کیٹیگری: مضامین

فنا فی الشیخ کیا ہوتا ہے؟

جن لوگوں نے سائنس پڑھی ہے خاص طور پر نامیاتی کیمیا پڑھی ہے اُن کو پتہ ہوگا کہ CH4، یہ Methane ہے۔ Methane جب کسی کے ساتھ کیمیائی مساوات بناتا ہے تو پہلے اُس کا Radical بنایا جاتا ہے۔ Radical بنانے کیلئے اُس کا ایک مالیکیول نکالیں گے۔ C کے اطراف میں چار مالیکیول ہیں تو اب جگہ ہی نہیں ہے کیونکہ اِس نے کسی سے کیمیائی مساوات کرنی ہے تو اِس کا کوئی port خالی ہوگا تو وہاں وہ چیز آکر لگے گی نا۔ اِس کو Radical بنانے کیلئے Hydrogen کا ایک مالیکیول یہاں سے نکالتے ہیں تو جب یہ نکل گیا تو اب یہ CH3 ہوگیا، یہ Methyl کہلائے گا۔ اب یہ radical بن گیا ہے تو اب اِس کے ساتھ کسی کی بھی کیمیائی مساوات ہوسکتی ہے جیسے اِس کی کیمیائی مساوات O2 کے ساتھ بنائیں تو یہ پورا CH3 میں آکر لگ جائے گا جہاں سے ہم نے ایک مالیکیول نکالا تھا۔ یہ Organic Chemistry کہلاتی ہے۔

یہی چیز ہمیں روحانیت میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ ہمارا قلب ہے قلبِ صنوبر، قلبِ سلیم، قلبِ منیب اور قلبِ شہید۔ مرشد جب کسی کو فنا فی الشیخ بناتا ہے تو سب سے پہلے اُس کے نفس کو پاک کرتا ہے۔ پھر جب نفس پاک ہوجاتا ہے تو پھر اُس کے قلب کے ایک جثے کو نکال کراپنے پاس رکھ لیتا ہے اور اپنا ایک جثہ اُس کے یہاں لگا دیتا ہے تو یہاں شیخ کا جثہ آگیا۔ اب وہ شیخ کا جثہ ہونے کی وجہ سے اُس کو فنا فی الشیخ کہا گیا۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ

فنا فی الشیخ، شیخ کی طرح چلتا ہے اور شیخ کی طرح بولتا ہے۔

اب اُس کے اندر شیخ کا ایک پورا وجود آکر بیٹھ جاتا ہے۔

جو آرتھوڈوکس روحانیت تصوف ہے اُس کا قانون فنا فی الشیخ کیلئے تو یہ ہے کہ شیخ کا جو جثہ ہے وہ طالب کے سینے میں تین سال کیلئے رہتا ہے۔ اب یہ طالب کا سینہ ہے یعنی قلب، سری، اخفٰی، خفی اور روح۔ شیخ نے نفس کو پاک کردیا اور اب شیخ نے اپنی ایک سینے کی مخلوق یعنی قلب کا جثہ کہ لیں کہ وہ نکالا اور مرید کے قلب کا جثہ نکالیں گے تو وہ تب اندر جائے گا۔ اِس کے قلب کا جثہ شیخ کی طرف چلا گیا اور شیخ کے قلب کا جثہ اِس کے سینے میں آگیا۔ اب شیخ کا نام سرکار گوھر شاہی ہے تو اب وہ سرکار گوھر شاہی کا جو جثہ ہے وہ پورے سینے کے اوپر قابض ہوگیا۔ روح شیخ کے جثے کی صحبت میں رنگ گئی، خفی رنگ گیا، اخفٰی رنگ گیا، سری، قلب تو سب اُس کے رنگ میں رنگ گئے۔ تین سال تک شیخ کا جثہ سینے میں رہے گا اور یہ سارے اُس کے لطائف اُس کی صحبت میں اُن کا رنگ چڑھ جائے گا۔ تین سال بعد پھر شیخ کا جثہ واپس چلا جائے گا اور وہ اپنی محبت چھوڑ جائے گا۔ اِس کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ اب اِس کے جو لطائف ہیں وہ شیخ کی صحبت میں اُس کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اِس کی چال ڈھال، بول چال شیخ جیسی ہوجاتی ہے۔ روحانیت نے بس اِتنا ہی بتایا ہے۔

فنا فی الشیخ سے شیخ کی آواز کیسے آتی ہے؟

ہم(یونس الگوھر) نے جو باطنی تحقیق کی ہے اُس کے مطابق کیا ہے اب وہ بتاتے ہیں۔ اب یہ قلب ہے اِس کے اندر چار نُکتے تھے قلبِ صنوبر، قلبِ سلیم، قلبِ منیب اور قلبِ شہید۔ اب جب آپ کا جثہ نکل گیا اور شیخ کا ایک جثہ وہاں آگیا، فرض کریں یہاں پر شیخ کا جثہ آگیا “گوھر”۔ اب یہاں پر شیخ کا جثہ ہے اور باقی تین اُس بندے کے ہی ہیں۔ فرض کرلیں اُس بندے کا نام ندیم ہے۔ قلب کے برابر میں سِرّی ہے، سِرّی کے برابر میں اخفٰی ہے اور اخفٰی زبان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اب سرکار گوھر شاہی فرماتے ہیں کہ

یہ دماغ ہے۔ آپ کوئی بات سوچیں یا کوئی کتاب پڑھیں یا علم حاصل کریں تو وہ دماغ میں جاتا ہے۔ دماغ میں جو جاتا ہے تو وہ دماغ سے زبان پر آنے کیلئے پہلے وہ دل سے گزرتا ہے۔ کوئی سوچ آئی، آپ نے کوئی کتاب پڑھی، کسی نے کوئی بات آپ کو کہی تو وہ دماغ میں ہوگی۔ اب اگر آپ کے وہ جو دماغ میں بات اور سوچ آئی ہے، آپ نے وہ بولنا ہے تو وہ جو سوچ یا علم دماغ سے زبان پر آئے گا تو بولیں گے۔ زبان پرآنے سے پہلے وہ دل سے گزرے گا، دل کے بعد وہ سِرّی، سِرّی کے بعد اخفٰی اور اخفٰی سے زبان پر چلا گیا۔

اب یہ جو دل کا چرخہ ہے یہ گھومتا رہتا ہے۔اگر آپ کبھی کسینو گئے ہیں تو وہ پھینکیں گے اور رولٹ جو گھمائیں گے تو تِیر جس نمبر کیطرف جائے گا وہی نمبر آپکا ہوگا۔ اِسی طرح یہ دل کا چرخہ بھی گھومتا رہتا ہے۔ ابھی تم سوچ رہے ہو اور تم نے ابھی کوئی بات کہنی ہے تو وہ دماغ سے بات دل میں جائے گی اور دل سے وہ زبان پرآئے گی اور زبان پر آنے کیلئے وہ اخفٰی پر جائے گی اور اخفٰی سے پھر وہ زبان پر بات چلی جائے گی۔ اب یہ دل کا چرخہ گھوم رہا ہے، کوئی سوچ آئی اور تیرے قلب کا وہ حصہ جہاں شیخ کا جثہ ہے وہ اخفٰی کے سامنے ہوا تو وہ سوچ شیخ کے اُس جثے سے ٹکرا کر اخفٰی کو جائے گی اور اخفٰی سے زبان پر تو شیخ کی آواز آئے گی۔ دماغ سے سوچ آئی اور دل میں داخل ہوئی، اب اخفٰی کی سیدھ میں شیخ کا جثہ ہے تو وہ بات شیخ کے جثے سے ٹکرائی، شیخ کے جثے کو ٹکرا کر اخفٰی کو گئی، اخفٰی سے زبان کو گئی تو زبان سے آواز شیخ کی نکلے گی۔

اگر اُس وقت جب وہ سوچ دل میں آئی تھی اُس وقت ندیم کی مخلوق اخفٰی کی سیدھ میں ہوگی تو پھر وہ آواز ندیم کی ہوگی۔ اِس لئے جب شیخ کا جثہ اخفٰی کے سامنے ہوگا تو وہ آواز شیخ کی ہوگی۔
فرض کریں کہ کوئی ایسا بندہ ہے کہ جس کے قلب میں ایک کونے میں گوھر ہو، دوسرے میں طفلِ نوری کا عکس ہو، تیسرے میں جثہ توفیقِ الہی کا عکس ہو اور چوتھے میں ذاتِ ریاض کا عکس ہو، اب وہ چرخہ گھوم رہا ہے۔ اگر وہ طفلِ نوری سامنے ہوا تو اُس دن اُس وقت فقر کی تعلیم آگے نکلے گی اور وہ فقر سے نیچے والوں کو کہے گا کہ تم منافق ہو یہاں سے چلے جاوٴ۔ کسی دن اخفٰی طفلِ نوری کے سامنے ہوا تو فقر کی تعلیم، جثہ توفیقِ الہی کے سامنے ہوا تو عشق کی تعلیم، ذاتِ ریاض کے سامنے آیا تو ذات کی تعلیم ہوگی اور گوھر کے سامنے آیا تو امام مہدی کی تعلیم ہوگی یعنی روزانہ ایک نئی شان سے جلوہ گر ہونا۔ اب کیا کہیں گے کہ کل طفل نوری سامنے تھاتو اِس نے کچھ اور کہا تھا،جب جثہ توفیق الہی سامنے ہوا تو اُسی بات کا مطلب اِس نے نے آج کچھ اور بتایا ہے۔ اورجب ذات ریاض سامنے ہوا تو وہی سوال آج پوچھا ہے تو اِس کا مطلب کچھ اور بتایا۔ پہلے دن طفلِ نوری والے جوبن نے بتایا تھا، دوسرے دن اخفٰی کے سامنے اُس وقت کوئی اور تھا، تیسرے دن کوئی اور تھا اور چوتھے دن کوئی اور ہے۔
جب سرکار گوھر شاہی کا جو جثہ مبارک ہے وہ اخفٰی کے سامنے آیا تو سرکار گوھر شاہی کی آواز حلق سے برآمد ہوئی اور تم نے سرکار گوھر شاہی کی آواز کو سُنا ہے تم نے پہچان لیا لیکن جب ذاتِ ریاض کا رُخ اخفٰی کے سامنے آیا تھا وہ آواز تم نے کیوں نہیں پہچانی؟ کیونکہ تم نے ذاتِ ریاض کو نہ سُنا اور نہ تم نے دیکھا، اِس لئے پہچان ہی نہیں پائے۔ اِسی لئے چُپ کرکے بیٹھے رہے۔ یہ ہے جسطرح آواز نکلتی ہے۔

اگر اِس طریقے سے آواز نکلے اور کوئی کہے کہ دیکھو یہ آواز نکال رہا ہے تو اُس کا ایمان چلا جائے گا اور جو ڈرامے بازی کرکے خودہی کوشش کرے گا آواز نکالنے کی تو اُس کا ایمان ہوگا ہی نہیں جو جائے۔ یہ روحانیت کی وہ باتیں ہیں کہ جو پوری انجمن سرفروشانِ اسلام میں الف سے لیکر یے تک کسی کا وہم وگمان بھی نہیں جاسکتا کہ یہ روحانیت کی باتیں کہاں ملیں گی کیونکہ یہ تو سینہ بہ سینہ ملتی ہیں نا۔ یہ تو اندر کی کہانی ہے۔

ضم کی تعلیم کیا ہے؟

پورا عکس جب آگیا تو وہ پورے لطائف پر غالب آگیا، اب فرق نہیں رہا کہ یہ قلب سے بول رہا ہے یا نفس سے کیونکہ کہیں سے بھی بولے ہر لطیفے کے اوپر وہ عکس غالب ہے اِس کے کسی عمل پر اعتراض کیا تو ایمان ضائع ہو جائے گا۔ اب اگر وہ شخص کھڑا ہے اور وہ کہہ دے کہ نہیں میں بیٹھا ہوں تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جو وہ کہہ رہا ہے وہی سچ ہے۔ وہ کہے کہ میں تو یہاں پر بیٹھا ہوں بھلے وہ کہیں اور بیٹھا ہو کیونکہ ہر چیز پر اُس کا قبضہ ہوگیا نا۔

اِذَا تَم الفَقرفَھُواللہ
نورالہدی صفحہ 86
ترجمہ: جو فقر میں کامل ہوگیا وہ اللہ ہوگیا۔

یہ تو فقر کی تعلیم ہے۔ یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے جو ہم نے گھڑی ہو۔ بایزید بسطامیؒ کو نماز کے دوران اُن کے اوپر دورہ پڑجاتا تھا۔ نماز کے دوران کہتے تھے کہ مااعظم شانی سبحانی۔ مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں جمعہ کا خطبہ ہورہا ہے، مولانا صاحب کہہ رہے ہیں کہ قیامت کے دن حضور پاکؐ کا جھنڈا سب سے اونچا ہوگا، بایزید بسطامیؒ پر پھر دورا پڑا اور اُنہوں نے کہا جی نہیں میرا جھنڈا اُن سے بھی اونچا ہوگا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ خاص کیفیت میں تھے اور اُس وقت بایزید نہیں بول رہا تھا اللہ اُن کی زبان میں بول رہا تھا۔ بایزید کی زبان میں اللہ بولے گا کیونکہ اللہ اُن کے اندر ہے۔ اگر کسی کے اندر گوھر ہوگا تو گوھر ہی بولے گا نا۔ اِس طرح آواز آتی ہے۔ یہ ایک روحانی مقام ہے یہ کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ میں یہ بن گیا ہوں وہ بن گیا ہوں، یہ تمہارے ذہن میں ہے۔ اگر کسی کے قلب کے اوپر شیطان نے قبضہ کرلیا ہو تو اب تم نے تو قرآن کا علم پڑھا ہے لیکن جب وہ علم زبان پرآنے کیلئے دل سے گزرا اور وہ شیطان سے ٹکرا گیا تو شیطان کا فتنہ اُس میں شامل ہوگیا تو جب زبان سے نکلا تو ایسے مولویوں نے فرقے بنادیے۔ قرآن کا علم بھی کیونکہ وہ دل میں شیطان ٹکراگیا۔ مجذوب کی گالیوں بھی اِسی طرح فیض ہوتا ہے کہ اُس نے گالی دی تو وہ گالی کے الفاظ قلب میں سے گزرے، قلب میں نور تھا وہ گالی میں بھی نور لگ گیا تو جب زبان سے نکلی تو گالی کانوں کو پہنچی نا لیکن وہ جو گالی کے ساتھ نور مِکس ہوگیا تھا وہ نور تیرے دل میں چلاگیا، اُس سے تُجھے فیض ہوگیا۔ پھر تیرا جو فعل ہے اُس نے تجھے ڈنڈا مارا تھپڑ مارا، اُس فعل میں بھی نور تھا تو وہ ڈنڈا مارنے سے شفا ہوگئی۔ مجذوب کی گالیوں اور محبوب کی باتوں سے فیض ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 22 مارچ 2021 کو یوٹیوب لائیو سیشن حق کی عدالت میں کی گئی خصوصی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

متعلقہ پوسٹس