کیٹیگری: مضامین

کتابوں میں لکھا ہوا کہ حضور نبی کریمؐ خانہ کعبہ میں موجود تھے اور جبرائیل امین تشریف لائے اور انہوں نے حضوؐر کا سینہ مبارک چاک کیا، یہ واقعہ ہوا ضرور ہے لیکن کتابوں میں اپنی پوری صحت کے ساتھ موجود نہیں ہے اس وقت کیا ہوا تھا یہ ہم آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ یہ جان لیں کے دل کو آب زم زم، یعنی پانی سے دھویا نہیں جا سکتا آب زم زم جسم کے لیے ہے اور نہ نبی پاک کا قلب مبارک معاذ اللہ ناپاک تھا، نبی پاک کا قلب اطہر ناپاک نہیں تھا ، کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کے قلب مبارک کو پانچ ہزار سال تک مقام محبت میں رکھا ہوا تھا ، تو جب حضوؐر کے پاس جبرائیل امین تشریف لائے ہیں تو آپ بچے تھے اور آپ کا باطنی طور پر سینہ مبارک چاک کیا ہے اور آپ کے دل کو نہیں لطیفہ قلب کو باہر نکالا ہے اور اس میں طفل نوری داخل کیا ہے یعنی طفل نوری کا نطفہ نور اس میں داخل ہو گیا ہے، طفل نوری آپ کے قلب میں داخل ہونے کی وجہ سے آپ کے پورے وجود میں اسم اللہ کا ذکر شروع ہو گیا ۔حضور پاکؐ کے پاس جبرائیل کا آنا اس لیے ضروری تھا کیونکہ جس طرح وہ وحی لے کر حضورؐ کے پاس آئے تھے اللہ کی طرف سے اسی طرح وہ طفل نوری، نطفہ نور لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد جتنے بھی سلطان الفقراء بنے ہیں ان کو حضورؐ کے قلب سے فیض ہو ، اسی لئے طفل نوری ملا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وجود مسعود میں ، ذکر الہی کے آنے سے شروع ہو گیا ، اب اگر آپ یہ سمجھ لیں گے گو پھر آپ کو غار حرا کا واقعہ آسانی سے سمجھ آ جائے گا جب چالیس سال کی عمر ہو گئی اور وقت آ گیا کہ آپ اعلان نبوت کریں تو پہلی آیت اُتری

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
سورة العلق آیت نمبر 1

یہاں اس آیت میں تو اقرار لیا جا رہا ہے نا کہ آپ کے رگ و پے میں جو اسم اللہ دوڑ رہا ہے اس کا اقرار کر لیں ، تو وہاں خانہ کعبہ میں قلب کو چاک کرنے کی بات جو ہوئی ہے وہ آب زم سے دھویا نہیں تھا بلکہ وہ نور اس میں داخل کیا گیا تھا۔ اچھا اب سیدنا گوہر شاہی کی بارگاہ سے ایک ذاتی نوازش ہمارے ساتھ ہوئی۔ 1986 میں سیدنا گوہر شاہی سے مل کر رات کے وقت گھر واپس آیا ، میں بیٹھا ہوا تھا اور سردی لگ رہی تھی پھر اچانک مجھ پر غنودگی طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ میرا قلب میرے سینے سے باہر آ کرسامنے کھڑا ہو گیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بہت بدبو دار اور گندا تھا تو اسی اثنا میں اوپر سے نور کی تجلیات گرنا شروع ہوئیں اور کم و بیش پندرہ منٹ تک نور کی تجلیات قلب پر پڑتی رہیں ، پندرہ منٹ کے بعد قلب کو جو دیکھا تو بڑا چمکدار ، نورانی اور بڑا حسین ہو گیا ۔اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ آسمان سے اسم ذات اللہ اڑتا ہوا آیا اور ہمارے قلب کے اوپر آ کر چپک گیا تو اسم ذات کا نور اتنا زیادہ تھا کہ قلب جو پہلے چمک رہا تھا اب اس کی چمک مانند پڑ گئی اور وہ قلب دوبارہ میرے جسم میں داخل ہو گیا اور اس کے بعد یہ ہوا کہ میں زمین پر پاؤں رکھوں گا تو زمین کی دھڑکن اور میری دھڑکن ملیں گی، کسی سے ہاتھ ملاؤں گا تو اس کی دھڑکن میری دھڑکن سے ملے گی۔ لیکن یہ شرح صدر نہیں ہے ۔

شرح صدر کیا ہے؟

شرح صدر کو اگر آپ نے سمجھنا ہے تو اس کو ایسے سمجھا جائے گا کہ جیسے سورہ یوسف میں اللہ تعالی نے زلیخا اور حضرت یوسف کا واقعہ بیان فرمایا ہے۔اللہ تعالی فرماتا ہے کہ سات کمروں میں بند تھے۔وہ سات کمروں میں واقعی بند نہیں تھے ، سات کمروں سے مراد انکے سات لطائف ہیں ، ایک کمرے کے اندر دوسرا کمرا دوسرے کے اندر تیسرا کمرہ ، تیسرے کے اندر چوتھا کمرہ، یہ جو آپ کے اندر سات روحیں ہیں ان میں سے لطیفہ نفس کا تعلق عالم ناسوت سے ہے قوم جنات سے ہے اسکو تو آپ نے پاک کرنا ہے اور باقی جو چھ ارواح ہیں وہ ساری سماوی ارواح ہیں ان چھ میں سے ایک سر میں ہے اور پانچ سینے میں ہیں ، جو پانچ سینے میں ہیں ، وہ پانچ روحیں یکے بعد دیگرے قلب کے اندر مقید ہیں ، جیسے قلب ہے اور قلب کے اندر روح ہے ، روح کے اندر سری ہے سری کے اندر خفی اور خفی کے اندر اخفی ہے تو ان کا ایک بنڈل سا بنا ہوا ہے اور اس بنڈل پر ایک لاکھ اسی ہزار زنار ہیں ، یہ ناری جالے یا خرطوم تیس ہزار شہوت ، تیس ہزار بغض کے ، تیس ہزار حسد کے تیس ہزار تکبر کے اس طرح کر کے ایک لاکھ اسی ہزار جالے قلب پر ہیں اور ان تمام جالوں میں آپ کے سینے کی تمام روحیں قید ہیں ان روحوں کو اللہ اللہ میں لگانے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان روحوں کو اس قید سے آزاد کیا جائے وہ جن جالوں میں بند ہیں ان جالوں کو کھولا جائے ، کھولیں گے تو وہ روحیں الگ ہو کر پورے سینے میں اپنے اپنے مقام پر جاگزیں ہوں گی ، جب تک ذکر قلب حاصل نہیں ہو تو وہ پانچوں روحیں قلب میں بند رہیں گی۔اسی لیے علامہ اقبال نے کہا
دل بیدار پیدا کر کہ دل خوابیدہ ہے جب تک
نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری

کہ یہ جو قید ہیں پانچوں کی پانچوں ارواح جب تک بیدار ہو کر باہر نہیں نکلیں گی اپنے اہنے مقام تک نہیں آئیں گی تو اس وقت اس پر اللہ ھو کی ضربیں لگانے کا فائدہ نہیں ہو گا ۔تو شرح صدر یہ ہے کہ قلب پر جو ایک لاکھ اسی ہزار زنار ہیں اور وہ پانچوں کی پانچوں روحیں اس شیطانی جالے کے اندر بند ہیں اس کو کھولا جائے اس کے لیے اللہ کی رضا اور مرشد کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔
مرشدِ کامل سب سے پہلے اللہ تعالی سے منظوری لیتا ہے کہ فلاں آدمی شرح صدر کے لیے آیا ہے تو اللہ تو اپنا کرم فرما ، تو اگر اللہ تعالی منظوری دینا چاہتا ہے تو مرشد کو حکم دیتا ہے اس کے لیے ہم تمہیں اذن دے رہے ہیں پھر اللہ کے اذن حاصل کرنے کے بعد مرشد کامل اپنی نظروں سے ایک لاکھ اسی ہزار جالوں کوجلا دیتا ہے۔ قلب نکالتا ہے اور اس میں اسم اللہ ذات کا بیج داخل کر دیتا ہے اور وہ جو باقی ارواح ہیں وہ جالے کٹ جانے سے آزاد ہو گئیں اور سینے میں اپنے اپنے مقام پر چلی گئیں اور قلب میں جو اسم ذات اللہ کا بیج آ گیا تو اب دل کی دھڑکنوں کو اللہ اللہ کرنا سکھاتے ہیں دل کی دھڑکنوں میں اللہ اللہ کا رگڑا لگتا ہے اور اگر سیدنا گوہر شاہی قلب جاری فرمائیں تو جس وقت قلب جاری ہوا ہے اسی وقت پہلا جثہ نکل جاتا ہے اوراس جثے کو سرکارگوھر شاہی اپنے پاس رکھ لیتے ہیں تمھیں کہتے ہیں تمھاری ترقی ذکر و فکر میں نہیں ہے مشن کا کام کرو ، جب تم مشن کا کام کرتےہو اور سرکار تمھارے قلب کو دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ تمھارا دل ان ہی کے پاس ہے ، یہ شرح صدر۔ اب دیکھیں قرآن شرح صدر کے بارے میں کیا کہتا ہے

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ
سورة الزمر آیت نمبر 22

أَفَمَن کوئی بھی جس نے بھی ، شَرَحَ اللَّـهُ اب یہاں ایک نکتہ اور بھی ہے جو سمجھنا ضروری ہے ۔اگر أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ کا ترجمہ یہ کیا جائے وہ شخص کہ جس کی شرح صدر اللہ نے کر دی اسلام کے لیے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کی اللہ نے نہیں کی اس کا کیا قصور ہے۔سلطان حق باھو اور سیدنا گوہر شاہی نے فرمایا کہ قرآن شریف میں کسی مقام پر تو لفظ اللہ ذات کیلئے اور کسی جگہ اسم کے لیے آیا ہے اور یہ جو مقام ہے یہ جو آیت مبارکہ ہے اس میں اسم ذات اللہ کا جہاں استعمال ہوا ہے لہذا اس کا معنی ہو گا کہ وہ شخص جس نے اسم ذات اللہ سے اپنی شرح صدر کر لی تو پھر ہو گا کیا ؟ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ اسے اپنے رب کا نور ملے گا۔اگر اسم ذات اللہ سے شرح صدر ہو گی اسم ذات کا رگڑا لگے گا تب ہی اسےاللہ کا نور ملے گا ، اب اس سے آگے اللہ فرماتا ہے

فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورة الزمر آیت نمبر 22

اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے کہ جن کے قلوب اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ اسم اللہ ان میں داخل ہی نہیں ہو رہا۔ یعنی بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی شرح صدر ہو نہیں سکتی کیونکہ ان کے دلوں میں سختی ہے ،اچھا اب یہ سختی آئی نہیں ہے اللہ نے بنایا ایسا ہے۔ اللہ کی طرف سے کچھ کوگوں کی شرح صدر ہوتی ہے اور کچھ لوگوں کی اللہ کی طرف سے شرح صدر نہیں ہوتی۔اللہ کی طرف سے شرح صدر کن لوگوں کی ہوتی ہے؟ اللہ تعالی کی طرف سے ان کی شرح صدر ہوتی ہے جن کو وہ ہدایت دینا چاہتا ہے اور جن کو وہ ہدایت دینا نہیں چاہتا وہ مرشد کامل کے پاس چلے بھی جائیں اور وہ مرشد کامل ان کو ذکر دے بھی دے لیکن وہ اسم اللہ ذات ان کے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوتا ہے ۔اور قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان یعنی ذکر اللہ داخل نہیں ہوتا وہ کھلی گمراہی میں ہیں ان کے گمراہ ہونے کے لیے کسی اور عمل کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

دلوں میں اسم ذات اللہ کا نہ داخل ہونا کھلی گمراہی ہے

تو یہ ہے شرح صدر کی تشریح کہ وہ جو دل میں تمام ارواح بند ہیں ، زنار کو جلایا جائے اور قلب کے اندر سے باقی تمام روحوں کو نکال کر مرشد اپنی نظروں سے سینے میں ان کے مقام پر جاگزیں کر دے۔

حضورؐ کی شرح صدر کیسے ہوئی؟

حضور نبی کریم کی شرح صدر جبرائیل کے ذریعے ظاہر میں کیوں کی گئی کیا اللہ تعالی باطن میں جبرائیل کو بھیج کراپنی نظروں سے حضور پاک کی شرح صدر نہیں کر سکتا تھا؟ حضور نبی کریم کی جو شرح صدر ہے وہ تو وہی واقعہ ہے کہ جس کے اندر حضورپاک کے سینہ مبارک میں طفل نوری بھی آ گیا ہے اور جثہ توفیق الہی بھی آ گیا ہے اور فقر میں یہ جو خاص تعلیم ہے اس تعلیم کا کام دھونا ہے، پاک صاف کرنا ہے اور جو عشق ہے اس کا کام آگ لگانا ہے۔حضور پاک کا جو قلب مبارک ہے اس کے ساتھ طفل نوری جڑ گیا اور جو آپ کی روح مبارک ہے اس کے ساتھ جثہ توفیق الہی جڑ گیا اور جب یہ استقرار پکڑ گئے تو اس کو کہا أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ لیکن یہ صرف حضور کیلئے ہے عام آدمی کی شرح صدر ہم نے اوپر بیان کر دی ہے کہ وہ مرشد کامل کے ذریعے ہوتی ہے۔

کیا ہر کلمہ گو حضورؐ کا اُمتی ہے ؟

اُمتی دو طرح کے ہیں عام اُمتی اور خاص اُمتی، عام اُمتی کی شفاعت ہوگی اور خاص اُمتی کو شفاعت کی ضرورت نہیں ۔

عام اُمتی کون ہے؟

عام اُمتی وہ ہے جسے پہلا علم یعنی شریعت کا علم ملا، زبانی عبادات والا علم ملا ۔ ہردور میں فقر باکرم کا محکمہ ہوتا ہے جس میں تین سو ساٹھ ولی ہوتے ہیں اور ایک غوث الزماں ہوتا ہے۔ اگر کوئی کسی کامل شریعت سے بیعت ہے عقیدہ صحیح ہے ، نفس کی اصلاح میں لگ گیا ہے تو بغیر ذکر قلب کے بھی وہ اُمتی بن جاتا ہے لیکن ایسا اُمتی بھی ان کی شفاعت کے ذریعے جنت میں داخل ہو گا اور اس کو کوئی خاص درجہ نہیں ملے گا ۔

خاص اُمتی کون ہے؟

خاص اُمتی بننے کے لیے کا مل شریعت نہیں بلکہ کامل طریقت پکڑنا پڑتا ہے ،وہ جو خاص اُمتی ہے اس کے لیے شرح صدر ہے اور عام اُمتی کے لیے شرح صدر نہیں ہے اس کو کتاب سے ہدایت ہے اس کے لیے بخشش ثابت ہے، فرقوں کے لیے نہیں اس کے لیے ہے جس کے سر پر کامل شریعت کا ہاتھ ہے۔ جو از زبان صلی علی مسلمان ہے وہ اُمتی تصور کیا جائے گا۔ اگر وہ مرشد سے ہٹ گیا تو امت سے خارج اور یہ جو خاص اُمتی ہے اس کے اندر سے اگر نور نکل گیا تو خارج ۔

عام اُمتی مرشد کی نسبت سے نکل گیا تو خارج اور یہ خاص اُمتی اگر نور سے نکل گیا تو امت سے خارج ہو گیا ۔

تو دو طرح کے اُمتی ہوگئے ایک اُمتی وہ کہ جن کی بیعت ایسی ہستی کے ہاتھ پر ہے کہ جن کا تعلق حضور سے جڑا ہوا ہے وہ بھی اُمتیوں میں شمار ہوجاتے ہیں اور شفاعت کے مستحق ہو جاتے ہیں تو ان ہی اُمتیوں کی شفاعت کے لیے حضور پاک نے اویس قرنی کے پاس بھیجا تھا کہ میرے اُمتیوں کے لیے دعا کریں ، کیونکہ زیادہ تعداد اُمت کی ایسے لوگوں پر مبنی ہوتی ہے کہ جن کی شرح صدر نہیں ہوتی۔جن کی شرح صدر ہو گئی اب آپ اندازہ لگائیں کہ حضور پاک اپنے اُمتیوں کے لیے فکر مند ہیں کہ ان کی شفاعت ہو جائے اور غوث پاک اپنے مریدوں کے لیے فکر مند ہی نہیں ہیں انہوں نے ستر مرتبہ اللہ سے وعدہ لیا ہے کہ میرا مرید بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائے گا، اب یہ کیا ہو گئی بات؟ ہونا تو یہ ہی چاہئیے تھا کہ حضور پاک کے اُمتی کی غوث پاک کے مرید سے فضیلت ہونی چائیے تھی ، اگر غوث پاک نے ستر مرتبہ وعدہ لیا تھا تو حضور کو بھی تو کوئی وعدے لینے چاہئیے تھے نا کہ میرا اُمتی بغیر ایمان نہیں مرے گا تو بات یہ تھی کہ غوث پاک نے اپنے خاص مریدوں کی بات کی اور حضور پاک نے اپنے عام اُمتیوں کی بات کی کہ جن کا تعلق وسیلوں سے جڑا ہوا ہے ، وردو وظائف کے ذریعے جس کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے جو فنا فی الرسول ہے ،وہ نسبت کے ذریعے اُمت میں آیا اور وہ خاص نور کے ذریعے اُمت میں آیا ، عام اُمتی کے لیے رب کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اسی لیے پھر اس کی منظوری کامل شریعت سے ہوئی اور اس کا دارو مدار عبادات و پرہیزگاری پر ہےا س ہی کی شفاعت ہوگی ، اور جو خاص اُمتی ہے تو وہ خاص اُمتی ایسے نہیں بنتا اس کے لیے اللہ کی اجازت چاہئیے تاکہ نور کا سلسلہ شروع ہو۔ اب یہ جو عام اُمتی ہے اس کے لیے بھی شفاعت کا اذن اللہ کی طرف سے چاہئیے تو یہ تعداد مقرر ہے کہ کس نبی نے کتنی شفاعت کرنی ہے اور جتنی شفاعت جن کی کرنی ہے اتنے ہی لوگوں کو کسی کامل شریعت کے ہاتھ پر بیعت کرانا ہے وہاں سے نصیبہ لکھا جاتا ہے قرآن مجید نے کہا

مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ
سورة البقرة آیت نمبر 255
ترجمہ : ہے کوئی جو بغیر اللہ کی مرضی کے شفاعت کر دے۔

تو جو راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور ان کا عقیدہ درست ہے کسی کامل شریعت کے ہاتھ پر بیعت ہیں اور کا مل شریعت وہ جس کا تعلق حضور سے جڑا ہوا ہے تو ان کا عام اُمتیوں شمار ہوگا ،جب وہ قبر میں جائیں گے تو انہیں قبر میں حضور پاک کی جگہ ان کے مرشد کی شبیہ دکھائی جائے گی اور وہ پہچان لے گااور جو خاص اُمتی ہوں گے انہیں حضور پاک کی شبیہ دکھائی جائے گی کیونکہ انہوں نے حضور کو دیکھا ہوا ہو گا۔ اللہ تعالی کسی کے نفس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ، انہوں نے اپنے مرشد کو دیکھا ہے تو انہیں ان کی ہی تصویر دکھاؤ نا۔اور پھر جو امام مہدی کے ماننے والے ہوں گے ان کے لیے قبر کے تین سو ساٹھ سوال ہیں ہی نہیں ان کے لیے پھر کیا حکم ہے؟ ان کے لیے سیدنا گوہر شاہی نے فرمایا ، موت کا منظر پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، تو جب قبر میں جائے اور منکر نکیر آئیں تو ایسے ہی جواب نہیں دینا ان کو ستانا، منکر نکیر کو ستایا تو صرف غوث پاک نے ہے ان کے بعد امام مہدی علیہ السلام کا ہر بندہ ستائے گا۔، تو ستانا ان کو جب وہ تنگ پڑ جائیں تو جواب نہیں دینا کفن ہٹا دینا اوپر سے کہ دیکھ لے میں کون ہوں ، ان کو جرائت نہیں کہ تجھ سے کوئی سوال کریں ، منکر نکیر کہیں گے اے خوش بخت دلہن کی طرح آرام سے سو جا ہمیں تو شرم آتی ہے تجھ سے کیا سوال کریں ۔اب لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور پاک کو محشر میں بھی اُمتیوں کی پرواہ ہو گی ، نہیں ، وہ تو حضور پاک نے جب وہ زمین پر موجود تھے اسی وقت ان کا حساب کتاب صحیح کر دیا تھا، فقر باکرم کا محکمہ بنا دیا ، ولیوں کے حوالے کر دیا ، تم اتنے بندوں کو بیعت کر لینا تیرے نصیبے میں اتنے آئیں گے، سب حساب کتاب کر کے حضور پاک یہاں سے گئے ہیں ، یوم محشر میں کیوں پریشان ہوں گے، تو جن کی شفاعت ہونی ہے وہ ہو چکی ہے۔شفاعت کن کی ہوئی ہے؟ جنہیں فقر با کرم کے نصیبے میں رکھا ہے۔
جن کا کوئی ولی نہیں ان کا ولی شیطان ہے، جب شیطان تیرا ولی ہے تو پھر شفاعت کی تجھے کیا ضرورت ہےتو تو جہنم میں جائے گا، اور یہ جو ولی بنے ہوئے ہیں لیکن ولی ہیں نہیں ،کیونکہ فقر با کرم کو بیعت کی اجازت حضور پاک سےملی ہےکامل طریقت کو بیعت کی اجازت اللہ کی طرف سے ہے۔ اب جسے نہ حضور پاک کی طرف سے بیعت کی اجازت نہ اللہ کی طرف سے اور پھر تو بیعت کرتا ہے تو کفر کے نزدیک چلا جاتا ہے، سولہ مخلوقوں کا قاتل ہے، ادنی ترین جہنم میں جائے گا۔ابھی تو انہوں نے خلافتیں لے لے کر کسی نے اعلی حضرت سے کسی نے کالا حضرت سے کسی نے لالہ حضرت سے شیخ طریق ، پیر طریقت بنے ہوئے ہیں ، جن کو طریقت کا ایک لفظ بھی نہیں آتا ہے ابھی تو انہوں نے بڑے مزے کر رکھے ہیں ، بڑے حلوے مانڈے کھا رہے ہیں ، سب کچھ کر رہے ہیں ، پتا تو تب چلے گا جب انہیں موت آئے گی ، ان میں اور دجال میں کوئی فرق نہیں ہے، جتنے مولوی ہیں یہ ذمہ دار ہیں اُمت کو ٹھکانے لگانے میں ، یہ ہی حال پیروں کا بھی ہے ، یہ پیر بھی اتنے ہی بڑے شیطان ہیں ، جن کو ایمان نصیب نہیں ہے وہ ولائت کا دعوی کرتے ہیں ۔سرکار گوہر شاہی نے فرمایا جسم پر چل رہے ہیں چیتھڑے اور دعوی ولایت کرے بیٹھے ہیں ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 30 نومبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس