- 963وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
عمران اللہ کا سوال: یوم ازل میں اللہ نے جنت اور دنیا کے لذات دکھائے مگر دوزخ کا ذکر نہیں کیا ، اسکے پیچھے کیا راز ہے؟
(کتاب مقدس دین الہی سے اقتباس، انسان ازل سے ابد تک )
اللہ نے روحوں کے امتحان کےلئے مصنوعی دنیا، مصنوعی لذات بنائے اور کہا: “اگر کوئی ان کا طالب ہے تو حاصل کر لے ”۔بیشمار وحیں اللہ سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف لپکیں اور دوزخ اُن کے مقدر میں لکھ دی گئی ۔ پھر اللہ نے بہشت کا نظارہ دکھایا جو پہلی حالت سے بہتر اور اطاعت و بندگی والا تھا۔ بہت سے روحیں ادھر لپکیں ان کے مقدر میں بہشت لکھ دی گئیں ۔بہت سے روحیں کوئی فیصلہ نہیں کر پائیں ۔ انہیں پھر رحمن اور شیطان کے درمیان کر دیا ۔وہی روحیں دنیا میں آ کر بیچ میں پھنس گئیں ،پھر جس کے ہاتھ لگ گئیں (اُس ہی کی ہو گئیں )۔بہت سی روحیں اللہ کے جلوے کودیکھتی رہیں ، نہ دنیا کی اور نہ ہی جنت کی طلب ، اللہ کو اُن سے محبت اور اُنہیں اللہ سے محبت ہو گئی۔انہی روحوں نے دنیا میں آ کر اللہ کی خاطر دنیا کو چھوڑا اور جنگلوں میں بسیرا کیا۔
اللہ نے یوم ازل میں جنت اور دنیا کے لذات دکھائے:
اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایمان کی مضبوطی اور علم کی ضرورت ہے۔ایمان کی مضبوطی کا ایک معنی تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایمان یقین کا پختہ ہونا ہے لیکن ایمان کا یہ معنی نہیں ہے ، ایمان نور کی مقدار کا نام ہے،جتنا زیادہ روحوں میں نور ہوگا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ مستحکم ہوگا۔ جہاں اللہ نے یوم ازل میں دوزخ کا ذکر نہیں وہیں اپنا ذکر بھی تو نہیں فرمایا، اپنی محبت اپنے دیدار کے لذات بھی تو نہیں دکھائے ، یہ بھی نہیں کہا کہ میری ذات کو حاصل کرنے کے لذات یہ ہیں جو یہ چاہتا ہے وہ یہ لے لے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں بہت بڑی بڑی ہستیاں ایسی گزری ہیں جنہوں نے صرف اللہ کی بات اللہ کی محبت کی بات کی ہے ، جیسا کہ ایک خاتون ولیہ رابعہ بصری رضی اللہ تعالی عنہ ایک دفعہ وہ بھاگی ہوئی جا رہی تھیں ایک ہاتھ میں انکے پانی تھا اور ایک ہاتھ میں آگ ، لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہیں ، انہوں نے کہا میرے ایک ہاتھ میں پانی ہے اس سے میں دوزخ کی آگ بجھا دونگی دوسرے ہاتھ میں آگ ہے جس سے میں جنت کو آگ لگا دونگی تاکہ لوگ نہ دوزخ کے ڈر سے اللہ کی عبادت کریں نہ جنت کی لالچ سےاللہ کی عبادت کریں بلکہ وہ اللہ کی خالص عبادت کریں ۔
ایسے نظریات بھی ہمیں سننے کو ملے کہ جس میں یہ سوچ دی گئی ہے کہ اللہ کی عبادت نہ کسی خوف، نہ ہی کسی لالچ کے تحت کرنی چاہیے اور یہ فکر ان ہستیوں کی طرف سے آئی ہے کہ جن ہستیوں پر اللہ نے اپنا انعام کیا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن پر اللہ نے انعام کیا انکی طرف سے یہ سوچ آ رہی ہے کہ بغیر لالچ و خوف اللہ کی عبادت کی جائے لیکن جب ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں تو وہاں پر ہمیں اللہ کی طرف سے خوف بھی نظر آتا ہے اور لالچ بھی نظر آتا ہے،کہ ہم تمہیں جنت میں داخل کریں گے وہاں دودھ کی نہریں ہوں گی وہاں ایسی حوریں ہونگی کہ جنکی گردنیں صراحی کی مانند ہونگی انکےجسم کی ساخت ایسی ہو گی اسی طرح قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو ہمیں خوف بھی نظر آتا ہے۔
روز ازل میں دنیاکے لذات کی خواہش کیسی آئی؟
یوم ازل میں جب اللہ تعالی نے جنت کے مصنوعی لذات اور دنیا کے لذات دکھائے تھے اس وقت اللہ نے اپنی ذات اپنے عشق اور اپنی محبت کا ذکر نہیں کیااور نہ ہی دوزخ کا ذکر کیا ۔پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ روحیں جو اللہ نے بنائیں تھیں جہاں برائی کا تصور نہیں تھا ، جہاں پر شیطان کا احساس و موجودگی نہیں تھی، جہاں پر ہمارا نفس بہکانے والا موجود نہیں تھا صرف ہماری روح تھی، اسکے باوجود روحوں کی اکثریت نے دنیا کے لذات کو چننا شروع کر دیا اور کچھ نے جنت کے لذات کو پسند کر لیا اور جو کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھیں ، کبھی ادھر دیکھتی تھیں کبھی ادھر دیکھتی تھیں انکی تقدیر کو معلق کر دیا گیا ، دنیا کے لذات کو پسند کرنے کی خواہش بُری خواہش ہے لیکن یہ کہاں سے آئی، شیطان تو وہاں تھا ہی نہیں ۔بقول بابا گرونانک “اکو نور توں سب جگ اپجیا ۔۔۔۔۔کون بھلے کون مندے” ۔ ایک ہی نور سے جب ساری روحوں کو بنایا تھا تو کچھ روحوں کے اندر دنیا کی خواہش کیوں آگئی ؟ اور کچھ روحوں کے اندر جنت کی خواہش کیوں آ گئی؟ اب یہ ایسی باتیں ہیں جنکا آپ کے پاس جواب نہیں ہے۔
یہ ہی خیال آتا ہے کہ اللہ نے ایسا ہی چاہا اور روحوں کو تو چھوڑو کہ روحوں نے دنیا کو پسند کر لیا جبکہ نفس کی غلاظت ساتھ نہیں تھی ،شیطان کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں تھی۔یہ تو روحیں تھیں جب اللہ نے آدم صفی اللہ کو بنایا تو فرشتوں نے اعتراض کیا ، فرشتوں کا منہ یہ کہہ کر اللہ نے بند کیا کہ ہم اسکو خاص علم دیں گے، پھر اس آدم صفی اللہ سے اللہ نے جنت میں غلطی کروا لی ، یہ کام تو اللہ کے ہیں ! دوسری طرف اگرآپ کے پاس علم ہے ،قرآن مجید پڑھا ہوا ہے تو پھر آپ یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں یہ بھی کہتا ہے کہ
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ
سورۃ الاعراف آیت نمبر 179
ترجمہ : ہم نے انسانوں اور جنات کی اکثریت کو جہنم کے لیے بنایا ہے۔
اللہ کے یہاں آمریت کا دور دورہ ہے :
اگر اللہ نے جہنم کے لیے انہیں بنایا ہے تو وہ ایسے کام ہی کریں گے جو انکو جہنم میں لے جانے والے ہونگے۔اب ہم ایک سوال کرتے ہیں کہ کیا اللہ کے یہاں استدلال اور آمریت ہے ؟ اگر آپ انصاف کی عینک لگا کر دیکھیں گے تو آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ کے ہاں آمریت ہے، انسان کی خواہش کا احترام نہیں ہے انسان سے پوچھا نہیں جائیگا کہ تم کیا چاہتے ہو، ایک طاقت ایک فورس ہے جو زبردستی آپ سے گناہ کروائے گی اور ایک چھپی ہوئی طاقت ہے جو آپ سے اچھا کام کرا لے گی اور کہے گی کہ کہو ھذا من فضل ربی، یہ چیزیں جب آپ کے سامنے جائیں گی تو آپ کبھی بھی یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہونگے کہ انسان فیصلہ کرنے میں خود مختار ہے، اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہے جیسا ہے ویسا ہی اللہ کی مرضی کے مطابق ہے، انسان کی مجال نہیں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر اللہ کی منصوبہ بندی کے خلاف چلا جائے ،جو کچھ بھی آج آپ کو نظر آتا ہے جو کچھ بھی ہوا ہے وہ سب اللہ کے منصوبے کے تحت ہوا ہے۔جوبھی نبی اس دنیا میں آیا انسانوں نے اس کوبہت ستایا ہے ،روتے ہوئے آیا اورروتے ہوئے گیا۔کسی شاعر نے کہا ہے
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یہاں ہر سفری کا
یہاں تو سب کا ہی برا حال ہوا ہے، نبی ہو ، پیر فقیر ہو ، قلندر ہو سلطان ہو، جو مزاحمت اللہ کی محبت کے ہی سلسلے میں انسانوں سے اس دنیا میں ہی برداشت کی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔اللہ کی محبت کے راستے پر چلنابہت کٹھن اور دشوار ہے لیکن اگر کوئی آپکو اگر فراڈ کی راہ دکھائے گا تو آپکو کبھی وسوسے نہیں آئیں گے ، کوئی جہاد کا سبق پڑھائے گا کہ دو ماہ کے بچے کو چھوڑ کر بم باندھ کر چلے جاؤ اس وقت آپ کو ایک وسوسہ نہیں آئے گا ، اپنا گھر بار چھوڑ کر چالیس دن ، تین ماہ یا ایک سال کے چلے پر چلے جاؤ کبھی وسوسہ نہیں آئے گا، لیکن جب نفس کو پاک کرنے کی تعلیم دی جائے گی قلب و قالب کو پاک کرنے کی تعلیم دی جائے گی تو پھر ذہن میں لا تعداد سوالات آئیں گی یہ اس لیے ہے کہ ایک طاقت اسکے پیچھے کار فرما ہے ۔بھلائی کا اچھائی کا کام اگر سمجھ میں آ بھی جائے گا تو آپ ہی کے اندر ایک ایسی طاقت چھپی ہوئی ، ایک ایسی آواز چھپی ہوئی ہے کہ جو بار بار آپ کے حوصلے کو پست کرے گی۔ جن لوگوں نے سرکار سیدنا گوھر شاہی کی صحبت میں وقت گزارا، جنکے ذکر چلے ہوئے ہیں انکے اندر جو شیطان بیٹھا ہے وہ انہیں یاد دلاتا رہتا ہے ، تم پر بیوی کے حقوق بھی ہیں ، کیونکہ تم ابھی شیطان کی گرفت سے باہر نہیں نکلے، شیطان کی گرفت سے باہر وہ نکلتا ہے کہ جس کےپاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بال تک اسکا مرشد سارا شر مٹا دیتا ہے اور اپنا بنا لیتا ہے ، اس کام سے پہلے تو دجال ہے بھلے تیرا قلب جاری ہو یا بھلے ساتوں لطیفے جاری ہوں ۔بھلے ہی وہ جزوی طور پر ضم ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، ضم ہونے کا مزہ تب ہی ہے جب کامل ضم ہو، کامل ضم نہیں تو تجھ میں اور دجال میں کوئی فرق نہیں ۔سرکار کی صحبت اٹھانے والوں کے ذہنوں کو بھی شیطان پکڑ لیتا ہے توعام آدمی کا کیا حال ہوگا !
شرابیوں جواریوں کو شراب اور جوئے کی لت لگ جاتی ہے یہ جوئے میں پیسہ لگانے یا شراب پینے کے لیے اپنی بیگم کے زیورات اتار کر بیچ دیتے ہیں اور شراب پیتے ہیں یہاں تک کے جوئے کی خاطر اپنی بیوی کو گروی رکھوا دیتے ہیں لیکن کوئی وسوسہ تک نہیں آتا ، لیکن جو پاک صاف اور طاہر ہونے کا راستہ ہے جب اس میں چلتے ہیں تو پھر انہیں پریشانی ہوتی ہے کیونکہ شیطان روکتا ہے ، شیطان اتنا مضبوط اندر جو بیٹھا ہوا ہے وہ کس کی مرضی سے بیٹھا ہے؟ کیونکہ ایک پتا بھی اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا ۔
اللہ کی نظر میں انسان کی کوئی اوقات نہیں ہے:
اللہ کو ہمت والے لوگ کیوں پسند ہیں ؟ جب تو اللہ کے راستے پر چلے گا اپنے اندر نور قائم کرنے کی کوشش کرے گا اللہ شیطان کو کہے گا نہیں بیٹھا رہ دیکھتا ہوں کتنا بہادر ہے، اور تو اتنا بہادر کبھی بھی نہیں ہوگا کہ اسکو باہر نکال دے ۔ تو نور بنانے کی کوشش کرے گا ، بیس ، تیس چالیس ، سو دفعہ اللہ یہ دیکھے گا کہ دیکھو اسکے آنسو نکل رہے ہیں یہ اب اپنے آپ کو محتاج سمجھ رہا ہے اب یہ اپنی حقیقت سمجھ گیا ہے کہ میں نے تو اللہ کو پانے کی بڑی کوشش کی یہ میرے بس کی بات نہیں ہے اللہ ہی کرم کرے ، اسکے بعد اللہ کرم کریگا اور شیطان کو نکال دیگا ، اس نے یہ ثابت کرنا ہے کہ تیری کوئی اوقات نہیں ہے، لیکن یہ بات انسان کو آسانی سے سمجھ کہاں آتی ہے، لہذا تیرے اندر جتنا تکبر ہے تو اُتنا ہی رب سے دور ہے کیونکہ تمھیں کہانی پتا ہی نہیں ہے۔
کچھ لوگوں نےپوچھا کیا ہم اس بات پر فخر کریں کہ ہمیں سرکار سے نسبت ہے تو ہم نے منع کر دیا ، وہ اس لیے کہ یہ فخر تب کرنا جب سرسے لے کر پاؤں تک تیرے اندر اور باہر صرف سرکار رہ جائیں ،ابھی تو تیرے اندر تھوڑا سا رحمت کا چھینٹا ہی آیا ہے ،ابھی بیماری ہےلوگوں کو ابھی تیرا دماغ ہی تجھے پریشان کردیتا ہے۔ جیسا کہ ہر وقت منفیت کی باتیں کرنا۔ ذرا سی پریشانی آئے تو ہمت ہار دینا، وہ تو آزمائے گا تجھے بھی اور تیرے مرشد کو بھی آزمائے گا، تجھے آزمائے گا کہ تو مرشد پرکتنا بھروسہ کرتا ہے اور مرشد کو بھی آزمائے گا کہ وہ اسکی مدد کب کرتا ہے، لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ سرکار گوہر شاہی نے اپنے بندے کی آزمائش لی ہو!!
یوم ِ ازل سے پہلے بھی تین قسم کی ارواح تھیں:
یوم ازل میں اللہ نے صرف لذات ِدنیا اور جنت دکھائے تھےاپنی محبت اور دیدار کی بات نہیں کی۔ لیکن ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس دنیا میں ایسی ہستیاں بھی آئیں جنہوں نے اللہ کی محبت کی بات کی ، یوم ازل میں اللہ نے اپنی ذات کی بات تو کی ہی نہیں تھی اس لحاظ سے اس دنیا میں یا تو دنیا دار ہونا چاہیے تھے یا پھر جنتی ہونا چاہیے تھے یہ اللہ والے کہاں سے آ گئے؟ یہ صوفی کہاں سے آ گئے، یہ نبی کہاں سے آ گئے؟ اسکے لیے ہم کو بلھے شاہ کی بات سننا پڑی کہ“کن تو کل دی گل ہے ”۔یعنی کن فیکون تو کل کی بات ہے ہم نے تو اس سے پہلے اللہ سے پریت لگائی ہوئی تھی ۔
جب یوم ازل والی روحوں کو اللہ تعالی نے بنایا اس سے بہت پہلے اللہ تعالی نے تین قسم کے لوگوں کو بنا کر اپنے ساتھ رکھا ، تین درجے بنائے، کچھ روحوں کو جلوؤں میں رکھا ،کچھ کو قرب میں کچھ کو محبت میں رکھا ، یہ تین قسم کے لوگ پہلے موجود تھے، اسکے بعد آخر میں کن فیکون کہہ کران روحوں کو بنایا اور آگے کھڑا کر دیا ۔دنیا کے لذات دکھا دئیے ، جنت کے لذات دکھا دئیے ،کچھ دنیا کی طرف لپکیں ، کچھ جنت کی طرف لپکیں ، کچھ دونوں طرف دیکھتی رہیں ،جو دنیا کی طرف لپکیں فرشتوں کو حکم ہوا انکی تقدیر میں دنیا لکھ دو ، جو جنت کی طرف لپکیں فرشتوں کو حکم ہوا انکی تقدیر میں جنت لکھ دو اور جو دونوں طرف دیکھتی رہیں جو کوئی فیصلہ نہیں کر پائیں ان کو کہا انکی تقدیر معلق ہے، دنیا میں جا کر یہ دین کی طرف لگ جائیں گے تو دین دار اور شیطان کی طرف لگ گئے تو شیطان ۔ اب پھر جب دنیا بنا دی تو دین دار روحیں بھی آ گئیں اور جنتی روحیں بھی آ گئیں اور پیچھے سے وہ قرب جلوے اور محبت والی روحیں بھی آگئیں ، اب جب وہ قرب جلوے اور محبت والی روحیں آئیں ! کوئی بلھے شاہ بن گیا، کوئی رابعہ بصری بن گئی کوئی قلندر پاک بن گیا، کوئی غوث اعظم کوئی خواجہ ہند بن گیا۔ انہوں نے انسانوں کو کہا تم کہاں لگے ہوئے ہو نہ انہوں نے دنیا کی ترغیب دی نہ جنت کی ، انہوں نے اللہ کی طرف تم کو کھینچا تو تمہارے مذہب والے آڑے آ گئے کہ انکو اللہ کی طرف کیوں کھینچ رہے ہو انکو جنت کی طرف جانے دو۔ پھر مولویوں اور صوفیوں میں جھگڑا شروع ہوگیا ، پھر شیطان نے کہا یہ دنیا دار لوگ ہیں تم انہیں مسجد میں کیوں لیکر جا رہے ہو! ایک عجیب و غریب کھچڑی بن گئی ، اور آج وہی کھچڑی پکی ہوئی ہے، اب بتائیں گوھرشاہی کا پیغام کس کی سمجھ میں آئے گا؟ کن فیکون سے جو روحیں بنیں وہاں تو دنیا اور جنت کے لذات تھے، یہ تو لذات کے لالچی کتے ہیں ،دنیا والے پیسے کے ذریعے دنیا حاصل کر رہے ہیں اور جنت کی لذات والے مذاہب میں لگے ہوئے ہیں نا ! کیا تم نے نماز پڑھنے کے بعد کبھی یہ کہا اے اللہ مجھے تو چاہیے؟ کیوں کہو گے! تم نے تو دنیا کے لذات ، جنت کے لذات پسند کیے تھے، تم نے اللہ کے قرب جلوے اور محبت کے لذات دیکھے ہی نہیں ۔
امام مہدی تین درجے والی روحوں کے لئے آئے ہیں:
امام مہدی ان روحوں کو ڈھونڈنے کے لیے آئے ہیں جو قرب ،محبت اور جلوے میں پہلے سے ہی رہتے تھے وہ روحیں اب زمین پر آ گئی ہیں انکو ڈھونڈنے کے لیے آئے ہیں ۔جس کی روح تک اسم ذات چلا گیا وہ کن فیکون والی روح نہیں وہ پیچھے روحوں کے جو تین درجے تھے وہ ان میں سے ہوگا انکے لیے امام مہدی آئے ہیں ،جنتیوں یا دنیا داروں کے لیے نہیں آئے، دنیا داروں کے لیے یہ آگئے نا قوال، نعت خوان، یہ قوالیاں ، نعتیں بیچتے ہیں وہ قوالی خریدتے ہیں ، یہ بزنس ہی ہے نا، یہ عمرہ پر جاتے ہیں وہ لے جاتے ہیں یہ بزنس ہی ہے نا۔ مذہبوں میں لگانے والے جنتوں میں لے جانے والے آگئے ، یہ پیغام کس کی سمجھ میں آئے گا کہ اللہ بس باقی ہوس!یہ سمجھ میں کدھر آئے گا کہ نفس کو پاک کرو دل کو اللہ اللہ میں لگاؤ، خون کے اندر نور کو بساؤ، کعبہ کو مت جاؤ کعبہ کو ادھر بلاؤ!
گفتہ او گفتہ اللہ بود۔۔۔ گرچہ ازحلقوم عبد اللہ بود
میں تیرے ہاتھ بن جاؤں ،میں تیرے پاؤں بن جاؤں ،میں تیری زبان بن جاؤں یہ باتیں کس کی سمجھ میں آئیں گی وہ تو جنت میں لگے ہوئے ہیں ۔ اب رابعہ بصری نے کہا جنت کو آگ لگا دوں ،دوزخ کو ٹھنڈا کر دوں تاکہ لوگ اللہ تعالی کی عبادت بغیر خوف اور لالچ کے کریں ، انہوں نے جنت کے لذات دیکھے ہی نہیں نا وہ تو قرب والی تھیں انہوں نے وہی چیز پوری دنیا میں لگا ے کی کوشش کی کہ سب کو اللہ کی محبت میں لگا دیں ۔خواجہ معین الدین چشتی آئے انہوں نے بھی سب کو اللہ کی محبت میں لگانے کی کوشش کی، نظام الدین اولیاء ، قلندر پاک، غوث اعظم،یہ جتنی بھی ہستیاں آئیں ، یہ اُدھر یوم ازل میں تھوڑی کھڑے تھے ادھر کھڑے ہوتے تو انہوں نے بھی جنت کے لذات دیکھے ہوتے نا! ایک میلہ اس سے پہلے لگا تھا یہ اُس میں کھڑے تھے ، جدھر صرف جلوہ ، قرب اور محبت ہی تھی۔
“اب تم بتاؤ تمہیں جنت کی لذات چاہئیں یا دنیا کی لذات چاہئیں یا پھر تم چاہتے ہو گوھر شاہی تم کو پیچھے کی تقدیرعطا کر دیں ، تم کو اللہ کے جلوے، قرب اور محبت والا بنا دیں ،اگر وہ چاہیے تو اسکے لیے تعلیم گوھر شاہی آ گئی ہے، بحث و مباحثہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر وہ چیز چاہیے تو خاموشی سے اس راستے کو اختیار کرو ”
آپ کے ذہن میں سوال آنا چاہیے تھا کہ یوم ازل میں تو اللہ نے لذات جنت اور لذات دنیا دکھائے تھے تو یہ اللہ والے کہاں سے آ ئے ؟ اللہ نے اپنا آپ تو دکھایا ہی نہیں تو یہ اللہ والے آئے کہاں سے ، یہ تبلیغ کیوں ہو رہی ہے کہ اللہ حاصل کر لو، اللہ سے عشق کرو اللہ سے محبت کرو! یہ تبلیغ کدھر سے آئی کیونکہ لذات تو صرف دنیا اور جنت کے دکھائے گئے تھے اللہ نے اپنی ذات کے، اپنے عشق اور اپنی محبت کے لذات کہاں دکھائے تھے! پھر یہ کدھر سے آئے تو پھر یہ پتا چلے گا کے آپ سے پہلے بھی کچھ تھا ۔ اُس وقت اللہ نے تین درجے کی روحیں بنا رکھی تھیں جو قرب جلوے اور محبت والی تھیں وہ وہاں سے آ گئیں ، اب ہم پریشان ہو گئے۔آدمی کے لیے یہ کرامت ہوگئی کہ ولی کیسے بنتا ہے ، یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، جنتی بننا اسکو آسان لگتا ہے، دنیا دار بننا اُس کو آسان لگتا ہے ، اللہ والا بننا اسکو سمجھ میں نہیں آتا ، کیونکہ یہ وہاں کے ہیں نہیں ، یہ کسی اور عالم سے آئے ہیں ۔اگر کوئی اس مجمع سے ہے جہاں اکثریت صرف جہنمیوں کی روحیں تھیں ۔
یہ دوکان تو گوہر شاہی نے انکے لیے کھولی ہے جو یوم ازل سے پہلے کی روحیں ہیں ، جو اللہ کے قرب جلوے اور محبت میں تھیں مگر یہاں دنیا میں آ کر بھول گئیں ، وہ روحیں اسکی آوز پر لبیک کہیں گی، وہ یاد کرائے گا کہ اس سے پہلے بھی کبھی تم نے اللہ سے محبت کری تھی ، یہ وہی چیز ہے نا! جیسے بلھے شاہ نے کہا
نہ میں آدم حوا جایا ۔۔۔۔۔ نہ میں موسی نہ فرعون
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں۔۔۔ نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پنج نمازاں نیتی نا تسبحا کھڑکایا۔۔۔۔۔بلھے نوں ملیا ایسا مرشد جس ایویں جا بخشایا
مندرجہ بالا مضمون 23 جون 2017 کی یو ٹیوب کی لائیو محفل میں کئے گئے سوال سے لیا گیا ہے۔