کیٹیگری: مضامین

مرشد کا انگریزی میں ترجمہ صوفی ماسٹر ہے لیکن جو کشش لفظ مرشد میں ہے وہ صوفی ماسٹر میں نہیں ہے ۔لفظ مرشد اُن کو ہی وہ مزا اور سکون دیتا ہے جن کے مرشد ایسے ہوں کہ اُن پر فخر کیا جا سکے۔ جب ہم سرکار سیدنا گوھر شاہی سے ملے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے سرکار گوھر شاہی کی صورت میں ہمیں ماں مل گئی ہولیکن خونی رشتے کی ماں اور مرشد کی صورت میں ماں جو ملی اُس میں فرق یہ تھا کہ مرشد ماں کی ایسی صورت ہے جس میں رب کی طاقتیں پوشیدہ ہیں۔مثال کے طور پر اگر ہم اپنے خونی رشتے والی ماں سے کچھ مانگیں تو اگر وہ اُن کی دسترس میں نہیں ہو گا وہ وہ منع کر دیں گی لیکن مرشد وہ ہے جو ماں کی طرح پیار دیتا ہے لیکن اُن کے پاس رب کی طاقتیں بھی پوشیدہ ہوتی ہیں ۔روحانیت کے ابتدائی اوائل میں جب ہم سرکار سیدنا گوھر شاہی سے جڑے تو ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہم نے اللہ سے دعا مانگنا چھوڑ دی۔جب آپ مصیبت میں ہوتے ہیں اور ہر جگہ سے ناکامی اور مایوسی ہو جاتی ہے تو بالاخر رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ہم بھی جب کوئی پریشانی ہوتی تھی تو رب کی طرف رجوع کرتے تھے اور یہ ہر شخص ہی جانتا ہے کہ بہت شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔لیکن جب ہم سرکار گوھر شاہی سے ملے تو ایسا محسوس ہوا کہ دعائیں اور ہر وہ خواہش جو دل میں تھی وہ بناطلب کے ہی پوری ہو گئی۔
تمھارے حسن کے آنچل میں پناہ دل کو ملی
مولانا رومی کو اگر پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُن کا مرشد سے جو تعلق تھا اُس میں جو شدت تھی وہ شدت مرد اورعورت کے رشتے میں بھی نہیں ملتی ہے۔لیلی اور مجنوں کے تعلق میں جو شدت تھی اُس سے کہیں بڑھ کر مولانا رومی کی اپنے مرشد سے تعلق میں شدت تھی۔اسکی اگر مثال لیں تو کہا جاسکتا ہے کہ دو جسم اور ایک جان ،جسے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔اور صرف مولانا رومی کا ہی اپنے مرشد سے ایسا تعلق نہیں تھا بلکہ امیر خسرو جنھوں نے موسیقی کے آلے ایجاد کئے ان کا بھی اپنے مرشد نظام الدین اولیاء سے شدت کا تعلق تھا۔مرشد سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک شخص امیر خسرو کے مرشد نظام الدین اولیا کے پاس آیا اور مالی مدد کی درخواست کی اور نظام الدین اولیاء نے اسے اپنی جوتیاں دے دیں ۔ وہ شخص حیران ہو گیا اور دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ میں نے مالی مدد کی درخواست کی اور انھوں نے مجھے اپنی پرانی جوتیاں دے دیں، اب میں ان کا کیا کروں، یہ پرانی جوتیاں کون خریدے گا!اسی سوچ میں وہ وہاں سے چلا گیا راستے میں اُسے امیر خسروملے جو کہ تجارت کا کام کرتے تھے اور انہوں نے فوراً پہچان لیا کہ یہ جوتیاں تو میرے مرشد کی ہیں اور اُس سے پوچھا کہ کیا تم یہ جوتیاں مجھے بیچو گے ؟ اور وہ شخص پوچھتا ہے کہ آپ یہ جوتیاں کیوں خریدنا چاہتے ہیں ؟ تو امیر خسرو نے جواباً کہا کہ یہ جوتیاں میرے مرشد کی ہیں اور میں اُن سے شدت کی محبت کرتا ہوں اس لئے یہ جوتیاں خریدنا چاہتا ہوں ۔پھر اُس شخص کو اندازہ ہوا کہ یہ جوتیاں کتنی اہم ہیں ۔ پھر امیر خسرو نے پوچھا کہ ان جوتیوں کی کتنی قیمت لو گے تو اُس شخص نے کہا کہ پورا تجارتی قافلہ مجھے دواور امیر خسرو بلا جھجک اس پر آمادہ ہو گئے۔تجارت کا جتنا بھی سامان تھا وہ امیر خسرو نے اسے دے دیا اور اس کے بدلے جوتیاں خرید لیں۔امیر خسرو بہت خوش تھے اور انہوں نے و ہ جوتیاں اپنے سر پر رکھ لیں اور یہ ارادہ کیا کہ وہ مرشد سے ملنے جاتے ہیں ۔ جب مرشد کے سامنے پہنچے تو امیر خسرو کے کچھ کہنے سے پہلے ہی نظام الدین اولیا نے کہا کہ تم نے بہت سستی قیمت پر یہ خریدا ہے ۔ امیر خسرو نے کہا کہ میں نے اپنا سب کچھ دے کر یہ خریدا ہے ، نظام الدین اولیا نے کہا کہ جبھی تو یہ کہہ رہا ہوں کہ بہت سستی قیمت پر تمھیں یہ جوتیاں مل گئیں ہیں ۔یہاں اس واقعے میں ایک چیز بہت اہم ہے کہ

جو مرید کا مرشد سے تعلق ہوتا ہے وہ تعلق رب کو میسر نہیں ہوتا ہےجسکی کئی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رب جسمانی طور پر یہاں اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔

مرشد اور مرید کے درمیان تعلق پر رب کو رشک:

مرید کا مرشد سے جو تعلق ہوتا ہے رب بھی اس پر رشک کرتا ہے اور یہ رب کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور یہ بات کسی کتاب میں نہیں لکھی ہوئی ہے بلکہ ہم اپنے تجربات کی روشنی میں بتا رہے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ ابھی آپ اس بات کو کم اہمیت دیں لیکن جیسے جیسے آپ کا سرکار سیدنا گوھر شاہی سے وہ تعلق مضبوط ہوتا جائے گا تو آپ کو اس بات کا علم ہو گا کہ مرشد اور مرید کا ایسا تعلق ہوتا ہے کہ رب بھی اس تعلق پر رشک کرتا ہے یہی وجہ سے کہ جب رب کہیں ایسا تعلق دیکھتا ہے تو وہ اپنے بازو کھول دیتا ہے اور مرید کو اتنا نواز دیتا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے ۔ ہم اس کی مثال بھی آپ کو دے سکتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم سرکار سیدنا گوھر شاہی کے ساتھ آئر لینڈ میں تھے آج سے اکیس سال پہلے اور ستمبر کا مہینہ تھا ۔ سرکار گوھر شاہی اپنے کمرے میں تشریف فرما تھا اور ہم لوگ گھر کے باہر نیچے موجود تھے ۔سرکار اپنے کمرے سے اچانک کھڑکی میں تشریف لائے اور اپنا ہاتھ ہلایا ۔ سرکار کا دیدار ہوا اور دلوں کا ایسی گرمائش ملی کہ ذکر کے نور سے بھی وہ گرمائش میسر نہیں ہوتی ہے۔ پھر سرکار نے فرمایا کہ

کل رات اللہ کی ہم سے بات ہوئی ہے اور اللہ نے فرمایا ہے کہ آپ اپنے مریدوں کو ڈراتے کیوں نہیں ہیں یہ بہت شرارتی ہو گئے ہیں ۔پھر سرکار نے فرمایا کہ ہم اِن کو کیوں ڈرائیں اِن پر تیرا کرم جو ہے ۔جب سرکار گوھر شاہی نے یہ بات اللہ کو کہی تو اللہ کو بہت تعجب ہوا ، پھر اللہ نے پوچھا کہ وہ کیسے ؟ سرکار گوھر شاہی نے فرمایاکہ ان کے دل تیرے ذکر سے جاری ہیں اور جب بھی ان کا دل دھڑکتا ہے تو اُس میں تیرا نام گونجتا ہے کیا یہ آپکا کرم نہیں ہے !

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آپ کا مرشد گارڈین کی طرح رب کےسامنے کھڑا ہے اور آپ کی طرف سے وکالت کر رہا ہے ۔ ماں بھی یہی کرتی ہے کہ بچے اگر غلط بھی ہوں تو وہ انہی کی طرف داری کرتی ہیں جبکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلط ہیں۔ یہی چیز سرکار گوھر شاہی میں بھی اپنے مریدوں کیلئے نظر آتی ہے کہ آپ نے اُن کو اپنے کرم اور پناہ کی آغوش میں رکھا ہوا ہے ۔

ذاتی مشاہدات:

مرشد اور مرید کے مابین تعلق کی بہت سی داستانیں ہیں جب آپ اُن کو پڑھیں گے تو آپ کا دل بھی پکار اُٹھے گاکہ کاش ہمارا بھی ایسا تعلق قائم ہو جائے۔ خاص طور پر امیر خسرو اور نظام الدین اولیا۔ ابتدائی دنوں سےہماری بھی ذاتی طورپر اُسوقت دلی خواہش یہی تھی کہ ہمارا سرکار سے ایسا تعلق قائم ہو جائے۔1992 میں ہمارا بھی دہلی انڈیا میں نظام الدین اولیاءاور امیر خسرو کے دربار میں جانا ہوا ۔ پہلے ہم امیر خسرو کے دربار پر گئے ، اُن کے مزار پر ہم آنکھیں بند کیے کھڑے ہوئے تھے اور اُن سے عرض کی کہ میں یہاں روحانیت کیلئے نہیں آیا ہوں مجھے علم ہے کہ روحانیت کیا ہے میرا قلب اور باقی ارواح بھی منور ہے لیکن ہم یہاں اس لئے آئے ہیں کہ آپ میرے مرشد سیدنا گوھر شاہی سےروحانی طور پر بات کریں اور کہیں کہ میں بھی ایسا تعلق سرکار سے چاہتا ہوں جیسا آپ کا اپنے مرشد نظام الدین اولیا٫ سے ہے۔اس کے بعد قبر میں حرکت محسوس ہوئی ۔ پھر اُن کے مرشد نظام الدین اولیاء کے مزار پر بھی جانا ہوا اور اُن سے بھی یہی درخواست کی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبر سے باہر نکل کر آئے اور ہماری طرف ہاتھ ہلایااور کہا کہ میں تمھارے مرشد سے بات کروں گا۔ہم شروع سے ہی بہت کم گو تھے اور سوچتےرہتے تھےکہ میں سرکار گوھر شاہی سے ایسے محبت کروں گا۔جب انڈیا سے واپس پاکستان آئے اور سرکار گوھر شاہی سے ملاقات ہوئی ، سرکار بہت سنجیدہ نظر آئے اور فرمایا کہ تم امیر خسرو اور نظام الدین اولیاء کے پاس گئے ہو اور اُن کو کہا ہے کہ جیسی نسبت امیر خسرو کو عطا ہوئی ہے ویسی نسبت ہم بھی تمھیں عطا کریں، وہاں تم کیوں گئے ہمیں براہ راست بتا دیتے۔ پھر میں نے جواب دیا کہ سرکار میری ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔پھر فرمایا کہ آئندہ مجھ سے کہنا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ہمارے روحانی حلقہ میں لوگوں کو یہ بات کرتے سنا کہ ہم نے سرکار کی پشت کو دیکھا ہے اور اس پر مہر مہدیت بھی نظر آئی ہے ۔ ہمارے دل میں بھی یہ خواہش بیدار ہوئی کہ کاش مجھے بھی یہ موقع ملے ۔ایک دفعہ محمد الرسول اللہ ﷺ سے روحانی ملاقات ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ تمھیں کیا چاہیے؟ تو میں نے کہا کہ مجھے سرکار کی پشت پر موجود مہر مہدیت کا دیدار کرنا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ کیوں دیکھنا ہے ؟ تو ہم نے بتایا کہ بس ایسے ہی دیکھنا ہے کہ مہر مہدیت کیسی لگتی ہے۔تو پھر آپؐ نے پوچھا کہ کیا مہر مہدیت وہاں موجود ہے اس پر تمھارا ایمان ہے ؟ تو ہم نے بتایا کہ ہاں ہمارا اس پر کامل ایمان ہے ۔اگلی صبح جب سرکار گوھر شاہی سے ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمھیں ہماری کمر ننگی دیکھنے کا بڑا شوق ہے ۔تو میں بہت ڈر گیا اور سرکار سے عرض کی کہ نہیں سرکار میں نے کبھی ایسا نہیں کہا ۔ پھر سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ کل رات محمد الرسول اللہ تمھارے پاس آئے تھے اور انکو تمھیں نہیں کہا تھا تم ہماری پشت برہنہ دیکھنا چاہتے ہو تاکہ مہرمہدیت دیکھ سکو۔پھر مجھے سمجھ میں آیا اور میں نے کہا کہ ہاں ہاں سرکار یہ تو میں نے اُن سے عرض کیا تھا ۔پھر ہم نے سرکار سے عرض کی کہ کیا سرکار میں دیکھ سکتا ہوں ۔ تو سرکار نے فرمایا کہ نہیں تم نے محمد الرسول اللہ سے پوچھا ہے تو اب وہی دکھائیں گےاگر ہم سے پوچھا ہوتا تو ہم دکھا دیتے۔تو یہ ایک بہت لطیف مرشد اور مرید کا تعلق ہے ، مجھے کسی چیز کی ضرورت ہے تو دعا کے بجائے میں سرکار گوھر شاہی کی بارگاہ میں عرض کر دیتا اور وہ پوری ہو جاتی۔

زندگی میں مشکل مرحلے پر تلقین:

ایک دن ہم سرکار گوھر شاہی کے ساتھ گھر پر بیٹھے ہوئے تھے تو سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ

جو دنیا کیلئے پریشان ہو وہ ملعون ہے اُس پر اللہ کی لعنت برستی ہے ، جبتک اللہ تم سے خوش ہے اور آپکا اللہ سے بہت اچھا تعلق ہے تو ہمیشہ خوش رہو، دنیاوی نقصان کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ رب کو نا پسند ہے۔

پھر میں نے سرکار سے عرض کی کہ سرکار مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی۔پھرسرکار نے فرمایا کہ رب کے بھی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں اور سرکار نے اسکی مثال بھی عطا فرمائی کہ اگر تم اُداس ہو اور میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم اُداس کیوں ہو ؟ اور تمھارا جواب یہ ہوتا ہے کہ تمھیں ایک پاؤنڈ کا نقصان ہوا ہے اور ہم نے تمھیں اس کے بدلے سو پاؤنڈ دے دئیے اور اس کے باوجود تم اُداس ہو تو اس روئیے سے رب خوش نہیں ہوتا ہے ۔ سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ جب تمھارا ذکر قلب جاری ہو گیا تو تمھارا رب سے تعلق قائم ہو گیا ، رب نے جب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا تو پھر وہ تمھیں کسی دنیاوی نقصان کیلئے اُداس نہیں دیکھنا چاہتا۔ جبتک رب سے تعلق استوار ہے تو پھر کسی اور چیز کیلئے پریشان نہیں ہوناہے۔جب رب تم سے خوش ہے تو پھر تمھیں بھی خوش رہنا ہے ۔ہمیشہ پُر اُمید رہیں ۔ سرکار گوھر شاہی کی شخصیت میں بھی ہم نے یہی دیکھا ہے کہ کیسی بھی صورت حال ہو سرکار ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں اور ایک جملہ ارشاد فرماتے ہیں “خیر ہے “۔ سرکار کی بارگاہ میں ہم نے یہ پوچھا بھی کہ سرکار کچھ بھی ہو جائے آپ یہی کہتے ہیں کہ “خیر ہے” اسکی کیا وجہ ہے؟ سرکار نے یہ جملہ روز بروز کے واقعات اور حالات کے بعد کہنا شروع کیا ، پھر فرمایا کہ جب تمھیں آزمائش میں ڈالتا ہے اور تمھیں گہرا نقصان ہوتا ہے تو رب سننا چاہتا ہے کہ تم اس مصیبت کے وقت میں کیا کہتے ہو ، اُس پریشانی پر راضی با رضا رہتے ہو یا پھر شکایت کرتے ہو ۔اسی لئے سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ہم نے یہ جملہ “خیر ہے” کہنا شروع کر دیا کیونکہ اس میں نہ ہی کوئی شکوہ ہے اور نہ ہی کوئی منفی پہلو ہے ۔
جب بھی کسی مشکل نے گھیرا گوھر بولے خیر ہے
زندگی میں کچھ بھی ہو جائے کبھی بھی اسکا شکوہ زبان پر نہ لائیں، اُس درد و غم کو برداشت کریں کیونکہ آپ رب سے محبت کرتے ہیں تو پھراُس درد کاشکوہ نہیں کر سکتے۔اسی لئے سرکار گوھر شاہی ہر طرح کے حالات میں”خیر ہے” کا لفظ استعمال فرماتے ہیں اور یہ ایک مثبت سوچ ہے ۔جب سرکار گوھر شاہی لال باغ کے چلےسے واپس آئے تو آپ نے حیدرآباد میں قیام فرمایا اور کچھ سالوں کے بعد سرکار گوھر شاہی نےپہلی دفعہ اپنے گاؤں جانے کا قصد فرمایا اور وہاں اپنے رشتے داروں سے ملاقات فرمائی اور اپنے روحانی سفر کے مشاہدات اُن سے شیئر کئے اور قربانیاں جو اس روحانی راستےمیں دی جاتی ہیں اس کا بھی تذکرہ کیا ۔اسی دوران اللہ ، سرکار گوھر شاہی سے مخاطب ہوا اور فرمایا کہ ہم ابھی بھی آزما سکتے ہیں ۔سرکار گوھر شاہی نے فرمایا کہ ہم ہر لمحہ امتحان کیلئے تیار ہیں ۔ اگلی صبح سرکار گوھر شاہی کا سب سے لاڈلہ بیٹا “شانی بابا” کا انتقال ہو گیا ۔سرکار گوھر شاہی تو بخوبی جانتے تھے کہ یہ رب کی طرف سے امتحان ہے اس لئے اس میں رو کر اپنے غم کا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی زبان پر کوئی شکوہ لا سکتے تھے ، اس نازک موقع پر بھی آپ نے رب کی طرف سے بھیجی اس آزمائش پر خاموشی اختیار فرمائی۔جبکہ دوسرے طرف گھر والے اس بات کا طعنہ دے رہے تھے آپکے بیٹے کا انتقال ہو گیا اور آپ اپنی اولاد کیلئے رو بھی نہیں رہے ہیں کیا (نعوذباللہ) آپکا دل پتھر ہو گیا ہے ۔گھر والوں کے ساتھ ساتھ رشتے دار بھی باتیں بنا رہے تھے کہ آپ تو اللہ کے ولی ہیں اور اپنے بیٹے کو ہی نہیں بچا سکے۔جب رب آزماتا ہے تو اس پر خاموش رہنا پڑتا ہے اور اپنے غم کا لفظوں میں اظہار نہیں کر سکتے۔لوگ محبت کے بارے میں باتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن محبت آسان نہیں ہے ۔ مخلص محبت میں کوئی غرض شامل نہیں ہوتی ہے ۔آپ خود سوچیں کہ کیسا لمحہ کہ رب آپکی آزمائش کر رہا ہے اور آپ کا چہیتے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے اور آپ آنکھوں میں آنسو میں نہیں لا سکتے کیونکہ رب آزما رہا ہے ۔ اللہ کی یہ سوچ ہے کہ اگر میری محبت تمھارے دل میں ہے تو پھر کسی بھی چیز کے چھن جانے پر تمھیں اُداس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ ھو اللہ ھو کرنا تو بہت آسان ہے لیکن جب آپکو یہ پتہ چلے کہ آپکے بارے میں اللہ کیا محسوس کرتا ہے اور کیسے آزماتا ہے اور آپکی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں دیکھنا چاہتا پھر اللہ ھو اللہ ھو کا مطلب ہی تبدیل ہو جاتا ہے ۔
ابراھیمؑ سے اللہ نے اپنے بیٹے کی قربانی مانگی اُن کے ہاتھ میں چاقو اور وہ بیٹے کی گردن پر چلانا تھا، یہ تاریخ ہے، اللہ نے کسی کو بھی آزمائش سے مبرانہیں کیا۔کربلا کے میدان میں دیکھ لیں کیا ہوا جنھوں نے محمد الرسول اللہ کے نواسے امام حسین اور اُن کے ساتھ جو بہّتر لوگ تھے سب کو شہید کیا ۔ اُنکو قتل کرنے والے بھی مسلمان تھےلیکن انکے دل پتھر کے تھے۔ اس لئے جب رب آزماتا ہے تو آپ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے غم کا اظہار کر سکتے ہیں ۔

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورة یونس آیت نمبر 62

یہ آیت رب کی طرف سے ڈیمانڈ ہے کہ میرے اولیاء کو کسی چیز کا خوف نہیں ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں ۔ ابھی تو آپکی زندگی میں کچھ نہیں ہو رہا ہے اس لئے آپ غمگین نہیں ہیں لیکن اگر کچھ بُرا آپکی زندگی میں ہو جائےتو پھر پتہ چلے گا کہ آپ غمگین ہوتے ہیں یا نہیں۔ہر شخص اللہ کا ولی بننا چاہتا ہے لیکن جب آپ اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر خود کو جذبات اور غم سے دور رکھنا پڑتا ہے ، ایک ایک کر کے ہر چیز دور ہو جاتی ہے اور آپکے صرف رب کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ اب رب خوش ہے تو آپکو بھی خوش رہنا پڑے گا۔اپنے جذبات کو رب کے جذبات کے ساتھ ملانا پڑتا ہے ۔اگر ہم اُداس ہیں تو رب کو بھی اُداس ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ہمیں اپنے جذبات کو رب کے جذبات کے ساتھ ملانا ہے لیکن رب پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔کوئی بھی مشکل کی گھڑی آ جائے تو زبان نہ چلائیں ، بک بک نہ کریں، دل کو بڑا کرنا ہے ۔عملی روحانیت اور کتابی روحانیت میں بڑا فرق ہے ۔کتابیں پڑھ کر صوفی بننا تو بڑا آسان ہے لیکن اُس میں سوائے پیسے کہ کچھ نہیں ملتا ہے ۔ایسا شخص دنیا کی نظر میں صوفی ہے لیکن اللہ اُسے صوفی نہیں کہتا۔اللہ تو صوفی بنانے سے پہلے پوری کھال اُتار لیتا ہے ۔اگر تم ایک قدم اللہ کی طرف بڑھاؤ تو وہ سو قدم بڑھاتا ہے لیکن اگر تم نے ایک قدم پیچھے ہٹایا تو وہ ٹھڈے مارے گاکیونکہ یہ اُس کا قاعدہ ہی نہیں ہے۔ صوفی کو یہ چیز عطا ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی بندے پر ایک بار قہر کی نظر ڈال دے تو چالیس سال تک وہ قہر کی نظر پڑتی رہے گی اور اگر وہ مر جائے تو اُسکی قبر پر قہر کی نظر پڑتی رہے گی۔
ہم فقیروں کا بھیس بھر کر غالب
تماشہ اہل کرم دیکھتے ہیں
تو چھوڑ رہا ہے تو خطا اس میں تیری کیا
ہر شخص میرا ساتھ نبھا بھی نہیں سکتا

مرشد سے جو تعلق پیدا ہو جاتا ہے اسکے اندر وہ تعلق سب سے بڑی منزل بن جاتا ہے ، مرشد سے جو تعلق ہے وہ برقرار رہنا چاہیے کوئی بھی چیز اس پر اثر انداز نہ ہو ۔سرکار گوھر شاہی سے جو تعلق قائم ہوتا ہے اسکی کوئی قیمت نہیں ہے ۔ جو تعلق سرکار نے مجھے دیا ہے وہ اتنا عجیب ہے کہ اگر مجھے جہنم میں ڈال دیں اس تعلق کے ساتھ تو میں مسکراتا ہی رہوں گا۔بس یہ لیبل لگا دو کہ یہ سرکار گوھرشاہی کا کتا ہے ، کسی چیز نے اسکی وفا کو کم نہیں ہونے دیا ۔مرشد سے جو تعلق ہوتا ہے وہ تعلق ایسا ہوتا ہے جو نہ نبی سے ہوتا ہے ، نہ خدا سے ہوتا ہے اور نہ ہی ماں باپ سے ہوتا ہے ۔یہ پورا ایک پیکج ہوتا ہے کہ مرشد میں ماں بھی نظر آتی ہے ، باپ بھی اسی میں جھلکتاہے اور رب بھی اُسی میں نظر آتا ہے ۔ مولانا روم نے بھی اسی طرح کی باتیں کی ہیں ۔
چوں کہ ذات پیر را کر دی قبول
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول

یعنی اگر تو نے مرشد کی ذات کو قبول کر لیا تو خدا اور رسول اُسکے اندر ہی موجود ہیں۔ بابا بلھے شاہ نے بھی کہا کہ میرا مرشد مجھ سے جدا نہیں ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ ہی نہیں ہے ۔جس کی باتیں تم سن رہے ہو تو تمھیں لگتا ہے کہ اُسکی باتیں سن رہے ہو لیکن کبھی کبھی وہی باتیں سناتا ہے لیکن تم کو لگتا ہے کسی اور سے سُن رہے ہو۔مرشد اور مرید کا جو تعلق ہے وہ بے تکلفانہ ہے کیونکہ مرشد سے کچھ چھپا ہی نہیں ہے اور اگر تم ابھی بھی کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہو تو اس کا مطلب ہے دل میں کھوٹ ہے تعلق قائم ہی نہیں ہوا ہے ۔

حضورؐ سے دین اور ذات والا تعلق:

حضورؐ کی آمد سے پہلے ذات کا علم نہیں تھا ، حضورؐ جب تشریف لائے تو آپکی تشریف آوری کے ساتھ ذات کا علم بھی آیاتو اب حضورؐ سے دو طرح کے تعلق ہو گئے۔ ایک تعلق تو ہو گیا اللہ کی ذات تک پہنچنے کیلئے رسالت و نبوت کا وسیلہ اور جو دوسرا تعلق ہے وہ حضورؐ کی ذات سے عشق اور محبت کا ۔جو پہلا تعلق ہے رسالت و نبوت کے وسیلے والاوہ دین کے ذریعے ہے اور جو دوسرا تعلق ہے حضورؐ کی ذات سے عشق و محبت والا وہ بغیر دین کے بھی استوار ہو جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کے دور میں بہت سے عشقان ایسے گزرے جو دین میں بڑے ہی کمزور تھے لیکن عشق مصطفی میں بھرپور تھے۔ جیسا کہ ایک صحابی زید بن حارث تھا وہ با ر بار شراب پینے کے جرم میں پکڑا جاتا ۔ جب پکڑ کر لاتے تو پہلے حضور اُس سے مذاق کرتے اور اسکے بعد کہتے کہ اب اسکو کوڑے لگاؤ۔ تیسری دفعہ جب پکڑا گیا تو صحابہ نہ کہا کہ اس پر لعنت ہو بار بار شراب کے جرم میں پکڑا جاتا ہے لیکن یہ باز نہیں آتا۔تو حضورؐ نے منع کیا کہ اس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ جس کے دل میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت ہو اُس پر لعنت نہیں بھیج سکتے۔سوال یہ ہے کہ شراب کی حرمت قائم ہونے کے باوجود بھی وہ صحابی شراب بھی پیتا تھا اور حضورؐ سے محبت بھی کرتا تھا ۔ وہ دین میں کمزور تھا جبھی شراب پیتا تھا اُسکے باوجود بھی اللہ اور اسکے رسول کی محبت اسکے دل میں کیسے گئی! پھر وہ ذات کا ہی علم ہو گانا۔
عیسیٰ کے دور میں یہ ذات کا علم نہیں تھا لہذا کسی نے نہیں کہا کہ مجھے عیسیٰ سے عشق ہے سب نے اللہ کی ذات تک اپنا معاملہ رکھاکیونکہ اُنکے دور میں یہ ذات والا علم نہیں تھا۔اسی لئے جب ذات پر بات آئی تو اُن اصحاب کو کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ اگر ذات کا علم ہوتا تو جو کچھ عیسیٰ کے ساتھ ہوا اُس کو دیکھ کر ذات کےلئے وہ دیوانہ وار دوڑتے۔اس ذات والے علم کی ابتداء نبی کریمؐ سے ہوئی ہے اور یہ ذات والا علم آپؐ نے بہت سے لوگوں کو عطا کیا ۔ابو ذر غفاری، سلمان فارسی اور مولا علی بھی اس میں شامل ہیں۔ ذات کا علم یہ ہوتا ہے کہ اس شخصیت سے عشق ہو جائے۔ جو مرشد سے دین والا تعلق ہوتا ہے اس میں یہ نقصان ہوتا ہے کہ مرشد کے کسی عمل کے اوپر بدگمان ہو گئے تو وسیلہ ختم ہو گیا اور دین برباد ہو گیا ۔دین والے تعلق میں آپ مرشد کو حق اور باطل کے ترازو میں تولتے رہتے ہیں ۔اگر مرشد یہ عمل کیا تو ہم اسے مان لیں گے اور اگر ایسا عمل کیا جو سمجھ سے ماورا ہے تو ہم اسے نہیں مانیں گے۔حالانکہ انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ جس کے نفس سے اللہ مطمئن ہو چکا ہے اس کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتے ہیں ، وہ کوئی غلط کام کیسے کر سکتا ہے ۔شمس سبزواری کی ایک خاص محبہ تھا جب شمس سبزواری نے اپنی کھال اُتار دی تو جسم سے بدبو آ رہی تھی تو اُس نے بھی کہا تھا کہ بابا دور رہ کر بات کرو۔آزمائش کا وقت آتا ہے تو خاص الخاص لوگ بھی بھاگ جاتے ہیں صرف وہ نہیں بھاگتا جس کو ذات کا علم مل گیا ہو ۔ذات کے علم میں یہ نہیں ہے کہ یہ حق پر ہیں یا باطل ہیں ، اُس میں صرف مرشد ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔یہ ذات والا علم ایسا ہے کہ یہ آپ کو اویس قرنی کے مقام تک لے کر جا سکتا ہے ۔ دین والے تعلق میں بہت رکاوٹیں ہیں وسوسے آتے ہیں لیکن ذات والے علم میں رکاوٹیں نہیں ہیں ۔جو ذات والے ہوتے ہیں اُن کو بتا دیا جاتا ہے کہ حق اور باطل کا ترازو بیکار ہے ، صحیح اور غلط کا فلسفہ بیکار ہے ۔تم نے اگر کسی کو اس لئے مانا کہ وہ صحیح ہے تو پھر اُس کو کہاں مانا صحیح چیز کو مانا ہے اور یہ محبت و عشق نہیں ہے۔ ذات والے علم کی ابتداء حضور پاکؐ سے ہوئی ہے اور امام مہدی سیدنا گوھر شاہی نے اس علم کو عوام الناس کے سامنے رکھ دیا ہے۔ دین الہی اور دیدار الہی یہ ذات والا علم نہیں ہے، ذات والا علم کچھ اور ہے ۔اگر کسی کے اوپر جن کا سایہ ہو تو وہ جن کے کنٹرول میں ہوتا ہے اور اگر کسی کے اندر مرشد کی کوئی چیز بیٹھ کر کنٹرول کر رہی ہو تو پھر اسکو گمراہ کرنے کی جتنی چاہیں کوشش کرلیں لیکن وہ بیکا رہے ۔

مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 10 اکتوبر 2020 کو یو ٹیوب لائیو سیشن میں بزمِ مرشد کے خصوصی پروگرام سے ماخوذ کی گئی ہے ۔

متعلقہ پوسٹس