کیٹیگری: مضامین

دینِ اسلام میں باطنی علم کب مفقود ہوا؟

یہ عجیب دستور ہے کہ جتنا بڑا خزانہ ہوتا ہے اتنا ہی بڑا پہرہ ہوتا ہے اور رب کی طرف سے جتنی بڑی نعمت ملتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی مصیبت بھی ملتی ہے کیونکہ اللہ نے اپنی نعمتوں کے ساتھ مصیبتوں کو جوڑا ہوا ہے۔اللہ کی ذات تک پہنچنے کا راستہ آدم صفی اللہ سے شروع ہوا اور محمد الرسول اللہ پر ختم ہوگیا۔ جب نبی پاک ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تو وہ انسانیت کیلئے ایک معراج کا وقت تھا۔ نبی کریم ﷺ نے جو دینِ اسلام قائم فرمایا وہ ظاہری اعتبار سے بقیہ تمام ادیان سے ملتا جلتا ہی تھا۔ابراہیمؑ کی ملت سے وابستہ ہوکر اُسی نہج پر دینِ اسلام بھی قائم ہوا جس میں اللہ کی توحید،وحدانیت،یومِ آخرت پر ایمان اور صراطِ مستقیم شامل ہے۔ صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو انسان سے براہِ راست اللہ کی طرف جاتا ہے لیکن دینِ اسلام کے جو باطنی پہلو تھے وہ اتنے عظیم ہوئے کہ تاریخ میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دینِ اسلام کے جتنے بھی باطنی پہلو عطا کئے گئے ان میں سب سے خوبصورت پہلو اللہ تعالٰی کا دیدار کرنا ہےلیکن یہ باطنی پہلو بہت کم انسانوں کو میسر آیا اور شروع سے لے کر اب تک دینِ اسلام پر اتنے رنج والم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ عالمِ اسلام ٹوٹ پھوٹ کا ہی شکار رہا ہے۔ ارتکازکے ساتھ کبھی مسلمانوں کی توجہ دینِ اسلام کی مرکزیت پر نہیں گئی۔ جو دینِ اسلام کے ظاہری پہلو ہیں وہ ہی لوگوں کے مدِ نظر رہے۔
اللہ کی طرف سے نعمتوں کے ساتھ مصیبتیں حضورﷺ کے دور میں بھی تھیں اور حضورﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد مصیبتیں بڑھتی چلی گئیں۔ پھر جو مناظر دنیا میں دیکھے گئے جیسا کہ نبی کریمﷺ کی اہلِ بیت کے ساتھ جو ظلم اور استبداد ہوا جس کے نتیجے میں آج بہت سے فرقے بن گئے۔ مولٰی علی اور نبی پاک ﷺ کی لخت ِ جگر بی بی فاطمہ ؓ کے ساتھ جوزیادتیاں ہوئیں وہ ایک طرف تو دل کو اُداس کرنے والی داستان ہے اور دوسری طرف تعجب ،حیرت اور غصے کی صورت اختیار کرنے والی ایک کہانی ہے۔ جب نبی پاکﷺ نے اللہ تعالٰی کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کو یہ کہا کہ

قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
سورۃ الشوری آیت نمبر 23
ترجمہ:جو دین کا پیغام ،اسلام کا پیغام اور فیضِ نبوت میں تمہیں دے رہا ہوں اس کا میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ جو میری قربت ،میری اہل ِ بیت اور میری آل ہے ان سے محبت کرو۔

اس کے باوجود بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوا۔11ہجری میں حضورﷺ کا وصال ہوگیااور 61 ہجری میں واقع کربلا ہوگیا۔اس کے بعد اسلام ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا کہ جہاں سے پھر ظاہری اور باطنی علم ساتھ ساتھ نہ چل سکی۔ظاہری علم منافقوں کے قبضےمیں آگیا اور باطنی علم چیدہ چیدہ ہستیوں کے پاس رہا۔ دونوں علوم کو ایک ساتھ یکجانہیں دیکھا گیا۔ ہر دور میں کوئی ہستی سامنے آتی ہے کہ جس نے دونوں علوم کو ایک ساتھ لوگوں تک پہنچایاہےلیکن عمومی طور پر عالمِ اسلام فرقے واریت اورٹوٹ پھوٹ کا ہی شکاررہا جیسا کہ شیعہ ، سنی،وہابی،دیوبندی اوراہلحدیث وغیرہ۔ قرآن مجید نے حکم فرمایا ہےکہ

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ
سورۃ آل عمران آیت نمبر 110
ترجمہ:ہم نے تم کو بہترین اُمت کے طور پر مبعوث کیا ہے۔

آج کے دور میں وہ بہترین اُمت کا تصورآپ کو پاکستان ، ہندوستان اورسعودی عرب میں کہیں نہیں ملے گا حتٰی کہ دنیا میں کہیں بھی تلاش کریں توآپ کو نہیں ملے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ہمارےاکابرین گزرے ہیں جس میں نبی پاک ﷺ کے بلاتاخیرپیروکارہیں وہ اللہ کے رسول کے کچھ زیادہ فرمانبردار نہیں ہوئے۔اگر وہ اللہ کے رسول کےفرمانبردار ہوتے اور آپﷺ کی اطاعت کرتےتو شاید آج دنیا میں اسلام کا نقشہ مختلف ہوتا۔

انسان کی حقیقت اس کی روح میں مضمرہے:

وہ علم جس کے ذریعے اسلام افضل مذہب کہلاتا ہے اُس علم کو جب بھی کسی ہستی نے بیان کرنے کی جسارت کی ہےتو اس ہستی کو یا تو قتل کردیا گیا ہے یا اُسے ہجرت کرنے پر مجبور کردیاگیاہے جیساکہ ابوہریرہؓ نے مدینے کے لوگوں کو ایک دن یہ کہاکہ میں نے شریعت کا ایک علم توتم کو بتادیاہےلیکن اگر تم کو دوسرا علم بتاؤں توتم مجھے قتل کردو۔یہ وہی علم ہے جو آج سیدنا امام مہدی گوھر شاہی کی نظرِ کرم سے دنیا میں ہم بیان کررہے ہیں۔یہ ایسا علم ہے کہ اگر یہ علم دل میں اُتر جائے تو یہ سارے فتنوں کو مٹا دیتا ہے۔اِس علم کی کنجیاں اللہ کے پاس ہیں اور یہ علم انسان کے دل میں اُترتا ہے۔ جس کو اللہ نہیں چاہتا اس کے دل میں یہ علم داخل نہیں ہوتا۔اس علم کیلئے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ

يَهْدِي اللَّـهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ
سورۃ النورآیت نمبر 35
ترجمہ:اللہ تعالٰی جس کو چاہے گا اُسے نور کےذریعے ہدایت دےگا۔

دینِ اسلام میں علم کے اوپر بات کرنےکیلئے بڑے بڑے خطیب آتے ہیں جو لچھے دار گفتگو کرتے ہیں جن کی خوبصورت داڑھیاں،خوبصورت عمامے اورخوبصورت لباس ہیں اور اچھے تلفظ سے قرآن پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ علم جس کو نبی پاکﷺ نے علمِ نافع قرار دیا ہے اس علم سے ان خطیب کی گفتگو خالی رہتی ہے۔ایک علم ظاہر کا ہے ۔ ظاہر فانی ہے اور ظاہر کو اللہ نے نہیں بنایا۔ تم اپنی ماں کے پیٹ میں بنےہو۔ تمہارے جسم کو اللہ نے نہیں بنایا بلکہ تمہاری روح کو اللہ نے اپنے امر سے تخلیق کیا ہے۔جو چیز اللہ نے خود بنائی ہے وہ دائمی حیات والی ہے اور اس ے کبھی مرنا نہیں ہے۔ جب تم مرجاؤ گے تو تمہارا جسم مرے گا لیکن تمہاری روح نہیں مرے گی۔وہ روح جہنم میں جائے یا جنت میں جائے ہمیشہ رہے گی لیکن مرے گی نہیں۔باطنی علم تمہاری توجہ اس طرف کراتا ہے کہ جو چند سالوں کی زندگی تم جی رہے ہو اور ان جسموں سے جو عبادت کررہے ہو یہ جسم ختم ہوگیا تو تمہاری عبادت بھی ختم ہوجائے گی۔اگر تم اپنی روحوں کو اللہ اللہ میں لگالو تو روح کبھی نہیں مرے گی اس لئےیہاں بھی اللہ کی بندگی میں رہے گی اور جسم سے نکل کر بھی اللہ کی بندگی میں ہی رہے گی۔

لطیفہ نفس کا انسانی دماغ پر قبضه:

عالمِ ظاہر کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ انسان کے اوپر جوسب سے بڑا غلاظت کا بار پڑا ہوا ہے انسان اس غلاظت اور شیطانیت سے بے خبر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیدا ہوتا ہے ۔صحابہ اکرامؓ نے پوچھاکہ یا رسول اللہﷺ!کیا آپ کے ساتھ بھی پیدا ہوا تھا؟آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں میرے ساتھ بھی پیدا ہواتھا لیکن وہ میری صحبت میں پاک ہوگیا۔ جب تک اس شیطان جن کو پاک نہ کریں تو ہمارا دل، جسم اور دماغ شیطان کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ دین اسلام کو سمجھنے اور اللہ سے تعلق جوڑنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں اپنے جسم،قلب اور دماغ کو شیطان کے قبضے ،شکنجے اور قید سےآزاد کرنا پڑے گا۔ لیکن شیطان نے تمہیں کہا ہے کہ امامہ باندھو،داڑھیاں رکھو اور تم دیکھتے ہوکہ امامہ باندھنے سے اور داڑھی رکھنے سے بھی چور چوری کرتا ہے۔اس کے باوجود بھی تمہارا دھیان امامے اور داڑھیوں میں ہے کیونکہ شیطان نے تمہاری عقل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔جو لطیفہ نفس کیلئے نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہےکہ

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا
سورۃ الکھف آیت نمبر 28
ترجمہ:اورایسے لوگوں کی اطاعت نہ کرنا جن کے قلب کو ہم نے اپنے ذکرسے غافل کر رکھا ہے۔

آپ کو کیسے پتہ چلا گا کہ کسی کا قلب غافل ہے یا اللہ کا ذکر کر رہا ہے کیونکہ آپ کا تو اپنا دل اللہ کے ذکر سے غافل ہے۔جب یہ تعلیم پھیلائی جاتی ہے جس سے قلب زندہ ہوتا ہےتب سارے فرقے مل کر ہماری مخالفت کرتے ہیں ۔ انسان کے جسم میں جو ناف ہے اس ناف کے اوپر ایک شیطانی مخلوق ہے جس کو لطیفہ نفس کہتے ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ لطیفہ نفس شیطانی جن ہےجس کا قد انسان کا آدھا ہوتا ہے۔لطیفہ نفس کے پاؤں ہماری ناف پر ہوتے ہیں اور اس کا اثر ہمارے دماغ تک جاتا ہے۔ہمارے دماغ میں لطیفہ انا ہوتا ہے جس سے ہم سوچتے ہیں۔انسان میں کل سات لطیفے ہوتے ہی لطیفہ انا،لطیفہ روح،لطیفہ اخفٰی،لطیفہ قلب، لطیفہ خفی ،لطیفہ سری اورلطیفہ نفس۔ یہ سب لطیفہ نفس کی قید میں ہیں۔آپ کا دماغ بھی نفس کی قید میں ہے لہٰذا عقل بھی آپ کی رہنمائی نہیں کرے گی۔آج کے دور میں جو غیر مسلم داڑھی رکھتے ہیں وہ مذہب کی وجہ سے نہیں رکھتے ہیں بلکہ شوقیہ رکھتے ہیں۔اگر کوئی کام اچھا ہو تو پھر وہ آپ شوقیہ کریں یا کسی اور نیت سے کریں لیکن اس کا فائدہ ہونا چاہئے۔اگر داڑھی رکھنے سے فائدہ ہوتا تو پھر غیر مسلموں کے دل میں بھی بھلائی آتی لیکن شیطان نے جو آپ کے اوپر قبضہ کیا ہوا ہے وہ آپ کو سمجھنے نہیں دیتا۔ہم دنیا کے کاموں میں بہت سمجھدار ہیں اور ہم نےدنیا میں بہت سی ایجادات کرلیں لیکن جب انسان مذہب کیلئے اپنی عقل استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان ہماری عقلوں کو پکڑ لیتا ہے۔ جس انسان کا دماغ اور قلب لطیفہ نفس کے قبضے میں ہو اور آپ اس کو اپنا خطیب اور امام بنا کرممبر رسول پر بٹھا دیں تو پھر وہ آپ کے ایمانوں کو تباہ کر دے گا۔ آج کے دور میں جس کا جی چاہتا ہے وہ درسِ نظامی کرکے مسجد میں امام لگ جاتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے علماء کے بارے میں فرمایا تھا کہعلماء من صدریکہ میری اُمت کے عالم وہ ہوں گےجن کو میرے سینے کا فیض ہوگا۔تم کتابیں پڑھ کر امام بن گئے لیکن تم نے تزکیہ نفس تو کیا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نےقرآن مجید میں تزکیہ نفس کے بارے میں آیا ہےکہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
سورۃ الاعلی آیت نمبر 14
ترجمہ:کامیاب وہ ہوگا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا۔

جو آج مختلف فرقے بن گئے ہیں جس کی وجہ سے مولوی مختلف کہانیاں سنا رہے ہیں یہ ان کے اندر جو شیطان موجود ہے وہ شیطان ان کو دماغ میں سوچیں پیدا کرتا ہے۔لیکن جن کے قلب میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو اس ذکر کے ذریعے شیطان کا قبضہ دماغ سے ختم ہوجاتا اور ناف پر سے بھی شیطان کا قبضہ اللہ کے ذکر کی برکت اور نور سے ختم ہوجاتا ہے۔پھر ایسے لوگوں کی پیروی کرنے سے ہمیں دین کی صحیح فہم وادراک میسر آتی ہے جن کی عقلوں پر اور دلوں پر ذکرِ قلب سے شیطان کا قبضہ ختم ہوجاتاہے۔ہم لوگوں کی داڑھیاں ناپتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اس عالم نے کتنی کتابیں پڑھی ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان عالم نے تزکیہ نفس کیا ہے یا نہیں۔ ہم ایسا اس لئے نہیں کرتے کیونکہ ہماری عقلوں اور دلوں پر بھی شیطان کا قبضہ ہے۔جب بھی تم دین سمجھنا چاہو گے اوراللہ سے پیار کرنا چاہو گے تو شیطان تمہاری عقل کو چلنے نہیں دے گا کیونکہ شیطان کا تمہاری عقل پر قبضہ ہے۔شیطان کا قبضہ ہٹانے کیلئے ہمیں اپنے لطیفہ قلب میں اسمِ اللہ کا نور لانا ہو گا جو پھر نس نس میں جائے گا اور شیطان کے قبضے کو کاٹ دے گا۔

نمازِصورت کیا ہے؟

نمازلطیفہ قلب کی بیداری کے بغیر نہیں ہوتی ہے۔بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ تیرا دل کھلانڈا منڈے کڑیاں تو سجدے کریں مسیتی ۔قرآن مجید میں ہے کہ

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
سورۃ العنکبوت آیت نمبر 45
ترجمہ:نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔

اب وہ مولوی جو بیس سال سے نماز پڑھا رہا ہے اور مسجد میں لونڈے بازی بھی کرتا ہے۔اس کو نماز نے برائی سے کیوں نہیں روکا؟ جو امام صاحب بیس سال سے نماز پڑھا رہا ہے اس کو نماز نے برائی سے نہیں روکا تو جو اس امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں وہ برائی سے کیسے رکیں گے۔نماز کے بارے میں حضورﷺنے فرمایا کہ

لا صَلوةَ اِلاّ بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ
ترجمہ:قلب کی حاضری کےبغیر نماز نہیں ہوتی۔

نماز اس وقت برائیوں سے روکتی ہے جب دل میں اللہ کا نور آجائے۔جب تمہارے دل میں اللہ کا نور نہیں تھا بلکہ تم ریاکاری کررہے تھے اور لوگوں کو دکھانے کیلئے سجدے کررہے تھے ۔لوگ سجدے کر کرکے پیشانی پر کالا نشان بنا لیتے ہیں لیکن جب کچھ بیچیں گے تو ملاوٹ کریں گے اور بے ایمانی کریں گے۔پھر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس کی پیشانی پر سجدوں کی مہراب بن گئی تو وہ جنتی ہے۔جس طرح تمہاری پیشانی سجدوں سے کالی ہوگئی اسی طرح گناہوں اور ریاکاری سے تمہارا دل بھی کالا ہوگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں نماز جیسی کوئی عبادت نہیں اُتری لیکن آپ یہ سوچیں کہ جب تم کوئی اہم کام کرنا چاہو گے تو تمہاری یہ کوشش ہوگی کہ یہ کام ادھورا نہ رہ جائے۔اس لئے نمازجو کہ اللہ نے مومنین پر فرض کی ہے اور اگر ساری زندگی نماز پڑھتے رہےلیکن ایک نماز بھی اللہ تک نہ پہنچی تو پھر تمہارا یومِ محشر میں کیا حال ہوگا ۔تمہارا سارا دھیان اس بات پر ہے کہ وضو سہی ہوجائے اور نیت کرکے مسجد میں کھڑے ہوجائیں اور نماز میں سورتیں ، رکوع اور سجود صحیح ہوجائےاور پھر آپ نے سمجھا کہ آپ کی نماز مکمل ہوگئی لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ
سورۃ الماعون آیت نمبر6-4
ترجمہ:ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کی جو نماز کی حقیقت سے غافل ہیں اور صرف ریاکاری کررہے ہیں۔

نمازِحقیقت کیا ہے؟

نماز کی حقیقت یہ ہے کہ زبان اقرار کرے ، جسم عمل کرے اور دل تصدیق کرے۔زبان ذکرِ مفصل میں ہے اور دل ذکرِ مجمل میں ہے یعنی دل اللہ اللہ کرہا ہے۔جب اقرار،عمل اور تصدیق مل گئے تو یہ مومن کی نشانی ہے کیونکہ زبان سے اقرار کیا تو کفر ٹوٹ گیاکہ

کافروں کی زبان اقرار نہیں کرتی۔جسم سے عمل کیا تو فسق ٹوٹ گیا کہ فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے

اور جب دل سے اللہ ھو کی صدا آئی تو نفاق بھی ٹوٹ گیا کہ منافقوں کے دل تسلیم نہیں کرتے۔ یہ تین چیزیں نمازِ حقیقت کی پہچان ہے۔تم کو جو مولوی نماز پڑھنے کی پٹی پڑھارہے ہیں وہ نماز میں زبان کا اقرار اور جسم کا عمل ہے۔اس نماز میں دل کی تصدیق کا عمل نہیں ہے۔تمہیں یہ خیال نہیں آئے گا کہ میری نماز قبول ہو رہی ہے یا نہیں کیونکہ تمہارے دماغ پر شیطان کا قبضہ ہے۔جب آپ کو کھانسی یا نزلہ ہوتا ہے تو آپ کو خیال آتا ہے کہ آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں تاکہ آپ دوائی لے لیں۔بیمار کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ میں دوائی کھاؤں اور اسی وقت ٹھیک ہو جاؤں۔ لیکن اگر تم ایک ہفتے تک دوائی کھاتے رہے اور آرام نہ آیا تو تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ گے کہ یہ کیسی دوائی دی ہے جس سے آرام نہیں آیا ہے اس لئے میری دوائی تبدیل کرو۔ اورقرآن میں کہہ دیا ہے کہإِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِکہ نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکتی ہے۔ لیکن جب تم ساری زندگی نماز بھی پڑھ رہے ہواور نماز پڑھنے کے باوجود تم رشوت بھی لیتے ہو اور بے ایمانی بھی کرتے ہو۔جب تمہیں نزلہ اور بخار ہوا اور دوائی سے آرام نہیں آیا تو تم فوراً ڈاکٹر کے پاس گئے لیکن تمہیں نماز کے وقت خیال کیوں نہیں آرہا کہ مجھے اتنا عرصہ نماز پڑھتے ہوگیا اور پھر بھی میں برائیوں میں ملوث ہوں۔یہ اس لئے ہے کہ ہم دین کو دین نہیں سمجھ رہے بلکہ بوجھ سمجھ رہےہیں۔ہمارا سارا دھیان داڑھیوں اورعماموں پر ہے۔یہ باتیں تلخ اس لئے ہیں کہ ان باتوں سے ہماری نیتوں کا فتور سامنے آتا ہے۔جن کو واقعی رب کی محبت چاہئے ہوتی ہے تو ان کو یہ باتیں اچھی لگتی ہیں اور جن لوگوں کی درویشی اور امامت خطرے میں پڑھتی ہے تو وہ کہیں گے کہ یہ کفر ہے۔

تزکیہ نفس اور اصلاح قلب:

آج کے دور میں اگر ہم اپنے آپ کو اُمت کہہ دیں تو کونسا فرقہ اُمت کہلائے گا؟ ہر فرقہ خود کو اُمتی کہتا ہے لیکن ہر فرقے کا مختلف دین ہے۔ ان تمام فرقوں کو ختم کرنے کیلئے ہمیں آپﷺ کی نصیحت پر عمل کرنا ہے۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ

الا وان فی الجسد مضغتہ، اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ،الا وہی القلب
ترجمہ:تیرے جسم میں گوشت کا ایک ایسا لوتھڑا ہے کہ اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو پورے جسم کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اگر وہ ہی فساد میں مبتلا ہو تو تمہارا پورا جسم فساد میں مبتلا رہے گا۔ یاد رکھ وہ تیرا قلب ہے۔ِ
رواہ البخاری فی کتاب الایمان، باب فضل من استبراً لدینہ1 /28[52]

ہم داڑھی رکھنے پر اور نماز پڑھنے پر بہت زور دیتے ہیں لیکن ہم اپنے دلوں کی اصلاح پرزور نہیں دیتے کیونکہ یہ مولویوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ دلوں کی اصلاح کیلئے ولی بھیجتا ہے اور انہی کو داتا ،خواجہ اور غوث ِ اعظم کہا گیا جنھوں نے اپنی نظروں سے لوگوں کے دلوں پر اسمِ اللہ نقش کردیا اوراُنکی نظروں سے لوگوں کے دل اللہ کے ذکرسے آباد ہوگئے۔ہر دین کی اصل یہ ہے کہ پہلے تیرا نفس پاک ہو تاکہ تم شیطان کے قبضے سے پاک ہوجائے اور پھر دل پاک ہو تاکہ تمہارا سارا جسم اللہ کے قبضے میں آجائے۔جب تمہارے دل میں اللہ کا نور آگیا اور اللہ سے تعلق جڑ گیا تو اس کے بعد اللہ نے کہا کہ اب میں تمہاری ہدایت کا ذمہ دار ہوں۔اس کیلئے قرآن مجید کو بھی یہ کہا گیا

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر2
ترجمہ:جب تم پاک ہو جاؤ گے تو تب یہ قرآن تمہیں خود ہی ہدایت دینا شروع کردے گا۔

اور جب ہم داڑھی رکھتے ہیں ،عمامہ باندھتے ہیں اورآنکھوں میں سرما بھی لگاتے ہیں لیکن پھراللہ تعالٰی نے فرمایا کہ

اِنَ اللہ لَا یَنظُراِلَا صُورَکُم وَ اَعمَالَکمُ وَلاَ کِن یَنظُر اِلَا قُلوبِکمُ وَ نیِاتَکُم
ترجمہ:اس وقت اللہ اعمال اور شکل کو نہیں بلکہ دلوں اور ان میں بسی نیتوں کو دیکھتا ہے۔

جس کو دنیا دیکھتی ہے اس میں خوبصورت داڑھی اورعمامہ ہے تو دنیا تم سے متاثر ہوگئی ۔لیکن اللہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور تمہارے دلوں میں شیطان ہے تو اللہ تم سے بے زار ہوگیا۔دنیا میں تم عالمِ دین مشہور ہوگیا اوراللہ کے ہاں تم جاہل مشہور ہوگئے۔یہ کتنا بڑا دھوکہ ہوگیا۔اسی دھوکے کیلئے اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تم اپنے دلوں کو پاک صاف کرو اور چمکاؤکیونکہ وہ تمہاری شکلوں کو نہیں دیکھتا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ

لكل شيء صقالة، وإن صقالة القلوب ذكر الله
بحوالہ الوابل الصيب من الكلم الطيب
ترجمہ:ہر چیز کو دھونے کا کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہےاورقلب کی صفائی ذکر اللہ میں ہے ۔

دل کے اندر اللہ کا ذکر کیسے جائے گا یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کیونکہ اس کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔پھر یہ اللہ کا ذکر دل میں کیسے جائے گا ؟ سلطان باھو نے کہا:
نظر جنہاں دی کیمیا ہووے سونا کردے وٹ
اللہ ذات کر یندایٔ کیا سیّد تے کیا جٹ

جن کی نظروں کو کیمیا گری عطا ہوگئی وہ پتھر پر نظر ڈال کر سونا بنا دیتے ہیں اور مردہ دل پر نظر ڈالیں تو اللہ ھو کے ذکر سے دل کو زندہ کر دیتے ہیں۔ایک دفعہ صحابہ اکرام ؓ حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور امتوں کا ذکر ہورہا تھا کہ عیسٰیؑ کے حواری کیسے تھے۔پھر ابراہیم ؑ کے حواریوں کا ذکر ہوا اوراس کے بعد ایک جلیل القدر صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ امام الانبیاء ہیں تو اسی نسبت سے ہم صحابی ہیں تو ہم بھی افضل ہوگئے۔اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اندر جو بہترین لوگ ہیں وہ وہ ہیں کہ جن کو دیکھنے سے دلوں میں اللہ کا ذکر شروع ہوجائے۔قرآن مجید میں انھی لوگوں کے بارے میں کہا کہ یہ بہترین اُمت ہے۔بھلے وہ اُس دور کے ہوں یا کسی اور دور کے ہوں۔پھر صحابہ اکرام ؓ نے پوچھا کہ ان لوگوں کو دیکھنے سے ذکر اللہ کیسے شروع ہوگا؟آپﷺ نے فرمایا کہ میری اُمت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالٰی نے ذکر کی کنجی بنایا ہے۔ایک ولی اللہ ہوتا ہے اور ایک ذکر کی کنجی ہوتی ہے۔ ذکر کی کنجی وہ ہوتی ہے کہ جس کا پورا وجود ذکر کی کنجی ہے۔اس کے کپڑے کو بھی سونگھ لو توتمہارا ذکر جاری ہو جائے گا۔وہ عام ولی اللہ نہیں ہوتے بلکہ وہ ولی اللہ نے اگر زمین پر تھوکا اور تم نے چاٹ لیا تو ذکر ِ قلب شروع ہوجائے گا۔ جیسا کہ سلطان حق باھو کے دور میں ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے۔ اور سلطان صاحب جب گلیوں میں چلتے تو ہندو ان سے ڈرتے تھےکیونکہ جو بھی سلطان باھو کے سامنے سے گزرجاتاتو اس کا دل اللہ اللہ کرنا شروع کردیتا۔ ایک دن سلطان صاحب کو بخار ہوگیا تووہاں حکیم ہندو تھا۔سلطان باھو کا کوئی چاہنے والا حکیم کے پاس گیا اور کہا کہ چلو کوئی بیمار ہے۔ ہندو نے کہا کہ اس کا نام بتاؤ۔جو ہندو حکیم کے پاس گیا تھا اس نے کہا کہ باھو۔ ہندو نے کہا کہ میں نہیں جاؤں گا کیونکہ اگر میں وہاں گیا تو مسلمان ہوجاؤں گا۔پھرسلطان کے چاہنے والے نے کہا کہ یہ تمہارا فرض ہے کیونکہ تم حکیم ہو۔ہندو نے کہا کہ تم سلطان باھو کا پہنا ہوا کپڑا لے آؤجس کو میں سونگھ کر دوائی دے دوں گا لیکن میں اس دیکھنے نہیں جاؤں گا۔وہ بندہ سلطان باھو کا کُرتا لے آیا اور جب ہندو نے اس کو سونگھا تو اس کے دل میں اللہ اللہ شروع ہوگیا۔ان کی ذات ذکر کی کنجی ہوتی ہے۔بلھے شاہ نے بھی فرمایاہے کہ
کرلے دل دی صفائی جے دیدار چاہیدا
تو جہاں توں کی لینا تینو یار چاہیدا

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ تمہیں برا بھلا کہتے ہیں تو تمہیں لوگوں سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ اگر تمہیں یار چاہئے تو دل کی صفائی میں لگ جاؤ۔ دل کو اللہ اللہ میں لگا لواور جب دل میں اللہ اللہ ہونا شروع ہوجائے گا تو وہ نور شیطان کو باہر نکال دے گا۔اگر تمہارے مرنے سے آدھے گھنٹے پہلے بھی دل کی صفائی ہوگئی توپھر تم نے دو رکعت نماز بھی پڑھی تو اللہ کے ہاں تمہارا نام مکمل نمازی کے طور پر لکھا جائے گا۔ایسی نماز جس میں زبان کا اقرار، جسم کا عمل اور دل کی تصدیق شامل ہو۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ اللہ نے حضورﷺ کو کہا کہ کہہ دیجئے قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ کہ اللہ ایک ہے۔آپﷺ نے کہا کہ آمین اور پھر آپﷺنے صحابہ کو کہا کہ کہہ دو اللہ ایک ہے۔جنہوں نے مانا وہ مومن ہوگئے ، جنہوں نے نہیں مانا وہ کافر ہوگئے اور جنہوں نے حیل وحجت کی وہ منافق ہوگئے۔اب تم ہر نماز میں کہتے ہو کہقُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌکہ اللہ ایک ہے۔تم اپنے دل کو کہتے ہو کہ کہہ دو اللہ ایک ہے اور دل کہتا ہے کہ بیوی بیمار ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا دل حیل وحجت کررہا ہے یعنی تمہارا دل منافق ہے۔اس لئےجو پہلا قدم ہے وہ دل کو پاک کرنا ہے۔جب اس دل میں اللہ کا نور آگیا اور تم مومن بن گئے تو پھر تم نمازیں پڑھو گے تو تمہاری نماز سیدھی اللہ کے پاس پہنچے گی۔عربیوں نے جب اسلام قبول کیا تو صحابہ اکرام کو کہنے لگے کہ ہم مومن ہوگئے ہیں۔پھر اللہ تعالٰی نے فوراً آیت نازل کی۔

قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَـٰكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ
سورۃ الحجرات آیت نمبر 14
ترجمہ:عربی کہہ رہے ہیں کہ ہم مومن ہیں۔یا رسول اللہ ﷺ! ان کو کہہ دو کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ یہ کہو کہ تم ابھی مسلمان ہوئے ہواور ایمان تمہارے قلب میں داخل نہیں ہوا ۔

ہماری اُمت بھی صرف مسلمان ہوئی ہےاور مسلمان ہونے کے بعد مومن بننا تھا لیکن ہماری اُمت مومن بننے کی بجائے شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی اوراہلحدیث بن گئی ہےکیونکہ مومن بنانا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ تعالٰی نے فرمایا

وَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ
سورۃ التغابن آیت نمبر 11
ترجمہ:اور جو بھی ایمان والا بنے گا تو اللہ اس کے قلب کو ہدایت دے گا۔

جب ہم کہتے ہیں کہ دل کو اللہ اللہ میں لگاؤ تو لوگ کہتے ہیں کہ نمازیں کون پڑھے گا اگر صرف دل کو اللہ اللہ میں ہی لگانا ہے۔ہم دل کو اللہ اللہ اس لئے سکھا رہے ہیں تاکہ تمہاری نمازیں عرشِ الٰہی تک پہنچیں۔اس دل کی حاضری کے بغیر تمہاری نمازیں اللہ تک نہیں پہنچیں گی۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 11فروری2019کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس