کیٹیگری: مضامین

معراج پر نبی کریم ﷺ کا جسم اطہر سمیت اللہ کا دیدار:

نبی پاکﷺ کی جو عظمت ہےوہ تمام انبیا ئے اکرام کے اُوپر ایک واضح اِمتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ جو روحانی طاقت اور جو قُربِ اِلٰہی اور جو تعلق باللہ نبی کریم ﷺ کو عطا ہوا اُس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔مُو سٰی ؑ نے بڑی درخواست کی اﷲکی بارگاہ میں کہ وہ اﷲکا دیدار کر لیں لیکن وہ خواہش پوری نہیں ہوئی لیکن نبی کریم ﷺ نےنہ صرف یہ کہ آپﷺ نے اﷲ تعالٰی کا دیدار کیابلکہ اﷲتعالٰی نے آپﷺکوجسم سمیت اپنے پاس بُلا لیا۔جولوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ روحانی معراج تھی وہ قرآنِ مجید کے علم سے نا واقف ہیں کیونکہ جب معراج کا ذکر قرآن میں آیا ہے تو نبی پاکﷺ کے لیے اﷲ تعالٰی نے لفظ” عبد” استعمال فرمایااور عبد کامعنٰی ہے رُوح اور جِسم کا مرکب۔ تو اﷲ تعالٰی نے وہاں ارشاد فرمایا ہےکہ

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
سورة الاسراء آیت نمبر 1

تو معراج کا جو سفر ہے وہ نبی کریم ﷺ کا جو جسمِ مبارک ہے اُس کی لطافت کی گواہی دیتا ہے۔اور جو قرآنِ مجید میں اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ
سورة الکہف آیت نمبر 110

اب اس آیت کی مزید تشریح کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یا رسُول اﷲﷺ کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح کا انسان ہوں بلکہ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ میں تمہارے لیے مثالی بشر بنا کے بھیجا گیا ہوں۔ مثالی جیسے ماڈل ہوتا ہے جیسے کوئی بڑی عمارت بنتی ہے تو پہلے اس کا ماڈل بنا کے رکھ دیتے ہیں کہ یہ عمارت بنے گی۔ اب اگر آپ یہ سمجھیں کہ نہیں حضور ﷺ معاذاﷲ ثم معاذاﷲ ہماری طرح کہ انسان تھے تو پھر بتائیے آپ کہاں حضورﷺ کے برابر ہو سکتے ہیں ۔آپﷺ تو عرشِ الٰہی تک جسم سمیت ہو کر آگئےاورآپ ایک اِنچ اُڑ کر دِکھا ئیں۔ دنیا میں کتنے بڑے بڑے اولیا ۓ اکرام ،انبیا ۓ اکرام آئے ہیں، کیا کسی کو یہ طاقت حاصل ہوئی کہ وہ اﷲ کے پاس جسم سمیت ہو کر آجائے لیکن نبی کریمﷺ کےلیے اﷲتعالٰی نے یہ خصوصیت عطا فرمائی۔ اب اس جہانِ کثیف سے جہانِ لطیف میں سفر کرنا اور پھر جہانِ لطیف سے لاہُوت لامکاں اور ہاہویت اور اس کے بعدمقامِ وحدت اور پھر اُس مقام پر پہنچ جانا جہاں اﷲ کی ذات ہے اور یہ سارا کا سارا سفر جسمانی طور پر ہو تو شاید ہم اندازہ لگانے کے بھی قابل نہیں ہیں کہ نبی کریم ﷺکے جسم کی لطافت کا معیار کیا ہوگا۔ آپﷺ کے جسمِ اطہر کی لطافت کا معیار کیا ہوگا کہ جہاں روح پَر نہیں مار سکتی ہے وہاں آپﷺ کو اﷲتعالٰی نے جسم سمیت بلالیا۔اور پھر وہاں اﷲتعالٰی نے جب ذکر فرمایا کہ نبی پاکﷺ نے آیاتِ کبریٰ دیکھی تو یہاں آکرکے جو علماءِاکرام ہیں وہ پھنس جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آیتِ کبریٰ، بڑی اﷲکی نشانیاں دیکھیں یہاں اس سے مُراد یہ نہیں ہے کہ اﷲکو دیکھا، یہاں آکر وہ کہتے ہیں کہ اﷲ کا دیدار اُن کو نہیں ہوا ۔جب اﷲکا دیدار ہوا نہیں ہے تو پھر معراج شریف کا فائدہ کیا ہے ۔عرشِ الٰہی پر جائیں اور دیدار نہ ہو تو پھرجانے کا فائدہ کیا ہے ! جب عرشِ الٰہی پر پہنچ گئےتو پھر وہاں اﷲ تعالٰی کی آواز آتی ہے کہ یارسول اﷲﷺ ذرا توقف فرمائیےمیں اس وقت حالتِ صلوةمیں ہوں۔ معراج شریف صرف نبی کریمﷺ کی معراج نہیں تھی بلکہ آپﷺ کی اُمت میں جتنے فُقراء ، اولیاءِاورکاملین تشریف لائے ہیں، جوجو بُرگزیدہ ہستیاں آئی ہیں ، اُن تمام کو معراج حضور ﷺکے صدقے میں عطاہو گیٔ۔

نبی کریمﷺ کا دیدار الہی لقاباللہ کی کامل صورت:

مختلف روایات میں آتا ہے کہ جب آپﷺ جبرائیل امین کے ساتھ عالمِ جبروت پہنچ گئے، بیت المعمور میں آپﷺ نے نماز پڑھائی سب کواور اُس کے بعد جو آگے کا سفر ہوا اس میں جبرائیل ساتھ نہیں تھے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ غوثِ اعظمؓ کی جو روحِ پُرنور ہے وہ حاضر ہوئی اور آپﷺ نے اُس پر سواری کی۔اب آپ یہاں پر غور فرمائیے کہ حضور پاک ﷺ کے جسمِ مبارک کی لطافت کا کیا عالم ہو گا کہ آپﷺ نےوہاں سے آگے کی جو سواری کی ہے وہ سیدنا غوثِ اعظم ؓ کی روحِ مبارک پر سوارہوئےہیں اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ اے عبدالقادر ! میرا قدم تیرے کاندھے پر اور تیرا قدم میری اُمت کے تمام ولیوں کے کاندھے پر ہو گا اورپھر آپﷺ چلے گئے۔ نبی پاکﷺ کی جو معراج ہےاور اس میں آپ ﷺ کوجو دیدار ہوا ہے وہ آپﷺ کو تین جہتی دیدار ہوا ہے کیونکہ دیدارِ الٰہی طریقت میں تصوف میں تین طریقوں سے ثابت ہے۔
۱۔ عام ولیوں کو دیدار ہوتا ہے لطیفہ انا کے ذریعے ، جب لطیفہ انا تیار ہو جاتا ہے تو مرشد لطیفۂِ انا کو مراقبتہ الموت کے ذریعے لطیفۂِ روح اور لطیفۂِ انا دونوں کو ملا کر مقامِ محمود پر لے جاتا ہے پھر مقامِ محمود پر لطیفۂِ انا کھڑا ہو کر اﷲ کا دیدار کرتا ہے۔یہ وہ طریقہ ہے جس کے اوپر امام ابو حنیفہ ؓکو اﷲ کا 99مرتبہ دیدار ہوا، یہ لطیفۂِ انا کا دیدار کا طریقہ ہے۔
۲۔ دوسرا دیدار کا طریقہ ہے طفلِ نوری کے ذریعےجوکہ فقیروں کے لیے ہے۔نبی پاکﷺ نے فرمایا اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقَرُ مِنِّیْ کہ فقر میرا فخر ہے یعنی تعلیماتِ فقر میرے لئے باعثِ صدافتخار ہیں اور وَالْفَقَرُ مِنِّیْ اور فقر مجھ سے ہے۔ اس سے پہلے آیا نہیں دنیا میں تو حضورﷺ کی ذات سے ایک خصوصیت تو یہ جڑ گیٔ کہ جو تعلیماتِ فقر ہیں یہ حضورپاک ﷺ سے اس کی ابتدا ہوئی ہےاس سے پہلے فقر نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو اور مزید عظمت بڑھ جاتی ہے کہ جب حضور ﷺنے فرمایا کہوَالْفَقَرُ مِنِّیْ کہ فقر مجھ سے ہے تو اگر پہلے بھی آیا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺکے آنے سے پہلے ہی آپﷺ کی تعلیمات جو ہے وہ لوگوں کو سیراب کر رہی تھی ۔
۳۔ جب آپﷺ تشریف لے گئے ہیں وہاں تو لطیفہ انا کے ذریعے دیدار ہوا جس کا علم صرف نبی کریمﷺ کو اللہ تعالی نے عطا فرمایا تھا۔ سلطان الفقراء طفلِ نوری کے ذریعے ہوش و حواس میں دیدار کرتا ہے اُس سے بھی دیدار ہوا اور اُس کے بعد جثہ تو فیق الٰہی کے ذریعے مراقبے میں دیدار ہوتا ہے وہ دیدار بھی ہوا تو تین مختلف زاویوں سے نبی کریم ﷺ کو دیدارِ الٰہی میسر آیااور یہ لقاباللہ کی کامل صورت ہے ۔ کسی نے جثہ توفیق الٰہی کے ذریعے مراقبے میں دیدار کیا ، سلطانوں نے ہوش و حواس میں طفلِ نوری کے ذریعے دیدار کیا اور جو ہمارے علماءِ ربّانی، علماءِ اکابرین گزرے ہیں ظاہری اور باطنی تعلیم کے جوحسین امتیاز جیسے داتا علی ہجویریؒ ہیں امام ابو حنیفہ ہیں اور خواجہ معین ا لدین چشتی ، نظام ا لدین اولیاء ہیں ، یہ ظاہروباطنی علماءبھی تھے۔اِن کے پاس شریعت کا علم بھی تھا باطنی شریعت کا علم بھی تھا طریقت کا علم بھی تھا جیسے بلاول شاہ نورانی ہیں ان کو ا ﷲ کا دیدار ہوا ہےلیکن

“نبی پاکﷺکو جو دیدار ہوا ہے وہ درجہٴ کمال تک پہنچ گیاکہ ہر وہ تین طریقے دیدارِ الٰہی کے جس سے دیدار ہو سکتا ہے وہ تینوں کے تینوں طریقہ ہائے دیدارِ الٰہی ایک مقام ایک نقطہ محمدﷺپر مجتمع ہوگئےاور سہہ جہتی دیدارِ الٰہی میسر آیا،تو یہ جو خوبی نبی پاکﷺکے حصے میں آئی اِس کی کوئی نظیر نہیں ہے”

نبی کریمﷺ کی ذاتِ اطہر حادث اور قدیم نور کا امتزاج:

نبی کریمﷺجب معراج پر اﷲکے سامنے روبروآئےہیں تو ایک نئی چیز ہوئی۔اب وہ نئی چیز کیا تھی؟جب اﷲتعالٰی نے اظہار کیاتو جو اﷲ کی صفات مشتہر ہوئیں ،جو اﷲتعالٰی کی صفات کا اظہار ہو گیا وہ حادث کہلائیں اور جو اﷲکی ذات ہے وہ قدیم کہلائی۔تو جتنے بھی پیغمبر آۓاُن کو صفاتی اسماء عطا ہوئے،صفاتی نور عطا ہوا،سارے کے سارے پیغمبروں کو حادث صفات اور حادث نور میسر آیا۔ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبروں میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا کہ جس کو اﷲکی قدیمی صفت میسر آئی ہویا قدیمی نور میسر آیا ہولیکن جب آپﷺوہاں تشریف لے گئےہیں تو پھر حادث نور نہیں ،حادث صفات نہیں بلکہ اﷲکی جو ذاتِ قدیم ہے اُس کے روبروآگئے۔محمدالرسول اﷲﷺاور ذاتِ قدیم کی انواروتجلیات جب حضورپاکﷺ کے جسم کے آرپارہوئی ہیں تو رہی سہی کثافت جو ہو سکتا ہے زمین پر آنے کی وجہ سےآگیٔ ہو وہ ساری کثافت دُور ہوگیٔ اور آپﷺایسے لطیف ہو گئےکہ جب مڑ کر زمین پر آئے تو دھوپ میں چلنے لگے تو سایہ نہیں تھا ،وہ جو خون تھا جو پیدا ہوئے انسانی گھرانے میں جو آپکی والدہ ماجدہ کا خون آپ کی رگوں میں شامل ہوا ،دائی حلیمہ کا دودھ آپ کی رگوں میں شامل ہوا جب مصطفی ﷺ معراج پر پہنچے ،ذاتِ قدیم کی تجلیات جسمِ اطہر کے آرپار ہوئیں،دائی حلیمہ کا دودھ بےاثر ہو گیا آمنہؓ کا خون بھی بےاثر ہو گیا ،اب ذاتِ مصطفیﷺسراسر قدیم اورحادث نور کا مجسم ہو گیٔ ،سراپا حادث اور قدیم دونوں کا حسین امتزاج ہوگیٔ،اب ذاتِ مصطفی ﷺ لافانی ہو گیٔ،اب اﷲاور محمدکہنا ایک جیسا ہو گیا۔إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ اتنا عطا کریں گے تجھے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر‏اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاَبتَرُ ہم نے تو تجھے عاشقوں کے خون کا تالاب اور نہریں عطا کی ہیں جہاں سارےکے سارے عشاق آپ کے اپنے جگر کا خون بہا ئیں گے اور تیرے رب کا چہرہ تکیں گے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 25 اکتوبر 2018 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کئے گئے سوال کے جواب سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔

متعلقہ پوسٹس