کیٹیگری: مضامین

سوال: فنا فی الوجود، فنا فی الرسول، فنافی اللہ اور فنا فی الشیخ کیا ہو تا ہے؟

روحانیت میں کچھ اصطلاحات جاہل صوفیوں کی ایجاد:

بہت ساری اصطلاحات روحانیت میں جاہل صوفیوں نے ایجاد کی ہیں ۔جیسے طاہر القادری نے ایک کتاب لکھی “حقیقت تصوف”۔اس کتاب میں انہوں نے جہاں نفس کی حالتیں بیان کی ہیں کہ نفس ِ امارہ ، نفسِ لوامہ ہوتا ہے ۔ یہاں انہوں نے نفسِ الہامہ کا تذکرہ ہی نہیں کیا۔پھر نفسِ مطمئنہ کا ذکر کیا اور اس کے بعد کہا کہ ایک اور نفس کی حالت ہے جو راضیہ مرضیہ ہے۔حالانکہ راضیہ مرضیہ نفس کی کوئی حالت نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک مقام ہے۔اس طرح کے جاہل صوفیوں نے اس طرح کی باتیں شروع کر دیں۔
اسی طرح فنا فی الوجود کو سمجھنے کے لئے اس بات پر غور کریں کہ فنا فی اللہ ، فنا فی الرسول اور فنا فی الشیخ یہ سب دو چیزوں کا انضمام ظاہر کر رہی ہیں ۔فنا فی الشیخ یعنی جو شیخ کی ذات میں فنا ہو گیا ہے۔فنا فی الرسول یعنی رسول کی ہستی میں فنا ہو گیا ہےاور فنا فی اللہ یعنی اللہ کی ذات میں فنا ہو گیا ۔اسی طرح فنا فی الوجود، یعنی وجود میں فنا ہو گیا ، کیا وجود میں فنا ہو گیا یہ بات یہاں واضح نہیں ہو رہی ہے اس لئے فنا فی الوجود غلط اصطلاح ہے۔

فنا فی الشیخ کیا ہوتا ہے؟

فنا فی الشیخ کیا ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے اگر صرف الفاظوں کو دیکھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس نے شیخ کی ذات میں سب کچھ لُٹا دیا ہے ۔جسطرح کچھ پیران عظام کہتے ہیں کہ مرید ، مرشد پر اپنا پائی ، پیسہ ، گھر بار سب کچھ لُٹا دے اور جب وہ سب کچھ لُٹا دیتا ہے تو مرشد کہتا ہے تونے فنا حاصل کر لی ہے جو کہ مضحکہ خیز بات ہے۔ فنا کی جو روحانی اصطلاح ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرشد تمھارے لطیفہ نفس کو پاک کرتا ہے ،اور تمھاری ہستی کے جو اجزائے خصوصی ، اجزائے دائمی حیات ہیں جن میں لطیفہ قلب، لطیفہ سری، لطیفہ اخفی، لطیفہ خفی ، لطیفہ روح اور لطیفہ انا شامل ہیں۔مرشد جب تم سے راضی ہوجائے اور تم سے محبت کرنے لگے تو تمھارے نفس کو پاک کر کے اور تمھاری روحوں کے اوپر حکمرانی اور اپنے رنگ میں رنگنے کے لئےاپنی ذات کو کوئی لطیفہ یا جسّہ مرید کے سینے میں داخل کر دیتا ہے اور پھر وہ مرشد کا جسّہ مرید کے سینے میں بیٹھ کر اس کی روحوں کے اوپر حکمرانی کرتا ہےاس کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ اس کو کامل اتباع بھی کہتے ہیں مرید کی روحیں مرشد کے جسّے کے تابع ہو جاتی ہیں ۔اسے فنا فی الشیخ کہتے ہیں ۔

فنا فی الرسول کیا ہوتا ہے؟

اگر محمد ﷺ اپنا کوئی جسّہ طالب کے سینے میں داخل فرما دیں تو پھر اس شخص کی روحیں حضورؐ کے جسّے کے تابع ہو جائیں گیں اس کو فنا فی الرسول کہتے ہیں ۔

فنا فی اللہ کیا ہوتا ہے؟

فنا فی اللہ مقام ِوصل والوں کے لئے ہوتا ہےاورفنا فی اللہ دیدار الہی کے بعد ہوتا ہے۔اگر اللہ نے کسی کو فنا فی اللہ کا درجہ عطا کرنا ہو تو اللہ کے پاس دو چیزیں ہیں ایک جسّہ توفیق الہی جو کہ اللہ کا ایک وجود ہے ، یا پھر جسّہ طفل نوری جو کہ اللہ کے نور کا وجود ہے۔جسّہ توفیق الہی کا اللہ کی ذات سے تعلق ہے اور جسّہ طفل ِ نوری کی اللہ کی تجلیات سے تعلق ہےیہی وجہ ہے عشق کا مقام فقر سے بڑاہے۔
جب اللہ کسی کو جسّہ توفیق الہی یا جسّہ طفل نوری عطا کرتا ہے، اب یہ کسی عام آدمی کو تو نہیں ملتا ہے اسی کو ملتا ہے جو روحانیت میں چل رہا ہو اور اُس نے اپنے نفس کو پاک وصاف کر کے رب کے لئے تیار کر لیا ہو ۔ پھر جب اللہ جسّہ توفیق الہی یا جسّہ طفل نوری کسی کو عنایت فرماتا ہے تو وہ انسان کے جسم میں آتا ہے اور نفس کے لطیفوں کوکہتا ہے کہ مجھ سے بغل گیر ہو جاؤ۔ نفس کے جسّے جب اس وجود سے بغل گیر ہوتے ہیں تو جلالیت کی تاب نہ لا کر جل جاتے ہیں یہی نفس کی فنا ہے۔پھر قلب کے جسّوں کو حکم ہوتا ہے کہ اب تم گلے لگو ، وہ بھی تاب نہ لا کر جل جاتے ہیں اُس کے بعد روح کے جسّوں کو گلے لگاتا ہے تو روح کے جسّے بھی جل جاتے ہیں ۔جب نفس ، قلب اور روح کے جسّے جل جاتے ہیں تو پھر انسان کے اندر وہ اللہ کا وجود بیٹھ کر حکمرانی کرتا ہے ۔اُسی انسان کے لئے فرمایا کہ میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے یہ پکڑتا ہے ، میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے یہ چلتا ہے اور یوم محشر ،میں اس کی زبان بن جاؤں گا جس سے یہ بولے گا۔اسی کے لئے مولانا روم نے کہا
گفتہ او گفتہ اللہ بود ۔۔۔ گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

جسّہ توفیق ِالہی اور طفلِ نوری ذاتی اور صفاتی بھی ہوتا ہے:

یہ ایسا مقام ہے جس پر ہر ولی فائز نہیں ہوتا ہے۔یہ ایسا مقام ہے جس پر حضرت علی بھی فائز نہیں تھے۔مقام وصل پر نبی کریم ؐ کی چہیتی بیٹی فاطمتہ الزہرہ فائز تھیں ، وہ سلطان الفقراء تھیں ۔ سلطان حق باہو بھی مقام وصل پر فائز تھے۔غوث اعظم اور ان کے فرزندعبدالرزاق، حسن بصری یہ لوگ مقام وصل یعنی فنا فی اللہ والے تھے۔
اب یہ جو جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری ہوتا ہے یہ ذاتی اور صفاتی بھی ہوتا ہے۔عیسٰی میں جسّہ توفیق الہی صفاتی تھا ۔حضورپاکؐ میں جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری دونوں ذاتی تھاپھر بعد میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورپاکؐ میں جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری صفاتی بھی موجود تھا۔جس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے ولیوں کو صفاتی طفل نوری عطا کرنا ہو گا اگر صفاتی جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری حضورؐ کے پاس نہیں ہو گا تو اُن کی پیروی کیسے ہو گی ۔
جن کے پاس صفاتی جسّہ طفل نوری ہو اُن کو سلطان العارفین کہتے ہیں اور جن کے پاس ذاتی ہو اسے سلطان الفقراء کہتے ہیں۔جیسے سلطان حق باہو کی کتابوں کا ترجمہ کرنے والوں نے نہ جانے کیا کیا لقب اُن کے ساتھ منسوب کر دیا سلطا ن العارفین بھی لگا دیا جو کہ غلط ہے۔ اُن کے اندر جسّہ طفل نوری ذاتی تھا۔اسی طرح بایزید بسطامی میں جسّہ طفل نوری صفاتی تھاوہ بھی سلطان تھے۔ جسطرح غوث پاک میں جسّہ طفل نوری ذاتی تھا مگر جسّہ توفیق الہی صفاتی تھا۔

اہم راز

مگر امام مہدی گوھر شاہی میں جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری دونوں ذاتی اور صفاتی موجود ہے۔ایک دفعہ خیال آیا کہ موسیٰ میں صفاتی نور تھا وہ اسم ذات حاصل کرنے کے لئے ترستے رہے ۔صفاتی نور تو بڑی زبردست چیز ہے۔ہم نے یہ سمجھا کہ جن میں جسّہ توفیق الہی اور جسّہ طفل نوری صفاتی ہوتا ہو گا وہ تو ایسے ہی ہوتے ہو ں گے۔ تجربے کے لئے ایک بہت بڑے بزرگ ہیں اُن سے کہا آپ دیں میں اسے محسوس کرنا چاہتا ہوں ۔ تو محسوس کرنے کے لئے وہ صفاتی طفل نوری ایک یا ڈیڑھ منٹ کے لئے جسم میں آیا تو بخار ہو گیا ۔تو پھر میں پریشان ہو گیا کہ بخار کیوں ہوا ؟ تو پھر بعد میں معلوم ہوا کہ جو صفاتی طفل نوری ہوتا ہے وہ جو جسم کے بند ہیں اُن میں سماتا ہے اور جو ذاتی ہوتا ہے وہ سینے کی مخلوقوں میں سماتا ہے وہ روحانیت ہے۔تو جن لوگوں میں جسّہ طفل نوری صفاتی ہوتا ہے اُن کا جسم اُچھلتا کودتا رہتا ہے۔ جسطرح بایزید بسطامی تھے نماز میں بار بار کہتے تھے کہ “ ما اعظم شانی سبحانی ” میں سب سے افضل ہوں ۔ مریدوں نے کہا کہ آپ نے نماز میں ایسا کہا تو آپ نے فرمایا کہ اگر آئندہ ایسا کہوں تو تم میری گردن اُڑا دینا ۔دوسرے دن پھر نماز ادا کی اور مریدوں سے پوچھا کہ آج تو نہیں کہا تھا ؟ مریدوں نے کہا ہا ں آج بھی کہا تھا تو بایزید نے کہا کہ پھر تم نے میری گردن کیوں نہیں اُڑائی ؟ مریدین نے کہا ہم نے کاٹا تھا مگر آپ کٹے ہی نہیں ۔

“مولا علی پر جب تلوار چلائی تھی تو چل گئی تھی اور یہاں بایزید پر تلوار نہیں چل رہی ۔ کیوں؟ مولا علی میں ذاتی نور تھا جو کہ روحوں میں ہوتا ہے اور بایزید میں صفاتی نور تھا جو کہ جسموں میں ہوتا ہے”

ایک دن با یزید بسطامی مسجد میں چلے گئے تو مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے کہ یوم محشر میں سب سے بڑا جھنڈا محمد الرسول اللہ کا ہو گا ۔بایزید بسطامی سے رہا نہیں گیا وہ کھڑےہو گئےا ور کہا کہ غلط سب سے بڑا جھنڈا میرا ہو گا۔بایزید بسطامی کے بہت سے مرید تھے اس لئے مولوی صاحب سہم گئے اور خاموش ہو گئے لیکن بعد میں مریدین سے کہا کہ یہ بایزید نے کیا کہہ دیا ۔ پوچھنے پر بایزید نے بتایا کہ جس کا جھنڈا محمد الرسول اللہ نے بڑا ہو گا پھر وہی بول رہا ہو گا۔ اسی طرح ہم نے کراچی میں سمندری بابا کو بھی دیکھا وہ سمندر میں پیدل چل رہے ہیں ۔پھر ہمیں یہ خیال آیا کہ ہمارے پاس جو چیز ہے وہ اس سے بہت اعلیٰ ہے وہ اگر ہم بانٹنا بھی شروع کریں تو ایک لاکھ سمندری بابا بنا دیں ، تو پھر ہم سمندر پر پیدل کیوں نہیں چل سکتے ؟ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ جو کچھ اُن کو عطا ہے وہ اُن کے جسم میں موجود ہے جس کی وجہ سے جسم کرشمے دکھا رہا ہے اور وہ جو ہمارے پاس چیز ہے وہ روحوں کے اندر چلی گئی ہے ۔ہم کرشمے آگے جا کر دکھائیں گے ، اس دنیا میں نہیں آگے کی دنیا میں جا کر کرشمے دکھائیں گے جہاں ایسے سمندری بابا پیچھے کھڑے ہوں گے۔بایزید کی کرامت تو اُن کے جسم میں تھی ، جب جسم ختم ہو گیا تو وہ کرامت بھی ختم ہو گئی۔اسی لئے فنا فی اللہ کےدرجے پر وہی پہنچ سکتا ہے جو ذاتی نور کا حامل ہو ۔صفاتی نور والا اللہ میں فنا نہیں ہوا ہے۔یہ جو صفاتی نور والے اولیاء تھے اِن میں ظرف نہیں تھا کچھ نہ کچھ منہ سے نکلتا ہی رہتا تھا کیونکہ جسم کے اوپر قابو نہیں رہتا تھا۔

مندرجہ بالا مضمون 15 مئی 2017 کی نشست میں کئے گئے سوال سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس