کیٹیگری: مضامین

نماز پڑھنے کے باوجود کردار درست کیوں نہیں :

ایک دوا جس کا نام (cyclodextrine) ہے جب یہ دوا خون میں شامل ہو جاتی ہے تو خون میں جم جانے والی چکنائی کو ختم کر دیتی ہے جس کی وجہ سے خون کی نالیوں کی تنگی دور ہو جاتی ہے اور خون کا بہاؤ معمول کے مطابق ہو جاتا ہے ، دل بہتر طور پر اپنا کام انجام دینے لگتا ہے جس کے نتیجے میں صحت پر بھی اس دوا کا اثر نظر آنے لگتا ہے ۔
بالکل اسی طرح علم روحانیت میں بھی دوا جیسی تاثیر و خاصیت ہے۔ قرآن جب یہ کہتا ہے

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
سورة العنکبوت آیت نمبر 45
ترجمہ: بے شک نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے

اگر کوئی عرصہ دراز سے نمازیں پڑھ رہا ہو لیکن اس کا کردار ابھی تک ویسے کا ویسا ہوتو اس کو سوچنا چاہئیے کہ میری نمازوں نے ابھی تک مجھے برائی سے یا غلط کاموں کے کرنے سےکیوں نہیں روک رہیں ، اگر نماز نے ہمیں برائی کرنے سے نہیں روکا تو اس کا مطلب ہے ہماری نماز میں کہیں تو کوئی کمی ہے۔جس طرح (cyclodextrine) کا کام خون میں سے کولیسٹرول کی بیماری کو کم کرنا ہے اور سالوں یہ دوا لینے کے بعد بھی خون میں کولیسٹرول ویسے کا ویسا رہے اور صحت میں بھی کوئی بہتری کوئی افاقہ نظر نہ آئے تو پھر مریض کو کیا کرنا چاہئیے؟ اس کو ڈاکٹر کے پاس جا کر پوچھنا چاہئیے کہ مجھ پر دوا کا اثر کیوں نہیں ہو رہا ۔
اسم اللہ سے بیدار ہوجانے کےبعد لطیفہ قلب روزانہ کی بنیادوں پر نور بنانے لگ جاتا ہے اور بھلے رات ہو یا دن کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں لطیفہ قلب میں ذکر اللہ سے نور نہ بن رہا ہو ،قلب میں بننے والا یہ نورہمارے لطائف کو تو طاقت ور کرتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ظاہری کردار میں بھی خدائی صفات نمایاں کرتا ہے ۔کسی چیز کو جاننے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں ہم نہیں جانتے کوئی آکر ہم کوبتا دیتا ہے کہ وہ کیا ہے ،مثال کے طور پر اگر ہمیں معلوم نہ ہو کہ گلاس کیا ہے اور کسی کے بتانے سے ہمیں یہ پتا چل جائے کہ گلاس میں کوئی بھی مشروب ڈال کرپیا جاتا ہے ، ہمارے اطراف اسی طرح کا عمومی علم ہے لیکن علم روحانیت بالکل مخلتف علم ہے ،تصوف میں کسی چیز کو جاننے کے معنی بھی مختلف ہیں ، روحانی علم میں جاننے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے جو جانا ہے پھر آپ اسی چیز کا حصہ بن جائیں ، اگر اللہ کا نور آپ کے اندر بننے لگ گیا ہے تو پھر اس کا اظہارآپ کے کردار سے ہونا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو آپ نور سے کوسوں دور ہیں یا محروم ہیں ۔ بھلے ہی کسی نے تیس سال مشن کی خدمت کی ہو لیکن اس کا باطن اللہ کے نور سے نا آشنا ہے ۔
ہم اپنی روزانہ ہونے والی گفتگو میں کچھ اہم تبدیلیاں کر رہے ہیں ان تبدیلیوں سے آپ کو روزآنہ ہونے والی گفتگو کو یاد رکھنے میں بہت مدد ملے گی ۔ہم چاہتے ہیں آپ ایک جرنل بنائیں جس میں آپ اپنے قلم سے اہم اہم نکات لکھیں ۔ مجھے یاد ہے مجھے میری یونیورسٹی کے استاد نے سمجھایا تھا کہ میں ہمیشہ ہر چیز لکھ لیا کروں جب ہم کسی بات کو لکھ لیتے ہیں تو پھر وہ بات بڑی آسانی سے ہمارے ذہن نشین ہوجاتی ہے لیکن اگر کوئی اسی بات کا پرنٹ نکال کر کاغذ ہمارے ہاتھوں میں تھما دے توپھر وہ بات کاغذ پر تو رہے گی ہمارے ذہن میں محفوظ نہیں ہوگی، لیکن جب ہم کسی بات کو لکھتے ہیں تو ہماری پوری توجہ ایک ایک لفظ پر ہوتی ہے۔اگر ہم روزآنہ کی اہم اہم باتیں لکھنے کی عادت ڈال لیں گے اور بعد میں جب بھی پڑھیں گے تو کوئی نکتہ مس نہیں ہو گا کیونکہ ہوتا کیا ہے کبھی کبھی ہم سن تورہے ہوتے ہیں لیکن ہمارا دھیان کسی دوسری طرف ہوتا ہے اور اگر کہا جائے نیلا تو سمجھ میں گرین آتا ہے۔
ہم نے ہمیشہ یہ ہی کیا ہے کہ جب بھی مجھے سرکار سے کوئی بات پتا چلتی میں اسے گھر آکرفورا لکھ لیتا تھا، بھلے اسے دوبارہ پڑھوں نہیں لیکن جو بھی سرکار سے سنا وہ میرے دل اور دماغ میں محفوظ ہے بالکل جیسے کہ سرکار نے ابھی ابھی ہی وہ بات کہی ہے نہ صرف یہ بلکہ وہ سارا منظر بھی محفوظ ہو جاتا ہے جس میں سرکار گفتگو فرما رہے ہوں ، شاید اسےفوٹو گرافک میموری کہتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں یاداشت خدا کی دین ہے ہم کہتے ہیں یہ کوئی عطیہ خدا وندی نہیں ہے بلکہ ہر انسان میں یہ قابلیت موجود ہے جسے برؤئے کار لانے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگ آرٹ سیکھنے کے بعد بھی بدھو کے بدھو رہتے ہیں ، اسی طرح سائنس ، فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، مائیکرو بائیولوجی، اورگینک کیمسٹری، فزیکل کیمسٹری یہ تمام مضمون انسانی ذہن کو سوچنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔پزل گیم کو لوگ بورنگ سمجھتے ہیں جبکہ یہ تو ذہن کو متحرک رکھنے کے لیے بہترین ہے ۔اہم چیزیں لکھ لینی چاہئیے خاص طور پروہ باتیں جن سے آپ کے کردارمیں بہتری آ سکے۔ بہت ساری باتیں تو اتنی عام فہم ہیں کہ جن کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے مثال کے طور پر اگر کوئی کسی کام میں پوری طرح سے مستغرق ہو تو پھر اس وقت اس کے کام میں خلل نہیں ڈالنا چاہئیے ۔
بہت سے مختلف معاملات کا آپس میں بڑا گہرا ربط ہوتا ہے ، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کی غیبت کرنے کی عادت ہے تو وہ تو گیا کام سے کیونکہ سرکار گوہر شاہی نے کتاب مقدس دین الہی میں فرمایا ہے کہ غیبت اور بہتان طرازی کرنے والے وہ ہیں جن کا نفس امارہ ہے ،ذہن نشین رہے کہ گفتگو کے آغاز میں ہم نے کہا تھا کہ بہت سے معاملات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اگر کسی کا نفس امارہ ہے تو پھرکوئی بھی پاکیزہ کلام یا نور اس دل میں اول تو داخل نہیں ہوتا اور اگر نور چلا بھی جائے تو وہاں استقرار نہیں پکڑتا اور وہ بندہ اس شخص کی طرح ہی ہے جس کا لطیفہ قلب کبھی بیدار ہی نہیں ہوا اور اس طرح صرف وقت ہی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ہم جانتے ہیں آپ میں سے بہت سے لوگ غیبت میں ملوث نہیں ہوں گے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو غیبتیں کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ان باتوں پر یا تو توجہ نہیں دیتے اور جو وہ کر رہے ہیں کرتے رہتے ہیں اور کچھ پرانے ساتھیوں کا یہ گمان ہے کہ یہ بات جو بتائی جا رہی ہے یہ تو ہم کو معلوم ہے لہذا وہ اس پر کان ہی نہیں دھرتے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے ہیں کہ ہر روز ہی ذکر قلب کی بات ہر روزہی نفس کی بات ہو رہی ہے اور اس طرح وہ اپنی کمی اور خامی سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں دوسروں کی خامیاں تو دکھائی دیتی ہیں لیکن اپنے عیب دکھائی نہیں دیتے جبکہ یہ انتہائی فکر انگیز معاملہ ہے۔حاملہ خاتون بتائے یا نہ بتائے اس کا پھولا ہوا پیٹ بتا دیتا ہے کہ وہ ماں بننے والی ہے تو اردو کی ایک کہاوت ہے کہ حاملہ خاتون دائی سے اپنا پیٹ کیسے چھپائے گی کیونکہ ایک دن تو دائی نے بچہ نکالنا ہے۔اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ اپنے عیوب سے نظر نہ چرائیں، کبھی کبھی ہم کو اپنی خامیاں معلوم ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔

کردار سازی کیلئے اہم نکات:

سب سے سوال ہے کہ آپ کواب تک غیبت کرنے کی خواہش کتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے؟ کچھ ساتھیوں میں غیبت کرنے کی شدت کم نظر آتی ہے یہ بہتری کی علامت ہے۔ نفس امارہ مجبور کرتا ہے غیبت کرو۔

1: دستور ریاض کے مختلف نکات پر ایک جرنل بنائیں ۔

کتنے لوگوں کو ڈائری لکھنے کی عادت ہے؟ اپنی روحانی مدد کے لیے پین اور کاغذ پر تمام اہم باتیں لکھنے کی عادت بنائیں ۔بے شک ہمیں بھی معلوم ہے آئی فون پر مختلف قسم کی ایپس موجود ہیں جنہیں جرنل کہتے ہیں لیکن ہماری نصیحت پھر بھی یہ ہی ہے کہ اگر آپ اپنی روحانی نشو نما کے بارے میں فکر مند ہیں تو پھر آپ قلم سے اہم نکات ڈائری پر لکھنے کی عادت اپنائیں۔ روزآنہ دس سے پندرہ منٹ جب بھی وقت ملے ضرور لکھیں یا پھر سونے سے قبل لکھنے سے بھی بہت فائدہ ہوگا ۔

2: قرآن مجید پڑھ کر ہمیں اپنے کردار میں ڈھالنا ہے:

ہمیں قرآن و حدیث صرف ثواب کے لیے نہیں پڑھنا ہم نے ہدایت بھی لینی ہے نا تو پھر اس کو یاد بھی رکھنا ہے کہ کیا پڑھا ہے اور جو پڑھا ہے اس کو اپنے کردار میں ڈھالنا بھی ہے اپنے اعمال کا اپنے کردار کا حصہ بھی بنانا ہے، آپ سارا دن بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کریں اس سے آپ کوثواب تو مل جائے گا لیکن اگر آپ نے اس پر دھیان نہیں دیا تو ہدایت کیسے ملے گی؟ ذرا سوچئیے!ہمیں قرآن و حدیث کو سمجھنا بھی ہے اور سمجھنے کے بعد لکھنا بھی ہے اور اس نوٹ بک میں یہ لکھنا ہے کہ انسان کو یہ کام کرنا چاہئیے اور یہ کام نہیں کرنا چاہئیے اپنے کردار میں بھی ڈھالنا ہے ورنہ روزآنہ کی نصیحتیں مختلف مساجد میں ، مدرسے میں اور یو ٹیوب پر سنتے ہی رہیں گے ساری یاد تو نہیں ہوں گی نا تو آپ نے تو قرآن و حدیث کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں ڈھالنا ہے نا، قرآن کو ہدایت کے لیے پڑھنا اور ہے اور ثواب کے لیے پڑھنا اور ہے، اگر ہدایت کے لیے قرآن پڑھنا چاہ رہے ہیں تو پھر آپ کو اسکول و کالج والا طریقہ اپنا کر اہم نکات کے نوٹس بنانے ہوں گے،کہ اس مسئلے کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔مثال کے طور پر ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارا کردار کیسا ہو اس بارے میں قرآن کہتا ہے کہ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا لوگوں سے نرمی سے بات کرو۔
یہ قرآن مجید کا حکم ہے اب ہم یہ دس مرتبہ بھی سن لیں گے تو ہو سکتا ہے کہ یہ ہماری یاداشت میں نہ رہے ، بھول جائیں ہم تو اس کے اوپر کام کرنا پڑے گا۔ ایک جگہ قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے اے مومنوں لوگوں سے سیدھی سیدھی گفتگو کرو ٹیڑھی گفتگو نہ کرو۔ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ زمین پر اِترا کر مت چلو کیونکہ تم اس زمین کو پھاڑ تو سکتے نہیں جو تو اترا کے چل رہا ہے ، یہ اللہ کی حسن مزاج ہے۔اسی طرح سرکار گوہر شاہی کی خوش طبعی بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ تو اللہ نے جو کہا کہ زمین پر اترا کر نہ چلو تم اسے پھاڑ تو نہیں سکتے تو یہ کتنی خوبصورت بات ہے۔ اب ہم کو یہ یاد بھی رکھنا چاہئیے ہمارے چلنے اٹھنے بیٹھنے بولنے ہر چیز کے بارے میں نصیحت کی گئی ہے لیکن ہمیں یاد کہاں ہے؟ اسلام کا صرف ایک پہلوہی نہیں ہے کہ صرف عبادتیں ہی کرتے رہو یہ ایک جزو ہے اسلام کا، آپ کی گفتار کیسی ہونی چاہئیے، آپ کا کردار کیسا ہونا چاہئیے، اسلام یہ بھی سکھاتا ہے ، آپ صرف نمازیں پڑھتے رہیں ، آپ صرف قرآن کی تلاوتیں کرتے رہیں لیکن آپ کی زبان خراب ہو آپ بات بات پر لوگوں کی دل آزاری کرتے رہیں تو کوئی آپ کو اچھا مسلمان تو نہیں کہے گا۔اللہ نے کہا زمین پر اترا کر مت چلو تم اسے پھاڑ تو نہیں سکتے اب اگر یہ بات ہمیں یاد رہے تو ہو سکتا ہے ہماری چال بھی صحیح ہو جائے ابھی تو ہم مست بھیڑئیے کی طرح چلتے ہیں ، چلنے کا انداز بڑا دھیما ہونا چاہئیے چال میں اکڑ نہ ہو ۔کچھ لوگ اترا کر چلتے ہیں لیکن اللہ کو یہ بات بڑی ناپسند ہے ۔

3: جھوٹ بولنے سے اجتناب کریں۔

اسی طرح نبی پاک نے منافق کی ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ جب بولے گا جھوٹ بولے گا ، جب وعدہ کرے گا وعدہ خلافی کرے گا ، اپنے اندر جھانکیں تو سہی کیا آپ جب بول رہے ہیں جھوٹ بول رہے ہیں کیا؟کسی سے وعدہ کیا ہے تو اس کو وفا کیا ہے یا نہیں کیا، ہمارے نزدیک تو آج وعدہ کرنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے اور پھر کسی شاعر نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا، وعدہ توڑنے کے بعد لوگ یہ شعر سنا دیتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئیے کہ جو تم بول رہے ہو تمہارا بولنے والا لفظ ہی تمہاری ضمانت ہونا چاہئیے، کہ جو تم نے کہہ دیا لوگ یقین کریں گے کہ جو انہوں نے کہا ہے ویسا ہی ہو گا۔جھوٹ نہیں بولنا چاہئیے ، جھوٹ بولنا دراصل براہ راست کسی کو دھوکہ دینا ہے ، آپ دیکھ لیں جھوٹ بولنا کتنا قبیح عمل ہے ۔ اگر جھوٹ کی اور ترقی ہو جائے تو وہ کفر بن جاتا ہے کفر کیا ہے جھٹلانا، جیسے اردو میں ہم ایک لفظ استعمال کرتے ہیں” کفران نعمت” اب کفران نعمت میں جو کفر استعمال ہوا ہے وہ مذہبی اصطلاحات میں نہیں ہے ، کفران نعمت کا مطلب ہے اللہ کی نعمتوں کو جھٹلانا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ جھوٹا میرا امتی نہیں اب ذرا اسی بات پر غور فرما لیں آپ کے ہم مسلمانوں یں سے کتنے ایسے ہیں جو سنجیدگی سے اس بات پر توجہ دیتے ہوں اور یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے نا بہت بڑی بات ہے، حضور پاک نے کیا فرمایا کہ جھوٹا میرا امتی نہیں ہے ، اب اگر ہمیں ذرا سی بھی پرواہ ہوکہ یار کہیں حضور ہمیں اپنی امت سے خارج ہی نہ کر دیں جھوٹ بولنے سے باز آ جاؤں تو ہم کبھی بھی جھوٹ نہ بولیں ۔لیکن آپ دیکھیں کہ ہم تو کہنے کے مسلمان رہ گئے ہیں بس، بات بات میں جھوٹ بولنا ،کاروبار میں جھوٹ بولنا ، دوستی یاری میں جھوٹ بولنا ، والدین سے جھوٹ بولنا ، اسکول، کالج ، یونیورسٹیز میں جھوٹ بولنا ہر معاملے میں ہمارا جھوٹ چل رہا ہے اور پھر ہماری نمازیں بھی چل رہی ہیں اور پھرہماری نمازیں ہمیں جھوٹ بولنے سے روک بھی نہیں رہیں ، حالانکہ قرآن مجید نے تو کہا ہے

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ

تحقیق نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔ اب آپ ذرا غور فرمائیں کہ ایک آدمی دس سال سے نمازیں پڑھ رہا ہو اوران دس سالوں میں ایک بھی برائی میں کمی واقع نہیں ہوئی تو نماز میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کمی تو رہ گئی ہے نا۔اب جھوٹ سے مجھے یاد آیا کہ جب آپ کسی سے جھوٹ بولتے ہیں تو دراصل آپ اس کو دھوکہ دے رہے ہیں ،جھوٹ بولنے کا مقصد کیا ہے؟ دھوکہ دینا ، اور کیا آپ کو معلوم ہے دجال کا مطلب کیا ہے ؟ لفظ دجال نکلا ہے دجل سے اور دجل کا مطلب ہے دھوکہ ۔ تو اگر اب آپ جھوٹ بولتے رہیں گے ہر بات میں جھوٹ بولتے رہیں گے تو اپنے آپ کو آپ اُمتی کیسے تصور کریں گے، اچھا اب آپ نے تو داڑھی رکھی ہوئی ہے، قرآن شریف پڑھ رہے ہیں ، نمازیں پڑھ رہے ہیں ، حدیثیں پڑھ رہے ہیں، اور حضور نے فرمایا ہے کہ جھوٹا میرا امتی نہیں اور آپ پھر بھی نمازیں پڑھ رہے ہیں ، یا تو آپ مجھے بتا دو کہ حضور کی اس حدیث کو ہم رد کر دیں یا اس کی اہمیت گھٹا دیں ، ہم تو وہ بتا رہے ہیں جو لکھا ہوا ہے، حدیث شریف میں لکھا ہوا ہے جھوٹا میرا امتی نہیں ہے اور ہم روزآنہ تھوک کے حساب سے جھوٹ بول رہے ہیں جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور تو اور مسجد کی منبر پر بیٹھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی ہے ، ورد چل رہا ہےسبحان اللہ ، سبحان اللہ اور کاروبار میں جھوٹ بول رہے ہیں ۔

4: سنی سنائی بات بغیر تحقیق بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دینا:

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سختی کے ساتھ منع کیا ہے کہ اے مومنو! جب تک کوئی خبر تم تک آئے اس کی تصدیق نہ کر لو آگے مت بیان کرو۔ایک حدیث میں آیا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے کے وہ سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔مثال کے طور پرکسی نے ایک دن کہا کے فلاں تو ننگا ناچ رہا ہے، اس نے کسی دوسرے کو یہ بات پہنچا دی، اس نے کسی تیسرے کو اور اس نے کہا کہ یہ تو بڑی زبردست بات ہے اس نے کسی اور کو یہ بات پہنچا دی بعد میں پتا چلا وہ تو کسی نےجھوٹی خبر دی تھی تو کتنے لوگوں تک وہ جھوٹی بات پہنچ گئی، تو بھائی اسلام صرف نمازوں کا نام نہیں ہے اپنی زبان کو کنٹرول کرنا بھی اسلام کا حصہ ہے، اپنی زبان کی غلاظت کو کنٹرول کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا نمازیں پڑھنا ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سےابو بکر صدیق نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی نصیحت کیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکراگر تو مجھے دو چیزوں کی گارنٹی دے دے تو میں تجھے جنت کی گارنٹی سے دیتا ہوں، ابو بکر صدیق نے پوچھا یا رسول اللہ وہ دو چیزیں کون سی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک تیری زبان جو دو جبڑوں کے بیچ میں ہے اور دوسری تیری شرم گاہ جو دوٹانگوں کے بیچ میں ہے۔تو آپ اپنی زبان اور شرم گاہ کی گارنٹی دے دیں، میں تجھے جنت کی گارنٹی دے دیتا ہوں۔

5: خاموشی عبادت ہے۔

اگر خاموشی عبادت ہے تو یہ تو بڑی زبردست اوربڑی آسان سی عبادت ہے کوئی مشقت نہیں ہے اس میں لیکن آپ خاموش رہ کر تو دکھائیں ، ہندو دھرم میں ایک طرح کا روزہ رکھا جاتا ہے وپاسنا کہتے ہیں اسے اس میں صرف چپ رہنا ہے، ہم یہ تونہیں کہہ رہے کہ آپ ہندو کی نقل کریں لیکن آپ کوشش تو کریں شروع رپ تو کریں اور ایک گھنٹہ چپ رہ کر دکھائیں۔ کہ میں صرف اللہ کا نام لوں گا یا پھر قرآن پڑھوں گا اس کے علاوہ کچھ نہیں بولوں گا تو ایک گھنٹہ گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ایک دفعہ سرکار گوہر شاہی نے فرمایا کہ ایسا کلام جو تمہاری زبان سے نکلتا ہےاور اس میں اللہ اور اللہ کے رسول کا ذکر خیر نہیں ہوتا یعنی ایسے کلام سے کہ جو ذکر الہی، ذکر مصطفی سے خالی ہو تو اس کلام سے دل پر غفلت کا ایک پردہ دل پر پڑ جاتا ہے۔ ہر وہ کلام جو ذکر اللہ اور ذکر رسول سے خالی ہو باعث غفلت بن جاتا ہے۔لہذا حضور نبی کریمؐ نے اپنی امت کو نصیحت فرمائی کے خاموش رہنا عبادت ہے ، تو چلو کم سے کم کوئی نیکی نہیں کی تو کوئی برائی بھی نہیں کی۔حضورپاک نے بتدریج اہستہ آہستہ اصلاح فرمائی پہلے کہا خاموشی عبادت ہے تاکہ لوگ برائی کرنے سے باز آ جائیں اور جب صحابہ کرام نے خاموشی اختیار کر لی اور آپ نے دیکھا کہ سب خاموش خاموش پھر رہے ہیں تو اب کہا کہ ذکر اللہ خاموشی سے بہتر ہے۔اس لیے آپ زبان پر کنٹرول کریں، زبان پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ زبان کے ہی کرشمات ہیں کہ ہم لوگوں کی غیبتیں کرتے ہیں ، ہم لوگوں پر بہتان لگاتے ہیں ہم لوگوں کی دل آزاری بھی کرتے ہیں اگر ہم زبان کو ہی قابو میں کر لیں تو کتنے بڑے بڑے گناہ کبیرہ سے ہم کو خلاصی مل جائے ہیں ، کتنے کبیرہ گناہ ہیں خاص طور پر لوگوں کی دل آزاری کرنابلھے شاہ نے کہا نا کہ
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا ای
اک بندے دا دل نہ ڈھائیں رب دلاں وچ رہندا ای

6: زبان پر کنٹرول کریں۔

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بری بات تو نہیں کرتے لیکن اچھی بات بھی اس ڈھب سے کرتے ہیں کہ سامنے والا تلملا کر رہ جاتا ہے، ان کے لفظ اتنے زہر آلود اور ان کے بولنے کا طریقہ بڑا عجیب و غریب ہوتا ہے، مثال کے طور پر کسی کو کھانے کا کہنا ہو تو عام طور پر اچھی اردو میں ہم کہتے ہیں کھانا تناول فرما لیجئے اگر تناول کا لفظ استعمال کرنا مشکل ہے تو کہتے ہیں برائے مہربانی کھانا کھالیجئیے یاکھانا کھا لیں ، لیکن کچھ لوگ اس طرح نہیں کہتے وہ کہتے ہیں کھانا لگا دیا ہے ٹیبل پرجا کر ٹھونس لے یہ تو دل آزاری والی بات ہو گئی نا۔بہت سے مہذب لوگ گالی نہیں دیتے کیونکہ یہ ان کے نزدیک انتہائی غیر مہذب بات ہے لیکن دل آزاری کو معیوب نہیں سمجھتے۔

وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا
سورة البقرة آیت نمبر 83

یہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے، اس میں سب آجاتا ہے، اسی میں نرمی بھی ہے اور انتخاب الفاظ بھی اس میں آ جاتا ہے کہ کون سے الفاظ ہم نے بولنے ہیں اور کون سے الفاظ دل آزاری کا باعث ہیں ۔ آج ہم اگر مسلمانوں کا حال دیکھیں تو اکثر مسلمانوں نے صرف ایک شعبہ اختیار کر لیا ہے عبادت کا اور باقی تمام شعبہ ہائے دین کو نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ، گالیاں دینا، بد کلامی کرنا ،دل آزاری کرنا ، لفظوں کے نشتر چبھونا ۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا
سورة الا أحزاب آیت نمبر 57
ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کو اذیت دیتے ہیں اُن پر اللہ کی لعنت دنیا اور آخرت میں برستی ہے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ انکے لئے دردناک عذاب ہے۔

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں تکلیف دیتے ہیں ان کے دل کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی برستی ہے اور اللہ کا ان سے وعدہ ہے، اب یہاں زبان کا اسلوب ملاحظہ فرمایے بڑا دردناک عذاب ان کو دے گا۔ اس کے بعد دوسری آیت میں اللہ نے ذکر کیا ہے

وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
سورة الااٴحزاب آیت نمبر 58

اور جو مومنین اور مومنات پر بہتان لگائیں ، ان کے بارے میں جھوٹی بات کہیں اور ایسا کام ان کے اوپر تھوپ دیں جو انہوں نے کیا نہ ہو تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ انہوں نے صرف عذاب کمایا ہے ، لہذا ہمیں اپنی زبان پر بڑا کنٹرول کرنا ہو گا۔

7: کسی کی جھوٹی تعریف سے اجتناب کریں۔

اسی زبان سے ایک چیز اور بھی جڑی ہے کسی کی جھوٹی تعریف کرنا جسے ہم خوشامد یا چاپلوسی بھی کہتے ہیں ۔ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ “جس نے اپنے مسلمان بھائی کی جھوٹی تعریف کی اس کے منہ میں خاک” اور آج یہ ہمارا دستور بن گیا ہے کہ اپنا ہم اپنا کام نکلوانے کے لیے کسی کی جھوٹی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ۔تو ایک جگہ تو یہ آیا کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کی جھوٹی تعریف کی تو اس کے منہ میں خاک اور ایک اور جگہ یہ آیا ہے کہ اس نے گویا تجھے چھری سے قتل کر دیا ، یا تجھے مار دیا۔اب اگر یہ تمام باتیں آپ اپنے جرنل میں لکھ لیں گے کہ زبان کو کنٹرول میں کرنا ہے تو آپ دیکھنا کتنے فائدے ہوں گے، اس زبان سے کتنی برائیاں پھیلتی ہیں نا، یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ تو اتنا بولتے ہیں کہ ایک جملے کی جگہ سو جملے کا جواب دیں گے اور کچھ لوگ خاموش طبع ہوتے ہیں انہیں یہ فائدہ ہے کہ فالتو کلام بھی نہیں نکلے گا۔ کچھ لوگ تو ایک لائن کے جواب میں سو لائن کا جواب دیں گےجہاں ہاں اور نا میں جواب دینا ہو وہاں بھی آدھا گھنٹا لگا دیں گے، جس جملے میں اللہ اور اللہ کے رسول کا ذکر نہ ہو وہ باعث غفلت جملہ ہے اس سے دل پر غفلت کی چادریں پڑ جاتی ہیں ۔
فضول گوئی کی اسلام میں حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے۔فضول گوئی سے مراد بلا وجہ کی ہانکنا ہے اسے انگریزی میں (Gossip) کہتے ہیں اگر اچھی تشریح کرنا ہو تو کہیں گے (Idle Gossip) کسی نہ کسی کو ٹارگٹ بنا کر اس پر باتیں کرتے ہیں تم نے دیکھا تھا اس نے پچھلے ہفتے کیا کیا تھا، بس بلا وجہ کی باتیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ فضول گوئی خواتین کا ڈیپارٹمنٹ تھا مرد ذرا سوبر ہوا کرتے تھے لیکن اب مرد بھی اس میں آگے نکل گئے ہیں بلاوجہ دوسروں کی برائی کرتے رہتے ہیں ، کوئی مصرف نہیں کوئی مقصد نہیں اور ایک گھنٹہ برائی کی اور پتا بھی نہیں چلا کہ ہم نے کتنا گناہ کما لیا کتنے لوگوں کی دل آزاری کر لی۔ہمیں اپنی روحانی ترقی پر توجہ دی ی ہو گی اپنے آپ سے وعدہ کریں اپنا کردار سنواریں ، یہ اچھی بات نہیں ، بلا وجہ لوگوں کی بات نہ کریں اپنے کام سے کام رکھیں اگر منہ کھولنا ہی ہے تو کوشش کریں کہ ہر جملے میں کسی نہ کسی بہانے سے اللہ اور اللہ کے رسول کی بات کر دیں تاکہ اس جملے سے دل پر غفلت کی چادر نہ آ جائے۔مثال کے طور پراگر کوئی پوچھے کیاتمہارے پاس پین ہےتوآپ جواب میں کہو الحمد للہ میرے پاس پین ہے۔ کام بن گیا نا ، للہ کا نام آ گیا۔اگر آپ نے کسی کی تعریف کرنی ہے تو کہیں بھئی ماشاء اللہ تمہاری گھڑی کتنی خوبصورت ہے ۔ ماشاہ اللہ کہنے سے اس جملے کا عذاب آپ پر نہیں آئے گا۔ اگر جواب دینا انتہائی ناگزیر ہو جائے تو کوشش کریں کہ جواب مختصر اور سادہ الفاظ میں ہو۔جھوٹی تعریف کیوں کی جاتی ہےکیا یہ جائز ہے؟ یہ آپ ذہن میں بٹھا لیں کہ جھوٹی تعریف نہیں کرنی ہے کیونکہ جھوٹی تعریف آپ صرف اور صرف اس وقت کرتے ہیں جب آپ کی کوئی غرض ہو اور یقینا وہ غرض ناجائز ہوگی اگر جائز غرض ہو تو آپ بغیر تعریف کیے کہہ دیں ۔اکثر لوگ دوسروں کی حوصلہ افزائی کے لیے جھوٹی تعریف کردیتے ہیں اب یہاں پر نیت کا دارومدار ہے یہاں پر آپ کی نیت خراب نہیں ہے، نیت یہ ہے کہ دو چار اچھے لفظ بول دو تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو جائے ، آپ اس کی بھلائی چاہتے ہیں تو اگر حوصلہ افزائی کے لیے آپ جھوٹی تعریف کر بھی دیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔جیسا کہ میاں بیوی کی آپس میں صلح صفائی کے لیے جھوٹی تعریف کر دینا بالکل صحیح ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 26 نومبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی اصلاحی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس