کیٹیگری: مضامین

جب آدم صفی اللہ کو بنایا جا رہاتھا اس وقت ملائکہ وہاں موجود تھےاور رب کے حکم سے وہ سارے ملائکہ جھک گئے تھے لیکن ابلیس نے انکار کر دیا ۔ قرآن میں ہے کہ

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
سورة البقرة آیت نمبر 34

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ابلیس ایک فرشتہ ہے جو کہ غلط ہے ابلیس ایک فرشتہ نہیں بلکہ قوم جنات سے ہے اُس نے زمین کے چپے چپے پر سجدہ کیا تھا۔ایک دفعہ اللہ نے خوش ہوکر اُس کو کہا کہ ہم تمہیں ترقی دے کرملائکہ کا سردار بنا دیتے ہیں اور پھر عا لم ِ ناسوت سے اُس کو اٹھا کرعالمِ ملکوت لے گئے، اِس طرح وہ ملائکہ کا سردار بن گیا مگر وہ قومِ جنات سےتھا۔ رہ گئی بات اُس نےسجدے کا انکار کر کے تکبر کیا ، تکبر اِس بات پر اُس نے کیا، اس نے یہ کہا اے اللہ تو نے اِس کو مٹی سے بنایا ہے اور میں آگ سے بنا ہوا ہوں، تو میں اس سے بہتر ہوں ۔اب یہ دونوں لفظوں کو آپ دنیا میں دیکھیں، تو جو لوگ صرف مٹی کے ہی بنے ہوئے ہیں اُن کے اوپر وہ قابض ہے ، ابلیس اُن کودکھا رہا ہے کہ وہ اُن سے بہتر ہے۔ دنیا میں دیکھ لیں آپ یہ بات اُس وقت ہوئی تھی جب آدم صفی اللہ کا جسم بنایا جا رہا تھا ،اس کے اندر روح نہیں تھی، نور بھی نہیں تھا ، اُس نے صرف مٹی کا جسم ہی دیکھا تھا اور کہا میں اس سے بہتر ہوں اِس کے آگے کیوں جھکا رہے ہو؟

کل عالمِ اسلام کے علما کرام سے میرا یہ سوال ہے کہ جب آدم صفی اللہ میں روح آگئی تھی ،وہ زمین پر آگئے تھے تو کیا اُس وقت بھی ابلیس نے اُن کے آگے تکبر کیا تھا ؟

اُس وقت تو وہ اُن کے سامنے بھی نہیں آتا تھا ،تو یہ جو کچھ بھی اس نے انکارِ سجدہ کیا اس کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو دو حوالے دے دیتا ہوں، اب آپ خود اپنے قرآن کی تعلیم اوراسلام کی تعلیم کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں اس کا کیا مطلب ہے؟

ابلیس کا سجدہ انکار تکبر تھا یا حقیقت ؟

یہ جو ہم قبروں پر جاتے ہیں اور ہمارے دین میں موجود جو وہابی فرقہ ہے وہ یہ کہتا ہے کہ تم یہاں کیوں جھک رہے ہو یہ تو مٹی ہیں، خاک میں مل گئے یہ تو ہڈیوں کا بوسیدہ ڈھیر ہے ،یہاں کیوں جھک رہے ہو اور مٹیوں کا ڈھیر، ہڈیوں کا ڈھیر اُس کے آگے جھکنا بھی غلط ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ کو کہا کہ اس کے آگے سجدہ کرو ، تو اس وقت اُس کے اندر روح نہیں تھی۔ مٹی کا صرف جسم تھا ۔

“اگر قرآنِ مجید کی رو سے دیکھا جائےتواگر کسی ولی کا جسم بھی دفن ہے کہیں تو اُس میں روح بھی نہیں ہے قبر میں، تب بھی اُس کی تعظیم اُس پر لازم ہے یہ سنتِ الٰہی ہے اور روح ہو تو بات ہی الگ ہے۔ لیکن روح نہ بھی ہو صرف مٹی کا جسم ہی دفن ہوکہیں، تو اللہ تعالیٰ کے جو احکامات قرآنِ مجید میں آئے ہیں اُس کی روشنی میں اُس مٹی کے جسم کے آگے جھکنا لازم ہے۔ جب اللہ نے یہ کام خود کرایا ہے تو پھر یہ غلط کیسے ہوسکتا ہے ؟”

آدم صفی اللہ جو تھے اُن کے اندر اُس وقت روح تو نہیں تھی ، جسم تھا ،جسم کے آگے جھکایا ۔اپنی طرف سے ابلیس نے جو کہا وہ بھی صحیح تھا ،وہ صحیح کیوں تھا؟ کیونکہ اُس کے الفاظ بتا رہے ہیں ۔

قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ؕ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ
سورة ص آیت نمبر 76
ترجمہ : اس نے کہا کہ میں اس (آدم)سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور تو نے اِسے مٹی سے بنایا ہے۔

آپ آج کی زندگی میں اگر دیکھیں تو جن لوگوں کے سینوں میں نور نہیں ہے ،ایمان نہیں ہے، صرف مٹی کے جسم ہی ہیں ،روح اُن کی سوئی ہوئی ہے ،کوئی نور ان کے سینوں میں نہیں ہے تو آج شیطان اُن پر حاوی نہیں ہے!! تو ایک طریقہ سے یہ بات تو صحیح تھی ۔اُس نے کہا میں اِس سے بہتر ہوں مجھے تخلیق کیا ہے آگ سے اور اُس کو تو نے تخلیق کیا ہے مٹی سے ۔ اب یہ مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے اب یہ بات بتا رہی ہے کہ یہ اُس کے جسم کے بارے میں بات ہورہی ہے ، جب اُس میں روح نہیں تھی اور جو ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں۔ آج آپ کو دنیا میں نظر آہا ہے جن لوگوں کے سینوں میں نور نہیں ہے ابلیس اُن پر حاوی ہے لڑ کے دکھاؤ اُس سے ،اور پھر جب آدم صفی اللہ کے جسم میں روح بھی ڈال دی گئی، تو اس وقت پھر اُس کو تکبر نہیں تھا اُس وقت پھر اُس کو بہانے بنانے پڑے ،سامنے بھی نہیں آیا، مائی حوا کو بہکایا، آدم صفی اللہ کو نہیں بہکایا ۔مائی حوا کو کہا آپ یہ کھاؤ اور اُن کو بھی راغب کرو، اگر وہ اُ س سے بہتر ہوتا تو زور زبردستی کرتا ، قبضہ کرتا آدم صفی اللہ پر ۔اِس دور میں اب لوگوں کے اندر جنات گھسے ہوئے ہیں۔ کسی کو جو ہے وہ ہسٹیریا کی بیماری ہوجاتی ہے ،کسی کی ناک پھٹ جاتی ہے ، کسی کے اوپر جِن کی سواری آجاتی ہے ،جن سوار ہوجاتے ہیں ،عجیب و غریب آ سیب کی نظر میں آجاتے ہیں ، یہ باتیں بتا رہی ہیں چیخ چیخ کر کہ جو ابلیس نے کہا تھا اُس دن وہ صحیح کہا تھا ۔بات تو تکبر کی ہے لیکن یہ دیکھو بات سچ ہے یا جھوٹ ہے ۔شیطان مٹی کے انسانوں سے بہتر ہے ،اگر تم اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہو ،تو تم شیطان کے غلبہ میں کیوں ہو ،ابلیس سے زیادہ زور آور، ابلیس سے زیادو طاقت ور تو وہ ہی ہوگا نا کہ جس کے سینے میں نور ہوگا ،صفت ِالٰہی ہوگی اور جن کے سینوں میں نورآگیا تو اُس کے بارے میں ابلیس خود کیا کہتا ہے ؛

قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِين
سورة ص آیت نمبر 82 تا 83
ترجمہ:اے مولا!تیری عزت کی قسم!میں پوری نوح انسانی کو گمراہ کر ڈالوں گا،سوائے تیرے اُن بندوں کے جو مخلص ہیں۔

اُن کو گمراہ نہیں کر سکتا ،اب اُن کیلئے تو ابلیس عجز و انکساری کا پیکر بن گیا ،اُن کیلئے تو وہ عجز کا مظاہرہ کر رہا ہے ،تکبر کا اظہار اُس نے اُس انسان کیلئے کیا ہے جس میں صرف مٹی کا جسم ہی ہے ،اللہ کا نور نہیں ہے اور جن میں اللہ کا نور، نسبتِ الٰہی جن کے سینوں میں آگیا ہے، اُن کیلئے تو تکبر نہیں دکھا رہا ۔اُس کا تکبر صرف تکبر نہیں حقیقت بھی تھا اور تمھارے سامنے وہ حقیقت ہے، دنیا میں انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جو شیطان کے ہاتھوں مغلوب ہیں ، جن کے اوپر شیطان کا قبضہ ہے، شیطان اُن سے بے ایمانی کروانا چاہتا ہے، وہ بے ایمانی کرتے ہیں ،شیطان اُن سے ایک دوسرے کا گلا کٹوا رہا ہے، وہ کاٹ رہے ہیں تمھارے اندر لطیفہِ نفس کی صورت میں ایک جِن بیٹھا ہوا ہے ۔قرآنِ مجید کہتا ہے وہ تم پر حاوی ہے، نفسِ اماراہ وہ تم سے زبردستی برائی کرا لیتا ہے ،تمھاری عظمت کہاں گئی ابلیس تو دور کی بات ہے ایک چھوٹا سا شیطان جس کو لطیفہِ نفس کہتے ہیں وہ تم پر حاوی ہے ،تم اُس کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکتے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ
فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا ۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اب جو محنت کا کام ہے وہ یہی ہے کہ جو شیطان کا جاسوس لطیفہِ نفس تمھارے اندر بیٹھا ہوا ہے ،قومِ جنات سے ہے ،جو آگ سے بنا ہوا ہے، اُس کو تم نے باہر نکالنا ہے اُس کو نور کی غذا دینی ہے، اُس کی حالت کو تبدیل کرنا ہےجب حالت تبدیل ہو گی پھر وہ کتے سے انسان بنے گا۔ جب وہ لطیفہ نفس نور کا ہو جائے گا اورتیرے قلب میں بھی اللہ کا نور آجائے گا اب شیطان تیرے اوپر حاوی نہیں ہوسکتا، اب شیطان تیرے مغلوب ہے۔ ہماری جب ابلیس سے ملاقات ہوئی توہم نے ابلیس کو کہا کہ بیوقوف تو نے آدم صفی اللہ کو سجدہ انکار کیوں کیا؟تو اُس نے کہا میں نے آدم صفی اللہ کی عظمت کو کہاں رد کیا ہےمیں نے تو اُس جسم کو سجدہ انکار کیا ہے جو صرف مٹی کا بنا تھا ،میں آدم صفی اللہ کی گستاخی کیسے کرسکتا ہوں۔ ہم نے کہا یومِ محشر میں جب یہ بات ہوگی تو پھر کیا ہو گا۔ ابلیس نے کہا ہاں جی اللہ کو بھی پتا ہے، مٹی سے آگ بہتر ہے اللہ کو معلوم ہے اور تمھارے اعمال بھی ثابت کریں گے یومِ محشر میں کہ مٹی سے آگ بہتر کیسے ہے ۔جب تمھارا اعمال نامہ پیش کیا جائے گا اور پھر یہ ثابت ہوگا کہ ایک آگ کا شعلہ ،شیطانی لطیفہِ نفس کی صورت میں وہ تیرے پورے مٹی کے جسم پر حاوی رہا اور اُس نے گِن چُن کے گناہ ہی گناہ تجھ سے کرائے بتاؤ حاوی تھا کہ نہیں؟تیرے اعضاء بولیں گے جب یومِ محشر میں تیرے جسم سے مٹی اور آگ کو الگ کیا جائے گا۔ تیرے لطیفہ نفس سے نکلنے والی آگ جو تیری مٹی کے جسم میں نس نس میں بھری ہوئی ہے ،جب اُس کو علیحدہ کریں گے تو پھر معلوم ہوگا ارے یہ مٹی ہے ، یہ آگ ہے۔ آگ کے زیرِ اثر آکر اِس مٹی کے جسم نےکراہیت آمیز گناہ کرائے ، اگر یہ مٹی کا جسم افضل ہوتا تو پھر یہ آگ کا مغلوب کیوں ہوتا اور پھر اِن مٹی کے جسموں میں موجود روحیں جو تھیں جب وہ منور جس کی ہوگئیں ،تو پھر وہ وہاں گواہی دےگا اِس مٹی کے جسم کو نور کی نسبت تھی تو آگ حاوی نہیں ہو سکی، اِس کی نسوں میں نور دوڑ رہا تھا اسِ نے جیتے جی زمین پر اِس جسم سے نار کو خارج کردیا تھا اور نور کو بر آمد کیا لہٰذا یہ افضل ہوگیا۔
جب ابلیس نےسجدہ انکار کیا تواللہ نے ابلیس سے پوچھا تجھے اِس کے آگے جھکنے سے کس چیز نے باز رکھا ، تو پھر اُس نے یہ وضاحت دیتے ہوئے یہ کہا تھاقَالَ اَنَاخَیۡرٌ مِّنۡہُ ؕخَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ میں اِس سے بہتر ہوں کیونکہ اسے مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھے آگ سےمیں اِس کے آگے کیسے جھکوں۔ یہ پوشیدہ بات ہے کھلنے والی بات نہیں ہے یہ اللہ کی پلاننگ ہی ایسے تھی۔ یہ بات ٹیکنیکل ہے ایسا نہیں ہے یہ شیطان کو پتا نہیں تھا اور بچت بھی رکھی ہے ، اِس وقت کہیں گے تو اِس کو بھی بری کرنا ہے نا آگے جاکر کہ اِس نے ٹیکنیکل باتیں کیں ہیں تم اِس کی دام و فریب میں کیوں آئے ؟ اِس لیئے آئے یہ صحیح کہہ رہا تھا کہ تم مٹی ہی ہو ،اگر مٹی رہو گے تو یہ تم پر حاوی رہے گا ،تم نور بن جاؤ تو شیطان تم پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 13 ستمبر 2017 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس