کیٹیگری: مضامین

کیا زاہدو پارسا شیطان کے نقش قدم پر چل سکتا ہے؟

الرٰ ٹی وی سے روزآنہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی مو ضوع پر عوام کو مخاطب کر کےگفتگو کی جاتی ہے اور کبھی کبھار یہ گفتگو آپ کے لیے باعث حیرت بھی ہوسکتی ہے مثلا یہ کہ دنیا کے سب انسان ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یہ ہی دنیا کا رواج بھی ہے لیکن کیا ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پابندی سے رب کی عبادت کرنے والا ایک دن شیطان کے نقش قدم پر بھی مڑ سکتا ہے؟یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی شیطان کی پوجا نہیں کرنا چاہے گا سوائے اُن کے جن کی نیت ہی شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہو۔
ہم مذہب پر عمل پیرا لوگ عبادات کی ادائیگی کے لیے اپنی اپنی مقدس و متبرک عبادت گاہوں میں جاتے ہیں اور دوران عبادت اُن کے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا کی عبادت کر رہے ہیں اور اِسی طرح وہ ساری زندگی عبادت کرتےرہتے ہیں اور کبھی یہ بھی شک اُن کے ذہن سے نہیں گزرتا کہ وہ خدا کے علاوہ کسی اور کی پوجا کر رہے ہیں لیکن یہ بات سمجھنا انتہائی اہم ہے کہ اللہ تعالی نے ہر مذہب میں عبادات کی قبولیت کے بے شمار لوازمات رکھےہیں اور ان لوازمات کی ادائیگی ساتھ کی گئی عبادت ہی رب کی بارگاہ میں قابل قبول ہوتی ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یوں تو دنیا بھر میں لوگ بڑی پابندی سے عبادت گاہوں میں جا تے ہیں اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادات میں مصروف ہیں لیکن کیا انہیں یہ خبر بھی ہے کہ آیا اُن کی عبادات رب تک پہنچ بھی رہی ہیں یا نہیں ؟ عابد گزاروں کی اکثریت عبادت کے لوازمات اور قبولیت کی پرواہ کیے بغیر مصروف عبادت ہے۔ ہمارا مقصد آپ کو یہ سمجھانا ہے کہ ایسی عبادت کا کیا فائدہ ہے جو خلوص اور محبت الہی کے بغیر کی جا رہی ہے۔

مثال:

ایک بالکل عام سی مثال کے ذریعے ہم اپنی گفتگو کا مقصد آپ کے سامنے رکھتے ہیں ، اگر کوئی کھانا پکانے والا شخص اپنی ڈش یا اپنے پکوان کو اس کے اجزاء اور اس کی مقدار و ترکیب کے بغیر بنا ڈالے جو دیکھنے میں تو ایسا خوش نما ہو کہ تصویر اُتارنے کا دل چاہے لیکن جب وہی خوش نما کھانا تناول کیا جائے توبالکل بے مزا ہوتو یقینا ایسا بد مزہ کھانا کھانے سے ہر ایک ہاتھ کھینچ لے گا اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کسی بھی پکوان کی جان اس کا ذائقہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ اجزاء کے بغیرپکے پکوان میں لذت و ذائقہ کا فرق آ جاتا ہے۔ ہر مصالحے کا اپنا ذائقہ اور اہمیت ہے ،مثال کے طورپراگر نہاری پکائی جائے تو اس میں سے خوشبو ، ذائقہ اور رنگت بھی نہاری جیسی ہی ہونا چاہئیے اگر ایسا نہیں ہوگا تو نہاری اور سادہ سالن ایک ہی جیسا مزہ دیں گے۔

جس طرح ذائقہ اور لذت کھانے کی روح ہے اسی طرح عبادت کی روح اخلاص ہے

عبادات کے لوازمات کیا ہیں؟

یوں سمجھیں کہ رب کی عبادت کی بھی ایک خاص ترکیب ہے جس طرح خالص مصالحہ جات اور ان کی مقدار، مطلوبہ آنچ اور وقت کے دھیان سے پکا ہوا پکوان لذت سے بھرپور ہوتا ہے بالکل اسی طرح درست طریقے سے کی ہوئی عبادت میں بھی اللہ نے مزہ رکھا ہے۔کھانا کس طرح پکانا چاہئیے اس موضوع پرہمیں بے حد خوش نما و دیدہ زیب ہزاروں کتابیں اور لاکھوں وڈیو مل جائیں گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا محض کھانا پکانے کی کتاب پڑھ لینے سے کوئی کھانا پکانے کا ماہر بن سکتا ہے؟ بالکل اسی طرح عبادات کس طرح کرنی چاہئیے اس موضوع پردنیا بھر میں مختلف زبانوں میں لکھی ہوئی ہزاروں کتابیں مل جائیں گی جن میں لکھا ہوتا ہے خلوص دل سے رب کی عبادت کرنی چاہئیے لیکن وہ اخلاص دل کہاں سے ملتا ہے؟ فرض کریں کہ ہمارے مذہبی رہبرہمیں اخلاص کےحقیقی معنی ہی نہ سمجھا سکیں تو پھرہماری کی ہوئی عبادات کیا ہو گا؟ کیا ہم اسے اپنی بد قسمتی کہہ کر جان چھڑا سکتے ہیں کہ ہمیں تو بتایا ہی نہیں گیا کہ عبادت کی روح کیا ہے۔ اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی کہ کسی اُمیدوار کو کھانا پکانے کے امتحان میں مطلوبہ پکوان کی حقیقی ترکیب یا ذائقے کے بجائے اس کی غلط ترکیب دے دی جائے تو وہ امتحان میں اسی غلط ترکیب سے کھانا بنا کر پیش کر دے گا اور جب وہ کھانا چکھا جائے گا تب اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عبادات کی حقیقی روح اور عبادات کا مغز سمجھانے کے لیے کھانے کی مثال دی ہے تاکہ آپ کو سمجھایا جا سکے کہ

عبادات کا سب سے ضروری جزو ” دل کی حاضری” ہے، تصوف میں جسے “حضوری قلب” بھی کہتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنی نیت کو اپنے دل سے جدا چیز سمجھتے ہیں لیکن ہم جان لیں کہ جب تک ہمارا دل ناپاک ہے اس وقت تک ہماری نیت بھی ناپاک ہے۔کیونکہ جب تک دل اسم اللہ سے بیدار نہیں ہوتا اس وقت تک دل ناپاک ہے اور دل کی پاکی صرف اللہ تعالی کے بابرکت اور پاک نام سے ہی ہوسکتی ہے جیسے ہی اللہ کا نام دل کی دھڑکنوں میں قائم ہو جاتا ہے اور جب دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ اِسم اللہ کا رگڑا لگنے لگتا ہے تو اس عمل سے دل میں نور بننے لگتا ہے۔جن کے دل ابھی ناپاک ہیں وہ اکثر یہ ہی کہتے ہیں کہ میری نیت تو صاف ہے نہیں ایسا نہیں ہے جب تک دل ناپاک ہے تو نیت کیسے پاک ہو سکتی ہے؟ مثال کے طور پر ایک گلاس میں گرم اُبلتا ہوا پانی ہے جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہے اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھاپ پاک ہے تو جواب یہ ہو گا کہ اگر گلاس کا پانی پاک ہے تو اس سے اٹھنے والی بھاپ بھی پاک ہو گی اگر گلاس میں ناپاک پانی ہے تو پھر اس سے اُٹھنے والی بھاپ بھی ناپاک ہے۔نیت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے اگر کسی کا دل پاک ہے تو اس میں موجود نیت بھی پاک اور نورانی ہے اگر دل ناپاک ہے تو ناپاک دل کی نیت بھی ناپاک ہوگی۔
جب ہم خدا کی عبادت کریں تو اس میں خلوص دل شامل ہو تاکہ ہماری عبادات کا نور دل میں جمع ہو اور پھر دل سے وہ نور رب تک پہنچ سکے، اگر دل رب کی یاد سے غافل ہو گا یا دل ناپاک ہو گا تو عبادات سے جو بھی نور بنے گا وہ دل میں جمع ہونے سے پہلے ہی شیطان کے ہتھے چڑھ جائے گا اور بظاہرساری عمر رب کی عبادات میں گزارنے کے باوجود ہم شیطان کے شیطان ہی رہیں گے اور کبھی بھی یہ جان نہیں پائیں گے کہ ہماری عبادات کہاں جا رہی ہیں ۔تو حاصل کلام یہ ہے کہ رب کی عبادت میں لگنے سے پہلے بیداری قلب کا اہتمام کرلیا جائے کیوں کہ جب کسی کا دل اِسم اللہ سے منور ہو جاتا ہے تو پھراسے نہ صرف حضوری قلب نصیب ہو جاتی ہے بلکہ اخلاص نیت بھی عطا ہوتی ہے اور دل کی حاضری کے ساتھ کی ہوئی اس کی ہرعبادت سیدھا رب کی بارگاہ میں پہنچتی ہے ۔حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ

عَنْ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ اَلنَّوْفَلِيِّ عَنِ اَلسَّكُونِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : نِيَّةُ اَلْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ وَ نِيَّةُ اَلْكَافِرِ شَرٌّ مِنْ عَمَلِهِ وَ كُلُّ عَامِلٍ يَعْمَلُ عَلَى نِيَّتِهِ
بحار الانوار ( ج ۶۷ ص ۱۸۹)

مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہےمومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے کیونکہ جب تک دل نور سے خالی ہے کسی بھی عمل سے نور نہیں بنتا نہ ہی رب کی نظر میں اُس عمل کی کوئی اہمیت ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 8 دسمبر 2020 کو یوٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس