کیٹیگری: مضامین

انسان فرشتوں سے افضل کیسے ہوا؟

جسطرح ہمارے جسم کے اندرخون ہے اُس خون کے اندر سُرخ خلیے ہیں جن کو (red germs) کہتے ہیں اور جب آپ ذاکرِ قلبی بنتے ہیں اور آپ کے دل کی دھڑکنوں میں اللہ کا نام گھونجنے لگتا ہے اوراُس کی تکراراوررگڑا لگتا ہے اوراُس سے نوربنتا ہےتوپھروہ نورخون میں شامل ہوجاتا ہے۔ جب خون میں نورشامل ہوجاتا ہےتوخون کےاندرجوجرثومے ہیں خلیے ہیں اُن میں الہی توانائی آجاتی ہے۔ ایک برقی طاقت اُس میں داخل ہوجاتی ہےاوراُس نور کے آجانے سے جوخون میں موجود سُرخ خلیے ہیں وہ بھی ذکراللہ کرنا شروع کردیتےہیں۔ انسان کےجسم میں ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ نےفرمایا ہےکہ جب تیرے دل نےایک دفعہ اللہ ھو کہا تو تمہیں ساڑھے تین کروڑ اللہ ھو کہنے کا ثواب ملےگا۔ وہ اس لئے کیونکہ تمہارے جسم میں ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں اور جب دل نے ایک دفعہ اللہ کہا تو ساڑھے تین کروڑ آوازیں اُدھر بھی گھونجی۔ پھرسلطان حق باھو نے کہا ہے کہ تمہیں بہترہزاراللہ ھو کا ثواب اورملے گا۔ یہ اس لئے کیونکہ تمہارے جسم میں بہترہزارمسام ہیں جہاں سے پسینہ آتا ہے۔ دل نے ایک دفعہ اللہ ھوکہا تو بہترہزارآوازیں یہاں سے بھی گھونجی۔ ایک دفعہ دل کے اللہ ھو کہنے کا ساڑھے تین کروڑ کا ایک ثواب، بہتر ہزار قرآن پڑھنے کا الگ ایک ثواب اوردل ایک دن میں ستراسّی ہزار اور سوا لاکھ تک پہنچ جاتا ہے تو اب سوا لاکھ کوساڑھے تین کروڑ سے ضرب دو توکتنا نور ہوجائے گا۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
خودہی کوکربلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے کہ بتا تیری رضا کیا ہے

حضرتِ انسان یہاں تک پہنچ سکتا ہے لیکن فرشتے یہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ ایک دفعہ حضور پاکؐ قبرستان سے گزرہے تھے اور صحابہ اکرام ساتھ تھے توصحابہ اکرام نے دیکھا کہ حضورؐ ناراض ہوگئے ہیں اورپھر رورہے ہیں۔ پھرتھوڑی دیر بعد ایک کبوتراُڑتا ہوا آیا اوراُس نے قبرستان میں زمین پرکوئی چیز پھینک دی تو اُس کے بعد حضورؐمسکرانے لگے۔ پھرصحابہ اکرامؓ نے وجہ پوچھی توآپؐ نے فرمایا کہ جب میں قبرستان میں داخل ہوا تومجھے نظرآیا کہ مُردوں کے اوپراللہ کا عذاب ہورہا ہے تواُس کی وجہ سے میں روپڑا۔ پھرایک کبوترآیا اور اُس کبوترکی چونج میں ذاکرِقلبی کی ایک ہڈی تھی۔ جب کبوترنے وہ ہڈی قبرستان میں گرائی تواُس کی برکت سے سارے مُردوں پرسے عذاب دور ہوگیا تویہ میری اُمت کے موٴمن کا کمال ہے۔ اگرتم ذاکرِ قلبی بن جاوٴگے اور تم مرنے والے کی قبر پرجاکے فاتحہ پڑھ دے اوریہ کہے کہ اے اللہ! میں نے اپنے قلب کے پانچ منٹ کا ذکراورنور اِس کو ایصال کیا تواُس کی توشفاعت ہی شفاعت ہوگئی کیونکہ تمہارا دل ایک دفعہ اللہ کہتا ہے توتمہیں بہترہزار قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے اور پھر پانچ منٹ میں تو دل کئی ہزار دفعہ کہہ گیا ہوگا۔ اگر ایک منٹ کے اندر تم لاکھوں قرآن کا ثواب کسی کوبخش دے گا توپھراُس میت کا کیا حال ہوگا! موٴمن کےخون میں جوسُرخ خلیے ہوتے ہیں اُن کی معراج یہ ہےکہ وہ اللہ اللہ میں لگ جاتے ہیں۔

جرثومہٴِ الہی کیا ہے؟

اللہ کے وجود میں بھی ایک مادہ ہے لیکن وہ خون نہیں ہے کیونکہ خون توناپاک ہوتا ہے۔ عام آدمی کا خون ناپاک ہے لیکن جب نور مل جائے تو پھر پاک ہوجاتا ہے۔ اللہ کے وجود میں بھی ایک مادہ ہے جو سفید رنگ کا ہے۔اللہ کے وجود میں جو سفید مادہٴِ نور ہے اُس نورکے اندر بھی جرثومے ہیں۔ وہ جو اللہ کے جسم میں جرثومے ہیں اگر اللہ چاہے تو کسی ایک جرثومے کو باہر نکالے اور جیسے ہی وہ باہرنکلتا ہے تو وہ ایک روح کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ جب وہ روح کی شکل اختیارکرگیا تو اب وہ ایک روح بن گیا۔ کیا یہ مخلوق ہے! نہیں کیونکہ یہ توموجود تھا۔ جو باہر نکل کرروح بن گیا ہے، یہ تواُس وقت بھی جرثومے کی صورت میں اللہ کے جسم میں دوڑ رہا تھا جب اللہ تعالی چُھپے ہوئے خزانے میں موجود تھے۔ یہ جرثومہ اُس وقت بھی اللہ کے جسم میں دوڑ رہا تھا کہ جب اللہ تعالی عالمِ غیب میں تھے اورباہرآئے ہی نہیں تھے۔

اللہ تعالی کی ذات عمل تولید سے مبرا ہے:

قرآن مجید نے کہا ہے قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ کہ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے۔ اللَّـهُ الصَّمَدُ کہ نہ کہوتواُس کوپرواہ بھی نہیں ہے۔ یہ اُس کا معنی ہےجواللہ لیتا ہے لیکن تم صمدیت میں گھسے رہو۔ تمہارے کہنے سے وہ اللہ نہیں ہے بلکہ اللہ تواللہ ہی ہے۔ کوئی ایک بھی آدمی اللہ کا نام نہ لے تواللہ کی شان میں کیا فرق ہوگا! اللہ کی شان توتبدیل نہیں ہوگی۔ اگرتم اللہ اللہ کروگےتوتم اپنی بھلائی کیلئے کروگے۔ اللہ تعالی نے توکبریائی کی چادر اوڑھی ہوئی ہے لیکن بہت مشکل سے اللہ نے کہاکہ کہہ دواللہ ایک ہے کیونکہ اللہ کسی سے نہیں فرماتا کہ یہ کہویا وہ کہو لیکن اُس نے کہہ دیا کہ اللہ ایک ہے اور پھر فوراً کہا کہ اللَّـهُ الصَّمَدُ کہ لیکن یہ یاد رکھنا کہ اگرنہیں کہوگےتومجھے فرق نہیں پڑے گا۔ صمد کا مطلب ہے بے پرواہ۔ تم اللہ اللہ کرو گے تو تمہارے لئے بہتر ہے اوراگر نہیں کرو گے توتم جہنم میں جاوٴگے۔ تم نمازیں پڑھتے ہوتوتمہارے لئے بہترہےاوراگرتم نہیں پڑھو گے تواللہ کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑےگا۔ ایک آدمی بھی اگرنماز نہ پڑھے تواللہ کوکوئی فرق نہیں پڑےگا۔ لَمْ يَلِدْ کہ اُس کو کسی نےجنا نہیں وَلَمْ يُولَدْ اورنہ اُس کوکسی نےجنا ہے۔ یہاں پرطریقہٴِ تخلیق کا انکار ہورہا ہے کہ اُس کوکسی نے جنم نہیں دیا اورنہ اُس نے کسی کوجنم دیا ہے جسطرح انسانوں کے یہاں تولیدی نظام ہوتا ہے، مرد اورعورت ملتے ہیں، عورت حاملہ ہوتی ہے، نومہینے بچہ پیٹ میں پلتا ہے، اُس کے بعد پھربچہ ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور یہ عملِ تولید کہلاتا ہے۔ جننے کا عمل یعنی نہ اُس کوکسی نے جنا ہے، نہ اُس نے کسی کوجنا ہے، نہ وہ خود عملِ تولید کی پیداوارہے اورنہ ہی اُس نے اپنی مخلوق عملِ تولید کے زریعے بنائی ہے۔ جب اللہ کسی کوتخلیق کرنا چاہتا ہے توکہتا ہےکہ ہوجا اوروہ ہوجاتی ہے کیونکہ اُس کوکسی عمل کی حاجت نہیں ہے۔ وہ اِن تمام ضروریات سے پاک ہے۔ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ کہ یہ جتنے بھی ہیں ان میں سے کوئی بھی اُس کا ہم پلہ نہیں ہے۔ اُس جیسا اور اُسکا ہمسرکوئی نہیں ہے۔ یہاں اللہ تعالی نے اُس عمل کا انکار کیا ہے کہ نہ اللہ کوکسی نےجنا ہے اور نہ اللہ کسی کوجنم دیتا ہے۔ اس آیت کویہاں پیش کردینا زیادتی ہوگی کہ تم کیسے کہہ رہے ہوکہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے!

اسلام میں منہ بولے بیٹے کا تصور:

اب جیسے زید بن حارث جو تھے وہ خدیجة الکبریؓ جو حضورؐ کی محبوب ترین زوجہِ محترمہ تھیں، زید بن حارث خدیجة الکبری کے غلام تھے۔ جب حضورؐ کی شادی ہوگئی تووہ ساتھ آگئے۔ حضورؐ کی شفقت اورمحبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ اُس کوبیٹوں کی طرح چاہتے۔ زید بن حارث بھی حضورؐکو باپ کی طرح چاہتے۔ حضورؐ نے اُن کوبیٹا ہی کہنا شروع کردیا تھا اور وہ حضورؐ کو باپ سمجھتا۔ پھر حضورؐ نے زید بن حارث کی اپنی کزن سے شادی کروادی۔ جب شادی ہوگئی توزید بن حارث اوراُنکی بیگم کی کافی ان بن رہتی۔ اب چونکہ حضورؐ نے شادی کروائی تھی توزید بن حارث برداشت کرتے لیکن پھرایک دن ایسا آیا کہ وہ برداشت نہیں ہوا اور طلاق ہوگئی۔ جب طلاق ہوگئی توزید بن حارث کی جوبیوی تھیں وہ حضورؐکے پاس آگئیں اورکہنے لگیں کہ میں نے آپ سے نکاح کرنا ہے اور حضورؐ خاموش تھے۔ حضورؐ کے ذہن میں یہ باتیں گردش کررہیں تھی کہ میرے منہ بولے بیٹے کی متعلقہ سے شادی کیسے ہوسکتی ہےاوردنیا کیا کہے گی! اس منہ بولے بیٹے کے رشتے کی اہمیت کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالی نے وحی نازل فرمائی کہ

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
سورة الاٴحزاب آیت نمبر40
ترجمہ: تم میں جتنے بھی مرد ہیں محمد الرسول اللہ کسی کے باپ نہیں ہیں اور وہ صرف خاتم الرسول ہیں۔

جب یہ معاملہ ہوگیا تو یہاں سے اسلام میں منہ بولے بیٹے کی اہمیت ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے ہوا کرتی تھی لیکن آپؐ نے بیٹا توکہا تھا۔ اب بتائیے کہ جب حضورؐ نے زید بن حارث کواپنا بیٹا کہا توآپ کویہ بات توسمجھ میں آجاتی ہے کہ شفقت و محبت میں بیٹا کہا اورآپؐ کا وہ حیاتیاتی بیٹا نہیں تھا اور نہ ہی آپؐ اُس کے حیاتیاتی باپ تھے لیکن شفقت و محبت کے اعتبار سے جو سلوک تھا اُس کو بیٹا ہی سمجھتے۔ اگرحضورؐ نے ایسا کیا ہےتو اللہ بھی کرسکتے ہیں کہ کوئی اُس کا حیاتیاتی بیٹا نہ ہو اور وہ انہیں پیارومحبت سے بیٹا مخاطب کردیں۔ پھرجب اُس کے بعد تکنیکی مسائل آجائیں تو پھراللہ کوکہنا پڑے کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ جسطرح جب زید بن حارث کے حوالے سے تکنیکی مسئلہ آیا تب قرآن کی وحی آئی اوربات صاف ہوئی لیکن اس سے پہلے توبیٹا ہی سمجھا گیا۔ ایک بات تکنیکی ہوتی ہے تویہاں حضورؐ اورزید بن حارث کے درمیان تکنیکی مسئلہ یہ تھا کہ حضورؐ پیارسے بیٹا بولتے تھے، نہ اُس کی ماں کے شوہرتھے اورنہ اُس کے جسم میں آپؐ کا خون دوڑرہا تھا لیکن ایک پیاراور محبت کا رشتہ تھا۔ آپؐ نے زید بن حارث کومنہ بولا بیٹا کہا، منہ بولا بیٹا ہی سمجھتے رہےاور اتنی زیادہ سچائی کے ساتھ بیٹا سمجھتے رہےکہ اُس کی متعلقہ سے نکاح نہیں کرنا چاہتے تھے کہ یہ تو میرے بیٹےکی متعلقہ ہے۔ معلوم یہ ہواکہ اُس کے ساتھ بیٹے کی طرح سلوک کررہے ہیں اوریہاں تک کہ قوانین اورتکنیکی کی بھی بات آجائے توتب بھی آپؐ نے اُن کوبیٹا ہی تصّور کیا تاوقتیکہ اللہ کی وحی آگئی تواللہ نےفرمایا کہ اسلام میں منہ بولے بیٹےکی حیثیت نہیں ہے۔ اگریہ وحی نہ آتی تومنہ بولے بیٹےکاجائیداد میں بھی حصہ ہوجاتا لیکن وحی کے آنے کےبعد سب چیزیں صاف ہوگئیں۔

عیسٰیؑ اللہ کے بیٹے کیسے ہیں؟

اگرکوئی بچہ آپ کی ماں کا دودھ پی لے تووہ دودھ آپ کی خون کی رگوں میں بھی چلا جائے گا اور آپ اُس کے رضائی بھائی ہوجائیں گے اورجوبہن ہوگی تووہ آپ کی رضائی بہن ہوجائےگی۔ یہ معاملہ اتنا سنجیدہ ہوگا کہ جورضائی بھائی ہےاُس کے ساتھ بہن کا نکاح نہیں ہوسکےگا، صرف اس وجہ سے کہ ماں کا دودھ پیاہے۔ دنیا میں کوئی بھی بچہ آکےآپ کی ماں کا دودھ پی لےتووہ آپ کے بھائیوں میں شمارہوجائےگااورلڑکی پی لےتوبہنوں میں شمارہوجائےگی تواب آپ اُس عورت کےبیٹے کہلائیں گے لیکن وہ آپ کی حیاتیاتی ماں نہیں ہے۔ آپ اُس کی کوکھ سے نہیں نکلیں ہیں لیکن اس کے باوجود اُس کے بیٹے اس لئے ہیں کیونکہ اُس کے جسم کا نکلا ہوادودھ آپ کےجسم میں ہے۔ اسی طریقے سے

اگررب کےوجود کا نکلا ہوا نورکسی کےوجود میں آجائے تووہ بھی اسطرح رضائی بیٹے کی طرح بیٹا کہلاتا ہے۔

پیاراورمحبت سےرب کی زبان سے عیسیؑ کیلئےبیٹا نکلا تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے لیکن جب بات تکنیکی مسائل کی آگئی اورانسانوں نے اس بات کواپنےطور پرلیا اور پھرعیسٰیؑ کوخدا کہنے لگ گئےتو پھر اللہ تعالی نےایک بڑاہی کرخت قسم کا بیان قرآن مجید میں جاری کیا کہ نہیں۔ حضورؐ کے منہ بولے بیٹے کےبارے میں بھی اللہ تعالی نےقرآن میں وضاحت دی اورجب بات اللہ سےمنسوب ہوگئی کہ اللہ نےکسی کو پیارسے بیٹا کہا توجب لوگوں نےکہا کہ عیسٰیؑ اللہ کےبیٹےہیں توہم سجدہ کریں گےاوریہی ہماراخداہے، اُس وقت اللہ تعالی نےقرآن مجید میں فرمایا کہ اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔اگران لوگوں کی حرکتیں ایسی نہ ہوتیں کہ جوبات پیارمیں کہی گئی ہےاُس کوپیارمیں ہی رکھتےاورجسطرح ہمارے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جومنطق کی وجہ سےگمراہ ہوگیا کہ وہ یہ تھے تو اُن کا بیٹا یہ ہوگا اوراگراُن کا بیٹا یہ ہےتواُن کا بیٹا یہ ہوگا۔ یہی منطق عیسٰیؑ کے ماننے والوں میں آگئی اوراس منطق کواستعمال کرکے انہوں نےعیسٰیؑ کوہی اللہ سمجھ لیا۔ جب انہوں نےاللہ سمجھ لیا تواللہ ناراض ہوگیا۔ قرآن مجید میں اس کا بھی ذکرآیا ہےکہ جولوگ یہ کہتے ہیں کہ عیسٰیؑ اللہ ہےتویہ بہتان باندھتے ہیں۔ پھراللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا ہےکہ یومِ محشرمیں اللہ تعالی عیسٰیؑ سے پوچھےگا کہ اے عیسٰی! کیا تم نےاپنی قوم کوکہا تھا کہ تم اللہ ہو! عیسٰیؑ کاجواب یہ ہوگا کہ میرے اس دنیا میں اُٹھائے جانے کےبعد میں نہیں تم شاھد ہو۔ پھرعیسٰیؑ کہیں گےکہ میں وہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کےکہنے کا مجھےحق نہیں ہے۔ بات کچھ اورتھی لیکن جب بنادی گئی تو کچھ اور ہوگئی۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 جنوری 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ ہے ۔

متعلقہ پوسٹس