- 720وئیوز
- لائیک کریں
- فیس بک
- ٹویٹر
- فیس بک میسینجر
- پنٹرسٹ
- ٹمبلر
- واٹس ایپ
- پرنٹ
- ای میل
قرآن مجید کے سات بطون ہیں اور بہت سارے بزرگانِ دین نے اِسکے بارے میں بتایا بھی ہے۔ بطن سے مراد یہ ہے کہ وہ مقام جہاں لطیفہ نفس استقرار پکڑتا ہے یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالی نے سات طریقے ایسے رکھے ہیں جس کے ذریعے انسان اپنے نفس کو پاک کر سکتا ہے۔ دینِ اسلام میں چار درجات ہیں ، پہلا درجہ عبادت کا ہے، اس سے بڑا درجہ شہادت کا ہے، اس سے بڑا درجہ محبت کا ہے اور سب سے بڑا درجہ عشق کا ہے ۔
1 ۔عبادت: یہ دین کا سب سے ادنی درجہ ہے جس میں آپ رب کی عبادت کرتے ہیں اور جو لوگ رب کی عبادت نہیں کرتے ہیں وہ کسی درجے میں نہیں آتے ہیں ۔
2۔ شہادت: یہ عبادت سے بڑا درجہ ہے جس میں لوگ اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیں تو عبادت والوں کو بھی وہ مقام نہیں ملتا جو شہیدوں کو مل جاتا ہے ۔ جب کوئی جام شہادت نوش کرتا ہے تو جب اسکا خون ٹپک رہا ہوتا ہے تو اللہ اسکے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ لہذا جو درجہ شہادت پر فائز ہو گئے اُن کا مقام عابدوں سے بڑا ہے ۔
3۔ محبت: یہ درجہ شہادت سے بھی بڑا ہے ۔ جن لوگوں نے اپنے دلوں کو باطنی علم کے ذریعے بیدار کر لیا اور اللہ کی محبت حاصل کر لی اُن کا درجہ عابدوں اور شہیدوں سے بھی بڑا ہے اور یہ مذہب کا نچوڑ ہے ۔
سیدنا گوھر شاہی کے تزکیہ نفس کا طریقہ:
ہم نے جو نفس کو پاک کرنے کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے وہ قرآن مجید کے ساتوں بطون کا آخری بطن ہے۔ ذیادہ تر اولیاء کرام نے نفس کو پاک کرنے کیلئے عبادت اختیار کی لیکن ہم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ پہلے دل کو اللہ کی محبت سکھا دیتے ہیں ، پھر یہ سرکارسیدنا گوھر شاہی کی یاد اور محبت کی مستی میں رہے گا ، اُنکی نظروں میں آئے گا تو اس سے نفس بہت جلدی پاک ہو جائے گا۔ یہ قرآن مجید کے ساتوں بطون کا آخری بطن ہے “تزکیہ نفس فی حُبِ الہیٰ” ۔ سرکار سیدنا گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ اگر تیرے دل میں اللہ کی محبت قائم ہو جاتی ہے پھر تو کسی مذہب میں نہ بھی ہو تو خیر ہے کیونکہ اللہ کی محبت تمام مذاہب کا نچوڑ تھا ، اب اگر نچوڑ حاصل ہو گیا ہے تو پھر کسی مذہب کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ یہ قرآن مجید کی تشریحات سننے سے بیٹھے بیٹھے تزکیہ نفس ہو رہا ہے۔ اب اس سے دو کام ہو رہے ہیں ایک تو لوگوں کا رُخ سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کی بارگاہ کی طرف ہو رہا ہے کہ اُنکی یاد اور اُنکے تصور میں رہیں پھر جس دن آپ نے توجہ فرما لی کہ کوئی انہیں یاد کر رہا ہے تو پھر کرم ہو جائے گا۔ اگر کوئی تھوڑی دیر کیلئے بھی انکے بارے میں سوچے تو سرکار گوھر شاہی فوراً متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن جب آپ سیدنا گوھر شاہی کے بارے میں سوچیں تو صرف یہ سوچیں کہ مجھے سرکار مل جائیں ۔ اس راستے میں کامیاب ہونا ہے تو دعا مانگنا چھوڑ دیں ۔ پھر وہ اتنی محبت اور شدت سے اپنا لیں گے کہ شاید تجھے اپنی قسمت پر یقین ہی نہ آئے۔
الرٰ ٹی وی کے پلیٹ فارم سے جب علمِ باطن کو پیش کیا جاتا ہے تو خالصتاً قرآن مجید کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے اور دنیا میں آج تک کوئی ایسا صوفی گزرا نہیں ہے جس نے قرآن مجید کو سامنے رکھ کر تصوف کی بات کی ہو ۔ نوے فیصد صوفیاء کرام ایسے گزرے ہیں کہ جن کا ہر عمل اور رمز حق ہے لیکن اُن کو کہا جائے کہ یہ قرآن کی روشنی میں بیان کر دیں تو اُنکے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ اس کیلئے باریک بینی اور” الم ” کا عرق چاہیے ، “حم” کا عرق چاہیے ، اسکے لئے “الرٰ” کی روح چاہیے ۔ یہ تمام اشیائے عشق موجود ہوں تو پھر لنگر عشق کھلتا ہے ۔اسکے بغیر آپ تروایح، قرآن، حدیثیں پڑھتے رہیں لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ جسطرح سے عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دل سے دعا مانگو لیکن کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ دل سے دعا کیسے مانگیں۔ دل سے دعا مانگنا یہ ہے کہ زبان سے الفاظ ادا کریں اسکے بعد اُن الفاظوں کو دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ملائیں اور جب وہ الفاظ دل کی دھڑکنوں کے ساتھ مل جائیں گے تو پھر باریک بچے جیسے آ واز آئے گی ۔ وہ آواز انہی الفاظ کو دہرائے گی جو زبان سے ادا کئے گئے تھے۔ پھر دل سے جو دعا کے الفاظ نکلیں گے وہ سیدھا عرشِ الہی جائیں گے انکو کوئی روک نہیں سکتا ہے ۔ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انسان چُپ خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اُسکا دل تلاوتِ قرآن کر رہا ہے ۔اگر دل تلاوتِ قرآن کر سکتا ہے تو دل دعا بھی کر سکتا ہے ۔ یہی وہ تراویح تھی جو صحابہ کرام کو ملتی تھی جس میں نبی کریمؐ صاحب جہان تشریف فرما ہوتے آپکی زبان، دل اور روح بھی تلاوتِ قرآن کرتی ۔ لوگوں کویہ لگتا کہ ساتھ رنگ کی تلاوت کی آوازیں آ رہی ہیں ۔ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا بڑا مزا آتا۔ جب آپ بھی نبی کریمؐ کی مجلس میں پہنچ جائیں گے تو آج بھی آپکو وہ تراویح میسر آ سکتی ہے ، آج بھی وہ سرور و کیف آ سکتا ہے جو مزا مولیٰ علی نے چکھا، جو مزا سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے چکھا اور دیگر عاشقان رسول نے آپ کی مجلس میں رہتے ہوئے چکھا۔ اگر آپ حیات النبی کے قائل ہیں تو پھرفقہ اہلسنت کا اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ جو کل تک مزا تھا وہ آج بھی موجود ہے۔
جب واقعہ کربلا ہو گیا تو یزید نے اپنی فوج کو مدینے پر چڑھائی کرنے کیلئے بھیجا اور انہوں نے مسجد نبوی کی بے حرمتی کی اور اپنے گھوڑے وہاں باندھے۔ حضورؐ کے ایک صحابی مسجد نبوی کے اندر موجود تھے ، خوف کی وجہ سے وہ تین دن تک وہیں چھپے رہے ۔ مسجد نبوی میں نہ کوئی جماعت ہوئی اور نہ کوئی اذان ہوئی لیکن اُس صحابی نے بتایا کہ جب اذان کا وقت آتا تو پھر قبر انور سے اذان کی آواز آتی ، تلاوتِ قرآن کی آواز آتی ، نماز پڑھنے کی آواز آتی ۔ وہ صحبتِ مصطفی آج بھی موجود ہے بس ہمیں سیدنا امام مہدی گوھرشاہی کے عطا کردہ علم کے ذریعے اپنے نفس اور قلب کو پاک کرنا ہے اور اُس مجلس میں پہنچ جانا ہے ۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 25 اپریل 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی خصوصی نشست سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔