کیٹیگری: مضامین

آدم صفی اللہ کے جنت سے نکلنے کی وجوہات :

آپ سب کو معلوم ہے آدم صفی اللہ جنت میں رہتے تھے ، اللہ تعالی نے انکو سوائے گیہوں کے درخت کے جنت کی ہر چیز کھانے کی اجازت دے رکھی تھی ،گیہوں کے لیے کہا کہ یہ شجرِممنوع ہے لیکن ابلیس مائی حوا کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے خوامخواہ اس درخت پر پابندی لگا رکھی ہے یہ تو بڑا زبردست درخت ہے اس کا پھل کھا لو ، اسطرح بی بی حوا نے بھی کھایا اور آدم صفی اللہ کو بھی کھانے پر راضی کر لیا ۔

حبل اللہ کیا ہے؟

جنت کی چیزوں میں مٹی نہیں ہے صرف غذائیت ہے، جب جنت سے پھل فروٹ زمین پر لائے گئے اور اس کے بیج یہاں کی زمین میں بوئے گئے تو اس میں یہاں کی مٹی شامل ہو گئی اب مٹی میں تو کوئی غذائیت نہیں ہے لہذا جب ہم یہاں کی چیزیں کھاتے ہیں تو کاربوہائیڈریٹس، پروٹین وغیرہ تو خون میں چلے جاتے ہیں اور جو مٹی اس بیج کا حصہ بن گئی تھی اسکا فضلہ کی صورت میں جسم سے اخراج ہو جاتا ہے، لیکن جنت کی چیزوں میں مٹی نہیں ہے لہذا وہاں آدمی وہاں خوب کھاتا ہے اور انرجی سیدھا جسم میں چلی جاتی ہے لہذارفع حاجت کی ضرورت وہاں نہیں ہوتی۔جب آدم علیہ السلام نے زمین سے لائے ہوئے درخت سے کھایا جس میں زمین کی مٹی شامل تھی تو وہ ہضم نہیں ہوئی اس لئے آدم علیہ السلام کو رفع حاجت محسوس ہوئی ، جب فضلہ نکلا تو وہ پریشان ہو گئے اور اسی عالم میں انکا ہاتھ جسم پر جگہ جگہ لگا جہاں بھی وہ غلاظت لگی وہاں کے بال کاٹنے کا حکم ہے، کیونکہ وہ بال غلاظت لگنے کی وجہ سے نکلے تھے ، آپ نے دیکھا ہوگا کہ داڑھی یا سر پر بھی بال تعداد میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں لیکن اُن بالوں سے بدبو نہیں آتی لیکن اگر زیر ناف اور بغل کےبال نہ کاٹے جائیں تو اُن مقامات سے بدبو آنے لگتی ہے ۔

“جب آدم صفی اللہ سے یہ نافرمانی ہو گئی تو اللہ تعالی نے بطور سزا انکو زمین پر بھیج دیا اور ایک نور کی تار کو ان کے دل سے جوڑ دیا کہ اگر انکو ضرورت پڑے تو اس تار کے ذریعے رابطہ کر سکیں ،لہذا زمین سے وہ جو بھی بات کہتے وہ اللہ تک پہنچ جاتی تھی ،لیکن جب جب پرندے اس تار سے ٹکراتے یا ہوا زور سے چلتی تھی تو آدم صفی اللہ کو تکلیف ہوتی تھی اس لیے اللہ نے اس تار کو ظاہر سے ختم کر کے باطن میں منتقل کر دیا”

اللہ تعالی نے آدم صفی اللہ کو نبوت بھی لطیفہ قلب کی دی کہ اب تم یہ نور کا تار اپنی اولاد کو لگاؤ، پھر انہوں نے اپنی اولاد کو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ رب کا نام لینے کی تعلیم سکھائی، دل میں رب کا نام گیا اس نام سے نور بنا پھر اس سے وہ نوری تار اوپر جانے لگا اور اللہ تک پہنچ گیا ۔آدم صفی اللہ کو جو نوری تار اللہ کی طرف سے لگا تھا آدم صفی اللہ کے بعد جو دوسرے انبیاء آئے اُن کو بھی لگا تھا اُسی کے ذریعے انکا اللہ سے رابطہ ہوتا تھا پھر تیسرے نبی کو بھی وہ تار لگا ،سارے مرسلین کو وہ تار لگا ہوا تھا پھر انہوں نے اپنی اپنی امتوں میں جس جس کو وہ نوری تار لگایا وہ ولی اللہ ہو گیا ، اس تار کو حبل اللہ کہتے ہیں ۔قرآن میں اسی حبل اللہ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا
سورۃآل عمران آیت نمبر 103
ترجمہ : اور حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور فرقوں میں نہ بٹو۔

حبل اللہ رسالت سے ولایت میں منتقل ہوئی:

جن ہستیوں کے وہ تار جڑا ہوا ہے ان ہستیوں کو پکڑ لو تو کبھی بھی فرقوں میں نہیں بٹو گے۔تاریخ گواہ ہے جو بھی محمد رسول اللہ سے جڑے رہے وہ کبھی بھی فرقوں میں نہیں بٹے ۔کسی نے حضرت علی کرم اللہ ُ وجہُ الکریم سے دریافت کیا:مولا یہ بتائیے کہ قرآن نے جو ’’حبل اللہ ‘‘ کہا ہے وہ’’حبل اللہ‘‘ کیا ہے؟ تو مولا علی شیر ِ خدا نے فرمایاکہ: ’’میں اللہ کی حبل ہوں‘‘یہ روایت ہے باقاعدہ۔’’میں اللہ کی حبل ہوں‘‘تو اب جو بھی’’ علی علی ‘‘کرتا ہے سمجھتا ہے حبل اللہ کو پا گیا؟ بھئی اگر ہم مانتے ہیں کہ حضرت علی کو مانتے ہیں اللہ کی حبل ہیں لیکن علی علی کرنے سے ’’حبل اللہ ‘‘ تو نہیں مل جائے گی ۔اگر علی علی کرنے سے’’حبل اللہ ‘‘ مل جائے تو حضرت علی کے نام سے بڑا نام اللہ ھو ہے ،اللہ ُ کرنے والوں کو وہ ’’حبل اللہ ‘‘نہیں ملی،یا علی کرنے والوں کو کیسے ملے گی!! جو حقیقت ہے اُس کا تو آپکو اقرار کرنا ہوگا۔یہ جو ہستیاں ہیں حضرت علی ؑ اور بی بی فاطمہ رضی اللہ ُتعالیٰ عنہُ اور حضور پاک،محمدالرسول اللہ سب مقدّس ترین ذات اور ہستیاں ہیں لیکن اس بات سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ علی سے بھی اور محمد ﷺسے بھی اور فاطمہ سے بھی افضل جو ذات ہے وہ اللہ ہے۔ تو بھئی جب اللہ اللہ کر نے سے’’حبل اللہ ‘‘ سے نہیں جڑے لوگ تو’’الصلوۃ وَالسَّلاَمُ عَلَیکَ یَا رَسُول اَللہ‘‘ کہنے سے کیا ہو گا؟ جب انبیاء کے واسطے دینے سے کچھ نہیں بنا تو پنجتن پاک کے صدقے دینے سے کونسی ’’حبل اللہ ‘‘ مل جائے گی؟ بات ساری حقیقت پسندی کی ہے لوگ اگر خواب و خیال کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو یہ اُنکا اپنا قیاس ہے ۔یہ جو ’’حبل اللہ ‘‘ ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر کیا ہے یہ ’’حبل اللہ ‘‘ وِلایت میں چل رہی ہے۔پہلے نبیوں میں آئی ،نبوت ختم ہوگئی۔انسانیت تو ختم نہیں ہوئی نا بھئی،نبوت ہی ختم ہوئی ہے ،انسانیت تو ابھی بھی زندہ ہے۔تو جب نبوت ختم ہو گئی تو وہ ’’حبل اللہ ‘‘ وِلایت میں آگئی۔انسانیت کو فیض تو دینا ہے نبوت ہی ختم ہوئی ہے نا تو ’’حبل اللہ ‘‘ پہلے بھی نبوت میں آئی ہے ۔لوگ کہتے ہیں ہم شعیان علی ہیں لیکن یہ زبان سے ہی کہتے ہیں اگر وہ نوری تار دل سے جڑا ہو تو کبھی نہیں کہے گا میں شیعہ ہوں یہی کہے گا “امتی ہوں تمہارا یا رسول اللہ” ۔اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کے ذریعے جن جن کے تار جڑے، وہ ولی کہلائے اور جو انکے امتی تھے انکا تار ذکر کے ذریعے ہوا ۔ مرسلین کا وہ تار اللہ کی طرف سے جڑا جڑایا ہوتا تھا ، امتیوں کو وہ تار ذکر اور نور کے ذریعے بنانا پڑا۔

حبل اللہ کا کیا مقصد ہے؟

کسی نے حضور پاک سے پوچھا کہ یا رسول اللہ حبل اللہ کیا ہے؟ تو آپ نے مولا علی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ حبل مولا علی کو لگی ہوئی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ مولا علی سے ولائیت کا سلسلہ شروع ہوگا پھر اللہ کی طرف سےجس جس کو وہ تار لگتی جائے گی اسکا شمار ولیوں میں ہو گا۔ان ولیوں کا کام کیا ہو گا؟ پھر وہ ولی ذکر کے ذریعے امتیوں کا تار اللہ سے جوڑیں ، جس جس کا تار جڑتا گیا اسکا تعلق باللہ قائم ہوتا گیا۔ اور جو صرف ظاہری عبادات میں لگے رہے کسی حبل اللہ والے کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، یا کسی حبل اللہ والے کے ساتھ عہد و پیماں نہیں کیے ، نہ ان کے ذریعے شرح صدر ہو سکا ، نہ تذکیہ و تصفیہ ہوسکا تو پھر وہ فرقوں میں بٹ گئے، کوئی شیعہ ، کوئی بریلوی ، کوئی سنی ، کوئی سلفی، کوئی اہل حدیث ، کوئی وہابی ہو گیا ، یہ سب جہنم کے کتے ہیں ۔ جس کے وہ تار جڑ گیا وہ تو حضور کا امتی ہو گیا ، امت کے لیے یوم محشر میں کوئی سوال جواب بھی نہیں ہیں ، یہ حبل اللہ کی تشریح ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر عزت ماب سیدی یونس الگوھر سے 15 جولائی 2017 کو یو ٹیوب پر کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس