی ، عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں جبکہ یہ مذہب بھی بطور توحید پرست ہی جانا جاتا ہے اور وسیع پیمانے پر عیسائی فرقوں میں چاہے وہ کیتھو لک،پروٹسٹنٹ یا میتھو ڈسٹ ہوں ،میں توحید پرستی کا عقیدہ مانا جاتا ہے ۔یہودیوں اور عیسائیوں سے زیادہ مسلمانوں میں توحید پرستی کے عقیدے پر زور دیا جاتا ہے تاہم عیسائیت اور یہودیت بھی توحید پرست مذہب ہے اور یہ قرآن سے بھی ثابت ہے ۔

تصوف میں مرشد کو خدا کا درجہ حاصل ہے:

محمد رسول اللہ کے دور سے لے کر اب تک جو اولیاء اس دنیا میں تشریف لائے ہیں اُن میں سے کچھ کے لئے یہ عقیدہ پایاجاتا ہے کہ وہ اولیاء خدا کی مانند ہیں۔حتیٰ کہ پاکستان میں سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کے ماننے والوں میں بھی یہ عقیدہ عام پایا جاتا ہے کہ سرکار گوھر شاہی ہمارے رب ہیں اور کچھ ایسے لو گ بھی موجود ہیں جو اس عقیدے کا انکار کرتے ہیں ۔ایک دفعہ سیدناامام مہدی گوھر شاہی عوام الناس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کے ماننے والے آپ کو رب کیوں کہتے ہیں؟ لیکن آپ کی طرف سے جوجواب آیا وہ بڑا حیرت انگیز تھا ، سیدنا گوھر شاہی نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایا کہ کیا کبھی تم نے لوگوں کو شیطان کہتے ہو ئے سنا ہے ۔یہ سن کر وہ بیٹھ گیا اور آپ نے وضاحت فرمائی کہ اگر لوگ مجھے رب مانتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں بھی ایسا سمجھتا ہوں ، میں رب نہیں ہوں اور میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں رب ہوں۔ مجھے سیدنا گوھر شاہی کی باطنی اور ظاہری قربت میسر آئی ہے اور میں وہ سوال بھی پوچھ لیا کرتا تھا جو عام لوگوں کے درمیان نہیں پوچھے جا سکتےتھے ۔سوالوں کا مقصد یہ تھا کہ جان سکوں کہ اس بارے میں روحانی قانون کیا ہےاور اگر روحانی قانون یہ کہتا ہے کہ انسان بھی رب ہو سکتا ہے تو پھر ہم اِسے اپنے عمل میں لاسکیں ۔مختلف قسم کے علو م ہیں لیکن آپ کو نہیں معلوم کہ اُن علوم سے کیا کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ بسا اوقات صوفیوں نے بھی الفاظوں کے ساتھ بہت چالاکی سے کام لیا ہے ، ہر بات کو گھما پھرا کا بیان کیا ہے تاکہ آسانی سے سمجھ میں نہ آ سکے۔صوفیا ء کرام کھلے عام یہ بات کہتے ہیں کہ زمین پر مرشد ہی رب ہو تا ہے ۔روحانی حلقوں اورصوفیا ء کرام کی کتب میں یہ عقیدہ عام پایا جاتا ہےکہ مرید کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنے مرشد کورب جیسا سمجھے یا رب جیسا برتاؤ کرےورنہ مرشد سے کوئی روحانی فیض نہیں ہو گا۔یہ بات رویے کے طور پر اپنائی جانے لگی لیکن کبھی تحریری طور پر نہیں آئی۔
مذہب کے قانون کے مطابق جو کہ بہت سخت ہے ، سخت اس لحاظ سے کہ اس میں انسان کو انسان ہی سمجھا جاتا ہے ۔ علم شریعت کو یہ رسائی نہیں ہے کہ آپ کے باطن کے بارے میں کچھ تجزیہ دے سکے۔شریعت اندھی اور روحانیت سے نابلد ہوتی ہے بھلے کسی کے بارے میں بھی بات ہو ، ایک قانون سب کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔اگر کسی عالم سے پوچھیں کہ کیا انسان کو رب کہا جا سکتا ہے تو وہ یہی کہے گا کہ یہ شرک ہے ۔اور عام لوگوں سے یہی سوال کیا جائے تو ان کا جواب یہ ہو گا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ انسان بھی رب ہو سکتا ہے کیونکہ اس جوا ب کے پیچھے ان کے لاشعور میں ہوتا ہے کہ رب تو بہت عظیم ہوتا ہے ،نہ وہ کھاتا ہے ، نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے ۔ نہ وہ بیمار ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کسی چیز کی حاجت ہے۔رب ہونے کے لئے یہ معیار ہم نے اپنے ذہن میں بنایا ہوا ہے اس لئے انسان کو رب نہیں سمجھ سکتے ۔ہر توحید پرست مذہب میں یہی مسئلہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان مذاہب میں کچھ پیروکار یہ مانتے ہیں کہ انسان رب ہو سکتا ہے ۔کیا اس کا یہ مطلب ہے یہ جو بھی شخص یہ عقیدہ رکھے گا وہ گمراہ اور شیطان ہو جائے گا؟ مذہب اسلام جو کہ توحید پرستی پر سختی سے عمل پیرا ہے اس کے باوجود یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان میں بھی انسان کے رب ہونے کا عقیدہ بہت تیزی سے پروان چڑھتا ہے کہ وہ رب کی طرف سے مامور کردہ لوگ ہیں اور انھیں روحانی طاقتیں بھی عطا کی گئی ہیں ۔یہ سوال انسانی ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ انسان بھی رب ہو سکتا ہے ۔ اگر کوئی اللہ کا ولی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ انسان رب بھی ہو سکتا ہے اور قرآن میں یہ بھی مل جاتا ہے کہ رب تمام گناہ معاف کر دے گا لیکن اُس کی وحدانیت میں کسی کو شریک کرو گے تو شرک کو معاف نہیں کرے گا ۔ اگر انسان کے رب ہونے کا تصور شرک ہے تو پھر ایسا انسان اللہ کا ولی کیسے ہو سکتا ہے جس کے پا س تمام روحانی طاقتیں ہیں ؟ اُسے تو گناہ گار ہونا چاہیے تھا اور رب کی طرف سے اُس کے اوپر عذاب نازل ہونا چاہیے تھا ، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے ۔

منور قلب رب کا آئینہ ہوتا ہے :

انسان بھی رب ہو سکتا ہے لیکن کس طرح انسان رب ہو سکتا ہے اس کا علم اور جواب کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ وہ حق سے نا آشنا ہیں ۔یہ سچ ہے کہ انسانی جسم کی ساخت کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ جسم رب نہیں ہو سکتا ۔جسم تو مومن نہیں ہو سکتا ،رب ہونا تو بہت دُور کی بات ہے ۔تمھارا جسم مومن نہیں ہو سکتا ، مومن جب بنتے ہیں جب جسم میں موجود وہ ارواح منور ہو جاتی ہیں ۔ارواح کے منور ہوئے بغیر مومن نہیں بن سکتے تو پھر جب تم مومن بن جاتے ہو تو تمھارا جسم مومن نہیں بنتا بلکہ قلب مومن ہو جاتاہے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ جسمانی طور پر تم مومن نہیں بن سکتے تو یہاں ایک اور مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ، لیکن ایسا ہی ہے ۔تمھارا جسم نہ مومن بن سکتا ہے نہ اللہ کا ولی لیکن تمھاری ارواح میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ رب اور اُس کے نور کو اپنے اندر جذب کر سکتا ہے ۔رب تمھاری ارواح میں جاگزیں ہو سکتا ہے ۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ

قَلَبُ الْمُوْمِنِ بَیْتُ الرَّبِّ
ترجمہ : مومن کا دل رب کا گھر ہے۔

یعنی تمھارا دل رب کا مسکن بن جاتا ہے جہاں رب رہتا ہے اور یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ اس طرح رب انسان کے پردے کے پیچھے سے کام کرتا ہے ۔یہ صرف ایک بینر ہے کہ انسان رب نہیں بن سکتا اور اس بینر کے پیچھے وہ تعلیم ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے رب انسان میں کسطرح ہویدا ہوتا ہے ۔جیسے بچے سینما میں فلم دیکھنے جاتے ہیں تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ فلم کے کردار تصویر نہیں ہیں بلکہ اُن کے اطراف میں گھوم رہے ہیں۔بلکل اسی طرح جب انسان اپنے قلب کو پاک کر کے منور کر لیتا ہے تو وہ مثلِ آئینہ بن جاتا ہے جس میں سے رب جھلکتا ہے ۔ اور جب کوئی کسی ایسے قلب کی طرف دیکھتا ہے تو بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ رب ہے کیونکہ اُس انسان کا لباس رب بن جاتا ہے ۔جسم رب نہیں کہلاتا بلکہ جب رب آپ کے قلب میں آ جاتا ہے تو وہ قلب رب کا ٹھکانہ بن جاتا ہے ۔ انسان رب نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے اندر موجود ارواح رب کو موجودگی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں ۔اگر یہ شرک ہے تو رب قلب میں کیسے آ سکتا ہے !!
وہابی اس جملے کو استعمال کرتے ہیں کہ صوفی ،انسانوں کو رب گردانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ صوفیوں کو زندیق اور مشرک سمجھتے ہیں ۔لیکن محمد الرسول اللہ کی ایک حدیث ہے کہ

مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَاٰی الْحَقَّ
حدیث : بخاری ، مسلم
ترجمہ : جس نے مجھے دیکھا گویا اس نے حق دیکھا۔

اگر کوئی مرید اپنے مرشد کے لئے یہ تصور رکھتا ہے کہ وہ رب کی مانند ہےتو وہ فوراً نتیجہ نہ نکال لیں کہ وہ مرشد کے جسم کو رب کہہ رہا ہے بلکہ اس کا اشارہ مرشد کے قلب کی جانب ہے جہاں رب نے اپنا مسکن بنا لیاہے ۔ایک حدیث ہے کہ ایک دفعہ محمد ؐ کعبہ کا طواف کر رہے تھے حالانکہ محمد ؐ کے سامنے کعبے کی کیا اہمیت تھی !! لیکن امت میں طواف کی رسم پیدا کرنے کے لئے انہوں نے ایسا کیا ، طواف کے دوران آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ” اے کعبہ !میں تیری اہمیت سے واقف ہوں لیکن ایک مومن کا قلب تجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے ۔“مولانا روم نے بھی کہا کہ
دل بدست آور کہ حج اکبر است
صد ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

اگر تم نے اپنے قلب کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے تو پھر یہ آوارہ کتے کی طرح خواہشات نہیں کرتا او ر وہ قلب ہزار کعبے سے بہتر ہے ۔پھر اپنی اس بات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے مولانا روم نے آگے کہا کہ
کعبہ بنیاد خلیل آذر است
دل گذر گاہ جلیل اکبر است

کعبہ تو رب کے دوست کی بنائی ہوئی عمارت ہے جبکہ انسان کا قلب رب کی راہ گزر ہے ۔وہابی اس اسلام سے ناآشنا ہیں اور جس اسلام سے وہ آشنا ہیں وہ صرف مذہبی رسومات پر مبنی ہے۔اگر اسلام ایک نارنجی کی طرح ہے تو شریعت اُس کے چھلکے کی مانند ہے اور اندر موجود گودا اس کا باطن ہے ۔اگر آپ نارنجی کا چھلکا کھائیں گے تو یہی کہیں گے کہ بھئی یہ تو کڑوا ہے لیکن اسکا اصل پھل تو اس چھلکے کے اندر بند ہے جو کہ باطن کی طرح ہے ۔ہو سکتا ہے کہ وہابیو ں کی نظر میں اس حدیث کی کوئی سند نہیں ہو ۔وہابیوں کا نظریہ طاعون کی طرح ہے جو کہ گندگی سے لبریز ہے ۔ ان کے نظریات جنونیت پر مبنی ہیں جو کہ انتہا پسندی سے بھی زیادہ بد تر ہے ۔عبدالوہاب نجدی نے ان وہابیوں کو یہ نظریہ دیا ہے کہ جو وہابی نہیں ہے وہ کافر ہے اور اس کا قتل عین حق ہے ، ان کا مال اور بیویاں تم پر حلال ہیں ۔یہ وہابیوں کا نظریہ ہے اسی لئے تمام دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا ہوا ہے ۔حضورؐ نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہانا من نور اللہ و المومنین من نوریوہابی اس بات کا انکار کرتے ہیں ۔ قرآن کے مطابق مومن بننے کے لئے قلب میں نور کا ہونا شرط ہے اور اگر قلب میں اللہ کا نور سرائیت نہیں کرتاہے تو پھر وہ رب کی نظر میں کھلی گمراہی میں مبتلا ہے ۔راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے لئے قلب میں نور کا ہونا لازم ہے اور تم محمدؐ کو نور تسلیم نہیں کرتے !! میرا وہابی علماء سے یہ سوال ہے کہ کیا اللہ کا نور اللہ کا حصہ ہے ؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر کسی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن کے مطابق اللہ کا نور ، اللہ کا حصہ ہے ۔جب قلب میں نور سرائیت کرتا ہے تو رب کا ایک حصہ آپ کے اندر آ جاتا ہےلہذا جزوی طور پر رب تمھارے اندر آ جاتا ہے اور جن قلوب میں رب کا نام سرائیت نہیں کرتا وہ تباہ و برباد اور غارت ہو گئے ہیں اور یہ کھلی گمراہی ہے ۔

انسان اور رب کا اختلاط :

انسان رب نہیں ہو سکتا لیکن رب تو انسان میں سما سکتا ہے،تعلق با اللہ کے لئے رب کے نور کو قلب و ارواح میں جذب کرنا لازم ہے اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو نہ رب آپ سے آشنا ہے اور نہ آپ رب سے آشنا ہیں ۔ر ب سے آشنائی کے لئے قلب میں نور کا ہونا لازمی ہے ۔ تم رب سے آشنا نہیں ہو سکتے اگر تمھارے اند ر رب کا نور موجود نہیں ہے ۔تم پر لازم ہے کہ تمھار ے پاس رب کا نور موجود ہو کیونکہ نور رب کا جُز ہے ۔کیا آپ مومن کورب سے جداکر سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔جب قلب میں نور کی موجودگی کی وجہ سے مومن بنتے ہیں تو وہ قلب میں نور کی موجودگی ہی آپ کو مومن بناتی ہے حتیٰ کہ مومن کو بھی رب سے جدا نہیں کیا جا سکتاتو اُن افراد کی کیا بات جو رب کا آئینہ بن چکے ہیں جس میں انہوں نے رب کے جلوے کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے ۔رب کسی قانون کا پابند نہیں ہے اپنا حسن و جمال کسی پر بھی آشکارا کر سکتا ہے ۔لازم ہے کہ وہ اپنے حسن کو بکھیرے جب تم اچھا لباس زیب تن کرتے ہو تو کیا تم نہیں چاہتے کہ لوگ تمھاری تعریف کریں اور کہیں واہ ۔۔رب بھی چاہتا ہے کہ سب اسے دیکھیں ورنہ کوئی کیسے جانے گا کہ رب کیسا ہے اوروہ کتنا حسین و جمیل ہے ۔رب کو اپنا حسن عیاں کرناہو گااور وہ اپنا حسن چمکتے ہوئے آئینے پر منعکس کرتا ہے ، وہ چمکدار آئینہ منور قلب ہے ۔وہ قلب اتنا شفاف ہو جاتا ہے کہ جو بھی اس کے سامنے آئے وہ اُس میں جھلکے گا خواہ وہ محمد رسول اللہ ہو یا اللہ بذات خود۔

متعلقہ پوسٹس