کیٹیگری: مضامین

دنیا بھر میں کرسچین دسمبر کے مہینے میں کرسمس مناتے ہیں لیکن ان کو یہ نہیں معلوم کہ جو ان کا عقیدہ ہےکہ عیسیٰ کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا،ان کے نبی عیسٰی نے سولی پر اللہ کو جان کیوں دی؟ نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کوسولی پر کن لوگوں نے چڑھایا ؟ کوئی بھی خود بخود یا اپنی خوشی سےسولی پر نہیں چڑھتا ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن میں ارشاد ہوا کہ

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ، بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ
سورة النساء آیت نمبر 157
کہ نہ ان کو قتل کیا گیا نہ سولی پہ چڑھایا گیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور ان لوگوں کے لیے وہاں ایک شک چھوڑ دیا۔

وَمَا قَتَلُوهُ نہ ان کو قتل کیا گیاوَمَا صَلَبُوهُ نہ ہی ان کو صلیب پر چڑھایا گیا ۔اس کے بعد اللہ نے کہا ولكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وہاں شک چھوڑ دیا ۔یعنی اللہ نے وہاں جس شک کو چھوڑا تھا ، لوگ لکیر کے فقیر ہیں قرآن اٹھایا پڑھ لیا غور نہیں کرتے کہ عیسی علیہ السلام کے لیے تو اللہ کہہ رہا ہے کہ وہ قتل بھی نہیں ہوئے، صلیب پر بھی نہیں چڑھے تم کو شبہ یا شک ہوا ہے۔وہ شک کیا تھا؟ اس شک کو جاننا اتنی آسان بات نہیں ہے ، کاش قرآن مجید نے اس بات کو کھول کر بیان کیا ہوتا!! لہذا اس بات کو سمجھنے کےلئے اس واقعہ کے پس منظر میں جانا ہوگا۔

قرآن اور بائبل کے مفہوم میں ردوبدل :

جو مذاہب میں خلیج پیدا ہونےکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کے اللہ کا وہ کلام جو دونوں ادیان کو ملتا ہے ایک کتاب میں اللہ جو کچھ کہتا ہے دوسری کتاب اس کی نفی کرتی ہے لہذا ایک ہی اللہ کے ماننے والے اور اس پورے سسٹم کو ماننے والے جس کے تحت اللہ نے مختلف مرسلین اور انبیاء کرام کو بھیجا ہے جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔پہلے بائبل کی بات کرتے ہیں ۔ بائبل کے بارے میں مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ اس میں بہت زیادہ ردو بدل ہو گیا ہے۔کسی عالم سے پوچھا تمہارے پاس ردو بدل کی جانچ پڑتال کرنے کا کوئی طریقہ ہے ؟ ان کا جواب ہوتا ہے سب سے بڑی کسوٹی قرآن ہے ، بائبل میں جو بات قرآن کے خلاف جائے گی وہ ردو بدل ہی ہوگا۔ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر قرآن اور بائبل ایک جیسی کتابیں ہوتیں توبائبل،بائبل نہ ہوتی وہ بھی قرآن ہی کہلاتی۔ مسلمان علماء کا خیال ہے کہ کوئی بھی بات جو قرآن کی مطابقت میں نہیں ہے وہ غلط ہے۔ جو باتیں اللہ نے بائبل میں کہی ، مسلمان ان کو مانتے ہی نہیں کہ یہ بات اللہ کی ہو سکتی ہے کیونکہ ان کے قرآن میں وہ نہیں ہیں لہذا اِس بات کو وہ ردو بدل ہی سمجھتے ہیں ۔ اگر بائبل کو قرآن کی مطابقت میں ہی ہونا تھا تو قرآن کو بائبل سے پہلے آنا چاہیے تھا تاکہ بائبل اس کی مطابقت میں اترتی۔ بائبل قرآن کی مطابقت میں کیسے ہو سکتی ہے جبکہ بائبل پہلے آئی ہے۔ہمارے دلائل سن کر لوگوں کی ہوائیاں اڑ جاتی ہیں لاجواب ہوکر گالیوں پر اُتر آتے ہیں ۔
مثال کے طور پر آپ مجھ سے بڑے ہیں تو یہ تو کہا جا سکتا ہے میں آپ کے جیسا ہوں یہ نہیں کہہ سکتے آپ میرے جیسے ہیں کیونکہ آپ پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔جو باتیں اللہ نے بائبل میں کہی ہیں جب مسلمان یہ دیکھتے ہیں کہ یہ باتیں تو قرآن میں نہیں ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ ردو بدل ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے ، بائبل، بائبل ہے، قرآن ، قرآن ہے ۔ جہاں تک ردو بدل کا تعلق ہے ،توردو بدل تو ہوا ہے۔ دنیا میں انسان اتنی بڑی بلا ہے کہ دو دن میں ہر بات کو بدل دیتے ہیں۔ بات نہیں بدلیں گے تو مفہوم بدل دیں گے۔ امام جعفر صادق کا ایک قول ہے امام مہدی کا چہرہ چاند میں چمکے گا۔ جب امام مہدی سیدنا گوہر شاہی کا چہرہ چاند میں چمکتا ہوا نظر آیا اور نشان دہی کردی گئی تو ہم نے اپنے سامنے دیکھا کہ شیعہ حضرات نے امام جعفر صادق کے اس قول میں ہی تبدیلی کر دی اور کہا کہ اس کا مطلب ہے امام مہدی کا چہرہ چاند کی مانند چمکتا ہوگا۔مسلمان ایسی قوم ہے جسے اللہ کے کلام میں ردو بدل کرنے سے ڈر ہی نہیں لگتا، اللہ کے کلام میں ردو بدل نہیں کریں گے تو اس کے مفہوم میں ردو بدل کردیں گے۔

توسل یا وسیلہ :

یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وسیلہ عام اردو بول چال میں استعمال ہوتا ہے جبکہ اچھی اردو میں وسیلہ کو توسل کہیں گے اور انگریزی میں وسیلہ کو Intermediation کہتے ہیں ۔
قرآن میں تو صاف صاف آیا

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 35
ترجمہ : اے مومنو اللہ سے ڈرو اور تلاش کرو اس کی ذات تک پہنچنے کےلئے کوئی وسیلہ۔اور جب وسیلہ مل جائے تو اس کے راستے میں جدوجہد کرو ۔

تقریبا تمام وہابی عالموں کا خیال ہے کہ وسیلے سے مراد عبادت ہے۔ جبکہ وسیلہ کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے ، اس طرح جان بوجھ کر مسلمانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔یہ وہابی ایسے لوگ ہیں ان کو کچھ کہنا بھینس کے آگے بین بجانا ہی ہے۔ سانپ تو بین سے مست ہو جائے گا لیکن بھینس مست نہیں ہوگی۔ یہ ہی حال ان لوگوں کا ہے ان کو کھول کھول کر حقیقت بتائی جائے لیکن یہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
سورۃ البقرہ آیت نمبر 18
ترجمہ : یہ اندھے بہرے گونگے ہیں ، لہذا یہ کبھی بھی ہماری طرف مائل نہیں ہوں گے۔

ان لوگوں نے قرآن مجید کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ قرآن کی ایک اور آیت ہے

قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 15
ترجمہ : لوگو ! ہم نے بھیجا تو ہے اپنا نور اور کتاب مبین

اب اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر ہوا ہے ۔اگرآیت قد سے شروع ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی عبارت کو شہ سرخی سے شروع کریں ، یعنی جب اللہ کسی آیت کوقد سے شروع کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ بات بڑی توجہ طلب ہے اللہ تاکید فرما رہا ہے ۔بلکہ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ہم جتانے کے لیے کبھی تو الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اورکبھی کبھی ہم لہجے سے وہ کام لے لیتے ہیں ۔جیسے ہم اکثر کہتے ہیں ہو سکتا ہے بارش ہو جائے چھتری لے جاؤ، اگر آپ نے چھتری نہیں لی اور بارش ہوجائے تو کہیں گے میں نے کہا تھا نا چھتری لے جاؤ۔یہ ہم نے اپنے لہجے سے جتایا ہے۔یہی چیز یہاں پر ہے یعنی تاکید کی جا رہی ہے۔ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ کہ لوگو ہم نے بھیجا تو ہے اپنا نور اور کتاب مبین ۔ ایک عرصہ تک سوچتے رہے کہ یہاں دو چیزوں کا ذکر ہے ، (نور اور کتاب) ۔پھربعد میں پتا چلا کہ یوں تو یہ دو چیزیں ہیں لیکن ایک ہی مقام پر دونوں چیزیں موجود ہیں اور وہ مقام سینہ مصطفی ہے۔اب جو یہاں پر کہا جا رہا ہے مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وہ کیوں کہا؟
ایک تو ہے اسم ذات اللہ کے نام کا نور اور کچھ اس کی صفات کا نور ہے۔قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ کا مطلب اس کی ذات سے اس نے نور کا کچھ حصہ بھیجاہے۔ یہ دراصل طفل نوری کی طرف اشارہ ہے کیونکہ طفل نوری اللہ کی طرف سے آیا ہےاور كِتَابٌ مُّبِينٌ یہ تعلیمات فقر کی جانب اشارہ ہے۔ وہ تعلیمات فقر اس طفل نوری کے اندر ہی ہے نا۔
اللہ نےقرآن کو کبھی قرآن حکیم کہا، کبھی قرآن مجید کہا، کبھی قرآن مبین کہا، اس کی کیا وجہ تھی ؟اللہ ایک ہی قرآن کو مختلف ناموں سے یاد نہیں فرما رہے بلکہ یہ مختلف تحریروں کا ذکر ہے ۔

  • قرآن الحکیم : قرآن کا وہ حصہ جس میں حکمت ہے اس کو قرآن الحکیم کہا جاتا ہے ۔
  • قرآن مجید   : قرآن کا وہ حصہ جس میں باطنی تعلیم ہے اس کو قرآن مجید کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام جو تجھے بزرگ بنائے گا۔
  • قرآن مبین   : قرآن کا وہ حصہ جس میں وہ تعلیم ہے جو انسانوں کو چمکا دے، جو سینوں کو مہکا دے ، اور وہ تعلیم تعلیمات ِ فقر ہے۔

حضور کے دور کا واقعہ:

ایک شخص بھاگا بھاگا آیا جب آپ نے پوچھا اتنی تیزی سے کیوں بھاگے آ رہے ہو تواس شخص نے کہا میں آپ سے محبت کرنا چاہتا ہوں ، کیسے کروں ؟ آپ نے فرمایا تعلیمات فقر کو اپنی چادر بنا لے۔اس تعلیم فقر کے لیے آپ کی حدیث ہے۔

الفقر و فخری والفقر و منی
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔

یہ تعلیمات فقر کسی اور کو نہیں ملی اسی لیے اس پر فخر ہے۔فقر کیا ہے؟ اللہ کے علاوہ آپ کے اندر باہر کچھ نہ ہونا۔با الفاظ دیگر ہم عام زبان میں فقیر اُسکو کہتے ہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ بھیک مانگ رہا ہو، جو تہی دامن ہو ، کوئی مال و متاع نہ ہو ۔ روحانیت میں فقیر کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس اللہ کے علاوہ اندر کچھ نہیں ہے۔اب حضور نے فرمایا الفقرو فخری یعنی میرے پاس اللہ کی ذات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اللہ نے مختلف انبیاء کو مختلف چیزیں دیں کسی کو طاقت ،کسی کو صبر، کسی کو بے پناہ حسن ،کسی کو بے شمار دولت دی۔لیکن مجھے اللہ نے یہ دیا کے میرے اندر سوائے اللہ کچھ نہیں ہے ۔نا غیر اللہ ہےنا صفات اللہ ہے۔ وہ چیز تب فقر کہلائے گی جب صرف ذات کا نور ہو ۔ اگر اندر ذاتی نور بھی ہے اور صفاتی نور بھی تو فقیر نہیں ہے۔ صفاتی نور بھی اگر ہو تو وہ عالم حق ہے۔والفقرو منی اسی لئے فرمایا کہ یہ تعلیمات فقر میری وجہ سے ہے کیونکہ اللہ تعالی نے حضور میں جو نور مجسم طفل نوری کی صورت میں رکھا ہےاُس سے یہ تعلیم نکلی ہیں ۔لوگوں کی سمجھ میں توقرآن آیا نہیں لہذا اپنی مرضی کے ترجمے کیے اور مفہوم بدل دئیے۔ جیسا کہ اس آیت کا مفہوم بدل دیا ۔ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ۔
اتنی صاف اور واضح آیتوں کے بعد بھی آج کا وہابی، دیوبندی حضور کو نور کہنے کو بدعت کہتا ہے کہ حضور تو میری تیری طرح کےانسان ہیں ۔جبکہ یہ توقرآن میں لکھا ہے ۔یہی چیز بائبل کے لیے ہے اور بائبل کیا ، بائبل سے ہٹ کر بھی جو عیسیٰ کے فرمودات ہیں گمراہ ہونے کے لیے ان کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ بہت سے لوگ آئیں گے جو عیسیٰ ہونے کا جھوٹا دعوی کریں گے ان کی مت سننا وہ سب گمراہ ہوں گے۔اب عیسی کو آئے ہوئے بھی بیس سال ہو گئے ہیں لیکن ان کی ہمت نہیں کہ دنیا کے سامنے آ کر کھڑے ہوجائیں اور کہیں میں عیسیٰ ہوں ۔

And He said, “See to it that you are not misled; for many will come in My name, saying, ‘I am He,’ and, ‘The time is near’ Do not go after them” Luke 21:8

سن 2000چیری ہل نیو جرسی امریکہ میں ٹیلیویژن اور اخبارات میں آیا کہ Philadelphia کے ایک اسپتال میں ایک شخص مریضوں کے سامنے اچانک ظاہر ہوتا ہے ان پر پھونک مارتا ہے وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں، جب تک وہ دم کر کے غائب ہو جاتا تھا تو سب کہتے تھے یہ عیسیٰ ہوں گے ۔ایک دن لوگوں کو وہ سامنے چلتا ہوا نظر آگیا ، جب پوچھا تم عیسیٰ ہو تو اس نے کہا ہاں میں عیسیٰ ہوں ۔ پھر لوگوں نے اس کو خوب مارا کہ یہ جھوٹا ہے اپنے آپ کو عیسیٰ کہہ رہا ہے ۔یہ توانسانوں کا حال ہے۔انسان کی فطرت میں ہے کہ اگر رب بھی زمین پر آ کر کہہ دے میں اللہ ہوں تو اس کو کہیں گے تو اللہ کیسے ہو گیا ، کیا ثبوت ہے کے تم اللہ ہو، اگرعیسیٰ علیہ السلام یہ کہہ دیں کہ میں عیسیٰ ہوں تو کون مانے گا!!!
سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا ٹی وی وہ پر جو واقعہ دکھایا جا رہا ہے وہ عیسیٰ نہیں ان کا ایک جسّہ ہے۔عیسیٰ نے اپنا ایک جسّہ پہلے بھیجا تاکہ دیکھ لیں اس کا کیا حال ہوتا ہے۔چلو وہ تو دشمن تھے جنہوں نے صلیب پر چڑھایا تھا ،لیکن تم عیسائی تو ماننے والے ہو اب تو تم نے مارا ہے عیسیٰ کو۔یہ دنیا کسی کی نہیں ہے تم نے تو اپنا پیٹ پالنا ہے ،جائیدادیں بنانی ہیں ، عیاشی کرنا ہے ۔ جاب مل گئی تو جاب کریں گے ، جاب نہیں ملے گی تو مسجد، مندر ،گرودوارے، گرجا گھر ، معبدے سب کو تجارت کا اڈہ بنا دیں گے۔کوئی اہل بیت کو بیچے گا ،کوئی صحابہ کو بیچے گا ،کوئی حضور کی ناموس بیچ دے گا اور کوئی اللہ کو بیچ کر کھا جائیگا۔ یہ مخلوق سدھرنے والی نہیں ہے۔ یہ مخلوق ایسی ہے کہ تمام خواہشات پوری ہو بھی جائیں اور کسی چھوٹی سی خواہش کے پورا نہ ہونے پر اللہ کو کہے گی تم نے مجھے کیا دیا ہے، کتنے عرصہ سے دعائیں مانگ رہا ہوں ؟ انسان کو کبھی بھی خوش نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اللہ تمہاری ہربات مان لے تو وہ تو تمہارا غلام ہو جائے گا تم حکم دو گے اور وہ سر ہلائے گا ۔اگر تمہاری ہر دعا ہر بات پوری کر دے گا تو پتا کیسے چلے گا آقا کون ہے اور غلام کون ہے ۔ پھر تو ایسا لگے گا کہ امرکن آپ کے ہاتھ میں ہے اور معاذ اللہ، اللہ آپ کا نوکر ہے۔

عیسی کو صلیب پر چڑھانےوالے او ر جو مصلوب ہوا وہ کون تھا؟

عیسیٰ کا صلیب پر چڑھانے کا واقعہ بائبل میں کیسے ہو گا کیونکہ اس وقت تک تو بائبل پوری آچکی تھی اور قرآن میں اس کی واضح اور صاف تشریح نہیں ہے۔ صاف تشریح نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجید میں عیسی کے بارے میں یہ تو لکھا ہے کہ نہ عیسیٰ کو قتل کیا گیا نہ کسی نے ان کوصلیب پرچڑھایا ،لیکن قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ عیسی کو صلیب پر چڑھانے والے کون تھے اور وہ کون تھا جس کو مصلوب کیا گیا تھا ؟ وہ رومنز تھے ان کی وہاں حکومت تھی ، رومنز دین دار نہیں تھےان کو پرواہ نہیں تھی۔یہ جو یہودی علماء تھےانھوں نے ان کو بہکایا کہ یہ اپنے آپ کو مسایا کہتا ہے۔ رومنز کو یہ معلوم تھا کہ مسایا ان کی سلطنت کو گرادے گا ان یہودیوں نے رومنز کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ رومنز نے جب عیسیٰ سےپوچھا کیا تم عیسی ہو؟ تو عیسیٰ علیہ السلام نے کہا اس سے پوچھو جس نے مجھے بھیجا ہے۔رومنز تیار ہی نہیں تھے کہ اِن کو صلیب پر چڑھائیں، ایک اور رومن جو چور اچکا اور زانی تھا اس کو صلیب پر چڑھایا جانا تھا۔اس زمانے میں صلیب بڑی مضبوط تیار کی جاتی تھی اس میں کیلیں ٹھونکی جاتی تھیں ۔اس تیاری میں وقت لگتا تھا ، پہلے سے طے تھا کہ اتنے بندوں کو صلیب پر چڑھانا ہے ان میں سے اس چور اچکے کو چھڑوا کر عیسیٰ کو بھرتی کروا لیا گیا ۔

یہودیوں کو عیسیٰ سے کیا پریشانی تھی؟

جس بات کے لیے ہم نے اتنی تمہید باندھی ہے وہ بات اب شروع ہو گی کہ یہودیوں کو عیسیٰ سے مسئلہ کیا تھا؟
عیسیٰ علیہ السلام جس زمانے میں تشریف لائے وہ یحیی علیہ السلام کا آخری دور تھا، انکا وقت آنے والا تھا ۔ یحیی علیہ السلام کو یہ John the Baptist کہتے ہیں ۔یحیی علیہ السلام زکریا علیہ السلام کے بیٹے ہیں ۔ زکریا علیہ السلام کی خاصی عمر ہوچکی تھی۔ جبرائیل نے ان کو بشارت دی کے آپ کے یہاں بیٹا ہو گا تو یہ بڑے پریشان ہوئے کے ہم دونوں اتنے بوڑھے ہیں اب اولاد کیسے ہو سکتی ہے۔ جبرائیل نے ڈانٹ کر کہا اللہ آپ سے ڈیمانڈ نہیں کر رہے بلکہ اللہ حکم دے رہے ہیں ،کیونکہ یہ ان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اللہ کے اختیار میں ہے ۔زکریا یہ سن کر بہت نادم ہوئے۔ جب ان کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی جس میں اللہ نے اپنی محبت کا ایک حساس حصہ ڈال دیا ۔ اب ان کو ہر وقت یہ ہی خطرہ لاحق رہتا کہیں اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔جب زکریا اپنے واعظ میں عذاب قبر کا ، قیامت کا ذکر کرتے تو یحیی علیہ السلام بہت روتے تھے۔تو انہوں نے قسم کھا لی اب یحیی کے سامنے اس قسم کی بات نہیں کریں گے، یحیی چھپ چھپ کرواعظ سنتے اور بہت روتے تھے ۔ایک مرتبہ اسی قسم کا خوف خدا پر واعظ سنا اور روتے روتے جنگل میں کہیں دور نکل گئے، جب زکریا ان کو ڈھونڈنے نکلے تو ایک چرواہے نےکہا میں نے آپ کے بیٹے کو تو نہیں دیکھا لیکن ایک بچہ یہاں سے روتا ہوا گزرا ہے اور پتا نہیں کیا وجہ ہے اس وقت سے میری ساری بکریاں بھی رو رہی ہیں ۔

رونے کے بارے میں ایک باریک نکتہ:

ایک رونا تو وہ ہے جب آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور آپ ندامت سے رب کی بارگاہ میں روئیں ۔ اس آنسو سے آپ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔اور ایک رونا ندامت کا نہیں بلکہ تقوے کا ہے۔ اس خوف کا ہے کہ کہیں کوئی غلط کام نہ ہوجائے وہ رونا آپ کی اُمت کے گناہوں کو بخش دیتا ہے ۔ندامت کا رونا آپ کے گناہوں کو اور تقوے کا رونا آپ کی اُمت کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔جب یحیی علیہ السلام کے پاس لوگ آتے تھے تو یہ اپنی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو ان پر چھڑکتے تھے جس سے ان کے گناہ معاف ہو جاتے تھے۔ اس بات کو تبدیل کر کے عیسائیوں نے Baptism کا عمل بنا دیا کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس پر پانی ڈالو ، پانی ڈالنے سے وہ پاک ہو جائے گا۔
وہ پانی تو یحیی علیہ السلام کی آنکھ سے گرا پانی تھا جس سے لوگ پاک ہوتے تھے۔یحیی علیہ السلام نے عیسیٰ علیہ السلام کو Baptised کرنا تھا ،اب عیسیٰ کے کیا گناہ تھے؟ جب یحیی نے آپ کو آواز دی اور وہ آ کر کھڑے ہوئے تو یحیی نے دونوں ہاتھ جوڑے اور کہا آپ مجھ پر کرم فرما دیں ۔یحیی بھی عیسی علیہ السلام کی نظروں میں آ گئے جس کا لوگوں نے کچھ اور مطلب سمجھا کہ عیسیٰ ساری دنیا کو نوازتے ہیں لیکن عیسیٰ نے تو خود کو Baptised ہی نہیں کروایا۔یحیی نے کیا ہی نہیں کیونکہ نبیوں کے تو گناہ ہوتے ہی نہیں ہیں جو وہ یحیی سے اپنے گناہ معاف کرواتے۔یہ ذہن میں رکھ لیں کے اللہ کا قانون ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے، اس کے گناہ نہیں ہوتے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ نبی کوئی گناہ کرے۔ جب نبی معصوم ہوتا ہے تو رسول تو نبی سے بھی بڑا ہوتا ہے اور عیسی علیہ السلام تو رسول ہیں ۔
یہودیوں کو عیسیٰ سے پریشانی وہاں سے شروع ہوئی جب وہ گناہ گار لوگوں کو سزائیں دیتے تھے ۔ جیسے فی زمانہ سعودی عرب والے چوروں کے ہاتھ کاٹ دیتے ہیں، زانی کو سنگسار کرتے ہیں اور بہت لوگ اس کو ظلم سمجھتے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام بھی یہ ہی کہتے تھے، جب موسی کے دور میں کسی زانی کو سزا دینا ہوتی تھی تو اس کو سنگسار کر کے مارتے تھےاورعیسیٰ علیہ السلام تو اس سے منع کرتے تھے۔تو وہ لوگ کہتے تھے ہم تو موسی کی شریعت پر عمل کر رہے ہیں تم شریعت کے کام میں مداخلت کر رہے ہو۔ یہ تو موسی اور ابراہیم کی شریعت ہے ۔اس وجہ سے انہوں نے عیسیٰ کو نبی نہیں مانا کہ اگر یہ بھی نبی ہوتے تو کسی دوسرے نبی کے کام میں مداخلت نہیں کرتے۔ہماری بات کوئی عالم مسترد نہیں کر سکتا لیکن حمایت بھی نہیں کرسکتا کیونکہ ہم کلمہ حق لا الہ الا ریاض کی بات کرتے ہیں اور اس پر وہ ہمیں کافر کہتے ہیں ۔
جس طرح مسجد میں جا کر نماز ادا کرنے کا اجر گھر میں نماز ادا کرنے سے زیادہ ہے ۔اسی طرح موسی اور ابراہیم علیہ السلام کے امتیوں نے اپنی لو ان سے لگا لی اور گرجا گھر اور چرچ بنا لیے جن کو وہ Temple of God کہتے تھے۔یہ انہوں نے اپنی گدی اور عمارت بنائی ہوئی ہے جہاں جا کر عبادت کرتے ہیں ۔عیسیٰ علیہ السلام ان سے کہتے کہ یہ عمارت تو تم نے اپنے ہاتھوں سے مٹی اور گارے سے بنائی ہے یہ خدا کا گھر کیسے ہو سکتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی عمارت میں خدا کو ڈھونڈ رہے ہو، بے وقوفو! خدا کا گھر تو تمہارا دل ہے ۔تو وہ کہتے ، یہ بات تو ہم کو ابراہیم اور موسی نے سکھائی ہے تم کون ہوتے ہو ہم کو اس سے روکنے والے ۔تو عیسی کہتے تمہیں پتا ہی نہیں ہے میں کون ہوں ، جو میں کہہ رہا ہوں وہی رب کہہ رہا ہے۔
نہ ابراہیم اس قابل تھے، نہ موسی اس قابل تھے جو بات آج میں کہہ رہا ہوں۔ اور جو میں کہہ رہا ہوں یہ بات اس سے پوچھو جس نے مجھے بھیجا ہے ۔عیسیٰ علیہ السلام کی ان ہی باتوں کی وجہ سے انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو ابراھیم اور موسی علیہ السلام کا گستاخ قرار دے دیا۔
لیکن جب یہ دیکھا کہ عیسیٰ اندھوں کو دم کریں تو دیکھنے لگ جاتے ہیں، لنگڑوں کو دم کرے تو چلنے لگ جاتے ہیں تو بڑے پریشان ہوئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات و کرشمات کو دیکھتے ہوئے خود ہی ایک بہتان گڑھ لیا کہ یہ اپنے آپ کو مسایا کہتا ہے۔اس طرح یہودی علماء نے رومنز کے کان بھرے اور عیسی کو سولی پر چڑھانے کی کاروائی کی۔ یہ الگ بات ہے جب صلیب پر لٹکنے کی باری آئی تو اللہ نے ان کو زندہ جسم سمیت اپنی طرف اٹھا لیا ۔ نہ تو ان کی تلوار ان کے جسم تک پہنچی ، نہ صلیب پر لٹکنے کی نوبت آئی بلکہ ان کے نفس کا جسّہ جو ان کا ہم شکل تھا،وہ صلیب پر چھوڑ دیا۔

متعلقہ پوسٹس