- 1,638وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
سورة نور کی باطنی تفسیر:
لوگوں نے اپنی سمجھ اور مستند یا عیر مستند تفاسیر کے ذریعے سورہ نور کی اس آیت کو ہزاروں مرتبہ سمجھنے کی کوششیں کی ہوں گی لیکن قرآن مکنون کے کورس کے دوران آج ہم پہلی مرتبہ اس آیت کے باطنی معنی اور تفسیر کوسمجھ سکیں گے کہ اللہ زمین و آسمان کا نور کیسے ہے؟ اللہ تعالی زمین و آسمان کا نور ہے سورة نور میں اس کو اتنی خوبصورتی سے اللہ بیان فرماتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اللہ قرآن میں فرما رہا ہے کہ
اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
سورة نور آیت نمبر 35
اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ تعالی کا نور ہے زمین اور آسمانوں میں۔ اللہ کا وہ نور ہے کہاں ہم اِدھر اُدھر ڈھونڈتے رہے زمین پر تو چل رہے ہیں وہاں تو ہمیں ملا نہیں اورہم جہاز میں بیٹھ کر آسمان پر بھی چلے جاتے ہیں لیکن وہ نور آسمان پر بھی نہیں ہےتوسوچنا چاہئیے کہ آخراللہ کا وہ نور ہے کہاں ؟ تو یہ ہی بتانے کے لیے اس سے اگلی آیت کہہ رہی ہے مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ کہ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک چمنی ہے اور اس میں ایک چراغ جل رہا ہے ۔
جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر قرآنی تفسیر جلال الدین صفحہ نمبر37 میں فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں “مصباح” سے مراد مومن کا قلب ہے ۔
اب پھر اس آیت مبارکہ کو پڑھیں اللہ نور السماوات وفی الارض کہ اللہ زمین وآسمان کا نور ہے اوراللہ کس طرح زمین و آسمان کا نور ہے؟ اس طرح کے جیسے مومن کے قلب میں اسم اللہ ذات کا چراغ جل رہا ہے یہ ہی ہے اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔ اس آیت میں سب سے پہلےمخاطب جو ہیں وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات والا ہے۔ تو اللہ نے یہ حضور پاک کو مد نظر رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ اس طرح ہے کہ جس طرح محمدؐ کے سینے میں اسم ذات کا چراغ روشن ہے ۔
حضورؐ کے قلب کا اسم ذات کے چراغ سے منور و مزین ہونا اللہ کے نور السماوات ہونے سے تعبیر ہے
اب چونکہ حضور کا باطن یہ ہے لہذا یہ مومنوں کے لیے سنت بن گیا تو اب ذرا آپ دیکھیں کہ مومن کے قلب کی گہرائی اور وسعت کا عالم کیا ہے کہ جس کو احاطہ ذہن میں لانا اتنا آسان نہیں، کیونکہ زمین و آسمان میں جو اللہ کا نور ہے وہ پہلے حضور نبی کریم کے قلب مبارک میں ہے اور پھر جو حضور نبی کریم کی سنت مبارک پر عمل پیرا ہوگا اس کا دل بھی حضور پاک کے دل کی طرح منور ہوگا۔ اچھا اب یہ تو زمین پر ہے اب سماوات کا نور کہاں سے آئے گا؟پھرجب اسم اللہ سے قلب جاری و منور ہو جاتا ہےتوپھراس قلب کے جثے نکل کر آسمانوں میں جائیں گے تو اللہ کا نور آسمانوں میں جائے گا نا۔ اللَّـهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ اللہ کا نور زمین و آسمان میں ہے جس کی مثال ایک چمنی کی مانند ہے جس میں چراغ جل رہا ہے۔تب ہی ایسا بندہ زمین و آسمان میں اللہ کا نور ہے کی حقیقی تفسیر کہلائے گا پھر اس بندے کو زمین پر اللہ کا نور کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے قلب میں اللہ کا نوراور اللہ کی روشنی موجود ہے ۔اللہ کے نور کی تلاش میں دور دراز جانے کی چنداں ضرورت نہیں اللہ کا نور دیکھنا ہے تو کسی مومن کسی صوفی کو تلاش کریں کیونکہ صوفی اللہ کے نور کا مظہر ہے، صوفی کا جسم زمین پر ہوتا ہے اور اس کا منور قلب باطن کی دنیا میں طیر سیر کرتا ہے ۔
علم باطن کے ثبوت کے لیے متعدد مستند احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں لیکن ہم اس مضمون میں احادیث کو شامل نہیں کیا بلکہ علم باطن اور جثوں کی باطنی طیر سیر کے معترضین کے لیے قرآن پاک کی اس آیت سے ثبوت فراہم کیا ہے کہ کس طرح اسم ذات اللہ قلب میں سما جاتا ہے پھر دل دھڑکنوں میں ذکر اللہ کے رگڑے سے وہ دل اسم اللہ سے نور بنانے کی فیکٹری بن جاتا ہے پھر ان تمام معاملات کے بعد ایسا شخص زمین میں اللہ کا نور ہے اور آسمان میں اللہ کا نور اس طرح ہے کہ جب اس بندے کے قلب کے جثے اللہ کے نور سے طاقت ور ہوجاتے ہیں تو پھر مراقبے کے ذریعے عالم بالا ،عالم ملکوت میں نوری پرندوں کی صورت طیر سیر کرتے ہیں ۔جب ہم پہلی مرتبہ عالم ملکوت گئے تو بہت سارے جگنووہاں اڑتے ہوئے دیکھے تو پوچھا یہاں اتنے سارے جگنو کیسے آ گئے تو آواز آئی میرے دوست یہ جگنو نہیں میرے ان بندوں کے قلب کے جثے ہیں جن کے جسم زمین پر اپنے بستر میں محو استراحت ہیں لیکن ان کے قلب میرے نور سے جگمگا رہے ہیں اور پرندوں کی مانند یہاں عالم ملکوت میں پرواز کر رہے ہیں ، میرے یہ بندے ایک ہی وقت میں زمین پر سو بھی رہے ہیں ہیں اور اسی وقت جاگ بھی رہے ہیں اور اپنے جثوں سے عالم ملکوت میں موجود ہیں ۔روحانی علم کے ذریعے انسان ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر موجود ہو سکتا ہے۔اللہ کا نور زمین و آسمان میں ہے اور اللہ نے مثال دی ہے کہ کس طرح اللہ کے اس بندے کو دیکھنا اللہ کا نور دیکھنا ہے ۔ذاکر قلبی سورہ نور کی حقیقی تفسیر ہے۔ جب کسی کا قلب مرشد کامل کےذریعے اسم اللہ سے منور ہو جاتا ہے تو پھر اس منور قلب سے اللہ کا نور نکلنے لگتا ہے اور نور کی یہ روشنی محض ایک ہلکی سے کرن نہیں ہے بلکہ دل کی ہر ہردھڑکن کے ساتھ اللہ کا نور نکلتا ہے یعنی اتنی کثرت سے وہ نور بن رہا ہے جب ہی تو اللہ نے کہا اللہ کا نور زمین و آسمان میں سما رہا ہے مومن کے قلب سے۔اب حدیث مبارکہ کو بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں کیا ارشاد ہوا ہے
قلب مومن عرش اللہ قلب مومن بیت الرب
ترجمہ: موٴمن کا قلب اللہ کا تخت ہے، موٴمن کا قلب رب کا گھر ہے۔
اب یہاں بات ذرا تفصیل طلب ہے، رب سے مراد پروردگار، یا پالن ہار، اللہ نے بندوں کو اپنی محبت اور نور دینے کے لیے مختلف رسولوں ، نبیوں اور ولیوں کو ذریعہ بنایا ۔اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ ہی نے مرشدینِ کامل مبعوث کیے، اب دیکھیے یہ حدیث قلب مومن بیت الرب مومن کا قلب ہی وہ جگہ بھی ہے جہاں رب بھی رہے گا اورمرشد بھی قیام کرے گا، جب مرشد تیری تربیت کر رہا ہے اور خدا کو دل میں لانے کا تو اختیار نہیں رکھتا یا اس قابل نہیں ہوا ہے تو شیطان کو نکال کے مرشد خود تیرے دل میں رہے گا اور جب تیری تعلیم پوری ہو جائے گی تو مرشد دل کا دروازہ کھول کے اللہ کو بلائے گا کہ اب آپ آجاؤ میں جا رہا ہوں ، قلب مومن بیت الرب
لطیفہ قلب کے افعال اور طاقت:
لطیفہ قلب کی افادیت اہمیت کو سمجھنا دین کی کنجی کے مترادف ہے۔ایک صوفی کے لیے قلب کی اہمیت کو جاننا انتہائی اہم اور نازک بات ہے اگر صوفی کو یہ معلوم ہی نہ ہوکہ قلب کے کیا کیا فنکشن ہیں تو وہ باطنی ترقی کیسے کرے گا؟ تو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہئیے قلب کس طرح بیدار ہوتا ہے پھر اس کو حاصل کرنا چاہئیے ۔ مثال کے طور پر جب ہم بازار سے ایک ٹیبل خریدنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہ ٹیبل ایک باکس میں بند ملتا ہے جس میں ٹیبل کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑنے کا ہدایت نامہ ہوتا ہے جس کی مدد سے ہم گھر پر با آسانی ٹیبل جوڑ لیتے ہیں ۔اسی طرح اگر کسی نے صوفی بننا ہے تو پہلے وہ اس کی مکمل معلومات حاصل کرے کہ علم روحانیت کے ذریعے صوفی کس طرح بنا جا سکتا ہے یہاں علم روحانیت سے مراد صوفیا کرام کی لکھی ہوئی کتابیں نہیں ہیں کہ آپ نے مولانا رومی یا داتا صاحب کی کتاب پڑھ لی اور سمجھنے لگ گئے کہ اب تو میں صوفی بن گیا ہوں ، ان کتب میں تو کہانیاں ہی ہیں جبکہ روحانی علم تو نقشہ کی مانند ہے جو انسان کو گائیڈ کرتا ہےکہ صوفی بننے کے لیے پہلا قدم کیا ہے پھر اس کے بعد کیا کرنا ہے اور یہ بھی کہ لطیفہ قلب کے کیا کیا افعال ہیں اور لطیفہ قلب کی کیا طاقت ہے اور مکمل طور پر نور علی نور ہونے کے بعد کہاں کہاں کی طیر سیر کر سکتا ہے۔ لطیفہ قلب کا سب سے اہم کام بندے کا رب سے تعلق جوڑنا ہے۔ سیدنا گوہر شاہی امام مہدی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ
لطیفہ قلب رب اور بندے کے درمیان ٹیلیفون آپریٹر کا کام کرتا ہے۔
اللہ نے جب آدم علیہ السلام کو تخیلق کیا اور پھر بعد میں انہیں زمین پر اُتارا تو آدم علیہ السلام نے کہا اے اللہ اگر میں تجھ سے رابطہ کرنا چاہوں تو اس کا کیا طریقہ ہو گا تو اللہ نے رابطے کے لیے ایک نوری تار کو آدم علیہ السلام کے قلب سے جوڑ دیا اور کہا جب تجھے مجھ سے بات کرنا ہو تو تیری آواز اِس تار کے ذریعے مجھ تک پہنچ جائے گی اور تیری آواز بھی اِسی تار کے ذریعے میں سن لوں گا ، پھر جب آدم علیہ السلام کی اولاد ہوئی تو جو ان میں سے اچھی اولاد تھی انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے خود سے رابطے کیلئے آپ کے قلب پر تو نور کی تار لگا دی ہے لیکن ہم اپنی آواز رب تک کیسے پہنچا سکتے ہیں، تب آدم نے اللہ سے عرض کی کہ میری اولاد بھی تجھ سے رابطہ جوڑنے کی آرزو مند ہے ۔
یہ آپ پہلی مرتبہ سنیں گے کیونکہ یہ تفصیلات کتابوں میں موجود نہیں ہیں، لوگ یہ ہی سمجھتے ہیں کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو بطور نبی دنیا میں اُتارا جبکہ آدم علیہ السلام عرصہ دراز تک یہ ہی سمجھتے رہے کہ وہ غلطی کی وجہ سے جنت سے نکالے گئے ہیں اپنی نبوت کا انہیں بہت بعد میں علم ہوا۔ تو جب ان کی اولاد نے اللہ سے رابطے کی خواہش کا اظہار کیا تو اللہ نے جواب دیا کہ مناسب وقت کا انتظار کرو اور پھر جب پہلی مرتبہ جبرائیل علیہ السلام آدم علیہ السلام کے پاس آئے اور معانقہ کیا اور آدم علیہ السلام کا قلب منور کیا اور علم روحانیت کو اُن کے دل میں منتقل کیا ، قلب کی تعلیم ملنے کے بعد آدم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو یہ علم بتانا اور سکھانا شروع کیا کہ میرے سینے سے جڑی نور کی یہ تار اللہ تعالی کا تحفہ ہے یہ والی نوری تار تمہارے لیے نہیں ہے تمہیں وہ علم سیکھنا ہوگا جس سے تم اپنی نوری تار بنا سکو اور جب اولاد آدم نے پوچھا وہ علم کیا ہے تو آدم علیہ السلام نے انہیں اللہ کا نام لینے اور ذکر کرنے کا طریقہ متعارف کرایا اور یہ سمجھایا کہ کسطرح اللہ کے نام کے نور سے نور قطرہ قطرہ بننا شروع ہوتا ہے اور جب وہ نور اوپر اللہ کی طرف اٹھنا شروع ہوتا ہے اور جس دن اللہ تک دل کا یہ نور پہنچ جاتا ہے تب بندے کا تعلق رب سے جڑ جاتا ہے، تو آدم صفی اللہ نے صوفی تعلیم کا یہ پہلا سبق اپنی اولاد اور پوری انسانیت کو دیا ۔اس ہی پیغام کے بارے میں قرآن نے کہا ہے
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ
سورة البقرة آیت نمبر 152
ترجمہ: تُو مجھے یاد کر میں تجھے یاد کروں گا۔
مثال کے طور پر خوابوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خواب میں دیکھا جاتا ہے وہ حقیقت نہیں ہوتا خواب میں دیکھی جانے والی بہت سی باتوں یا چیزوں کے معنی کچھ اور ہوتے ہیں ، اگر خواب میں گھر کی دیوار کو گرتے دیکھنا بیماری آنے کا اشارہ ہے۔ گھر کی دو دیواروں کو گرتے دیکھنے کا مطلب ہے کوئی بڑی بیماری ہو سکتی ہے اور اگر خواب میں پورا گھر ڈھتے دیکھا تو یہ موت کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے، اسی طرح قرآن پاک ، بائیبل مقدس یا توریت میں لکھی ہوئی بہت ساری آیات کے معنی ان کے الفاظ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں ، جب اللہ کہتا ہے فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ کا لفظی معنی تویہ ہی بنے گا کہ تو مجھے یاد کر میں تجھے یاد کروں گا لیکن اس سے اللہ کی مراد یہ ہے کہ مجھے یاد کرنے سے جونور بنے گا وہ نور مجھ تک پہنچے گا اور اس کا یاد کرنا یہ ہے کہ اس نور کے بدلے اللہ اپنی طرف سے بندے کی جانب نور بھیجے گا۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ اس طرح تو میرا دوست بنے گا اوراس دعوت کو رد نہ کر۔سورہ نور میں جو مصباح کی بات کی گئی ہے اس کی ایک اور تفسیر بھی ہے، تفسیر الخازن کے مطابق مصباح سے مراد قلب مومن کا نور ہے، بلکہ قرآن پاک کے بہت سارےمفسرین کے مطابق سورہ نور میں مصباح سے مراد صوفی کا لطیفہ قلب ہے۔جب بھی آپ اللہ نور السماوات والارض پڑھیں گے تو اس کی مثال اللہ نے قرآن میں دی ہے مومن کا قلب۔ مولانا روم نے کہا
دل بدست آور کے حج اکبر است ۔۔۔ صد ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است
کعبہ بنیاد خلیل آذر است ۔۔۔۔ دل گزر گاہ جلیل اکبر است
اپنے قلب پر قابو پانا حج اکبر کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے۔ ایک بیدار قلب ہزار کعبہ سے افضل ہے۔ مومن کا دل ہزاروں کعبہ سے افضل کیسے ہو گیا ؟ کیونکہ کعبہ کی عمارت مٹی گارے سے بنتی ہے اوردل کو تو اللہ نے اپنے نور سے بنایا ہےاور شاید یہی وجہ ہے کہ بلھے شاہ کہتے ہیں
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رب دلاں وچ رہیندا
مسجد مندر اور جو بھی تجھ سے بن پڑتا ہے توڑ دے گرا دے لیکن یہ یاد رہے کہ کبھی کسی کا دل نہ توڑنا نہ کبھی کسی کا دل دکھانا ، کیا خبر جس کا دل تم دکھا رہے ہو اُس دل میں رب نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہو، یہ اتنی نازک اور اہم ترین بات ہے۔
تو سورہ نور کے مطابق اللہ زمین و آسمان کا نور ہے اور اس کی مثال اللہ نے ایسے دی ہے کہ دراصل یہ اشارہ مومن کے قلب کی جانب ہے۔ مومن کا قلب ایک لیمپ کی مانند ہے اور یہ چراغ انسان کے جسم کے اندر ہےجس میں اسم اللہ کا شعلہ جل رہا ہے اور قلب میں موجود اسم اللہ کے شعلے سے انسان کا پورا وجود منور ہو جاتا ہےلیکن وہ کیا طریقہ ہے جس سے وہ بندہ آسمان کا نور کہلاتا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ جب بندے کا لطیفہ قلب منور و بیدار ہو جانے کے بعد نور سے طاقت پکڑ کر مراقبہ لگانے کے قابل ہو جاتا ہے، مراقبہ کے وقت جثہ قلب جسم سے نکل کر عالم ملکوت میں پہنچ جاتا ہے اور ایسے منور قلب کے مراقبے کی سب سے حسین بات یہ ہے کہ اس مراقبے کا رابطہ درمیان میں ٹوٹے گا نہیں ۔سیدنا گوہر شاہی اس بارے میں فرماتے ہیں کہ جب انسان کے سینے کی مخلوقیں بیدار اور ذکر کے نور سے طاقت ور اور جوان ہو جاتی ہیں توپھر انسان کی سوچ کی محتاج ہو جاتی ہیں ادھرتم نے سوچا عالم ملکوت میں کیا ہو رہا ہےاور پلک چھپکتے میں لطیفہ قلب وہاں پہنچ جاتا ہے ، پھر ان لطائف کے لیے انسان کی سوچ ریموٹ کنٹرول کا کام کرتی ہے۔
لطیفہ قلب کا پہلا اور سب سے زیادہ اہم کام ہے بندے کا تعلق رب سے جوڑنا، لطیفہ قلب بیدار کیے بغیر نہ تو کوئی سچا مسلمان ہے نہ سچا ہندو نہ سچا یہودی اور نہ ہی سچا عیسائی ہے کیونکہ بیداری قلب ہر دین اور ہر مذہب کا بنیادی اصول ہے، کیونکہ لطیفہ قلب کو بیدار کرنے کے بعد ہی انسان کا تعلق رب سے جڑتا ہے اگر تیرا رب سے تعلق قائم نہیں ہوا تو تیری جو بھی جتنی بھی عبادات ہیں بھلے تیرا مذہب کوئی بھی ہو وہ تمام عبادات ضائع چلی جائیں گی۔ جب تعلق باللہ قائم ہو گیا اب تیرا راستہ کھل گیا اور اب روحانی علم کے ذریعے لطیفہ قلب کے مزید افعال کی جستجو کر۔ لطیفہ قلب فون کی مانند ہے جو کچھ تم زمین پر کہو گے وہ رب تک پہنچے گااور جو کچھ رب کہے گا وہ تیرے دل پر نازل ہو گاوہ ایسے کہ تم بیٹھے ہو گے اور تیرا جواب سوچ کی صورت میں تجھ تک پہنچ جائے گا ۔
کیا کسوٹی ہے کہ دل میں آنے والا خیال منجانب اللہ ہے؟
اسکی تصدیق یہ ہے کہ جو جواب منجانب اللہ ہو گا اس سوچ کے دوران دل میں ذکر اللہ ہونے لگ جائے گا اور دھڑکنیں بہت تیز ہو جائیں گی سانس بھی بے ترتیب ہو جائے گی لیکن جس خیال کے ساتھ دل کی دھڑکنیں نہ ابھریں تو پھر سمجھ جائیں وہ خیال رب کی طرف سے نہیں ہے اپنی سوچ ہے۔ لطیفہ قلب کا پہلا کام ہے بندے اور رب کےمابین رابطہ قائم کرنا لیکن جس کا لطیفہ قلب بیدار نہیں تو پھر وہ کون ہے کون سی کتاب پڑھتا ہےاللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کیونکہ تمہارا تعلق ہی نہیں ہے لیکن جیسے ہی کسی بندے کا تعلق اللہ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے تب بھی اللہ کو اس کی کیا پرواہ ہے کہ تو کون سی کتاب پڑھتا ہے وہ کہتا ہے اب تجھے کتابوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب تیرا تعلق مجھ سے جڑ گیا ہے اور یہ تیرے لیے کافی ہے، بھلے انسان کےاطراف کتابوں کا ڈھیرہی کیوں نہ لگا ہو اگر وہ رب سے دور ہے تو کتابیں بے کار ہیں کیا تمہارا خیال ہے رب کو کتابوں کی ضرورت ہے؟ اسی نے تو یہ کتابیں بھیجی ہیں تاکہ تو سیکھے اور تعلق باللہ کو قائم کر سکے جب تعلق باللہ قائم ہو گیا تو پھر ان کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کے ساتھ تعلق قائم ہونے کے بعد بیدار لطیفہ قلب اللہ سے بات چیت کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 10 ستمبر 2019 کو ایلیمنٹری صوفی کورس سے ماخوذ کیا گیا ہے۔