- 720وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
مرشد کا تھامنا کیا ہے؟
آپ کے دل میں اللہ اللہ شروع ہوگئی تو ابھی آپ کا تو یہی خیال ہے کہ اللہ عرش پر رہتا ہے کیونکہ قرآن اور بائبل میں یہی لکھا ہے۔ اِس معلومات کی وجہ سے ہم گڑبڑ میں آگئے۔ آپ کوتوپتہ ہے کہ اللہ عرش پر رہتا ہے اور اب آپ کے دل کی دھڑکنوں میں اللہ آیا تو اللہ اللہ شروع ہوگیا تو اُس سے نور بننا شروع ہوگیا۔ جب نور بننا شروع ہوا تو جس سینے میں سب سے ذیادہ نور ہے، جہاں نور کا ٹھاٹے مارتا سمندر بہہ رہا ہے یعنی سینہ گوھر شاہی تو اُس نور کے گولے نے تیرے چھوٹے سے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہ دماغ سے ہم کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے۔ جب ہم کہتے ہیں
لجپال پریت نُوں توڑدے نئیں
جیدی بانہہ پھڑلین اونہوں چھوڑدے نہیں
اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سرکار گوھر شاہی جوکہ ہمارے مرشد ہیں، ہمارے رہبر بھی ہیں، امام مہدی بھی ہیں اور نجانے کیا کیا سرکار گوھر شاہی کی حقیقتیں ہیں ہمیں تو معلوم بھی نہیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی دو چار نکمی حقیقتیں ہمیں معلوم ہیں اُنہیں کے اوپر ہم اُچھلتے رہتے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور کیا ہیں تو کون جانتا ہے اور کون جان سکتا ہے! جب ہمارے دل میں جو نور ہے سرکار گوھر شاہی نور کا گولا اُس کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہ مرشد کا تھامنا ہے۔ جس میں نور ہوگا مرشد اُس کو چمٹا کررکھے گا۔ کوئی نہ کوئی تو نظام ہوتا ہے۔ جب آپ پکنک پر جاتے ہیں تو اگر آپ کے پاس کوئی کشتی ہے تو کیا آپ اپنی گاڑی کے ساتھ جوڑیں گے تو جوڑنے کیلئے آپ کے پاس کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ ایسے تو نہیں ہے کہ آپ نے کشتی گاڑی کے پیچھے کرکے رکھی ہے اور کہا کہ چلو پیچھے پیچھے آجاوٴ اور کشتی خودہی چلتی ہوئی جارہی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ مرشد ہمیں تھام کر رکھنا تو مرشد نے تھامے رکھنے کا طریقہ اور سلیقہ بھی تو بتایا ہے کہ وہ نور کا گولا ہے تو اگر تیرے دل میں نور کی ایک ہلکی سے کِرن بھی ہوئی تو امام مہدی نور کا گولا تمہیں اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اگر تم چاہتے ہوکہ مرشد تمہیں تھامے رکھے تو اپنے دل میں نورپیدا کرو، اُچھلنے کُودنے سے نہیں ہوگا۔ مرشد کی باہوں میں رہنا چاہتا ہے تو اپنے اندر مقناطیسی صلاحیت پیدا کر۔ تیرے اندر نور آجائے تو پھر یہ خود بخود ایک طریقہ ہے۔ وہ نور کا گولا ہے، یہ نور کی کِرن ہے تو کِرن خود بخود گولے کے ساتھ جاکرچپک جائے گی۔ اب جب تم چپک گئے تو اب بولو کہ اساں مرشد پھڑیا۔ ابھی تو تم نے پکڑا ہی نہیں ہے تو بولتے ہو کہ اساں مرشد پھڑیا۔ اِن ننھے ننھے نوری ہاتھوں سے پہلے دامنِ گوھر شاہی پکڑو تو سہی اور پھر جب تم نے پکڑ لیا تو پھر اُن کی غیرت گوارہ کرے گی کہ وہ نہ پکڑیں۔
اساں مرشد پھڑیا کامل باھو
پھر جب تمہارا دل اُن کے دل سے جڑگیا تو اُس کے بعد پھر تم جیسے بھی ہو وہ خود ہی پار لگائیں گے۔ بہت سے دل تو ایسے تھے جو سرکار گوھر شاہی سے جڑگئے تو اُن کی تو خیر پرواہ ہی نہیں ہے۔ بہت سے ایسے تھے جو جڑنا چاہتے تھے لیکن جڑ نہیں پارہے تھے کیونکہ اُن کو راز نہیں پتہ تھا کہ وفاداری کا راز یہ دلوں میں ہے تو پھر ہم نے اُن کو دیکھا کہ رُل رہے ہیں اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا ہے، کیسے کریں اور جن چیزوں کو یہ عشق سمجھتا ہے وہ عشق نہیں ہے اور جو عشق ہے اُس کو یہ نہیں سمجھتا تو پھر ہم نے اِن کو اپنے سینے سے جوڑ لیا۔ اگر اِدھر جوڑ لیا اور اُدھر جڑگیا تو ایک ہی بات ہوگئی۔ تم اِدھر سے جڑگئے اور وہ اُدھر سے جڑا ہوا ہی ہے تو تمہیں تو جڑنا ہے۔ اب یہ دلوں کی ایک ریل گاڑی ہے کہ اِنجن لگا ہوا ہے اور ڈبے جتنے لگاتے جاوٴ ریل گاڑی بڑھتی جائے گی۔ تمہارا مسئلہ یہ تھا کہ تمہارے اندر سارے ڈبے تھے لیکن اِنجن نہیں تھا۔ جب انجن آیا تو اُس نے کہا کہ چلو میرے پیچھے سارے لگتے جاوٴ۔ جب انجن آیا تو ایک ڈبہ لگایا اور دوسرے نے ضد کی کہ مجھے بھی چلنا ہے تو پھر اُسے بھی جوڑا، اگر وہ جڑتا نہیں تو ریل کا حصہ نہیں بنتا تو جڑنا ضروری ہوگیا۔
محبت کی حقیقت:
بہت لوگ ہمیں بھی کہتے ہیں کہ ہم کو آپ سے بہت محبت ہے لیکن ہم کو پتہ ہے کہ یہ کیا بول رہا ہے اِس لئے ہم جذباتی نہیں ہوتے۔ ہم کو پتہ ہے کہ وہ نور بول رہا ہے ورنہ اِس کو کیا پتہ کہ محبت کیا ہوتی ہے، محبت کا کسی کو کیا پتہ کہ محبت کیا ہوتی ہے! محبت تو انسان کو کافر بنا دیتی ہے۔ محبت کے اندر خدا یاد نہیں آتا۔ محبت کے اندرنہ بائبل ہوتی ہےاور نہ قرآن ہوتا ہے کیونکہ محبت میں تو صرف محبوب ہوتا ہے۔
تجھی کو دیکھنا تیری ہی سننا تجھ میں گُم رہنا
یہ محبت ہے۔ اگر کوئی محبت کرے اور عبادتیں بھی کرے تو یہ شرک ہوگیا۔ بابا فریدؓ نے فرمایا کہ
میڈا عشق بھی توں میڈا یار بھی توں
میڈا دین وی توں میڈا ایمان وی توں
ہم شروع شروع میں لوگوں کو کہتے تھے کہ ایسا عقیدہ رکھو کہ میرا عشق وی توں میرا یار وی توں میرا دین وی توں میرا ایمان وی توں میرا صوم صلوة سب کچھ توں۔ ایک دن سرکار گوھر شاہی نے ہم (یونس الگوھر) کو امریکہ میں بلایا اور فرمایا کہ استاد تم یہ کیا پڑھ رہے ہو تو ہم نے عرض کیا کہ سرکار ایک بزرگ گزرے ہیں فرید تو یہ اُن کا کلام ہے۔ ہماری دانست میں یہ تھا کہ شاید سرکار گوھر شاہی ہم سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ کِس کا کلام پڑھ رہے ہو لیکن سرکار گوھر شاہی کا سوال یہ نہیں تھا بلکہ کچھ اور تھا۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ یہ تم کیا پڑھ رہے ہو تو ہم نے کہا کہ یہ فلاں بزرگ تھے تو سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ یہ تو ہمیں بھی پتہ ہے لیکن یہ تم کیا کہہ رہے ہو کہ میرا یار وی توں میرا عرش بھی توں میرا کعبہ بھی توں قرآن بھی توں صوم صلوة نماز سب کچھ توں، یہ کیا ہے! اور فرمایا کہ کیا تم یہ سب کو بتاتے ہو تو ہم نے کہا کہ ہم تو سب کو یہی کہتے ہیں۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ یہ صرف فنا فی الشیخ کیلئے ہے۔اِسطرح کے خیالات اپنے مرشد کیلئے صرف فنا فی الشیخ رکھ سکتا ہے۔ کوئی اور ایسے خیالات رکھے گا تو وہ کافر ہوجائے گا۔ ہم نے عرض کی یہ سرکار ہمارا تو جی چاہتا ہے کہ سب کا ایمان ایسا ہوجائے تو فرمایا کہ اُس کیلئے تو سب کو فنا فی الشیخ بننا پڑے گا۔ ہم نے عرض کی کہ سرکار پھر سب کو فنا فی الشیخ بنا دیں تو فرمایا کہ ہم تو سب کو بنا دیں لیکن جنھوں نے بننا ہے اگر اُن کے دل میں خواہش نہیں ہے تو ہم کیسے بنائیں گے!اُس کیلئے فرمایا کہ یہ ایک علم ہے جو لوگوں کو بیان کرو بجائے اِن باتوں کے اور جس میں جستجو پیدا ہوجائے تو پھراُس کی شکل ہم کودکھا دینا۔
عالمِ محبت پر کیا ہوتا ہے؟
ایک دفعہ ہم کو مقامِ محبت میں جانا ہوا۔ جب مقامِ محبت میں گئے تو پھر ہم نے اُدھر دیکھا کہ وہاں محبت کی چکی چل رہی ہے کہ دلوں کو محبت کیسے عطا ہوتی ہے تو وہاں دیکھا کہ جسطرح کاغذ کے بنے ہوئے پُھول ہوتے ہیں اور پھر ایک لکڑی پراُس کولگادیتے ہیں اور پھر ہوا چلتی ہے تو وہ گھومتا ہے جیسے یہ بجلی بنانے کیلئے پنکھے لگائے ہوئے ہیں، اسی طرح وہ قلب نور کی ایک تار کے اوپر کھڑا ہوا ہے اور وہ گھوم رہا ہے۔ اب وہ ایک چکرپورا کرتا ہے تو اُس کے اندر اُس کے حُسن کا نور جذب ہوتا رہتا ہے۔ پھر دوسرا چکر کرتا ہے تو جو دوسری صفت ہے وہ اُس سے متصف ہوتا ہے۔ ابھی تو تم قرآن کے اوپر اللہ کے ننانوے نام ہی پڑھتے ہو تو یہ کونسا ذکر ہوا! صفاتی نام کا اذکار یہ ہے جوہم تمہیں بتا رہے ہیں۔ وہ تمہارا قلب گھوم رہا ہے اور وہاں سے اب رحمٰن کی صفت آئی اور یوں سرچ لائٹ کی طرح وہ نور کی تجلیات دل کے اوپر پڑرہی ہیں۔ پورا دن وہ بس گھومتا رہے گا اور ایک دن میں ایک ہی تجلی کو جذب کرے گا۔ اُس کے بعد دوسرا دن آیا تو دوسری تجلی اُس پر پڑے گی تو وہ جذب کرے گا، پھر تیسری، چوتھی اور پانچویں۔ اگر وہ پہلی تجلی کو جذب نہ کرے اور اُس کی طاقت مرنے والی ہو تو اُس کو وہاں سے نکال دیتے ہیں۔ اُس کو کہتے ہیں کہ اِس کو ذکر میں لگا دو۔ جب تیرا دل نکال کرمحبت کیلئے اُدھر لیکر جاتے ہیں تو پھر ذکرفکر میں تیرا کیف اور حلاوت ختم ہوجاتی ہے۔ جب چھوٹا بچہ ہوتا ہے تو اُس کو دودھ پلاتے ہیں تو دودھ پینے میں اُس کو کتنا مزہ آتا ہے لیکن جب وہ بڑا ہوجاتا ہے پھر وہ کہتا ہے کہ اُسے اور کچھ بھی کھلاوٴ۔ آپ کو کیسا لگے گا کہ جب آپ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تو آپ منہ لگا کردودھ پی رہے ہیں، دو سال کے بعد ماں کوشرم آئی توبوتل دے دی،اُس کے بعد آپ دس سال کے ہوگئے تو پھر بھی آپ دودھ پی رہے ہیں، بیس سال کے ہوگئے آپ دودھ پی رہے ہیں لیکن فرق یہ تھا کہ پہلے ماں کا اور پھر بھینس کا۔ پھر آپ بڑے ہوگئے اور پھر بھی دودھ پی رہے ہیں اور پھر چالیس سال کے ہوگئے تو آپ دودھ پی رہے ہیں لیکن کھانا کھا ہی نہیں رہے۔ آپ کو لگے گا کہ یہ کیا ہے! یہی چیز روحانیت میں ہے کہ ابھی تمہیں تین سال ذکر کرتے کرتے ہوگئے اور آج بھی تمہیں ذکر میں مزہ آرہا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ تیری ترقی نہیں ہوئی۔ یہ اللہ ھو کا ذکر تو ایسا ہی ہے جیسے بچوں کیلئے دودھ ہے۔ اُس کے آگے کہانی اور بھی ہے تو اور بھی آگے بڑھو۔ اور کہانی یہ ہے کہ وہ قلب کو لیکر مقامِ محبت پر لگادیتے ہیں تو اب یہ دل وہاں پر رکھا ہوا ہے اور اِس کے اوپر تجلیاں پڑرہی ہیں، اِس کے اندر محبت کے جراثیم ڈالے جارہے ہیں اور اِس کے اوپر انوار و تجلیات ڈالے جارہے ہیں۔
مرشد سے محبت کیسے کی جاتی ہے؟
یہ چیز ہم کو دکھائی گئی کہ عالمِ محبت پر یہ ہوتا ہے۔ جب دکھا دی گئی تو ہم نے عرض کیا کہ سرکار یہ تو بڑی ذبردست چیز ہے تو فرمایا کہ تمہیں اور کیا سمجھ میں آیا! ہم نے کہا کہ سمجھ میں تو یہی آیا کہ نور آرہا ہے اور جارہا ہے تو فرمایا کہ نہیں، اگر تم چاہتے ہو کہ سب وہی قوالی گائیں کہ میرا عشق وی توں میرا یار وی توں تو اِس طرح اُن کے دل ہمارے جلوے کے سامنے آئیں۔ یہ دل اُٹھا اُٹھا کربھیج، ہم اپنے جلوؤں سے اُسے جلادیں۔ سرکار گوھر شاہی کے سات جلوؤں کو یکہ بعد دیگرے دل جذب کرے گا۔ جب ساتوں جلوئے جذب ہوجائیں گے تو پھر دل میں سے قوسِ قزح کے رنگ نکلیں گے۔ پھر تم اپنے اندر جھانکو گے تو تم کو سرکار گوھر شاہی مسکراتے ہوئے نظر آئیں گے اور جب سرکارگوھرشاہی مسکراتے ہوئے نظرآئیں گے تو تم دیکھو گے کہ نور کی بڑی بڑی شعائیں تیرے لطائف میں اردگرد پھیل رہی ہیں۔ اتنا نورتوکسی عبادت میں نہیں آیا تھا، اتنا نور نہ حج میں آیا، نہ نمازوں میں آیا، نہ ذکر میں آیا، نہ تلاوت میں آیا اور کسی میں نہیں آیا جتنا نور اُس کے مسکرانے سے آگیا۔ وہ باہر بیٹھ کے مسکرائے تو اور ہے لیکن وہ اندر بیٹھ کر جب مسکرائے گا تو پھر کہنا کہ میرا عشق وی توں میرا یار وی توں میرا صوم صلوة نماز وی توں کیونکہ یہ ساری چیزیں مل کربھی اتنا نور نہیں بنا سکتیں جتنا وہ ایک باری دل میں بیٹھ کر مسکرا دے۔ سلطان حق باھو نے بھی اِنہیں کیلئے کہا تھا جب دل میں مرشد آجائے کہ
مرشد دا دیدار اے باھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینوں لکھ کڑوڑاں حجاں ھو
یہ مرشد کو باہر دیکھنے والی بات نہیں ہے، جب مرشد اندر آگیا تو پھر اُس کو دیکھا تو پھر لکھ کروڑ حجوں کا ثواب ہے ورنہ لاکھوں مرتبہ تو انجمن والوں نے بھی تو سرکار گوھر شاہی کو دیکھا ہے تو لکھ کروڑوں حجوں کا ثواب ملتا تو یہ حالت تو نہیں ہوتی۔ جب وہ اندر آجائے تو پھر مرشد کو دیکھنا لکھ کروڑ حجوں کا ثواب ہے۔ جو سلطان باھو کے ماننے والے ہیں اُن کو بھی بتا دیتے ہیں کہ اگر اِس کا یہی مطلب ہوتا کہ جو تم سمجھ رہے ہو تو سلطان حق باھو کا تو ظاہر میں مرشد ہی نہیں تھا، اُن کو تو حضور پاکؐ نے باطن میں بیعت کیا تھا تو وہ مرشد کو تو باطن میں ہی دیکھتے ہونگے۔ پھر تم نے لکھ کروڑاں حجاں ہو کو ظاہر میں کیوں سمجھا کیونکہ اُن کا تو ظاہر میں مرشد نہیں تھا۔ سرکار گوھر شاہی تو کوٹری میں روز تشریف فرما ہوئے تو لوگوں نے لاکھوں دفعہ دیکھا تو وہ لکھ کروڑ حجاں کا ثواب کدھر گیا! جس نے اپنے اندر بیٹھا ہوا مرشد کو دیکھ لیا تو اُس مرشد کو جو اندر بیٹھا ہوا ہے اُس کو دیکھنا لکھ کروڑ حجاں کا ثواب ہے۔ پھر جب وہ اندر آجائے تو بس تم اپنی آنکھیں بند کرکے بیٹھا رہ۔
دل میں تجھے بٹھا کر کرلوں گی میں بند آنکھیں پوجا کروں گی تیری
یہ محبت ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 20 جولائی 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔