کیٹیگری: مضامین

حضور پاکؐ کی تعلیم کا ذریعہ کون تھا؟

ایک طرف تو عام مسلمانوں کا یقین یہ ہے کہ نبی پاکؐ معاذ اللہ پڑھے لکھے نہیں تھے، یہ عام مسلمانوں کا ماننا ہے۔ مسلمانوں کو فرصت کہاں ہے کہ قرآن کو سمجھ کرپڑھیں! قرآن مجید میں آیا ہے کہ

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
سورة العلق آیت نمبر 1
ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے اسم سے جس نے پیدا کیا۔

کسی کے ذہن میں کبھی یہ بات آئی ہے کہ حضورؐ معاذ اللہ جب پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے تو جبرائیلؑ نے کیوں کہا کہ پڑھو! اگر آپ مانتے ہیں کہ اِس آیت کا مطلب ہے کہ “پڑھو” تو آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ حضور پاکؐ پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ حضور پاکؐ کو پڑھنا نہیں آتا تھا اور ایک پوری کتاب تیس پاروں کے ساتھ آپؐ پر منکشف ہوئی اور وہ جانتے ہی نہیں کہ کتاب میں کیا لکھا ہے تو وہ اپنی اُمت کو کیسے سمجھائیں گے! اب ایک موقع پر مکہ مکرمہ کے کافرین اور مسلمانوں کے درمیان معاہدہ ہوا جس کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ تمام شرائط ایک صفحے پر درج کی گئیں اور دونوں پارٹیوں نے صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اُس معاہدے پر حضور پاکؐ نے خود دستخط کئے اور جب دونوں پارٹیوں نے معاہدے پر دستخط کردئیے تو کافرین نے اعتراض کیا کیونکہ حضور پاکؐ نے معاہدے پر محمد الرسول اللہ درج فرمایا تھا۔ کافرین نے کہا کہ ہم نہیں مانتے کہ آپ رسول ہیں تو آپ صرف اپنا نام محمد لکھیں اور ساتھ رسول اللہ نہ لگائیں۔ حضور پاکؐ نے مولا علی سے فرمایا کہ آپ معاہدے سے رسول اللہ ہٹا دیں تو مولا علی نے کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کرسکتا کیونکہ آپ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہیں تو میں وہ دو لفظ نہیں ہٹا سکتا۔ پھر حضور پاکؐ نے خود معاہدے پر سے رسول اللہ ہٹایا۔ اگر نبی پاکؐ کو پڑھنا اور لکھنا نہیں آتا تھا تو وہ قرآن کو کیسے پڑھیں گے؟ قرآن میں آیا ہے کہ

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ
سورة البقرة آیت نمبر 2
ترجمہ: جس طرح ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول کو بھیجا ہے جو تمہارے اوپر میری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے۔

دو چیزیں حل ہوجاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ حضور پاکؐ کے پڑھے لکھے نہ ہونے کے غلط تاثر کو دور کردیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضور پاکؐ کسی اسکول میں نہیں گئے لیکن اللہ نے جو تیس پاروں پر مشتمل ایک پوری کتاب آپؐ پر منکشف فرمائی تو اللہ نے آپؐ کو سب کچھ سکھایا۔ اللہ نے حضور پاکؐ کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا اور قرآن نے کہا ہے کہ

عَلَّمَ الْقُرْآنَ
سورة الرحمن آیت نمبر 2
ترجمہ: اُس نے قرآن کی تعلیم دی۔

لوگ پتہ نہیں کیوں مانتے ہیں کہ اللہ نے تمام علم حضور پاکؐ کو عطا کیا لیکن آپؐ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا! یہ کبھی نہ سوچیں کہ حضور پاکؐ کو ان پڑھ اور بغیر تعلیم یافتہ تھے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہاں اِس دنیا میں اسکول کی تعلیم جہاں اساتذہ انسان ہیں آپ کورب سے ذیادہ بہتر تعلیم دے سکتے ہیں! آپ کو لگتا ہے کہ رب آپ کو پڑھنا لکھنا نہیں سکھا سکتا! یاد رکھیں کہ قرآن کے مطابق اللہ نے کچھ بھی تخلیق کرنے سے پہلے قلم کو بنایا۔ قلم کا مطلب صرف قلم نہیں ہے بلکہ یہ لکھنے اور ریکارڈ کرنے کی صلاحیت ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ سب سے پہلے ہم نے قلم کو بنایا۔ حدیث میں آیا ہے کہ

إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ
جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1269
ترجمہ: اللہ تعالی نے ہر چیز سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔

اور اللہ تعالی مکہ میں کسی بدو کا حضور پاکؐ کو پڑھانے کا انتظار فرما رہا تھا! نہیں کیونکہ اللہ تعالی کیوں کسی علم کسی مہارت کو کسی اور کے ذریعے محمدؐ کو سکھانے کی اجازت دے گا! اللہ خود سب کچھ محمدؐ کو سکھائے گا۔ کوئی بھی کسی نبی اور رسول کا استاد نہیں ہوسکتا۔ ان تمام رسولوں اور نبیوں کا واحد استاد صرف اللہ ہے۔ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کہ رب کے اسم سے پڑھو جس سے اُس نے تمہیں تخلیق کیا۔ پھر اللہ تعالی نے عام انسانوں کی تخلیق کے بارے میں فرمایا کہ

خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ
سورة العلق آیت نمبر 2
ترجمہ: انسان کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے تخلیق کیا۔

اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
سورة العلق آیت نمبر 3
ترجمہ: پڑھو اور تمہارا رب بہت کریم ہے۔

کبھی کبھی یہ پڑھنے کے بارے میں نہیں ہوتا تو اب آپ کیا کہیں گے کہ پڑھو تمہارا رب بہت کریم ہے، نہیں تسلیم کرو کہ تمہارا رب کریم ہے کیونکہ اُس نے تمہیں اسمِ ذات اللہ کے نور سے تخلیق کیا تو یہ کریم ہونے کا عمل ہے۔

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
سورة العلق آیت نمبر 4
ترجمہ: وہ ذات جس نے قلم کے ذریعے علم دیا ہے۔

قرآن میں ہی لکھا ہے کہ اللہ نے قلم کے ذریعے حضورؐ کو علم دیا اور پھر بھی یہ مردود کہتے ہیں کہ حضورؐ تو پڑھے لکھے ہی نہیں تھے۔

جو وہ قلم کی طاقت ہے وہ اللہ نے نطقِ مصطفٰیؐ میں رکھ دی تھی تو جو اُنہوں نے کہہ دیا وہ قلم نے لکھ دیا۔ جو نطقِ مصطفٰیؐ سے بات نکل گئی وہ تحریرِخدا ہوگئی۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی فرمایا کہ

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ
سورة النجم آیت نمبر 3
ترجمہ: وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتے۔

الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کہ وہ ذات جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے۔ یہ آیت آپ غور غور سے دیکھیں تاکہ آپ کے ذہن سے وہ باطل خیال نکل جائے جو اکثر مسلمان سمجھتے ہیں کہ حضورؐ معاذاللہ نقلِ کفر کفر نا باشد کہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ ہم نے اُن کو قلم کے ذریعے علم دیا ہے۔ اب کہاں جاوٴ گے مولانا صاحب، ہمارے نبی کو اَن پڑھ کہہ دیا۔اُن کے دلوں سے حضورؐ کی محبت کا چراغ گُل کردیا، تعظیمِ مصطفٰیؐ کو نیچے لے آئے،عظمتِ مصطفٰیؐ کے منکر بن گئے تو کیا قرآن کو بھی جھٹلا دوگے! خیر ضروری نہیں ہے کہ یہ تعلیم ہونے کے بعد سارے ہی مان جائیں۔ جن کے ذہن میں گند اور کچرا ہوتا ہے وہ تو آج اپنے باپ کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ جاہل آدمی ہے، اِس کے پاس سرٹیفیکیٹ کہاں ہے! الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ تو حضور نبی کریمؐ کو پڑھنا لکھنا سب کچھ اللہ نے سکھایا۔ پھر حضورؐ نے فرمایا کہ

أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا
روی الطبرانی فی “المعجم الکبیر” (11061) والحاکم فی “مستدرکہ” (4637)
ترجمہ: میں علم کا شہر ہوں اور علی اُس کا دروازہ ہے۔

آپ کا عقیدہ ہے کہ حضورؐ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور حضورؐ فرما رہے ہیں کہ أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ کہ میں علم کا شہر ہوں اور علم کے شہر کو پڑھنا لکھنا نہ آئے! یہ دو باتیں آج واضح ہوگئی ہیں تو آئندہ حضورؐ کو یہ کہنے کی جراٴت نہ کرے کہ آپؐ پڑھے لکھے نہیں تھے کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرما دیا ہے الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کہ ہم نے اُن کو قلم کے ذریعے علم دیا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 اکتوبر 2020 کویو ٹیوب لائیو سیشن میں قرآنِ مکنون کی خصوصی نشت سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس